My Chakwal

My Chakwal Welcome To My CHAKWAL Page … it’s all about Chakwal

My Chakwal , Ambassdor Of Chakwal
All About ChakwaL....Pictures, Videos, Information and News of our Beautiful Chakwal....ذرا ہٹ کے
█▓▒░ W E L C O M E TO MY CHAKWAL ░▒▓█ ���
دوستوں ہم نے اس پیج کے ذریعے چکوال کی تصاویر، ویڈیوز اور چکوال کے متعلق معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔امید ہے آپ کو ہماری کاوش پسند آئے گی۔

پروفیسر لیاقت علی خان مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر ڈیپارٹمنٹ آف انگلش پنوال کالج (چکوال) میں گزشتہ دنوں ایک تقریب کا ان...
08/12/2023

پروفیسر لیاقت علی خان مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر ڈیپارٹمنٹ آف انگلش پنوال کالج (چکوال) میں گزشتہ دنوں ایک تقریب کا انعقاد ہؤا جسمیں بی ایس انگلش سمسٹر ون کے طلبہ و طالبات نے چوہدری لیاقت کی شاعری اور ان کے بارے لکھے گئے مضامین سے اقتباسات پڑھے ۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں پروفیسر شاہد آزاد ، سجاد سلیم اور آصف جاوید پہ مشتمل پینل نے مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ گفتگو کرتے ہوئے انہیں علاقے کی بہت بڑی علمی و ادبی شخصیت قرار دیا۔ اس سیشن کی نظامت پروفیسر محمد اکرام نے کی ۔ پینل کے شرکانے چوہدری لیاقت کی زندگی کو نظرئیے، فن و فلسفہ اور جمالیات کے پہلوؤں سے زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیم اور فنون لطیفہ کے میدان کا ایک معتبر حوالہ تھے اور ان کے اثرات کا دائرہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہؤا تھا ۔شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر شاہد آزاد نے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں مرحوم کی یاد زندہ رکھنے کے لیئے لیاقت علی ڈرامیٹک کلب کے قیام کااعلان بھی کیا۔

گورنمنٹ کالج برائے خواتین چکوال کا ایک اور اعزاز۔۔۔!!!!نیب کے زیر اہتمام منعقدہ مقابلہ برائے اردو مضمون نویسی میں گورنمن...
08/12/2023

گورنمنٹ کالج برائے خواتین چکوال کا ایک اور اعزاز۔۔۔!!!!

نیب کے زیر اہتمام منعقدہ مقابلہ برائے اردو مضمون نویسی میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی سال اوّل کی ہونہار طالبہ قراة العین نے ضلعی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ڈوپژن میں بھی اس اعزاز کو برقرار رکھتے ہوئے اوؔل پوزیشن حاصل کر لی۔

تفصیلات کے مطابق نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو (نیب) نے راولپنڈی ڈویژن میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر کالجز کے مابین اردو مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کروایا۔ مضمون کا عنوان “رشوت ستانی” تھا۔ تمام اضلاع سے پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کا مقابلہ ڈویژن کی سطح پر منعقد کرایا گیا۔اس مقابلے میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین چکوال کی ہونہار طالبہ قراة العین نے پورے راولپنڈی ڈویژن میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے ضلع کا نام روشن کر دیا۔ کالج کی پرنسپل اور شعبہ اردو کی اساتذہ کی انتھک محنت کے باعث گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی طالبات ملک بھر میں چکوال کا نام روشن کر رہی ہیں۔

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَمعروف دینی شخصیت پیر سید ریاض الحسن شاہ صاحب بقضائے الہی انتقال فرما گئے۔نماز...
08/12/2023

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

معروف دینی شخصیت پیر سید ریاض الحسن شاہ صاحب بقضائے الہی انتقال فرما گئے۔
نماز جنازہ آج شام 4بجے چکوال میونسپل سٹیڈیم میں ادا کی جائے گی اور تدفین جامعہ اسلامیہ غوثیہ گلستان شیخ الحدیث تلہ گنگ روڈ چکوال میں ہو گی۔

چکوال کے نوجوان آرٹسٹ رضا عباس رضی کی خوبصورت آئل  پیٹنگ۔ بنیادی طور یہ پینٹنگ چکوال کے ایک اور باصلاحیت آرٹسٹ شہزاد کوث...
07/12/2023

چکوال کے نوجوان آرٹسٹ رضا عباس رضی کی خوبصورت آئل پیٹنگ۔ بنیادی طور یہ پینٹنگ چکوال کے ایک اور باصلاحیت آرٹسٹ شہزاد کوثر کا تخیل ہے۔

تیزابی ٹوٹے ۔۔!!!《○》 کچھ لوگ بجلی جانے کی صورت میں جنریٹر چھت یا گلی کے دروازے کے پاس رکھ کر چلاتے ہیں تاکہ محلے دار بھی...
06/12/2023

تیزابی ٹوٹے ۔۔!!!

《○》 کچھ لوگ بجلی جانے کی صورت میں جنریٹر چھت یا گلی کے دروازے کے پاس رکھ کر چلاتے ہیں تاکہ محلے دار بھی اس میوزک کو انجوائے کریں۔

《○》 سڑک کے کنارے کھلی بکنے والے کھانے کی اشیاء میں کچھ گرام گرد بھی پیکج کا حصہ ہوتا ہے۔

《○》 بھائی بس اگلی گلی تک جانا ہے کہہ کر رکشے والے کو دو کلومیٹر گلیوں میں گھمانا بھی خواتین کا ہی کمال ہے۔

《○》اگر آپ کوئی کام نہیں کرتے تو کچھ لوگوں کو اس بات کی آپ سے بھی زیادہ ٹینشن لگی رہتی ہے۔

《○》پانی کے تالاب اس قدر گندے اور آبی مخلوق سے خالی ہوتے جارہے ہیں کہ اب بگلے بھی گندگی کے ڈھیر پر خواراک تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

Chakwal©

06/12/2023

جنگلی حیات کی نسل کشی کو کون روکے گا؟
تحصیل کلرکہار میں شکار کی اجازت کی آڑ میں پنجابی اڑیال ' مور اور دیگر پرندے نشانے پر۔۔
خیر پور اور ملحقہ علاقوں میں شکاری پارٹیوں کی نقل وحرکت کی وجہ سے فصلوں کو نقصان۔۔۔
ایکشن کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔۔!!!
کڑوی بات ذوالفقار میر

پس تحریر : کچھ ذرائع کے مطابق شکار کی اجازت ملنے کا فائدہ کچھ ایسے لوگ بھی اٹھا رہے ہیں جن کے پاس شکار کا سرے سے کے لیے لائسنس ہی نہیں ہے۔

فراڈ الرٹ ۔۔۔۔  📢آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر فرد کے موبائل فون میں "نان کسٹم موبائل واٹس ایپ گروپ" جو ہمارے غریب...
05/12/2023

فراڈ الرٹ ۔۔۔۔ 📢

آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر فرد کے موبائل فون میں "نان کسٹم موبائل واٹس ایپ گروپ" جو ہمارے غریب لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے جال میں لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس گروپ میں ایڈمن سستے موبائل ، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ واچ کی تصاویر بھیجتا ہے اور ساتھ میں موبائل کی قیمت 1000 ہزار لیپ ٹاپ کی 15000 اور واچ کی قیمت 5000 جس میں یہ غریب لوگوں کو لالچ میں لے آتے ہیں۔

غریب لوگ لالچ میں آ کر اسے پرسنل میں ایس ایم ایس کر دیتے ہیں کہ سر مجھے یہ موبائل چاہیے تو ایڈمن اس کو بولتا ہے کہ آپ اس ایزی پیسہ نمبر پر ہاف قیمت (آدھی قیمت) ادا کر دو باقی قیمت پارسل کے بعد ادا کر دینا۔ غریب آدمی خوش ہو کر اسے ہاف قیمت اسے سینڈ کر دیتا ہے پھر ایڈمن اس کو بولتا ہے کہ آپ پانچ منٹ انتظار کریں میں آپ کا پارسل پیک کرواتا ہوں اور آپ کو TCS کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کرتا ہوں لیکن وہ آپ TCS کی FAKE سلپ بنا کر سینڈ کر دیتا ہے اور پارسل کی ویڈیو انٹرنیٹ سے ڈاؤنلوڈ کر کے آپ کو سینڈ کر دیتا اور بولتا ہے آپ کو 24 گھنٹے میں پارسل پہنچ جاۓ گا اور ساتھ میں یہ بولتا ہے کہ آپ نے TCS دفتر نہیں جانا کیونکہ ہمارا TCS والوں ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا مال نان کسٹم ہوتا ہے وہ پھر آگے نہیں بھیجتے اسلیے ہم نے اپنا خود کا TCS دفتر بنایا ہوا ہے Tcs والا آپ سے خود رابطہ کرے گا۔

پھر جب 24 گھنٹے گزرتے ہیں تو آپ کو واٹس ایپ Fake TCS والا ایک ایس ایم ایس کرتا ہے اور بولتا ہے کہ سر آپ کا پارسل میں لے کر آرہا ہوں آپ مجھے TCS کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کریں۔ کسٹمر تو دونوں چیزیں سینڈ کرتا ہے لیکن TCS والا دوبار ایس ایم ایس کرتا ہے کہ سلپ میں CN نمبر کراس ہے مجھے CN نمبر سینڈ کریں گے تو ہی میں پارسل آپ کا آپ کے ایڈریس پر لے آؤں گا۔

کسٹمر ایڈمن کو ایس ایم ایس کرتا ہے سر مجھے CN نمبر سینڈ کریں تو ایڈمن بولتا ہے 2 منٹ انتظار کرو میں اونر سے لے کر سینڈ کرتا ہوں۔ 2منٹ بعد ایڈمن میسج کرتا ہے کہ کسٹمر کی ہاف قیمت ادا کرنے والی بقایا رہتی ہے تو اونر کہتا ہے کہ بقایا قیمت ادا کریں گے تو ہی CN نمبر ملے گا۔

اب غریب آدمی پھر لالچ میں آکر بقایا قیمت ایزی پیسہ کر دیتا ہے۔ پھر ایڈمن CN نمبر سینڈ کرتا ہے تو وہ کسٹمر آگے فیک TCS والے کو سینڈ کرتا ہے تو وہ آگے سے بولتا ہے کہ ادھر ابھی ہماری نان کسٹم گاڑی چیک ہو رہی ہے تو آدھا گھنٹا لگ جائے گا۔

پھر آدھے گھنٹے بعد TCS والا میسج کرتا ہے کہ کسٹم والوں نے ہمارا سارا مال پکڑ لیا ہے تو کسٹم والے ایک پارسل کا 9000 ہزار مانگ رہے ہیں تو میں آپ کو ایزی پیسہ نمبر سینڈ کر رہا ہوں اس پر قیمت ادا کر دو باقی پارسل والے لوگ بھی قیمت ادا کر رہے ہیں اور وائس ایپ میسیج کرتا ہے کہ آپ سوچو کہ آپ کسٹم ادا کر دو گے تو آپ کا 1000 ہزار والا موبائل 60000 میں مارکیٹ میں سیل ہو سکے گا۔۔۔

ادھر آ کر تو آپ کو پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ لوگ صرف آپ کے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ پھر بھی لالچ میں آکر 9000 ہزار سینڈ کر دیتے ہیں ۔

پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں ایسے گروپ چل رہے ہیں۔ اور یہ لوگ نہ جانے کہاں سے ہیں اور آپ اگر ان سے گودام کا ایڈریس پوچھو تو یہ ہر شخص آپ کو علیحدہ علیحدہ ایڈریس بتاتا ہے۔ زیادہ تر بلوچستان کا ایڈریس کسی کو چمن بارڈر کسی کوئٹہ کسی کو گوادر کسی کو قلعہ سیف اللہ کسی کو ایران بارڈر بتاتے ہیں۔ یہ لوگ آپ سے بہت پیارے انداز میں بات کرتے ہیں کہ ہر شخص ان کی جال میں پھنس جائے۔

آئیے اس فراڈ کو بےنقاب کریں۔۔۔ اس پوسٹ کو گروپس اور اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کریں۔

منقول

پنجاب حکومت نے چنگ چی رکشہ بندکرانے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔پنجاب کے نگران وزیر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد  کے مطابق ...
04/12/2023

پنجاب حکومت نے چنگ چی رکشہ بندکرانے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔

پنجاب کے نگران وزیر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد کے مطابق چنگ چی رکشوں کو 30 دن کی وارننگ دی گئی ہے۔

غیرقانونی موٹرسائیکل اور لوڈر رکشہ بنانے والوں کےخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ سے غیرمنظور شدہ رکشوں کو پہلے بڑے شہروں میں بند کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بند کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھاکہ چنگ چی رکشے کی آئندہ مینوفیکچرنگ پرپابندی ہوگی، چنگ چی رکشہ کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو ریگولرائز کیا جائے گا۔

دوسری جانب پنجاب میں فضائی آلودگی کم نہ ہوسکی، دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہورآج بھی سر فہرست رہا جبکہ کراچی کی فضا بھی آلودہ ہے۔

چنگچی رکشے ملک بھر میں چل رہے ہیں جو تانگوں کا بدل اور غریب عوام کو سستی آمدورفت فراہم کرتے ہیں لیکن یہ دھواں اور گردوغبار پیدا کرکے ماحول کی آلودگی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔اسطرح کروڑوں افراد سانس کے ذریعے اپنے اندر بیماریاں پال رہے ہیں۔ان سے پیدا ہونے والی فضائی اور زمینی آلودگی سڑک کے کنارے کھڑی ریڑھیوں اور دکانوں میں رکھی اشیائے خوردونوش میں شامل ہوکر امراض معدہ اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا موجب بن رہی ہے۔چنگچی رکشوں سے شاہراہوں پر ٹریفک میں خلل پیدا ہونا بھی عام ہے البتہ حکومت نے انھیں بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا ہے جب ملک کے طول وعرض میں لاکھوں افراد کا اس سے روزگار بندھ چکا ہے، یہ اقدام اگر شروع ہی میں اٹھالیا جاتا تو اس وقت صورتحال اس قدر مخدوش نہ ہوتی۔ بہتر ہوگا کہ ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے کہ جس سے اس روزگار سے وابستہ افراد کو آمدنی کے متبادل مواقع میسر آسکیں اور عوام الناس کو بھی ٹرانسپورٹ کی سہولت ملتی رہے۔

میڈیا رپورٹس

03/12/2023

ایک بھائی کا واٹس ایپ پر میسج موصول ہوا ہے یہ بور کا کام کرتے ہیں اور ان کی یہ پُلی پنوال سے پنڈی روڈ پر جاتے ہوئے کہیں راستے میں گر گئی ہے اگر کسی صاحب کو یہ ملی ہے تو برائے کرم اس نمبر پر رابطہ کر لیں۔

‪03335901235‬

اہل جبیر پور اور سمن آباد نے اپنی مدد آپ کے تحت جبیر پور چکوال روڈ پر بنے گڑھوں کو بند کرنے، نالے کی صفائی اور خستہ حال ...
03/12/2023

اہل جبیر پور اور سمن آباد نے اپنی مدد آپ کے تحت جبیر پور چکوال روڈ پر بنے گڑھوں کو بند کرنے، نالے کی صفائی اور خستہ حال پلیوں کی مرمت شروع کر دی۔ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ محلہ فاروقی سے سمن آباد کے درمیان سڑک کا ایک ٹکڑا ایک مدت سے خراب ہے حکام بالا اور سیاسی رہنماؤں کو بارہا اس مسئلے سے آگاہ کیا جبکہ بلدیہ سمیت مختلف محکموں کو بھی اس سلسلے میں اپرووچ کیا مگر فنڈز ہونے کا ہی رونا رویا گیا۔ اب اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑک کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور ساتھ ساتھ مخؔیر حضرات سے بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے۔
Report Chakwal©

پبلک لائبریری ڈی پی ایس چکوال کا قیام ، ایک خوش آئند قدم۔۔۔!!!تحریر : ابرار اختر جنجوعہ ڈسٹرکٹ پبلک سکول ( ڈی پی ایس ) چ...
03/12/2023

پبلک لائبریری ڈی پی ایس چکوال کا قیام ، ایک خوش آئند قدم۔۔۔!!!
تحریر : ابرار اختر جنجوعہ

ڈسٹرکٹ پبلک سکول ( ڈی پی ایس ) چکوال میں ایک شاندار لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس کا افتتاح گذشتہ ہفتے ڈپٹی کمشنر چکوال قراۃالعین ملک نے کیا۔اس سٹیٹ آف دی آرٹ لائبریری میں ابتدائی طور پر مختلف موضوعات پر تین ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ جن میں تاریخ ، اردو شاعری ، فلسفہ ، ناول، ادب ، اقبالیات، افسانے، اردو نثر، بائیوگرافی، انسائیکلوپیڈیا، گوشہ ادب،سفرنامے، اردو لغات ،تنقید،ثقافت، اسلام ، حوالاجاتی کتب( ریفرنس بکس) کے علاوہ متفرق موضوعات اور بچوں سے متعلقہ کتب موجود ہیں۔
ڈسٹرک پبلک سکول کے پرنسپل ندیم سرور کے مطابق اس وقت لائبریری میں اردو اور انگریزی میں تین سے چار ہزار کتب موجود ہیں اور اس تعداد کو بتدریج اور حسبِ طلب بڑھایا جائے گا۔ جو اہم اور ضروری کتب درکار ہونگی ان کو بھی لائبریری کا حصہ بنایا جائے گا۔ سکول کے طلبہ و طالبات، اساتذہ کرام اور عام عوام بھی نایاب کتابوں سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ ندیم سرور کے مطابق لائبریری کے قیام کا مقصد بچوں کو مطالعہ اور کتب بینی کی طرف راغب کرنا ہے۔ نئی نسل آج کل بہت زیادہ موبائل فون اور سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت برباد کر رہی ہے اس لائبریری کے قیام کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری نوجوان نسل میں کتاب پڑھنے کے رجحان کو تقویت ملے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ سکول کے طلبا کا ہفتے میں دو دن لائبریری کا پیریڈ رکھا گیا ہے تاکہ ان بچوں کے اندر کتاب پڑھنے کی عادت اور شوق پیدا ہو۔
عام لوگ بھی ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر ممبر شپ حاصل کر کے اس لائبریری سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ لائبریری کے ساتھ ایک خوبصورت کمرہ بطور ریڈنگ روم بھی مختص کیا گیا ہے۔ جہاں اگر کوئی آکے ریفرنس بکس کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔ علاوہ ازیں روزانہ کی بنیاد پر دو قومی اخبار ایک اردو اور ایک انگلش میں بھی دستیاب ہیں۔ لائبریری پیر سے ہفتہ تک صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک کھلی رہے گی جبکہ اتوار کو چھٹی کے باعث بند ہوگی۔چکوال سے تعلق رکھنے والے شعراء اور مصنفین چکوال کے حوالے سے اپنی کتب بھی لائبریری کو عطیہ کر سکتے ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے یکم دسمبر تا 31 جنوری 2024 تحصیل چوآسیدن شاہ اور تحصیل کلر کہار میں شکار کرنے کی اجازت دی...
02/12/2023

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے یکم دسمبر تا 31 جنوری 2024 تحصیل چوآسیدن شاہ اور تحصیل کلر کہار میں شکار کرنے کی اجازت دی ہے۔مگر ماضی کے تجربات اور محکمے کی سائیں جانڑن تے گائیں جانڑن پالیسی کو دیکھتے ہوئے چکوال کے باسیوں نے غیر قانونی اور بے دریغ شکار سے کے خلاف اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے خود ہی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ چکی رنگ پور، وہالی اور کلرکہار کے لوگوں نے اس سلسلے میں انتباہ جاری کردیا ہے۔۔!!!

محکمہ تعلیم پنجاب نے سکولوں میں موسمِ سرما کی تعطیلات کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ پیر 18 دسمبر 2023 سے 01 جنوری 2024 تک سکو...
02/12/2023

محکمہ تعلیم پنجاب نے سکولوں میں موسمِ سرما کی تعطیلات کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ پیر 18 دسمبر 2023 سے 01 جنوری 2024 تک سکول بند رہیں گے۔

01/12/2023

چکوال اور تلہ گنگ کی تمام خواتین کل صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک شہدا پارک چکوال میں آئیں جہاں ضلع کی تاریخ میں پہلی بار "Women Entrepreneurs Gala" کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں گاہک بھی خواتین ہونگیں اور دکاندار بھی۔۔۔!!!
ڈپٹی کمشنر چکوال

اپ ڈیٹ****الحمد للّٰہ بوچھال گاؤں سے گم ہونے والی یہ بچی آج مل گئی ہے۔ تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے پوسٹ شئیر کی اور اس ...
01/12/2023

اپ ڈیٹ****
الحمد للّٰہ بوچھال گاؤں سے گم ہونے والی یہ بچی آج مل گئی ہے۔ تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے پوسٹ شئیر کی اور اس بچی کو دعاؤں میں یاد رکھا۔

جزاک اللہ خیراً و احسن الجزاء ❤️

تقسیم ہند کے پچھتر سال بعد ہندوستانی فیملی اپنا آبائی قصبہ وہالی دیکھنے چکوال پہنچ گئی۔ آبائی علاقے کو پہلی بار دیکھنے ک...
01/12/2023

تقسیم ہند کے پچھتر سال بعد ہندوستانی فیملی اپنا آبائی قصبہ وہالی دیکھنے چکوال پہنچ گئی۔ آبائی علاقے کو پہلی بار دیکھنے کے بعد مہمانوں میں جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ مہمانوں نے اپنے آبائی علاقہ کے باسیوں اور پاکستان بھر کے لیے خیر سگالی کا پیغام بھی دیا ہے۔ چکوال کا قصبہ وہالی تقسیم ہند سے قبل وہالی اسٹیٹ کہلاتا تھا۔ اس قصبہ میں ہندوستان کے چند خوشحال ترین خاندان آباد تھے۔ ان خاندانوں میں ایک نمایاں خاندان سردار ہری سنگھ کا تھا جو تقسیم ہند کے ہنگاموں میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر ہندوستان کے شہر شملہ جا بسے تھے۔ پچھتر سال بعد سردار ہری سنگھ کے پوتے اور سردار درشن سنگھ کے بیٹے سردار موکشندر سنگھ اپنے آباؤ اجداد کا قصبہ دیکھنے وہالی پہنچ گئے۔ وہالی سے ہجرت کر کے جانے والا یہ خاندان اب امریکہ میں مقیم ہے مگر اپنے تعارف میں وہالی اسٹیٹ کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ سردار موکشندر سنگھ کے ساتھ ان کے بیٹے دلبیر سنگھ اور اس کی بیوی رینو کور بھی تھی۔ اہلیان علاقہ نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈال کر اپنی بستی کے پرانے باسیوں کی نئی نسل کا استقبال کیا۔سردار موکشندر سنگھ اپنے دادا کے پرانے گھر بھی گئے جہاں اب سکول قائم ہے۔ اس موقعہ پر مہمانوں کو پرانی دستاویزات اور یادگار تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ چھ ہندسستانی مہمانوں پر مشتمل اس گروپ نے گاؤں کی گلیوں میں گھومتے پھرتے یہاں موجود پرانے گھروں کو دیکھا اور پھر ان کی تواضع پنجاب بھر کے روایتی کھانوں سے کی گئی۔ مہمانوں نے پرتپاک استقبال پر انھوں نے اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان بھر کے لوگوں کے لیے محبتوں کا پیغام دیا۔

تحریر :علی خان
تصاویر بشکریہ: نعمان مرزا(وہالی)

پنڈی روڈ۔۔!!!!📷 خاور سجاد
01/12/2023

پنڈی روڈ۔۔!!!!
📷 خاور سجاد

جہلم روڈ۔۔۔!!!!
30/11/2023

جہلم روڈ۔۔۔!!!!

گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول چکوال کی تاریخ۔۔!!!!قاضی محمد مظہر الحق
30/11/2023

گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول چکوال کی تاریخ۔۔!!!!
قاضی محمد مظہر الحق

چھپڑ بازار۔۔۔!!!
28/11/2023

چھپڑ بازار۔۔۔!!!

چکوال کا بلند ترین مقام چہل ابدال کو جانے والا راستہ حکام بالا کی نظر کرم کا منتظر۔۔!!!!
27/11/2023

چکوال کا بلند ترین مقام چہل ابدال کو جانے والا راستہ حکام بالا کی نظر کرم کا منتظر۔۔!!!!

ہمارا گاؤں چکی رنگ پور تحصیل کلر کہار کا ایک گاؤں ہے جو رکھ بگا جنگل سے ملحقہ ہے, جہاں ھمارے گاؤں کے لوگوں کی ذاتی دلچسپ...
26/11/2023

ہمارا گاؤں چکی رنگ پور تحصیل کلر کہار کا ایک گاؤں ہے جو رکھ بگا جنگل سے ملحقہ ہے, جہاں ھمارے گاؤں کے لوگوں کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اڑیال کی کثیر تعداد موجود ہے۔
حال ہی میں محکمہ شکار کا ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جس میں تحصیل کلر کہار میں شکار کی اجازت شامل ہے۔ لیکن قانونی شکار میں بھی نہ کوئی شکاری آٹو میٹک ہتھیار استعمال کرنے سے رکتا ہے اور نہ ہی صرف 6 پرندوں کے شکار کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھتا ہے۔
ھمارے گاؤں کے لوگوں نے تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے درج ذیل اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔
1-گاؤں کے ملحقہ علاقے میں اڑیال کی موجودگی اور شکاریوں کی اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے پورے گاٶں کے علاقہ میں کسی بھی شکاری کو شکار کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں پنجاب گورنمنٹ کے متعلقہ ادارے کو پیشگی اطلاع دی جا چکی ہے۔
2- گاؤں میں موجود شکار کے لیے موزوں تمام زمین مقامی لوگوں کی ذاتی ملکیت ہے۔ جس میں یا تو گندم اور سرسوں کاشت کی جا چکی ہے یا مونگ پھلی کی چنائی ہو رہی ہے۔ شکاری حضرات کو وہاں جانے سے حتی الوسع حد تک روکا جائے گا۔
3-شکار والے دن اتوار کو پورے گاؤں کے نوجوان ان شا ءاللہ چوکس ڈیوٹی دیں گے۔ اور ہر ممکنہ طریقے سے جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔
4. شکار کی نیت سے آنے والےکسی بھی دوست یا رشتہ دار کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ جس کے لۓ گاؤں کے لوگوں کی طرف سے پیشگی معزرت۔ نہ خود شرمندہ ہوں اور نہ ہی ھمیں شرمندہ کریں۔
لہذا تمام شکاری حضرات سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ ھمارے گاؤں چکی رنگ پور میں شکار کا منصوبہ بنا کراپنا قیمتی وقت ضائع بالکل نہ کریں کیونکہ ھمار ی تمام تر ھمدردیاں اپنے گاؤں کے ساتھ اور تمام کوششیں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیۓ مرکوز ہیں جس کے لیے ھم ان شاءاللہ شکاریوں کی سوچ سے کہیں زیادہ اقدام کر یں گے۔

منجانب: اہل چکی رنگ پور گاؤں

آج اس پیج کو بنائے 13 سال مکمل ہوگئے۔۔!!!!
25/11/2023

آج اس پیج کو بنائے 13 سال مکمل ہوگئے۔۔!!!!

سرپاک۔۔!!!!
25/11/2023

سرپاک۔۔!!!!

پچھلا پہر اے شام دادِل نُوں عجب اُداسی اےاِنج لگدا اے دُنیا دی !!!!!کوئی وڈی شے گواچی اے۔
24/11/2023

پچھلا پہر اے شام دا
دِل نُوں عجب اُداسی اے
اِنج لگدا اے دُنیا دی !!!!!
کوئی وڈی شے گواچی اے۔

24/11/2023

ایک نیلے رنگ کا سکول بیگ جس میں ون کلاس کی کتابیں ہیں، کل ( 23 نومبر) صبح سات بجے مرید اور بل کسر انٹر چینج کے درمیان گر گیا ہے۔ جس کو یہ بیگ ملے برائے کرم ان نمبروں پر رابطہ کیجیے۔
03129928818
03235941226

شکریہ

ڈی پی او چکوال کیپٹن (ر) واحد محمود کی سابقہ ریڈر ہیڈ کانسٹیبل مقدس عباس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت ،شہید کی قبر پر پول...
23/11/2023

ڈی پی او چکوال کیپٹن (ر) واحد محمود کی سابقہ ریڈر ہیڈ کانسٹیبل مقدس عباس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت ،شہید کی قبر پر پولیس کے دستے نے سلامی پیش کی۔

ڈی پی او چکوال نے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا اور شہید کی بچی سے بھی ملے اور بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ڈی پی پی او چکوال نے کہا کہ مقدس عباس کی فیملی کی دیکھ بھال اور انکی ویلفیئر اب چکوال پولیس کی ذمہ داری ہے جو بخوبی نبھائی جائے گی۔
چکوال پولیس کے افسران و ملازمین کی کثیر تعداد نے مقدس عباس کے نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔

مقدس عباس اپنے کام سے مخلص اور ایمانداری سے ڈیوٹی سرانجام دیتا تھا محکمہ کے لیے مقدس کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔

مقدس عباس (ریڈر ٹو DPO چکوال) جو چند روز قبل ڈیوٹی پر جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور راولپنڈی ہسپتال...
23/11/2023

مقدس عباس (ریڈر ٹو DPO چکوال) جو چند روز قبل ڈیوٹی پر جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور راولپنڈی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ آج مورخہ 23 نومبر بروز جمعرات سہ پہر ساڑھے 3 بجے ان کے آبائی قصبہ مخدوم پور شریف مرید میں ادا کی جائے گی۔

22/11/2023

چکوال مدرسہ کیس

علی خان

چکوال کے ایک مدرسہ میں گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعہ نے ایک بار پھر ہمیں ننگا کر دیا ہے۔ ہمیں سے مراد ہمارا میڈیا، مدارس، انتظامیہ، ہمارے قانون ساز اور بہت حد تک عام لوگ بھی ہیں۔ ٹھہریے اس سے پہلے کہ آپ بھڑک اٹھیں میں باری باری ان سب کے بارے وضاحت کر دوں۔

سب سے پہلے قانون ساز طبقے کی طرف جاتے ہیں جن کا اصل کام قومی یا صوبائی اسمبلی میں جا کر ایسے قوانین بنانا ہے کہ جن کی مدد سے عام لوگوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ یہ لوگ اسمبلی میں پہنچ کر قانون بنانے کے بجائے مال بنانے یا شہرت حاصل کرنے میں جت جاتے ہیں یا پھر اپنے سیاسی مخالفین کے سینے پر مونگ دلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں جب کچھ فرصت ملے تو گلیاں نالیاں بنانے کا سوچتے ہیں اور بس۔ پاکستان میں ہزاروں مدارس ہیں اور ان میں اصلاحات کا بل معلوم نہیں کتنے عرصہ سے تعطل کا شکار ہے۔ یہ قانون ساز اسے اس لیے نہیں چھیڑتے کہ اس سے مذہبی حلقوں کی ناراضگی کا خدشہ ہے۔ چکوال کے مدرسہ کیس میں اب تک کسی سیاست دان نے مذمت نہیں کی کہ شاید اس طرح مذہبی حلقے ناراض ہو سکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جو کچھ ہو بھلے ہو انھیں محض اپنے ووٹ بچانے سے سروکار ہے۔ مدرسہ اصلاحات ہوں تو کچھ نہ کچھ چیک اینڈ بیلنس بھی ہوتا رہے مگر نہیں اس کی ضرورت کیا ہے سو ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوں گے۔

اب ضلعی انتظامیہ کو دیکھیں۔ سالہا سال سے ایک مدرسہ بلکہ بے شمار مدرسے رجسٹریشن کے بغیر ہی چل رہے ہیں مگر اس کو سیل کرنے کی ضرورت تب پیش آئی جب اس میں پیش آنے والا واقعہ دنیا بھر میں اچھل چکا۔ جب سیل کر چکے تو پھر ڈی سیل کی کیا جلدی تھی؟ کیا اتنی جلدی ہی رجسٹریشن مکمل ہو گئی ؟ بھئی سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنے کی ہمیں عادت کہاں۔ چلیں یہ تو ہوا مگر عام طور پر بھی انتظامیہ کی پھرتیاں تب سامنے آتی ہیں جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ افسوس ناک پہلو لیکن یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سے انتظامیہ کوئی سبق نہیں سیکھتی بلکہ وقتی طور پر متحرک ہو کر معاملے پر مٹی ڈالنے یا سیچوئیشن کو ڈی فیوز کرنے کی کوشش کرتی ہے اور جب ایسا کر لیتی ہے تو پھر لسی پی کر سو جاتی ہے۔ سو ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

اب انتظامیہ کے اہم پرزے پولیس کو دیکھیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی ہتھے چڑھ جائے تو اس کی خیر نہیں چھوٹے بڑے سارے قانون اس پر لاگو ہیں ورنہ پولیس کی طرف سے کسی مجرم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر پولیس کا خوف بلکہ پکڑے جانے کا خوف کسی کو ہو تو وہ جرم بھلا کیسے کرے۔ مجرم کو علم ہوتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ چکوال مدرسہ والے اس واقعہ میں گو چکوال پولیس نے اچھا ردعمل دیا مگر یہ ردعمل کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ چکوال پولیس نے اس واقعہ میں احتیاطاً ان افراد کو بھی دھر لیا جن پر کوئی الزام نہ تھا ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پولیس کی جائے وقوعہ پر آمد کے وقت بس ادھر موجود تھے۔ مدرسہ انتظامیہ کے جن دو افراد پر غفلت برتنے کا الزام تھا ان میں سے ایک وقوعہ کے وقت بیرون ملک تھا اور جب اسے خواہ مخواہ پکڑنا ہی پڑا تو وہ پولیس کو سارا زور لگانے کے باوجود نہیں مل سکے۔ اب وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دیں تو الگ بات ورنہ ان سے یہ نہ ہوگا سو ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

پنجاب حکومت کی بھی سن لیں۔ پنجاب میں جس کی بھی حکومت ہو اس کی روایت رہی کہ ہر افسوس ناک واقعہ پر وزیر اعلٰی پنجاب جو بھی ہو وہ نوٹس ضرور لیتا ہے اور واقعہ کی فوری رپورٹ بھی طلب کرتا ہے مگر نتیجہ خیز صورت کبھی کبھار ہی نکلتی ہے۔ چکوال مدرسہ واقعہ میں بھی نگران وزیر اعلٰی پنجاب نے نوٹس لیا، رپورٹ طلب کی اور خود بھی چکوال آئے مگر فائدہ اس کا کچھ نہیں ہونا۔ اس کے بجائے وہ سنجیدگی سے اپنے دفتر میں ہی بیٹھ کر روزانہ اس کیس کو صرف ایک منٹ ٹیلی فون پر ہی دے دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ پنجاب میں آئے روز افسوس ناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اگر پنجاب حکومت انھیں روکنے میں سنجیدہ ہوتی تو انھیں روکنا کوئی معمولی مشکل عمل نہیں سو ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

اب میڈیا کو دیکھ لیں۔ ان کے مدنظر بس تین ہی پہلو ہوتے ہیں ایک یہ کہ خبر سے تفریح کا پہلو نکلے یا پھر خبر سے افسوس کا پہلو پیدا ہو نہیں تو بس سنسنی خیزی پھیل جائے۔ کوئی معقول یا معتدل مزاج بات ان کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔یہ درست کہ پیش آنے والے واقعات کو من وعن پیش کرنا ہی اس پیشے کا بنیادی تقاضا ہے مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کیا چیز معاشرے تک پہنچانی ہے اور کیا نہیں۔میڈیا نے چونکہ اس معاشرے کو انفارمیشن پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی اپنے فرائض میں شامل کر رکھی ہے چنانچہ اس تربیت کے زیر اثر اس قسم کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

لگے ہاتھوں دینی مدارس کا احوال بھی جان لیں۔ اگر سب کا نہیں تو بیشتر کا خیال یہی ہے کہ دین کو ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات تو وہی ہیں جو چودہ سو سال پہلے تھیں اور ان سے ہر مسلمان لگ بھگ پوری طرح آگاہ ہوتا ہے مگر بنیادی تعلیمات کی طرف اس طبقہ کا خیال کم ہی رہتا ہے۔ ان کی ترجیحات میں دین کی بنیادی تعلیمات کے بجائے مسلکی یا فرقہ وارانہ مفاد اولین ہے۔ مدارس کے بنیادی ڈھانچے میں یہ کسی بھی تبدیلی کو مدارس کے خلاف سازش خیال کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے والا ضرور دین کا دشمن ہے۔ پاکستان کے مدارس میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں اور ان کے ساتھ جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں مگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے۔ یہ واقعات تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے ساتھ بھی پیش آتے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے اور ذہن پر بہت زور دینے سے بھی کوئی بڑا واقعہ فوری یاد آنا مشکل ہے لیکن سب میں نہ سہی مگر مدارس میں اب یہ بات اوپن سیکرٹ ہے کہ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ مدارس میں بھی بچوں کو محض سکول کی طرح دن کے اوقات میں ہی پڑھایا جانا چاہیے اور اساتذہ کے کردار کی چھان بین کے لیے کسی بھی ضلع سے باہر کا استاد تعینات کرنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ مدارس کو بچوں کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے ۔ مدارس کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر ایسے واقعات روکنا مشکل ہے اور یہ شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔



چکوال کے مدرسہ میں پیش آنے والا واقعہ بے حد ناگوار ہے مگر اس کے کچھ پہلو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں کچھ پہلو اچھے کہے جا سکتے ہیں اور کچھ کی خاص طور پر مذمت کرنی چاہیے۔سب سے پہلے تو اس بچے کے والد کو سراہنا چاہیے جس نے دباؤ کے باوجود مفاہمت سے انکار کر دیا۔ اس کی ہمت کو سلام ہے کہ اس نے اپنے بچے کی زندگی سے کھیلنے والے شیاطین کو معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اس عمل سے بچوں کے مستقبل پر اثر ہوتا ہے مگر انسانی معاشرے بہتری کے لیے بہرحال قربانی مانگتے ہیں اور اس عظیم انسان نے معاشرے کو آئندہ ایسے واقعات سے بچانے کے لئے اپنے بچے کا مستقبل داؤ پر لگایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس انسان نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی ورنہ جذبات کی رو میں کوئی بھی غلط فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی۔

غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے لالچ دیا گیا اور اس پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔ یہ دباؤ چکوال کے ایک بڑے مذہبی حلقے کی طرف سے بھی تھا اور اس کے گاؤں کی طرف سے بھی مگر اس نے یہ دباؤ برداشت کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی قسم کے دباؤ کی وجہ سے باقی بچوں کے والدین خاموشی اختیار کر گئے تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چکوال کی ایک معروف مذہبی شخصیت اس روز جب بچوں کو پولیس طبی معائنہ کے لیے ہسپتال لے کر آئی موقعہ پر موجود تھی۔ ان کے "سمجھانے بجھانے " پر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو طبی معائنہ کرائے بغیر لے گئے تھے۔ بچوں کا نام صیغہ راز میں رہنا اور اس ایف آئی آر کو سیل کرنا ضروری تھا مگر ان معصوم بچوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کو ٹھکانے لگانا بھی ضروری تھا لیکن یہ بہرحال ان والدین کا حق تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔



چکوال پولیس نے اس واقعہ پر عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ ڈی پی او چکوال کو جب کھلی کچہری میں اس واقعہ کی شکایت ملی تو انھوں نے وقت ضائع کیے بغیر خود جا کر اس معاملے کی جانچ پڑتال کی۔ یہ اس قدر اچانک ہوا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ ڈی پی او چکوال کیپٹن(ر) واحد محمود نے اس واقعہ پر قومی میڈیا میں فوری موقف بھی دیا جس سے یہ بات چھپانے کی راہ بند ہو گئی۔ یہ بہت اہم بات ہے اگر ڈی پی او چکوال اس پر فوری ایکشن نہ لیتے تو معاملہ دب بھی سکتا تھا۔ ظاہر ہے پولیس نے اس واقعہ کو اصولی طور پر عزت بے عزتی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے جرم کے تناظر میں ہی دیکھنا تھا چنانچہ انھوں نے اس پر موثر اقدامات اٹھائے جو یقیناً لائق تحسین ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چکوال کے ڈاکٹرز پر بھی یقیناً دباؤ ہو گا مگر انھوں نے بھی اس کو قبول کیا۔

مقامی میڈیا کا کردار اس افسوس ناک واقعہ پر ملا جلا رہا۔ کچھ صحافی تو ایسے تھے جنھوں نے اس واقعہ کو بغیر کسی دباؤ اور نتائج کو سامنے رکھے رپورٹ کر دیا مگر یہ حقیقت ہے کہ واقعہ سامنے آنے کے پہلے روز سارا دن مقامی میڈیا خصوصاً پریس کلب بھی خاموش رہا۔ سوشل میڈیا سے بات قومی میڈیا پر گئی تو یہ سارا مقامی میڈیا بھی حرکت میں آ گیا۔ اس صورتحال میں بھی یقین مانیں کہ کچھ صحافی دیہاڑیاں لگانے کی کوشش میں رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے بدنامی کے خوف کا شکار لوگوں سے پیسے لینے کی کوشش کی یا لیے۔ ذلت کی بھی کوئی حد ضرور ہوتی ہو گی۔ میڈیا کے کچھ لوگوں نے ہی مدرسہ کا نام اور عام لوگوں کو شاید سمجھانے کے لیے واقعہ پیش آنے کے بعد اس کو مدرسہ کے بانی جو ملک کے ایک معروف نعت خواں تھے سے جوڑ دیا۔ چکوال کے وہ تمام لوگ جو مرحوم کو جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ وہ کس قدر نفیس انسان تھے۔ واقعہ ان کی وفات کے بعد پیش آیا تو اس میں ان کے ذکر کی بہرحال ضرورت نہ تھی۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی قوم جو کچھ بھی کرے اسے قائد اعظم محمد علی جناح کے سر منڈھ دیا جائے۔



آخر میں مدرسہ انتظامیہ پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی تھی مگر وہ اس میں ناکام رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کو دن رات سنبھالنا ایک مشکل کام ہے مگر یہ کام غیر معمولی توجہ سے کرنا ضروری ہے۔ مدرسے تو بچوں کے لیے سب سے زیادہ محفوظ مقام ہونے چاہیے ہیں۔
اب اس غفلت کی سو توجیہات دی جائیں مگر بنیادی غلطی بہر حال ان سے ہی سرزد ہوئی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مدرسہ کی انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا مگر اس کے پاس ظاہر ہے اس کا کوئی موثر حل نہیں تھا۔ مدرسہ انتظامیہ نے پولیس سے تعاون کیا، ملزمان پکڑنے میں مدد دی، والدین کو قائل کرنے کی کوشش کی، منت سماجت بھی کی ہو گی اور شاید کچھ ازالہ کرنے کی بھی کوشش کی ہو گی۔ مدرسہ انتظامیہ نے ہی شرمندگی برداشت کی ،میڈیا کا سامنا کیا اور تنگ آ کر دبے لفظوں میں احتجاج کی دھمکی بھی دی مگر جو کام انتظامیہ سے نہیں ہوا وہ واقعہ پر فوری معافی مانگنا تھا۔ انتظامیہ اگر واقعہ کو سازش قرار دینے، مدرسہ کے مخالف گروپ پر الزام لگانے، مقامی میڈیا کو رگڑنے اور پولیس پر برسنے کے بجائے اپنی غلطی فوراً تسلیم کر لیتی تو یہ صورتحال اس قدر طول نہ پکڑتی۔ بچے سے زیادتی اگر ثابت ہوتی ہے تو اس میں مدرسہ انتظامیہ کا جرم تو نہیں بنتا مگر ان کا قصور ضرور سمجھا جائے گا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہیے اور مدرسہ انتظامیہ کو اپنے ادارے میں ایسے مثالی اقدامات اٹھانے چاہیں جن کی مدد نہ صرف اس مدرسہ میں بلکہ کسی بھی مدرسہ میں اس قسم کے ناخوشگوار واقعات دہرائے نہ جا سکیں۔ اس مدرسہ کی انتظامیہ اس واقعہ سے سبق سیکھے اور ایسے اقدامات اٹھائے جو دوسرے مدارس میں بھی اس قسم کے واقعات روکنے کا سبب بنیں اور مدارس کو بچوں کے لیے سب سے زیادہ محفوظ و محبوب مقام میں تبدیل کر دیں۔ یاد رکھیں ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے ہم سب ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کا کوئی ایک آدھ شخص ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ ہم سب کسی نہ کسی طرح اس میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات جب کسی ایک جگہ پر پیش آتے ہیں تو وہ محض ہمارے معاشرے کے جسم کو کسی نہ کسی طرح ننگا ہی کرتے ہیں۔

بارانی انسٹیٹویٹ توہا بہادر میں منعقد ہونے والا زیتون میلہ اب چکوال کی بجائے اسلام آباد میں “پاک اولیونیشنل ایکسپو” کے  ...
22/11/2023

بارانی انسٹیٹویٹ توہا بہادر میں منعقد ہونے والا زیتون میلہ اب چکوال کی بجائے اسلام آباد میں “پاک اولیونیشنل ایکسپو” کے عنوان سے پچیس اور چھبیس نومبر کو منعقد ہوگا۔

خدا کرے۔۔۔۔
21/11/2023

خدا کرے۔۔۔۔

خبردار 🚨⚠️اپنے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی ہرگز چلانے کی اجازت نہ دیں وگرنہ چالان اور بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ ا...
20/11/2023

خبردار 🚨⚠️
اپنے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی ہرگز چلانے کی اجازت نہ دیں وگرنہ چالان اور بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف دفعہ 279 ت پ 10/102 ایم پی او کے تحت FIR بھی درج کی جا سکتی ہے۔جس کی وجہ سے آئندہ سرکاری نوکری کے حصول،کریکٹر سرٹیفکیٹ، ویزه وغیرہ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا پڑ سکتا ہے۔
لہذا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مجرم بننے سے بچائیں۔
ٹریفک پولیس اور ضلع پولیس پنجاب بھر میں کم عمر ڈرائیوروں اور موٹر سائیکل سواروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

19/11/2023

نگران وزیر اعلٰی محسن نقوی کا چکوال کا دورہ ، مدرسے میں مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کے گھر کھوکھر زیر گئے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انوربھی ان کے ہمراہ تھے۔
علی خان کی سماء نیوز کے لیے رپورٹ

19/11/2023

"لاہور ہائی کورٹ کلر کہار کے مقام پر جوڈیشل کمپلیکس نہیں بنانا چاہتی کیونکہ اس مقصد کے لیے جو زمین دی گئی ہے وہ تاریخی باغ کا حصہ ہے۔ اس لیے اس زمین کی الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کے عمل کا آغاز کیا جائے"، ہائی کورٹ کے رجسٹرار کا بورڈ آف ریونیو کو خط

In today's DAWN

LHC shuns plan to construct judicial complex in Mughal-era garden

By Nabeel Anwar Dhakku

Nov 19, 2023

CHAKWAL: The Chakwal district administration is all set to renovate a historic Mughal garden in Kallar Kahar, Bagh-i-Safa, after the Lahore High Court (LHC) shunned its plan to construct a judicial complex on the historic site.

After LHC Chief Justice Muhammad Ameer Bhatti visited the historic garden, he had expressed his desire to construct a judicial complex on the premises. The high court was allotted 16.4 kanals in this regard and the construction work on the bound-ary wall of the proposed complex commenced earlier this month.

After the issue was reported on November 5, Chief Justice of Pakistan Justice Qazi Faez Isa took notice of this issue and sought a response from the high court administration.

The registrar of the apex court sent alettertohis counterpart at the LHC seeking an immediate response.

`The chief justice of Pakistan has directed me to inquire whether the news report is factually correct.

And if it is (true), please let me know why is the land of an ancient park being converted? And what happened to the 80 kanals of land in Kallar Kahar earlier transferred to Lahore High Court,` the registrar wrote.

The SC registrar also sought complete details of the project and requisite approval, including of the building committee/ administrative committee. He also asked the registrar torequest the chief justice to stop further construction till the requested information.

The intervention of CJP led to a halt in the construction work the following day.

In a letter to the Colonies Department of the Punjab Board of Revenue on November 11, the LHC registrar said that the court was not willing to raise any construction as a rest house or judicial complex for the reason that the allotted land is part of the historical Bagh-i-Safa.

`Therefore it is desired that the process of cancellation of aforesaid land may be initiated,` the registrar wrote.

Bagh-i-Safa was established by the first Mughal Emperor Zahiruddin Mohammad Babur in 1519 when he stopped here during his campaign to conquer the Bhera state.

Deputy Commissioner Quratulain Malik told Dawn that a `comprehensive plan would be chalked out soon` torenovate the historic garden.

`Bagh-i-Safa has a historic significance and such places must be preserved,` she maintained.

District Council Chief Officer Syed Ali Bokhari saidthat new saplings would be planted in the garden.

`A team of engineers would visit the site soon for the preparation of a plan to renovate the historic garden,` he added.Meanwhile, residents demanded the accountability of people who damaged the medieval park. They said several trees were cut down to make way for the complex.

`Benches were uninstalledand walking tracks were demolished. Who is responsible for causing such type of harm to a 500-year-old garden,` questioned Khalil Shakir, a resident of Kallar Kahar.

Address

Chakwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when My Chakwal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other News & Media Websites in Chakwal

Show All