Shairy Sad Romantic pictures

Shairy Sad Romantic pictures 1:= Invite your Friends on This Page .....
2:= Like & Share This page ....
3:= like & comments After watching all post .....
(5)

03/11/2019
02/10/2019

💮🌹🌳🍀🏵️

03/05/2019

Woh Chand
Ka
"chamkna"

Woh Masjido
Ka
"Sawarna"

Woh Muslmano
Ki
"Dhoom"

*"Ramzan"* is
"Coming Soon"

Woh Sehri
Ka
"Maza"😘😘😘

Woh Aftari
Ki
"Bhook"🍹🍦🍔

Woh Quran
Ki
"Telawat"

Woh Namaz
Ka
"Mamool"

Woh Roze
Ki
"Barkat"

Woh Roze
Ka
"Noor"

Sirf
2 . . . . . . . . . !
Din
"Dooor"

Advance
"MAHE RAMZAN
MUBARAK"🌹🌹

COMING SOON:
I hope I am 1st to wish You........!

07/03/2019

😆😆😆😅😅😆😂😂😂😂

19/02/2019

خوبصورت شاعری کیلئے اس پیج کو لائیک کریں

12/11/2018

Kudrat Ke Karishmon Mein Agar Raat Na Hoti
Khwabon Mein Bhi Unse Mulakat Na Hoti

Yeh Dil To Har Ek Gam Ki Wajah Hai
Yeh Dil Hi Na Hota To Koi Baat Na Hoti

12/11/2018

"Kashti Bi Nahi Badli Dariya Bi Nahi Badla
Aur Dobne Walon Ka Jazba Bi Nahi Badla

"Hai Shoq-e Safr Aesa Ik Arse Se Yaro
Manzal Bi Nahi Pai Rasta Bi Nahi Badla

11/11/2018

بدلہ

دنیا جو انصاف مجھے نہیں دلا سکتی تھی ،وہ میں نے خود کو خود دلایا۔

کبھی کبھی کچھ کہانیاں سن کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے ۔میری ایک دوست جو دماغی مریضوں کے علاج میں ایک معاون نرس کی خدمات سر انجام دے رہی ہے ۔ اس نے ایسی کہانی سنائی کہ سن کر مجھے شدید حرت ہوئی۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے ۔ آپ بھی سنیں اور خود فیصلہ کریں ۔

میری دوست مریم نے ایک چالیس ، بیتالیس سال کی عورت کو پاگل ثابت ہونے کے باوجود ٹھیک پایا تو اس سے پوچھا ۔ آپ تو ٹھیک ٹھاک لگتی ہیں۔ عظمت مسکرائی ۔ اس نے نہائت سنجیدگی سے کہا۔ میں ٹھیک ہی ہوں ۔ میں بہت خوش بھی ہوں کہ میں نے جو سوچا تھاکر بھی لیا۔

عظمت کی بات سن کر مریم نے حیرت سے کہا۔ آپ نے ایسا کیا کر لیا۔ مریم کو بلکل بھی پتہ نہیں تھا کہ عظمت کی کیس ہسٹری کیا ہے۔ مریم نے نرمی سے عظمت سے پوچھا۔ عظمت کے چہرے پر تھکا دینے والے سفر کی داستان کی جھلک نمایاں تھی ۔ اس نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا۔ زندگی کبھی کبھار ایسے ایسے رنگ سامنے لاتی ہے کہ ہمیں خود بھی نہیں یقین آتا کہ ہم پر قدرت نے کون سا رنگ چڑھا دیا۔ کبھی کبھی خود سے ملنے پر یقین بھی نہیں ہوتا کہ یہ ہم ہی ہیں۔ اپنا آپ انسان کو پتہ نہیں ہوتا۔ عظمت کی بات سن کر مریم کا تجسس اور بڑھ گیا۔

مریم نے پاس پڑا ہوا سٹول لیا اور بیٹھتے ہوئے کہا۔ آپ بتائیں میں سننا چاہتی ہوں ۔ آخر آپ جیسی سمجھدار عورت یہاں کیوں ہے۔ وہ پاگل کیوں کہلوا رہی ہے۔ عظمت نے کچھ دیر سر جھکایا اور بولی ۔ انسان مکمل طور پر کبھی سمجھدار نہیں ہو سکتا۔ ہم کبھی اپنی خواہش کے تحت عقل کو جانے دیتے ہیں تو کبھی مجبوری کے تحت ۔ زندگی اپنے طور پر ہم سے بہت کچھ کروا لیتی ہے۔ ہم انسان بہت عجیب ہوتے ہیں جب کرنے پر آتے ہیں تو پہاڑوں کو کاٹ لیتے ہیں اور نہیں کرنے کا جذبہ ہمیں بستر سے ہلنے نہیں دیتا ۔ میں ایک پروفیسر رہی ہوں ۔ ایم اے انگلش کیا تھا، میں نے۔ عظمت نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ میں نے طرح طرح کی کتابیں پڑھی ۔ کتابیں پڑھنا میری عادت بن چکی تھی ۔

شادی کے بعد سات سال تک میری اولاد نہیں ہوئی ۔ میرے پاس بہت وقت ہوتا ۔ میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتی ۔ پھر رب نے مجھ پر اپنا کرم کیا اور مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ میرا ارمان میرا بیٹا ۔وہ میرا سب کچھ تھا۔ میری زندگی بدل چکی تھی۔ اب تو میری ہر سوچ کا محور میرا ارمان ہی تھا۔ ایک سال بعد ہی میرے شوہر کی ایک ایکسڈینٹ میں وفات کے بعد مجھے قصبے میں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ یہ گاؤں تو نہ تھامگر گؤوں جیسا ہی علاقہ تھا۔میں چاہتی تھی کہ اپنے بیٹے کو بہت اچھی تعلیم دو ۔وہ بہت بڑا بنے۔ ماں دنیا کی وہ ہستی ہے جو اپنے آپ کو جلا کر اپنے بچوں کو حرارت پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ممتا کا جذبہ جس دن اس کائنات سے ختم ہو گیا، اس دن یہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ میرا یہ گھر چھوڑنے کی وجہ میری ممتا ہی تھی۔ ہمارے گھر سے کچھ دور ہی چودھریوں کےبڑے بڑے گھر تھے ۔

یہ لوگ دولت کی وجہ سے مغرور تھے ۔ شراب پینا ان کا معمول تھا۔ علاقے کے بہت لوگ ان کے لیے کام کرتے تھے۔ میں شادی کے بعد ہی یہاں آئی وقار کسی دوسرے علاقے میں جانے کو تیار نہ تھے۔ میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے انگلش میں ایم کیا۔ میرے شوہر مجھے ہر وہ کتاب لا دیتے۔ جس کے میں پڑھنے کی خواہش کرتی ۔ ان کی موت کے بعد میں نے گھر بند کیا اور اپنے ماموں کے کہنے پر ان کے گھر آ کر رہنے لگی ۔ مجھے گوجر خان آ کر آچھا لگ رہا تھا ۔ یہاں ہی ایک پرائیوٹ کالج میں میں نے نوکری کر لی تھی۔

مجھے ماموں کے گھر میں جو بات سب سے بُری لگتی تھی وہ تھے۔ ان کے دو کتے ۔ جنہیں سنبھالنے کے لیے انہوں نے ملازم رکھے تھے۔ ماموں ہی کے مشورے سے میں نے ایک چھوٹا سا گھر اپنی زمینیں اور ذیور بیچ کر لے لیا تھا۔ ارمان کو بھی کتے بہت پسند تھے ۔ بس یہی ایک خواہش اس کی میں نے پوری نہ کی ورنہ جو اس کے منہ سے نکلتا میں پورا کرتی تھی۔

ارمان کو چھٹیوں میں کبھی کبھی میں دوبارہ اس پرانے گھر لے جاتی ،کچھ دن یہاں رہ کر وہ اپنے ابو کی قبر پر فاتحہ پڑھتا اور سارے رشتہ داروں سے ملتا۔ وہاں اس کے کزن اس سے بہت پیار کرتے۔ وہ بہت خوشی سے یہاں آ کر رہتاتھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔ مجھے میرے دیور نے آکر اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت دی ۔ ہم دونوں شادی کے لیے واپس اپنے گھر آ گئے۔ ارمان بہت خوش تھا۔وہ اکثر اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ باہر ہی رہتا۔ شادی کے دن گزرے ہی تھے کہ میرا اٹھارہ سال کا بیٹا غائب ہو گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ اسے زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا۔ میں نے پولیس کو رپورٹ بھی کی۔ سب کر کے دیکھ لیا ۔ آٹھ دن بعد ارمان کی لاش ملی جو بُری طرح سے تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ کی انگلیوں تک کو توڑا گیا تھا۔ اس کا چہرازخموں سے بھرا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل میں فقط یہی بات آ رہی تھی ۔ یا رب یہ دن دکھانے سے پہلے مجھے اُٹھا لیتے۔

عظمت کی آواز بھرا گئی ۔ وہ خاموش ہو گئی ۔ مریم کو لگا کہ کہانی ختم ہو گئی۔ مریم کی انکھوں میں آنسو تھے اور وہ وہاں سے چل دی دوسرے دن عظمت نے اسے بلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ تم نے میری کہانی سننا چاہی اور آدھی ادھوری کہانی سن کر چلتی بنی۔ کیوں؟

مریم نے حیرت سے کہا۔ کیا ابھی کہانی رہ گئی ۔ سب تو ختم ہو گیا۔

عظمت نے دھیرے سے کہا۔ کبھی کبھی جب ہم سمجھتے ہیں، سب ختم ہو گیا وہیں سے شروعات ہوتی ہے۔ مجھے بھی لگا سب ختم ہو گیا۔ مگر مجھے یہ جاننا تھا کہ اتنے تھوڑے سے دنوں میں ایسا کون سا دشمن پیدا ہو گیا تھاارمان کا ۔ ارمان کی تدفین کے بعد مجھے پتہ چلا کہ چودھری مختار الحق کی بیٹی مدیحہ اور ارمان میں دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ فیس بک فرینڈ بھی تھے ۔ ان کی ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی تھیں ۔ جب ارمان یہاں اپنی کزن کی شادی پر آیا تو مدیحہ چھپ چھپ کر ارمان سے ملتی رہی ۔ جس کا پتہ اس کے بھائی اورکزن کو چل گیا۔

چودھری خاندان تین بھائی یہاں مل کر رہتے تھے۔ ایک بڑا والا مرا ہوا تھا۔ اس کے بیوی بچے بھی یہیں تھے ۔ جبکہ چھوٹا والا شہر میں کوئی وزیر تھا۔ مدیحہ اس چھوٹے والے کی بیٹی ہی تھی۔ ارمان کو مروانے کے بعد انہوں نے فوراْ ہی مدیحہ کا رشتہ کروا دیا تھا۔ جس کی شادی سوا سال بعد طے پائی تھی۔ یہ بات مجھے قصبہ میں سب کے گھروں میں کام کرنے والی مائی ذبیدہ نے بتائی تھی۔ وہ ہر گھر جہاں شادی اور ماتم ہوتا کام کو آتی ۔ میں ارمان کی موت پر رو ہی نہیں پا رہی تھی۔

ایسے لگتا تھا ایک سمندر میرے دل میں اُتر آیا ہو اور انکھوں سے بہنے سے انکاری ہو۔ زندگی جینے کا مقصد مر جائے تو سمجھ نہیں آتا کہ انسان جئے کیوں ؟ایسے میں مجھے دل کی تسکین اسی میں محسوس ہوئی کہ چودھریوں کے خلاف رپورٹ کروا دو۔ میں نے ایسے کرنے کا سوچا ہی تھاکہ تمام خاندان مجھ سے الگ ہو گیا۔ الگ ہوتا بھی کیوں نہ ۔ ہر کسی کو اپنے بچے اچھے لگتے ہیں ۔ چودھریوں کے پاس پیسہ اور پہچان سب تھی ۔ میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ وہ پھر ہنسنے لگی۔

مریم نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟ عظمت نے سر کھجاتے ہوے کہا۔ کچھ بھی نہیں کا مطلب ہر کوئی نہیں جان سکتا ۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مجھے کوئی خوف نہیں تھامگر میں نہیں جانتی تھی کہ میں کیا کروں ۔ ایسے میں جب پولیس نے میری مدد سے انکار کر دیا۔ خاندان والوں نے نظریں پھیر لی اور مجھے خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھاکہ میں واپس آجاوں ۔ میں اپنے ماموں کے گھر آ گئی ۔ وہ بہت نیک تھے ۔ وہ خوب جانتے تھے کہ ارمان میرے لیے کیا تھا۔ میں فقط ایک زندہ لاش تھی ۔ جس سے جان ان چودھریوں نے نکال لی تھی۔ ماموں نے غصے میں آ کر کہا۔ میرا بس چلے تو ان کے گھر میں کتے چھوڑ دوں ۔جو ان کا پور پور نوچ کر کھا جائیں۔کمرے میں کتوں کے بھوکنے کی آواز پر گویا انہوں نے افسردگی سے کہا تھا۔ جبکہ میں نے اپنے وجود میں اُتر آنے والے سمندر میں ایک چھپاکا سا محسوس کیا ۔ جیسے کسی نے کوئی پتھر پھینک کر میری روح کو بھگو دیا ہو۔مجھے یاد آیا کہ جس راستے سے میں کالج جاتی تھی وہاں کچی بستی کے قریب کافی کتے رہتے تھے۔

میں اپنے خالی گھر میں لوٹ آئی ۔ چھٹیاں ختم ہو چکی تھی۔ میں دوبارہ اپنی کلاسز لینے لگی۔ جب ایک دن میں گھر آ رہی تھی تو میں نے دیکھا۔ سڑک کے کنارے ایک کتیا اپنے پانچ چھوٹے بچوں کو دودھ پلا رہی تھی۔ میں وہاں اُتر گئی۔ میں نے قصائی کی دوکان سے گوشت لیا اور اس کتیا کے پاس جا کر پھینک دیا۔ کچھ دن میں نے یہی کیا۔یہاں تک کہ اب میری گاڑی رکتی تو کتیا اور اس کے بچے گاڑی کے قریب آ کر بھونکنے لگتے۔ میں نے کتوں کی ٹرینگ کی ویڈیوڈاون لوڈ کیں اور دیکھنے لگی۔ ہر رات سوچتی کہ واقعی ان چودھریوں کے گھر میں میں نے کتے چھوڑ دیے۔ پھر جب وہ کتیا اور اس کے بچے مجھ سے مانوس ہو گئے تو میں ان سب کو گھر لے آئی ۔ میں نے ایک لڑکا نوکر رکھا جو ان کو سنبھالنے میں میری مدد کرتا۔وہ لڑکا میرے ساتھ ہی رہتا ،پھر کچھ عرصے بعد میں نے اسے بھی نکال دیا۔میں دوبارہ اپنے پرانے گھر گئی۔جہاں ذبیدہ سے ملی اور اسے کافی پیسے دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مجھے چودھری کے تمام گھر والوں کی تصاویر لا کر دیے۔ اس نے کچھ ماہ کا وقت لے کر ہر تصویر کے بدلے مجھ سے اچھی خاصی رقم لی۔ اس کا خیال تھا کہ میں ان پر جادو کروانے کا سوچ رہی ہوں ۔ اس نے مجھے کچھ کالا جادو کرنے والوں کے پتے بھی دیے ۔

میں نے مسکرا کر لے لیے ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو بھی میرے ارادوں کا کچھ بھی پتہ چلے میں نے اپنا یہاں قصبہ کا مکان بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔جو میرے دیور نے ایک اچھی رقم دے کر مجھ سے خرید لیا۔ میں نے دو سال بعد مکان خالی کرنے کے معائدے پر پیسے لے لیے۔ وہ بھی خوش تھا۔ اب میں نے اپنے کتوں کی تربیت یکسوئی سے شروع کی ۔ میں نے کالج کی نوکری چھوڑ دی۔مجھے شہر والا مکان بھی بیچنا پڑا میں نے ایک سنسان جگہ مکان کرائے پر لے لیا ۔ میں سارا دن روئی سے بنے پتلے بناتی ۔ باہر سے گوشت لاتی اور ان پتلوں پر چودھری کے گھر والوں کی تصاویر اس طرح سے چہرے کی جگہ چپکاتی کہ میرے کتے انہیں اچھے سے پہچان لیں۔ان پتلوں کو چیرنے کا حکم صادر کرتی ۔چھوٹے چھوٹے کتے کے بچے بڑے ہو چکے تھے ۔ وہ ان پتلوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے تو انہیں ان کی پسندیدہ خوراک ملتی ۔ میں ایک بڑے بیگ میں انہیں ڈال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی لے جاتی ۔ انہیں خاموشی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا طریقہ سکھانا ہی سب سے مشکل محسوس ہوا۔ مگر وقت اور محنت سے میں نے وہ کر لیا جو میں کرنا چاہتی تھی۔مجھے اس کام میں پانچ سال لگ گئے۔ یہاں تک کہ میں نے بڑا سا بیگ اپنی گاڑی میں رکھا۔ کتے جو اپنا نام جانتے تھے ۔ موتی ، ٹائیگر۔ پپی۔سونو۔چودھری۔اور لاڈو۔ان کی ماں بیمار ہو کر مر گئی تھی۔ بہت ہی وفا دار کتے تھے میرے۔ ایک ایک کر کے بیگ میں خاموشی سے آ کر بیٹھتے گئے۔ وہ جانتے تھے کے سکون کا مطلب ہے کہ خاموشی سے تب تک بیٹھے رہنا جب تک کہ انہیں پکارا نہ جائے۔ وہ اس قدر سمجھ دار تھے کہ میں کہہ سکتی ہو کہ رب نے ہر جاندار میں کمال رکھا ہے۔ وہ خاص میرے لیے ہی پیدا کیے گئے تھے تا کہ میں اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا بدلہ لے سکوں۔

مریم خاموش اور حیرت کا بت بنے عظمت کو دیکھ رہی تھی۔ عظمت نے پھرماضی میں غوطہ لگاتے ہوئے کہا۔ پھر وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا۔ میرے کتے انہیں نوچ نوچ کر کھا گئے ۔ میں رات کے اندھرے میں ان کے گھر داخل ہوئی ۔ چودھری صاحب سے ملنے کی درخواست کی تو نوکر اجازت لینے پیچھے پیچھے گیا میں بھی اپنے بیگ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلی گئی۔ اپنے کتوں کوبیگ سے نکالا اور چلائی بدلہ۔ وہ ان تمام لوگوں پر لپکے جنہوں نے میرے ارمان کی ہڈیاں توڑ دی تھی۔ مجھے آصف نے بتایا تھا جو ارمان کا اچھا دوست اور کزن تھا۔ اس نے چودھری کے بیٹوں اور بھتیجوں کے نام لیتے ہوئے کہا تھاکہ ارمان کو انہوں نے مدیحہ کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔

میرے کتے اپنا کام کر چکے تھے ۔ لڑکیاں بیٹھی اپنے باپ، بھائیوں اور کزنوں کو رو رہی تھی۔ عورتوں کو میرے کتوں نے سونگھا بھی نہیں ۔ وہ چیخ رہی تھی اور رو رہی تھی۔ میرے کتے سکون سے میرے پیروں میں اپنے انعام کے منتظر تھے ۔ انہوں نے میرے لیے سات لوگوں کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیا تھا۔میں نے اپنے طے شدہ مقصد کو پا لیا۔ دنیا جو انصاف مجھے نہیں دلا سکتی تھی۔ میں نے خود کو خود دلایا تھا۔ اس سب میں ان کے تین نوکر اور میرے دو کتےبھی مر گئے مگر جیت میرے کتوں کی ہی ہوئی ۔ ایسا بولتے ہوئے ، اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ وہ کوئی جنگجو لگ رہی تھی ۔جو جنگ جیت گئی ہو۔

اس نے پھر مسکراتے ہوئے کہا میں نے اپنے ارمان کا بدلہ لے لیا۔ مجھے پولیس والے نے کہا تھاکہ میں اس زندگی میں تو ان چودھریوں کا کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ اس لیے دُعا کروں کہ جلدی مر جاؤں۔ قیامت کے دن رب انصاف کرئے گا۔جب میں اسی پولیس والے کے پاس مجرم کے طور پر لائی گئی تو وہ لوگوں کی بات سن کر حیرت سے ہونٹوں پر زبان پھیرتارہا تو،کبھی مجھے دیکھتا۔ وہ پھر ہنس رہی تھی ۔ علاقے کے لوگوں نے میرے کتوں کو مار ڈالا ۔ مجھے ان کی موت کا بے حد افسوس ہے ۔ مجھے جب عدالت میں پیش کیا گیا تو میں نے کٹہرے میں کھڑے ہو کر فقط یہ ہی کہا۔ آپ مجھے سزا نہیں دے سکتے ۔ کتوں نے کتوں کو مارا تو میرا کیا قصور ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ میرے وکیل نے کہا کہ میں پاگل ہوں مجھ سے رعایت کی جائے۔ مجھے سزا دینے کی بجائے یہاں بھیج دیا گیا۔ وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔ میں پاگل نہیں ہوں ۔ نہیں نہیں میں پاگل ہی ہوں ۔ وہ ہنستی جا رہی تھی۔ پتہ نہیں چل رہا تھا۔کہ وہ واقعی پاگل تھی یا کہ وہ پاگل نہیں تھی۔اس کی کیس ہسٹری مجھے نہ پتہ تھی نہ ہی پتہ چل سکی ۔کیونکہ میری وہاں فقط ایک ہی دن کے لیے ڈیوٹی لگی تھی۔ پتہ نہیں وہ واقعی پاگل تھی یا اس کی کہانی محض کہانی ہی تھی۔ میں اور مریم دونوں ہی افسردہ تھے ۔

11/11/2018

):-- ہم یوں بے وفا ہوئے

کچھ صدمہ انسان کو اپنا آپ بھلا دیتے ہیں تو کچھ خود شناسی عطا کرتے ہیں۔اصل تک پہنچنا مشکل ہے۔

کبھی کبھی آپ کچھ لوگوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ کچھ لوگوں کے نظریات اور خیالات نئے ہونے کی وجہ سے ہمیں ہضم تو نہیں ہوتے لیکن ان کی بازگشت دیر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ،جب مجھے ایک سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ میری بہن جو اسلام آباد میں مقیم ہے اس نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ اس کا آپریشن تھا ،وہ چاہتی تھی کہ میں اس کے ساتھ رہوں ۔ہم میں محبت بھی کچھ ایسی ہے کہ میں مصروفیت کے باوجود انکار نہ کر سکی۔ لیکن کراچی سے اسلام آباد کا سفر کیسے کیا جائے ،یہ ایک الگ سوال تھا۔ چونکہ مجھے اکیلا جانا تھا تو ہوائی جہاز ہی سب سے اچھا آپشن تھا۔ ایرپورٹ تک جانے کے لیے میرے شوہر نے (کریم ) سے گاڑی منگوا لی ۔ ان کی بہت اہم مصروفیات کے باعث وہ مجھے ایر پورٹ نہیں چھوڑ سکتے تھے۔

میں نے ان کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے ان سے تعاون کیا انہوں نے مجھے گاڑی تک چھوڑتے ہوئے ، ڈرائیور کی معلومات چیک کی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔ میں نے افسردگی سے کہا ۔ آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ۔ تو انہوں نے تمسخر خیز لہجے میں کہا۔ڈرائیور ایک عورت ہے۔مجھے بھی سن کر تھوڑی حیرت تو ہوئی۔ اس طرح ڈرائیور بننا عورتوں کے لیے کیا ٹھیک ہے ؟ دماغ میں ایک گھنٹی سی بجی۔

میرے شوہر نےمجھے گاڑی میں بیٹھایا اور اللہ حافظ کرتے ہوئے واپس چل دیے۔ ایر پورٹ کا راستہ گھر سے کافی دور تھا ۔ مجھے دو گھنٹے اسی گاڑی میں جانا تھا میں نے اس عورت کی شکل دیکھنے کی کوشش کی ۔ میری کوشش کو وہ دیکھ رہی ہے ،مجھے اس کا اندازہ نہیں ہوا۔ اس نے درمیان والے شیشےمیں دیکھتے ہوئے ،مجھے مخاطب کیا۔ مردوں کا گھورنا تو سمجھ میں آ تا ہے مگر آپ مجھے کیوں گھور رہی ہیں ۔ میں شرمندہ سی ہو گئی۔ جیسے کسی نے میری چوری پکڑ لی ہو۔

وہ چہرے سے چالیس سے پچاس کے درمیان کی عورت تھی ۔ جس کے بال اس طرح سفید تھے کہ وہ اچھے لگ رہے تھے ۔ اس کے نقوش سے لگ رہا تھا کہ اپنی جوانی میں بہت خوبصورت رہی ہو گی۔ میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسے دیکھنے سے نہ روک سکی ۔ میری نظر فرنٹ والے آئینہ میں بننے والی شبیہ سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر مجھے آئینہ میں دیکھتے ہوئے مخاطب کیا؟ آپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ میں ڈرائیور ہوں یا پھر کسی کے چہرے کے ساتھ میرے چہرے کی مماثلت کر رہی ہیں ۔ اس بار میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔ میں نے اقرار کیا کہ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ایک عورت جس نے اپنی ظاہری حالت مردوں کی سی ہی رکھی ہوئی ہے ،ڈرائیور ہے۔اپنے کندھوں سے اوپر بالوں کے باوجود اس میں نسوانی حسن مومود تھا۔ وہ دبلی پتلی اور خوبصورت عورت تھی۔ میں نے غیر دانستہ طور پر اس سے سوال کیا۔ آپ کو ڈرائیو کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ۔ میرا مطلب ؟میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

وہ مسکرائی اور بولی۔ کبھی کبھی انسان ہر ڈر سے باہر نکل جاتا ہے۔ میں جب تمہاری عمر کی تھی تو مجھے بھی ڈر لگتا تھا۔ پھر کسی نے سب کچھ نکال لیا۔ ہرفضول احساس ۔اس کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور آ کر گزر گیا۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے بے اختیار کہا۔ آپ کسی سے محبت کا کہہ رہی ہیں ۔سگنل سرخ ہو چکا تھا اور اس کا چہرہ بھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ میں نے فوراً کہا ۔ وہ دراصل میں کہانیاں لکھتی ہوں ۔ دوسروں سے ان کی زندگی سے متعلق پوچھ لینا میرا شوق ہے۔ اگر آپ کو بُرا لگا تو میں معذرت خواہ ہوں ۔

سگنل سبز ہو چکا تھا ، گاڑی آگے بڑھی ، مگر ایک خاموشی ہم دونوں کے درمیان تھی۔ میں اس کے بالوں کو دیکھ رہی تھی، اچانک سے اس کی آواز نے میری سماعت کو متوجہ کیا۔ تو آپ میری کہانی جاننا چاہتی ہیں ؟ چلو اچھا ہے ، شاہد کہ کوئی عورت میری کہانی سن کر سدھر جائے۔ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔ مگر میں سمجھنا چاہتی تھی۔ اسے دیکھ کر عجیب سے شعر میرے دماغ میں بن رہے تھے۔
مسافت کاخیال ہو کِسے کہ کوئی کتابی چہرہ
سفر میں راستوں کا خیال جوبھلا دیتا ہو
کیا ہو گا اس گلشن کا جب کوئی گلاب
اپنا چہرہ کانٹوں میں ہی چھپا لیتا ہو

میں نے اپنے دماغ کو جھٹکا اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا، آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔ وہ مسکرائی ۔جی ہاں ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ نے کوشش تو بہت کی ہے مرد بننے کی مگر آپ پھر بھی ایک خوبصورت خاتون ہی لگ رہی ہیں ۔ اس کے چہرے پر حد درجہ سنجیدگی تھی ۔ اس نے غصے اور ضبظ کے ملے جلے لہجے میں کہا۔ مجھے مرد بننے کا نہ تو کوئی شوق ہے نہ ضرورت۔ میں جو ہوں بہت خوش ہوں ۔ اگر آپ میرے بال دیکھ کر یہ کہہ رہی ہیں تو وہ آسانی کے لیے میں نے چھوٹے کر لیے ہیں ۔ ویسے بھی میں سمجھ چکی ہوں ۔ خوبصورتی کو زوال آنا ہی ہوتا ہے۔ آج آئے یا کل ،ہم انسان اس معاملے میں بے بس ہیں ۔ میں نے حد درجہ کوشش کی کہ ڈھلتی عمر کے اثرات کو روک سکوں مگر ہم قدرت سے نہیں لڑ سکتے ۔ جس بچے نےجنم لے لیا اس نے مرنا تو ہے ہی۔ یہ جوانی ، خوبصورتی سب وقتی چیزیں ہیں ۔ آپ یہ سب ابھی نہیں سمجھیں گیں ۔یہ باتیں چالیس سال کے بعد سمجھ آتیں ہیں ۔میں نے گفتگو کو خوشگوار کرنے کے لیے کہا ،تو آپ بتا رہی ہیں کہ آپ چالیس سال سے اوپر کی ہیں ، وہ اب مسکرائی اور مسکراتے ہوئے بولی ،میں بچاس سے اوپر کی ہوں ۔ مجھے یقین تو نہیں آیا مگر میں کوئی وجہ بھی تلاش نہ کر پائی کہ وہ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔

آپ کا نام کیا ہے ؟ میں نے سرسری سے انداز میں پوچھا؟ تو ا س نے میرے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا نام کیا ہے۔ نام تو محض شناخت کے لیے رکھے جاتے ہیں ، اگر کسی کا نام ہی نہ ہو تو پکارا کیسے جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنا نام چلتا ہی کہاں ہے۔ مگر وہ یہ سوچتی ہی نہیں ۔ سوچے بھی کیوں ۔ دماغ کو اچھے طریقے سے مذہب اور سماج نے تالے جو لگا دیے ہیں ۔ جیسے ہی میں نے مذہب کا نام سنا تو فوراً سے میرے دل نے کہا کہ اسے روکا جائے۔ میں نے ان کی بات کو فوراً رد کرتے ہوئے کہا۔ سماج تو ٹھیک ہے مگر اسلام جیسا مذہب نہ تو کہیں ہے نہ ہی ہو سکتا ہے۔ وہ مسکرائی اور بولی، مجھے کوئی بحث نہیں کرنی۔ نہ اسلام پر نہ سماج پر ، ہر کسی کے اپنے نظریات ہوتے ہیں اور میرے اپنے ہیں ۔ اگر آپ کو میری کہانی لکھنی ہے تو اپنے دماغ پر قفل لگا کر میرے خیالات کو اسی طرح من عن پیش کرنا ہو گا جیسا کہ میں کہوں ، آپ میری کہانی کو اپنی خواہش کے مطابق بدلیں گی نہیں ۔ اگر آپ یہ وعدہ کریں تو ہی میں آپ کو اپنی کہانی سناوں گی۔

یہ ایک مشکل کام تھا، کہ کہانی کو توڑے موڑے بغیر لوگوں کو پیش کیا جائے۔ مگر میری دلچسپی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ میں وعدہ کیے بغیر نہ رہ سکی۔اس نےمیری طرف دیکھتے ہوئے کہا ، آپ بناو سنگھار کیوں کرتی ہیں ۔ آپ کی کلائیوں میں چوڑیاں کس لیے ہیں ؟ عجیب سا سوال تھا۔ میں نے کہا ہر عورت کو بناو سنگھار پسند ہوتا ہے ۔ اس کی فطرت ہے۔ وہ مسکرائی فطرت نہیں ہے ،سب سکھائی ہوئی فضول باتیں ہیں ۔ نسل در نسل دی گئی غلامی۔ شاہد آپ کو پتہ نہ ہو لیکن میں آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہوں کہ یہ جودلہن کو ناک میں زیور ڈالا جاتا ہے بلکل اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی جانور کے ناک میں نکیل ۔

میں نے فوراً کہا ایسا نہیں ہے، یہ تو محض کلچر ہے،آپ بناو سنگھار کے خلاف ہیں ۔ میں نے غیر دانستہ طور پر سوال کر دیا ۔ اس نے بہت طمانت سے کہا۔ بہت عرصہ تک میں بناو سنکھار کی دیوانی رہی ہوں ۔ شاہد ہی کوئی دن گزرا ہو ۔جب میں نے بناو سنگھار نہ کیا ہو۔مگر اپنے تجربات نے مجھے سکھایا ہے کہ ہر بناوٹ انسان کو اس کی اصل سے دور لے جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم زندگی کے پنجرے میں اس طرح سے قید ہوتے ہیں کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا کہ ہمیں آزادی نصیب ہو۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آئیں ۔ زندگی کے پنجرے سے کیا مراد ہے۔ اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔ کبھی کبھی ہم زندگی میں جس چیز کو سب سے ذیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہی ہماری شروعات ہوتی ہے ۔ ہماری بلندی کی وجہ بنتی ہے۔ ہمیں اس اطمینان تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے ،جو کبھی نارمل حالات میں ہماری نگاہ تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔

اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر روکی اور مجھے آگے آنے کو کہا۔پہلے تو میں کچھ ہچکجاہٹ کا شکار ہوئی لیکن پھر دل میں آیا کہ یہ بھی تو عورت ہی ہے آگے بیٹھنے میں کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں ۔ میں جب آگے بیٹھی ۔ تو اس نے مجھ سے کہا،اگر میری جگہ یہاں کوئی آدمی ہوتا تو نہ ہی آپ اس سے بات کرتی اور نہ ہی آپ اس طرح آگے آکر بیٹھتی ۔میں بھی ایسی ہی تھی۔ شاہد ہمارے ہاں ہی عورتوں کی اسی طرح تربیت کی جاتی ہے۔ہم اپنے آپ کو ایسے بچا بچا کر رکھتے ہیں جیسے کوئی ضیعف آدمی اپنے سفید کفن کو ،کہیں اس پر کوئی داغ نہ لگ جائے۔ اس کے چہرے پر تمسخر خیز ہنسی تھی۔ پھر ہماری شادی ہو جاتی ہے۔ میری بھی ہو گی۔ میں بہت خوش مزاج تھی، میرے شوہر وقار بھی ، شوہر نہیں ،وہ میرے دوست تھے یا پھر سب کچھ ۔ شادی کے تین سال بعد ہمارا بیٹا پیدا ہوا ،ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ میں اب دوبارہ ماں نہیں بن سکوں گی۔ میرا بیٹا بہت پیارا تھا۔

ہم بہترین حالات میں کبھی بھی بدترین حالات کا نہیں سوچتے ۔ ہمارے ہاں عورتیں اپنا آپ ایمانداری سے اپنے شوہر اور بچوں پر لٹاتی ہیں ۔ بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگتی ، مانگیں بھی کیسے ،شروع سے دماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ حوا کو آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ۔ جب کہ آدم تو اپنے آپ میں مکمل تھا۔ وہ حوا کے لیے نہیں تھا۔ ہمارے سماج میں عورت کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا،وہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پوری زندگی وہ دوسروں کے لیے اپنا آپ بغیر کسی سیکورٹی کے امید کے تحت دیتی ہے۔

محبت امید پر ہی تو کی جاتی ہے ۔ شادی کے بعد ذیادہ تر عورتوں کی زندگی کا مقصد شوہر کی خوشی ہی تو ہوتا ہےاور بس۔ وہ کیا چاہتی تھی ،وہ کیا چاہتی ہیں ؟یہ سوچنے کا نہ وقت ہوتا ہے نہ ضرورت ۔ شادی کے بیس سال میں مجھے بھی یہ ضرورت پیش نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے میں تو سب کچھ اپنے شوہر کی نظر سے دیکھتی ،وہ خوش تو میں خوش ، اکثر وقار مجھ سے کہتے کہ ہمارے اور بچے ہوتے ۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ان کی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے دس بچے پیدا کرنے کو تیار ہو جاتی۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ مجھے افسوس تو ہوتا لیکن میں انہیں تسلی دیتی کہ ہے نا ہمارا بیٹا ۔ شادی کے بیس سا ل بعد انہوں نے دوسری شادی کی خواہش ظاہر کی۔ ہمارے سماج اور مذہب سے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ میرا بیٹا بھی اپنے باپ کا حمائتی بن گیا۔میں کسی صورت تیار نہ تھی کہ اپنی محبت کو بانٹتی ، میرے شوہر نے مجھے سمجھانے کے لیے کہا کہ مذہب اس کی مجھے اجاذت دیتا ہے ۔ میں نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔ میں ایسا مذہب چھوڑتی ہوں ۔ جو مجھ سے تو پوری ایمانداری سے ایک ہی آدمی سے وفا کا تقاضا کرتا ہے اور آدمی کو بے وفائی کی اجاذت دیتا ہے۔ میرے شوہر نے کہا ہمارے سماج میں آدمی ایسا کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا میں ایسے تمام آدمیوں پر لعنت بھیجتی ہوں ۔ میں نے اپنے شوہر کو اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اگر وہ مجھ سے بے وفائی کرے گا تو میں بھی وفادار نہیں رہوں گی۔ مگر اس نے اسے ایک دھمکی ہی سمجھا ۔ میرے بیٹے نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا، مما آپ کرنے دیں نا پاپا کو شادی ، وہ ہمیں تو ہمارا حق دینے کو تیار ہیں نا۔ ہمیں ان کی خوشی کا خیال رکھنا چاہیے۔ میں نے اس نے گِرتے ہوئے آنسووں میں کہا۔ اور میری خوشی۔

اس نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔ مما سب کچھ تو ہے نا۔ آپ کو کیا چاہیے۔ میں نے اس سے کہا اگر میں تمہارے باپ سے تمام تعلق ختم کر دوں تو کیا تم میرے ساتھ چلو گئے ۔ اس نے کہا۔ مما آپ پاگل ہو گئی ہیں کیا ۔ پاپا کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ہم ، کہاں رہیں گئے ہم؟ابھی آپ پریشان ہیں ،کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جس دن وقار کی شادی تھی اس دن اپنے ہاتھوں سے اپنے بال کاٹ دیے میں نے۔ اس دن میں مر گئی۔ انسان تب نہیں مرتا جب روح جسم سے نکلتی ہے، انسان تب مرتا ہے جب اسے ذلیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عورت کی عزت محض اس کے جسم میں قید سمجھی جاتی ہے۔ ہماری اقدار نے ہمیں غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ میں نے بھی چالیس سال تک نقاب کیا ہے۔ روح مرد یا عورت نہیں ہوتی ،روح کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔ ہر روح باوقار ہے۔ ہمیں مذہب اور سماج کے دائروں سے نکل کر بھی سوچنا چاہیے۔ کاش کہ میں پہلے سوچ پاتی کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ میری خواہشات کیا ہیں تو میں کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنتی۔میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
گاڑی چل رہی تھی مگر میں نے عجیب سا سکوت محسوس کیا۔

دل ہی دل میں خیال آیا کہ کیا اس عورت کا بیٹا عقل مند تھا جس نے حالات کے تحت فیصلہ کیا۔ کیا یہ عورت بے وقوف تھی؟ مجھے سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر اس عورت نے انتہائی اطمینا ن سے کہا۔تم یہ ہی سوچ رہی ہو گی کہ ہمارے معاشرے میں مرد دوسری شادی کرتے ہیں کوئی بڑی بات تو نہیں تھی ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب عورتوں کو احساس ہو جائے گا کہ انہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ مذہب کے نام پر۔ احساس کے نام پر، بچوں کے نام پر ، ان سے ان کے وجود کو چھینا جا رہا ہے۔ ایک بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے ،کیوں کہ وہ صدیوں سے ہو رہا ہے تو سب کو ایک عام سی بات لگتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کچھ جھوٹ بول دیے جاتے ہیں اور وہ اس قدر وسع پیمانے پر بولے جاتے ہیں کہ انہیں ہر کوئی سچ سمجھنے لگتا ہے۔

مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے کہا بے شک شوہر کی دوسری شادی کسی بھی عورت کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن آپ یہ بھی تو سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تعداد مردوں سے ذیادہ بنائی ہے۔ عورتوں کو سہارا چاہیے۔ اگر سب آدمی ایک ہی شادی کریں گئے تو ان عورتوں کا سہارا کون بنے گا جن ۔ اس نے میری بات درمیان ہی سے اچک لی ۔ وہ ہنسی اور اس کا لہجہ تمسخر خیز تھا۔ اس نے کاٹتے ہوئے لہجے سے کہا؟ یہ کسی نے کہا ہے کہ عورت کو مرد کاسہارا چاہیے۔ آج کون سی ایسی فیلڈ ہے جس میں عورت نہیں ہے۔ عورت کا اپنے آپ کو سمجھ جانا اور اس بے چارگی سے نکل جانا کہ وہ مرد کے سہارے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ،ہماری مردانہ سوسائٹی کے مفاد کے خلاف ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے لازمی ہے،عورت ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ اس کی عزت اس کے جسم میں ہے ،جب کہ مرد کی عزت کہاں ہے اور کیا ہے کہ اس کے سوچنے کے دائرہ کار سے پرے ہیں ۔اس نے جو آخری باتیں کہی، وہ یہ تھی کہ درست نئے نظریات جب دیے جاتے ہیں لوگ ان سے بدکتے ہیں ،ماننے سے انکار کر تے ہیں مگر سچائی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ اصل زنجیر دماغ کو لگائی جاتی ہے ،عورت ظاہر سے جس دن نکلے گی ،وہ بھی مرد کی طرح کاجل لگانا چھوڑ دے گی۔ اس دن وہ چیز نہیں رہے گی۔ انسان بن جائے گی۔اس دن شاہد کہ وہ بھی جینے لگے۔ میں بھی ایک عمر اسی میں لگی رہی کہ خوبصورت لگوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر نفس خوبصورت ہے۔ زندگی خوبصورت ہے ۔

ایرپورٹ آ چکا تھا۔۔اس کی باتیں ہضم کرنا کافی حد تک مشکل تھا یا پھر میں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس کی یہ بات تو ٹھیک تھی کہ انسان بہترین حالات میں بدترین حالات کی نہیں سوچتا۔ باقی اس کی کون سی باتیں درست تھیں اور کون سی غلط یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں ۔

مجھے لگا کہ صدمہ نے واقعی اس کے دماغ پر بُرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ میں اس کے نظریات اور خیالات کو من و عن پیش کرنے کا وعدہ کر چکی تھی سو میں مجبور تھی۔ یہ کہانی لکھنے کے بعد ایک غزل جو میرے دماغ میں بن رہی ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔

تخلیق کے بعد خلقت کو رب نے نوازنے کا سوچا
مرد و زن ہر دو کو موقع ملا کہ مانگ لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد کو عورت سے ملے گا وہ اور عورت کو مرد سے
یوں رب نے جوڑ دیا فرد کا رشتہ فرد سے
۔۔۔۔۔
عورت جو حیا کا پیکر تھی ،مانگتے ہوئے لجا گئی
وہ جو اس کے دل میں تھا کہتے ہوئے شرما گئی
فرشتے نے جب صدا لگائی مانگ جو مانگنا ہے مانگ
دل کے اندر اپنے اے عورت رب کہتا ہے جھانک
۔۔۔۔۔۔۔
عورت دیر تک سوچتی رہی اور پھر مسکرا دی نہ بولی
فرشتے حیران تھے کیوں اس نے اپنی زبان نہ کھولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا ایک فرشتے نے کیا وہ محبت ہے؟
جو مسرور کرتی ہے،دلوں میں رنگ بھرتی ہے
وفا کے موتی دیتی ہے،خوشی کو سنگ کرتی ہے
کیا تو چاہتی ہے ،رب تجھ کو مرد سے بس دلا دے وہ
اسے تجھ سے محبت ہے ،وجود سے چھلکا دے وہ
وہ کہتا پھرے تجھ سے تجھ پر وہ مرتا ہے
ہر پل یقین دلاتا رہے محبت تجھ سے کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت پھر سے مسکرا دی ،مگر نہ جواب دیا کچھ بھی
فرشتے حیران تھے آخر کہ دل میں کیا ہے اس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرشتے نے کہا ،کیا تیری چاہت دولت ہے؟
آرام ہو ،سکون ہو تجھ کو۔ کبھی کوئی غم نہ دیکھے
جینا کس کو کہتے ہیں مرد بھی تجھ سے سیکھے
دولت اتنی کہ تجھے محل ملے تو رانی ہو
سب سے دل پذیر تیری زندگی کی کہانی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت پھر مسکرائی اور نظروں کو جھکا ڈالا
راز دل کا دل ہی میں اس نے دبا ڈالا
بتاہی نہیں پائی تو ملنا بھی راز ہی ٹھہرا
کوئی نہیں جانتا کہ اس کا مدعا کیا تھا
وہ خود بھول گئی دنیا میں آ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے مانگنا اے خدا کیا تھا؟اسے مانگنا ہے خدا کیا تھا؟
وہ عزت تھی ،وہ عزت تھی۔وہ عزت تھی۔وہ۔۔۔۔..

11/11/2018

++ اولاد اور مال و زر ۔۔۔۔۔۔

اپنی عاقبت کے لیے صدقہ ضرور کریں

اولاد اللہ کریم کا ایک بہترین تحفہ ہے۔ بیٹے کی صورت میں نعمت کہا گیا ہے اور بیٹی کورحمت ۔ انسان کا اشرف المخلوقات بننا اور اللہ تعالیٰ کا روئے زمین پر انسانی آبادی کا پھیلانا یہ بھی اللہ کریم کے رازوں میں ایک راز ہے ، اس راز کورب العزت ہی بہتر جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جوڑے بنائے اور پھر ادلاد سے نوازنا ایک خاص فضل ہے۔

بچہ بڑا ہوتا ہے، بلوغت کی طرف قدم بڑھانا شرو ع کرتا ہے۔ ماں باپ انگلی سے چلانا سکھاتا ہے۔ پھر وہ خود بخود چلنے لگتا ہے۔ سکول سے ہوتا ہوا کالج اور کالج سے ہوتا ہوا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کے کیرئر کا آغاز کرتا ہے۔ ان مختصر دو لائن میں زندگی مکمل ہو گئی۔ لیکن بچپن سے لے کر یونیورسٹی تک کیا بیتی، کیا کھویا اور کیا پایا والدین سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ والد اس کے بہتر مستقبل کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے پروان چڑھاتا ہے۔ ماں سردی کی سنگلاخ راتوں میں خود گیلی جگہ پر سو جاتی ہے اور اپنی اولاد کو خشک اور گرم جگہ پر سلا دیتی ہے۔ اپنا خون پلاتی ہے۔ کھانے کا وقت آئے تو کہتی ہے مجھے بھوک نہیں بیٹا آپ ہی کھا لو۔

ماں گھر میں پڑے ہوئے تین سیب پلیٹ میں لاتی ہے۔ تینوں بیٹوں کو ایک ایک دے دیتی ہے۔ ایک بیٹا پوچھتا ہے کہ ماں جی آپ نے نہیں لیا۔۔۔ ماں کی محبت قربان ہو جاتی ہے وہ کہتی ہے کہ مجھے سیب پسند نہیں۔

باپ دن رات کرکے گھر کا کچن چلاتا ہے۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرتا ہے ۔ سارا نفع گھر میں لاتا ہے۔ عید آتی ہے۔ اپنے بچوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر تے ہوئے بچوں کو کپڑے اور جوتے خرید کر دیتا ہے۔ بچوں کے چہر ے پر مسکراہٹ دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے۔ ایک بیٹا پوچھتا ہے کہ اباجی آپ بھی جوتا خرید لیں۔ باپ مسکرا کر یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے بیٹا پچھلی عید پر ہی تو نیا خریدا تھا ، پالش کروں گا تو چمک جائے گا۔ اصل عید تو میرے بچوں کی ہے۔

باپ کو کاروبار میں منافع ہوتا ہے۔ کاروبار بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ دن رات دبے گزرتے جار ہے ہیں ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کے مارکیٹ میں ایک اچھے اور پر اعتماد نام سے پہچان ہونے لگتی ہے۔ چیک پر بڑی بڑی خریدو فروخت شروع ہوگئی۔ وقت کو پَرلگ گئے تیزی سے گزرتا گیا ۔ دولت کی ریل پیل شروع ہو جاتی ہے۔ باپ بیمار ہو جاتا ہے۔ علاج معالجہ کروایا جاتا ہے لیکن وہ سب بے سود نکلتا ہے۔

ایک دن ایسا آتا ہے کہ باپ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ تمام کاروباری لوگوں کو اس کی موت کی اطلاع ہو جاتی ہے۔ مارکیٹ میں ایک نام تھا کچھ لوگ دنیا داری اور کچھ لوگ دین کے لیے آنا شروع ہو گئے۔ اس میں کچھ کاروباری حضرات بھی تھے جنہوں نے مرحوم سے کچھ لینا تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے کچھ دینا بھی تھا۔

میت کو غسل دیا جاتا ہے ، کفن پہنا کر خوشبو لگا کر ، گلاب کے پھول کی تروتازہ پتیاں اوپر ڈال کر جنازگاہ میں لا یا جاتا ہے۔نماز جنازہ کے لیے صف بندی ہوتی ہے ، مولوی صاحب جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے اور تمام لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرحوم نے ایک عرصہ دنیا میں زندگی گزاری ہے کہا سنا معاف کرو تاکہ اس کا آخری سفر آسان ہو جائے۔ اگر مرحوم کا کوئی لین دین ہے اس کے بیٹے موجود ہیں جنازے کے بعد یا مناسب موقع پر مرحوم کے بیٹوں سے لین دین کلیئر کر لیا جائے ۔اتنے میں ایک آدمی صفیں توڑتا ہوا ہے جنازے کے پاس جاکھڑا ہوا ہے کہتا ہے کہ مرحوم کے دستخط شدہ یہ چیک ہیں ان کی ادائیگی کی جائے پھر جنازہ پڑھتے ہیں۔ اچانک تمام نمازیوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ مولوی صاحب نے مرحوم کے بیٹوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا بھئی ان کا حساب کلیئر کیا جائے۔

تو سنیئے! میں قربان جاؤں ایسے بیٹوں پر جن کے لیے مرحوم نے اپنا من تن دھن سب لوٹا دیا اور آج کروڑوں کی جائیداد اور بنک بیلنس چھوڑ کر دنیا ئے فانی سے رخصت ہو رہا ہے۔ آخری دیدار کا وقت ہے۔ بیٹے آگے بڑھتے ہیں ، اس بیوپاری سے کہتے ہیں ایمبولنس ہم کروا دیتے ہیں میت کو ساتھ لے جائیں اور جنازہ بھی وہاں پڑھا لیں اور وہی کفن دفن بھی کر دینا۔ کیونکہ آپ کا لین مرحوم کے ساتھ تھا لہذا ہمارا آپ سے کوئی لین دین نہیں ہے۔

تو دوستو! بتائیے یہ سب کیا اور کیوں کر ہوا۔ مرحوم نے جو دولت کمائی وہ جائز تھی یا ناجائز منافع خوری تھی یہ سب پروردگار ہی بہتر جانتا ہے لیکن جس ا ولاد کے لیے اتنا بڑا کاروبار ، جائیداد ، بنک بیلنس چھوڑا وہ کس کام آیا۔ بہت کا ذکر آتا ہے کہ اولاد ، مال و دولت انسان کے لیے فتنہ اور آزمائش بھی ہے۔

اسی طرح کا ایک اور و اقع اسی ہفتے ویڈیوکلپ دیکھنے کا موقع ملا جس میں باپ کا ایک اکلوتا بیٹا ہے۔ باپ کا ،70,80 کروڑ کا بزنس ہے ۔لیکن اکلوتے بیٹے نے تھپڑ مار کر گھر سے نکال دیا ہے اور آج وہ باپ بے بسی کے عالم میں لاہور کے پارک میں درختوں کے نیچے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔

ایک دن میں اپنے جاننے والے کے پاس بیٹھا تھا ، باتوں باتوں میں بات نکلی میں نے اس ارب پتی صاحب سے کہا کہ اگر آپ یہ وصیت کر جائیں کہ جو ڈرائنگ روم میں فلاں ٹائل لگی ہوئی ہے میرے مرنے کے بعد اس ٹائل کو کتبہ بنا پر میری قبر پر لگا دینا ، تو کیا خیال ہے آپ کی اولاد ایسا کرے گی۔ اس نے کہا نہیں ۔ پھر میں نے کہا سر اس دولت کا کیا فائدہ ۔ اس کو غریبوں کی بھلائی کے لیے بکھیر دو ایسا نہ ہو کل وبال جان بن جائے۔

اس آرٹیکل تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی اولاد اور مال و زر اس حدتک رکھو جو بوقت ضرورت آپ کا سہارا بن جائے ، ورنہ یہ دولت بنک ہی استعمال کرتا ہے ۔ آپ کو صر ف ذہنی سکون ہے کہ میرے پاس اتنا بڑا بنک بیلنس ہے۔ لیکن اس رقم کو استعمال بنک ہی کر رہا ہے ،اس سے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت اور معاشرہ کی تربیت پر خرچ کرو جاؤ تاکہ معاشرہ اولاد سے بہتر بن کر آپ کی تدفین کر سکے ۔ اولاد کی اچھی تربیت ہو گی تو آپ کو سکون ہو گا۔ اس تحریر کو بغور پڑھنے کے بعد ذرا سوچیں کہیں ہم بھی تو ایسا نہیں کر رہے کہ میری تدفین بھی کوئی محلہ دار ہی کریں ۔جاتے جاتے زندگی میں حقوق العباد کا بول بالا کر جائیں کیونکہ دولت آپ کی سانسیں بند ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی ۔ لیکن آپ کے نیک اعمال ہی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جو آپ نے کھا لیا ، جو پہن لیا یا جو اپنے ہاتھ سے کسی کو صدقہ یا تحفہ سمجھ کر دے دیا وہی آپ کا ہے باقی سب بیگانہ ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق فرمائے آمین۔ ثم آمین۔

Address

Ghoriwala Bannu
Bannu
28330

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shairy Sad Romantic pictures posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category



You may also like