12/09/2025
انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بنوں کے علاقے خوجڑی سے تعلق رکھنے والے 22 پاکستانی لاپتہ ہیں، لیکن آج تک نہ صوبائی حکومت نے کوئی واضح قدم اٹھایا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے ان کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کیے یہ صورتحال ہمارے نظام کی بے حسی اور انسانی جان کی بے قدری کو بے نقاب کرتی ہے۔
یہ 23 پاکستانی ماہی گیر سمندر میں رزق کی تلاش میں نکلے تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ سمندر کی بے رحم موجیں ہمیں بہا لے جائے گی،کشتی میں آگ لگنے کی صورت میں سمندر میں چھلانگیں لگا لی 23 میں سے ایک ماہی گیر عمان کی سمندری حدود میں اب تک زندہ سلامت بچ گیا ہے باقی تاحال لاپتہ ہے ،
یہ 22 لوگ محض نام یا گنتی کے نمبر نہیں تھے، یہ انسان تھے،کسی کے بیٹے، کسی کے بھائی، کسی کے والد،ان کے خواب، ان کی زندگی، سب کچھ اچانک خاموش ہو گیا اور ان کے گھرانے کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں ہر گھر میں ماتم بنا ہوا ہے ماں اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے ،کسی کے بچے والد کی آواز سننے کو ترس گئے ، ان میں دو بھائی سمیت ایک خاندان کے ساتھ افراد بھی شامل ہے ،واقعے کو رونما ہوئے چھ دن ہو گئے ،لیکن افسوس کہ ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے بڑے میڈیا چینلز، جو ہر چھوٹی سے چھوٹی سیاسی ہلچل پر گھنٹوں پروگرام کرتے ہیں، اس سنگین انسانی المیے پر ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کیا ان 22 جانوں کی اہمیت صرف اس لیے کم ہے کہ وہ عام لوگ تھے اور ان کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے تھا؟یہ سوال صرف حکومتوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کے لیے ہے۔ انسانی حقوق کے نمائندے اور تنظیمیں کہاں ہیں؟ کیا ان کی ذمہ داری صرف بین الاقوامی کانفرنسوں اور رپورٹوں تک محدود ہے؟ اگر 22 انسان ایک ہی علاقے سے لاپتہ ہو جائیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خاموش رہیں تو پھر وہ نمائندگی کس کی کر رہی ہیں؟یہ وقت ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے نمائندے بھی آگے بڑھیں، لاپتہ افراد کی تلاش میں اپنا کردار ادا کرے۔
مختلف سیاسی شخصیات نے آواز اٹھا نے کی کوشش کی لیکن افسوس ان کی بھی نہیں سنی جا رہی ہے
یہ المیہ صرف خوجڑی یا بنوں کے لوگوں کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے، کوئی کس طرح بائیس افراد کی گمشدگی پر خاموش رہ سکتا ہے ۔اس واقع کیلئے ہر سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ،ہم سب کو چاہیے کہ متحد ہو کر آواز بلند کریں، تاکہ حکومت، میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اپنی غفلت سے جاگیں اور ان 22 جانوں کی تلاش میں سنجیدہ قدم اٹھائیں۔