Chakwal Mehnda Ghar

Chakwal Mehnda Ghar ہمارے پیج کا ایک وزٹ آپ کو اپنے گاؤں کی گلیوں میں لے جائ?

05/10/2022
13/07/2022

‏چکوال مقدمے کے مدعی نے خود میرے حق میں گواہی دے دی۔ ہمیں کوئی بدلہ نہیں لینا۔ پاکستان زندہ باد

09/07/2022

دیار غیر میں رہنے والے تمام دوستوں کو
حج اور
عید الاضحٰی مبارک

08/07/2022

سینئر صحافی و اینکر پرسن عمران ریاض کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کے بعد لاہور پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

08/07/2022

اینکرعمران ریاض خان کا وکیل اورایس ایچ او آمنے سامنے

08/07/2022

یہ ڈسٹرکٹ کمپلیکس چکوال کا مین گیٹ ہے جہاں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات اور گیٹ بند ہے

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن چکوال کا میں گیٹ بھی پولیس کی بھاری نفری لگا کر بند کر دیا گیا جہاں پر سول جج و علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت ہے۔

اس صورت حال کی وجہ یہ ہے آج تھانہ ڈھڈیال پولیس معروف صحافی عمران ریاض خان کو تھانہ صدر چکوال کے مقدمہ میں گرفتار کرنے کے بعد علاقہ مجسٹریٹ میں پیش کر چکی ہے

اس صورت حال میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک عمران ریاض خان اور درجنوں پولیس ملازمین پھر خوف کس بات کا۔دوسری صورت میں عمران ریاض خان نے خود کو منوا لیا ہے۔کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

07/07/2022

اٹک میں مقدمہ خارج ہوتے ہی عمران ریاض کو چکوال پولیس نے حراست میں لے لیا

اٹک صحافی عمران ریاض کو اٹک میں مقدمہ خارج ہوتے ہی چکوال پولیس نے حراست میں لے لیا۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اٹک کی مقامی عدالت نے صحافی عمران ریاض کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا، تاہم مقدمہ خارج ہوتے ہی انھیں چکوال پولیس نے حراست میں لے لیا۔جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلہ سناتے ہی عمران ریاض کو چکوال پولیس نے حراست میں لے لیا، اس سے پہلے عمران ریاض کو اٹک سے راولپنڈی لایا گیا تھا، جہاں دائرہ اختیار کا فیصلہ نہ ہونے پر عدالت نے دوبارہ اٹک منتقلی کا حکم دیا تھا۔خیال رہے کہ صحافی عمران ریاض کے خلاف تھانہ صدر چکوال میں مقدمہ درج ہے، مقدمہ خارج ہونے کے بعد عمران ریاض نے کمرہ عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا اٹک سے اب بوریا بستر لے کر چکوال جا رہے ہیں، چکوال کے بعد شاید میانوالی جائیں گے۔

اتنی حسیاسیت کا اندازہ نہ تھاایاز امیرتاریخ اشاعت     2022-07-06 مختلف جگہوں پر ذکر ہوچکا ہے کہ ایک صاحب ہمیں لاہور ملنے...
06/07/2022

اتنی حسیاسیت کا اندازہ نہ تھا
ایاز امیر
تاریخ اشاعت 2022-07-06

مختلف جگہوں پر ذکر ہوچکا ہے کہ ایک صاحب ہمیں لاہور ملنے آئے۔تعارف کرایا کہ فلاںمحکمے سے تعلق ہے۔خوشگوار گفتگو ہوئی‘ کہنے لگے کہ ایک بات کہنی ہے۔ میں نے کہا: فرمائیے! تو کہنے لگے کہ سر ذراہاتھ ہولا رکھا کریں۔قدرے تعجب ہوا کہ یہ کیسا اندازِ گفتگو ہے، لیکن پوچھا کہ اُن کی مراد کیا ہے۔ اوپر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے کہنے لگے کہ بس اُس جانب ذرا خیال رکھا کریں۔ اصرار پر نام بھی لے دیاکہ اُن کا اشارہ کس جانب ہے۔
میں نے ذرا حیران ہوکر کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، ہمارا اُس جانب کیا لینا دینا۔ملازمت اتنے ماہ رہ گئی ہے ، جن کے بارے میں اتنی فکر کا اظہار آپ کررہے ہیں اس عرصے کے بعد گھر چلے جائیں گے اورحالات نارمل ہو جائیں گے۔ کہنے لگے کہ آپ نہیں سمجھے ، بڑے اچھے کام ہو رہے ہیں اورملک کی دیرینہ سمت درست ہو رہی ہے۔میں نے کہا :یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہوگی لیکن ہمارا ایسے مسئلوں سے کیا تعلق اور ویسے بھی عمومی طور پر ہمارا رویہ اس قسم کی گفتگو میں محتاط ہی رہتا ہے۔کہنے لگے: بس خیال رکھا کریں اوراس نکتے پر ہماری میٹنگ ختم ہوئی اور ہم باہر لاؤنج کے دروازے تک مہمان کو چھوڑنے آئے۔
اس ملاقات کے کچھ دن بعد اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک سیمینار منعقد کررکھا تھاجس میں ہم بھی مدعو تھے۔ موضوع سیمینار کا 'رجیم چینج‘ تھا، یعنی عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ہٹانے کا عمل۔ جب دعوت آئی تھی تو مجھے بتایا گیا کہ عمران خان بھی ہوں گے۔ میںنے کہا کہ رہنے دیجئے تقریریں سن سن کر تھک چکے ہیں اور مزید تقریریں سننے کی ہمت نہیں۔لیکن پھر کسی اور نے جن سے ہماری پرانی علیک سلیک ہے‘ فون پکڑا اور ہنس کے کہا کہ نہیں ایاز! تمہیں آنا ہوگا۔انکار ممکن نہ تھا اور گاؤں سے سیمینار میں شریک ہونے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
سیمینار کے انتظامات بڑے اعلیٰ تھے۔ وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی تعداد موجودتھی۔عموماً ایسی تقریبات میں مقررین کی فہرست لمبی ہوتی ہے لیکن صرف تین مقررین کو مدعوکیا ہوا تھا: لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی، سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان اور مجھے۔آخر میں سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے بولنا تھا۔ابتدائیہ کلمات اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر جناب شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اداکیے۔نہایت عمدہ اور جامع اُن کی تقریر تھی۔جنرل صاحب کی تقریر بھی بہت اعلیٰ پائے کی تھی۔ شمشاد صاحب تو ویسے ہی بہت اچھا بولتے ہیں۔ اُن کی تقریر بہت ہی اچھی تھی۔ اپنی باری پر میں نے دو تین نکات اُٹھائے جن میں سے میرا خیال ہے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میں نے عمران خان صاحب، جو میرے سامنے بیٹھے تھے ،سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا لیکن اس ضمن میں آپ سے پوچھنا بنتا ہے کہ توسیع دینے کا شوق آپ کے دل میں کیسے پیدا ہوا۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑے اورٹی وی کیمرہ والوں کا کمال ہے کہ میں بول رہا تھا تو کیمروں کا رخ میری طرف ہوتا اور جب عمران خان ہنستے تو اُن کے چہرے کے تاثرات کو پکڑنے کیلئے فوراً اُن کی طرف گھومتے۔یعنی میری تقریر کے دوران یہ ہوتا رہا کہ میرا بولنا اورخان صاحب کا ردِعمل بڑی خوبصورتی سے دکھایا جاتا رہا۔
میں نے یہ بھی کہا کہ معاملاتِ حکمرانی میں روایات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں بہت سارے موضوعات پر باقاعدہ قانون سازی نہیں ہوئی لیکن صدیوں پرانی روایات ہیں جن پر عمل ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کا آئین غیر تحریرشدہ ہے۔میں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی اہم تقرریوں کے حوالے سے قانون اگر نہ بھی ہو تو روایات ہیں جن کو بنیاد بنا کر عمل ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں اُس کی تقرریوں پر سپریم کورٹ جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن کوئی شخص سپریم کورٹ گیا اور وہاں سے یہ کلمات آئے کہ اہم تقرری کے بارے میں کوئی قانون ہی نہیں ہے اور اس مسئلے پر کچھ غورہونا چاہئے۔
عمران خان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ یہاں پر حکومت کو سٹینڈ لینا چاہئے تھا کہ جو روایات چل رہی ہیں وہی کافی ہیں اور اس مسئلے پر قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن آپ نے ایسا سٹینڈ نہ لیا ، مسئلہ قومی اسمبلی میں گیا جہاں ایک ایسے قانون کی منظوری ہوئی جس نے روایات کو تبدیل کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ یہ اہم تقرری کچھ زیادہ عرصے کیلئے ہو سکتی ہے۔جب میں یہ گزارشات پیش کررہا تھا تواس دوران ٹی وی کیمرے عمران خان کی طرف جاتے رہے اور دکھاتے رہے کہ وہ مسلسل ہنس رہے ہیں۔کچھ اور موضوعات بھی میں نے اُٹھائے پراپرٹی ڈیلروں کے بارے میں ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بارے میں ، سیمنٹ فیکٹریوں کے بارے میں لیکن آخر میں یہ عرض کیا کہ جو بھی ہے پاکستان کیلئے آپ ہی ایک آپشن رہ گئے ہیں۔ پاکستان نازک حالات سے گزررہا ہے ، ملک کو سنبھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ میری دعا ہے کہ جو تاریخی موقع ملک کے سامنے ہے آپ اُس پر پورا اتریں۔
تقریر ختم ہوئی تو سامعین ہال میں موجود مختلف لیڈران سے ملنے اور سلفیاں بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میرے ساتھ چکوال سے ملک زعفران ایڈووکیٹ اور معروف کاروباری شخصیت راجہ نذیر آئے ہوئے تھے۔ ہم چپکے سے وہاں سے نکلے اور ابھی ہوٹل کی لابی میں ہی تھے کہ اُس شخص کا میسج آیا جو ہم سے لاہور ہوٹل کے کمرے میں ملنے آیا تھا۔میسج میں یہ لکھا تھا کہ سر آپ نے پھر ہماری بات نہیں مانی۔مجھے میسج کے الفاظ اچھے نہ لگے لیکن تب تک فون پر تقریر کے حوالے سے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ ہم وہاں سے نکلے اور اسلام آباد کلب کی طرف چائے پینے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد اُنہی صاحب کا پھر میسج آیا کہ سر میں نے پوری تقریر سنی ہے اور آپ کی تقریر بڑی متوازن اور مثبت ہے۔ میں نے ان پیغامات کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اوردوسرے دن اپنا ٹی وی پروگرام کرنے کیلئے لاہور روانہ ہو گیا۔
رات کو مقررہ وقت پر ہمارا پروگرام ختم ہوا اور جب ہوٹل میں جانے کیلئے اپنی گاڑی میں بیٹھا تو فون میں میری اسلام آباد کی تقریر کے حوالے سے پیغامات کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ میں اُن کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا اور اقبال جو ہماری گاڑی چلاتا ہے ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ دنیا نیوز کا دفتر پرانی ایبٹ روڈ پر واقع ہے۔ گیٹ سے گاڑی ہماری نکلی اور سڑک پر بائیں جانب مڑی۔دفتر کے سامنے چہل پہل رہتی ہے لیکن بائیں مڑتے ہی ڈی جی پی آر کا دفتر ہے اوراُس سے ملحقہ پاکستان ٹیلی ویژن سٹیشن واقع ہے۔اور اُس کے آگے دائیں طرف تو چند دکانیں ہیں لیکن بائیں جانب غالباً ریڈیو پاکستان کی دیوار ہے اور یہ مخصوص علاقہ رات کے وقت ذرا سنسان رہتا ہے۔میں تو فون دیکھنے میں مصروف تھا لیکن اسی اثنا ہماری گاڑی کا راستہ ایک اور گاڑی نے روکا۔ دائیں بائیں کچھ لوگ نمودار ہوئے اور وہ واقع پیش آیا جو خبروں کی زینت بن چکا ہے۔
حملے کے ساتھ ساتھ میرے اور اقبال کے فون اٹھا لئے گئے۔ دوسرے دن نیا فون لینا پڑا اور ہم نے اپنی پرانی سِم چالو کروائی۔ سم میں تمام پرانا ڈیٹا محفوظ تھا لیکن جو صاحب ہمیں ملنے آئے تھے اُن کی کالز اور پیغامات غائب تھے۔

آج میرا ضلع چکوال 37 سال کو ہوگیا ہے
01/07/2022

آج میرا ضلع چکوال 37 سال کو ہوگیا ہے

29/06/2022

آج چکوال میں اس سال کا گرم ترین دن ھو گا۔
آج کے بعد درجہ حرارت میں بتدریح کمی واقع ہو گی۔
جولائی کے پہلے هفتےمیں بارشوں کا امکان۔

تاریخ گواہ ہے کہ سکول کے دور میں  دو چیزوں یعنی کاپی کے آخری ورق اور امتحانی گتے کو سٹوڈنٹس کی سٹریس ، کریٹیوٹی، مصوری ا...
25/06/2022

تاریخ گواہ ہے کہ سکول کے دور میں دو چیزوں یعنی کاپی کے آخری ورق اور امتحانی گتے کو سٹوڈنٹس کی سٹریس ، کریٹیوٹی، مصوری اور خطاطی کا سب سے زیادہ بوجھ جھیلنا پڑتا تھا ۔۔۔۔
کاپی کا آخری ورق :
چاہے رف عمل کرنا ہو یا رک چکے پین کو چالو کرنا ہو۔۔۔۔چاہے اپنا نام کسی نئے رسم الخط میں لکھنا ہو یا پھول ستارے چڑیاں بادل بنانے کو دل کرے ، یا چھٹی سے پہلے کے دس منٹ میں وقت گزاری کرنی ہو ۔۔۔ یہی مظلوم صفحہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا تھا ۔
اور جب وہ کاپی ٹیچر کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ دعا کرنا کہ ٹیچر اس آخری صفحے پر بنائی گئی اپنی شبیہہ ۔۔ یا کسی تازہ ریلیز فلم کا مشہور ڈائیلاگ لکھا نہ پڑھ لے 🫢
۔
امتحانی گتہ :
امتحانی گتے کے استعمالات میں کاغذ مروڑ کر گیند بنانے کے بعد گتے کو بطورِ بیٹ استعمال کرنا ۔
گتے کے اوپر لوہے کا پیچ، کیل وغیرہ رکھ کر نچلی سمت مقناطیس رکھ کر اسے گھماتے ہوئی پیچ کا رقص دیکھنا۔۔۔
گتے کے اوپر ۔۔۔ " گتہ امتحانی ، رب کرے مہربانی " جیسے الفاظ تحریر کرکے یہ تصور کرنا کہ اب ہمارے پیپر کی سب غلطیاں خدا سدھار دے گا 😁
یا پھر سکول سے واپسی کے وقت غیر متوقع بارش کے دوران اسے عارضی چھتری کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سر پے سایہ فگن کرلینا ۔
ایسا تھا ہمارا ںچپن۔۔۔۔۔ 😍💖

البیرونی اور قلعہ نندنہ کی چمبیلی کا قبول اسلام                               علی خان                  غزنی کے سلطان محم...
24/06/2022

البیرونی اور قلعہ نندنہ کی چمبیلی کا قبول اسلام
علی خان
غزنی کے سلطان محمود غزنوی کی یہاں آمد سے خطہ پوٹھوہار کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلام گو ان علاقوں میں پہلے سے موجود تھا مگر اس کے بعد یہ تیزی سے ہندوستان بھر میں پھیلا۔ نامور مسلم مورخ اور سائنس دان ابو ریحان البیرونی بھی پہلی بار یہاں سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ آیا اور اس کی انہی علاقوں میں کی گئی شہرہ آفاق عربی تصنیف "کتاب الہند" کی بدولت عرب دنیا کو پہلی بار ہندوستان کے باشندوں کے مذہبی عقائد اور رسوم و رواج بارے مفصل آگاہی حاصل ہوئی۔ کتاب الہند کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور اسے اب تک ہندوستان پر لکھی گئی اہم ترین کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق سلطان محمود غزنوی کی چکوال کے موجودہ علاقوں میں آمد 1014ء میں ہوئی۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ سلطان محمود غزنوی کی ہندوستان پر نویں مہم جوئی تھی اور وہ 1008ء تک خطہ پوٹھوہار کے کچھ علاقے فتح کر چکا تھا۔ 1014ء تک یہاں کابل کے ہندو شاہی خاندان کی حکمرانی تھی اور چکوال کی تحصیل چوآ سیدن شاہ کے قصبہ بشارت کے قریب چکوال کی سرحد پر ضلع جہلم میں واقع قلعہ نندنہ بھی اسی ہندو شاہی خاندان کے زیر تسلط تھا۔
مارچ 1014ء میں سلطان محمود غزنوی بھیرہ فتح کرنے کے بعد براستہ مکڑاچھ اور ڈلوال چکوال کے علاقہ وادی کہون میں داخل ہوا اور کلرکہار سے قصبہ بشارت اور وہاں سے نندنہ جانے والے صدیوں پرانی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے بالناتھ نامی پہاڑ پر پہنچا اور قلعہ نندنہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلعہ نندنہ پر اس وقت انند پال اور جے پال حکمران تھے۔ سات دن کے بعد محصورین کو شکست ہوئی اور اس کے بعد طویل عرصے تک یہ قلعہ غزنوی خاندان کے قبضے میں رہا۔
قلعہ نندنہ کے اردگرد کا علاقہ نہایت خوبصورت ہے چنانچہ ابو ریحان البیرونی کو یہ اس قدر پسند آیا کہ وہ سلطان محمود غزنوی کی اجازت سے قریباً آئندہ ڈیڑھ عشرے تک یہاں مقیم رہا۔اس دوران اس نے کٹاس راج سمیت پنجاب کے مختلف ہندو مذہبی مراکز میں سنسکرت سیکھی اور ہندوؤں کے عقائد اور رسوم و رواج کا مشاہدہ کیا۔ انہی علاقوں میں رہ کر اس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "کتاب الہند" بھی تحریر کی۔ البیرونی نے قلعہ نندنہ میں اپنی تجربہ گاہ قائم کی اور اسی مقام پر زمین کا قطر معلوم کیا۔
قلعہ نندنہ کی تعمیر کس نے کی اور اس کا درست سن تعمیر کیا ہے یہ کہیں مذکور نہیں ہے البتہ نندنہ کے مندر بارے کہا جاتا ہے کہ اسے کابل کے ہندو شاہی خاندان نے اس کی قدیم بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرایا تھا غالب امکان یہی ہے کہ قلعہ نندنہ کی تعمیر بھی انھوں نے ہی کرائی تھی تاہم اس کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ کابل کے ہندو شاہی خاندان سے قبل نندنہ کا مندر ہندو پنڈتوں کے زیر اثر تھا۔ یہاں کے کھنڈرات میں اب ایک مندر ، قلعہ اور ایک قصبہ یا شہر کے آثار باقی ہیں۔ 1900ء تک ایک مسجد کے آثار بھی باقی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی بار یہاں مسجد سلطان محمود غزنوی نے ہی تعمیر کرائی تھی۔
نندنہ کا مندر دو منزلہ تھا تھا اور اس کا طرز تعمیر کشمیری تھا۔ کٹاس راج سمیت سلسلہ کوہ نمک کے بیشتر منادر کا طرز تعمیر یہی ہے تاہم نندنہ میں مندر کی عمارت کی انفرادیت اس کا رخ مشرق کے بجائے مغرب کی طرف ہے۔ مخروطی شکل کے اس دو منزلہ مندر سے ایک زینہ بالائی منزل تک جاتا ہے اور بالائی منزل کے گرد ایک راہداری ہے جو مندر پر واقع بالائی منزل تک جاتی تھی۔ پنڈتوں کے زیر اثر دور میں اس کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے مقامی پتھروں پر پیپل کا پتہ نقش کیا گیا تھا۔ راجہ جے پال کے دور میں بھی یہاں مختلف طرز تعمیر کے مندر تعمیر کیے گئے تھے۔ سرخ پتھروں سے بنا قلعہ نندنہ کا صدر دروازہ سطح زمین سے قریباً پچیس فٹ بلند اور اٹھارہ فٹ چوڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سرنگ یہاں سے چھ کلومیٹر دور قلعہ کسک تک بھی جاتی تھی۔
ابو ریحان البیرونی کی یہاں آمد کی وقت قلعہ نندنہ میں مقیم بیشتر آبادی شودر تھی۔ ہندوؤں میں کم ترین ذات ہونے کے باعث ان شودروں کی زندگی کلی طور پر قلعہ نندنہ کے پروہتوں کے رحم و کرم پر تھی۔ ان شودر خاندانوں میں سے کچھ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ چمبیلی نام کی دوشیزہ کا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا۔ البیرونی کی یہاں آمد کے وقت قلعہ نندنہ کا مہاپروہت رام دیال نامی براہمن تھا جو اسلام کا سخت دشمن تھا۔
قلعہ نندنہ میں پانی کی شدید قلت تھی اور دور دراز واقع کٹھن پہاڑی چشموں سے پانی بھر کر لانا شودر خاندانوں کے ذمہ تھا۔ ہندو پنڈتوں کا عقیدہ تھا کہ کوہستان نمک کے تمام پانی کا ذخیرہ کٹاس راج تالاب کے نیچے ہے اور یہ مقدس پانی ہندوؤں کے علاوہ کسی بھی مذہب کا پیروکار استعمال نہیں کر سکتا۔ البیرونی نے یہاں قلعہ نندنہ کی چٹانوں کا مشاہدہ کیا اور ایک دن ایک چٹان کے نیچے کھدائی کرائی تو وہاں سے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا دھارا بہہ نکلا۔ اس پر ہندو پروہتوں نے البیرونی کو "ودیا ساگر" کا خطاب دیا۔
قلعہ نندنہ میں رہنے والی چمبیلی نے اسلام کی تعلیمات اور سادگی سے متاثر ہو کر نہ صرف اسلام قبول کر لیا بلکہ اس کی تبلیغ بھی شروع کر دی۔ یہ بات یہاں کے پروہت رام دیال کو سخت ناگوار گزری اور اس نے موقعہ پا کر چمبیلی کو زہر دلوا دیا۔ اس زہر کے زیر اثر چمبیلی کئی دن بے ہوش رہی۔
البیرونی جو اس وقت قلعہ نندنہ میں موجود تھا کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے چمبیلی کا علاج شروع کر دیا۔ علاج سے چمبیلی صحت مند ہو گئی۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر کئی شودر بھی مسلمان ہو گئے۔ البیرونی اس واقعہ کے کئی سال بعد بھی قلعہ نندنہ میں مقیم رہا اور یہیں پر اس نے ہندو اور مسلم اقوام کے تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کر کے قلم بند کیا۔ البیرونی کی یہ تصنیف "کتاب الہند" قریباً اسی مختلف موضوعات پر مشتمل ہے۔
مضمون کے ماخذ۔ تاریخ جہلم، کتاب الہند، تاریخ چکوال، تاریخ کہون، تاریخ پوٹھوہار، گزیٹیئر آف جہلم 1904ء۔
فوٹو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں۔

ریلوے اسٹیشن چکوال
23/06/2022

ریلوے اسٹیشن چکوال

چک نورنگ کا ویران ریلوے اسٹیشن اور "ڈھول سپاہی"                                   علی خان گڈی آ گئی ٹیشن تےپراں ہٹ وے با...
22/06/2022

چک نورنگ کا ویران ریلوے اسٹیشن اور "ڈھول سپاہی"
علی خان
گڈی آ گئی ٹیشن تے
پراں ہٹ وے بابو
مینوں ماہیا ویکھن دے
ملکہ ترنم نور جہاں کا یہ لازوال پنجابی گیت مجھے تب یاد آیا جب میں جنگ عظیم اول کے وسط میں تعمیر ہونے والے اس ویران ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا۔ قریباً اتنے ہی پرانے پیپل کے ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے مجھے بہت دیر ہو چکی تھی۔ جون میں چلنے والی غیر متوقع ٹھنڈی ہوائیں پیپل کے پتوں میں مسلسل سرسراہٹ پیدا کر رہی تھیں۔ کوئل کی کوک اور دوسرے پرندوں کی چہچہاہٹ سے انہماک کچھ دیر کو ٹوٹتا مگر میں کچھ لمحوں بعد پھر وہیں پہنچ جاتا جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹ جاتا تھا۔ اسٹیشن کے اس نیم ہریالے احاطے میں چند بھینسیں خاموشی سے چر رہی تھیں ۔
میں اس وقت چکوال کے قصبہ چک نورنگ کے ویران ریلوے اسٹیشن پر تھا اور یہاں کے بارے سنی گئی کئی کہانیاں میرے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ اب یہاں چند ٹوٹے پھوٹے کمرے تھے اور چہار سو پھیلی خاموشی مگر یہ منظر ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ یہ چھوٹا سا مگر اہم اور پر رونق ریلوے اسٹیشن تھا۔ چشم تصور ان مناظر کو دیکھ سکتی تھی جب یہاں روز ہجر و وصال کے لمحے طے ہوا کرتے تھے۔ دھن کی کٹیلی دھوپ میں جھلسی رنگت والی برہا کی ماریاں اکثر یہاں پر ہی اپنے ڈھول سپاہی کے آنے کی منتظر رہا کرتی تھیں۔ یہی سہاگنیں وقت رخصت حالت غم میں اپنی بوسیدہ چنریوں میں مسلسل جذب ہوتے آنسوؤں کو اپنے اقارب سے چھپانے کی کوشش بھی کرتی تھیں۔ یہ مغالطہ یا افسانہ نہیں بلکہ وہ سچی کہانیاں ہیں جو کہیں رقم نہ ہو سکی ہیں اور ان کے شاہدین بھی اب قبروں میں جا سوئے ہیں۔ دور دیس گئے ڈھول سپاہی کی زندگی محفوظ تھی نہ آسان چنانچہ خدشات کے ناگ ہمہ وقت ایک سہاگن اور محبوب کو ڈستے رہتے۔
ادھر ڈھول سپاہی کی مجبوری کے سبب بھی بہت تھے۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران بارانی علاقے میں وقفے وقفے سے آنے والے قحط اس کا موجب بنے کہ یہاں کے بانکوں کو کئی بار غیروں کی جنگ کا ایندھن بننا پڑا۔ وصال کی آس میں بیٹھے کئی بدن نحیف ہوئے یا پھر ان کے بال چاندی ہوئے مگر ڈھول سپاہی کی مجبوری بھی اٹل رہی۔ وہ بوڑھے باپ جو یہاں پر ہی اپنے کڑیل بیٹے رخصت کرنے آتے تھے خدشات میں گھرے دل لیے ان کی واپسی کے منتظر رہتے تھے۔ ماؤں کے کان اپنے گبرو کے قدموں آہٹ سننے کو بے قرار رہتے۔ یہ کہانی اس علاقے میں آباد لگ بھگ ہر گھر کی تھی۔
نواحی دیہاتوں سے لوگ طویل سرد راتوں میں لالٹین تھامے بیاباں میں واقع اس اسٹیشن پر ایک کے بعد ایک پہنچتے تھے۔ ان کے کان انجن کی وسل پر دھرے ہوتے۔ چھکا چھک کی وہ آواز ان میں سے بہت سوں کے من کی مرادیں پوری کرتی تھی یا پھر ان کا انتظار بڑھا دیتی تھی ۔ پیپل کے اس درخت کے نیچے جہاں میں اب کھڑا تھا نہ جانے کتنے ہی لوگ جیٹھ ہاڑ کی طویل دوپہریں اسی قسم کے جذبات کی آنچ پر گزار کر لد گئے تھے۔
اس اجڑے چمن کی داستاں کوئی سو سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ متحدہ ہندوستان کے بدیسی حکمرانوں کو اپنا ڈوبتا سورج بچانے کے لیے خون کی ضرورت پڑی تو اس مقصد کے لیے اسے دھن کا یہ خطہ بہت موزوں لگا۔اس بارانی علاقے میں قحط، خشک سالی اور غربت کے مارے لوگوں کو بھی اس کے سوا چارہ نہ تھا سو یہ تال میل چل نکلا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو یہاں کے جوانوں کی بہت بڑی تعداد گولیوں کی سنسناہٹ اور توپوں کی گھن گرج کا سامنا کرنے ایسی زمینوں پر پہنچ گئی جن کا تصور گزشتہ کئی ہزار سال میں شاید ان کے آباء نے بھی نہ کیا ہو گا۔ پہلی "وڈی لام" پر گئے ایسے سپاہی جنھوں نے ریل کی شکل بھی دیار غیر میں جا دیکھی تھی چند سال بعد واپس آئے تو اپنے گاؤں کے پاس سے گزرتی ٹرین دیکھ کر ششدر رہ گئے تھے۔ ان کے لیے یہ خبر انتہائی دلچسپ تھی کہ ریل اب ان کے گاؤں چک نورنگ کے پاس سے بھی گزرا کرے گی۔
قصبہ چک عمرا سے تعلق رکھنے والے چکوال کے معروف ناول نگار اقبال فیروز نے ایسی کئی کہانیاں جنگ عظیم اول میں حصہ لینے والے اپنے نانا کے بھائی غلام محمد سے سن رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "جنگ اور قید سے واپس آنے والے سپاہیوں کو جب اس بات کا علم ہوتا تو وہ خوشی سے باقاعدہ چھلانگیں مارتے اور نعرے بازی کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچپن میں اس ریلوے اسٹیشن کو بہت پررونق دیکھا ہے۔ یہاں لگے پیپل کے سائے میں درجنوں دیہاتی خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے۔ بہت سے لوگ محض یہاں کی رونق دیکھنے یا اس پیپل کے نیچے سستانے کو بھی آیا کرتے تھے۔ ریل کی آمد پر افراتفری کا سا ماحول بن جاتا تھا۔ یہ ریلوے اسٹیشن بہت اہم تھا کیوں کہ یہ اردگرد کے درجنوں دیہات کو سہولت دیتا اور اسی لیے یہاں خاصا رش ہوتا تھا۔ چک نورنگ میں ایک پھاٹک بھی بنا ہوا تھا اور اس مقام کو آج بھی "چک نورنگ پھاٹک" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اقبال فیروز کے مطابق "مندرہ چکوال ریلوے کی انتظامیہ ایک خالی ڈبہ (بوگی) آتے جاتے ہوئے چکوال یا ڈھڈیال سے انجن کے ساتھ لگایا کرتی تھی۔ یہ ڈبہ صرف چک نورنگ اسٹیشن پر منتظر مسافروں کے لیے ہوتا تھا کیونکہ ان کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس اسٹیشن پر ٹکٹ دینے یا بکنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا چنانچہ مسافروں کو دوران سفر ہی ٹکٹ دیا جاتا تھا جب کہ باقی جگہوں پر مسافر ٹکٹ لے کر ہی ریل میں سوار ہو سکتے تھے"۔
اقبال فیروز چند سال قبل لکھے گئے اپنے ایک کالم میں رقم طراز ہیں کہ" ان کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو جونا گڑھ کا رہنے والا تھا۔ اس بزرگ نے مندرہ چکوال ریلوے ٹریک کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا اور اس کا کہنا تھا کہ اس پر تین تین سو لوگ کام کرتے رہے اور بہت سے مقامی لوگ بلا معاوضہ ان کا ساتھ دینے کے لیے اپنے گدھے اور بیل لے کر آتے اور مٹی وغیرہ ڈھونے میں مدد کرتے"۔
وہ لکھتے ہیں کہ "یہاں شروع میں ایک ہی ٹرین چلتی تھی جو صبح راولپنڈی سے آتی اور دن دو بجے روانہ ہو جاتی۔ بعد میں ایک اور گاڑی رات کو چکوال پہنچتی اور سحری کے وقت روانہ ہو جاتی۔ چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر عملہ نہ ہوتا تھا اور بابو ٹرین کے ایک ڈبے میں ہی بیٹھ کر ٹکٹ دیا کرتے تھے".
دستاویزی شواہد ہمیں بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم(1914ء تا 1919ء) کے دوران یہ ریلوے لائن بچھائی جا چکی تھی تھی اور یہ 1990ء تک پوری طرح چالو رہی۔ یہ ٹریک 1997ء میں بند ہوا جب کہ 1998ء میں اس ریلوے ٹریک کو مکمل طور پر اکھاڑ لیا گیا تھا۔ اس ریلوے ٹریک کو ریلوے اصلاحات کے نام پر لیے گئے قرضے کی شرائط میں شامل ایک شق کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ مندرہ سے چکوال اور بھون تک 75 کلومیٹر لمبی یہ ریلوے لائن جنوری 1916ء میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ تین حصوں میں مکمل کی گئی تھی۔ مندرہ سے ڈھڈیال 4•44 کلومیٹر یکم مئی 1915ء کو مکمل ہوئی۔ ڈھڈیال سے چک نورنگ تک یہ یکم جون 1915ء تک مکمل ہوئی جب کہ بھون تک اسے پندرہ جون 1916ء کے دن کھولا گیا تھا۔ ڈھڈیال سے چک نورنگ ریلوے اسٹیشن تک حیرت انگیز سرعت سے کام ہوا تھا اور قریباً سات کلومیٹر کا یہ ٹریک محض ایک ماہ میں مکمل کر لیا گیا تھا۔
کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا چک نورنگ کا موجودہ ریلوے اسٹیشن 1960ء سے 1962ء کے دوران جنرل ایوب خان کے دور میں مکمل ہوا تھا۔ اس سے قبل یہاں شاید تین کمرے تھے مگر نئی تعمیر میں مسافروں کے بیٹھنے کا کمرہ اور انتظامیہ کے لیے رہائش بھی بنا دی گئی تھی اور کچھ عملہ بھی مستقل تعینات کر دیا گیا تھا۔ غالباً ستر کی دہائی تھی جب ڈاکٹر غلام حسین ریلوے کے وفاقی وزیر تھے تو انھوں نے اس ریلوے ٹریک پر "چکوال ایکسپریس " کے نام سے ایک ٹرین چلائی تھی اور کچھ عرصہ ایک ریل کار بھی یہاں چلتی رہی مگر یہ سلسلہ جلد بند ہو گیا۔ غیر مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آخری ٹرین جو راولپنڈی سے چکوال پہنچی تھی اس میں محض ایک مسافر سوار تھا۔
چک نورنگ کا یہ ریلوے اسٹیشن جنگ عظیم اول کے وسط میں بنایا گیا تھا جس کے بعد یہ قریباً سات دہائیوں تک اس علاقے کے باسیوں کی آمدورفت کا اہم ترین ذریعہ رہا۔ اب یہاں محض اس کی تیزی سے ختم ہوتی باقیات رہ گئی ہیں۔ اس ریلوے لائن کے اردگرد بہت سے شیشم اور کیکر کے درخت ہوا کرتے تھے جو اب ختم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخر تک جب یہ ریلوے ٹریک موجود تھا تو اس کی زنگ آلود پٹڑی اور اس کے اندر لگے لکڑی کے تختے دور تک پھیلے دکھائی دیتے تھے۔ اب یہاں کچھ نہیں ہے نہ درخت اور نہ ہی پٹڑی ، امید کی کرن بھی اب باقی نہیں رہی۔ جنگ عظیم اول سے لے کر نوے کی دہائی تک اس ریلوے لائن پر سفر کر کے اپنے گھروں کو لوٹ کر آنے والے بے شمار "ڈھول سپاہیوں" کی روحیں اب اس اجاڑ ریلوے اسٹیشن کو دیکھ کر یقیناً کڑھتی ہوں گی کہ ان کے جذبات سے جڑی یہ نشانی ہمیشہ کے لیے مٹ رہی ہے۔
تصاویر ۔۔۔۔۔علی خان

انشاءاللہآو اپنے حصہ کا کام کریں
19/06/2022

انشاءاللہ
آو اپنے حصہ کا کام کریں

چکوال کے قصبہ ڈھوک ودھن میں برلب سڑک ایک کسان دیسی خربوزے فروخت کر رہا ہے۔ خربوزہ خطہ پوٹھوہار کی اہم فصل رہا ہے مگر اب ...
19/06/2022

چکوال کے قصبہ ڈھوک ودھن میں برلب سڑک ایک کسان دیسی خربوزے فروخت کر رہا ہے۔ خربوزہ خطہ پوٹھوہار کی اہم فصل رہا ہے مگر اب ناپید ہونے کے قریب ہے۔ اب یہ صرف چند دیہات میں ہی کاشت کیا جاتا ہے۔ دیسی خربوزے کا بیج اب نایاب ہو چکا ہے۔ رنگت اور تیز مٹھاس سے قطع نظر دیسی خربوزے کی یہ فصل اپنے ذائقے، خوشبو اور افادیت میں بے مثال ہے۔

14/06/2022

محکمہ موسمیات نے کل شام سے ملک میں مزید پری مون سون بارشوں کی پیش گوئی کردی۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بحیرہ عرب کی مرطوب ہوائیں کل شام سے بالائی علاقوں میں داخل ہوں گی، 15 سے 23 جون کےدوران کشمیر اور گلگت بلتستان میں آندھی اوربارش کا امکان ہے، اس دوران بعض مقامات پر موسلا دھار بارش بھی ہوسکتی ہے ۔محکمہ موسمیات کے مطابق 16 سے 21جون تک اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، سرگودھا اور خوشاب میں بارش متوقع ہے۔اس کے علاوہ 16 سے 21جون تک لاہور، حافظ آباد، منڈی بہاء الدین، سیالکوٹ، شیخوپورہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔ 17 سے 20 جون تک ملتان، ڈیرہ غازی خان، بھکر اور ساہیوال میں بارش ہوسکتی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق 17 سے 20جون تک خانیوال، اوکاڑہ، بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یار خان میں آندھی وبارش ہوسکتی ہے۔ 16 اور 17 جون کو راولپنڈی، اسلام آباد، جہلم، گوجرانوالہ میں موسلادھار بارش کاامکان ہے۔اس کے علاوہ 16 اور 17جون کو لاہور، قصور اور شیخوپورہ میں موسلادھار بارش ہوسکتی ہے، 16 اور 17جون کی موسلادھار بارش سے راولپنڈی اور لاہور میں اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 15 سے 22 جون تک چترال، دیر، سوات، ایبٹ آباد اور دیگر شہروں میں بارش کا امکان ہے، 15 جون کو پشاور، صوابی، نوشہرہ، کرم، کوہاٹ میں آندھی اورگرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے۔15 جون کو وزیرستان، لکی مروت، بنوں اور ڈی آئی خان میں بھی بارش ہوسکتی ہے، 17 سے 19 جون تک سکھر، جیکب آباد اور لاڑکانہ میں بارش کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں سے گرمی کی حالیہ لہر کم ہوجائےگی، فصلوں، سبزیوں اور باغات کیلئے پانی کی دستیابی بہتر ہوجائےگی البتہ موسلا دھار بارش سے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اورمشرقی بلوچستان میں طغیانی کا خدشہ ہے، صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام متعلقہ ادارےالرٹ رہیں۔

چکوال تحصیل چوآسیدن شاہ کیڈٹ کالج کٹاس میں عرصہ دراز سے تعینات کرپٹ اور بد عنوان پرنسپل کا معاملہ شدت اختیار کر گیا۔کیڈٹ...
13/06/2022

چکوال تحصیل چوآسیدن شاہ کیڈٹ کالج کٹاس میں عرصہ دراز سے تعینات کرپٹ اور بد عنوان پرنسپل کا معاملہ شدت اختیار کر گیا۔کیڈٹ کے کالج کے طالبعلم احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے
اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی کے مظاہرین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا
مظاہرین طالبعلموں کا وزیر اعظم شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف ،کمشنر راولپنڈی نور الامین مینگل ،ایم پی اے محترمہ مہوش سلطانہ راجہ ،ڈی سی چکوال عدنان محمود اعوان، اسسٹنٹ کمشنر چوآ محمد عارف قریشی سے کرپٹ پرنسپل کے تبادلے کا مطالبہ
چوآسیدن شاہ کیڈٹ کالج کٹاس میں تعینات کرپٹ پرنسل مہر اعجاز کی عرصہ دراز سے تعینانی کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ۔ کیڈٹ کالج کے طالبعلم احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اے سی آفس کے باہر پہنچے جہاں اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی اور پولیس بھی موقع پر پہنچی ۔ اسسٹنٹ کمشنر نے مظاہرین نے مذاکرات کرتے ہوئے احتجاج ختم کرکے معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ اس موقع پر مظاہرین طالبعلموں کا کہنا تھا کہ ہم وہی فیس دیتے ہیں جو باقی کیڈٹ کالجز کے طالبعلم دیتے ہیں لیکن ہمیں یہاں کوئی سہولیات نہیں دی جارہی پرنسپل مہر اعجاز کو اس کالج میں چار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس دوران کالج میں تعلیم کا بیڑا غرق ہوا ۔ مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی سے کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا-مظاہرین طالبعلموں نے وزیر اعظم شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف ،کمشنر راولپنڈی نور الامین مینگل ،ایم پی اے محترمہ مہوش سلطانہ راجہ ،ڈی سی چکوال عدنان محمود اعوان، اسسٹنٹ کمشنر چوآ محمد عارف قریشی سے کرپٹ پرنسپل کے تبادلے کا مطالبہ کیا ہے رپورٹ ملک عظمت حیات ڈسٹرکٹ چکوال

12/06/2022

پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس 13جون کو طلب ‘ترقیاتی اسکیموں کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے جانے کی توقع
تحریک انصاف نے پنجاب میں سال 22-2021 کے بجٹ میں اے ڈی پی کے لیے 5 کھرب 60 ارب روپے مختص کیے تھے جسے بعدازاں 6 کھرب 40 ارب تک بڑھادیا گیا تھا.رپورٹ

12/06/2022

پنجاب بھر کی میونسپل کمیٹاں بحال کر دی گئی اسٹنٹ کمشنرز میونسپل کمیٹیوں کے ایڈمنسٹریٹر تعینات ۔۔۔

کلرکہار کے قریب موٹروے پر فیصل آباد سے اسلام آباد جانے والی کار کو حادثہ 3خواتین 1بچے سمیت 5افراد زخمی ایک خاتون کی حالت...
12/06/2022

کلرکہار کے قریب موٹروے پر فیصل آباد سے اسلام آباد جانے والی کار کو حادثہ 3خواتین 1بچے سمیت 5افراد زخمی ایک خاتون کی حالتِ تشویشناک،حادثہ ڈرائیور کے سو جانے سے پیش آیا تمام زخمیوں کو ٹراماسنٹر ہسپتال کلرکہار منتقل کر دیا گیاتمام زخمی ایک ہی خاندان کے تھے اور سیر وتفریح کے کے ناران کاغان جا رہے تھے، تمام کا تعلق فیصل آباد سے بتایا گیا ہے۔

چکوال کے نواحی قصبہ چک ملوک سے موٹرسائیکل چوری کے منظم گروہ کے پکڑے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ابتدائی طور پر موصول...
12/06/2022

چکوال کے نواحی قصبہ چک ملوک سے موٹرسائیکل چوری کے منظم گروہ کے پکڑے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ابتدائی طور پر موصول ہونے والی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق چک ملوک سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریفک وارڈن اور اس بھائی کے ملوث ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔ تھانہ سٹی چکوال کی پولیس مصروف تفتیش ہے۔ اتوار کے روز تھانہ سٹی چکوال کی پولیس نے قصبہ چک ملوک سے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس کے قبضہ سے مسروقہ موٹرسائیکل ہنڈا 125 برآمد کر لیا ہے۔ پولیس کی مزید تفتیش سے ہوش ربا انکشافات ہونے کی توقع ہے۔ تھانہ سٹی چکوال کی پولیس نے فون پر رابطہ کرنے پر تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دیر تک ابتدائی تفتیش کے بعد تفصیلات فراہم کریں گے۔

چکوال کے ہیروز ان شخصیات کے بارے مختصر تفصیلات ان کی تصاویر کے ساتھ ہیں۔
11/06/2022

چکوال کے ہیروز

ان شخصیات کے بارے مختصر تفصیلات ان کی تصاویر کے ساتھ ہیں۔

بھون چوک چکوال کی ایک پرانی تصویر
10/06/2022

بھون چوک چکوال کی ایک پرانی تصویر

چکوال، چوآ سیدن شاہ روڈ
07/06/2022

چکوال، چوآ سیدن شاہ روڈ

چکوال دلجبہ کے جنگلات  میں تین دن سے لگی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکاچکوال:۔ آگ نے جنگل کے بڑے رقبے کو اپنے لپیٹ میں لے لی...
07/06/2022

چکوال دلجبہ کے جنگلات میں تین دن سے لگی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا
چکوال:۔ آگ نے جنگل کے بڑے رقبے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا
چکوال:۔ آگ تیزی سے پھیلتی جارہی رہی ہے عینی شاہدیں
چکوال:۔ آگ سے چھوٹے درختوں اور پودوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے
چکوال:۔ آگ کے شعلے دور دور سے دکھائی دیے رہے ہیں
چکوال:۔ جنگل میں لگی آگ پھیلنے سے جنگلی حیات اور جنگلات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے،

▪️ریاست مخالف بیان، قومی اسمبلی کی عمران خان کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کی تجویزاسلام آباد:  قومی اسمبلی نے ریاست مخالف ...
07/06/2022

▪️ریاست مخالف بیان، قومی اسمبلی کی عمران خان کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کی تجویز

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے ریاست مخالف بیان دینے پر چیئر مین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تجویز دے دی۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ایٹمی پروگرام اور پاک فوج سے متعلق انٹرویو کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی۔ وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف قرار داد پیش کی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ پاک فوج کی دفاع کے لیے ناقابل تسخیر خدمات ہیں، یہ ایوان پی ٹی آئی کے چیئرمین کے انٹرویو اور الفاظ کی شدید مذمت کرتا ہے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نے کہا اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو پاکستان 3 ٹکڑے ہوجائے گا، یہ ایوان عمران نیازی کے بیان کی مذمت کرتا ہے۔

قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دیں، یہ ایوان انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ریاست سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔

اس دوران سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، عمران خان کا اقتدار کیا گیا یہ ہر روز نئی بات کرتے ہیں۔ معلوم نہیں عمران خان نے دنیا میں کس کس کو راز دے دیے ہوں گے، لگتا ہے جو پاکستان کے خلاف نقشے بنائے گئے اس میں بھی یہ شامل تھے۔

وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے 3 ٹکڑوں کی بات کرکے اس کی تائید کی ہے، ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور اسے تکمیل تک نواز شریف نے پہنچایا۔

نور عالم خان
رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر آرٹیکل 6 لگانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آرٹیکل 6 نہیں لگائیں گے تو فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف آواز اٹھتی رہے گی۔ آئین کو جو پامال کرے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اگر کسی نے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو اس پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔

سیّد خورشید شاہ

خورشید شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے پی ٹی آئی دور میں مسلسل جیل میں ڈالا گیا مگر میں نے عمران خان کے حوالے سے کبھی بات نہیں کی۔ یہ شخص اب سیاسی مارچ کو ختم کرکے نام صلح حدیبیہ کا دیتا ہے، کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی، یہ کیسے صلح حدیبیہ کا موازنہ کرسکتا ہے۔ جب اس طرح کے لوگ ایسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرینگے تو پھر توہین جیسے واقعات ہوتے ہیں، عمران کے خلاف صلح حدیبیہ کا نام استعمال کرنے کے خلاف بھی قرارداد آنی چاہیے۔

غوث بخش مہر

غوث بخش نے کا کہا کہ اگر ایسی قرارداد لانی ہے تو پھر پرانے بھی سارے بیانات نکال لیں اور جس جس نے فوج اور عدلیہ کے خلاف جو جو بات کہی، سب کے خلاف قرارداد لائیں۔

سائرہ بانو

سائرہ بانو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایک شخص کی مذمت کرنے سے پہلے ان سب کی مذمت کریں جو فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں، اگر اجازت دیں تو ان کی جانب سے فوج کے خلاف کی گئی باتوں کو کل مائیک پر سنادوں گی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں سب کو عمرانوفوبیا ہوگیا ہے، سائرہ بانو نے واضح کیا کہ ہم یہاں عمران کا دفاع کرنے نہیں بیٹھے مگر یہاں پیٹرول بم کی بات کیوں نہیں کی جارہی سب کی خاموشی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے پیٹرول پر ساٹھ روہے نہیں ساٹھ پیسے بڑھے ہوں۔

ترجمان بی جے پی کی نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان کی پر زور مذمت

دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے بی جے پی کی ترجمان نورپورشرما کے خاتم النبین حضرت محمّد ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان کی پر زور مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت قرار دیا ہے۔اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اپنے علیحدہ علیحدہ مذمتی بیانات میں کہا کہ حضرت محمّد ﷺکو پوری انسانیت کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور آپ ﷺنے اپنی تعلیمات کے ذریعے دنیا میں امن ، سلامتی اور انسانیت سے محبت کے پیغام کو اجاگر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ترجمان نور پور شرما کے حضرت محمّد ﷺکے بارے میں گستاخانہ بیان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات اور احساسات بری طرح مجروح ہوے ہیں اور اس کے خلاف دنیا بھر مسلمانوں میں اشتعال اور انتہائی غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی مذہب بھی مذہبی شخصیات کے بارے میں اس طرح کے گستاخانہ بیانات کی اجازت نہیں دیتا ۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ترجمان کا بیان بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی عکاسی ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی کی فاشسٹ حکومت بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک سیاہ دور ہے اور ان پر ظلم و مصائب کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔انہوں نےپورے عالم اسلام کو اس شرم ناک بیان کے خلاف متحد ہونے اور بھرپور آواز اٹھانے کا کہا۔انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بی جے پی کی ترجمان کے حالیہ بیان اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کا سختی سے نوٹس لینے کا بھی کہا۔

قومی اسمبلی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺاتھارٹی بل 2022ء کی منظوری دے دی

قومی اسمبلی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کی منظوری دے دی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی بل 2022ء پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے میں آج تک کی تاخیر پر صرف نظر کرنے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری کے بعد مرتضیٰ جاوید عباسی نے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے تحریک پیش کی کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ تحریک کی منظوری کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے بل کی ایوان سے شق وار منظوری حاصل کی۔

بل میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی پیرزادہ سید عمران احمد شاہ ، شاہدہ اختر علی ، شازیہ اسلم ثوبیہ اور انجینئر صابر حسین قائمخانی نے ترامیم پیش کیں جنہیں ایوان کی منظوری کے بعد بل میں شامل کرلیا گیا۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے تحریک پیش کی کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء منظور کیا جائے، قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے بل کی منظوری دے دی۔

واضح رہے کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کے نام کو رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کرنے کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کی رکن شاہدہ اختر علی نے ترمیم پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس طرح بل کا نام رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی بل 2022ء کردیا گیا۔ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کا دائرہ کار پورے پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا اور یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔ اس بل کے تحت اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ وزیراعظم ہونگے اور اس کے ارکان کی تعداد 6 ہوگی جن کا تقرر وزیراعظم کریں گے۔

اتھارٹی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی بورت تشکیل دیا جائے گا تاکہ وہ سرپرست اعلیٰ کو مشاورت اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔ مشاورتی بورڈ ایسے دس ارکان پر مشتمل ہوگا جو عالمی شہرت اور بے عیب ساکھ کے حامل ہوں گے۔ مشاورتی بورڈ کے ارکان کا تقرر بھی وزیراعظم بطور سرپرست اعلیٰ کریں گے۔ مشاورتی بورڈ کم از کم سہ ماہی بنیاد پر ایک بار اجلاس منعقد کرے گا۔ اتھارٹی کے چیئرپرسن کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے کیا جائے گا اور ایسے شخص کو بطور چیئرمین لگایا جائے گا جو ممتاز عالمی شہرت اور لیاقت کا حامل ہوگا اور وہ سیرت طیبہ کے معاملات اور ادب کے تقاضوں سے کماحقہ واقف ہوگا۔

دینی امور اور تحقیق میں تجربے کا حامل ہوگا۔ چیئرپرسن کے عہدے کی مدت تین سال تک کی ہوگی جو اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ (وزیراعظم) کی مرضی اور منشا کے مطابق قابل توسیع ہوگی تاہم چیئرپرسن وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مستعفی ہو سکے گا۔ اتھارٹی کے اختیارات اور کارہائے منصبی کے مطابق قوم کی کردار سازی کے ذریعے انصاف، قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کی بنیاد پر ریاست مدینہ کے تصور کو حقیقی بنانا، حضورﷺ کی عملی زندگی سے سماجی ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات اور اقدار کی نشاندہی کرنا اور انہیں بڑے پیمانے پر معاشرے اور افراد کی زندگی میں شامل کرنا، حضورﷺ کی زندگی کے کلیدی جزو کو فروغ دینے اور تشہیر کرنے کے لئے پالیسیاں، حکمت عملیاں اور وسیلے بنانا اس میں امن، ہمدردی، دوسروں کا خیال رکھنا، رواداری، علم، ترقی، حکمت، صبر، قناعت، اخلاقی رویہ، سماجی اثر، ماحولیاتی تحفظ اور سیرت کے دیگر نمایاں پہلو شامل ہیں۔ نوجوان نسل کی رہنمائی کرنے کے لئے حضرت محمدﷺ کی سیرت اور حدیث پر تحقیقی مطالعات کا انعقاد کرنا بھی رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی کی ذمہ داری ہوگی۔ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر نوجوان نسل کی بہتر شخصیت کی نشوونما کے لئے تعلیمی اور سیکھنے کے عمل کو فروغ دینا، پوری دنیا سے سیرت پر بین الاقوامی ادب اور تحقیق کا جائزہ لینا، اسے قابل رسائی، قابل ترجمہ اور دور حاضر سے متعلقہ بنانا، سیرت النبیﷺ کی نسبت سے کانفرنسز، نشر و اشاعت کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے صوبائی تعلیمی محکموں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ کو نئی نسل تک پہنچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات بھی اتھارٹی کے فرائض میں شامل ہوں گے۔

بی جے پی کے ترجمان اور رہنمائوں کی ہرزہ سرائی کی قومی اسمبلی میں مذمت

قومی اسمبلی نے بھارت میں بی جے پی کے ترجمان اور رہنمائوں کی جانب سے ہرزہ سرائی اور توہین آمیز الفاظ پر مشتمل بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ قرارداد میں بین الاقوامی برادری سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ ہندو توا نظریے کے تحت پرتشدد کارروائی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی نے اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی اجازت چاہی، اجازت ملنے پر انہوں نے ایوان میں قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور رہنمائوں کی جانب سے ہرزہ سرائی اور توہین آمیز بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، ان بیانات سے مسلم امہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، عالم اسلام اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان نبی کریم خاتم النبیینﷺ ۖ سے محبت کرتے ہیں اور قرآن کے حکم کے مطابق مومنوں کے لئے نبی کریمﷺۖ کی محبت، ان کے بچوں اور ماں باپ سے اولیت رکھتی ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ توہین آمیز ریمارکس سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے، ایوان بھارتی رہنمائوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور توہین آمیز بیانات دینے والے رہنمائوں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

قرارداد کے متن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کے توہین آمیز ریمارکس پر مبنی واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ قرارداد میں بین الاقوامی برادری سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ایوان نے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔

Address

Kodaak Photo Master Bhoun Road
Chakwalian
48800

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Chakwal Mehnda Ghar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Chakwal Mehnda Ghar:

Videos

Share

Category


Other Chakwalian media companies

Show All