Hammad Asad

Hammad Asad Muslim Alhamdullillah

😂
24/12/2024

😂

بانی جامعۃ الرشید فقیہ العصر مفتی رشید احمد صاحب رقمطراز ہیں : (احسن الفتاوی جلد 8 صفحہ 238)منقول
10/12/2024

بانی جامعۃ الرشید فقیہ العصر مفتی رشید احمد صاحب رقمطراز ہیں :

(احسن الفتاوی جلد 8 صفحہ 238)
منقول

27/11/2024

نیت کا اثر عبادات میں مرتب ہوتا ہے حرام کام میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ اس کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے۔ اگر کسی مباح چیز میں عبادت کی نیت کر لے یا اس چیز میں نیت کر لے جو عبادت کے لئے وسیلہ ہوتی ہے تو اس پر نیت کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے اور ثواب ملتا ہے۔ بخلاف معصیت کے اس میں نیت اچھی کرنے سے اجر نہ ملے گا مثلاً چوری اس نیت سے کرتا ہے کہ فقراء پر صدقہ کروں گا تو اس نیت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا بلکہ چوری کا گناہ وبال ہوگا۔

شارح مشکٰوۃ نواب قطب الدین خان دہلوی رح
(مظاہر حق جدید ج 1 ص 68)
منقول

22/11/2024

کل رات سے مفتی عبدالواحد قریشی صاحب
انجینیر علی مرزا کے اپنے شہر "جہلم" میں انتظار کررہے ہیں مگر جواب ھے نہ جوابدار

30/10/2024

پھر کہتے ہیں کہ ہم تو فرقہ واریت نہیں پھیلا رہے یہ تو مقلدوں کا کام ہے چیک کریں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نام نہاد منھج کے ٹھیکیدار ۔۔!
ہمارے شیخ نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا کہ برصغیر میں سوچی سمجھی سازش کے تحت ملکہ وکٹوریہ نے اہلحدیث فرقہ کو رجسٹر کیا، جن کا کام صرف اور صرف فقہ حنفی کی مخالفت کرنا ہے 🙂

ویڈیو میں دیکھیں نام نہاد محدث العصر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں پہلے کیا موقف رکھتا تھا اور اب کیا رکھتا ہے۔۔۔۔! 🤌
منقول

30/10/2024

مکافات عمل

جس طرح انجنئیر علماء کو تڑیاں لگاتا تھا کہ میرے برابر ویور شپ لاؤ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے انجنئیر ٹومی کو اوقات یاد دلادی۔ کہا تم دعوت کے کام کے ماہر نہیں تم نے کبھی پچاس ہزار کے مجمع کے آگے سوال جواب کا سیشن کیا ہے؟
ٹی وی یعنی یوٹیوب چینل پر بیٹھ کر بات کرنا آسان ہے۔ سامنے آکر بات کرو۔ مرد کے بچے بنو۔

اخے میں امام کعبہ نال مناظرہ کرساں
منقول

29/10/2024

سوشل میڈیا پر عالمی مبلغین جس میں حجاب حمزہ ہاشم صبور منصور مفتی عثمان مفتی یاسر وغیرہ وغیرہ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں
ان لوگوں کا سٹریم دس دس گھنٹے کا ہوتا ہے اور میں بڑے شوق سے مکمل سنتا ہوں
اس میں زیادہ تر ہندؤں عیسائی سکھ وغیرہ آتے ہیں
اور مزے کی بات کہ ہر سٹریم میں کئی کئی لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں
انہیں ہندومت عیسائیت اور کہی بھی اطمینان نہیں ملتا کیونکہ ان کی فطری پیاس اسلام ہی بجھا دیتا ہے
اب خود سوچے اگر میں کسی ہندؤں کو یہ بولوں کہ رام اور کرشن مُشکل کُشا نہیں بلکہ کائنات کا خالق مُشکل کُشا ہے اور میں دلائل سے انہیں اس بات پر قائل کروں
اسے کے بعد بولوں کہ نہیں مُشکل کُشاء تو غوث پاک رحمہ اللہ اور شیر خدا رضی اللہ عنہ ہیں تو سوچے کہ وہ صرف اور صرف مجھ پر ہنسے گا
میں انہیں رام اور کرشن سے انکاری بنا کر غوث پاک رح اور شیر خدا رض کے جولی میں ڈال دوں ؟

اسلام ایک ریشنل دین ہے اسلام کا قصوں کہانیوں سے کوئی واسطہ نہیں
کسی اور سے مدد یا کسی اور کی عبادت جس کو ہم شرک سے تعبیر کرتے ہیں
ایسی چیز پر آپ کبھی کسی عقلمند اور سوچنے والے غیر مسلم کو قائل نہیں کر سکتے

عماد علی شاہ
منقول

27/10/2024

لگتا ہے ڈاکٹر صاحب نے انجینئر مرزا کی منجی ٹھوک دی ہے۔۔۔۔! 😜

آپ کی ہمت کو سلام ہے ذاکر نائیک ♥️

ہن پتر سکون اے

او واجیید تم تو کہتے تھے میں بڑا خوش ہوں مگر تم تو جلے ،سڑے کوئلے نکلے 😂تیرے پاس لولے لنگڑے سوال ہیں جن کا  جواب سننے کی...
26/10/2024

او واجیید تم تو کہتے تھے میں بڑا خوش ہوں مگر تم تو جلے ،سڑے کوئلے نکلے 😂
تیرے پاس لولے لنگڑے سوال ہیں جن کا جواب سننے کی بھی تجھ بزدل میں ہمت ۔ حوصلہ اور صلاحیت نہیں ۔
کیونکہ توں نے تو کمنٹس ہی بلاک کر رکھے ہیں
بنام واجد سڑیل

26/10/2024

’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمود

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
۲۳ مئی ۱۹۹۹ء
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ:

’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘

یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:

مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ

’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘

تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:

مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔

اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔

اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔

مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔

مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:

’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘

اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھا اور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:

’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘

الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔

بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔

25/10/2024

میں مولانا کے مخالفین سے التماس کرونگا پہلے مولانا کو سنو پھر ان کے خلاف بولو ۔
1
تمہارے سارے من گھڑت اعتراضات کے جواب دے دئیے
2
اتنی عظیم کامیابیوں کے باوجود مولانا نے کوئی متکبرانہ بات نہیں کی بلکہ اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور اللہ قادر مطلق کا شکر ادا کیا جس نے ان عظیم فتوحات سے سرفراز کیا ۔
3 ۔
مبارک ثانی کیس کی حقیقت کھولی
اور سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا اور ختم نبوت پر تفصیلی فیصلہ حاصل کیا
4.
لاہور کانفرنس یوم الفتح نے تاریخ لاہور کے تمام بڑے بڑے جلسوں کا ریکارڈ توڑ دیا ۔
5.
بانی پاکستان
قائدِ اعظم رحمہ اللّہ سے جھوٹے محبت کے دعویداروں پیروکاروں کے راز فاش کیے اور26 آئینی ترمیم کروا کر عمل سے بتایا کہ
کون قائد اعظم رحمہ اللّٰہ کا سچا وفادار ہے ۔
6.
سود کا مسئلہ 2028 تک ہم نے نہیں مؤخر کیا بلکہ شریعہ کورٹ کا فیصلہ تھا اس لیے اس کو آئین کا حصہ بنوایا
7. شریعہ کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ چیلنج کر کے ہمیشہ کے لیے ٹھکانے لگا دیتی تھی اب ایک سال تک اگر سپریم کورٹ فیصلہ نہ سنائے تو شریعہ کورٹ کا فیصلہ مؤثر و جائے گا
8.
مسودہ دیکھے بغیر تصدیق نہیں کی بلکہ اس کا مطالعہ کر کے
آئینی ترمیم کو 56 شکوں سے کم۔کروا کر
22 شکوں پر لائے اور پھر پانچ شکیں اپنی ترمیم سے شامل کروائیں


9.
ستائیسویں ترمیم کاراگ الاپنے والوں کو دو ٹوک بتا دیا کہ اس کو اپنا وہم۔سمجھیں ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے

کاش کے اتر جائے ان کے دل میں انکی بات 😂
24/10/2024

کاش کے اتر جائے ان کے دل میں انکی بات 😂

22/10/2024

ایک آدمی بینک چیک لیکر گیا اور کہا کہ یہ پیسے دے دو کیشیئر نے کہا آپ انتظار کرے یہ کسی اور بینک کا چیک ہے کاروائی میں ایک گھنٹہ لگے گا آدمی نے حیران ہوکر کیشیئر کو دیکھا اور سامنے بینک کو دیکھ کر کہا وہ ایک منٹ کے فاصلے پہ بینک ہے جاکر وہان سے پیسے لے آو ایک گھنٹہ کیوں لگے گا ؟

کیشیئر نے ایک نظر بھر کر آدمی کو دیکھا اسے سمجھ آگئی یہ خچر ہے ۔

اس سے پوچھا اگر آپ کے راہ چلتے قبرستان میں انتقال ہوجائے تو ڈائریکٹ وہی دفنا دئے جاوگے یا کفن دفن کے لئے ایکبار گھر لیجائے جاوگے ؟
اب خچر نے ایک نظر بھر کر کیشیئر کو دیکھا اور کہا بات تو میرے سمجھ آگئی لیکن تیرے مثال پہ تھووو۔

یہ ان لوگوں کے لیے جو کہہ رہے کہ ترمیم تو آج منظور ہوگئی سود کا خاتمہ 2028 میں کیوں آج ہی کیوں نہیں ۔
منقول

22/10/2024

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ یہ روایت بھی منگھڑت ہے اور مولانا پر یہ الزام بھی جھوٹ ہے، گویا کہ جھوٹے الزام کو منگھڑت روایت کا سہارا دے کر پھیلایا جارہا ہے، جس سے اس بات کی نحوست، کالک اور بدبو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے!

بندہ مبین الرحمٰن
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

22/10/2024

پچھتر سال سود کھا کر خاموش رہنا اور 2028والے قانون پر تنقید کرنا اسے کہتے ہیں
حرامی ٹچ
منقول

22/10/2024

علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں (الحدیث)

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں جگر مراد آبادی
21/10/2024

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

جگر مراد آبادی

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hammad Asad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hammad Asad:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share