Kashmir viewer

Kashmir viewer Dairy forming

former President Donald Trump will be the 47th president, defeating Vice President Kamala Harris. Trump makes history wi...
06/11/2024

former President Donald Trump will be the 47th president, defeating Vice President Kamala Harris. Trump makes history with a political comeback, becoming the first president since Grover Cleveland in the 1800s to return to office after a defeat — a rare twist that highlights his influence in American politics.

05/11/2024

کسی جنگل میں ایک "خرگوش" کی آسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔ اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔۔

ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جُثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقفکاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور خیرخواہوں خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔

ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کیلئے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔
کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعوی دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔

کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔

ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا:

میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل "گدھے" تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔۔

(چیک ادب سے ایک کہانی)

ُومستان🎭

One year, two near misses 💔🇿🇦
20/10/2024

One year, two near misses 💔🇿🇦

13/10/2024

جب آپ ایک بڑی انتظامی سیٹ پہ بیٹھے ہوں جب آپ کسی ادارے کے سربراہ ہوں آپ کے پاس کوئی کسی بھی قسم کی شکایت لاتا ہے آپ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔

بجائے اس کے کہ آپ ری ایکٹ کریں یا resist کریں یا دوسرے کو جھٹلائیں یا رد کریں آپ کو چاہیے

تحمل سے دوسرے کی بات مکمل سنیں جہاں بنتا ہو وہاں سوال پوچھیں اور پھر انہیں کہیں میں نے نوٹ کر لیا ہے میں اس پہ انویسٹیگیٹ کر کے معاملہ سمجھتا اور حل کرتا ہوں۔
اور مسئلے کو دبانے کے بجائے حل کریں

اس سے پتا چلتا ہے آپ کتنی مضبوط شخصیت ہیں جب آپ شکایت کو بنا پورا سنے resist کریں گے انویسٹیگیٹ کرنے سے پہلے اپنی طرف سے جواز فراہم کریں گے دوسرے کو رد کریں گے تو آپ کرسی پہ تو بیٹھے ہوں گے نظر سے گر جائیں گے۔

سربراہ کو چاہیے کہ وہ دلوں کا سربراہ بنے کرسی آنی جانی چیز ہے لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے میرٹ پہ کام کرئے۔ اور لوگوں کو ڈیل کرنا سیکھے۔

28/09/2024

Pre-approved

‏میں قدرت اللہ شہاب کے ساتھ مسجد الحرام کے صحن میں بیٹھا ھوا تھا کہ اچانک قدرت نے پوچھا: "یہ آپ کے ھاتھ میں کیا ھے؟"
"یہ کاپی ھے۔"
"یہ کیسی کاپی ھے؟"
"اِس میں دعائیں لکھی ھیں۔ میرے کئی ایک دوستوں نے کہا تھا کہ خانہؑ کعبہ میں ھمارے لئے دعا مانگنا،*میں نے وہ سب دعائیں اِس کاپی میں لکھ لی تھیں۔"
"دھیان کرنا!" وہ بولے "یہاں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ھو جاتی ھے۔"
"کیا مطلب؟" میری ھنسی نکل گئی۔ "کیا دعا قبول ھو جانے کا خطرہ ھے؟"
"ھاں، کہیں ایسا نہ ھو کہ دعا قبول ھو جائے۔"
میں نے حیرت سے قدرت کی طرف دیکھا۔
بولے "اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر ھیں۔ عرصہ دراز ھوا اُنہیں بخار ھو جاتا تھا۔ ڈاکٹر، حکیم، وید، ھومیو،سب کا علاج کر دیکھا، کچھ افاقہ نہ ھوا۔ سوکھ کر کانٹا ھو گئے۔ آخر چارپائی پر ڈال کے کسی درگاہ پر لے گئے۔ وھاں ایک مست سے کہا بابا دعا کر کہ اِنہیں بخار نہ چڑھے۔۔۔ انہیں آج تک پھر کبھی بخارنہیں چڑھا۔
اب چند سال سے ان کی گردن کے پٹّھے اکڑے ھوئے ھیں۔ وہ اپنی گردن اِدھر اُدھر ھلا نہیں سکتے۔ ڈاکٹر کہتے ھیں کہ یہ مرض صرف اسی صورت میں دور ھو سکتا ھے کہ انہیں بخار چڑھے۔ انہیں دھڑا دھڑ بخارچڑھنےکی دوایاں کھلائی جا رھی ھیں، مگر انہیں بخار نہیں چڑھتا۔"
دعاؤں کی کاپی میرے ھاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ میں نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا۔ "میرے اللہ! کیا کسی نے تیرا بھید پایا ھے؟"

(ممتاز مفتی کی "لبّیک" سے اقتباس)

پرانے زمانے کے ایک بادشاہ نے غلاموں کے بازار میں ایک غلام لڑکی دیکھی جس کی بہت زیادہ قیمت مانگی جا رہی تھی۔ بادشاہ نے لڑ...
16/09/2024

پرانے زمانے کے ایک بادشاہ نے غلاموں کے بازار میں ایک غلام لڑکی دیکھی جس کی بہت زیادہ قیمت مانگی جا رہی تھی۔ بادشاہ نے لڑکی سے پوچھا آخر تم میں ایسا کیا ہے جو سارے بازار سے تمہاری قیمت زیادہ ہے، لڑکی نے کہا؛ بادشاہ سلامت یہ میری ذہانت ہے، جس کی قیمت طلب کی جا رہی ہے۔۔

بادشاہ نے کہا اچھا میں تم سے کچھ سوالات کرتا ہوں،
اگر تم نے درست جواب دیے تو تم آزاد ہو نہیں تو تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔
لڑکی آمادہ ہوگئی تب بادشاہ نے پوچھا؛

سب سے قیمتی لباس کونسا ہے۔؟؟
سب سے بہترین خوشبو کونسی ہے۔؟؟
سب سے لذیذ کھانا کونسا ہے۔؟؟
سب سے نرم بستر کونسا ہے۔؟؟
اور سب سے خوبصورت ملک کونسا ہے۔؟؟

لڑکی نے اپنے تاجر سے کہا میرا گھوڑا تیار کرو کیونکہ میں آزاد ہونے لگی ہوں۔ پھر پہلے سوال کا جواب دیا۔

سب سے قیمتی لباس کسی غریب کا وہ لباس ہے جس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو، یہ لباس پھر سردی گرمی عید تہوار ہر موقع ہر چلتا ہے۔

سب سے خوبصورت خوشبو ماں کی ہوتی ہے بھلے وہ مویشیوں کا گوبر ڈھونے والی مزدور ہی کیوں نہ ہو، اس کی اولاد کیلئے اس کی خوشبو سے بہترین کوئی نہ ہوگی۔

لڑکی نے کہا سب سے بہترین کھانا بھوکے پیٹ کا کھانا ہے۔
بھوک ہو تو سوکھی روٹی بھی لذیذ لگتی ہے۔

دنیا کا نرم ترین بستر بہترین انصاف کرنے والے کا ہوتا ہے۔
ظالم کو ململ و کمخواب سے آراستہ بستر پر بھی سکون نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر لڑکی گھوڑے پر بیٹھ گئی، بادشاہ جو مبہوت یہ اب سُن رہا تھا اچانک اس نے چونک کر کہا لڑکی تم نے آخری سوال کا جواب نہیں دیا۔۔

سب سے خوبصورت ملک کونسا ہے۔؟؟

لڑکی نے کہا؛ بادشاہ سلامت دنیا کا سب سے خوبصورت ملک وہ ہے جو آزاد ہو، جہاں کوئی غلام نہ ہو اور جہاں کے حکمران ظالم اور جاہل نہ ہوں۔

لڑکی کے اس آخری جواب میں انسانیت کی ساری تاریخ کا قصہ تمام ہوتا ہے۔

15/09/2024

*_‏‎ن سے مراد نوکر پیپلز پارٹی کے پ سے مراد پالتو۔۔۔_*

*_➪ᴼʷⁿᵉʳ_*

15/09/2024

مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں:-

میں آفس میں آتے ہی ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں۔ اُس روز ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی: کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔

میں نے کہا: بھجوا دیجیے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیض پہنے گریبان کے بٹن کھولے گلے میں کافی سارا ٹیلکم پاؤڈر لگائےہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے۔ سلام لیا اور سامنے بیٹھ گئے۔

ان کا ڈیل ڈول اچھا تھا، اس لیے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا ''میں بھی ایک مراثی ہوں۔ میں بوکھلا گیا، کیا مطلب.؟ وہ تھوڑا قریب ہوئے‏ اور بولے ''مولا خوش رکھے میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا سنا ہے آپ بھی میری طرح.......... میرا مطلب ہے آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں؟‘‘

میں نے جلدی سے کہا، ہاں لیکن میں مراثی نہیں ہوں۔
“اچھی بات ہے‘‘ وہ اطمینان سے بولے ''میں نے بھی کبھی کسی کو اپنی حقیقت نہیں بتائی. میرا خون کھول اٹھا۔ عجیب آدمی ہو تم، تمہیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ... ہم یوسفزئی ہیں ۔وہ کارڈ دیکھتے ہی چہکا. “مولا خوش رکھے... وہی بات نکلی ناں.. میرا دل چاہا کہ اچھل کر اُس کی گردن دبوچ لوں‘ لیکن کم بخت ڈیل ڈول میں میرے قابو آنے والا نہ تھا۔

وہ پھر بولا مجھے نوکری چاہیے‘‘۔ میں پہلے چونکا‘ پھر غصے سے بھڑک اٹھا ''یہ کوئی کمرشل تھیٹر کا دفتر نہیں ہے‘تم نے کیسے سوچ لیا کہ یہاں مراثی بھرتی کیے جاتے ہیں؟‘‘

وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا‘ پھر اپنی مندری گھماتے ہوئے بولا ''یہاں نہ سہی‘ کسی دوسرے دفتر میں ہی کام دلوا دیں۔ میں کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا‏ کہ اچانک میرے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا اور میں مسکرا اٹھا۔

آفس بوائے سے اُس کے لیے بھی چائے لانے کے لیے کہا اور خود اُٹھ کر اُس کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں الجھن سی اُتر آئی۔ میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، ‏سنو! تمہیں بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے‘ اگر تم مجھے ہنسا کے دکھا دو۔

وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی حالت کا مزا اٹھاتے ہوئے اُسے زور سے ہلایا ''ہیلو! ہوش کرو بتاؤ‘ یہ چیلنج قبول ہے؟؟ اُس نے کچھ دیر پھر مندری گھمائی اور نفی میں سر ہلا دیا. میں حیران رہ گیا‘ وہ مراثی ہونے کے باوجود مجھ جیسے اچھے خاصے معزز انسان سے ہار مان رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب سا جواب دیا ''میں نے لوگوں کو ہنسانا چھوڑ دیا ہے۔

میں اچھل پڑا ''یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اُس نے لمبا سانس لیا اور بیزاری سے بولا ''لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں۔ میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ''یہ تمہاری غلط فہمی ہے.. دنیا آج بھی ہنستی ہے، مزاحیہ تحریریں پڑھتی ہے‘ مزاحیہ ڈرامے دیکھتی ہے، جگتیں پسند کرتی ہے۔ اُس نے اپنی مندری نکال کر دوسری انگلی میں پہنی. ‏اور اپنی بڑھی ہوئی شیو پر خارش کرتے ہوئے بولا ''دنیا ہنستی نہیں دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے‘‘

میں نے پھر قہقہہ لگایا وہ کیسے؟ اُس نے قمیض کی سائیڈ والی جیب سے سستے والے سگریٹ کی مسلی ہوئی ڈبی نکالی اور میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا‘ میں نے ایش ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی.

‏اُس نے شکریہ کہا اور سگریٹ سلگا کر گہرا کش لیا۔ میں اُس کےجواب کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر اُس کی آواز آئی ''آپ کا منہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے"۔

مجھے گویا ایک کرنٹ سا لگا اور میں کرسی سے پھسل گیا۔ میری رگ رگ میں طوفان بھر گیا۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ کر‏ مجھے ہی لومڑ کہہ رہا تھا‘ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔ میرا چہرہ سرخ ہو گیا‘ اس سے پہلے کہ میں اُس پر چائے کا گرم گرم کپ انڈیل دیتا‘ وہ جلدی سے بولا ''آپ کا ایک جگری دوست شہزاد ہے ناں؟‘‘

میں پوری قوت سے چلایا ''ہاں ہے...پھر؟ وہ فوراً بولا ''اُس کی شکل بینکاک کے جمعدار جیسی ہے"۔ میں نے بوکھلا کر اُس کا یہ جملہ سنا ... کچھ دیر غور کیا اور پھر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی... میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔

تین چار منٹ تک آفس میں میرے قہقہے گونجتے رہے بڑی مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا اور ‏دانت نکالتے ہوئے کہا ''شرم کرو... وہ میرا دوست ہے۔
میری بات سنتے ہی مراثی نے پوری سنجیدگی سے کہا ''ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر لگنے والی جگت پر کیوں نہیں آئی؟ میں یکدم چونک اٹھا‘ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی...

ہمارے معاشرے میں واقعی وہ چیز زیادہ ہنسی کا باعث بنتی ہے جس میں کسی دوسرے کی ذلت کا سامان ہو‘ یہی وجہ ہے کہ سٹیج ڈراموں اور عام زندگی میں جب ہم کسی دوسرے کو ذلیل ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ فریش ہو جاتے ہیں۔

کوئی بندہ چلتے ہوئے گر جائے، کسی کی گاڑی خراب ہو جائے‏ کسی کے پیچھے کتا دوڑ لگا دے، کسی کی بس نکل جائے اور وہ آوازیں لگاتا رہ جائے تو ہماری ہنسی نہیں رکتی۔ یہی عمل اگر ہمارے ساتھ ہو اور دوسرے ہنسیں تو ہم غصے سے بھر جاتے ہیں۔

گویا ہنسنے کے لیے کسی کا ذلیل ہونا لازمی امر قرار پا چکا ہے۔ ‏یہی رویہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں در آیا ہے. ہمیں اپنے سکھ سے اتنی راحت نہیں ملتی جتنے کسی کے دکھ ہمیں سکون دیتے ہیں۔

جب متحدہ ہندوستان میں انگریز دور میں ٹرین آئی تو بنا ریل گاڑی کو سمجھے ،جانے کچھ اس وقت کے مذہبی رہنماوں جو دنیاوی علوم ...
15/09/2024

جب متحدہ ہندوستان میں انگریز دور میں ٹرین آئی تو بنا ریل گاڑی کو سمجھے ،جانے کچھ اس وقت کے مذہبی رہنماوں جو دنیاوی علوم سے نابلد تھے نے کہہ دیا کہ ٹرین پہ بیٹھنا حرام ہے کیونکہ یہ یہود و نصاری کی بنائی ہوئی چیز ہے مسلمانان ہند 5,10 سال تک ٹرین کے محفوظ اور سہولت بھرے سفر سے محروم رہے پھر ایک بار بمبئی میں کچھ مولوی صاحبان جنہوں نے مدراس جانا تھا، سفر لمبا اور دشوار تھا انہیں بتایا گیا کہ ریل گاڑی سے آپ محفوظ اور آرام دہ طریقے سے اور جلد وہاں پہنچ جائیں گے، بادل نخواستہ وہ ڈرتے ڈرتے ٹرین میں بیٹھ گے انہوں نے ایک پُرسکون اور آرام دہ سفر کیا سمجھ گئے کہ اس کی مزید مخالفت کرنا فضول بات ہے اور سب کو بتایا کہ نہیں اب فتویٰ واپس لے لیا گیا ہے اب آپ ٹرین میں سفر کر سکتے ہیں یوں ہندوستان کے مسلمان 5 سے 10 سال تک ٹرین کے سفر کی سہولت سے صرف کچھ لوگوں کی ذاتی ہٹ دھرمی اور کم علمی کی وجہ سے محروم رہے۔ شاید آپکو یاد ہو کہ پاکستان بننے سے پہلے اس وقت کے علماء نے انگریزی بولنے کو حرام قرار دیدیا تھا پھر سرسید خان نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اگر یہود نصاری سے مقابلہ کرنا ہے تو انکی زبان سیکھنا ہوگی اور اسوقت کے مولوی صاحبان نے انہیں انگریزوں کا ایجنٹ کہہ دیا تھا
معذرت کے ساتھ یہود و نصاری نے سائنس میں ترقی کی ہے اور ہمارے علماء کرام نے ہمیں ہمیشہ یہی بتایا ہے کہ سائنس اور علم کفر ہے اس کو سیکھنا بھی کفر ہے اور نعوذ باللہ یہ خدا بزرگ و برتر سے سے مقابلہ ہے ، حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں کی چھوٹی سوچ دیکھ کر کہ وہ ایک انسان کی ذہن سے بنے محدود سائنسی علوم کا تقابلہ اس ہستی سے کر رہے ہیں جو کہ خالق ہے مالک ہے اس اربوں نوری سال پہ محیط کائنات کا ۔ آج وہ قومیں سائنس کی ترقی کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں اور ہم ابھی تک اس چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ سائنس پڑھی جائے کہ نہ پڑھی جائے۔
جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تھا تو مسلمان اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ اور موجودہ دور میں بھی ایک صاحب فرما رہے تھے کہ اگر مسواک بالشت سے بڑی ہو تو اسکے اوپر شیطان آکر بیٹھ جاتا ہے مطلب بندہ پچھے شیطان کو اور کوئی کام نہیں خیر یہ ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔
اج تک دنیا کے کسی سائنس دان نے نہ تو خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو بہت بڑا پیر بتایا ہے کہ آ کے اس کے ہاتھ چومے جائیں یا اس کے آگے جھکا جائے
++++++++++++++
ایک اور بات انگریز دور تھا دہلی میں پہلی بار لاوڈ سپیکر کا مسجد میں استعمال ھوا اس وقت کے مولوی صاحبان نے بھی لاوڈ سپیکر کا استعمال حرام قرار دیا تھا آج مسلم امہ کی کوئی مسجد ایسی نہی جہاں ساونڈ سسٹم مسجد کے اندر یا باہر نہ ھوتا ھو اور اسکے بغیر مولوی صاحب کی آواز عوام تک نہیں پہنچتی۔۔ خیر میرا ارادہ کسی کی دل آزاری نہیں لیکن حقیقت کو آپ چھپا نہیں سکتے اسلیۓ آدھا نہی پورا سوچنے کی کوشش کیا کیجئے: شکریہ🙏

گلے میں طوق کو  زنجیر سمجھنا چھوڑوہر محرومی کو  تقدیر سمجھنا چھوڑوتم  اگر حق بھی نہ لے پاؤ  تو پھر بہتر ہے ہاتھ میں لوہے...
10/09/2024

گلے میں طوق کو زنجیر سمجھنا چھوڑو
ہر محرومی کو تقدیر سمجھنا چھوڑو

تم اگر حق بھی نہ لے پاؤ تو پھر بہتر ہے
ہاتھ میں لوہے کو شمشیر سمجھنا چھوڑو

جو سمجھتے ہیں کہ معراج فقط مسند ہے
ایسے لوگوں کو بھی تم پیر سمجھنا چھوڑو

تم اگر گھر کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
در و دیوار کو جاگیر سمجھنا چھوڑو

اپنی ماں جیسی زمیں کا جو اگر سودا کیا
شِیرِ مادر کو بھی شِیر سمجھنا چھوڑو

تم اگر خود کے مسائل کا بھی نہ حل لا پائے
خود کو پھر ماہرِ تدبیر سمجھنا چھوڑو

خود کو بہلاؤ نہ تم جھوٹی تسلی سے کبھی
تم ہر اک عکس کو تصویر سمجھنا چھوڑو

اپنے مطلب سے بھی ملتے ہیں رضا لوگ یہاں
ہر گلے لگتے کو دلگیر سمجھنا چھوڑو

اک میں پھِکی چاء نئیں پیندادُوجا ٹھنڈی چاء نئیں پینداجہڑی چاء وچ چاء نہ ہووےجی میں اوہ چاء نئیں پینداکلا بہہ کے چاء پینا...
10/09/2024

اک میں پھِکی چاء نئیں پیندا
دُوجا ٹھنڈی چاء نئیں پیندا

جہڑی چاء وچ چاء نہ ہووے
جی میں اوہ چاء نئیں پیندا

کلا بہہ کے چاء پیناں واں
پر میں کلی چاء نئیں پیندا

یا تے چاء ای چھڈ دتی سُو
یا فر ساڈی چاء نئیں پیندا

تیری چاء کوئی وکھری چاء اے
جا میں تیری چاء نئیں پیندا

.

زرا مسکرائیے پلیززززمیرے سوالوں کا جواب دیںگے؟کسی کو پتہ ہے کہ؟؟😅🙂دل پر رکھنے والا پتھر کہاں سے ملے گا اورکتنے کلو کا ہو...
08/09/2024

زرا مسکرائیے پلیزززز
میرے سوالوں کا جواب دیںگے؟

کسی کو پتہ ہے کہ؟؟😅🙂
دل پر رکھنے والا پتھر کہاں سے ملے گا اورکتنے کلو کا ہونا چاہیے🤔
کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہو تو کونسا ٹھیک رہے گا؟؟
*ساده یا آیو ڈین والا؟۔۔۔*🤪
وہ پوچھنا یہ تھا کہ بھاڑ میں جانے کے لئے رکشہ ٹھیک رہے گا یا ٹیکسی؟؟ 😬
کوئی بتا سکتا ہے کہ لوگ عزت کی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں...کوئی عزت کا سالن کیوں نہیں کماتا؟؟ 😉ایک بات بتائیے کہ یہ جو
ڈنر سیٹ ہوتا ہے اس میں لنچ کر سکتے ہیں کیا؟؟ 🤔
ایک اور بات بتائیے کہ جن کی دال نہیں گلتی * اُن کو سبزی گلانے کی اجازت ہے کیا؟؟*😜
پوچھنا یہ تھا
کہ اگر کسی سے چکنی چپڑی باتیں کرنا ہوں تو*
کون سا گھی صحیح رہے گا دیسی یا بناسپتی ؟؟*😃
کسی کو پتہ ہے غلطیوں پر ڈالنے والا پردہ کہاں ملتا ہےاور کتنے میٹر کا لینا ہوگا؟؟
🤭کوئی مجھے بتائے گا کہ جو لوگ کہیں کے نہیں رہتے تو پھر وہ کہاں رہتے ہیں؟؟ 😅
ایک یہ بات بھی پوچھنا ہے کسی کا مذاق اڑانا ہو تو...کتنی اونچائی تک اڑایا جائے ؟؟
😂اور ہاں کوئی یہ بتائے گا کہ کسی کو مکھن لگانا ہو تو گائے کا ٹھیک رہے گا یا بھینس کا ؟؟ 😇کہیں سے پوچھ کے بتائیے گا کہ کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانی ہو تو *
کونسی ٹھیک رہے گی دائیں یا بائیں والی؟؟*۔
مسکرانا صحت کے لیے اچھا ہے ۔۔ 😁😁😁 مسکرائیے ۔۔

07/09/2024

ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے...
ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے...
جب امید نہ باقی ہو تو..
صرف دلاسہ رہ جاتا ہے...

زخم بہت سے مل جاتے ہیں..
وقت ذرا سا رہ جاتا ہے..
دل سے درد نکل کر بھی تو..
اچھا خاصا رہ جاتا ہے...

موجیں جب بھی چھو کر گزریں...
ساحل پیاسا رہ جاتا ہے...

ایک شناسائی کی دھن میں...
دکھ شناسا رہ جاتا ہے..

وقت بھلا دیتا ہے سب کچھ..
صرف خلاصہ رہ جاتا ہے....!

02/09/2024

جرمنی میں سرکاری سطح پر بچوں کو گھر میں پڑھانے پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ کروڑ شہریوں کے ملک میں محض 2500 پرائیویٹ سکول ہیں کیونکہ تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔

جرمن سکول سسٹم جرمنوں کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے۔

چھ سال کی عمر سے آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ بچے کو سکول بھیجیں اور پندرہ سال کی عمر تک بچے کا سکول جانا لازمی ہے۔

اب یہاں جرمن اپنا طریقہ استعمال کرتے ہیں اور سکول کے ابتدائی چار سے پانچ سال بچے ہر طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے بعد ان کو تین طبقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

پہلا طبقہ Gymnasium کے نام سے ہے جس میں حد سے زیادہ ذہین بچے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہوتے ہیں جو کہ مستقبل میں سائنسدان بنتے ہیں انجینئر یا ایسے ہائی کوالیفائڈ پروفیشنل عہدوں پر جاتے ہیں

سکولوں کی دوسری قسم Realschule ہے جہاں وائیٹ کالر نوکریوں کے مائنڈ سیٹ والے بچے جاتے ہیں

جبکہ تیسری قسم Hauptschule کی ہے جس میں صرف وہی بچے جاتے ہیں جو کہ نالائق ہوتے ہیں اور نچلے درجے کی نوکری کر سکتے ہیں۔

عموما بچوں کے پاس یہ آپشن ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرکے اچھے سکول منتقل ہو جائیں لیکن یہ طبقاتی تقسیم پھر بھی رہتی ہے۔ اور بچے یوں اپنے سکول سے ہی جان لیتے ہیں کہ وہ زندگی میں کس پروفیشن کو اختیار کرنے جا رہے ہیں۔

یہاں سکول کے اوقات صبح آٹھ سے دوپہر ایک تک ہوتے ہیں۔ اور ہر روز مختلف سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں جن کی تعداد چارسے پانچ ہوتی ہے۔ کچھ سبجیکٹ جیسا کہ میتھ وغیرہ ہفتے میں دو بار پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک کلاس کا دورانیہ پینتالیس منٹ یا نوے منٹ کی دو کلاسز ہوتا ہے۔

اس دوران آدھے گھنٹے تک کی بریک بھی ہوتی ہے اور بچے اپنا لنچ گھروں میں جا کر کرتے ہیں۔ چونکہ لنچ گھر کرنا ہوتا ہے اس لئے یہاں کسی سکول میں بھی کینٹین نہیں ہوتی ہے۔ وہیں پر ماڈرن سکولز اس روش کو توڑ کر فل ڈے سکول اور لنچ بھی آفر کر رہے ہیں۔

جرمن سوسائٹی میں فرد کا سب سے اہم مقصد ریاست کی فلاح کی خاطر کام کرنا ہے اور اچھا شہری بننا ہے سو وہ شروع سے ہی بچوں کو ویسا بنانا شروع کر دیتے ہیں۔

31/08/2024

آج کل دنیا بھر میں اور خاص کر عرب دنیا میں ایک فلم کے بڑے چرچے ہیں ۔ اس فلم کا نام Goat Life ہے جس کو عربی میں
" حیاہ الماعز" کہا جاتا ہے۔ اگر چہ یہ فلم نیٹ فلیکس پر موجود ہے لیکن یہاں سعودی عرب میں نہیں دیکھایا جا رہا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سچے واقعے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے یہ فلم بنائی اس واقعے کا ایک دوسرا مثبت پہلو بھی تھا جو نہیں فلمایا گیا۔ میں نے فلم دیکھی نہیں ہے لیکن اس کے کچھ کلپس اور اس کے بارے میں تبصرے اور اس کی کہانی سنی ہے۔ آج میں آپ کو یہ مکمل اصلی واقعہ سناتا ہوں۔
یہ واقعہ تین سال پہلے ایک سعودی شخص نے ایک چینل پر بیٹھ کر سنایا تھا۔ فلم تو اب بنی ہے اس پر۔ ہوا یوں کہ 1991 میں سعودی عرب کے شھر خفر الباطن میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ خفرالباطن سعودی عرب کے مشرقی صوبے کا شہرہے جس کا نزدیکی انٹرنیشنل ائیرپورٹ دمام ہے۔
ہوا یوں کہ ایک ہندوستانی شخص جس کا نام نجیب تھا وہ کسی کمپنی کے ویزے پر آیا۔ اس وقت یہ شخص ہندوتھا نجیب نام بعد میں پڑ گیا تھا۔ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں موبائل ہوتے نہیں تھے زبان سمجھ نہیں آتی تھی پہلی بار آنے والوں کو ۔ کبھی کبھار یار دوست , کفیل یا کمپنی ائیرپورٹ نہیں پہنچ پاتی تھی, یا بھول جاتی تھی وغیرہ وغیرہ۔

نجیب کی کمپنی نجیب کو لینے ائیرپورٹ نہیں آئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کمپنی کونسے شہر میں ہے, اس دوران ایک سعودی شہری نے اس سے بات چیت کی کوشش کی , ظاہری بات ہے سمجھ کسی کو بھی نہیں آئی ایک دوسرے کی بات۔
سعودی شہری نے شاید اپنا ورکر سمجھ کے اس کو اپنے ساتھ جانے کا اشارہ کیا یا جان بوجھ کر اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی, اللہ کو علم ہو گا, نجیب اس کے ساتھ چل پڑا۔

وہ شخص نجیب کو لے اپنے جانوروں کے طبیلے لے گیا۔ عموما سعودی عرب میں بھیڑ بکریاں, اونٹ رکھنے والے لوگ دور صحرا میں آبادی سے کافی ہٹ کے خیمے لگا کر اور جانوروں کے لئے لکڑی کے لمبے طبیلے سے بنا لیتے ہیں۔ وہاں سے سڑک یا آبادی بہت دور ہوتی ہے۔ نجیب کو وہاں لے جا کر جانوروں کو چرانے پر لگا دیا۔ زبان کی بندش کی وجہ سے کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔

مختصرا یہ کہ نجیب وہاں پانچ سال اپنے گھر سے دور صحرا میں بغیر تنخواہ کے جانور چراتا رہا۔ معمولی سا کھانا ملتا تھا اور بس یہ سب کچھ۔
پانچ سال بعد نجیب نے موقع پایا اپنے کفیل کو کسی لوہے کے راڈ سے سرپر مارا وہاں سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا کفیل اس راڈ کے وار سے انتقال کر گیا تھا۔
ادھر نجیب سڑک تک پہنچ گیا وہاں کسی بھلے آدمی نے اسے اٹھایا شہر یا کسی قصبے لے گیا۔ وہاں پولیس کو کسی نے خبر دی اسے گرفتار کرکے لے گئے۔ عدالت میں کیس چلا۔ نجیب کو دیت کے طور پر مقتول کے بیٹے کو ایک لاکھ ستر ہزار رہال دینے کا حکم ہوا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے پانچ سال قید کی سزا گزارنی تھی اور سزائے موت ہونی تھی۔
بحرحال نجیب پیسے کہاں سے لاتا اس لئے پانچ سال کے لئے جیل چلا گیا۔ یہ کیس اور نجیب کا واقعہ آہستہ آہستہ مقامی لوگوں میں پھیلنے لگا۔ کافی وقت لگا نجیب کی رہائی کی اجتماعی کوشش میں ۔ مقامی سعودیوں نے پہلے جب یہ سارا واقعہ سںنا اور عدالت کا فیصلہ پڑھا تو وہ نجیب کی جیل سے رہائی کے لئے سرگرم ہو گئے اس وقت نجیب کی دیت والی رقم کافی بڑی تھی کوئی اکیلا شخص نہیں دے سکتا تھا بڑی مخنت اور کوشش کے بعد رقم جمع ہو گئی۔ اس وقت سوشل میڈیا تھا نہیں۔ لوگوں کے پاس جا جا کے مانگنا پڑتا تھا۔ بڑی رقم تھی جو دس بیس , سو ریال سے پوری کرنا مشکل تھا۔ بالاخر چند سال کی کوشش سے بالاخر رقم پوری ہو گئ۔

نجیب کے کفیل کے بیٹے کے پاس لوگ گئے اور اسے جیل لے جا کر دیت کی رقم مجرم کے سامنے پیش کرنے کی کاروائی شروع کی , سعودی عرب میں قاتل کو دیت کے لئے مقتولین کے سامنے لاکر معاملہ ختم کیا جاتا ہے۔ نجیب کے کفیل کے بیٹے کے دل میں بھی اتنے لمبے عرصے کے بعد نرمی آ گئی تھی اور نجیب کے ساتھ اپنے باپ کی زیادتی کا احساس ہوا تھا۔
اس نے کہا اگرچہ تو نے میرے والد کو قتل کیا ہے لیکن اپ کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے اس لئےمیں یہ رقم والد کے ہاتھوں اپ کے ساتھ ہوئی زیادتی کے لئے بطور جرمانہ واپس کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اپ میرے والد کو معاف کر لیں گے۔

جب نجیب جیل سے باہر آیا تو انہیں سعودی لوگوں نے کچھ اور پیسے دئیے جنہوں نے اس کی رہائی کی کوشش کی تھی جس پر نجیب نے پوچھا , کیا آپ لوگ مسلمان ہو؟
انہوں نے کہا الحمداللہ! کیوں پوچھ رہے ہو ایسے؟
نجیب نے پوچھا" کیا میرا کفیل بھی مسلمان تھا"
وہ لوگ سمجھ گئے کہ وہ کیوں یہ پوچھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہم مسلمانوں میں بھی برے اور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں نجیب نے ان لوگوں کی مدد کرنے اور کفیل کے بیٹے کے روئے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور انڈیا واپس چلا گیا۔
تو یہ تھی مکمل کہانی جسے ایک سعودی نے تین سال پہلے سنائی تھی ۔ یوٹیوب پہ مل جائے گی عربی زبان میں۔ انڈیا نے ادھا ادھورا قصہ فلمایا ہے۔

بات یہ ہے کہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور شاید ہو رہے ہوں لیکن پورے سعودی معاشرے کو ایسا سمجھنا نہایت غلط ہو گا۔
چند سال پہلے شاید اپ لوگوں نے ایک ویڈیو دیکھی ہو گی کہ ایک سعودی شہری جیل میں قید ایک پاکستانی ڈرائیور کی تین لاکھ کی دیت کی رقم دے کر اسے آزاد کروا رہا ہے۔ اس ڈرائیور نے ایکسڈینٹ میں 3 لوگوں کو مارا تھا۔

فلم ابھی دیکھنی ہے کیونکہ اس فلم کی ایکٹینگ , میوزک اور cinametography کی بہت تعریف ہو رہی ہے۔
کاپی

ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا میں ڈائنوسار🦕🦖 مارنے میں ماہر ہوں. اور اس کو مار کر اس میں سے ایک ہیرا نکلتا ہے جو چھبی...
30/08/2024

ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا میں ڈائنوسار🦕🦖 مارنے میں ماہر ہوں. اور اس کو مار کر اس میں سے ایک ہیرا نکلتا ہے جو چھبیس کڑوڑ ڈالر کا بکتا ہے۔

جسے سیکھنا ہو دو ہزار ڈالر فیس دے کر میرے کورس میں داخلہ لے لے۔

بہت سے چنو منو جمع ہوگئے۔ فیس دے کر بیٹھ گئے۔

استاذ جی نے ڈائنوسار کو پکڑنے اور مارنے کے بہت اعلی اعلی طریقے اسکرین پر سکھائے۔ امتحان لیا اور جو ٹاپ اسٹوڈنٹس تھے ان کو سرٹیفیکیٹ بھی دیا۔

ایک ٹاپر اسٹوڈنٹ کورس کرنے کے بعد نکلا، پانچ برس تک ڈائنوسار ڈھونڈنے کے لیے جنگل جنگل دریا دریا پھرتا رہا۔

ڈائنوسار نہ ملنا تھا نہ ملا۔ بہرحال یہ ضرور پتا چل گیا کہ ڈائنوسار دنیا سے ختم ہوگیے ہیں۔

سب جمع پونجی لٹا کر خستہ حال لٹا پٹا واپس پہنچا تو استاذ جی کے گھر گیا۔ پوری رام کتھا سنائی اور بولا کہ جب ڈائنوسار ہیں ہی نہیں تو آپ نے مجھے مارنے کا طریقہ کیوں سکھایا؟؟ میں تو بھوکا مر رہا ہوں آپ کے دیے گیے علم سے پیسے کیسے کماؤں؟؟

استاذ جی بولے "پتر تجھے کس نے بولا تھا ڈائنوسار ڈھونڈنے نکل جا؟

شاگرد: پھر ہیرا کیسے ملے گا؟

بیٹا لوگوں کو ڈائنوسارس مارنا سکھایا کر۔ یہی اصل گر ہے ہیرا پانے کا۔ اور ہاں جی ياد آیا جو لوگ کہتے ہیں آئیں آپکو آنلائن کام سکھاتے ہیں وہ بھی یہی تعلیم دیتےہیں انکا بھی یہی کام ہے😆😋

سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مظفر آباد کی جانب سے جاری شدہ موسمیاتی ایڈوائزی کی روشنی میں حالیہ طوفانی بارشوں سے ندی نال...
29/08/2024

سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مظفر آباد کی جانب سے جاری شدہ موسمیاتی ایڈوائزی کی روشنی میں حالیہ طوفانی بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی، لینڈ سلائیڈنگ اور راستے بند ہونے کے خدشہ کے پیش نظر محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آزاد کشمیر کے زیر انتظام جملہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات مورخہ 30 اگست 2024 ( ایک یوم) کے لئے بند کر دیے گے۔
ترجمان محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن

جانی کی رگڑائی! ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے ناتجربہ کار اور نکمے بیٹے کو لاکھوں روپے کا کاروبار صرف اس لیے کروا کر دیا ...
27/08/2024

جانی کی رگڑائی!

ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے ناتجربہ کار اور نکمے بیٹے کو لاکھوں روپے کا کاروبار صرف اس لیے کروا کر دیا کہ ان کے ایک دوست نے اپنے بیٹے کو بھی یہ کاروبار کروا کر دیا تھا۔
انا کے مسئلے، ضد بازی اور پیسے کی فراوانی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا، اور نتیجہ وہی نکلا جو ایسے کاموں میں ہوتا ہے کہ چند مہینے بعد کاروبار بری طرح سے ڈوب گیا اور ایک خطیر رقم کا نقصان سہنا پڑا۔

یہ بات آپ احباب کو کیوں بتائی اس کے لئے اپنی زندگی کا ایک واقعہ شئیر کر رہا ہوں۔

1998 میں، جب میں پہلی بار لندن آیا تو نوکری کے لیے ایک بڑی کمپنی Chingford Fruit Factory میں ملازمت کی۔ اس فیکٹری میں یورپ سے سینکڑوں ٹن فروٹ روزانہ کی بنیاد پر آتا تھا، جس کی کانٹ چھانٹ اور درجہ بندی کے بعد اسے برطانیہ کی مختلف بڑی سپر مارکیٹس میں سپلائی کیا جاتا۔
میری نوکری جس ڈیپارٹمنٹ میں تھی، وہاں ہمیں کمپیوٹر سے پرنٹ شدہ لسٹیں دی جاتی تھیں۔ ان لسٹوں کے مطابق ہمیں کولڈ روم اور سٹوریج روم میں جا کر پھل کی جانچ پڑتال کرنی پڑتی کہ آیا سپر مارکیٹس کے معیار اور آرڈر کے مطابق مال تیار ہے یا نہیں۔

میرے ڈیپارٹمنٹ میں اٹلی کا ایک نوجوان لڑکا Antonio، جو میرا ہم عمر تھا، پچھلے آٹھ دس ماہ سے کام کر رہا تھا۔ میری اس سے دوستی ہو گئی اور ہم اکثر وقت ملنے پر گپ شپ لگاتے۔

میں نے نوٹ کیا کہ سپروائزرز اور مینیجرز کی طرف سے Antonio کے ساتھ بہت ہی امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ بہت سے ایسے کام، جو اس کے کرنے کے نہیں ہوتے تھے، وہ اس سے کروائے جاتے۔ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں بھی کام کرتا اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے کام جیسے فرش صاف کرنا، مینیجرز کے لیے چائے بنانا، اور یہاں تک کہ کئی دفعہ میں نے اسے واش روم صاف کرتے بھی دیکھا۔
یہ سب کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر کبھی کوئی بل نہیں پڑتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور تقریباً آٹھ مہینے بعد ہمیں پتہ چلا کہ Antonio واپس اٹلی جا رہا ہے۔ جب وہ ہم سے ملنے آیا تو اس کا انداز بالکل مختلف تھا۔انتہائی قیمتی سوٹ، چمچماتے بوٹ، اور چمکتی قیمتی گھڑی۔ Antonio بالکل بھی پہچانا نہیں جا رہا تھا۔
میں نے اس سے واپس اٹلی جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے ایک ایسی بات بتائی جس کو سن کر میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا اور جس میں کامیاب کاروبار کا راز پوشیدہ تھا۔

اس نے بتایا کہ اس فروٹ فیکٹری میں جتنا بھی فروٹ آتا ہے، وہ اٹلی سے اس کے والد صاحب کی فیکٹری سے آتا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ اگر تمہارے والد صاحب کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں تو تم نے یہاں یہ سب کچھ کیوں برداشت کیا؟ Antonio نے جواب دیا کہ یہ ہمارا جدی پشتی کاروبار ہے، اور جب ہمارے بڑے ہمیں کوئی ذمہ داری سونپنے جا رہے ہوتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں تجربہ حاصل کرنے کے لیے ملک یا شہر سے باہر کسی ایسی جگہ بھیجتے ہیں جہاں ہم تجربہ حاصل کر سکیں۔

اس نے مزید کہا کہ تجربہ صرف مینیجر لیول کا نہیں، بلکہ ہمیں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام سیکھنے کو کہاجاتا ہے۔
فرش کی صفائی سے لے کر مینیجر کے میز تک۔

میں نے ان دو سالوں میں بخوبی سیکھا کہ ایک مزدور کس ذہن سے سوچتا ہے، کس طرح محنت کرتا ہے اور ایک مینیجر کس طرح بہت سے پیچیدہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتا ہے۔

سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ Antonio نے پورے دو سال اپنے گھر کا کرایہ، کھانے پینے کا خرچہ، بجلی اور گیس کے بلز، اور دوسرے تمام اخراجات اپنی فیکٹری کی تنخواہ سے پورے کیے باوجود اس کے کہ اس کا باپ ایک ارب پتی تھا۔

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اس سطح پر کام سیکھنے کے بعد کوئی شخص اپنے کاروبار کو ڈبو سکتا ہے یا گھاٹا کھا سکتا ہے؟

ہمارے ہاں تو معاملہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ایک فیکٹری کا مالک تو کیا، ایک دکان کا مالک بھی خود اٹھ کر پانی پینے میں عار محسوس کرتا ہے۔ کسی بڑے دفتر میں، سامنے رکھی چیز کو پکڑنے کے لیے بھی گھنٹی بجا کر ملازم کو بلایا جاتا ہے۔
دولت کے گھمنڈ، جھوٹی شو بازی، یا بچوں کی ضد کے چکر میں ان کو ایسے کام کروا دیے جاتے ہیں جن کی ABC سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے۔

میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ اس قسم کی سوچ کے ساتھ ہم کاروبار یا زندگی کے بہت سے دوسرے معاملات میں کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟

دولت کے بل بوتے پر ہر غلط کو صحیح کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی بہترین تربیت پر توجہ زندگی کے ہر میدان میں ان کی بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔

اپنی بات Antonio کی اس بات سے جو اس کے باپ دادا نے اسے بتائی، ختم کروں گا کہ "کاروبار کی بلندیوں کو چھونے کے لیے آپ کے ذہن میں مزدور کی سوچ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔"

محمد

Address

Bhimber

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kashmir viewer posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share