Muraqba Hall Gujar Khan

Muraqba Hall Gujar Khan Sufi Order Silsila Azeemia,s Centre

44- عنوان : راضی برضامکمل کتاب : آگہیامام ابوحنیفہؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا۔ ’’سمندر میں ج...
17/01/2025

44- عنوان : راضی برضا
مکمل کتاب : آگہی

امام ابوحنیفہؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا۔ ’’سمندر میں جہاز ڈوب گیا ہے اور کروڑوں کا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘
امام ابو حنیفہؒ چند سیکنڈ خاموش رہے اور کہا۔ ’’یا اللّٰه تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘

کچھ عرصہ بعد خبر آئی جو جہاز ڈوبا تھا وہ امام اعظم کا نہیں بلکہ دوسرے سوداگر کا تھا۔ امام اعظم کا جہاز ساحل پر لگ گیا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔ سیکرٹری نے خوشی خوشی اطلاع دی۔

امام اعظم نے کہا۔ ’’یا اللّٰه تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘

سیکرٹری نے پوچھا۔ ’’جہاز ڈوبنے کی خبر پر شکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘

امام اعظم نے فرمایا۔’’میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا۔ معلوم ہوا کہ دل پر خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔

دل نے کہا اللّٰه تعالیٰ کا مال تھا۔

دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا اللّٰه تعالیٰ کا مال ہے۔

اللّٰه تعالیٰ نے چاہا تو نقصان ہو گیا۔ اللّٰه تعالیٰ نے چاہا تو نفع ہو گیا۔ میں نے اس بات پر شکر کیا کہ دینے والا بھی اللّٰه تعالیٰ ہے ، لینے والا بھی اللّٰه تعالیٰ ہے۔

میں اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ راضی برضا ہوں اس لئے دونوں مرتبہ میں نے شکر ادا کیا ہے۔‘‘

یہ کیسی نادانی ہے کہ 60 سال کا آدمی 61ویں سال میں داخل ہونے کے لئے پریشان ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ پیدائش کے پہلے دن سے ساٹھ سال تک اللّٰه تعالیٰ نے ہر طرح میری کفالت کی ہے۔ میں بھوکا نہیں سویا۔ ننگا نہیں رہا۔ ایک تھا ایک سے دو ہوا۔ دو سے آٹھ ہوئے۔ بچوں کی شادیاں کیں، بچوں کے بچے ہوئے، بچوں کے بچوں کی تقریبات کیں۔

انسان اپنی مرضی پر کبھی غور نہیں کرتا کہ میں پیدا ہوا میری پرورش ہوئی، بچے ہوئے بچوں کے بچے ہوئے۔ پیدا ہوا تو میرے پاس جھونپڑی نہیں تھی اور میں اب ساٹھ سال کا ہوں۔ میرے تمام بچوں کے پاس زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔
یہ خیال کیوں نہیں آتا؟

اس لئے نہیں آتا کہ آدمی ذات کے خ*ل میں بند ہے انسان مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے لیکن گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہیں کرتا۔ روحانی نقطہ نظر سے زندگی انسان کی ہو، زندگی سیاروں کی ہو، سورج یا چاند کی ہو یا درخت کی ہو یا کسی اور مخلوق کی ہو۔۔۔ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

43-عنوان : انسانی مشینکتاب : آگہیاللّٰه تعالیٰ چوپائے اور پرندے پیدا نہ کرتے تو گوشت کہاں سے ملتا؟ ہم دودھ کہاں سے پیتے؟...
12/01/2025

43-عنوان : انسانی مشین
کتاب : آگہی

اللّٰه تعالیٰ چوپائے اور پرندے پیدا نہ کرتے تو گوشت کہاں سے ملتا؟ ہم دودھ کہاں سے پیتے؟

انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر کی مشینری پر تفکر کرے۔ انسانی مشین چلانے میں آدمی کا ذاتی اختیار کیا ہے؟

اقتدار کی خواہش انسان کے اندر اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر مشین چلتی رہے۔ دل دھڑکتا رہے۔ آنتیں حرکت کرتی رہیں۔ گردے ڈائیلاسس کرتے رہیں۔ دماغ سگنل وصول کرتا رہے۔ سیلز (Cells) اعصاب کو متحرک رکھیں۔ آنکھ دیکھتی رہے۔ ڈیلے حرکت کرتے رہیں۔ پلک جھپکتی رہے، دماغ پر عکس منعکس ہوتا رہے۔ دماغ اطلاعات قبول کرتا رہے اور انسان کے اندر بصیرت ہو، عقل ہو لیکن اگر آنکھ نہ ہو تو آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ دل نہ ہو تو حرکت معدوم ہو جائے گی۔

انسان کا زمین پر آنا ابھی موقوف نہیں ہوا۔ عالم ارواح سے چلنے والے قافلے کو سفر طرے کرنا ہے۔ دنیا سے گزرنا ہے۔

وسائل کی قدر و قیمت اگر اس حد تک ہو کہ وسائل استعمال کے لئے بنائے گئے ہیں تو آدمی خوش رہتا ہے اور جب کوئی انسان وسائل کی قیمت اتنی لگا دیتا ہے کہ اس کی اپنی قیمت کم ہو جائے تو آدمی ناخوش ہو جاتا ہے۔ انسان دنیا والوں سے توقعات قائم کر لیتا ہے تو اس کے اوپر خوشی اور غم اس لئے مسلط ہو جاتے ہیں کہ جس سے توقعات قائم کی گئی ہیں وہ خود محتاج ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

42- عنوان : زندگی کا فلسفہکتاب : آگہیعزیزانِ گرامی!ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ خوش رہے۔ صحت مند رہے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ...
07/01/2025

42- عنوان : زندگی کا فلسفہ
کتاب : آگہی

عزیزانِ گرامی!

ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ خوش رہے۔ صحت مند رہے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہر دوسرا آدمی تلقین کرتا ہے کہ خوش رہا کرو۔ آدمی کوئی چیز ساتھ نہیں لے جاتا۔ آدمی کپڑے پہنے ہوئے پیدا نہیں ہوتا، مرتا ہے تو کپڑے قینچی سے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا اور مرتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتا۔ زندگی میں کوئی اختیار نہیں لیکن ہر آدمی خود کو با اختیار سمجھتا ہے، اختیار نہیں ہے تو خوش کیسے رہے گا۔ اختیار ہے تو ناخوش کیوں ہوتا ہے؟ جو کہتا ہے کہ خوش رہا کرو وہ بھی غمگین نظر آتا ہے اور جو غمگین ہوتا ہے وہ بھی خوش ہونے پر مجبور ہے۔
دنیا میں کوئی عمل دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آدمی خوش رہے گا تو ناخوش بھی ہو گا۔ ناخوش ہو گا تو خوش بھی رہے گا۔ یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ لفظوں کا گورکھ دھندہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آدمی خوش رہنے سے واقف ہے اور نہ اسے یہ معلوم ہے کہ غم کیا ہے؟
اسے پانی کی ضرورت ہے پانی ہر جگہ موجود ہے۔ سردی گرمی سے بچنے کے لئے بنیادی ضرورت مکان ہے۔ مکان بنانے کے لئے زمین پہلے سے موجود ہے۔ زمین نہ ہو تو مکانات تعمیر نہیں ہوں گے۔
زندگی کے لئے بنیادی ضروریات آدمی کی پیدائش سے پہلے اور آدمی کے مرنے کے بعد موجود رہتی ہیں۔ جو چیزیں پہلے سے موجود ہیں وہ مرنے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ ان کے لئے ناخوش ہونا اپنے اوپر ظلم ہے اور ظلم ہی ناخوشی ہے۔ زندگی میں کام آنے والی بنیادی چیزیں اللّٰه تعالیٰ نے اس طرح فراہم کر دی ہیں کہ انسان کو ملتی رہتی ہیں۔

عزیز دوستو!
غور کیجئے اللّٰه تعالیٰ زمین نہ بناتے، گیہوں کا دانہ تخلیق نہ ہوتا۔ چاول بیج نہ بنتا۔ دھوپ نہ نکلتی تو غذائی ضروریات پوری نہ ہوتیں؟

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

03/01/2025
41- عنوان : پچاس سالکتاب : آگہیمیری زندگی کے پچاس سال روحانیت کے ارد گرد گھومتے رہے ہیں۔ پچاس سال سے ایک ہی بات کہہ رہا ...
03/01/2025

41- عنوان : پچاس سال
کتاب : آگہی

میری زندگی کے پچاس سال روحانیت کے ارد گرد گھومتے رہے ہیں۔ پچاس سال سے ایک ہی بات کہہ رہا ہوں۔ ایک ہی موضوع پر آپ سے گفتگو ہوتی ہے۔ اس عرصہ میں اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے کہ جب میں کچھ بولنا چاہتا ہوں تو ذہن پر وہ نقوش ابھر آتے ہیں جو آپ کے گوش گزار کئے جا چکے ہیں۔
کسی موضوع یا عنوان پر لکھنا چاہتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب لکھا جا چکا ہے۔ یہی حال تقریر کا ہے۔ (ملکی اور غیر ملکی دوروں میں اب تک ہزاروں تقاریر کر چکے ہیں) اللّٰه تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اس عاجز بندے نے مختلف طریقوں سے روحانی علوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں مشکور ہوں کہ آپ نے پذیرائی بخشی۔ میں اس بات سے واقف ہوں جب تجربہ اور مشاہدہ زندگی بنتا ہے تو شاگردوں کی توقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

38- عنوان : قدرِ مشترککتاب : آگہیروزانہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر نوع جذبات و احساسات میں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے متعارف ہے ب...
29/12/2024

38- عنوان : قدرِ مشترک
کتاب : آگہی

روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر نوع جذبات و احساسات میں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے متعارف ہے بلکہ زندگی کو قائم رکھنے والے قاعدے بھی یکساں ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کا طریقہ بھی یکساں ہے مثلاً ایک عمل ہے پیاس لگنا۔ نوعی اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تقاضہ سب میں موجود ہے اور سب اس تقاضے کو پانی پی کر پورا کرتے ہیں۔

جمادات، حیوانات، نباتات سب کو پانی کی ضرورت ہے یعنی پیاس کا تقاضہ پورا کرنے میں مخلوق قدر مشترک رکھتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی پانی سے پیاس کا تقاضہ پورا کرے، درخت، حشرات الارض اور حیوانات پانی کے بجائے آگ کی تپش سے پانی پیاس بجھاتے ہوں۔ یہاں شعور بھی زیر بحث آ جاتا ہے کہ انسان بذات خود یہ کہتا ہے کہ میں بہت زیادہ عقلمند ہوں۔ اشرف المخلوقات ہوں اور جب ہم انسان کا دوسری نوع کے جذبات و احساسات، کیفیات، واردات کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ مخلوق ایک ہی صف میں کھڑی ہے۔

نسل کشی کے لئے اگر آدمی کے اندر جنس موجود ہے تو یہی جنس جانوروں میں بھی نظر آتی ہے۔ ماں کی محبت نوع انسانی کے اندر موجود ہے تو یہ شفقت بلی، کتے، بکری، چوہے ہر نوع کے اندر موجود ہے۔

قانون:
ہر وہ آدمی جس میں عقل کارفرما ہے یہ جانتا ہے کہ کائنات اور ہماری دنیا ایک قاعدہ، ضابطہ اور قانون کے تحت قائم ہے اور یہ قانون اور ضابطہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے اس ضابطہ اور قاعدہ سے ایک انچ کے ہزارویں حصہ میں بھی اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتی۔

زمین اپنی مخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے اپنے مدار پر حرکت کرنے کے لئے ایک رفتار مقرر ہے اس میں کبھی ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ پانی کا بہنا، بخارات بن کر اڑنا، پانی کے شدید ٹکراؤ سے اس کے مالیکیول کا ٹوٹنا اور بجلی کا پیدا ہونا، بجلی کا ماحول کو منور کرنا، حرارت کا وجود میں آنا اور ہر شئے کا دوسری شئے پر کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہونا یہ سب ایک مقررہ قاعدہ اور قانون کے تحت ہے۔

جب ہم خالق کائنات کے ارشاد کے مطابق اپنی زمین کے ماحول پر تفکر کرتے ہیں تو ہم اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ جمادات، نباتات اور حیوانات کی پیدائش بڑھنا، پھیلنا، نشوونما پا کر بارآور ہونا سب ایک قانون اور ضابطہ کے مطابق ہے۔ اسی قانون اور ضابطہ کے مطابق سب پیدا ہوتے ہیں۔ گھٹتے ہیں، بڑھتے ہیں۔ جیتے اور مرتے ہیں۔ یہی قانون انسان پر بھی عائد ہوتا ہے انسان کی پیدائش بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ایک مخفی طاقت (قدرت) ہے جو سرگرم عمل ہے۔

اس قانون کے مطابق پیدائش عمل میں آتی ہے اور اس ہی نوعی قانون کے مطابق زندگی قائم رہتی ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

36- عنوان : پانچ حواسکتاب : آگہیانسان حواس کا مجموعہ ہے۔ عام حالات میں ان حواس کو پانچ نام دیئے گئے ہیں۔1۔ سننا2۔ دیکھنا...
27/12/2024

36- عنوان : پانچ حواس
کتاب : آگہی

انسان حواس کا مجموعہ ہے۔ عام حالات میں ان حواس کو پانچ نام دیئے گئے ہیں۔

1۔ سننا

2۔ دیکھنا

3۔ چکھنا

4۔ سونگھنا

5۔ چھونا

ان پانچ حواس سے ہر شخص واقف ہے۔ ذی فہم اور عقلمند آدمی یہ بھی سوچتے ہیں کہ حواس خمسہ یعنی پانچ حواس کس بنیاد پر رواں دواں ہیں؟

زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد لہر (روشنی) ہے۔ اس لہر یا روشنی کا نام مذہب نے روح رکھا ہے۔ ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ جب تک روح کسی مادی وجود میں موجود رہتی ہے اس وجود میں حرکت رہتی ہے اور جب روح مادی وجود سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو وجود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔

تمام مذاہب ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ اصل انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آ کر اپنے لئے جسم بناتا ہے اور پھر جب اس لباس کو اتار کر پھینک دیتا ہے تو کہاں چلا جاتا ہے؟

اس بات سے واقف ہونے کے لئے تمام مذاہب نے قواعد و ضوابط مرتب کئے ہیں اور اس کو بہت آسان طریقہ سے بیان کیا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے!

’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی پیغام لے کر آیا ہوں جو مجھ سے پہلے میرے بھائی پیغمبروں کے ذریعہ نشر ہو چکا ہے۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آدمی کو انسان سے متعارف کرنے کے لئے بہت اہم اور نہایت مختصر فارمولے بیان فرمائے ہیں تا کہ نوع انسانی خود آگہی حاصل کر کے اصل انسان سے متعارف ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر اس کو نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔‘‘
(سورۃ السجدہ۔ آیت9)

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:

’’یہ لوگ آپﷺ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت 85)

امر کی تعریف سورہ یٰسین کی آخری آیات میں بیان کی گئی ہے۔

اس کا امر یہ ہے کہ

’’جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

(سورۃ یٰس۔ آیت 82)

آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی اور اسے حواس مل گئے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔

انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھ کر افسوس اور دکھ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ مضطرب، بدحال، غمگین، خوفزدہ اور پریشان رہا ہے۔

ڈر، خوف اور عدم تحفظ اس زمانے میں بہت زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے۔ لیکن رہتا ضرور ہے۔ جیسے جیسے انسان کی دلچسپیاں مادی وجود میں زیادہ ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وہ اصل انسان اور روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ اصل انسان اور روشنیوں کے انسان سے دوری کا نام ہی اضطراب، بے چینی، درماندگی اور پریشانی ہے۔ آج کے دور میں جس قدر عدم تحفظ کا احساس اور ذہنی کشمکش، اعصابی تناؤ اور بے یقینی بڑھ گئی ہے اس کا اندازہ ہر شخص کو ہے اس سے محفوظ رہنے اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ آدمی اصل انسان سے تعارف حاصل کرے۔ جب ہم اصل انسان سے متعارف ہو جائیں گے تو ہم لہروں، روشنیوں کی پرمسرت ٹھنڈ میں خود کو محفوظ دیکھیں گے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

35- عنوان : کہکشانی نظامکتاب : آگہیموجودہ سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح واقف ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظ...
24/12/2024

35- عنوان : کہکشانی نظام
کتاب : آگہی

موجودہ سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح واقف ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور یہ روشنی انسان، حیوانات، نباتات، جمادات پر کیا اثر کرتی ہے یہ مرحلہ بھی سائنس کے سامنے آ چکا ہے لیکن ابھی تک سائنس اس بات سے پوری طرح باخبر نہیں ہے کہ شمسی نظاموں کی روشنی انسان کے اندر نباتات کے اندر جمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے؟ اور اس کس طرح جانوروں، نباتات اور جمادات کی کیفیات میں تغیر ہوتا رہتا ہے؟

سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ لہر اور روشنی کیا ہے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

God Said Light and There Was Light

اسی بات کو قرآن نے ’’اللّٰه نورالسموات والارض‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے۔

یعنی لہر یا روشنی اور زمین و آسمان کی بساط نور مطلق پر قائم ہے۔ جب یہ ساری کائنات بشمول انسان حیوانات، نباتات، جمادات روشنیوں اور لہروں پر قائم ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ موجودات دراصل اللّٰه تعالیٰ کے نور کا مظاہرہ ہے۔
اس مضمون میں انسان اور انسانی خصائل اور صفات پر روشنی ڈالنا ہمارے پیش نظر ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

34- عنوان : تیس سال پہلےکتاب :آگہی سلسلۂ عظیمیہ کے تحت خدمت خلق کا جو پروگرام بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تقریب...
20/12/2024

34- عنوان : تیس سال پہلے
کتاب :آگہی

سلسلۂ عظیمیہ کے تحت خدمت خلق کا جو پروگرام بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تقریباً تیس برس بیشتر کراچی کے علاقے ناظم آباد کے ایک مکان سے شروع ہوا۔

آج خدا کے فضل و کرم سے اور حضورﷺ کی شفقت کے زیر سایہ سلسلۂ عظیمیہ سے منسلک افراد تقریباً دنیا کے ہر خطہ میں موجود ہیں۔ سلسلہ کے پیغام کو عوام الناس میں زیادہ سے زیادہ روشناس کرانے کے ساتھ جناب عظیمی صاحب نے اس پہلو پر بھی توجہ دی ہے کہ ایسے لوگ جمع ہو جائیں جو علم لدنی کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور اپنی روح کا عرفان حاصل کر کے خدا کی مخلوق کے زیادہ سے زیادہ کام آئیں۔ اس طرح خدمت خلق کا جو سلسلہ ایک فرد سے شروع ہوا وہ ایک تنظیم اور ادارے کی صورت میں صدیوں تک جاری و ساری ہے۔

اس مقدس خیال کو سامنے رکھتے ہوئے اراکین سلسلۂ عظیمیہ نے منصوبہ بندی شروع کی اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے تحت لاہور کے بعد سرجانی ٹاؤن میں ایک قطعۂ زمین خریدا گیا۔ اس جگہ فری ڈسپنسری، تعلیمی ادارہ، لائبریری اور سلسلۂ عظیمیہ کا مرکزی مراقبہ ہال تعمیر ہوا۔
28 دسمبر 1988 مرکزی مراقبہ ہال کراچی کی تقریب سنگ بنیاد کا دن تھا۔ یہ پروقار تقریب سرجانی ٹاؤن کراچی میں منعقد ہوئی۔ آیئے آپ کو اس تقریب کے بارے میں بتاتے ہیں۔

سرجانی ٹاؤن ابھی غیر آباد ہے اور عام افراد خاص طور پر پہلی بار آنے والوں کو یہاں تک پہنچنے کے لئے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے نہایت عقیدت و محبت سے اس تقریب میں شرکت کی۔ خواتین اور ایسے تمام افراد کے لئے جن کے پاس ذاتی سواری نہ تھی مراقبہ ہال نارتھ ناظم آباد سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود لوگ جوق در جوق پیدل تشریف لائے۔ سرجانی ٹاؤن کے مین روڈ سے تقریب کے مقام تک جگہ جگہ قلندر شعور فاؤنڈیشن کے کارکن آنے والوں کے استقبال اور رہنمائی کے لئے موجود تھے۔

تقریب کا آغاز دن کے 11 بجے تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ قاری کے فرائض انیس احمد خان صاحب نے انجام دیئے۔ پھر جناب تنویر احمد اشرفی صاحب نے ایک خوبصورت اور پرعقیدت نعت پیش کی۔ اس کے بعد پنجاب سے آئے ہوئے ایک مہمان صوفی نذر حسین صاحب نے عارفانہ کلام پیش کیا۔

تقاریر کا آغاز جناب فضل الرحمان قریشی کی تقریر سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سلسلہ عظیمیہ کے شعبہ خدمت خلق سے وابستہ ہیں۔
قریشی صاحب نے بتایا کہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے نام پر آنے والے خطوط کی تعداد اوسطاً سات ہزار خطوط ماہانہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1968 ؁ء سے 1988 ؁ء تک عظیمی صاحب نے تقریباً سات لاکھ خطوط کے جوابات دیئے ہیں۔
ان کے بعد قلندر شعور فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر حکیم وقار یوسف عظیمی نے مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے حاضرین کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور مرکزی مراقبہ ہال کے پروجیکٹ کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پلاٹ، مراقبہ ہال، اسکول اور اسپتال کی تعمیر کے لئے لیا گیا ہے۔ پراجیکٹ کے تحت بننے والی عمارت کا نقشہ سلسلہ عظیمیہ کے آرکیٹیکٹ جناب اقبال احمد عظیمی بنا رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مرحلہ وار تکمیل میں تقریباً تین سال کا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت تین حصوں پر مشتمل ہو گی۔ پہلا فیز مراقبہ ہال اور مسجد ہو گا۔ دوسرے فیز میں اسکول اور اسپتال بنیں گے۔ تیسرے فیز میں اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان سے آنے والے مہمانوں کے لئے کمرے بنائے جائیں گے۔ انشاء اللہ

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسپتال قائم ہو گا جس میں کلر تھراپی سیکشن (رنگ و روشنی سے علاج) اور ایلوپیتھی سے علاج کیا جائے گا۔ حکیم وقار یوسف عظیمی صاحب نے امید ظاہر کی کہ یہ سینٹر روحانی تعلیمات کا بہت بڑا مرکز ثابت ہو گا۔

ان کے بعد پیر طریقت سید گل آغا گیلانی صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ مراقبے کا جو سلسلہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ اور حضرت عظیمی صاحب کے توسط سے شروع ہوا۔ اللّٰه تعالیٰ اس کا فیض جاری فرمائیں۔ میں خود بھی اور اپنے احباب اور متعلقین کو کہتا رہتا ہوں کہ اس میں شرکت کریں۔ انہوں نے اس مرکزی جامعہ کے لئے نبی کریمﷺ کے توسط سے اللہ تعالیٰ کے فضل کی دعا کی۔

تقریب کا سب سے اہم حصہ خانوادۂ سلسلہ عظیمیہ اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے صدر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تقریر تھی۔ عظیمی صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا۔

عظیمی صاحب نے فرمایا۔

’’آپ حضرات دور دراز کا سفر کر کے اس بیابان میں محض اللّٰه تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تشریف لائے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللّٰه تعالیٰ آپ کے اس جذبے کو قبول فرمائے اور ہم سب پر آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللّٰهﷺ کی رحمت ہو۔‘‘

’’ہم سب اپنے آقا تاجدار مدینہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل کریں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے اگر ہم اپنے اندر فکر کریں اور اپنا کھوج لگائیں تو یہ بہت آسان بات ہو جاتی ہے۔ اندر کی نظر جب کھل جاتی یہ توغیب کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اللّٰه تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد رسول اللّٰهﷺ کی زیارت سے مشرف ہو جاتے ہیں۔‘‘

نبی کریمﷺ نے معراج میں اللّٰه تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اللّٰه تعالیٰ سے راز و نیاز کی باتیں کی ہیں۔

اللّٰه تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ۔۔۔

’’نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔‘‘(سورۃ النجم۔ آیت 11)

معراج کا مفہوم ہے غیب کی دنیا میں سفر کرنا اور معراج کے معنی ہیں وہ آنکھ کھل جانا جس سے آدمی غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔
رسول اللّٰه ﷺ نے اپنی امت کو ایک پروگرام دیا ہے اور اس پروگرام کے بارے میں فرمایا ہے کہ

’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘

جو آدمی صلوٰۃ قائم کر لیتا ہے اس کو معراج نصیب ہو جاتی ہے یعنی کوئی بندہ صلوٰۃ کے ذریعے غیب کی دنیا میں داخل ہو کر رسول اللّٰه ﷺ کی زیارت کرتا ہے اور اسے اللّٰه تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔

لیکن جب ہم چودہ سو سال کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہمارے بزرگ بھی نماز پڑھتے تھے۔ ہمارے اسلاف اسلام کے ایک ایک رکن کو پورا کرتے تھے۔ جو کام چودہ سو سال پہلے وہ کرتے تھے وہی کام ہم کرتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ جب ہمارے اسلاف یہ کام کرتے تھے تو اللّٰه تعالیٰ نے ان کو عزت دی، وقار دیا اور ساری دنیا پر ان کی حکمرانی قائم کر دی۔ وہی کام جو ہمارے بزرگ کرتے تھے ہم بھی کرتے ہیں لیکن ہم ذلیل و خوار ہیں۔ بدحال ہیں اور غیروں کی خیرات لینے پر مجبور ہیں۔

آیئے! ہم سب اس بات پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف بھی نماز پڑھتے تھے تو اللّٰه تعالیٰ نے ان کو عروج بخشا اور اتنا عروج بخشا کہ دنیا کے ہر کونے میں اسلام کی حکمرانی ہو گئی تھی وہی نمازیں ہم بھی پڑھتے ہیں مگر ہمیں عزت و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔

معاشرتی نظام کا یہ حال ہے کہ قرآن کہتا ہے سود حرام ہے اور جو لوگ سودی کاروبار کرتے ہیں وہ اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور ہماری معیشت سودی نظام پر قائم ہے اور یہ نظام ہمیں اقوام غیر سے ملا ہے۔

جب ہم علم کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو ایک وقت تھا جب ہمارے بزرگ ایجاد کرتے تھے۔ مسلمانوں نے بڑی بڑی چیزیں ایجاد کیں ہیں۔ اور آج حال یہ ہے کہ ہم علم کے لئے بھی غیر قوموں کے محتاج ہیں۔

یہ بات طے ہو گئی کہ ہم اس لئے ذلیل و پریشان ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کی روایات کو چھوڑ دیا۔ اللّٰه تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے ہمیں Concentrationکی ضرورت ہے۔ سوچ بچار اور فکر کی ضرورت ہے اور اگر ہم میں غور و فکر نہیں ہو گا تو ہم قرآن نہیں سمجھ سکتے۔ ہمارے اسلاف قرآن سے ہی تمام ایجادات اور سائنسی فارمولے بناتے تھے۔ یہ تفکر ہی تھا جس نے ان کے ذہن کے بند دریچے اور نئے راستے کھول دیئے تھے۔

کچھ عرصہ قبل جب میں امریکہ میں تھا وہاں کئی اسٹیٹس میں گیا۔ میں نے غور کیا کہ ان لوگوں کی اس مادی ترقی کا کیا راز ہے؟
میں نے دیکھا کہ وہ عنصر تھا لوہا۔

اگر وہاں 110 منزلہ عمارت کھڑی ہے تو پوری لوہے کے ڈھانچے پر ہے۔ اگر انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن ہیں تو سب لوہے اور کنکریٹ سے بنے ہوئے ہیں۔ پُل اوپر نیچے بنے ہوئے ہیں تو وہ لوہے کی کارفرمائی ہے، جہاز اور ہر قسم کی مشینوں میں بھی بنیادی عنصر لوہا ہے۔

اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’ہم نے لوہا نازل کیا اور اس میں انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں، کوئی ہے ڈھونڈنے والا؟‘‘
(سورۃ الحدید۔ آیت 25)

آپ سائنس کی ہر ایجاد پر غور کریں آپ کو کسی نہ کسی حوالے سے لوہا نظر آئے گا اور ہر ایجاد کے پس منظر میں تفکر نظر آئے گا۔
ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن ایک دن میں ایجاد نہیں ہوئے سالوں تک بے شمار لوگوں کی خیال آزمائی، تفکر اور تجربات کے بعد یہ وجود میں آئے ہیں۔ اگر مسلمان تفکر نہیں کریں گے تو یہ جتنے ذلیل و خوار اب ہیں اس سے کہیں زیادہ اور خوار ہوں گے۔
اللّٰه تعالیٰ حاکم ہیں، خالق ہیں، رب ہیں۔ اگر آپ اللّٰه تعالیٰ کو پہچاننا چاہتے ہیں تو اس کائناتی نظام میں تفکر کریں۔

اللّٰه تعالیٰ کی نشانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’دیکھو ہم نے آسمان کو کس طرح بلند کر دیا کہیں کوئی ستون نظر نہیں آتا اور ہم نے پہاڑوں کی کیلیں اور میخیں بنا کر کس طرح زمین میں گاڑھ دیا اور دیکھو ہم نے زمین کو کیسی وسعت دی نہ اس کو ایسا نرم رکھا کہ تم اس میں دھنس جاؤ اور نہ اتنا سخت کہ تم ٹھوکریں کھا کر گرو۔‘‘

چودہ سو سال سے نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ لوگ اللّٰه تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام دہرانے کیلئے بھیجے گئے۔ اس صدی میں اللّٰه تعالیٰ نے قلندر بابا اولیاءؒ کو پیدا کیا اور ان کو ایسی تعلیمات کا پرچار کرنے کا شعبہ عطا کیا جن میں سائنس ہو۔
روحانیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ سائنس کے نقطۂ نظر سے لوگ سمجھ سکیں اور لوگوں کا جو سئنسی شعور بیدار ہو گیا ہے اس شعور سے وہ اللّٰه تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کریں۔

ایک شعبہ ہے تکوین (ایڈمنسٹریشن) اس کو اللّٰه تعالیٰ کے بندے چلاتے ہیں مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے تعلیم کے دوران مجھے بتایا کہ
’’یہ کائناتی نظام اس طرح ہے کہ:

ایک کتاب المبین ہے۔

ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔

ہر لوح محفوظ پر اسّی (80) ہزار حضیرے۔

ایک حضیرے میں ایک کھرب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام۔

ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔

ہر سورج کے گرد نو، بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔

حساب لگائیں کہ اللّٰه تعالیٰ کا اتنا بڑا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نظام اللّٰه تعالیٰ کے مقرب بندے چلا رہے ہیں۔ نظام تکوین میں فرشتے ان کے معاون ہوتے ہیں۔ اللّٰه تعالیٰ نے ایک کائناتی نظام تخلیق کیا اور اس نظام کو چلانے کے لئے انسانوں میں سے خلیفہ (نائب) بنائے۔

فرشتوں سے کہا کہ جو نظام میں نے بنایا ہے اس کو انسان چلائے گا۔ فرشتوں نے کہا۔ آپ نے انسان کو نظام کائنات چلانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ انسان فساد کرے گا خون خرابہ کرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات کا علم سکھایا۔ کائنات کے تخلیقی فارمولے سکھائے اور حضرت آدم علیہ السلام سے کہا۔ بیان کر جو کچھ ہم نے تجھے سکھایا ہے اور جب حضرت آدم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو فرشتے دم بخود رہ گئے اور کہا۔
’’بے شک! ہم نہیں جانتے تھے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں بتایا ہے۔‘‘

اور اس کے بعد فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حاکمیت قبول کر لی۔

اس امر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کا شرف یہ ہے کہ اسے وہ علم آتا ہے جو علم اللّٰه تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں سکھایا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس علم کو بھلا دیا جس سے ہمارے اسلاف واقف تھے اور اس میں تفکر کرتے تھے نتیجتاً وہ ساری دنیا کے حاکم تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم تفکر کریں تو کیسے کریں۔ اس کے لئے بھی ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنا ہو گا۔

سیدنا حضورﷺ مکہ شریف سے کئی میل دور ایک اونچی پہاڑی پر نبوت ملنے سے قبل عبادت کے لئے جاتے تھے۔ یہ عبادت مراقبہ تھی۔ مراقبے کا مطلب ہے غور و فکر کرنا۔ اسی غور و فکر کے دوران اللّٰه تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو آپﷺ کے پاس بھیجا۔ وہ حضورﷺ کے پاس آئے اور کہا۔

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا۔ ’’میں اُمی ہوں۔‘‘

جبرائیل علیہ السلام نے کہا۔ ’’آپﷺ کا رب یہی چاہتا ہے۔‘‘

حضورﷺ کے توسط سے قرآن جیسی کتاب ہمیں عطا فرمائی گئی ہے۔

مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ عاجز بندے کو مراقبے کا علم سکھایا۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم نبی کریمﷺ کی غار حرا والی سنت پر عمل کریں۔ نماز، روزہ کے ساتھ مراقبے (Meditation) کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں تو انشاء اللہ آپ کی نظر بھی کھل جائے گی اور ذہن وسیع ہو جائے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے توفیق دیں کہ ہم اپنے اسلاف کے اس ورثے کو جس کی وجہ سے ہم پوری دنیا پر حکمران تھے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اللّٰه تعالیٰ توفیق دیں کہ رسول اللّٰهﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہم غور و فکر کریں اور قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور قرآن کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عربی زبان سیکھیں اور مراقبہ کریں۔ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ و سلم نے غار حرا میں مراقبہ کیا ہے۔

مراقبہ کا مطلب ہے اللّٰه تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنا۔ جب غور و فکر کی عادت راسخ ہو جاتی ہے تو اللّٰه تعالیٰ کی نشانیاں ذہن میں آنے لگتی ہیں اور ایسے بندہ کو یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔

انشاء اللّٰه تعالیٰ میں کتاب و سنت کے مطابق ایک ایسا نظام ترتیب دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بچے شروع ہی سے غور و فکر کے عادی ہو جائیں۔

پروگرام یہ ہے کہ:

پہلے ایک قاعدہ لکھوں پھر ابتدائی کتاب لکھوں جیسے پہلی، دوسری، تیسری جماعت کی کتابیں ہیں تا کہ ہمارے بچے شروع ہی سے اپنے اسلاف کے ورثے سے واقف ہو جائیں۔

اللّٰه تعالیٰ نے ہمارے لئے قرآن اتارا۔ اپنے محبوب بندے کو ہمارے درمیان نبی مکرمﷺبنا کر بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ کیا کہ ہم نے ساری کائنات تمہارے لئے مسخر کر دی ہے۔

حال یہ ہے کہ ہم غیر قوموں کی بھیک پر گزارا کر رہے ہیں، مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے ہمیں ذہن دیا ہے۔ مگر ہم پھر بھی غیر قوموں کے محتاج بن گئے ہیں۔ ایک مسلمان جس کا اللّٰه تعالیٰ پر ایمان ہے جس کا ورثہ علم الاسماء ہے جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا ہے وہ دوسری قوموں کی بھیک کھائے یہ انتہائی شرم کی بات ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ قرآن میں غور و فکر کر کے اپنے اسلاف کا ورثہ حاصل کرنا ہے۔

دعا کریں کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے اللّٰه تعالیٰ اسے پورا فرما دیں۔

*****

1988 ؁ء میں جو کچھ عظیمی صاحب نے فرمایا تھا اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پروگرام اس طرح پورا ہو چکا ہے۔
مراقبہ ہالز کا قیام اندرون اور بیرون ملک ۸۰ مراقبہ ہال کام کر رہے ہیں۔

* عظیمیہ جامع مسجد۔

* عظیمی پبلک ہائر سیکنڈری اسکول (کراچی، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گجرات)۔

* الحمدللہ برخیا میموریل ہسپتال کی O.P.Dنے کام شروع کر دیا ہے جو کہ ۶۰ بستروں کا اسپتال ہے۔

* فری ڈسپنسری

* اسلامیات کا کورس پہلی سے آٹھویں جماعت تک مختلف اسکولوں میں باقاعدہ پڑھایا جا رہا ہے۔

* بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں M.Aکے نصاب میں عظیمی صاحب کی کتاب ’’احسان و تصوف‘‘ شامل ہے اور یونیورسٹی میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر لیکچر ڈیلیور کرتے ہیں۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں کتاب ’’مراقبہ‘‘ ریفرنس بک کی فہرست میں شامل ہے۔

رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ و سلم کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 26 اگست 2009 ؁ء تک یہ کام ہو چکے ہیں۔

*****

پراجیکٹ بہت بڑا ہے جہاں تک ہماری انفرادی کوششوں کا تعلق ہے تو اللّٰه تعالیٰ ہمیں برکت دیں رسول االلّٰهﷺ کی محبت، نسبت اور فیض یقیناً ہمارے ساتھ ہے۔

مرکزی مراقبہ ہال کی افتتاحی تقریب جمعۃ المبارک کے دن منعقد ہوئی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد عظیمی صاحب نے یہ اعلان کر کے حاضرین کو خوش کر دیا کہ

’’دوران نماز ایک عظیمی بھائی نے یہاں رسول کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم اور حضرت اویس قرنی رضی اللّٰه عنہ کی زیارت کی ہے۔‘‘
یہ سن کر خواتین و حضرات کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور کچھ افراد کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

33- عنوان : خواتین کے فرائضکتاب : آگہیان تمام وضاحتوں اور تفصیلات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طرح م...
17/12/2024

33- عنوان : خواتین کے فرائض
کتاب : آگہی

ان تمام وضاحتوں اور تفصیلات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ اپنے روحانی تشخص کو روشن کریں۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ کریں اور عورتوں کو ان کے حقوق سے با خبر کر دیں۔ بزرگ خواتین پر فرض ہے کہ قرآن فہمی کے بعد عورتوں (خواتین) کو بتا دیں کہ اللّٰه تعالیٰ نے انہیں کیا حقوق عطا کئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بہت نوازا ہے۔ علم و آگہی کے موجودہ زمانے میں خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ جب تک خواتین اللّٰه تعالیٰ کے قانون کے تحت اپنی روحانی صلاحیتوں سے کام نہیں لیں گے۔ معاشرہ نہیں سدھرے گا۔ اللّٰه تعالیٰ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں سے محروم رہنا بلاشبہ ناشکری اور کفران نعمت ہے۔ خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر معاشرہ میں عورت کا مقام بلند کر سکتی ہیں۔ عورت اور مرد دونوں اللّٰه تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔ اللّٰه تعالیٰ سب کے ہیں۔ سب کے اندر ہیں۔

اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘(سورۃ الذٰریٰت۔ آیت 21)

’’میں تمہاری (مرد و عورت) کی رگ جان سے ز یادہ قریب ہوں۔‘‘(سورۃ ق۔ آیت 16)

’’جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہو گی اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن ایسے لوگ جنت میں داخل ہونگے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔‘‘(سورۃ المومن۔ آیت 40)

اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ (بلاتخصیص) مرد و عورت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرتے ہیں۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

32- عنوان: زم زمکتاب : آگہیجب حضرت ہاجرہؓ مروہ پر تھیں تو کانوں میں سرگوشی ہوئی۔ یہ سرگوشی آواز بن گئی تو حیران ہو کر اد...
09/12/2024

32- عنوان: زم زم
کتاب : آگہی

جب حضرت ہاجرہؓ مروہ پر تھیں تو کانوں میں سرگوشی ہوئی۔ یہ سرگوشی آواز بن گئی تو حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور فرمایا۔
’’اگر تم کچھ مدد کر سکتے ہو تو سامنے آؤ۔‘‘

دیکھا حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے ہیں۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے زمین پر پیر مارا اور اس جگہ سے پانی ابلنے لگا۔ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں آج کل زم زم کا کنواں ہے۔ جب زمین میں سے پانی ابلنے لگا تو حضرت ہاجرہؓ نے چاروں طرف سے منڈیر بنا دی خدا کی قدرت کا ظہور ہوتا رہا اور پانی کا چشمہ ابلتا رہا۔ اللّٰه تعالیٰ کا یہ فیض آج بھی جاری ہے۔ حضرت ہاجرہؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلایا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ سے کہا۔ خوف اور غم نہ کر اللّٰه تعالیٰ تجھے اور اس بچہ کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بیت اللّٰه کا مقام ہے۔ بیت اللّٰه کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کریں گے۔

اسی دوران بنی جرہم کا ایک قبیلہ آ کر ٹھہرا۔ قبیلہ کے ایک بزرگ نے دیکھا کہ کچھ دور آسمان پر پرندے اڑ رہے ہیں۔
جرہم نے کہا یہ پانی کی علامت ہے۔ جہاں یہ پرندے اڑ رہے ہیں وہاں پانی ضرور ہے۔ جرہم نے حضرت ہاجرہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر قیام کی اجازت مانگی۔

حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا۔ تم اور تمہارا قبیلہ قیام کر سکتے ہو پانی کی ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو گے۔ جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کر لی۔

جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اخلاق کردار علم اور بزرگوں کا احترام چھوٹوں کے ساتھ شفقت جرہم کو بہت پسند آئی اور انہوں نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی کر دی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر جب سو سال ہوئی تو اللّٰه تعالیٰ نے انہیں بشارت دی کہ حضرت سارہؓ کے بطن سے ایک بیٹا ہو گا۔ بیٹے کا نام اسحاق رکھنا۔

حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے حالات میں ایسے اہم نکات موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ دونوں خواتین انسانی تاریخ میں قابل فخر اور اہم خواتین ہیں۔ جس پر دنیا جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔

چند اہم نکات یہ ہیں:

1- حضرت ہاجرہؓ شہزادی تھیں مگر انہیں حضرت سارہؓ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں دے دیا گیا تھا۔

2 - حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔ نبی کی زوجہ ہونا خود ایک امتیاز اور فخر کی بات ہے۔

3- حضرت ہاجرہؓ حضرت اسماعیلؓ کی والدہ ہیں نبی کی والدہ ہونا بڑی عظمت کی بات ہے وہ بھی ایسے نبی کی والدہ جن کے اوپر انبیاء کی طرز فکر کی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ ایسے نبی جو اپنی قربانی کی وجہ سے تاریخ کا بے مثال باب ہیں۔

4- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس جگہ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا وہاں پانی نہیں تھا۔

5- حضرت ہاجرہؓ کا دو پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا اللّٰه تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اللّٰه تعالیٰ نے رہتی دنیا تک اس کو یادگار بنا دیا۔

6- زم زم کے ظاہر ہونے سے پہلے حضرت ہاجرہؓ اور فرشتے کے درمیان گفتگو ہوئی۔ فرشتے کا تسلی دینا کہ اللّٰه تعالیٰ تم کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ہاجرہؓ اللّٰه تعالیٰ کی پسندیدہ خاتون ہیں۔

7- ایک ویران مقام پر حضرت ہاجرہؓ کے قیام کی وجہ سے مکہ شہر آباد ہوا اور مکہ شہر میں بیت اللّٰه شریف بنا۔

8- خانہ کعبہ کو بھی حضرت ہاجرہؓ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے نے مل کر اسے تعمیر کیا۔

9- حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ویرانے میں چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہؓ نے پوچھا کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مگرجب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا ہمیں اللّٰه تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔
’’ہاں، میں یہ کام اللّٰه تعالیٰ کے حکم سے کر رہا ہوں۔‘‘
اس وقت جو اطمینان حضرت ہاجرہؓ کو حاصل ہوا۔ وہ اللّٰه تعالیٰ پر بھروسہ، کامل یقین اور اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے۔

10- حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ تھیں۔ رسول اللّٰه ﷺ نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

11- حضرت سارہؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی نسل میں بہت سارے پیغمبر پیدا ہوئے۔

12- حضرت سارہؓ کا فرشتوں کو دیکھنا، گفتگو کرنا، ان کی عظمت و بزرگی کی علامت ہے۔

13- حضرت سارہؓ کے یہاں نوے (90) سال کی عمر میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی بشارت اللّٰه تعالیٰ کے خصوصی کرم کا ایک کھلا ثبوت ہے۔

14- حضرت سارہؓ کی طرف حاکم مصر کا بری نیت سے ہاتھ بڑھانا اور ہاتھ کا مفلوج ہو جانا اور بار بار ایسا ہونا یہ حضرت سارہؓ کی عظمت و کرامت ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

Address

Brasta Jhandi , Morr Jhamath Road , Bhoke Imam Bakhsh Tehsil Gujar Khan
Gujar Khan

Telephone

+923350562292

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muraqba Hall Gujar Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share