02/07/2024
ظلم نھیں تو کیا ھے
گلگت بلتستان کا داخلی دروازہ دیامر ھے جس کا ہیڈکوارٹر ھونے کا اعزاز چلاس شہر کو حاصل ھے یہ شہر ضلع بھر کا چہرہ ھے لیکن یہاں کے بسنے والے عوام انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔
#پانی
پانی بنیادی انسانی ضرورت ھے لیکن چلاس کے باسی پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے ہیں واٹر سپلائی کا نظام تباہی کا شکار ھے فراہمی اب کا کروڑوں روپے مالیت کا منصوبہ 20 سالوں سے آج تک مکمل نھیں ھوسکا نتیجتاً علاقہ کربلا کا منظر پیش کرتا ھے۔
#بجلی
دیامر کے ہیڈکوارٹر چلاس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شدید گرمی میں عوام کو ازیت ناک صورتحال سے دو چار کر رکھا ہے جب بجلی آتی ھے تو وولٹیج کی اسقدر کمی ھوتی ھے کہ پنکھا صرف حرکت کرتا ہے لیکن ھوا دینے کی ہمت نھیں کرتا ہے گھروں میں برقی آلات کم وولٹیج کی وجہ سے خراب ھورہے ہیں محکمہ برقیات بجلی کی بلا تعطل فراہمی میں بری طرح ناکام ثابت ھوا ھے محکمہ برقیات میں باقاعدہ ایک مافیا قابض ھے بتایا جاتا ہے کہ ملازمین خود ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں کوئی ایماندار افسر ( محبت خان) جیسے اصلاح احوال کی کوشش کرتے ہیں تو چنار باغ میں بیٹھے صاحبان تک حرکت میں آجاتے ہیں تو پھر تبادلہ کر کے ایماندار افسر کو چلاس سے کسی دوسرے ضلع میں پھینک کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے پن بجلی کے اہم منصوبے برسوں سے التواء کا شکار ہیں جس میں ٹھیکدار اور ادارے کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت شامل ھے ۔
#تعلیم
دیامر کی غریب اور پسماندہ کی اہم وجوہات میں تعلیم سے دوری بھی شامل ہے آج بھی پورے ضلع میں صرف ایک گرلز ہائی سکول ھے جس میں طالبات کا اتنا رش ھوتا ھے کہ سکول کی بلڈنگ ناکافی ھے ہوم سکولز کے نام پر ایک الگ کاروبار برسوں سے جاری ہے سکولوں کے حوالے سے ماضی قریب میں جس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اس سے دیامر کا منفی تاثر دنیا کے سامنے آیا ہے ضلع میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کے دعوے بہت کئے گئے تعلیمی جرگے کے نام پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پرائمری اسکول سے لیکر یونیورسٹی کیمپس تک کے حالات قابل رحم ہیں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کی سازشوں نے دیامر کی بنیادی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں ۔
#صحت
چلاس میں 24 سال قبل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع ھوا 23 سال بعد کہی جاکر ہسپتال کی تعمیر کا کام کسی حد تک پایہ تکمیل کو پہنچا لیکن اس عرصے میں ہسپتال قابل ڈاکٹروں اور دیگر سہولیات سے محروم رہا اب کہی جاکر کچھ ڈاکٹروں کی ہسپتال میں موجودگی ممکن ھوئی ھے لیکن ہسپتال میں اہم سہولیات کا فقدان ھے بتایا جاتا ہے کہ ہسپتال میں بھی ایک مافیا ھے جو ہسپتال کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایکسرے کی فلم تک ہسپتال میں میسر نہیں ہے حالانکہ شاھراہ قراقرم اور بابوسر روڑ میں پیش آنے والے حادثات کے زخمیوں کو بھی علاج کے لیے یہاں لایا جاتا ہے چلاس میں مکمل سہولیات سے آراستہ ہسپتال وقت کی اہم ضرورت ھے ۔
چلاس شہر میں نکاسی اب کا کوئی نظام سرے سے موجود نھیں ھے خستہ حال واٹر سپلائی کے نظام سے بہہ کر آنے والا پانی ، گھروں کی نکاسی اور بارش کا پانی گلیوں اور سڑکوں میں بہتا ملے گا ۔
دیامر کے ہیڈکوارٹر چلاس میں اگر کو آپ گلی محلوں سے گزرنے کا اتفاق ھوگا تو آپ اپنے کان پکڑ کر رہ جائیں گے انتہائی تنگ گلیاں اور رابطہ سڑکیں وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈرات کا منظر پیش کرتی دیکھائی دینگی ۔
چلاس شہر میں آپ موسم سرما ، موسم گرما ، بہار یا خزاں میں جائیں آپ کو سیزنل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کی گھٹیا ترین سروس کا سامنا کرنا پڑے گا اکثر اوقات ٹاور بند رکھے جاتے ہیں یوں دیامر بھر میں اور چلاس میں بلخصوص آپ کو ایس کام سروس مردہ حالت میں ملے گی اب بھی دیامر کے بہت سے علاقے ہیں جہاں سروس میسر نہیں ہے ۔
دیامر کا شمار ملک کے غربت زدہ اضلاع میں ھوتا ھے یہاں کے عوام کی اکثریت کو غربت اور بےروزگاری کا سامنا ہے روزگار کے مواقع نہ ھونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے علاقے میں بے روزگای عروج پر ھے جو مذید کئی مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ھے ۔
دوستوں ان سطور میں دیامر اور اس کے ہیڈکوارٹر میں بسنے والے عوام کو درپیش حالات کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش ھے جس سے آپ کو دیامر کی پسماندگی ، غربت اور دیگر مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی اس وقت گلگت بلتستان میں حکومت دیامر کی ھے حاجی گلبر خان تانگیر سے تعلق رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ دیامر اور اس کے ہیڈکوارٹر چلاس میں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے سنجیدہ کوشش کریں باقی دیامر کے منتخب ممبران اسمبلی تو گلگت میں بیٹھ کر مزے کر رہے ہیں جو پانچ سال مکمل ھونے پر پھر حلقے میں جائیں گے اور قومیت کے نام پر پیسوں کی بنیاد پر ووٹ لیکر دوبارہ اسمبلی میں آنے کے بعد اگلے پانچ سال تک اپنے علاقے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھیں گے ۔
از قلم ۔ عبدالرحمان بخاری گلگت