Amroz News

Amroz News Everybody who visit, like, and join my page and than who get reliable knowledge, information ... Provide quality of knowledge , Information and Reliable News

*_ایک جاپانی کہاوت ھے جب کوئی درخت گرانا ہو تو اس کو کاٹتے نہیں اس کو نظرانداز کر دیتے ہیــــــــں، اس کے سامنے دوسرے در...
22/01/2025

*_ایک جاپانی کہاوت ھے جب کوئی درخت گرانا ہو تو اس کو کاٹتے نہیں اس کو نظرانداز کر دیتے ہیــــــــں، اس کے سامنے دوسرے درختوں کو پانی دیتے ہیــــــــں دیکھ بھال کرتے ہیــــــــں اور اس درخت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیــــــــں اور وہ درخت اپنے آپ مرجھا جاتا ھے پھر اس کو گھن لگ جات ھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ختم ہو جاتا ھے_*

```غور کیجئے یہ رویہ بھی ہمارا ان رشتوں کے ساتھ بھی ھے ،جن کو پہلے ہم توجہ دیتے ہیــــــــں انکی افزائش کرتے ہیــــــــں۔ اور جب ان سے جان چھڑانی ہو ان کو نظر انداز کر دیتے ہیــــــــں اس طرح وہ رشتے بھی دھیرے دھیرے موت کے اس منہ میں پہنچ جاتے ہیں جہاں زندہ اور مردہ برابر ہوتے ہیں.```

ہائی بلڈپریشر معتدل رکھنے کی چار کنجیاں!(۱)…Low sodium diet (کم سوڈیم والی خوراک)(۲)…High potassium diet (زیادہ پوٹاشیم ...
18/01/2025

ہائی بلڈپریشر معتدل رکھنے کی چار کنجیاں!

(۱)…Low sodium diet (کم سوڈیم والی خوراک)
(۲)…High potassium diet (زیادہ پوٹاشیم والی غذا)
(۳)…Increased physical activity (زیادہ فعال زندگی)
(۴)…Weight reduction (وزن کم رکھنا)
یہ ہیں ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی کنجیاں!

یہ نہ صرف بلڈ پریشر بلکہ شوگر، کولیسٹرول، جگر کی چربی (fatty liver)، پولی سیسٹک اووری سنڈروم (PCOS) اور ان سب سے مل کر ہونے والے میٹابولک سنڈروم کے لیے بھی پہلا دفاع ہے۔
اس پر عمل کرکے اِن سب سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں جیسے ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیلئیر، فالج اور گردوں کے فیل ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔

عام طور پر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ انسان آخر کیا کرے بے بس ہے۔ مختلف فکروں اور مسائل کے ہوتے ہوئے، مستقبل کے خدشات اور اندیشے،گھریلو جھگڑے، تیز ترین زندگی کا ساتھ دیتے ہوئے آخر بلڈپریشر کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟
جواباً عرض ہے کہ جو احتیاطی تدابیر بتائی ہیں اُن پر عمل کیجیے۔ روزانہ ورزش اتنی ضرور ہو کہ آپ کا خوب پسینہ بہے۔ منفی سوچوں کو دماغ سے جھٹکنے کے عادت بنائیں۔ ابتدا میں محنت کرنا پڑے گی لیکن پھر یہ چیزیں آپ کی عادت بن جائیں گی۔ ورزش کے دوران میں ہیپی ہارمونز (happy hormones) کا اخراج بلڈپریشر اور دل کی دھڑکن کو نارمل کرتا ہے اور آپ کا موڈ خوشگوار ہو جاتا ہے۔
جسمانی طور پر مضبوط اور صحت مندانسان ذہنی دباؤ اور تناؤ سے بہتر طور پر نمٹتا ہے اور یوں اس کی ذہنی صحت بھی قابلِ رشک ہوتی جاتی ہے۔

سو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خوردنی نمک (سوڈیم کلورائیڈ) آپ کا دشمن ہے۔ مان لیجیے کہ ہائی بلڈپریشر والوں کے لیے نمک زہر سے کم نہیں۔
اگر آپ ورزش باقاعدگی سے کرتے ہیں اور’’لو سوڈیم ڈائٹ‘‘ کے لیے کھانے میں نمک بھی کم ڈالتے ہیں مگر آپ کی خوراک ایسی ہے جس میں قدرتی نمک زیادہ ہوتا ہے، جو شوگر اور ہائی کولیسٹرول یا موٹاپے کے لیے بھی ٹھیک نہیں، جیسے آپ کو چاول بہت پسند ہیں، گوشت بھی اور تلی ہوئی اشیاء بھی تو تب بھی آپ دراصل ضرورت سے زیادہ سوڈیم لے رہے ہوتے ہیں۔
پوٹاشیم زیادہ والی خوراک پر بھی عمل نہیں ہو پاتا، ایسی صورت میں آپ خوراک میں کمی سے وزن کچھ کم کر بھی لیں تب بھی ہائی بلڈ پریشر نارمل نہیں ہوگا

(کھانے میں سے نمک نکال دیں ۔ لو سوڈیم بن جائے گی
کیلے اجناس و دالیں۔لیموں پالک ڈرائی فروٹس خصوصا خشک خوبانی اور کشمش ۔۔۔۔یہ سب ہائی پوٹاشیم ڈائٹ ہیں)

یاد رکھیے کہ سالٹ سینسٹو ہائپرٹینشن (نمک سے بی پی کا بڑھنا) والے کے لیے نمک زہر ہے، بالکل جیسے ذیابیطس والے کے لیے چینی زہر ہے۔ زیرو سالٹ(سالٹ بالکل نہ لینا) ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
دراصل ہمیں بچپن ہی سے پھیکا کھانے کی عادت نہیں ہوتی، سو ہمیں نمک چھوڑنا بہت مشکل لگتا ہے لیکن اگر کھانے کا ذائقہ مرچ مصالحوں سے بہترین بنا لیا جائے، آئل فری یا محض آئل برشنگ کے زریعے کھانا اچھی طرح پکا لیا جائے تو بس پہلا ایک ہفتہ مشکل لگتا ہے کہ کھاتے ہوئے نمک یاد آتا ہے لیکن اس کے بعد جسم اس کا عادی ہوجاتا ہے اور زبان نئے ذائقے کی عادی ہو جاتی ہے، پھر کھانے پھیکے بھی نہیں لگتے۔

اچھا ایک اور اہم بات یہ کہ پریزرویٹو والے کھانوں کا استعمال بھی بالکل چھوڑ دیں۔ اُن میں سوڈیم بینزوایٹ(Sodium Benzoate) ہوتا ہے۔ یہ بھی سوڈیم کمپاؤنڈ ہے اور بے شک ذائقے میں نمک محسوس نہ ہو تب بھی بی پی بڑھا سکتا ہے۔ آپ نے صرف سوڈیم کلورائیڈ نہیں چھوڑنا، بلکہ ہر طرح کے سوڈیم سے بچنا ہے۔

نمک چھوڑنا اس لیے بھی مشکل لگتا ہے کہ چٹخارے کی عادت ہماری گھٹی میں پڑی ہوتی ہے، لیکن آپ ترکش، لیبیا اور ایرانی، کورین کھانوں کو دیکھیں تو اُن میں نمک یا تو ہوتا ہی نہیں یا بے حد معمولی ہوتا ہے۔ تیل بھی بس اسپرے یا آئل برش کے ذریعے لگایا جاتا ہے اور آگ پر باربی کیو کر لیا جاتا ہے ۔ وہ لوگ زندہ بھی رہتے ہیں اور صحت مند بھی ہوتے ہیں، سو ہمیں اپنی زبان کا ذائقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ورزش کرنا اور پرہیز کرنا پختہ عزم کا مرہون منت ہے۔ کچے پکے ارادے اور ڈھیلی ڈھالی طبیعت کا بندہ ایسا کر نہیں پاتا تو ادویات کا سہارا لیتا ہے۔
ہماری قوم عادتاً ورزش سے دور بھاگتی ہے لیکن یقین کیجیے کہ جب آپ باقاعدگی سے ورزش کرنے لگتے ہیں تو کچھ ہی دنوں میں ورزش اور جسمانی فعالیت سے آپ کو خوشی ملنے لگتی ہے، پھر زندگی کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں ورزش کا وقت آپ کے لیے دن کا وہ حصہ بن جائے گا جس کا آپ انتظار کیا کریں گے۔

ادویات پرہیز اور ورزش کے بعد یا ساتھ لی جائیں، لیکن صرف ادویات سے ہائی بی پی کنٹرول کرنے کی خواہش دیوانے کا خواب ہے!
٭٭٭
تحریر:محمداظہرشیخ

190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزاعمران خان اور بشری بی بی کے ...
17/01/2025

190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا
عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ جج ناصر جاوید رانا نے اڈیالہ جیل میں سنایا۔
فیصلے کے لیے عمران خان کو اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ بشریٰ بی بی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر بھی جیل پہنچے، اس کے علاوہ شعیب شاہین، سلمان اکرم راجہ اور دیگر وکلا بھی اڈیالا جیل میں موجود تھے۔
اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اندر اور باہر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظا مات کیے گئے ہیں، امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں کے علاوہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ یونیورسٹی سے جڑے 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس کی سماعت ایک سال میں مکمل ہوئی، اس دوران کیس کی 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔
عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا اور فیصلہ سنانے کے لیے 23 دسمبر کی تاریخ مقرر کی تھی تاہم 23 دسمبر کو کیس کا فیصلہ نہ سنایا جا سکا اور فیصلہ سنانے کے لیے دوسری تاریخ 6 جنوری 2025 مقرر کی گئی، پھر 6 جنوری کی تاریخ بھی مؤخر کر دی گئی اور 13 جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی لیکن کیس کا فیصلہ اس روز بھی نہ سنایا جا سکتا اور پھر عدالت نے 17 جنوری کو کیس کی تاریخ مقرر کی۔
الزام ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے خفیہ معاہدے کو اپنے اثر و رسوخ سے وفاقی کابینہ میں منظور کرایا، سابق مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے 6 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کی رازداری ڈیڈ پر دستخط کیے جبکہ بشریٰ بی بی پر بانی پی ٹی آئی کی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔

*ایک بیج بغیر آواز کے باہر نکلتا ہے لیکن ایک درخت زبردست آواز کے ساتھ زمین پر گرتا ہے، تباہی آواز رکھتی ہے اور تخلیق خام...
16/01/2025

*ایک بیج بغیر آواز کے باہر نکلتا ہے لیکن ایک درخت زبردست آواز کے ساتھ زمین پر گرتا ہے، تباہی آواز رکھتی ہے اور تخلیق خاموشی، یہ خاموشی کی طاقت ہے، خاموشی سے جیئیں*

*راستے دکھائی نہیں دے رہے یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ آپکا یقین ہو کہ میرا اللّٰہ راستے بنانے پر قادر ہے اور وہ ضرور را...
16/01/2025

*راستے دکھائی نہیں دے رہے یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ آپکا یقین ہو کہ میرا اللّٰہ راستے بنانے پر قادر ہے اور وہ ضرور راستے بنائے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔*

*اشرافیہ کی عیاشیاں جاری* ایف بی آر کا 1010 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہایف بی آر نے اپنے افسران کیلئے 1010 ہنڈا سٹی گاڑیا...
16/01/2025

*اشرافیہ کی عیاشیاں جاری*

ایف بی آر کا 1010 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ

ایف بی آر نے اپنے افسران کیلئے 1010 ہنڈا سٹی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مراسلہ کے مطابق نئی خریدی جانے والی 1010 گاڑیوں کا تخمینہ لاگت 6 ارب روپے سے زیادہ ہو گا، گاڑیوں کی خریداری 2 مراحل میں ہو گی، تمام رقم ایف بی آر فراہم کرے گا۔ یہی وہی رقم ہے۔ جو آپ کے اور میرے بچوں کا حق مار کر اشرافیہ اپنی عیاشیاں پوری کرے گا۔

‏یہ معلومات واقعی بہت مفید ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے۔ ہر ٹائر کی رفتار کی حد ہوتی ہے اور اس کی ایک مدتِ معیاد بھی...
14/01/2025

‏یہ معلومات واقعی بہت مفید ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے۔
ہر ٹائر کی رفتار کی حد ہوتی ہے اور اس کی ایک مدتِ معیاد بھی ہوتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔ یہ معلومات ٹائر کی دیوار پر درج ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، اگر آپ کو ٹائر پر "1423" لکھا ہوا ملے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ٹائر سال 2023 کے چودھویں ہفتے میں بنایا گیا ہے۔
ٹائر کی معیاد عام طور پر 2 سے 4 سال ہوتی ہے، اس کے بعد اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔

ہر ٹائر کی رفتار کی ایک حد ہوتی ہے جو ایک حرف سے ظاہر ہوتی ہے:

حرف "L" کا مطلب ہے کہ ٹائر کی زیادہ سے زیادہ رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

حرف "M" کا مطلب ہے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "N" کا مطلب ہے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "P" کا مطلب ہے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "Q" کا مطلب ہے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "R" کا مطلب ہے 170 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

اور حرف "H" کا مطلب ہے کہ ٹائر 210 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار برداشت کر سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر ٹائر تیز رفتاری کے دوران پھٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہ مقررہ رفتار سے زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
لہٰذا، ہمیشہ اپنے ٹائر پر درج حرف چیک کریں اور رفتار کا خیال رکھیں تاکہ آپ حادثے سے بچ سکے

12/01/2025
پاکستان نوٹ چھاپ کر غربت کیوں نہیں ختم کر دیتا؟اکثر یہ بحث ہو رہی تھی کہ ہر پاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہے اور اس بوجھ...
10/01/2025

پاکستان نوٹ چھاپ کر غربت کیوں نہیں ختم کر دیتا؟

اکثر یہ بحث ہو رہی تھی کہ ہر پاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہے اور اس بوجھ میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو سٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر عالمی اداروں اور ملکوں کے منہ پر کیوں نہیں دے مارتا؟

ایک جگہ پڑھا کہ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ آئندہ انتخابات سے پہلے پہلے میں اپنی پارٹی بناؤں گا، جس کا منشور ہو گا کہ میں اقتدار میں آتے ہی پہلے ہفتے ملک کا سارا قرضہ واپس کر دوں گا اور ملک کے ہر مرد، عورت اور بچے میں دو دو کروڑ روپے بھی تقسیم کردوں گا۔ کوئی پاگل ہی ہو گا جو مجھے ووٹ نہیں دے گا۔ میں وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہوتے ہی حکم جاری کروں گا کہ سٹیٹ بینک اپنی مشینوں کی جھاڑ پھونک کرے اور شروع ہوجائے پیسہ چھاپنا، ہمیں آج ہی ملک کے سارے قرضے اتارنے ہیں۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سوچ لیا کہ وزارت خزانہ کا عہدہ بھی خود کے پاس ہی رکھوں گا کیوں کہ ملک کے معاشی معاملات میں خود دیکھوں گا۔

یہ بات واقعی دلچسپ تھی۔ سن کر ہمارے کم عقل دماغ میں عقل کی بتی روشن ہوئی اور خیال آیا کہ اگر یہ اتنا ہی آسان ہے تو پھر حکومت ایسا کیوں نہیں کر رہی؟ اس لیے ہم نے سوچا ذرا اس پر تحقیق کر لیتے ہیں۔ ابھی تحقیق شروع ہی کی تو پتہ چلا کہ یہ معاشی پلان سراسر ناکام ہے۔

معلوم ہوا کہ زیادہ نوٹ چھاپنے سے تو ملک کا دیوالیہ ہی نکل جائے گا اور کچھ ملکوں نے یہ چالاکی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی معیشت ایسے بھنور میں گھر گئی کہ انہیں کان پکڑ کر توبہ کرنا پڑی۔ اس کی وجہ نیچے پیش کی جاتی ہے۔

کوئی بھی ملک قرضہ اتارنے کے لیے زیادہ نوٹ نہیں چھاپ سکتا یا نہیں چھاپتا کیوں کہ اس سے ملک ترقی کرنے کی بجائے مہنگائی آسمان کو پہنچ جائے گی اور لوگ کوئی چیز خرید نہیں پائیں گے۔ دراصل کرنسی نوٹ کی اپنی کوئی ویلیو نہیں ہوتی، اسے ویلیو ہم دیتے ہیں، کرنسی نوٹ تو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ ایک سو روپے، ایک ہزار روپے یا پانچ ہزار روپے، یہ ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کی ویلیو حکومت طے کرتی ہے۔

ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ کے پاس ایک ارب روپے ہیں اور آپ زمین سے دور کسی اور سیارے پر کسی گمنام جگہ پر موجود ہیں، جہاں نہ آدم، نہ آدم زاد، آپ کے اردگرد کچھ بھی نہیں بلکل سنسان جگہ ہے تو آپ اس ایک ارب کا کریں گے کیا؟ وہاں تو اس ارب روپے کی پتھر کنکر سے زیادہ اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ پتھر سے تو پھر بھی آپ کچھ نہ کچھ کام لے سکتے ہیں، مثلاً کیل ٹھونک سکتے ہیں یا اخروٹ توڑ سکتے ہیں، ارب روپے تو کسی کام کے نہیں ہوں گے۔

یہاں پر کرنسی نوٹ کی ویلیو اس لیے ہے کیونکہ ہم نے اسے ویلیو دے رکھی ہے۔ اگر لوگ کرنسی نوٹ استعمال کرنا چھوڑ دیں، خرید و فروخت کا کوئی نیا طریقہ نکال دیں تو ان کرنسی نوٹس کی کوئی ویلیو باقی نہیں رہے گی اور ویسے بھی اولین زمانے میں لوگ کرنسی نوٹ کے بجائے مختلف اشیا کے ذریعے لین دین کرتے تھے۔

تو پھر پانچ ہزار روپے جیب میں ڈال کر ہم ہفتے بھر کا راشن کیسے خرید لیتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل حکومت ضمانت دیتی ہے کہ اس کاغذ کے بےوقعت ٹکڑے کی اتنی قدر ہے کہ اس سے آٹا، چینی، چاول، دالیں، گوشت سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اپنی ضمانت واپس لے لے تو پانچ ہزار کے نوٹ کی وہی حیثیت ہو جائے گی جو ردی کاغذ کی ہوتی ہے۔

ہم نے کرنسی کی ویلیو جان لی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی ملک بے پناہ کرنسی نوٹ چھاپ دے تو کیا ہو گا؟ فرض کریں حکومت پاکستان آج کرنسی نوٹ چھاپ کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردے تو آپ کیا کریں گے۔ ظاہر ہے آپ بازار کا رخ کریں گے اور دھڑادھڑا چیزیں خریدنا شروع کر دیں گے۔ پورے ملک میں دوسرے لوگ بھی بیک وقت یہی کام کر رہے ہوں گے۔

اس سے کیا ہو گا کہ چیزوں کی طلب یعنی ڈیمانڈ بڑھ جائے گی۔ معاشیات کا اصول ہے کہ جب چیزوں کی طلب بڑھتی ہے تو ان کی قیمت خود بخود بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ فرض کیا کل کو اگر سائنس دان اعلان کرتے ہیں کہ لوبیا کھانے سے کرونا ختم ہو جاتا ہے تو لوگ دکانوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور آج اگر لوبیا 50 روپے کلو ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک پھر دو سو، اور چار سو کا ہو جائے گا۔

ظاہر ہے ملک میں ایک خاص مقدار میں لوبیا پیدا ہوتا ہے، اس لیے اس کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی، ساتھ ہی ساتھ طلب بڑھتی جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی قیمت ہزاروں تک چلی جائے گی۔ اسی چیز کو افراطِ زر کہتے ہیں، یعنی دولت کی فراوانی۔ معیشت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ جس چیز کی کثرت ہو اس کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے۔
اگر ہر شخص امیر ہو جائے تو عین یہی کام ہو گا کہ جو چیز پہلے ایک ہزار روپے کی مل رہی تھی وہ دو ہزار کی ملنا شروع ہو جائے گی، اور اسی طرح سے چیزوں کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی، لوگ کوئی چیز خرید نہیں پائیں گے۔ کسی بھی ملک میں جتنے پیسے ہوتے ہیں اس پیسوں کے مطابق ہی چیزوں کی قیمتیں طے ہوتی ہیں۔

معاشیات کے اس سادہ اصول کے باوجود ہنگری، زمبابوے اور دیگر ممالک نوٹ چھاپنے کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ان ملکوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے نوٹ چھاپنا شروع کر دیے جس کا نتیجہ ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔

یہ بات ہے وسطی یورپ میں واقع ملک ہنگری کی۔ ہنگری کی حکومت نے 46-1945 میں بے پناہ کرنسی نوٹ چھاپ دیے۔ زیادہ نوٹ چھاپنے کی وجہ سے ہنگری کو تاریخ کی سب سے بدترین ہائپرانفلیشن (مہنگائی کی بلند شرح) کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی حد سے زیادہ بڑھنے کے نتیجے میں ہنگری نے تاریخ کا سب سے بڑا یعنی 10 کروڑ ارب پینگو کا نوٹ چھاپا۔ اس کے بعد بھی جب مہنگائی کنٹرول نہ ہو سکی تو ہنگری کو پرانی کرنسی چھوڑ کر کسی دوسری کرنسی پر منتقل ہونا پڑا۔

ایسی ہی ایک اور مثال ہمارے پاس زمبابوے کی موجود ہے۔ کسی بھی ملک کا انفلیشن ریٹ اگر 50 فی صد سے بھی بڑھ جائے تو وہ ہائپرانفلیشن میں شمار ہوتا ہے اور وہ اُس ملک کے لیے شدید ترین پریشانی کا باعث بن جائے گا لیکن 2008 میں زمبابوے کا انفلیشن ریٹ 79.6 ارب فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اسی صورت حال کے مدنظر زمبابوے حکومت نے ایک سو کھرب زمبابوے ڈالر کا نوٹ چھاپ ڈالا لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، مہنگائی نے ساری حدیں پار کر دیں۔ زمبابوے کی کرنسی کی قدر اتنی گر گئی کہ اس کے قابلے پر ایک سادہ کاغذ بھی زیادہ قیمتی ہو گیا۔

ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی ملک زیادہ نوٹ چھاپنے سے ترقی تو نہیں کر سکتا ہاں البتہ اس ملک کا ہنگری اور زمبابوے جیسا حال ضرور ہو سکتا ہے۔ میری تحقیق کے بعد میرے دوست کا خواب جس کے مطابق وہ وزیراعظم ہاؤس میں جا بیٹھا تھا وہ تو چکنا چور ہو گیا، لیکن وزیراعظم بننے کے بغیر بھی میں اور آپ مل کر ملک کی ترقی میں محنت کر کے حصہ ڈال سکتے ہیں.

تحریر:محمداظہرشیخ

ایک استانی کہتی ہیں، "میں کلاس میں داخل ہوئی اور پیچھے سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنا سارا غصہ بچوں پ...
09/01/2025

ایک استانی کہتی ہیں، "میں کلاس میں داخل ہوئی اور پیچھے سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنا سارا غصہ بچوں پر نکالوں گی۔

واقعی، جس بچے نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، اسے پکڑا اور مارا!

ایک بچے کو میز پر سوئے ہوئے پایا، اس کا بازو پکڑا اور کہا: "تمہارا ہوم ورک کہاں ہے؟"

وہ بچہ ڈر کے پیچھے ہٹ گیا اور لرزتے ہوئے بولا بھول گیا ہوں مجھے معاف کر دیں

میں نے اسے پکڑا اور اپنے سارے غصے اور وہ دباؤ، جو میرے شوہر کی وجہ سے تھا، اس پر نکال دیا۔

پھر میں نے ایک بچے کو کھڑا پایا، وہ میرے قریب آیا، میرا دامن کھینچتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جھک کر اس کی بات سنوں۔

میں غصے سے مڑی، جھکی، اور کہا: "ہاں، بولو، کیا ہے؟"

وہ مسکرا کر بڑی معصومیت سے کہتا ہے:
"کیا ہم کلاس سے باہر بات کر سکتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے۔"

میں نے اسے بے صبری سے دیکھا اور سوچا کہ ضرور کوئی معمولی بات ہوگی، مثلاً یہ کہ کسی ساتھی نے اس کا پین چوری کر لیا ہوگا۔

لیکن جب میں نے اس کی بات سنی تو میں اس کی ذہانت سے حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے پاس بے شمار تربیتی معلومات تھیں۔

وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: "دیکھیں، ٹیچر، آپ بہت اچھی ہیں، اور ہم سب آپ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن میرا وہ ساتھی، جسے آپ نے آخر میں مارا، وہ یتیم ہے۔ اور اس کی ماں اسے ہمیشہ مارتی ہے جب وہ کوئی غلطی کرتا ہے۔

وہ اسے غلط طریقے سے تربیت دیتی ہے، اسی لیے وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے اور ہر چیز سے ڈرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلنے سے بھی ڈرتا ہے، کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ ہم اسے ماریں گے۔

میں اس کا دوست ہوں اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے مار کھانا بالکل پسند نہیں۔ اگر آپ اس کا جسم دیکھیں تو آپ کو اس پر مار کے نشانات ملیں گے، جو اس کی ماں نے کیے ہیں۔"

پھر وہ بچے نے کہا:
"کیا آپ ہماری ماں اور مربی بن سکتی ہیں؟ اور براہِ کرم، جب آپ کلاس میں آئیں تو اپنا غصہ اور پریشانی باہر چھوڑ کر آئیں، کیونکہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔"

میں حیرانی سے اسے دیکھتی ہوں اور کہتی ہوں: "تم اتنے بڑے لوگوں سے کیسے بات کر لیتے ہو؟"

تو وہ جواب دیتا ہے: "میری ماں نے ہمیشہ مجھے اچھا گمان کرنا سکھایا ہے، اور یہ بھی کہا ہے:

‘تمہیں نہیں معلوم کہ سامنے والے کس حالت میں ہیں، اس لیے اپنا غصہ اور پریشانی ایک طرف رکھو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔
دنیا میں بہت سی تکلیف دہ چیزیں ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا:
‘اگر تم کسی کو پریشان دیکھو، تو اس سے معافی مانگو، خواہ تم اس کی تکلیف کے ذمہ دار نہ ہو۔’

پھر وہ مجھے گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے:
‘یقیناً آپ کسی وجہ سے ناراض ہیں، اسی لیے آج ہمیں مارا۔
ٹیچر، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، براہِ کرم ناراض نہ ہوں، کیونکہ آپ بہت اچھی ہیں۔’

میں حیرانی کے عالم میں کھڑی تھی، اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں بچی ہوں اور وہ میرا استاد اور مربی ہے۔ کیا آج بھی ایسی تربیت ہوتی ہے؟

اور کیا ایسی مائیں موجود ہیں جو اپنے بچوں کی اس قدر عمدہ تربیت کرتی ہیں؟"

میں نے اس بچے سے کہا: "ٹھیک ہے، میں اسے کیسے مناؤں؟"

تو وہ بولا:
"یہ لیں، چاکلیٹ! وہ اسے پسند کرتا ہے۔ اگر وہ آپ کو معاف کر دے تو اپنے رب سے استغفار کریں اور ‘سبحان اللہ وبحمدہ’ کہیں تاکہ جنت میں آپ کے لیے ایک درخت اگے۔"

میں نے کہا: "جیسے دنیا میں درخت ہیں؟"
وہ بولا: "میری ٹیچر، جنت کے درخت دنیا کے درختوں جیسے نہیں ہوتے۔
میری ماں نے بتایا کہ جنت کے درخت کی پھل بہت نرم، بڑے اور شہد سے بھی زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، اور ان میں کوئی بیج نہیں ہوتا۔"

میں نے پوچھا: "انس، کیا میں تمہاری ماں کو کوئی تحفہ دے سکتی ہوں؟"
وہ بولا: "ہاں، مگر وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ ‘انس میرا تحفہ ہے۔’"

میں نے کہا: "واقعی، تم ایک بہت بڑا تحفہ ہو اور بہت پیارے بچے ہو۔"

انس نے کہا: "چلیں، آئیں احمد کو منائیں۔ میرے پاس پانچ روپے ہیں، اس سے چاکلیٹ خرید لیں اور احمد کو دیں، اور کہہ دیں کہ آپ نے اسے اس کے لیے خریدا ہے۔"

میں نے انس سے کہا: "تمہاری ماں واقعی ایک عظیم خاتون ہیں، وہ جنت کی حقدار ہیں۔"

وقت گزرتا گیا۔
"مس ریحام، آپ کیسی ہیں؟"
میں نے مڑ کر دیکھا تو انس تھا، اب ایک جوان لڑکا، عینک پہنے کھڑا تھا اور اس کی ماں اس کے ساتھ تھی، جن کے چہرے پر نور تھا۔

بعد میں انس کی ماں میرے لیے ایک تحفہ لے کر آئیں اور کہا:
"آپ انس کی استاد تھیں، یہ تحفہ میری طرف سے قبول کریں۔
آپ نے جو اچھائی انس کو سکھائی، یقیناً اس میں آپ کا بھی حصہ ہے۔"

میں نے حیرانی سے کہا: "کیسے؟"

وہ بولیں:
"الحمدللہ، میرا بیٹا اب ڈینٹل کالج میں لیکچرر ہے۔"

میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے کہا:
"آپ کا شکریہ، یہ ہدیے تو آپ جیسے لوگوں کے لیے ہیں۔
آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے صرف انس کی تربیت کی؟
حقیقت میں، آپ کی تربیت نے مجھے بھی سدھار دیا۔
آپ کے بیٹے نے مجھے سالوں پہلے ایک سبق دیا، جس نے میری زندگی بدل دی۔
اسی کے باعث میں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی، اور میرا ازدواجی رشتہ بھی بہتر ہو گیا۔"

حکمت:
نیک بیوی معاشرے کی جنت بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔
اور گھریلو عورت کے کردار کو معمولی نہ سمجھیں، کیونکہ وہ ایک پوری نسل کی مربی ہوتی ہے۔

اگر آپ نے کہانی پڑھ لی ہے تو صرف پڑھ کر نہ جائیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور
"لا إله إلا الله محمد رسول الله"
کا ذکر کریں، کیونکہ یہ ساتوں آسمانوں اور زمین سے زیادہ وزنی ہے۔

یاد دہانی:
نبی ﷺ نے فرمایا:
"صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔"

یاد رکھیں، جو کچھ آپ خرچ کریں یا شیئر کریں، اس کا اثر آپ کی زندگی میں برکت، صحت، رزق میں اضافہ، اور دل کی خوشی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
اس لیے دینے میں کبھی ہچکچائیں نہیں، کیونکہ عطا خیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

تحریر:محمداظہرشیخ

یہ واقعہ حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے‘  حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا ’’...
08/01/2025

یہ واقعہ حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا
’’ یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
’’ صحت‘‘۔
میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا‘
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت
اور
منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لئے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لئے نہیں کی۔
‘ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے
‘ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘
مثلاً
ًہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں
مگر
ہم جب تیز چلتے ہیں‘
جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘
ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘
یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور
یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘
مثلاً
دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘
مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔
یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں‘ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں۔
‘ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘
مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔
‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے
‘ سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘
اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘
آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں
‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں‘
ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘
ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے‘ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘
صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی
مگر
جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘
ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘
ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے
‘ ہماری پلکوں میں چند مسلز ہوتے ہیں۔
یہ مسلز ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسلز جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا
‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں
‘ دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لئے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لئے تیار ہیں‘
ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں
‘ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘
ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘
دنیا کے سیکڑوں‘ ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لئے کروڑوں ڈالر دینے کے لئے تیار ہیں‘
لوگ صحت مند گردے کے لئے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لئے تیار ہیں‘
آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘
دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘
آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لئے لاکھوں روپے دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں‘
دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔
گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘
انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے
‘ قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘
دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے
آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے
شوگر
کولیسٹرول
اور
بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں
اور
آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفاء نہیں ملے گی۔
منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔
ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے
ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں
‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے
ہم سیدھا چل سکتے ہیں
دوڑ لگا سکتے ہیں
جھک سکتے ہیں
اور
ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں
‘ ہم آنکھوں سے دیکھ
کانوں سے سن
ہاتھوں سے چھو
ناک سے سونگھ
اور منہ سے چکھ سکتے ہیں
تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل
اس کے کرم کے قرض دار ہیں
اور
ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے
کیونکہ
صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے‘
ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔۔۔۔
محمداظہرشیخ

گھر میں لیمن گراس اُگائیں۔۔ ۔مستعمل نام --- لیمن گراس (lemongrass)کاشت کا موسم ---- پوراسالجیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ...
08/01/2025

گھر میں لیمن گراس اُگائیں۔۔ ۔
مستعمل نام --- لیمن گراس (lemongrass)
کاشت کا موسم ---- پوراسال
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ لیمن گراس کھٹاس کے حامل گھاس نما جڑی بوٹی ہے ۔ لیمن گراس کو تھائی اور ایشیائی ‘بالخصوص سردی میں پکائے جانے والے کھانوں میں خوشبو اور ذائقے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایشیائی ممالک میں تیزی سے مقبول ہوتے دیکھا اور آج اسے آپ ہر دکان سے خرید سکتے ہیں ‘جب کہ اس کا پودا ہر نرسری سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
کاشت کا طریقہ۔۔۔
لیمن گراس لگانے کے لئے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بازار جاکر چند لیمن گراس کی جڑ والی ڈنڈی خرید لیں۔ اس کی جڑ ہری پیاز کی جڑ سے مشابہہ ہوتی ہے۔ایک ایسے گملے میں جس میں نیچے پانی کی نکاسی کی گنجائش ہو مٹی اور کھاد ڈال کر ڈنڈی کو جڑ والی جانب سے گملے میں لگائیں اور اسے اتنا پانی دیں کہ جڑیں 2انچ تک پانی میں ڈوبی رہیں۔ اس کے ہرے حصو ّں کو جڑوں سے اُوپر تک کاٹ کر نکال دیں۔2سے 3ہفتوں میں ہی لیمن گراس کے تروتازہ ہرے پتے اپنی آب و تاب دکھانے لگیں گے۔ اگر اسے کسی جار میں لگانا ہو تو اس کی جڑ کو 3انچ پانی میں ڈبو دیں اور اسے کھڑکی پر رکھ دیں۔ 3سے4ہفتوں میں اس کا پودا2انچ تک بڑھ جائے گا ۔ اُس وقت تک روز پانی تبدیل کریں ‘اس کے بعد حسب ضرورت 2سے3دن میں پانی ڈالیں۔
فوائد۔۔۔
طبی نقطہ نظر سے لیمن گراس کے بے شمار فوائد ہیں۔ انہیں خوشبو کے لئے چاولوں میں ڈالیںے پھر چائے بناکر پئیں۔ایک پیالی پانی میں 2چھوٹی الائچیاں ڈال کر پانی پکائیں‘اس میں ایک ڈنڈی لیمن گراس ڈالیں اور پھر چینی ملاکر پی لیں۔اس جوشاندے کو پینے سے جسم کی تھکن د ُور ہوجاتی ہے‘ یہ کھانا ہضم کرتی ہے اور منہ کے ذائقے کو برقرار رکھتی ہے۔لیمن گراس کا قہوہ چڑچڑاپن ‘ دماغی بوجھ‘ تناﺅاور پریشانی کو دُور کرتا ہے۔ لیمن گراس کا سوپ بھی بنایا جا سکتا ہے جب کہ یخنی کا ذائقہ دوچند کرنے کے لئے لیمن گراس کے چند پتے ہی کافی ہیں۔

بلند فشار خون کو کم کرنے کے لئے لیمن گراس کے رس کا استعمال کیاجاتا ہے۔
گرمی کو کم کرنے میں مفید ہے‘ جسم سے زہریلے مادوں کو ختم کرتا ہے‘ جلداورجسم کی بد ُبو کو د ُور کرتا ہے اورزخموں کے علاج میں مفید ہے۔ لیمن گراس کے تیل کی مالش سے جوڑوں اور پٹھوں کے درد سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔لیمن گراس کی چائے پینے سے متلی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

تھکن ہومعدے کی خرابی ہو تو لیمن گراس کی چائے بنا کر پینے سے طبیعت صحیح ہوجائے گی ‘اس میں چینی کے بجائے شہد ملا کر پینے سے فلو بخار میں فائدہ ہوتا ہے اور کھانسی کم ہوجاتی ہے۔ خوشبو کے لئے چاولوں کو دَم دیتے وقت لیمن گراس کے چند پتے ڈال دیں۔

خوبصورتی دماغ میں بنتی ہے، آئینے میں نہیں!آپ کے خیالات خوبصورت ہیں، آپ کی بات چیت خوبصورت ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی ای...
07/01/2025

خوبصورتی دماغ میں بنتی ہے، آئینے میں نہیں!

آپ کے خیالات خوبصورت ہیں، آپ کی بات چیت خوبصورت ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی ایک خوبصورت انسان ہیں۔ ظاہری شکل صرف باہر کی جھلک ہے، اصل خوبصورتی اندر کی ہوتی ہے۔
تحریر:محمداظہرشیخ

کیا آپ نے کسی ایسی ماں کو دیکھا ہے جو اپنے بچے کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینک دے ؟تربیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔یہ ...
06/01/2025

کیا آپ نے کسی ایسی ماں کو دیکھا ہے جو اپنے بچے کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینک دے ؟
تربیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔
یہ کیسی تربیتی نشست ہے جس میں بچے کی جان جانے کا خدشہ ہو ؟
اگر بچہ ڈر جائے تو ؟
مر جائے تو ؟
جس نے پھینکا ہے وہ نہ صرف اپنے بچے کی صلاحیتوں کو جانتی ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت پر بھی مکمل اعتماد ہے ۔
مادہ عقاب کے بچوں کا جب پرواز سیکھنے کا وقت آتا ہے تو ان کی ماں انہیں اٹھا کر دس ہزار فٹ کی بلندی پر لے کر جاتی ہے اور پھر وہاں سے نیچے پھینک دیتی ہے ۔
بچہ نیچے گرنا شروع ہوتا ہے ۔ اپنے ننھے پر پھڑپھڑا کر اپنے آپ کو بچانے اور اڑانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ مگر دس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنا بچوں کا کھیل نہیں ۔ دنیا میں صرف ایک ہی پرندہ ہے جو اس بلندی پر اڑتا ہے اور وہ ہے عقاب ۔ کسی اور پرندے کی مجال نہیں جو اس کی بلندی کو چھو سکے ۔
وہ بچہ تیزی سے قریب آتی زمین کو دیکھ کر سہم جاتا ہے ۔ اپنے پروں کو اور تیزی سے حرکت دیتا ہے ۔ اپنی آخری کوشش کرتا ہے پھر فضا میں اپنی نظریں گھما کر ماں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر ماں کہیں نظر نہیں آتی ۔ جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے ۔
اڑنا ہے تو بچنا ہے ورنہ مرنا ہے ۔
بچہ اپنی انتہائی کوشش جاری رکھتا ہے ۔ مگر کامیابی نہیں ہوتی ۔
زمین انتہائی قریب پہنچ جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے زمین سے ٹکرانے اور پاش پاش ہو جانے میں بس کچھ ہی وقت باقی ہے ۔ وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔
ایسے میں اسے اپنے بالکل پاس دو بڑے بڑے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے ۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اسے اپنے محفوظ پنجوں میں دبوچ لیا ہے ۔ اب وہ گر نہیں رہا ۔ اس کی ماں اسے گرنے سے عین پہلے دوبارہ دبوچ لیتی ہے اور واپس گھونسلے میں پہنچا دیتی ہے ۔
یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ بے خوفی سے اڑنا سیکھ نہیں لیتا ۔
مادہ عقاب صرف اپنے بچوں کو اس آزمائش سے نہیں گزارتی بلکہ وہ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اپنے ساتھی کے ساتھ ملن سے پہلے اس کی صلاحیتوں کو پرکھتی ہے ۔
کسی نر عقاب سے ملن سے پہلے مادہ عقاب ایک پتھر کو انتہائی بلندی سے زمین پر پھینکتی ہے ۔ یہ نر عقاب کے لیئے ایک چیلینج ہوتا ہے کہ پکڑ کر دکھائے ۔
زمین پر گرتی ہر چیز کی رفتار گریویٹی کی وجہ سے بڑھتی جاتی ہے ۔ حد رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے ۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ عقاب کی عمودی پرواز کی رفتار اس سے کہیں زیادہ یعنی 300 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے ۔
نر عقاب اس پتھر کے تعاقب میں زمین کی طرف انتہائی تیز رفتار عمودی پرواز کرتا ہے اور وہ پتھر دبوچ کر لے آتا ہے ۔ مادہ یہ عمل صرف ایک بار نہیں دہراتی بلکہ اس وقت تک دہراتی ہے جب تک اس کو اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ نر اسے کما کر کھلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عقاب ایک انتہائی نڈر اور بہادر پرندہ ہے ۔ ڈر کیا ہوتا ہے خوف کس چڑیا کا نام ہے یہ پرندہ جانتا ہی نہیں ۔ شکار کرتے وقت اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا شکار کون ہے کتنا وزنی ہے یا کس کس قسم کی دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہے ۔ یہ مردار ہرگز نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھاتا ہے ۔ اس کی نگاہیں انسان کی نگاہوں سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتی ہیں ۔
اس کا شکار جب ایک بار اس کی نظروں میں آجاتا ہے تو اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اگر تو وہ زیر زمین چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے بچنے کے امکانات ہیں ۔ بھاگنا مسئلے کا حل نہیں ۔ کیوں کہ شکار کرتے وقت عقاب کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے ۔
بڑے جانوروں کے شکار کے لیئے یہ عموماً بلندی سے گرانے کا طریقہ استعمال کرتا ہے ۔ اس کی اس اسٹریٹجی سے عموماً مضبوط خ*ل رکھنے والے کچھوے بھی محفوظ نہیں رہتے ۔ یہ انہیں بلندی پر لے جا کر چٹانوں پر پٹخ دیتا ہے جس سے ان کا خ*ل پاش پاش ہو جاتا ہے ۔
عموماً جب طوفان کی آمد ہو تو تمام پرندے محفوظ مقام تلاش کرتے ہیں ۔
مگر یہ طوفانوں سے محبت کرنے والا پرندہ ہے ۔ طوفانوں کی تند و تیز ہوائیں اسے مزید بلندی پر بغیر محنت کے اڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔
اقبال کہتے تھے تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب !
مگر یہ پرندہ بجائے گھبرانے کے طوفانوں سے محبت کرتا ہے ۔
عقاب کی صلاحیتوں اور خصلتوں کی مثالیں انسانوں میں عام ہیں ۔ یہ پرندہ قدرت کی صناعی کی ایک بہترین مثال ہے جس سے واقعی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔.
تحریر:محمداظہرشیخ

*کُمہار مَٹّی سے کُچھ بنا رہا تھا، کہ اُس کی بیوی نے پاس آکر پُوچھا، کیا کر رہے ہو،* کمہار بولا حُقَّہ کی چِلَم بنا رہا ...
05/01/2025

*کُمہار مَٹّی سے کُچھ بنا رہا تھا، کہ اُس کی بیوی نے پاس آکر پُوچھا، کیا کر رہے ہو،*

کمہار بولا حُقَّہ کی چِلَم بنا رہا ہُوں،
آج کل بہت بِک رہی ہے،
کمائی اچھی ہو جائے گی،

بیوی نے جواب دیا کہ
زِندگی کا مقصد صِرف کمائی کا ذریعہ ہی تَو نہیں،
کُچھ اور بھی ہے،
تُم میری مانو،

آج صُراحی (گھڑا) بناؤ،
گرمی ہے،
وہ بھی خُوب بِکے گی،
مگر!
ساتھ ساتھ لوگوں کی پیاس بُجھانے کے کام بھی آئے گی،

کمہار نے کُچھ سوچا،
اور مَٹّی کو نئے رُوپ میں ڈھالنا شروع کیا،
تَو اچانک مَٹّی نے پُوچھا،
یہ کیا کر رہے ہو،
میرا رُوپ بدل دیا،
کیوں؟

کمہار نے جواب دیا،
میری سوچ بدل گئی ہے،
پہلے تُمہارے پَیٹ میں آگ بھر رہا تھا،
اب پانی بھرے گا،
اور مَخلُوقِ خُدا نفع حاصل کرے گی،

مٹی بولی،
تُمہاری تَو صِرف سوچ بدلی ہے،
میری تَو زِندگی بدل گئی ھے،
مَیں تکلیف سے نِکل کر آسانی میں آگئی ہوں،

آپ سوچ بدلئے زِندگی خُود بَخُود بدل جائے گی۔

تحریر:محمداظہرشیخ

Address

Bahawalpur
63100

Telephone

+923009411303

Website

https://x.com/AmrozNewstv?t=PiQ3vmc8ZJISP6Gx7-cvBQ&s=09, https

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Amroz News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Amroz News:

Videos

Share