14/02/2020
یہ مالٹا ٹرین لاہور میں کس نے بنائی
جی شہباز شریف نے
کتنے کی 268 ارب کی
یہ پیسے کہاں سے آئے ؟
جی قرضہ لیا ۔
اور یہ قرضہ سود سمیت کون واپس کرے گا
جی عمران خان
کیسے کرے گا
جی عوام پہ ٹیکس لگا کہ
ٹیکس لگے گا تو کیا ہوگا
جی مہنگائی ہوگی
پھر کیا ہوگا
پھر لوگ عمران خان کو گالیاں دے گی اور میان صاحب کا منہ چومے گی تحریک انصاف کہ ووٹر سپورٹر مایوس ہونگے عوام بددل ہوگی ، اور یوں ایک انقلابی تبدیلی کا علمبردار زمین بوس ہوگا اور اگلے الیکشن میں عوام آصف زرداری اور میاں صاحب کہ ساتھ ہوگی اور پھر صدیوں تک اس ملک میں کرپشن بددیانتی اور ذلالت کا راج ہوگا ،ایمانداری گالی ہوگی اور لوگ عمران خان کی مثال دیں گے کہ کسی نئے انقلابی کو اگلے سو سال تک بھی پر نہیں مارنے دیں گے ،
یہ مایوسی کی داستان اس میں سے امید نکالنی ہے تو قوم کو توبہ کرنی ہوگی کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کہ اس مرض سے جسکے آگے صرف گہری کھائی اور اندھیری رات قوم کو سمجھنا ہوگا کہ جو قرضہ اس ملک پہ چڑھایا گیا تھا اسکا صرف سود دینے میں عمران خان کو آدھا بجٹ دینا پڑھتا ہے ، حکومتیں عوام کہ ٹیکس پہ چلتی ہیں یہ جو موٹر وے مالٹا ٹرین میٹرو بنی ہیں یہ قرضہ پہ بنی ہیں اگر آسان سفر کا مزا لینا ہے تو مزید ٹیکس دینا ہوگا اب مشکل یہ ہے کہ قرضہ لینے والے لے گئے بڑے بڑے پراجیکٹ پر اپنی شکلیں لگا گئے قوم قرضہ بھول گئی پراجیکٹ یاد رہ گئے اور ذلالت کہ لئے عمران خان رہ گیا جو بیرون ملک دورہ پہ بھی جائے تو علیدہ جہاز کروانے کی بجائے کمرشل فلائٹ سے جائے جس نے اپنے گھر کی دیوار کہ لئے بھی ایک چوانی قوم کہ ٹیکس سے نہ لی جس نے سات وزیراعلی دس وزیراعظم ہاؤس نہیں رکھے جو صرف اپنی مشہوری کہ لئے ٹی وی چینلوں کو 40 ارب کہ اشتہار نہیں دے سکتا ،
عمران خان کا قصور یہ ہی کہ اس ملک میں جہاں 40 فیصد لوگ روٹی کھا کہ نہیں سوتے تھے اس ملک کو ٹھیک کرنے کہ لئے ذلالت کہ پہاڑ کو اپنے سینے پہ اٹھائے ہوئے ہے ،
بات وہی ہے کہ جب معاشرہ کہ بدمعاش پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ کمائی کرنے لگیں تو کوئی تعلیم کی وقت پہ لیکچر دے تو کلیجہ چبانے کو جی چاہتا ہے .