10/12/2024
*انسانی حقوق کا عالمی دن اور خطہ جموں کشمیر کی حالت زار*
تجزیہ وتحریر! ضمیراحمدناز
*انسانی حقوق کا عالمی دن* ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی منظوری کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو تمام انسانوں کے لیے مساوات، آزادی، اور بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا کو یہ یاد دلانا ہے کہ ہر انسان کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، یا زبان اپنے حقوق حاصل ہیں، اور ان حقوق کا تحفظ کرنا حکومتوں اور معاشروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
بھارت ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کے زیرِ انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس کے بعد سے وادی میں کرفیو، لاک ڈاؤن، اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم شدہ ہے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ ان قراردادوں کو نظرانداز کیا اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔
کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کی تاریخ دہائیوں پر محیط ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔ ان کو دہشت گرد قرار دے کر بغیر مقدمہ چلائے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ہزاروں کشمیری باشندے جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ ان کے خاندان آج بھی ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔ کشمیری خواتین کو بھی بھارتی فورسز کے ظلم کا سامنا ہے، جنہیں جنسی تشدد، زیادتی اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ وادی میں میڈیا پر مکمل پابندی ہے، اور انٹرنیٹ (ناز) معطل رہتا ہے تاکہ کشمیریوں کی آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے۔کشمیری مسلمانوں کو اپنی مذہبی آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے، اور کئی بار جمعہ کی نماز پر بھی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔
آج انسانی حقوق کےعلمبردار اور عالمی برادری کشمیری عوام کی اس حالتِ زار پہ خاموش ہے جو دنیا کے ضمیر پر سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی ادارے کشمیریوں کے حق میں زبانی جمع خرچ تو کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بھارت کو اس کے مظالم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی کوششیں ناکافی ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کا دوسرا حصہ پاکستان زیر انتظام کشمیر (آزاد جموں و کشمیر) ہے کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور پرامن علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن محدود سطح پر کچھ بہتری کی ضرورت ہے اور ان کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ علاقائی عدل و انصاف کو بہتر بنایا جا سکے۔یہاں دیہی علاقوں میں خواتین کو تعلیم، روزگار، اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولیات، جیسے صحت، تعلیم، اور صاف پانی کی کمی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔
عوامی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاؤہ *مہاجرین کی حالتِ زار جو* 1989 کی تحریک میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہجرت کرکے آزادکشمیر میں آئے یہ مہاجرین بہتر زندگی کی سہولیات سے محروم ہیں اور انہیں مستقل رہائش یا عدم تحفظ اور بےیقینی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اگرچہ آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر انسانی حقوق کی صورت حال بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، لیکن یہاں بھی اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ اظہارِ رائے، سیاسی آزادی، اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنا کر انسانی حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، بنیادی انسانی حقوق جیسے تعلیم، صحت، اور صنفی مساوات پر خصوصی توجہ دینا بھی ضروری ہے تاکہ علاقے کے عوام کو بہتر زندگی فراہم کی جا سکے۔
آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ *کشمیری عوام کی جدوجہد انصاف اور آزادی اور حق خودارادیت کی ہے، اور ان کے حقوق کی پامالی پوری دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔*
عالمی برادری کو کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور بھارت کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ جب تک کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت نہیں ملتا، دنیا میں انسانی حقوق کا خواب ادھورا رہے گا۔(ناز)
#بولےگاکشمیر🖖