Khanpur Sansi

  • Home
  • Khanpur Sansi

Khanpur Sansi Launching Soon

05/09/2024

ہم کب سدھریں گے !!

‏لاہور کے مشہور جیل روڈ کا نام بدل کر غوث الاعظم رح روڈ رکھ دیا گیا ہے ۔
اس سے قبل مال روڈ کا نام شاہراہِ قائدِ اعظم، ڈیوس روڈ کا نام سر آغا خان سوئم روڈ، برانڈتھ روڈ کا نام سردار عبدالرب نشتر روڈ رکھنے کی کوشش کی جاچکی ہے مگر سب لوگ ان سڑکوں کو ان کے اصل ناموں سے ہی پکارتے ہیں ۔
اسی طرح کرشن نگر کو اسلام پورہ، سنت نگر کو سنّت نگر جیسی کوششیں بھی ہوچکی ہیں ۔ لکشمی چوک کو مولانا ظفر علی خان چوک، شادمان چوک کو چودھری رحمت علی چوک اور دیگر چوراہوں کے نام بدلنے کی بھی کوششیں ہوچکی ہیں،
شاہ نور اسٹوڈیو کو ختم نبوت میٹرو اسٹیشن، وارث شاہ کو ختم نبوت میٹرو اسٹیشن، باقی سر گنگا رام ہسپتال کے نام کو بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن جب پتہ چلا کہ ان کی فیملی ابھی تک ڈونیشن دے رہی پھر ٹل گیے۔
پارکوں کا نام بدل کر انہیں مسلمان کرنے کی بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
جو قوم انسانیت اور دیانتداری میں دُنیا میں آخری درجے پہ ہے وہ شاہراؤں، پارکوں، بستیوں اور چوراہوں اور میٹرو اسٹیشن کو مسلمان کرتی پھرتی ہے !!
‏منقول

27/07/2024

خان پور سانسی
کیوں نہ اپنے شہر کا اصل نام ہی لکھا جائے

27/07/2024

*بھارت دراصل کس کا ہے؟*

*(ہندوستان کی تاریخ) =*
*آخر تک پڑھنے کے قابل۔*

غوری سلطنت سے نریندر مودی تک

غوری سلطنت

1 = 1193 محمد غوری۔
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210
4 = 1211
5 = 1236 رکن الدین فیروز شاہ
6 = 1236 رضا سلطان
7 = 1240 موزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الدین مسعود شاہ
9 = 1246 ناصر الدین محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286
مسجد کا ..12 = 1287 کبدان
13 = 1290 شمس الدین کامرس
عظیم سلطنت کا خاتمہ
( دور حکومت -97 سال تقریباً)

*خلجی سلطنت*

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 علاؤالدین خلجی
4 = 1316 شہاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
خلجی سلطنت کا خاتمہ
( دور حکومت - 30 سال تقریباً )

*تغلق سلطنت*

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (پہلا)
2 = 1325 محمد ابن تغلق (II)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (II)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 .......... (I)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصر الدین محمد شاہ (II)
11 = 1413 گورنمنٹ
تغلق سلطنت کا خاتمہ
(دور حکومت -94 سال تقریباً)

*سعید خاندان*

1 = 1414 کھجور خان
2 = 1421 معیز الدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ (IV)
4 = 1445 اللہ عالم شاہ
سلطنت سعید کا خاتمہ
( دور حکومت - 37 سال تقریباً )

لودھی سلطنت

1 = 1451 بہلول لودھی
2 = 1489 لودھی (II)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
لودھی سلطنت کا خاتمہ
(دور حکومت 75 سال تقریباً)

مغلیہ سلطنت

1 = 1526 ظہیر الدین بابر
2 = 1530 ہمایوں
مغلیہ سلطنت کا خاتمہ

سوری سلطنت

1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
سوریائی سلطنت کا خاتمہ
(دور حکومت 16 سال تقریباً)

مغلیہ سلطنت پھر

1 = 1555 ہمایوں (دوبارہ)
2 = 1556 جلال الدین اکبر
3 = 1605 جہانگیر
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگ زیب
6 = 1707 شاہ عالم (پہلا)
7 = 1712 بہادر شاہ
8 = 1713
9 = 1719
10 = 1719............
11 = 1719............
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754.................
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 ظفر
مغلیہ سلطنت کا خاتمہ
(دور حکومت 315 سال تقریباً)

*برطانوی راج*

1 = 1858 لارڈ کنگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس ایلگن
3 = 1864 لارڈ جے لارنس
4 = 1869 لارڈ رچرڈ میو
5 = 1872 لارڈ نارتھبک
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لاطینی
7 = 1880 لارڈ جارج رپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرن
9 = 1888 لارڈ ہینی لیسڈن
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس ایلگن
11 = 1899 لارڈ جارج کورجین
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس ہارج
14 = 1916 لارڈ فریڈرک سے خزانہ تک
15 = 1921 لارڈ رکس ایجاک رِڈگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931 لارڈ فرمین ویلڈن
18 = 1936 لارڈ الیجینڈرا لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ آرچیبالڈ وہیل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

برطانوی سامراج کا خاتمہ

ہندوستان، وزرائے اعظم

1 = 1947 جواہر لعل نہرو
2 = 1964 گولزاری لال نندا
3 = 1964 لال بہادر شاستری۔
4 = 1966 گولزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وی پی سنگھ
11 = 1990 چندر شیکھر
12 = 1991 P.V. نرسیما راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 دیوے گوڑا
15 = 1997 I.K. گجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموہن سنگھ
18 = 2014 نریندر مودی

1000 سال سے ایک مسلم سلطنت ہونے کے باوجود ہندوستان میں ہندو باقی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں کی۔

اور....

ہندوؤں کو ابھی سو سال بھی نہیں ہوئے اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں!!
یہ معلومات طلباء اور اساتذہ کو دی جانی چاہیے۔
جزاک اللہ خیراً

اس پوسٹ کو سب کے ساتھ لازمی شیئر کریں۔ کیونکہ آج کل 90% لوگوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے - * = (ہندوستان کی تاریخ) = *
🥷🥷🥷

19/07/2024

‏دیسی مہینوں کا تعارف
اور وجہ تسمیہ
آج ہم تقریباً یہ سب بھولتے جارہے ہیں ہم اپنی ماں بولی اور ثقافت کو چھوڑتے جارہے ہیں۔جو لمحہ فکریہ ہے
1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)
2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)
3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)
4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)
5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)
6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)
7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)
8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)
9۔ مگھر/منگر (سرد)
10۔ پوہ (سخت سردی)
11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)
12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)

برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا آغاز 100 سال قبل از مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے،
جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل از مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔

1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ
2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن
3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت
4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ
5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ
6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ
7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون
8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں
9 : 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج
10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک
11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر
12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہ

بکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.
ان پہروں کے نام یہ ہیں۔۔۔
1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:
صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت

2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:
صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت

3۔ پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت

4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:
سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت

5۔ نماشاں/شاماں ویلا:
شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت

6۔ کفتاں ویلا:
رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت

7۔ ادھ رات ویلا:
رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت

8۔ سرگی/اسور ویلا:
صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت

لفظ "ویلا” وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے۔ گجر ۔راجپوت۔ جاٹ ۔اور اراٸیں لوگوں کے ہاں خاص کر یہی زبان بولی جاتی تھی۔

وزیرآباد ریلوے پل کا افتتاح - 1876
16/05/2024

وزیرآباد ریلوے پل کا افتتاح - 1876

گوجرانوالہاس دوآبے کو رچناب بھی کہا جاتا ہے۔ راہوالی سے ریل چلی تو لمبی مسافتوں اور ہرے کھلیانوں کے بعد گجرانوالہ کا اسٹ...
29/02/2024

گوجرانوالہ

اس دوآبے کو رچناب بھی کہا جاتا ہے۔
راہوالی سے ریل چلی تو لمبی مسافتوں اور ہرے کھلیانوں کے بعد گجرانوالہ کا اسٹیشن آتا ہے۔ شوگر مل کے مزار اور شہر کے بازار کے بیچ ریلوے اسٹیشن گویا کوئی سزا یافتہ مجرم ہے۔
جلیانوالہ باغ کے شہیدوں میں گجرانوالہ کے جیالے بھی شامل تھے۔ کوئی وقت تھا کہ راہوالی گجرانوالہ سے الگ ایک اور ہی بستی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں کے بعد شہر کے آثار تھے۔
اپنے دیگر ہم عصروں کی طرح یہ شہر بھی چند دروازوں کا قیدی تھا۔ سیالکوٹی دروازہ، برانڈتھ گیٹ، خیالی دروازہ، شیراں والا دروازہ اور ٹھاکر سنگھ دروازہ۔
کچھ دروازوں کی ڈاٹیں رہ گئی ہیں اور کچھ دل کے راستے پہ ڈاٹوں کی مانند گرے ہیں۔

گوجرانوالہ ایک کہانی نہیں بلکہ داستان سرائے ہے۔
چونکہ شہر انسانوں کا تعارف ہوا کرتے ہیں اور انسان شہروں کو شناخت عطا کرتے ہیں سو گجرانوالہ کا دامن بھی ایسے بہت سے موتیوں سے خیرا ہے۔

سبزی منڈی کے آس پاس کہیں ایک تھانہ ہے، اس تھانے کے ایک کمرے میں جہاں کچھ سال پہلے تک حوالاتیوں کو رکھا جاتا تھا رنجیت سنگھ پیدا ہوا۔
شیر پنجاب کا لقب پانے والے اس سکھ مہاراجہ کے حصے میں بہت سی باتیں اور بہت سے تمغے آتے ہیں۔ کچھ منچلے پنجابی اسے پنجاب کا پہلا حکمران گردانتے ہیں اور کچھ اسے پنجاب کا واحد پنجابی حکمران مانتے ہیں۔
دو دریاؤں کے درمیان حکومت شروع کرنے کے بعد مہاراجہ نے آہستہ آہستہ اپنی سلطنت کا دائرہ کار اتنا وسیع کیا کہ تاریخ آج 12 مثلوں کے بارے میں بولتی ہے اور سکرچاکیہ خاندان کا حال بھی سناتی ہے۔ ستلج سے ہمالیہ تک کا سارا علاقہ جس میں پانچوں دریا اور کشمیر کی پہاڑیاں شامل تھیں سکھ دربار کے زیر نگین تھا۔
گوجرانوالہ کی ہی ایک جند کور کا تذکرہ شیر پنجاب کے کان پڑا تو اس نے رشتہ بھیج دیا اور یوں رانی جنداں مہاراجہ کی سب سے چھوٹی بیوی بن کر لاہور چلی آٸی۔ مہاراجہ سورگ باش ہوا تو باقی کی رانیاں ستی ہو گئیں مگر ننھے دلیپ سنگھ کے سبب مہارانی زندہ رہی۔
انگریزوں کی نظر دلیپ سنگھ پہ تھی لہذا اسے انگلستان بھیج دیا گیا اور اس کی پرورش بھی وہاں ہوئی۔ کچھ تیرہ برس بعد جب مہاراجہ دلیپ سنگھ تاج برطانیہ کی اجازت سے کلکتہ پہنچا تو کچھ دیر تک ماں کو پہچان ہی نہیں پایا۔ دلیپ سنگھ ماں کو لے کر واپس انگلستان چلا آیا۔ پھر اگست کی ایک صبح مائی صاحب، کنسنگٹن میں انتقال کر گئی۔

یہ 1860 تھا مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

پنجاب جانے کی اجازت اس کو ابھی تک نہ تھی سو ناسک میں اس کی ماں کی آخری رسومات ادا کی گٸیں۔ خاک، اب بھی اپنی جگہ پہ نہ پہنچی تھی۔
واپسی پہ دلیپ سنگھ نے ایک مصری راہبہ سے شادی کی اور اس کی اولاد میں سے ایک ”بمبا صوفیا دلپ سنگھ“ تھی۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بمبا نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ 1924 میں بالآخر پوتی کو اجازت ملی کہ وہ دادی کی راکھ کو لا کر لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی میں رکھ سکے۔ رنجیت سنگھ کی یہ پوتی ماڈل ٹاؤن کے ایک بنگلے میں رہائش پذیر ہوئی جس کا نام ”گلزار“ رکھا گیا۔

ملکہ وکٹوریہ اکثر کہا کرتی تھی کہ اسے دلیپ کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔بمباں کے حصے میں باپ کی طرف سے نسلی تفاخر کے علاوہ یہ آنکھیں بھی آٸی تھیں۔
فروری 1957 میں یہ آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔ مرتے دم تک بمبا اپنے اپ کو پنجاب کی آخری مہارانی ہی سمجھتی رہی۔
اب لاہور کے گورا قبرستان میں ایک گمنام سی قبر ہے جس پہ ہر کرسمس، عید،شب برات اور گڈ فرائیڈے پیر کریم بخش سوپرا کے بچے پھول چڑھاتے ہیں۔
کتبے پہ انگریزی میں بمبا کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج ہے۔

ریل کی سیٹی
حسن معراج

عکاسی
محمد عظیم شاہ بخاری

‏10 بہترین اور حیرت انگیز AI ٹولز‏ جو آرٹ، موسیقی، آواز کی کلوننگ، تصویر کی بحالی، میم جنریشن، اور مزید بہت کچھ میں امکا...
23/09/2023

‏10 بہترین اور حیرت انگیز AI ٹولز

‏ جو آرٹ، موسیقی، آواز کی کلوننگ، تصویر کی بحالی، میم جنریشن، اور مزید بہت کچھ میں امکانات کی نئی وضاحت کرتے ہیں! مستقبل میں قدم رکھیں اور ہماری دنیا کو نئی شکل دینے میں AI کی لامحدود صلاحیتوں کو دریافت کریں۔

‏حیرت زدہ ہونے کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ ہم 10 سرفہرست AI ٹولز پیش کرتے ہیں

‏(Lexi art) لیکسی آرٹ

‏ LexiArt، AI آرٹ جنریٹر سے حیران ہونے کے لیے تیار ہوں جو آپ کی واضح تفصیل کو دلکش آرٹ ورک میں بدل سکتا ہے۔ چائے کے کپ میں خوبصورت تیراکی کرنے والے ایک چھوٹے مگرمچھ سے لے کر ایلون مسک کے باسکٹ بال کی مہارت کا مشاہدہ کرنے تک، LexiArt آپ کے تصورات کو زندہ کرتا ہے۔ آپ ایک حوالہ تصویر بھی اپ لوڈ کر سکتے ہیں، اور LexiArt اس سے مشابہت آمیز آرٹ ورک تیار کرے گا۔

‏ ووکل کلون(vocal clone)

‏ اپنی آواز کا محض 10 منٹ کا ٹکڑا ریکارڈ کر کے VocalClone کی طاقت کو دور کریں، اور ایک بہترین AI کلون کی پیدائش کا مشاہدہ کریں۔ لامحدود امکانات کے ساتھ، VocalClone آڈیو بکس کو بیان کر سکتا ہے، دلکش آواز فراہم کر سکتا ہے، اور یہاں تک کہ ذاتی نوعیت کے آڈیو تجربات بھی بنا سکتا ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا!

‏(Harmoni sound) ہارمونی آواز

‏ ہارمونی ساؤنڈ آپ کو AI سے تیار کردہ موسیقی کی ہم آہنگ سمفنی کمپوز کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ انواع، مزاج، یا یہاں تک کہ اپنے منفرد پرامپٹ کو تیار کریں جیسے "Drake's rap infused with jazzy vibes"، اور HarmoniSound ایک منفرد موسیقی کا شاہکار پیش کرے گا، جو پہلے کبھی نہیں سنا گیا تھا۔

‏ Rhythmic Rhymes

‏ کے ذریعے اڑانے کے لیے تیار ہوں، جہاں AI سے چلنے والے ریپ کی آوازیں نئی ​​بلندیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اپنی دھن لکھیں، ڈریک یا اسنوپ ڈاگ جیسے مشہور ریپ آئیکنز میں سے انتخاب کریں، اور حقیقت کا تجربہ کریں کیونکہ RhythmicRhymes حیرت انگیز طور پر مستند AI ریپ پرفارمنس پیدا کرتی ہے!

‏(Artistic canvas) فنکارانہ کینوس

‏ آرٹسٹک کینوس کے جادو کا مشاہدہ کریں کیونکہ یہ فن کی حدود کو عبور کرتا ہے۔ AI سے چلنے والے برش کے ساتھ ہر اسٹروک ایک دلکش حقیقت پسندانہ تصویر میں بدل جاتا ہے۔ چاہے آپ بادل سے بوسے ہوئے آسمان کے جوہر کو حاصل کرنا چاہتے ہوں یا کسی ناہموار پہاڑ کی عظمت کو، ArtisticCanvas آپ کو اپنے فنی وژن کو سامنے لانے کی طاقت دیتا ہے۔

‏ ReminisceRevive

‏کی طاقت کے ذریعے پیاری یادوں میں نئی ​​زندگی کا سانس لیتا ہے۔ گواہوں کی دھندلی تصویریں پھر سے جوان ہوئیں، خامیاں بغیر کسی رکاوٹ کے مٹ گئیں، اور رنگوں کو احتیاط سے بحال کیا گیا۔ ReminisceRevive کے عجائبات کو دریافت کریں اور متحرک تفصیل سے لمحات کو زندہ کریں،

‏(VisionaryFusion) وژنری فیوژن

‏ VisionaryFusion
‏ کے ساتھ بصری ماورائی سفر کا آغاز کریں۔ یہ AI ٹول آپ کے ویڈیوز کو دلکش 3D ماڈلز میں تبدیل کرتا ہے۔ ایک سادہ اپ لوڈ اور جدت کے ایک ٹچ کے ساتھ، VisionaryFusion متحرک رنگوں، پیچیدہ اشیاء، اور متحرک شکلوں کو نکالتا ہے، جس سے ایک عمیق 3D تجربہ تیار ہوتا ہے جیسا کہ کوئی اور نہیں۔

‏(Insightwriter) بصیرت مصنف

‏ InsightWriter
‏کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں، AI ٹول جو YouTube ویڈیوز اور دلکش مضامین کا خلاصہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ InsightWriter کے ساتھ سمری اور انسائٹ رائٹر کے لیے aiprm جیسے پلگ انز کے ساتھ، مختصر ویڈیو کے خلاصوں کا مزہ لیں اور اپنے آپ کو بہترین تحریری مواد میں غرق کریں جو انسانی دستکاری کا مقابلہ کرتا ہے۔

‏(MemeGenius) میم جینیئس

‏ MemeGenius meme
‏ تخلیق کے فن کو بے مثال بلندیوں پر لے جاتا ہے۔ ایک سادہ پرامپٹ کے ساتھ، AI کے ذریعے تیار کردہ ذہین میم آپشنز کے سیلاب کا مشاہدہ کریں۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں جب آپ متن میں ترمیم کرتے ہیں، ہنگامہ خیز GIFs تیار کرتے ہیں، اور اپنی انگلیوں پر وائرل مزاح کی پیدائش کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

‏(Animatrix) اینیمیٹرکس

‏Animatrix
‏کے دائرے میں قدم رکھیں، جہاں تصاویر دلکش AI ویڈیوز میں تبدیل ہوتی ہیں۔ ایک تصویر اپ لوڈ کرکے، مطلوبہ اینیمیشن اسٹائل کا انتخاب کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں، اور جادو کا مشاہدہ کریں کیونکہ Animatrix آپ کے اسٹائل فریموں کو زندہ کرتا ہے، دلوں اور دماغوں کو
‏مسحور کرنے والی AI ویڈیوز تیار کرتا ہے۔

خان پور سانسی ، گوجرانوالاپہلوانوں کا کھانوں کا دل والوں کا شہر امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گوجرانوالا کو گوجروں نے آب...
05/03/2023

خان پور سانسی ، گوجرانوالا
پہلوانوں کا کھانوں کا دل والوں کا شہر
امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گوجرانوالا کو گوجروں نے آباد کیا جو کشمیر کے پہاڑوں پر آباد تھے اور بعد میں ایران کے شیرازی قبیلے نے اس شہر کا نام خان پور سانسی رکھا تاہم بعد میں اس کا پرانا نام بحال ہو کر گوجرانوالہ ہو گیا۔
یہ قصبہ خان پور ساہنسی بھی کہلاتا رہا۔ پانچ سال تک جاری رہنے رہنے والی لڑاٸی جو گجروں اور خان خان ساہنسی کے درمیان جاری رہی جس میں بل آخر خان ساہنسی کو شکست فاش ہوٸی
ایک روایت کے مطابق چھچھرانوالی(چھچھریالی موجودہ فریدٹاؤن) کے نواح میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں خان ساہنسی کو شکست ہوئی اور وہ خان پور کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ گوجرں نے خان پور پر قبضہ کر لیا اس شہر کا نام گوجرانوالہ رکھ دیا۔ گوجروں نے ساہنسیوں کی زمینداریوں کو بھی قائم رہنے دیا۔ گوجر راج میں اگرچہ ساہنسی کافی تعداد میں آباد تھے مگر پھر کبھی ان کے گوجروں سے تصادم کی نوبت نہ آئی۔ مغل دورِ حکومت میں گوجرانوالہ ایک گوجر ریاست کی حیثیت سے مغل سلطنت میں شامل رہا مغل سلطنت کمزور ہوئی اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دادا چڑت سنگھ نے علاقے پہ ڈاکوٶں اور اورلٹیروں کی مدد سے قبضہ کر کرلیا اور اپنی حکومت حکومت قاٸم کی جس کا سلسلہ رنجیت سنگھ تک قاٸم رہا
سکھوں نے جہاں بہت سے قصبات اور دیہات کے نام تبدیل کر دیے تھے۔ ممکن ہے انہیں اس قصبہ کے نام کی تبدیلی کا خیال بھی آیا ہو مگر گوجروں کا کاآباد کردہ شہر گوجرنوالہ کا نام تاریخی حقیقت بن کر جگمگاتا رہا۔ سید نگر اس دور میں گوجرانوالہ کا امیر ترین قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں اسلحہ سازی کی صنعت زوروں پر تھی۔ سید نگر شمشیر سازی اور بندوقیں تیار کرنے کا اہم مرکز تھا۔ اس کے باشندے بہت امیر تھے۔ سید نگر میں مسلمانوں کی پختہ حویلیاں اور مساجد تھیں۔ سکھوں نے سید نگر پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا۔ سید نگر کے باشندے مہاں سنگھ کے حکم سے اپنا آبائی قصبہ چھوڑ کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں انہوں نے ایک الگ محلہ آباد کیا جس کا نام انہوں نے سید نگری رکھا۔
چڑت سنگھ کی موت پر اس کی رانی ویساں نے اپنے نوعمر بیٹے مہاں سنگھ کی طرف سے ریاست پر خود قابض ہو کر حکومت خود سنبھال لی۔ مہاں سنگھ جوان ہوا تو اس نے اپنی ماں کو قتل کر کے حکومت خود سنبھال لی
مہاں سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا جانشین مقرر ہوا۔ رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ کو دار الحکومت قرار دیتے ہوئے سکھ سلطنت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شروع کا کچھ عرصہ اس نے مہاراجا کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں ہی گزارا اور پھرلاہور کو اپنا دار السلطنت قرار دیتے ہوئے وہاں منتقل ہو گیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ میں اپنے قیام کے دوران اس شہر کو خوبصورت بنانے کے کئی احکام جاری کیے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے اس جگہ جس کو کچی کہتے ہیں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ اس قلعہ کی ڈیوڑھی اس جگہ تھی جہاں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا صدر دروازہ ہے۔ اس قلعہ کی بنیادوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر کچی کے علاقہ کی کھدائی کی جائے تو بہت سے تاریخی نوادرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اور بہت سی تاریخی معلومات منظر عام پر آسکتی ہیں۔
رنجیت سنگھ نے ایک بارہ دری بھی بنوائی۔جو اب تک موجود ہے۔
اس کے بعد انگریز دور حکومت میں میںاس شہر میں میںکافی تعمیرو ترقی ہوٸی انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھا۔ انہوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے۔ کرنل کلارک نے حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا دیا۔ اور اس جگہ ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھا۔ یہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔ مہاں سنگھ کی حویلی ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ اس میں سکھوں کا شاہی خاندان آباد تھا اور اس حویلی کے قریب ہی سبزی منڈی کی طرف ایک قلعہ نما باغ تھا جسے حضوری باغ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ کرنل کلارک نے اس حویلی کو مسمار کرا دیا اور اس جگہ مربع بازار بنوا دیا۔ گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں۔ اس نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ‘ لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے۔ ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس کے محض آثار ہی باقی ہیں۔ گوجرانوالہ میں افغان دورِ اقتدار کی یادگار ایک مسجد بھی ہے۔ اسے شیر شاہ سوری کی مسجد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے روہتاس کی طرف جاتے ہوئے جب گوجرانوالہ میں قیام کیا تو اپنی قیام گاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد افغان طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے اور کراؤں فونڈری کے عقب میں واقع ہے۔
جغرافیہ ضلع گوجرانوالہ مرتبہ ڈائریکٹر تعلیمات پنجاب (1904) گوجرانوالہ میں 26785 افراد رہتے ہیں۔ شہر کسی قدر بلندی پر بنا ہوا تھا۔ اس کے گرد ایک دیوار تھی جس میں 11 دروازے تھے
موجودہ شہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے موجودہ شہری آبادی 60 لاکھ سے زاٸد ہے کراچی لاہور فیصل آباد کے بعد آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا شہر ہے۔گوجرانوالا ڈویزن بھی ہے گوجرانوالہ ڈویژن پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔ 2000 کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ شہر اس کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر تھا۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 7،522،352 اور یہ 17،206 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط تھا۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس ڈویزن کی آبادی 11،431،058 تقریبا چار ملین بڑھ گئی۔2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اس کے آٹھ ڈویژنوں کو بحال کر دیا-2017 کی مردم شماری کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے اوپر ہے۔ زرعی او صعنتی شہر جس کا Gdp میں حصہ 5% سے اوپر ہے۔
سیالکوٹ ۔ناروال۔منڈی بہاولدین۔شیخوپورہ اور گجرات کے ساتھ اس پررونق شہر کی سرحدیں ملتی ہیں۔
کٸ ایک مشہور شخصیات کا تعلق اس شہر سے ہے موجودہ دور کی میں مشہور مزہبی اور روحانی شخصیت ثاقب رضا مصطفاٸی اور ادکار سہیل احمد ۔اور کرکٹر حسن علی کا تعلق بھی اسی شہر سے۔
آج گوجرانوالا بہت بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ دلوں کا شہر بھی ہے یہاں پہلوان اور کھانے اس شہر کی پہچان ہیں ہر روایتی کھانہ اور لزت کسی اور شہر میں نہیں ملے گی اپنی پہچان آپ یہ شہر پوری رونق و رعناٸیوں کے ساتھ الگ ہی نظاروں کا حامل ہے

‏گوجرانوالہ کہنے کو تو پانچواں بڑا شہر ہے پاکستان کا لیکن سہولیات کے اعتبار  سے کچھ بھی ایسا نہیں جس پر فخر کیا جا سکے ن...
21/12/2022

‏گوجرانوالہ کہنے کو تو پانچواں بڑا شہر ہے پاکستان کا لیکن سہولیات کے اعتبار سے کچھ بھی ایسا نہیں جس پر فخر کیا جا سکے
نہ موٹروے لنک
نہ یونیورسٹی
نہ کوئی اچھا ہسپتال
نہ کوئی ٹریڈ زون یا ایکسپو
نہ کوئی سیوریج کا نظام
کیا بنے گا گوجرانوالہ کا۔۔۔؟؟‏
گوجرانوالہ کے دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنے شہر کے مسائل کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے ہماری اس ٹویٹر ایکٹیوٹی کا حصہ بنیں.

10/12/2022

شجرہِ نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟
محکمہ مال اس کا بہترین حل ہے ۔
چوھدری لاء چیمبر پیر محل کی ایک کار آ مد تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
اگر آپ کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے اپنی گوت معلوم نہیں ھے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتے ھیں)
اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائیں یہ آفس ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گاوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گاؤں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گاؤں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔
نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان ، لوہار ، جولاہا ، ملیار ، چمار ، ترک ، ڈھونڈ ، سراڑہ ، قریشی ، سید ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ، بلوچ، کھٹڑ، گجر ، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، ترین وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام اس بندوبست میں درج ہیں اور اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔
ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔
محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گاؤں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گاؤں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گاؤں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔
جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گاؤں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گاؤں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گاؤں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گاؤں تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا عمل کر کے اور گزشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت، کاشت کار کی تبدیلی ، رجسٹر گرداوری کی تبدیلی یا زمین کی قسم کی تبدیلی وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹر حقداران تیار ہوتا ہے اور اس کی ایک نقل ضلعی محافظ خانہ میں داخل ہوتی ہے ۔ اس دستاویز کے نئے اندراج کے لئے انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ کار موجود ہے ۔ اس کی تیاری میں جہاں حلقہ پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے ،وہاں گرداور اور حلقہ آفیسر ریونیو سو فیصد پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ضابطے کے مطابق افسران مذکور کا متعلقہ گاؤں میں جا کر مالکان کی موجودگی میں اس کے اندراج کا پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست جاری کرنا ضروری ہے، جن کی درستی کا پٹواری ذمہ دار ہوتا ہے۔ آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ اب یہ غلطیوں سے مبرا ہے۔
رجسٹر حقداران زمین کے ساتھ رجسٹر گرداوری بھی تیار ہوتا ہے، جس میں چار سال کے لئے آٹھ فصلات کا اندراج کیا جاتا ہے۔ مارچ میں فصل ربیع اور اکتوبر میں فصل خریف مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ موقع پر جا کر پٹواری مالکان و کاشتکاران کی موجودگی میں فصل کاشتہ و نام مالک ،حصہ بقدر اراضی اور نام کاشتکار کا اندراج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر ایک گوشوارہ فصلات برآمدہ تیار کر کے اس کتاب کے آخر میں درج کیا جاتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے کتنی برآمد ہوئی۔ اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھجوائی جاتی ہے ، جس سے صوبہ اور ملک کی آئندہ برآمدہ اجناس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس رجسٹر میں نہری اور بارانی علاقوں کی موقع کی مناسبت سے اقسام زمین نہری، ہیل، میرا، رکڑ ، بارانی اول ، بنجر ، کھنڈر وغیرہ کے علاوہ روہڑ ، بن ، سڑکیں، رستہ جات ، قبرستان ، عمارات اور مساجد وغیرہ بھی تحریر کی جاتی ہیں۔ یہ رجسٹر ریونیو کی اہم دستاویز ہے اور مطابق قانون اس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر کر کے نتائج تحریر کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ رجسٹر انتقالات میں جائیداد منتقلہ کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس میں نام مالک ، جس کے نام جائیداد منتقل ہوئی، گواہان ، نمبر کھیوٹ ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ حصہ منتقلہ ، زر ثمن ، پٹواری مفصل تحریر کرتا ہے ،گرداور جملہ کوائف تصدیق کرتا ہے اور ریونیو آفیسر (تحصیلدار) بوقت دورہ پتی داران، نمبرداران کی موجودگی میں تصدیق کر کے فیصلہ کرتا ہے ۔ پرت پٹوار پر حکم لکھتا ہے اور پرت سرکار برائے داخلہ تحصیل دفتر ہمراہ لے جاتا ہے ۔ کاغذات مال متذکرہ کے علاوہ بھی کئی دستاویزات ہوتی ہیں، جن سے جملہ ریکارڈ آپس میں مطابقت کرتاہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ جو کاغذات ہر وقت استعمال میں رہتے ہیں ان کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے ،ورنہ پٹواری کے پاس ایک’’لال کتاب‘‘بھی ہوتی ہے،جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتےہیں جیسے اس گاؤں کاکل رقبہ،مزروعہ کاشتہ،غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ،مردم شماری کا اندراج ، مال شماری جس میں مویشی ہر قسم اور تعدادی نر، مادہ ، مرغیاں ، گدھے ، گھوڑے ، بیل،گائے،بچھڑے غرض کیا کچھ نہیں ہوتا۔ جس طرح یہ محکمہ بنا اور اس کے قواعدوضوابط بنائے گئے اور متعلقہ اہلکاران و افسران کی ذمہ داریاں مقرر ہوئی تھیں، اگر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو اس سے بہتر نظام زمین کوئی نہیں۔ یہ نظام انگریز کے دور میں بہترین اور 1964-65ء تک نسبتاً بہتر چلتا رہا...

زمین ریکارڑ سے بہترین شجرہ نسب کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔

انتخاب
امید راؤ امید مڈاڈھ ایڈمن رانگھڑ راجپوت بیٹھک پاکستان
03209006558

اگلے دو دن بعد یعنی 15نومبر کو دنیا کی آبادی Global human population تقریبا 8 ارب تک پہنچ جائے گی لیکن سوال ہے کہ کیا ات...
13/11/2022

اگلے دو دن بعد یعنی 15نومبر کو دنیا کی آبادی Global human population تقریبا 8 ارب تک پہنچ جائے گی لیکن سوال ہے کہ کیا اتنے لوگ آج موجود دنیا و کرہ ارض پر موجود وسائل تک رسائی کے ساتھ ایک صحتمند زندگی گزارنے کے لائق ہوں گے؟

یہ ایسا سوال ہے کہ جو دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی Global human population کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں اور منصوبہ سازوں کے لئے پریشان کن ہے۔ اقوام متحدہ United Nation کا ادارہ World Population کے سربراہ Natalia Kanem اس لمحے کو 8 ارب ابادی کو ایک سنگ میل تو سمجھتے ہیں، مگر ان کے لئے پریشانی کا امر یہ ہے کہ یہ لمحہ اتنی آبادی کے لئے باعث تشویش بھی ہے۔ جبکہ منصوبہ سازوں کے مقابل سائنٹسٹ کا یہ خیال یہ ہے کہ آبادی کے بڑھنے کا معاملہ اتنا تشویشناک نہیں جتنا زیادہ بڑا مسئلہ امیر طبقے کا ضرورت سے زیادہ وسائل کا استعمال ہے۔

ایک امریکی یونیورسٹی The Rockefeller University کے Population Laboratory کے Biologist بائیولجسٹ Joel Cohen اسے دو نکات سے طے کرتے ہیں کہ
کرہ ارض کی قدرتی حدود اور انسانوں کی خواہشات، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ زمین پر وسائل انسانوں کی کتنی بڑی تعداد کے لیے کافی ہیں۔ انسانوں کی خواہشات جنگلات اور زمین جیسے حیاتیاتی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا سبب بنتی ہیں جو دوبارہ اتنی تیزی سے پیدا بھی نہیں ہو سکتے۔ جیسے حیاتیاتی ایندھن کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی زیادہ ہو رہا ہے جو درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، اور ہم بے وقوف ہیں۔ ہم میں دور اندیشی کی کمی ہے۔ ہم لالچی ہیں۔ ہم ان معلومات کا استعمال ہی نہیں کرتے جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ اگرچہ زمین پر موجود وسائل 8 ارب کی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس کے باوجود 8 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ کیونکہ مسلہ انسانی وسائل کی تقسیم اور مساوات کا ہے۔

ایک اور امریکی محقق Jennifer Sciubba جو گلوبل وارمنگ پر کام کرتی ہیں کے مطابق انسانوں کے زمین پر اثرات کی وجہ ان کی تعداد نہیں بلکہ ان کا رویہ ہے۔ اس کی وجہ میں اور آپ ہی ہیں۔ جو ایئر کنڈیشن میں انجوائے کرتی ہوں، جو سوئمنگ پول میرے گھر میں ہے اور ہر رات جو گوشت میں کھاتی ہو، یہ تمام عناصر زمین کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی وجہ بنتے ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والی تنظیمیوں کا کہنا ہے کہ تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی یعنی آبادی پر قابو پانا گلوبل وارمنگ کے مسائل کے حل میں سے ایک ہیں۔ یعنی پائیدار وسائل اور کم آبادی کے ذریعے ہی توانائی، نقل و حمل، خوراک اور دیگر وسائل کی طلب میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔

عالمی شرح پیدائش سنہء 1990 میں فی عورت 3.2 پیدائش سے کم ہو کر سنہء 2019 میں 2.5 بچے رہ گئی اور سنہء 2050 تک یہ مزید کم ہو کر 2.2 تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جو پچھلے دنوں کے مقابل کم شرح ہے، مفر پھر بھی سنہء 2050 تک دنیا کی آبادی 9.7 ارب ہو جائے گی، اور اس صدی کے آخر تک دنیا کی آبادی 11 ارب متوقع ہے، سنہء 2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ حصہ آٹھ ممالک ڈالیں گے جن میں کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ شامل ہیں۔

پاکستان آج بھی ان غریب و ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں مجموعی آبادی کے اعتبار سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم موجود ہے، جہاں منصوبہ بندی تعلیم اور انسانی سہولیات کا شدید فقدان ہونے کے باوجود ہم آنے والے وقتوں میں دنیا میں تیزی سے اضافہ کرنے والے تیسرے ملک کی حیثیت سے داخل ہونگے، یہ لمحہ فکریہ ہے یا نہیں ، کم ازکم ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی حکومتی لائحہ عمل موجود نہیں ہے پھر چاہے آج ہم 8 ارب کی آبادی میں 23 کروڑ یا یا کل اربوں میں بھی پہنچ جائیں۔ ہمیں وسائل اور آبادی کی ضرورت کا بہرحال کوئی احساس ہرگز نہیں ہے۔

نوٹ : اقوام متحدہ کی World Population reports 2022 کی مدد سے لکھا گیا مضمون ۔

منصور ندیم

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khanpur Sansi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share