29/02/2024
گوجرانوالہ
اس دوآبے کو رچناب بھی کہا جاتا ہے۔
راہوالی سے ریل چلی تو لمبی مسافتوں اور ہرے کھلیانوں کے بعد گجرانوالہ کا اسٹیشن آتا ہے۔ شوگر مل کے مزار اور شہر کے بازار کے بیچ ریلوے اسٹیشن گویا کوئی سزا یافتہ مجرم ہے۔
جلیانوالہ باغ کے شہیدوں میں گجرانوالہ کے جیالے بھی شامل تھے۔ کوئی وقت تھا کہ راہوالی گجرانوالہ سے الگ ایک اور ہی بستی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں کے بعد شہر کے آثار تھے۔
اپنے دیگر ہم عصروں کی طرح یہ شہر بھی چند دروازوں کا قیدی تھا۔ سیالکوٹی دروازہ، برانڈتھ گیٹ، خیالی دروازہ، شیراں والا دروازہ اور ٹھاکر سنگھ دروازہ۔
کچھ دروازوں کی ڈاٹیں رہ گئی ہیں اور کچھ دل کے راستے پہ ڈاٹوں کی مانند گرے ہیں۔
گوجرانوالہ ایک کہانی نہیں بلکہ داستان سرائے ہے۔
چونکہ شہر انسانوں کا تعارف ہوا کرتے ہیں اور انسان شہروں کو شناخت عطا کرتے ہیں سو گجرانوالہ کا دامن بھی ایسے بہت سے موتیوں سے خیرا ہے۔
سبزی منڈی کے آس پاس کہیں ایک تھانہ ہے، اس تھانے کے ایک کمرے میں جہاں کچھ سال پہلے تک حوالاتیوں کو رکھا جاتا تھا رنجیت سنگھ پیدا ہوا۔
شیر پنجاب کا لقب پانے والے اس سکھ مہاراجہ کے حصے میں بہت سی باتیں اور بہت سے تمغے آتے ہیں۔ کچھ منچلے پنجابی اسے پنجاب کا پہلا حکمران گردانتے ہیں اور کچھ اسے پنجاب کا واحد پنجابی حکمران مانتے ہیں۔
دو دریاؤں کے درمیان حکومت شروع کرنے کے بعد مہاراجہ نے آہستہ آہستہ اپنی سلطنت کا دائرہ کار اتنا وسیع کیا کہ تاریخ آج 12 مثلوں کے بارے میں بولتی ہے اور سکرچاکیہ خاندان کا حال بھی سناتی ہے۔ ستلج سے ہمالیہ تک کا سارا علاقہ جس میں پانچوں دریا اور کشمیر کی پہاڑیاں شامل تھیں سکھ دربار کے زیر نگین تھا۔
گوجرانوالہ کی ہی ایک جند کور کا تذکرہ شیر پنجاب کے کان پڑا تو اس نے رشتہ بھیج دیا اور یوں رانی جنداں مہاراجہ کی سب سے چھوٹی بیوی بن کر لاہور چلی آٸی۔ مہاراجہ سورگ باش ہوا تو باقی کی رانیاں ستی ہو گئیں مگر ننھے دلیپ سنگھ کے سبب مہارانی زندہ رہی۔
انگریزوں کی نظر دلیپ سنگھ پہ تھی لہذا اسے انگلستان بھیج دیا گیا اور اس کی پرورش بھی وہاں ہوئی۔ کچھ تیرہ برس بعد جب مہاراجہ دلیپ سنگھ تاج برطانیہ کی اجازت سے کلکتہ پہنچا تو کچھ دیر تک ماں کو پہچان ہی نہیں پایا۔ دلیپ سنگھ ماں کو لے کر واپس انگلستان چلا آیا۔ پھر اگست کی ایک صبح مائی صاحب، کنسنگٹن میں انتقال کر گئی۔
یہ 1860 تھا مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
پنجاب جانے کی اجازت اس کو ابھی تک نہ تھی سو ناسک میں اس کی ماں کی آخری رسومات ادا کی گٸیں۔ خاک، اب بھی اپنی جگہ پہ نہ پہنچی تھی۔
واپسی پہ دلیپ سنگھ نے ایک مصری راہبہ سے شادی کی اور اس کی اولاد میں سے ایک ”بمبا صوفیا دلپ سنگھ“ تھی۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بمبا نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ 1924 میں بالآخر پوتی کو اجازت ملی کہ وہ دادی کی راکھ کو لا کر لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی میں رکھ سکے۔ رنجیت سنگھ کی یہ پوتی ماڈل ٹاؤن کے ایک بنگلے میں رہائش پذیر ہوئی جس کا نام ”گلزار“ رکھا گیا۔
ملکہ وکٹوریہ اکثر کہا کرتی تھی کہ اسے دلیپ کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔بمباں کے حصے میں باپ کی طرف سے نسلی تفاخر کے علاوہ یہ آنکھیں بھی آٸی تھیں۔
فروری 1957 میں یہ آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔ مرتے دم تک بمبا اپنے اپ کو پنجاب کی آخری مہارانی ہی سمجھتی رہی۔
اب لاہور کے گورا قبرستان میں ایک گمنام سی قبر ہے جس پہ ہر کرسمس، عید،شب برات اور گڈ فرائیڈے پیر کریم بخش سوپرا کے بچے پھول چڑھاتے ہیں۔
کتبے پہ انگریزی میں بمبا کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج ہے۔
ریل کی سیٹی
حسن معراج
عکاسی
محمد عظیم شاہ بخاری