Qalamkaar قلمکار

Qalamkaar قلمکار NEWS-COLUMN

گوجرہ میں خودساختہ پارکنگ سٹینڈ ۔۔تحریر- زاہد رؤف کمبوہDaily Pakistan  (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaf...
22/12/2024

گوجرہ میں خودساختہ پارکنگ سٹینڈ ۔۔تحریر- زاہد رؤف کمبوہ
Daily Pakistan (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 22-12-2024
Written by Zahid Rauf Kamboh Gojra (Toba Tek Singh)

گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کا مسئلہگوجرہ کے مسائل تو بہت سے ہیں مگر آج بات ہو گی اندرون شہر گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کی جو اطراف م...
19/12/2024

گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کا مسئلہ
گوجرہ کے مسائل تو بہت سے ہیں مگر آج بات ہو گی اندرون شہر گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کی جو اطراف میں مقامی بس سٹینڈ اور دو چوراہوں کے ساتھ منسلک ہے جہاں ایک چوراہے سے انڈر پاس روڈ ٹوبہ روڈ اور ایک طرف ایسی سڑک منسلک ہے جو آگے جا کراندران شہر کے بازاروں فیصل آباد کو جانے والی پینسرہ روڈ موچی روڈ ملتان اور اسلام آبادکیلئے جانے والی موٹروے بذریعہ جھنگ روڈ ملاتی ہے جب کہ ریلوے پھاٹک کے دوسری طرف بس سٹینڈسمندری روڈ مونگی روڈ ڈجکوٹ روڈ اور سرشمیر روڈ کو آنے جانے والی ٹریفک منسلک ہے سکول ٹائم پربالخصوص چھٹی کے وقت ریلوے پھاٹک بند ہونے سے ٹریفک جام ہونے کے مسائل بڑھ جاتے ہیں انڈر پاس کو آنے جانے والا راستہ بھی تقریباََ بندہو جاتا ہے اور ٹریفک پولیس کی شدید کوشش کے باوجوداکثر گھنٹہ بھر ریلوے پھاٹک کو کلیئر کرنے پر لگ جاتا ہے اس ریلوے کو کشادہ کرنے میں مقامی سیاسی راہنما اس لئے بھی عدم دلچسپی اورچشم پوشی سے کا م لے رہے ہیں کیونکہ ریلوے پھاٹک کو کشادہ کرنے کے بعد منسلک شدہ چوراہوں کے ساتھ منسلک سڑکوں بالخصوص سمندری روڈ کو بھی کشادہ کرنا پڑے گا جہاں بلدیہ گوجرہ کے تہ بازاری ہولڈرز کی دوکانیں ہیں جو متاثر ہوں گی جس سے قومی اور صوبائی حلقہ کی سیاسی قیادت کے ووٹ بنک کے مسائل بنتے ہیں لہٰذہ چند ووٹوں کی خاطرروزانہ کی بنیاد پر وھاں سے گزرنے والے ہزاروں شہریوں کے مفادات مشکلات اور ٹریفک مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے مگرمیں یاد کروا دوں کہ تاریخ میں انہی لوگوں کو یاد اور دعاگو رکھا جاتا ہے جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں اور خلقت خدا کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہیں لہٰذہ میری گوجرہ کی وفاقی سطح کی قیادت اور حکومت پاکستان سے التجا ہ ہے کہ وہ مذکورہ ریلوے پھاٹک کی کشادگی کے لئے پیش رفت واقدامات کریں مذکورہ پھاٹک سے آگے سمندری روڈ کی فوری کشادگی ابھی اتنی ضروری نہیں ہے فی الحال صرف ریلوے پھاٹک کو کشادہ کرنے سے گوجرہ کے شہریوں اورٹریفک کا دیرینہ مسئلہ کم از کم پچاس فیصد تک حل ہو جائے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

گوجرہ میں خود ساختہ پارکنگ سٹینڈگوجرہ شہر میں مختلف مقامات پرپارکینگ سٹینڈبن چکے ہیں جن میں کئی ایک کو شہری خودساختہ بتا...
19/12/2024

گوجرہ میں خود ساختہ پارکنگ سٹینڈ
گوجرہ شہر میں مختلف مقامات پرپارکینگ سٹینڈبن چکے ہیں جن میں کئی ایک کو شہری خودساختہ بتا رہے ہیں ان میں سے ایک مثال پوسٹ آفس روڈ کی ہے جہاں یو بی ایل بنک کے باہرمبینہ خوساختہ پارکنگ سٹینڈ پر کسی مخصوص ایریا کی نشاندہی یا پبلک کی آگاہی کے لئے بلدیہ کا اجازت نامہ اور ریٹ لسٹ آویزاں نہیں کی گئی یہی حال تحصیل آفس کے باہر اور کچہری کے اندر بنائے گئے تین چار پارکنگ سٹینڈ اور سرکاری ہسپتال کا ہے سوشل میڈیا اور اخبارات میں شہریوں کی شکایات اور تحظات میں شدت کے بعد یہ کہ پوسٹ آفس روڈ پر یو بی ایل بینک کے با ہر مبینہ طور پر خود ساختہ پارکنگ سٹینڈ سے شہری اور تاجر جو بنک میں بار آنے جانے سے خودساختہ تحفظ کے نام پر اپنے لٹنے کا سبب اور پریشانی بتا رہے ہیں جس پر راقم نے بنک مذکور کے وزٹ کا فیصلہ کیا راقم نے جب بنک کے باہر اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی توایک شخص نمودار ہوا جس نے مجھے سٹینڈکا انچارج بتایا اور بیس روپے کا ٹوکن دے دیا جس پریو بی ایلپارکنگ لکھا ہوا تھا ٹوکن دینے والے شخص نے میرے استفسار پر بتایاکہ یہ پارکنگ فیس یو بی ایل بنک کی طرف سے نہیں بلدیہ گوجرہ کی طرف سے ہے لیکن اس پر میونسپل کمیٹی گوجرہ کی طرف کوئی تحریر یا ثبوت موجود نہیں تھاجس پر میری تشویش میں اضافہ ہو گیا راقم نے استفسار کیا کہ اگر یہ ٹیکس بلدیہ کی طرف سے ہے تو اس پر بلدیہ گوجرہ کا نام اور رسید پر سیریل نمبر درج ہونا چاہیے جس پر وہ شخص کوئی معقول جواب نہیں دے سکا جب یہ رسید بنک کے مینجر کودکھائی گئی کہ اس پر یو بی ایل بنک پارکنگ لکھی ہوئی ہے تو وہ دنگ رہ گئے انہوں نے فرمایا ہم اس کو بنک کا نام استعمال کرنے سے روکتے ہیں راقم جب بنک سے باہر آیا تو دو نوجوان مذکورہ پارکنگ سٹینڈکے نام نہاد نگران کے ساتھ موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ ہم نے بلدیہ گوجرہ سے حدود بلدیہ گوجرہ مکمل شہر کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ہم کو اجازت ہے کہ ہم جہاں بھی شہر میں مجمع ہو پارکنگ سٹینڈبنا سکتے ہیں میری اپنی رائے کے مطابق بلدیہ گو جرہ کا پارکنگ سٹینڈ کی نشاندہی کے بغیر پورے شہر کو پارکنگ سٹینڈ کے ٹھیکہ داروں کے حوالے کرناغیر منصفانہ اقدام ہے سرکا رکی چھتری تلے کرپشن اسی طرح پرورش پاتی ہے جب روڈ کو بلاک یا گزر گاہ کو تنگ کر کے پارکنگ سٹینڈ بنا دیا جائے اس طریقے سے شہریوں کے ساتھ غنڈہ گردی بھی ہوتی ہے اور مصروف سڑکوں پرقانونی پارکنگ کے نام پر عام شہریوں اور ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں شہری کہتے ہیں کہ بلدیہ گوجرہ ٹیکسوں اور جرمانوں کی صورت میں پہلے ہی ڈھیر روپیہ اکٹھا کر رہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں شہروں کو جو ریلیف ملتا ہے وہ نا ہونے کے برابر ہے کسی روڈ پر اگر گٹر کا ڈھکن ٹوٹ جائے تو ہفتوں اس کا نیا ڈھکن نہیں لگتااور عام شہری ٹریفک کو حادثہ سے بچانے کے لئے چھڑی اور بوسیدہ کپڑے سے بلدیہ کی بے حسی کے مزار پر جھنڈا گاڈ دیتے ہیں اور اس سے ہونے والے حادثچات اور مسائل بلدیہ کو نظر نہیں آتے شہری پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تحفظ کے نام پر زبردستی کی پارکنگ فیس بہت سے شہریوں پر بارگراں گزرتی ہے لہٰذہ نجی اداروں اور بنک کے باہر پارکنگ سٹینڈ کی فیس ختم کی جائے یہ ان نجی اداروں کا نجی مسئلہ ہے میر ی بلدیہ گوجرہ کے اعلیٰ حکام بالشمول ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کمشنر فیصل آباد سے اپیل ہے کہ گوجرہ کے شہریوں کو نجی اداروں کے باہر قانون کی چھتری تلے پارکنگ فیس کے نام پر ہونے والی غنڈہ گردی سے بچایا جائے اور پارکنگ کے لئے حدوداربعہ کومتعین ومخصوص کیا جائے اس سلسلے میں متعلقہ اتھارٹی کااجازت نامہ اور ریٹ لسٹ آویزاں کی جائے رقم کی وصولی کی رسید دینے کا پابند کیا جائے
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کا مسئلہ۔۔تحریر- زاہد رؤف کمبوہDaily Pakistan  (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffar...
14/12/2024

گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کا مسئلہ۔۔تحریر- زاہد رؤف کمبوہ
Daily Pakistan (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 15-12-2024
Written by Zahid Rauf Kamboh Gojra (Toba Tek Singh)
گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کا مسئلہ
گوجرہ کے مسائل تو بہت سے ہیں مگر آج بات ہو گی اندرون شہر گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کی جو اطراف میں مقامی بس سٹینڈ اور دو چوراہوں کے ساتھ منسلک ہے جہاں ایک چوراہے سے انڈر پاس روڈ ٹوبہ روڈ اور ایک طرف ایسی سڑک منسلک ہے جو آگے جا کراندران شہر کے بازاروں فیصل آباد کو جانے والی پینسرہ روڈ موچی روڈ ملتان اور اسلام آبادکیلئے جانے والی موٹروے بذریعہ جھنگ روڈ ملاتی ہے جب کہ ریلوے پھاٹک کے دوسری طرف بس سٹینڈسمندری روڈ مونگی روڈ ڈجکوٹ روڈ اور سرشمیر روڈ کو آنے جانے والی ٹریفک منسلک ہے سکول ٹائم پربالخصوص چھٹی کے وقت ریلوے پھاٹک بند ہونے سے ٹریفک جام ہونے کے مسائل بڑھ جاتے ہیں انڈر پاس کو آنے جانے والا راستہ بھی تقریباََ بندہو جاتا ہے اور ٹریفک پولیس کی شدید کوشش کے باوجوداکثر گھنٹہ بھر ریلوے پھاٹک کو کلیئر کرنے پر لگ جاتا ہے اس ریلوے کو کشادہ کرنے میں مقامی سیاسی راہنما اس لئے بھی عدم دلچسپی اورچشم پوشی سے کا م لے رہے ہیں کیونکہ ریلوے پھاٹک کو کشادہ کرنے کے بعد منسلک شدہ چوراہوں کے ساتھ منسلک سڑکوں بالخصوص سمندری روڈ کو بھی کشادہ کرنا پڑے گا جہاں بلدیہ گوجرہ کے تہ بازاری ہولڈرز کی دوکانیں ہیں جو متاثر ہوں گی جس سے قومی اور صوبائی حلقہ کی سیاسی قیادت کے ووٹ بنک کے مسائل بنتے ہیں لہٰذہ چند ووٹوں کی خاطرروزانہ کی بنیاد پر وھاں سے گزرنے والے ہزاروں شہریوں کے مفادات مشکلات اور ٹریفک مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے مگرمیں یاد کروا دوں کہ تاریخ میں انہی لوگوں کو یاد اور دعاگو رکھا جاتا ہے جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں اور خلقت خدا کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہیں لہٰذہ میری گوجرہ کی وفاقی سطح کی قیادت اور حکومت پاکستان سے التجا ہ ہے کہ وہ مذکورہ ریلوے پھاٹک کی کشادگی کے لئے پیش رفت واقدامات کریں مذکورہ پھاٹک سے آگے سمندری روڈ کی فوری کشادگی ابھی اتنی ضروری نہیں ہے فی الحال صرف ریلوے پھاٹک کو کشادہ کرنے سے گوجرہ کے شہریوں اورٹریفک کا دیرینہ مسئلہ کم از کم پچاس فیصد تک حل ہو جائے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

Daily Mussalman Lahore , Islamabad. Karachi 11-12-2024
10/12/2024

Daily Mussalman Lahore , Islamabad. Karachi 11-12-2024

Daily Asas (Lahore Faisalabad Karachi Rawalpindi) تحریر - زاہدرؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)https://e.asas.pk/...
08/12/2024

Daily Asas (Lahore Faisalabad Karachi Rawalpindi) تحریر - زاہدرؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)
https://e.asas.pk/page.php?Page=4&date=09-12-2024&city=isb
حسد ہوس اور لالچ
معاشرے میں حسدہوس ا ور لالچ کی وجہ سے قتل بڑھتے جا رہے ہیں کہتے ہیں ہیں کہ دنیا میں پہلا قتل حضرت آدم ؑ کے بڑے بیٹے قابیل نے حسد کی بنا پر کیا تھا بتایا جاتا ہے حضرت آدمؑ کی اولاد میں جوڑے پیدا ہوتے تھے ایک نر اور ایک مادہ لہٰذہ اس وقت کے قانون کے مطابق قابیل کے چھوٹے بھائی ہابیل کی شادی قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی اس کی خوبصورت بہن کے ساتھ ہونا تھی جب کہ قابیل کی شادی ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن کے ساتھ ہونا تھی جو کہ خوبصورت نا تھی جس پر دنیا میں پہلی بغاوت قابیل نے کی اورحسد کی بنا پر اپنے چھوٹے بھائی کا قتل کر دیا اور پھر حسدہوس اور لالچ کا یہ سلسلہ آنے والی نسلوں میں سرائیت کرتا گیااور آج تک حضرت آدم ؑاور بعد میں آنے والے انبیاؑ کی تبلیغ اورنصیحت کے نافرمان شیطان کی فرماں برداری میں زن زر اور زمین پر ناجائزْقبضہ اورحصول کی خاطردھونس اور قتل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں انہی ناجائز خواہشات کی تکمیل اور جائیداد کے حصول کی خاطر کہیں ماں باپ بہن بھائیوں کے مقدس رشتوں کو نا صرف پامال کیا جاتا ہے بلکہ دردناک طریقے سے قتل بھی کیاجاتاہے سوسائٹی اورسوشل میڈیا سے بہت سی ایسی مثالیں اور خبریں علم میں آتی رہی ہیں کہ قریب المرگ ضعیف ولاغر بیمار بزرگوں کی جائیداد محکمہ مال کے عملہ سے مل کر ہڑپ کر لی اوریہاں تک الزام ہے کہ فوتگی کے بعد بھی مبینہ قبر کھود کر میت کے دستاویزات پر انگوٹھے لگائے گئے اور جائیداد ہتھیائی گئی میرے ایک صحافی دوست نے خبر دی ہے کہ شیخوپورہ میں کزن نے دو دوستوں کی مدد سے خالہ زاد بھائی کوقتل کرنے کے بعد انگوٹھا کاٹ کر دس لاکھ روپے اے ٹی ایم مشین کے ذریعے نکلوا لئے ملزمان مزید رقم نکلوانا چاہتے تھے کہ پولیس نے کار کی ڈگی سے بوری بند لاش جو کہ ملزمان نے نہر میں پھینکنا تھی اور کٹا ہوا انگوٹھا برآمد کرلیاخبرکا افسوسناک پہلو یہ بھی ے کہ مقتول اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اسی طرح ڈسکہ کی زاراقتل کیس بھی حسد کا شاخسانہ نکلا کہ ساس جو کہ اس کی خالہ تھی سے میاں بیوی کی محبت دیکھی نا جاتی تھی اسی سال اگست میں لاہور میں ایک سیاسی راہنما ڈاکٹر شاہدصدیق کے قتل میں بھی اس کا بد خصلت بیٹا ملوث پایا گیا تھا جو مبینہ طور پر اپنے والد سے کروڑوں روپے کی گاڑی حاصل کرنا چاہتا تھا ایک بار خبر ملی تھی کہ چچا نے اس بنا پر نوجوان کو قتل کر دیا تھا کہ وہ مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو گیا تھاایک بار شریکوں نے مبینہ طور پرحسد منافقت کی بنا پر برات کے آنے سے کچھ وقت قبل افسران سے سازباز کرکے شادی ھال ہی اس الزام میں سیل کروا دیا تھا کہ اس کی پارکنگ نہیں ہے وہ دور بھی تھا جب ٹینٹوں اور شادی ھال کا رواج نہیں تھا اور لوگ اپنے ارینج پر کھانا پکواتے تھے کسی اپنے اور سیانے(بزرگ) کو دیگ پر بیٹھاتے تھے اور مامے اور چچا تایا کے بیٹے برتاوا یعنی کھانا تقسیم کرتے تھے اور جو لوگ ادھرادھر آپس میں گفتگو میں مگن ہوتے تھے تو انہیں کوئی آواز لگا کربتاتا تھا کہ آجاؤ" روٹی کھل گئی جے "شریکے والے حسد اور بغض میں بعض اوقات کھاناکی تقسیم میں جان بوجھ کرڈنڈی مار جاتے تھے کہ لڑکے والو یا لڑکی والو کی برادری میں عزت و توقیر متاثرہوبہرحال اب بھی شریکے میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ بھائی لالچ اور حسد میں اپنے دوسرے بھائیوں بہنوں اور اور خاص طور پربیواہ بھابھی کی اولادکے حق مارنے میں ہر طرح کے الزامات خوف وہراس اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں میری نظر میں متوسط اور امیر گھرانوں میں ایسے واقعات کی تعداد زیادہ ہے جہاں زیادہ تر دینی تعلیمات اور راہنمائی کا فقدان ہے قرآن میں بھی اس سلسلہ میں سورۃ الفلق اورسورۃ الناس نازل ہوئی ہے یہ بنی نوع انسان کوایک طرح کا پیغام ہے کہ عزت اور رزق کا مالک اللہ کی ذات ہے لہٰذہ اسی سے حسد کی برائی سے پناہ مانگی جائے اپنے بھائی کی پریشانی پر خوشی منانے والے کو تنبیع ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ اسے نجات دے دے اور اس کوپریشانی میں مبتلا کر دے حسد ایسی برائی ہے جوخاندان قوم اور قبیلے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے حاسد منافق اور لالچی لوگ کسی کے دوست نہیں ہوتے لہٰذہ خیر اور بھلائی کے ساتھ رہنے میں ہی ایک دوسرے کی عافیت ہے حسد ہوس اور لالچ کرنے والوں کا انجام دنیا میں بھی اچھا نہیں ہواور آخرت میں بھی وہ سزاوار ہونگے
قلمکار ٌٌ
***
زاہد رؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

Daily Pakistan   تحریر۔زاہد رؤف کمبوہ  (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 8-12-2024
07/12/2024

Daily Pakistan تحریر۔زاہد رؤف کمبوہ (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 8-12-2024

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہhttps://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=07-12-2024&city=khihttps://e.dailymussalman.com/...
06/12/2024

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہ
https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=07-12-2024&city=khi
https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=07-12-2024&city=khi
فضائی آلودگی اور درخت
پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی زمین پر زرعی جنگل لگانے کافیصلہ کیا ہے مذکورہ سینئر صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ کی تمام سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیزپر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے فضا میں آکسجن بڑھے گی فضائی آلودگی میں کمی آئے گی اور یہ اقدام وزیر اعلیٰ کے مختصر درمیانی اور طویل مدتی ویژن کا حصہ ہے اس سلسلے میں سوسائٹیز میں شہروں اور شاہراہوں پر درختوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے گااس سلسلہ میں حکومت پنجا ب کا ویژن تو قابل تعریف ہے مگر اگر سابقہ ادوار کی طرح اس کو بیان بازی اور فوٹو سیشن تک محدود رکھا گیا تو یہ ناصرف وقت بلکہ سرکاری وسائل اور پیسہ کا ضیاع ہو گامجھے یاد ہے کہ 2021میں سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں میاوا کے اربن فارسٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں دس ارب درخت لگائے جائیں گے انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سال 2013 تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جب کہ انہوں نے سال 2013 سے سال 2018تک صرف خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت اگائے ہیں انہوں اس تقریر میں نیا ہدف دس ارب درخت اگانے کا بتایا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ درخت لگانا آسان ہے مگر اسکی دیکھ بال بھی کرنی ہے خان صاحب کی درخت لگاکر دیکھ بال والی بات بالکل درست تھی مگر اس کے لئے سابق وزیر اعظم نے کوئی طریقہ کار یا لائحہ عمل طے نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نتائج بہتر نا نکل سکے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن اداروں کے ذریعے درخت لگوائے جاتے ہیں ان کووسائل مہیا کر کے مذکورہ درختوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی تفویض کی جائے جس کی باقائدگی سے ماہانہ رپورٹ بھی حاصل کی جائے صرف درخت لگا کر اسے بھول جانا وقت اور قومی سرمائے کا ناقابل تلافی نقصان ہے ماضی میں درخت لگانے کے جو بلندو باگ دعوئے کئے گئے تھے اگر ان میں سے ایک چوتھائی درخت بھی پرورش پانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج ہمیں ملک میں ہر طرف کالونیوں رابطہ سڑکوں شاہراہوں اور زرعی زمینوں پرد درخت ہی درخت دیکھنے کو ملتے یہاں تو وہ درخت بھی پرورش نہیں پاسکے جو کسی مقتدر شخصیت نے فوٹو سیشن کے دوران لگائے تھے پودے لگانے کے بعد دیکھ بال کا اتنا فقدان رہتا ہے کہ اکثرمتعلقہ ادارے کے آفیسر یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ کسی نے اسے پانی بھی دیا ہے یا نہیں میر تجویز ہے کہ حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنائے کہ زمیندار اپنی کاشت کردہ زمین کے ہر ایکڑ میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے جس کی نگرانی کی ذمہ داری محکمہ مال وانہار کے پٹواریوں اور نمبرداروں کو دے دی جائے جو کاشتکار درخت نا لگائے یا جان بوجھ کر پروش میں کوتاہی کرے اس کو جرمانہ کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ َ گرین پنجاب کے نظریہ اور خواہش پر عملدرآمد ہو جائے گااس سلسلہ میں دیگر صوبوں کی تقلید سے پاکستان کے ماحول میں تبدیی واقع ہونے سے شہریوں کو سموگ سے نجات مل جائے گی اور موسم خوشگوار رہے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہhttps://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=05-12-2024&city=isbقدرت کاانتقامقدرت کا اپنا ایک...
05/12/2024

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہ
https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=05-12-2024&city=isb
قدرت کاانتقام
قدرت کا اپنا ایک نظام اور طریقہ کارہے جس کے طے شدہ اصول و ضوابط ہیں جو دنیا کو بناتے وقت اس کے خالق نے اس کو عطا کر دیئے تھے اور پھر مختلف مراحل میں انبیاء کے ذریعے اس کی تبلیغ کی گئی تھی انسان جب قدرت کے قانون سے ہٹ کر دنیاوی لذت عزت اور شہرت حاصل کرنے کے غلط طریقے اورذرائع استعمال کرتا ہے تو قدرت دنیا میں ہی انسان کوبتا دیتی ہے کہ جو لوگ اس کے طے شدہ اصول وضوابط سے ہٹ کرزندگی بسر کرتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتااور جب وقت تبدیل ہوتا ہے اور قدرت اپنے طے شدہ قانون کو توڑنے کا چالان کرتی ہے تو انسان کا تکبر عیاریاں چالاکیا ں اس کے کسی کام نہیں آتیں فرعون شدا د اور نمرود کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکی ہیں اس طرح کے لوگ جب زوال ذلت اور رسوائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ قدرت کا انتقام ہے حالانکہ جو لوگ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں یہ ان کے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں جو ان کو دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے جب کے ایسے لوگ آخرت میں بھی سزا کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے میں یہ باتیں اس لئے لکھ رھا ہوں کہ گزشتہ روز میں اخبار میں ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں ایک ایسے شخص کی داستان حیات لکھی تھی جو بڑا چالاک ذہین سمجھ دارزیرک اور تیز طرارسرکاری افسر تھا سیاستدانوں کا تعاون حاصل کرنے اور کرپشن کرنے میں بڑا ماہر مانا جاتاتھا پھر وہ امریکہ چلا گیاخوب ترقی کی ڈالر کمائے مگر کسی کام نا آئے وقت تبدیل ہو گیا اولاد نے جب امریکی معاشرے کی آزادی دیکھی تو سرکش ہو گئی ایک لڑکی نے ہند و سے لومیرج کر لی دوسری نے کالے سے یاری لگا کر بغیر شادی کے بچے پیدا کر لئے بیٹا ہم جنس پرستوں کے ہاتھ چڑھ گیا اور والدین ہاتھ ملتے پاکستان آگئے لوٹ مار کے پیسے نے سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا اب میں آپ کو والدکی نافرمانی کا ایک اور سچا واقعہ آپ کو سنانا چاہوں گا گزرے سالوں کی بات ہے کہ میں ایک دوست کے کلینک پر اخبارپڑھ رہا تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کلینک میں داخل ہو ااس کی بیوی بیمار تھی جسے ڈاکٹر کے پاس چھوڑکروہ چند منٹوں کے لئے میرے پاس بیٹھ گیا باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ عرب ملک میں کام کرتا ہے میں نے کہا کہ آج کے نوجوان اپنے ملک میں کام نہیں جبکہ باہر مزدوری بھی کر لیتے ہیں لیکن رشتہ داروں میں سچ جھوٹ بتا کر اپنی عزت کا بھرم رکھتے ہیں جس پر اس شخص نے کہا کہ میں آپ کو اپنی داستان بتاتا ہوں یہ اس کا مجھ پر اعتماد تھا داستان آپ بھی سن لیں اس کا کہنا تھا کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور فلا ں جگہ رہتا تھا میرے والد نے ایک بار مجھے کہا کہ واٹر سپلائی کی پائپ لائن سے کنکشن لینا ہے اس لئے مکان کے باہر گلی میں گڑھا کھود دو جس پر میں نے کسی پکڑ کر چند وار لگائے پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میرے ہمسائے اور دوست کیا کہیں گے میں نے اپنے والد کو انکار کر دیا کہ مزدور سے کام کروالو کچھ ہی عرصہ بعد میری کزن کے ساتھ میری شادی ہو گئی جس کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد میں آزاد ویزہ پر ایک عرب ملک میں چلا گیاجن دوستوں نے مجھے کام کا وعدہ کر کے بلایا تھا انہوں نے دس پندرہ دن مجھے اپنے پاس رکھ کر منہ پھیر لیااور مجھے نکال دیا مرتا کیا نا کرتا تجربہ تھا نہیں روٹی تو کھانی تھی گٹر صاف کرنے کا کام ملا تو میں نے گٹر صاف کرنے شروع کر دیئے ایک سال سے زیادہ عرصہ میں نے گٹر صاف کر کے گزارا کیا پھر مجھے دوسرا کا م مل گیا اس کاکہنا تھا کہ شادی کے چندماہ بعد میری بیوی نے تقاضا شروع کردیا کہ یا تو مجھے اپنے پاس لے کر جاؤ یا طلاق دے دو اس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ نا تو میں واپس آسکتا تھا نااسے بلا سکتا تھا ناچار شادی کے چھ ماہ بعدطلاق دینا پڑی اس نے بتایا کہ یہ میری دوسری شادی ہے اب میرے حالات ٹھیک ہیں اب میں چند دنوں بعد اپنی دوسری بیوی کو اپنے ساتھ لے کر جا رہاہوں یہ سبق ہے ان لوگون کے لئے جو والدین کی بات نہیں مانتے شریکے برادری میں جھوٹی عزت کی خاطر کام اور روزگارکا معیار ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اور ملک میں محنت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں اور جو والدین کی شفقت کواپنا حق گردانتے ہیں مگر والدین کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں جان لیں کہ حقوق العباد میں جہاں کسی کا حق بنتا ہے وھاں ساتھ ہی اس پر فرض بھی عائد ہوتا ہے
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

وہ دن یاد کریں جب حریم شاہ ریاست مدینہ کے قریشی وزارت خارجہ کے دفتر کے دروازے کو ٹھڈے سے کھول کر ٹک ٹاک بنا رہی تھی
03/12/2024

وہ دن یاد کریں جب حریم شاہ ریاست مدینہ کے قریشی وزارت خارجہ کے دفتر کے دروازے کو ٹھڈے سے کھول کر ٹک ٹاک بنا رہی تھی

ریاست مدینہ کے دعویداروں کے دور میں لکھی گئی ایک تحریر-
2020 میں قیدی نمبر804کی حکمرانی کا دور

Daily Asas   (تحریر۔زاہد رؤف کمبوہ)لاہور ۔کراچی ۔راولپنڈی۔ مظفرآباد۔ فیصل آبادفضائی آلودگی اور درختپنجاب کی سینئر صوبائی...
02/12/2024

Daily Asas (تحریر۔زاہد رؤف کمبوہ)
لاہور ۔کراچی ۔راولپنڈی۔ مظفرآباد۔ فیصل آباد
فضائی آلودگی اور درخت
پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی زمین پر زرعی جنگل لگانے کافیصلہ کیا ہے مذکورہ سینئر صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ کی تمام سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیزپر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے فضا میں آکسجن بڑھے گی فضائی آلودگی میں کمی آئے گی اور یہ اقدام وزیر اعلیٰ کے مختصر درمیانی اور طویل مدتی ویژن کا حصہ ہے اس سلسلے میں سوسائٹیز میں شہروں اور شاہراہوں پر درختوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے گااس سلسلہ میں حکومت پنجا ب کا ویژن تو قابل تعریف ہے مگر اگر سابقہ ادوار کی طرح اس کو بیان بازی اور فوٹو سیشن تک محدود رکھا گیا تو یہ ناصرف وقت بلکہ سرکاری وسائل اور پیسہ کا ضیاع ہو گامجھے یاد ہے کہ 2021میں سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں میاوا کے اربن فارسٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں دس ارب درخت لگائے جائیں گے انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سال 2013 تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جب کہ انہوں نے سال 2013 سے سال 2018تک صرف خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت اگائے ہیں انہوں اس تقریر میں نیا ہدف دس ارب درخت اگانے کا بتایا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ درخت لگانا آسان ہے مگر اسکی دیکھ بال بھی کرنی ہے خان صاحب کی درخت لگاکر دیکھ بال والی بات بالکل درست تھی مگر اس کے لئے سابق وزیر اعظم نے کوئی طریقہ کار یا لائحہ عمل طے نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نتائج بہتر نا نکل سکے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن اداروں کے ذریعے درخت لگوائے جاتے ہیں ان کووسائل مہیا کر کے مذکورہ درختوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی تفویض کی جائے جس کی باقائدگی سے ماہانہ رپورٹ بھی حاصل کی جائے صرف درخت لگا کر اسے بھول جانا وقت اور قومی سرمائے کا ناقابل تلافی نقصان ہے ماضی میں درخت لگانے کے جو بلندو باگ دعوئے کئے گئے تھے اگر ان میں سے ایک چوتھائی درخت بھی پرورش پانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج ہمیں ملک میں ہر طرف کالونیوں رابطہ سڑکوں شاہراہوں اور زرعی زمینوں پرد درخت ہی درخت دیکھنے کو ملتے یہاں تو وہ درخت بھی پرورش نہیں پاسکے جو کسی مقتدر شخصیت نے فوٹو سیشن کے دوران لگائے تھے پودے لگانے کے بعد دیکھ بال کا اتنا فقدان رہتا ہے کہ اکثرمتعلقہ ادارے کے آفیسر یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ کسی نے اسے پانی بھی دیا ہے یا نہیں میر تجویز ہے کہ حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنائے کہ زمیندار اپنی کاشت کردہ زمین کے ہر ایکڑ میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے جس کی نگرانی کی ذمہ داری محکمہ مال وانہار کے پٹواریوں اور نمبرداروں کو دے دی جائے جو کاشتکار درخت نا لگائے یا جان بوجھ کر پروش میں کوتاہی کرے اس کو جرمانہ کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ َ گرین پنجاب کے نظریہ اور خواہش پر عملدرآمد ہو جائے گااس سلسلہ میں دیگر صوبوں کی تقلید سے پاکستان کے ماحول میں تبدیی واقع ہونے سے شہریوں کو سموگ سے نجات مل جائے گی اور موسم خوشگوار رہے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

فضائی آلودگی اور درختپنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے لاکھوں ای...
02/12/2024

فضائی آلودگی اور درخت
پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی زمین پر زرعی جنگل لگانے کافیصلہ کیا ہے مذکورہ سینئر صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ کی تمام سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیزپر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے فضا میں آکسجن بڑھے گی فضائی آلودگی میں کمی آئے گی اور یہ اقدام وزیر اعلیٰ کے مختصر درمیانی اور طویل مدتی ویژن کا حصہ ہے اس سلسلے میں سوسائٹیز میں شہروں اور شاہراہوں پر درختوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے گااس سلسلہ میں حکومت پنجا ب کا ویژن تو قابل تعریف ہے مگر اگر سابقہ ادوار کی طرح اس کو بیان بازی اور فوٹو سیشن تک محدود رکھا گیا تو یہ ناصرف وقت بلکہ سرکاری وسائل اور پیسہ کا ضیاع ہو گامجھے یاد ہے کہ 2021میں سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں میاوا کے اربن فارسٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں دس ارب درخت لگائے جائیں گے انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سال 2013 تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جب کہ انہوں نے سال 2013 سے سال 2018تک صرف خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت اگائے ہیں انہوں اس تقریر میں نیا ہدف دس ارب درخت اگانے کا بتایا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ درخت لگانا آسان ہے مگر اسکی دیکھ بال بھی کرنی ہے خان صاحب کی درخت لگاکر دیکھ بال والی بات بالکل درست تھی مگر اس کے لئے سابق وزیر اعظم نے کوئی طریقہ کار یا لائحہ عمل طے نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نتائج بہتر نا نکل سکے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن اداروں کے ذریعے درخت لگوائے جاتے ہیں ان کووسائل مہیا کر کے مذکورہ درختوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی تفویض کی جائے جس کی باقائدگی سے ماہانہ رپورٹ بھی حاصل کی جائے صرف درخت لگا کر اسے بھول جانا وقت اور قومی سرمائے کا ناقابل تلافی نقصان ہے ماضی میں درخت لگانے کے جو بلندو باگ دعوئے کئے گئے تھے اگر ان میں سے ایک چوتھائی درخت بھی پرورش پانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج ہمیں ملک میں ہر طرف کالونیوں رابطہ سڑکوں شاہراہوں اور زرعی زمینوں پرد درخت ہی درخت دیکھنے کو ملتے یہاں تو وہ درخت بھی پرورش نہیں پاسکے جو کسی مقتدر شخصیت نے فوٹو سیشن کے دوران لگائے تھے پودے لگانے کے بعد دیکھ بال کا اتنا فقدان رہتا ہے کہ اکثرمتعلقہ ادارے کے آفیسر یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ کسی نے اسے پانی بھی دیا ہے یا نہیں میر تجویز ہے کہ حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنائے کہ زمیندار اپنی کاشت کردہ زمین کے ہر ایکڑ میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے جس کی نگرانی کی ذمہ داری محکمہ مال وانہار کے پٹواریوں اور نمبرداروں کو دے دی جائے جو کاشتکار درخت نا لگائے یا جان بوجھ کر پروش میں کوتاہی کرے اس کو جرمانہ کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ َ گرین پنجاب کے نظریہ اور خواہش پر عملدرآمد ہو جائے گااس سلسلہ میں دیگر صوبوں کی تقلید سے پاکستان کے ماحول میں تبدیی واقع ہونے سے شہریوں کو سموگ سے نجات مل جائے گی اور موسم خوشگوار رہے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

Daily Pakistan  (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 1-12-2024 Written by "Zahid Rauf Kambo...
30/11/2024

Daily Pakistan (Islamabad , Karachi ,Quetta , Rawalpindi , Muzaffarabad ,Multan) 1-12-2024
Written by "Zahid Rauf Kamboh" Gojra (Toba Tek Singh)

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہhttps://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=27-11-2024&city=isbقدرت کاانتقامقدرت کا اپنا ایک...
27/11/2024

قلمکار۔ زاہد رؤف کمبوہ
https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=27-11-2024&city=isb
قدرت کاانتقام
قدرت کا اپنا ایک نظام اور طریقہ کارہے جس کے طے شدہ اصول و ضوابط ہیں جو دنیا کو بناتے وقت اس کے خالق نے اس کو عطا کر دیئے تھے اور پھر مختلف مراحل میں انبیاء کے ذریعے اس کی تبلیغ کی گئی تھی انسان جب قدرت کے قانون سے ہٹ کر دنیاوی لذت عزت اور شہرت حاصل کرنے کے غلط طریقے اورذرائع استعمال کرتا ہے تو قدرت دنیا میں ہی انسان کوبتا دیتی ہے کہ جو لوگ اس کے طے شدہ اصول وضوابط سے ہٹ کرزندگی بسر کرتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتااور جب وقت تبدیل ہوتا ہے اور قدرت اپنے طے شدہ قانون کو توڑنے کا چالان کرتی ہے تو انسان کا تکبر عیاریاں چالاکیا ں اس کے کسی کام نہیں آتیں فرعون شدا د اور نمرود کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکی ہیں اس طرح کے لوگ جب زوال ذلت اور رسوائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ قدرت کا انتقام ہے حالانکہ جو لوگ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں یہ ان کے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں جو ان کو دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے جب کے ایسے لوگ آخرت میں بھی سزا کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے میں یہ باتیں اس لئے لکھ رھا ہوں کہ گزشتہ روز میں اخبار میں ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں ایک ایسے شخص کی داستان حیات لکھی تھی جو بڑا چالاک ذہین سمجھ دارزیرک اور تیز طرارسرکاری افسر تھا سیاستدانوں کا تعاون حاصل کرنے اور کرپشن کرنے میں بڑا ماہر مانا جاتاتھا پھر وہ امریکہ چلا گیاخوب ترقی کی ڈالر کمائے مگر کسی کام نا آئے وقت تبدیل ہو گیا اولاد نے جب امریکی معاشرے کی آزادی دیکھی تو سرکش ہو گئی ایک لڑکی نے ہند و سے لومیرج کر لی دوسری نے کالے سے یاری لگا کر بغیر شادی کے بچے پیدا کر لئے بیٹا ہم جنس پرستوں کے ہاتھ چڑھ گیا اور والدین ہاتھ ملتے پاکستان آگئے لوٹ مار کے پیسے نے سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا اب میں آپ کو والدکی نافرمانی کا ایک اور سچا واقعہ آپ کو سنانا چاہوں گا گزرے سالوں کی بات ہے کہ میں ایک دوست کے کلینک پر اخبارپڑھ رہا تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کلینک میں داخل ہو ااس کی بیوی بیمار تھی جسے ڈاکٹر کے پاس چھوڑکروہ چند منٹوں کے لئے میرے پاس بیٹھ گیا باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ عرب ملک میں کام کرتا ہے میں نے کہا کہ آج کے نوجوان اپنے ملک میں کام نہیں جبکہ باہر مزدوری بھی کر لیتے ہیں لیکن رشتہ داروں میں سچ جھوٹ بتا کر اپنی عزت کا بھرم رکھتے ہیں جس پر اس شخص نے کہا کہ میں آپ کو اپنی داستان بتاتا ہوں یہ اس کا مجھ پر اعتماد تھا داستان آپ بھی سن لیں اس کا کہنا تھا کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور فلا ں جگہ رہتا تھا میرے والد نے ایک بار مجھے کہا کہ واٹر سپلائی کی پائپ لائن سے کنکشن لینا ہے اس لئے مکان کے باہر گلی میں گڑھا کھود دو جس پر میں نے کسی پکڑ کر چند وار لگائے پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میرے ہمسائے اور دوست کیا کہیں گے میں نے اپنے والد کو انکار کر دیا کہ مزدور سے کام کروالو کچھ ہی عرصہ بعد میری کزن کے ساتھ میری شادی ہو گئی جس کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد میں آزاد ویزہ پر ایک عرب ملک میں چلا گیاجن دوستوں نے مجھے کام کا وعدہ کر کے بلایا تھا انہوں نے دس پندرہ دن مجھے اپنے پاس رکھ کر منہ پھیر لیااور مجھے نکال دیا مرتا کیا نا کرتا تجربہ تھا نہیں روٹی تو کھانی تھی گٹر صاف کرنے کا کام ملا تو میں نے گٹر صاف کرنے شروع کر دیئے ایک سال سے زیادہ عرصہ میں نے گٹر صاف کر کے گزارا کیا پھر مجھے دوسرا کا م مل گیا اس کاکہنا تھا کہ شادی کے چندماہ بعد میری بیوی نے تقاضا شروع کردیا کہ یا تو مجھے اپنے پاس لے کر جاؤ یا طلاق دے دو اس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ نا تو میں واپس آسکتا تھا نااسے بلا سکتا تھا ناچار شادی کے چھ ماہ بعدطلاق دینا پڑی اس نے بتایا کہ یہ میری دوسری شادی ہے اب میرے حالات ٹھیک ہیں اب میں چند دنوں بعد اپنی دوسری بیوی کو اپنے ساتھ لے کر جا رہاہوں یہ سبق ہے ان لوگون کے لئے جو والدین کی بات نہیں مانتے شریکے برادری میں جھوٹی عزت کی خاطر کام اور روزگارکا معیار ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اور ملک میں محنت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں اور جو والدین کی شفقت کواپنا حق گردانتے ہیں مگر والدین کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں جان لیں کہ حقوق العباد میں جہاں کسی کا حق بنتا ہے وھاں ساتھ ہی اس پر فرض بھی عائد ہوتا ہے
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=26-11-2024&city=isbفضائی آلودگی اور درختپنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مری...
26/11/2024

https://e.dailymussalman.com/page.php?Page=4&date=26-11-2024&city=isb
فضائی آلودگی اور درخت
پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی زمین پر زرعی جنگل لگانے کافیصلہ کیا ہے مذکورہ سینئر صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ کی تمام سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیزپر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے فضا میں آکسجن بڑھے گی فضائی آلودگی میں کمی آئے گی اور یہ اقدام وزیر اعلیٰ کے مختصر درمیانی اور طویل مدتی ویژن کا حصہ ہے اس سلسلے میں سوسائٹیز میں شہروں اور شاہراہوں پر درختوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے گااس سلسلہ میں حکومت پنجا ب کا ویژن تو قابل تعریف ہے مگر اگر سابقہ ادوار کی طرح اس کو بیان بازی اور فوٹو سیشن تک محدود رکھا گیا تو یہ ناصرف وقت بلکہ سرکاری وسائل اور پیسہ کا ضیاع ہو گامجھے یاد ہے کہ 2021میں سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں میاوا کے اربن فارسٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں دس ارب درخت لگائے جائیں گے انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سال 2013 تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جب کہ انہوں نے سال 2013 سے سال 2018تک صرف خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت اگائے ہیں انہوں اس تقریر میں نیا ہدف دس ارب درخت اگانے کا بتایا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ درخت لگانا آسان ہے مگر اسکی دیکھ بال بھی کرنی ہے خان صاحب کی درخت لگاکر دیکھ بال والی بات بالکل درست تھی مگر اس کے لئے سابق وزیر اعظم نے کوئی طریقہ کار یا لائحہ عمل طے نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نتائج بہتر نا نکل سکے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن اداروں کے ذریعے درخت لگوائے جاتے ہیں ان کووسائل مہیا کر کے مذکورہ درختوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی تفویض کی جائے جس کی باقائدگی سے ماہانہ رپورٹ بھی حاصل کی جائے صرف درخت لگا کر اسے بھول جانا وقت اور قومی سرمائے کا ناقابل تلافی نقصان ہے ماضی میں درخت لگانے کے جو بلندو باگ دعوئے کئے گئے تھے اگر ان میں سے ایک چوتھائی درخت بھی پرورش پانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج ہمیں ملک میں ہر طرف کالونیوں رابطہ سڑکوں شاہراہوں اور زرعی زمینوں پرد درخت ہی درخت دیکھنے کو ملتے یہاں تو وہ درخت بھی پرورش نہیں پاسکے جو کسی مقتدر شخصیت نے فوٹو سیشن کے دوران لگائے تھے پودے لگانے کے بعد دیکھ بال کا اتنا فقدان رہتا ہے کہ اکثرمتعلقہ ادارے کے آفیسر یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ کسی نے اسے پانی بھی دیا ہے یا نہیں میر تجویز ہے کہ حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنائے کہ زمیندار اپنی کاشت کردہ زمین کے ہر ایکڑ میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے جس کی نگرانی کی ذمہ داری محکمہ مال وانہار کے پٹواریوں اور نمبرداروں کو دے دی جائے جو کاشتکار درخت نا لگائے یا جان بوجھ کر پروش میں کوتاہی کرے اس کو جرمانہ کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ َ گرین پنجاب کے نظریہ اور خواہش پر عملدرآمد ہو جائے گااس سلسلہ میں دیگر صوبوں کی تقلید سے پاکستان کے ماحول میں تبدیی واقع ہونے سے شہریوں کو سموگ سے نجات مل جائے گی اور موسم خوشگوار رہے گا
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ, غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

Address

Gojra
36120

Telephone

+923356552655

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qalamkaar قلمکار posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share