29/07/2023
آپ نے کبھی سوچا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی پانچ چھ سال کی عمر تک تو واقعات ملتے ہیں مگر اس کے بعد تاریخ میں ان کا ذکر صرف تب ہوا جب ان کی شہادت ہوئی۔
کئی نامور اصحاب حضرت سلمان فارسی کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و صحابہ وسلم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو اہل فارس وہاں پہنچ جائیں۔
حضرت ابوذر کہ جنہیں زمین پر سب سے سچا انسان قرار دیا۔
حضرت مقداد جن کی جنت مشتاق ہے۔
حضرت ایوب انصاری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدینہ میں میزبان تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے لے کر ان کی پانچویں نسل تک حیات رہے۔
حضرت عمار یاسر جن کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔
حضرت بلال حبشی جو موذنِ رسول تھے۔
تاریخ ان کے بارے میں مکمل خاموش نظر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد وہ اس دنیا سے غائب رہے اور بس شہادت یا وفات کے وقت دنیا میں کچھ دیر کے لئے آئے۔
آخر کہیں تو کچھ غلط ہوا ہے کہ ان شخصیات کا ذکر کرنا عیب سمجھا گیا۔
دوسری طرف جو افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پردہ فرمانے سے سال دو سال قبل مسلمان ہوئے,ان کی سوانح عمری سے تاریخ بھری نظر آتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری پڑدا فرمانے کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ان کی آل اور بہت سے وفادار اصحاب کو تاریخ نے مکمل نظرانداز کر دیا۔
کہاں کچھ غلط ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری پردہ کے بعد ان کی آل کے کسی بھی فرد کی طبعی منتقلی نہ ہوئی۔
تمام قتل ہوئے اور قاتل بھی وہ جو ان کے جد کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔
آج چودہ صدیاں بعد بھی ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسین علیہ السلام جنت کے سردار ہیں۔
ایسا کیا ہوا کہ جنت کے طلب گاروں نے سرداروں کو انتہائی اذیت کے ساتھ قتل کر دیا۔
مورخ نے آخر ان تمام ہستیوں کو اتنا غیر اہم کیسے سمجھا کہ تاریخِ اسلام میں ان کا حصہ ایک صحابی جتنا بھی نہیں رکھا۔
کربلا اچانک نہیں ہوئی۔
ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا,نفرت بڑھتی رہی اور ہر ہستی کے بعد دوسری ہستی پر پہلے سے زیادہ ظلم ہوتا نظر آیا۔
اتنی نفرت کہ اس مقدس گھرانے کی مطہرات پر ظلم کرنے سے بھی نہ چوکے۔
چھ ماہ کے بچے کا سر کاٹنا بھی ثواب سمجھا گیا حالانکہ بدترین دشمن کے چھ ماہ کے بچے سے بھی کوئی دشمنی کا بدلہ لینے کا نہیں سوچتا۔
امت نے تو آل رسول پر ظلم کیا ہی تھا مگر مورخین نے ان سے کہیں زیادہ ظلم کیا کہ جن کے فضائل تھے,انہیں چھپایا جبکہ ان کے دشمنوں کے فضائل سے کتابیں سیاہ کیں۔
ابھی چند دن پہلے واقعہ مباہلہ کی یاد مناٸی گٸی ۔ اس واقعہ میں بنص قران پانچ ذواتِ مقدسہ میدان میں توحید کے گواہ بن کر پیش ہوٸےاور قران مجید نےانہیں صداقت کی سند عطا کی ۔
واقعہ مباہلہ کے کچھ مدت بعد ان پانچ ہستیوں میں بزرگ ترین ہیستی کا وصال ہوا جنازے میں کتنے کلمہ گو تھے ؟؟
پھر 75 دن بعد اس گھر کا دوسرا جنازہ رات کی تاریکی میں اُٹھا اور چند مخلصین کی موجودگی میں بڑی خاموشی اور مظلومیت سے دفن کردیا گیا اور نشانِ قبر تک مٹا دیا گیا جو آج تک نہ مل سکا ۔
پھر اسی گھرانے کا تیسرا جنازہ 40 ہجری میں کوفہ سے آدھی رات کےوقت اٹھا اور پشتِ کوفہ ریت کے ٹیلوں کے درمیان خاموشی سے دفن کردیا گیااور مدتوں قبر کا نشان نمعلوم رہا ۔
پھراسی جماعت کے چوتھے فرد کا جنازہ 50 ہجری میں شہر مدینہ سےاُٹھا اور نانے کی مزار کی طرف چلا مگر کچھ لوگ تیروں سے مسلحہ راستے میں حاٸل ہوٸے کہ نواسے کو نانے کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیں گے آخر وہ جنازہ بقیع کے عوامی قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔
پھر 61 ہجری میں اصحاب مباہلہ کی آخری فرد کا جنازہ اٹھایا بھی نہ جاسکا بلکہ جنازہ گھوڑوں کی ٹاپوں سےپامال کردیا گیا ۔
بحثیت مسلمان کیا ہمیں یہ حق نہیں رکھتے کہ کم از کم ہم مورخ اسلام سے یہ تو پوچھیں کہ جنکی صداقت کا گواہ خود اللہ ہے اور وہ توحیدِ خدا کے گواہ ہیں امت رسول نے انکے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟
ہمارا یہ سوال امت مسلمہ پر قیامت تک قرض رہے گا ۔ اور اگر اس دنیا میں اس کا جواب نہ ملا تو میدان محشر میں عدالت خدا وند تعالیٰ میں ہم یہ سوال اٹھاٸیں گے ؟؟؟؟؟