Rghasha yoll

Rghasha yoll Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Rghasha yoll, Media, Baltistan, Gilgit.

28/04/2023
تب تھو اونگ سیت
12/02/2022

تب تھو اونگ سیت

افسوسناک خبر آہ : حسنین منڈوق اب ہم میں نہ نہیں رہا صوبائی وزیر تعمیرات وزیرسلیم کے  گن مین کی فائرنگ  قاتل کو عبرت ناک ...
05/07/2021

افسوسناک خبر آہ : حسنین منڈوق اب ہم میں نہ نہیں رہا صوبائی وزیر تعمیرات وزیرسلیم کے گن مین کی فائرنگ

قاتل کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اور مقتول کے لواحقین کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔اللہ مقتول کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو اس عظیم سانحے کو برداشت کرنے کی ہمت و صبر عطا فرمائے۔آمین۔

گانچھے ڈپٹی کمیشنر کے طرف پورے گانچھے میں دریاؤں میں نہانے پر دفعہ 144 نافذ
05/05/2021

گانچھے ڈپٹی کمیشنر کے طرف پورے گانچھے میں دریاؤں میں نہانے پر دفعہ 144 نافذ

امیر اباد چھوربٹ کے باسی محکمہ برقیات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں
04/05/2021

امیر اباد چھوربٹ کے باسی محکمہ برقیات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

پبلیک سکول اینڈ کالج سکردو میں دو پازٹیو کیس سکول ایک ہفتہ کے لئے بند
19/04/2021

پبلیک سکول اینڈ کالج سکردو میں دو پازٹیو کیس سکول ایک ہفتہ کے لئے بند

01/04/2021


آخری لوگ...
1950 سے 1999 میں پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں.
کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔
جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھیں۔
جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔
گاؤں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے.
پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ
ہم گاؤں کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے.
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے
ہم وہ بہترین لوگ ہیں
جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو۔
رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو اکثر گاؤں والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری ہم تھے۔
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب صحن میں سوتے تھے
گرم مٹی پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
اور اب ﻣﻮﺑﻞ ﺁﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔
ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﺭﯾﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺭﺍﺕ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﮐﻮﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔کیونکہ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺞ ﮨﮯ ‘ ﻓﺮﯾﺰﺭ ﮨﮯ ‘
ﺍﺏ ﺗﻨﺪﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺍﺏ ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻠﺘﮯ-
ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔
ﺑﭽﮯ ﺍﺏ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ' ﯾﺎﺭ ‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﻠﺐ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ ﺍﯼ ﮈﯼ ﻣﯿﮟ۔
ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺑﻞ ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮔﺪﮮ۔
ﺍﺏ ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺗﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﯿﺎﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﮉ ﻻﺋﻦ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ خاندان کے بچوں کے لیئے کلونے ' ‘ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﯿﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﺮﺳﯿﺎﮞ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ... ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﺳﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘ ﺳﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺑﮭﯽ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻂ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﺌﮯ ﺳﮯ ﺧﻂ ﭘﮍﮬﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮈﺍﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﮍﮪ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺴﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ' ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻓﺘﺢ ﻗﺮﯾﺐ ‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ '' ﺍﻭﮐﮯ ‘‘ ﻧﮩﯿﮟ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ‘ ‘ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮨﺮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﻮﻧﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ‘ ﭘﻤﭗ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻧﯿﺎﺯ ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ '' ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ " ﺍﻭﺭ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ تھا-
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺩُﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ‘ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ' ﺑﮩﺎﻧﮯ ‘ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔
ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮐﮭﮯ۔
ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﻟﯿﭗ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻟﯿﮑﻦ ... ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔
ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭨﻮﺗﮫ ﭘﯿﺴﭧ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﮩﻮﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮈﺑﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ‘ * ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ‘ ﺳﺮﺩﺭﺩ ‘ ﺑﻠﮉ ﭘﺮﯾﺸﺮ ‘ ﻧﯿﻨﺪ ﺍﻭﺭﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ * ۔💔
اب تو وہ صحن میں سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔
کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل بے حس زمانہ آ گیا۔
لیکن اج کا جینیریشن جب ان باتوں کو سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ اسے جہالت کا نام دیتا ہے۔۔۔کیونکہ ان لوگوں نے یہ دور اپنی زندگی میں محسوس ہی نہیں کی ہے ۔۔تو اس کی قدر کیسے ہوگی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہم ہے جو اج بھی یہ حسرت دل میں بٹھائے ہیں کہ۔۔
"کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے "
کیونکہ
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔
یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔
جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔
کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔
اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔
وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔
شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔
اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔
پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔
اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔
اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔
مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔
ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔
اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔
ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔
ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا

28/03/2021

گلگت بلتستان
علمائے دیامر کا پیغام امن ۔۔
نلتر میں پیش آنے والے واقعے نے گلگت بلتستان کے ہر ذی شعور اور انسانیت کا درد رکھنے والے اور علاقے کے امن سے محبت کرنے والے ہر فرد کو اس پر دکھ ہوا تھا اس وحشتناک دھشتگردی کے خلاف گلگت بلتستان کی پوری مسلم قوم میدان میں اتری تھی سب کا یہی نعرہ تھا کہ گلگت بلتستان کے امن خراب کرنے والے درندوں کو حکومت
فی الفور گرفتار کرے ۔
الحمدللہ ریاست نے زمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بروقت کارروائی عمل میں لا کر امن دشمن قوتوں کو بتا دیا کہ یہاں کے اداروں میں اتنی طاقت موجود ہے کہ کوئی ملک دشمن عناصر ہوں یا امن عامہ کو خراب کرنے والے دھشتگرد، اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے
اس بروقت اور فوری کارروائی پر ھم علماء دیامر گلگت بلتستان بشمول کوہستان صوبائی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ۔ فورس کمانڈر ۔ چیف سیکرٹری پولیس ڈیپارٹمنٹ ۔خفیہ ادارے ۔اور ضلعی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں
اور امید رکھتے ہیں آئندہ بھی ان شاءاللہ قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے میں کامیاب ہونگے تو قانون شکن عناصر اور دہشت گرد گروہ کبھی بھی اپنے ناکام عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور دھشتگردی کے تمام راستے مسدود ہونگے عوام الناس اور تمام احباب سے گزارش ہے سوشل میڈیا پر خوف و ہراس پھیلا نے والے مواد شئیر کرنے سے اجتناب کریں اس سےدشمن قوتوں کو اپنے ناکام عزائم کی تکمیل کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے اور ساتھ ہی علماء نے عوام سے اپیل کی ہے کہ، کے کے ایچ روڈ اور حدود دیامر میں کسی قسم کی بد امنی اور انتشار پیھلانے سے اجتناب کریں،اورشرپسندعناصرپرکڑی نظر رکھیں تاکہ علاقے کا بد خواہ آپ کی بدنامی اور امن عامہ
کی خرابی کا باعث نہ بنیں الحمدللہ دیامر دھشتگردی سے پاک ھے یہاں ریاستی دھشتگرد موجود نہیں کوئی دوسرا شخص ھمارا روپ دھار کر ھمیں بدنام نہ کرےھماری معمولی غلطی سے بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے گلگت بلتستان کے مسلمانوں اور ہر محب وطن باسی کا مدعاپورا ہو گیا ہے ان شاءاللہ آئیندہ بھی ملکر ملک وملت کی بقاء امن اور سلامتی و استحکام کے لیے کردار ادا کرتے رہینگے
منجانب یوتھ علماء کونسل دیامر
علماء دیامر وگلگت بلتستان و کوہستان

05/02/2021

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص ٹیکسی میں سوار ہوا تو کیا ہوا؟ زبان نہ آنے کی وجہ سے زیادہ بات تو نہ کر سکا، بس اس انسٹیٹوٹ کا نام لیا جہاں اسے جانا تھا، ٹیکسی ڈرائیور سمجھ گیا، اس نے سر جھکایا اور مسافر کو دروازہ کھول کر بٹھایا۔

اس طرح بٹھانا ان کا کلچر ہے۔ سفر کا آغاز ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے میٹر آن کیا، تھوڑی دیر کے بعد بند کر دیا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آن کر دیا، مسافر حیران تھا مگر زبان نہ آنے کی وجہ سے چپ رہا، جب انسٹیٹوٹ پہنچا تو استقبال کرنے والوں سے کہنے لگا، پہلے تو آپ اس ٹیکسی ڈرائیور سے یہ پوچھیں کہ اس نے دورانِ سفر کچھ دیر گاڑی کا میٹر کیوں بند رکھا؟ مسافر کی شکایت پر لوگوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا ’’راستے میں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے جس جگہ سے مڑنا تھا، وہاں سے نہ مڑ سکا، اگلا یوٹرن کافی دور تھا، میری غلطی کے باعث دو ڈھائی کلومیٹر سفر اضافی کرنا پڑا، اس دوران میں نے گاڑی کا میٹر بند رکھا، جو مسافت میں نے اپنی غلطی سے بڑھائی اس کے پیسے میں مسافر سے نہیں لے سکتا‘‘۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ اس ڈرائیور نے نہ چلہ لگایا تھا، نہ وہ نماز پڑھتا تھا، نہ کلمہ، نہ اس کی داڑھی تھی، نہ جبہ، نہ ٹوپی، نہ پگڑی تھی مگر دیانتداری تھی، ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر دیانتداری اور ایمانداری نہیں ہے۔ ہم مسلمان تو ضرور ہیں مگر ہمارے پاس اسلام نہیں ہے، اسلام پگڑی کا نام نہیں، اسلام کرتے، پاجامے اور داڑھی کا نام نہیں، اسلام سچ بولنے کا نام ہے، اسلام ایمانداری کا نام ہے، وعدہ پورا کرنے کا نام ہے، اسلام صحیح ناپنے اور پورا تولنے کا نام ہے، وقت کی پابندی کا نام ہے، اسلام دیانتداری کا نام ہے

جیتنے Sponsers اور مالی مدد غیر ملکی کوہ پیماوّں کو ملتی ہے اگر اس سے آدھے بھی اگر ہم پاکستانیوں کوہ پیماوں کو ملے تو تا...
18/01/2021

جیتنے Sponsers اور مالی مدد غیر ملکی کوہ پیماوّں کو ملتی ہے اگر اس سے آدھے بھی اگر ہم پاکستانیوں کوہ پیماوں کو ملے تو تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔
اَلْحَمْدُلِلّٰه محدود وسائل اور محدود ٹیکنالوجی کے ساتھ میں اب بھی اپنے بیٹے کے ساتھ K2 پر موجود ہوں۔
قوم دعا کرے جلد خوشخبری ملے گی۔
محمد علی سدپارہ

15/01/2021
سکردو گوشت کا نیا نرخ نامہ
12/01/2021

سکردو گوشت کا نیا نرخ نامہ

09/01/2021

چھوربٹ حسن آبادی مون گون

05/01/2021

موسم سرما میں گلگت بلتستان کی حکومت اور اسمبلی کے ممبران کا اسلام آباد شفٹ ہونے کی روایت کافی پرانی ہے۔ ماضی کی اس عظیم الشان روایت کو موجودہ حکومت نے برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پندرہ دسمبر 2020 سے شفٹنگ کا کام شروع کیا تھا جو کہ یکم جنوری 2021 کو مکمل ہوچکا ہے۔ یہ شفٹنگ دراصل خون جما دینے والی سردی کے خلاف اعلان بغاوت ہے جس کے ثمرات عوام کے پیسوں سے اسلام آباد کے ہوٹلوں میں دعوتیں اڑانے اور سوکھی سوکھی اعلی سطحی ملاقاتوں کی صورت میں عوام کو ملیں گے۔ سردی سے شدید نفرت کرنے والی ہماری یہ عوام دوست حکومت انشا ء اللہ پندرہ فروری کو واپس گلگت بلتستان آنے کا عمل شروع کرے گی جو کہ انشا ء اللہ یکم مارچ 2021 کو مکمل ہوگا۔ اس دوران حکومت کی طرف سے جی بی ہاوس اسلام آباد میں بیٹھ کر گلگت بلتستان کے عوام کو بلاوجہ تنگ کرنے والی ظالم سردی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے علاوہ بے کار کی برف بھاری کی مذمت کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ عوام سے گزارش ہے کہ وہ حکومت کے خلاف بات کرنے سے اجتناب کریں اور اگر حکومت سے کوئی ضروری کام ہو تو پندرہ فروری تک انتظار کریں۔
نوٹ۔ بیوروکریسی تیل کی مد میں ملنے والے پیسوں اور سردی الاونس کی تقسیم و وصولی کے لئے گلگت بلتستان اور اسلام آباد آیا جایا کرنے میں مصروف ہوگی اس لئے سرکاری دفتروں میں جاکر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔

اسرار الدین اسرار

05/01/2021
استور : مکیال جانے والی ھائس گاڈی عیدگاہ اور مشرف چوک کے درمیان پہلا موڈ ٹرن کرتے ہوٸے پھسلنے سے حادثے کا شکار ۔ گاڈی کن...
05/01/2021

استور : مکیال جانے والی ھائس گاڈی عیدگاہ اور مشرف چوک کے درمیان پہلا موڈ ٹرن کرتے ہوٸے پھسلنے سے حادثے کا شکار ۔ گاڈی کنارے سے باہر نکل کر معزاتی طور پر بچ گٸی ۔ گاڈی کے اندر 18 مسافر سوار تھے ۔ اللہ کا شکر ہے کوٸی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔

ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ورکس کے روڈ قلی کو ایکٹیو کرتے ہوٸے مٹی ڈالنے کے لیے اقدامات کریں ۔ دوسری جانب میر ی طرف عوام اور ٹرانسپورٹرز حضرات سے التماس ہے کہ برف باری کے دوران 2×2 گاڈی پر سفر کرنے سے گریز کریں ۔۔ ہم سب کو اپنی جانیں پیاری ہے ۔۔پیلز 2×2 گاڈی والے حضرات پیسوں کی لالچ میں آکر اپنی جان اور دوسروں کی جان کو خطرے میں مت ڈالیں ۔۔۔۔شکریہ

(*copeid #)گلگت بلتستان ٹوڈے

گانچھے کا کرایہ نامہ لیکن اس پے کوئی بھی ویگن والا عمل نہیں کرتا بلکہ اس نرخ نامہ سے کہین زیادہ کرایہ لیتا ہے
05/01/2021

گانچھے کا کرایہ نامہ لیکن اس پے کوئی بھی ویگن والا عمل نہیں کرتا بلکہ اس نرخ نامہ سے کہین زیادہ کرایہ لیتا ہے

03/01/2021

ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی سےکچھ گھنٹے قبل سمجھاتے ہوئے..بیٹی یہاں تم نے جو کھایا پیا. کبھی وہاں اس بات کا ذکر نہ کرنا کہ تم نے اپنے ماں باپ کے گھر اچھا کھایا. اور یہاں تمھہیں اچھا کھانے کو نہیں مل رہا. پیٹ میں جو چیز چلی جائے کچھ ہی گھنٹوں بعد اُس کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور یاد ہی نہیں رہتا کہ کب ہم نے کیا کھایا تھا.
کھانے پر کبھی کسی کے ساتھ بحث نہ کرنا. جو مل جائے شکر کر کے کھا لینا.
بیٹی جس طرح تم نے اس گھر کو اپنا سمجھ کر صرف اس گھر کی تعریفیں کی ہیں. اُسی طرح اُس گھر کو اپنا سمجھ کر اُس گھر کی تعریفیں کرنا. کبھی بُرائی نہ کرنا. بے شک اب وہ ہی تمھارا اپنا گھر ہے..
بیٹی تم نے ماسٹر کیا ہے مگر اپنی پڑھائی کا رعب اپنے سسرال والوں پر مت استعمال کرنا. کبھی اُن کو یہ نہ کہنا کہ میں آپ سے زیادہ جانتی ہوں. بے شک اپنے گھر کے معاملے میں وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں. کیوں کہ ہر گھر کے اپنے الگ اصول ہوتے ہیں..
بیٹی شوہر کو کبھی پیٹھ کر کے نہ سونا. کہ اللہ پاک عورت کی اس حرکت سے ناراض ہوتے ہیں.. بیٹی روٹھنا اس حد تک کہ وہ اگر ایک دفعہ منانے کی کوشش کرے تو مان جانا. اور اگر وہ لاکھ دفعہ بھی نہ مانے تو ایک لاکھ ایک دفعہ پھر کوشش کرنا..
کبھی شوہر سے ایسی ڈیمانڈ مت کرنا جو اُس کی حیثیت سے بڑھ کر ہو. اُس کی مجبوریوں کا احساس کرنا.. جب تک سسرال والوں کے اصولوں کو سمجھ نہ جاؤ. تب تک اگر کسی چیز کو استمال کرنا ہو تو اُن سے پوچھ کر استمال کرنا.
اُس گھر کے سبھی افراد کا خیال ایسے رکھنا. جیسے اس گھر کے افراد کا رکھتی تھی.
میری یہ نصیحتیں اپنے دوپٹے سے باندھ لینا.
شادی کے بعد نہ تو تمھارے سر سے دوپٹا سرکنے پائے.. اور نہ ہی یہ نصیحتیں.آپ کا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے گروپوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے
10 یا 15 گرپوں میں شیئر کریں
میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر یا کاپی کرتے ہیں۔۔۔!!
آج اپنے معاشرے کا یہ تلخ پہلو کیوں نہ شیئر کریں۔۔۔؟
آئیں ایک ایک شیئر کرکہ اپنا حصہ ڈالیں۔۔

کیا پتہ کسی کے دل میں اتر جائے یہ بات۔⚘💖۔۔
شکریہ🙏💖⚘🙏❣️
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں آمین💖
#

31/12/2020

🍁کوئی ہار گیا کوئی جیت گیا
🍁یہ سال بھی آخر بیت گیا...
🍁کبهی سپنے سجائے آنکھوں میں
🍁کبھی بیت گئے پل باتوں میں
🍁کچھ تلخ سے لمحات بھی تھے
🍁کچھ حادثے اور صدمات بھی تھے
🍁کچھ بے رخی کچھ بے چینی
🍁کچھ من میں سمٹی ویرانی
🍁پر اب کہ برس اے دوست میرے
🍁اللہ سے دعا یہ مانگی ہے
🍁کوئی پل نہ تیرا اُداس گزرے
🍁کوئی روگ نہ تجھے راس گزرے
🍁کوئی شخص نہ تجھ سے گلا کرے
🍁تو خوش رہے آباد رہے
🍁تو جو چاہے وہ ہو جائے
🍁تو جو مانگے وہ مل جائے
🍁تیری معاف وہ ہر اک خطا کرے
🍁تجھے ایسے ہی رب عطا کرے۔ـــــ!!!
🍁🍁🍁 ( آمین )🍁🍁🍁

,گلگت کے آئی یو روڈ پر، سرکاری آفیسر اور اسکے مسلح محافظوں کی جانب سے نگر سے تعلق رکھنے ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کو کلاشنک...
30/12/2020

,گلگت کے آئی یو روڈ پر، سرکاری آفیسر اور اسکے مسلح محافظوں کی جانب سے نگر سے تعلق رکھنے ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کو کلاشنکوف کے بٹ سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کافی دیر تک روڈ پر گھسیٹتے رہے۔
اور کن پٹی پر کلاشنکوف تانتے رہے۔
عوام کے جمع ہونے پر ایف سی اور پولیس اہلکار وہاں سے آفسر کو لیکر فرار ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق اسلام آباد نمبر پلیٹ کی سرکاری گاڑی میں ایک غیر مقامی اعلیٰ افسر بھی موجود تھا۔
عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری گاڑی سے پہلے اس غریب کی ٹیکسی کو ٹکر مارا گیا۔ جس پر اس غریب آدمی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے متعلقہ سرکاری گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔
اتنے میں سرکاری گاڑی سے مسلح بدمعاش اترے اور ٹیکسی ڈرائیور پر بیہمانہ تشدد کرنا شروع کر دیا۔
وزیر اعلیٰ اور سکیورٹی نافظ کرنے اداروں کے سربراہان فی الفور معاملے نوٹس لیں اور ملوث افسر کو عہدے سے ہٹا کر معاملے کی شفاف تحقیقات کرائیں۔

‏وزیرِ اعظم عمران خان سے وزیرِ اعلی گلگت بلتستان خورشید خالد کی ملاقاتملاقات میں گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی و فروغ، ...
28/12/2020

‏وزیرِ اعظم عمران خان سے وزیرِ اعلی گلگت بلتستان خورشید خالد کی ملاقات

ملاقات میں گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی و فروغ، اس صنعت میں مقامی لوگوں کیلئے ذیادہ سے ذیادہ روزگار کے مواقع کی فراہمی، ماحول دوست سیاحت پر خصوصی توجہ، گلیشئیر اور جنگلات کی حفاظت پر تفصیلی گفتگو

ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے پائلیٹ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے خپلو سے تھا اور میجر محمد حسین منڈوق کا بڑ...
27/12/2020

ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے پائلیٹ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے خپلو سے تھا اور میجر محمد حسین منڈوق کا بڑا بھائی میجر جنرل احسان بھی پاک آرمی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔مجیر محمد حسین منڈوق شہید کو آج فوجی اعزاز کے ساتھ ابائی گاؤں خپلو میں سپرد خاک کیا جائیگا

Address

Baltistan
Gilgit
3436

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rghasha yoll posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Media in Gilgit

Show All