All About Attock

All About Attock تاریخ،تاریخی مقامات، لوک ورثہ، ثقافت،زراعت،باغبانی،مویشی پالنا،کاروبار،اٹک کا ٹیلنٹ،غربت سے کامیابی تک کی کہانیاں،

سب بھائیوں سے درخواست ہے کہ دعا بھی کریں اور اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں
01/09/2024

سب بھائیوں سے درخواست ہے کہ دعا بھی کریں اور اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں

01/09/2024

کیا یہ حقیقت ہے

تربیلا جھیل نہ ہوتی تو شمالی علاقوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں سیر پر جانے والے لوگوں کی طرف سے پھینکا گیا کچرہ کیسے اکٹھا...
31/08/2024

تربیلا جھیل نہ ہوتی تو شمالی علاقوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں سیر پر جانے والے لوگوں کی طرف سے پھینکا گیا کچرہ کیسے اکٹھا کیا جاتا

الحمد للہ یہ اماں جی اپنے عزیزوں کو مل چُکی ہیں تمام دوستوں کا شکریہ یہ خاتون مکہ میں اپنے بیٹے اور خاوند سے بچھڑ گئی ہی...
31/08/2024

الحمد للہ یہ اماں جی اپنے عزیزوں کو مل چُکی ہیں تمام دوستوں کا شکریہ

یہ خاتون مکہ میں اپنے بیٹے اور خاوند سے بچھڑ گئی ہیں . اپنے بیٹے کا نام قاری عطا اللہ بتا رہی ہیں اور اپنا تعلق تحصیل جنڈ بروالہ ڈھوک سرفراز ضلع اٹک سے بتارہی ہیں . اگر آپ انہیں یا انکے رشتہ داروں کو جانتے ہیں تو عتیق احمد بھائی سے رابطہ کریں

00966590571832

ہفتہ 31 اگست 2024

افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔ پختونخواہ میں جو طوفانی با...
30/08/2024

افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔
پختونخواہ میں جو طوفانی بارشیں اور سیلاب آیا ہے وہ پانی بھی دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہو گا۔ یہ جمع ہونے والا ریلہ ابھی کالاباغ کے مقام تک نہیں پہنچا لیکن جلد پہنچنے والا ہے۔ اس کے بعد میدانی علاقہ ہے جہاں پھر اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی او یہ بڑا ریلہ تب تک تباہی مچاتا رہے گا جب تک بحرہ عرب میں جا کر نہیں گر جاتا۔ کچے کا سارا علاقہ ڈوبے گا،
ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ بھکر کا کچھ حصہ متاثر ہوگا، تباہی در تباہی ہو گی لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہے۔
کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سارا پانی سٹور ہو جانا تھا لیکن ڈیم بن گئے تو بجلی کے “کارخانے” لگا کر حکمران تگڑا کمیشن کیسے کھائیں گے، سولر پلیٹ کیسے بیچیں گے؟

یہ سب میٹھا پانی ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کا یہ میٹھا پانی اربوں ڈالر مالیت کی تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرے گا۔ چند ماہ بعد خشک سالی ہو گی۔
ستر سال سے اسی سیلاب اور خشک سالی کے درمیان جی رہے ہیں۔ ایک کالاباغ ڈیم اربوں ڈالر کا میٹھا پانی بچاۓ گا، اربوں ڈالر کا نقصان بچائے گا اور اربوں ڈالر کی سستی بجلی الگ سے فراہم کرے گا۔ جو قومیں بروقت فیصلے نہیں کرتیں ان کی قسمت میں بھوک، سیلاب اور خشک سالیاں ہوتی ہیں خوشحالیاں نہیں ۔

تلاش ورثاء۔ تھانہ سٹی پولیس کو یہ گمشدہ بچی ملی ہے، اپنا نام اقرا اور والد کا نام محبوب بتاتی ہے، عمر آٹھ سال، جسے پولیس...
27/08/2024

تلاش ورثاء۔

تھانہ سٹی پولیس کو یہ گمشدہ بچی ملی ہے، اپنا نام اقرا اور والد کا نام محبوب بتاتی ہے، عمر آٹھ سال، جسے پولیس اپنی حفاظت میں لے کر اس کے والدین کی تلاش کر رہی ہے، اگر اس حوالے سے آپ کے پاس معلومات ہوں۔
تو اے ایس آئی اسرار 03455151530 یا تھانہ سٹی رابطہ کریں۔

26/08/2024

ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے ناتجربہ کار اور نکمے بیٹے کو لاکھوں روپے کا کاروبار صرف اس لیے کروا کر دیا کہ ان کے ایک دوست نے اپنے بیٹے کو بھی یہ کاروبار کروا کر دیا تھا۔
انا کے مسئلے، ضد بازی اور پیسے کی فراوانی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا، اور نتیجہ وہی نکلا جو ایسے کاموں میں ہوتا ہے کہ چند مہینے بعد کاروبار بری طرح سے ڈوب گیا اور ایک خطیر رقم کا نقصان سہنا پڑا۔

یہ بات آپ احباب کو کیوں بتائی اس کے لئے اپنی زندگی کا ایک واقعہ شئیر کر رہا ہوں۔

1998 میں، جب میں پہلی بار لندن آیا تو نوکری کے لیے ایک بڑی کمپنی Chingford Fruit Factory میں ملازمت کی۔ اس فیکٹری میں یورپ سے سینکڑوں ٹن فروٹ روزانہ کی بنیاد پر آتا تھا، جس کی کانٹ چھانٹ اور درجہ بندی کے بعد اسے برطانیہ کی مختلف بڑی سپر مارکیٹس میں سپلائی کیا جاتا۔
میری نوکری جس ڈیپارٹمنٹ میں تھی، وہاں ہمیں کمپیوٹر سے پرنٹ شدہ لسٹیں دی جاتی تھیں۔ ان لسٹوں کے مطابق ہمیں کولڈ روم اور سٹوریج روم میں جا کر پھل کی جانچ پڑتال کرنی پڑتی کہ آیا سپر مارکیٹس کے معیار اور آرڈر کے مطابق مال تیار ہے یا نہیں۔

میرے ڈیپارٹمنٹ میں اٹلی کا ایک نوجوان لڑکا Antonio، جو میرا ہم عمر تھا، پچھلے آٹھ دس ماہ سے کام کر رہا تھا۔ میری اس سے دوستی ہو گئی اور ہم اکثر وقت ملنے پر گپ شپ لگاتے۔

میں نے نوٹ کیا کہ سپروائزرز اور مینیجرز کی طرف سے Antonio کے ساتھ بہت ہی امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ بہت سے ایسے کام، جو اس کے کرنے کے نہیں ہوتے تھے، وہ اس سے کروائے جاتے۔ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں بھی کام کرتا اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے کام جیسے فرش صاف کرنا، مینیجرز کے لیے چائے بنانا، اور یہاں تک کہ کئی دفعہ میں نے اسے واش روم صاف کرتے بھی دیکھا۔
یہ سب کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر کبھی کوئی بل نہیں پڑتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور تقریباً آٹھ مہینے بعد ہمیں پتہ چلا کہ Antonio واپس اٹلی جا رہا ہے۔ جب وہ ہم سے ملنے آیا تو اس کا انداز بالکل مختلف تھا۔انتہائی قیمتی سوٹ، چمچماتے بوٹ، اور چمکتی قیمتی گھڑی۔ Antonio بالکل بھی پہچانا نہیں جا رہا تھا۔
میں نے اس سے واپس اٹلی جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے ایک ایسی بات بتائی جس کو سن کر میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا اور جس میں کامیاب کاروبار کا راز پوشیدہ تھا۔

اس نے بتایا کہ اس فروٹ فیکٹری میں جتنا بھی فروٹ آتا ہے، وہ اٹلی سے اس کے والد صاحب کی فیکٹری سے آتا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ اگر تمہارے والد صاحب کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں تو تم نے یہاں یہ سب کچھ کیوں برداشت کیا؟ Antonio نے جواب دیا کہ یہ ہمارا جدی پشتی کاروبار ہے، اور جب ہمارے بڑے ہمیں کوئی ذمہ داری سونپنے جا رہے ہوتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں تجربہ حاصل کرنے کے لیے ملک یا شہر سے باہر کسی ایسی جگہ بھیجتے ہیں جہاں ہم تجربہ حاصل کر سکیں۔

اس نے مزید کہا کہ تجربہ صرف مینیجر لیول کا نہیں، بلکہ ہمیں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام سیکھنے کو کہاجاتا ہے۔
فرش کی صفائی سے لے کر مینیجر کے میز تک۔

میں نے ان دو سالوں میں بخوبی سیکھا کہ ایک مزدور کس ذہن سے سوچتا ہے، کس طرح محنت کرتا ہے اور ایک مینیجر کس طرح بہت سے پیچیدہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتا ہے۔

سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ Antonio نے پورے دو سال اپنے گھر کا کرایہ، کھانے پینے کا خرچہ، بجلی اور گیس کے بلز، اور دوسرے تمام اخراجات اپنی فیکٹری کی تنخواہ سے پورے کیے باوجود اس کے کہ اس کا باپ ایک ارب پتی تھا۔

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اس سطح پر کام سیکھنے کے بعد کوئی شخص اپنے کاروبار کو ڈبو سکتا ہے یا گھاٹا کھا سکتا ہے؟

ہمارے ہاں تو معاملہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ایک فیکٹری کا مالک تو کیا، ایک دکان کا مالک بھی خود اٹھ کر پانی پینے میں عار محسوس کرتا ہے۔ کسی بڑے دفتر میں، سامنے رکھی چیز کو پکڑنے کے لیے بھی گھنٹی بجا کر ملازم کو بلایا جاتا ہے۔
دولت کے گھمنڈ، جھوٹی شو بازی، یا بچوں کی ضد کے چکر میں ان کو ایسے کام کروا دیے جاتے ہیں جن کی ABC سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے۔

میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ اس قسم کی سوچ کے ساتھ ہم کاروبار یا زندگی کے بہت سے دوسرے معاملات میں کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟

دولت کے بل بوتے پر ہر غلط کو صحیح کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی بہترین تربیت پر توجہ زندگی کے ہر میدان میں ان کی بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔

اپنی بات Antonio کی اس بات سے جو اس کے باپ دادا نے اسے بتائی، ختم کروں گا کہ "کاروبار کی بلندیوں کو چھونے کے لیے آپ کے ذہن میں مزدور کی سوچ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔"

محمد بخش طاہ

باجوڑتحصیل ماموند کے علاقہ بدان کوٹ میں موبائل ٹاور کام نہ کرنے کے صورت میں نامعلوم لوگوں نے نیچے سے کاٹ کر گرا دیا ہے ۔...
26/08/2024

باجوڑ
تحصیل ماموند کے علاقہ بدان کوٹ میں موبائل ٹاور کام نہ کرنے کے صورت میں نامعلوم لوگوں نے نیچے سے کاٹ کر گرا دیا ہے ۔
زیر نظر تصویر میں ٹاور زمین پر پڑا دکھائی دے رہے ہیں۔لگتا ہے کہ کچھ ایسا ہی حال موبائل سنگنل کی ستائی ہوئی عوام آل پاکستان میں ZONG,UFONE,JAZZ,TELENOR ٹاور کا بھی ہو گا...

سکورٹی فورسز کی گاڑیاں اکثر یقین مانیں کسی گاؤں کے روٹ پر چلنے والی ہائی ایس کراچی کے چنگچی اور بندیال کوچ سے بھی ذیادہ ...
25/08/2024

سکورٹی فورسز کی گاڑیاں اکثر یقین مانیں کسی گاؤں کے روٹ پر چلنے والی ہائی ایس کراچی کے چنگچی اور بندیال کوچ سے بھی ذیادہ پھٹیچر ناکارہ غیر محفوظ اور بیکار ہوتی ہیں۔
جبکہ وزیروں مشیروں ججوں جرنیلوں بیورکریٹس اور دیگر طاقتورں کا سودا سلف لانے والی گاڑیاں انکے کتے اور بلے لے جانے والی گاڑیاں انکے بچوں کو سکول اور بیگمات کو شاپنگ کرانے والی گاڑیاں مکنیکلی اور فزیکلی سیکورٹی فورسز کی روٹس اور گشت پر جانے والی گاڑیوں سے ذیادہ فٹ اور محفوظ ہوتی ہیں۔
جب غریبوں کے بچے سسٹم کی ان نااہلیوں کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تب یہ راتب خور مگر مچھ کے آنسو بہانے اور پوائینٹ اسکورنگ کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔
وہی گھسے پٹے بیان آہنی ہاتھوں سے نپٹیں گے
وغیرہ دے کر آپریشن لانچ کرنے کے ڈرامے کر کے پھر اگلے حادثے تک کے لئے خاموشی چھا جاتی ہے۔😥
یقین جانے رحیم یار خان کے ڈاکو اتنے طاقتور نھیں ہیں۔۔
ہمارا سسٹم فراہم کردہ وسائل ناکارہ اور کمزور ہیں۔۔
کتنے خاندان اجڑ گئے ہیں کتنی جوان عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہونی۔۔
جس تن پر لگتی ہے محسوس اسی کو ہوتا ہے دعا ہے پروردگار شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں پر اپنی مزید رحمتوں اور جنت میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور پسماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
اور ریاست کو ان غریبوں کی اولاد ملازمین کو بہتر سے بہتر وسائل فراہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین😥

‏یہ ایک ہی خاندان کے 4 افراد تھے جنہوں نے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر ان...
25/08/2024

‏یہ ایک ہی خاندان کے 4 افراد تھے جنہوں نے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر انکا آخری سفر ہونے والا ہے۔

اپنی Honda Civic پر سوار یہ لوگ خانقاہ ڈوگراں قیام و طعام پر پہنچے تو انکو پیاس محسوس ہوئی۔

ڈرائیور کو کہا گیا کہ گاڑی قیام و طعام کی طرف موڑ لو- ڈرائیور نے گاڑی خانقاہ ڈوگراں قیام و طعام پر روک لی،فیمیلی نیچے اتری،یہ لوگ بیکری پر گئے،اور پینے کے لئے جوس خرید لئے۔

انکو یہ معلوم نہیں تھا کہ جو جوس یہ خرید رہے ہیں،انکی ڈیٹ ایکسپائر ہے،اور جوس زہر بن چکا ہے۔

یہ لوگ دوبارہ گاڑی میں بیٹھے،اور اپنی منزل اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔ راستے میں انہوں نے جوس کھولے اور پی لئے،یہ جوس پینے کی ہی دیر تھی کہ ان چاروں افراد کو زبردست فوڈ پوائزنگ ہو گئی۔

اس وقت تک وہ بھیرہ انٹرچینج کے قریب پنہچ چکے تھے۔

لیکن شاید اب دیر ہو چکی تھی،یہاں تک پہنچتے ہوئے یہ چاروں افراد زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ ڈرائیور نے شاید کم جوس پیا تھا،اس لئے وہ بچ گیا،لیکن گاڑی کو سائیڈ پر روک کر بے ہوش ہو گیا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ،موٹر وے پر بنے قیام طعام پر بیکریز کا چیک اینڈ بیلنس کیا جاتا ہے؟ اگر ہاں تو یہ ایکسپائرڈ جوس کہاں سے آ گئے،اس کی سخت ترین تحقیقات ہونی چاہئیں۔

روزانہ ہزاروں لوگ موٹر وے پر سفر کرتے ہیں،اگر یہ سلسلہ ایسے ہی رہا تو سب کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں، اور ہاں آپ جب بھی کوئی ایسے کھانے پینے کی چیز خریدیں تو ایکسپائری ڈیٹ ضرور چیک کر لیں۔

روز بروز موٹر وے پر اسطرح کے واقعات بڑھتے جارھے ھیں لگتا ھے کہ پاکستان کے تمام نوسربازوں نے موٹروے پر بسیرا کر لیا ھے

TALAGANG NEWS

اٹک خورد ریلوے سٹیشن
25/08/2024

اٹک خورد ریلوے سٹیشن

24/08/2024

اینے صابر ہوگئے آں
ظالم ہکّا بکّا اے

صابر علی صابر

بیل گاڑی برصغیر میں قدیم دور سے ہی ایک اہم ذریعہ نقل و حمل رہی ہے، اور اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ یہاں برصغیر میں بیل...
24/08/2024

بیل گاڑی برصغیر میں قدیم دور سے ہی ایک اہم ذریعہ نقل و حمل رہی ہے، اور اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ یہاں برصغیر میں بیل گاڑی کی تاریخ کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے:

وادی سندھ تہذیب (3300–1300 قبل مسیح):** بیل گاڑی کا استعمال برصغیر میں وادی سندھ کی تہذیب کے دوران دیکھا گیا۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی کھدائیوں میں بیل گاڑیوں کی مختلف اقسام کے نمونے ملے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قدیم دور میں بیل گاڑیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔

موریہ سلطنت (322–185 قبل مسیح): اس دور میں بیل گاڑی کا استعمال بڑے پیمانے پر تجارت اور مال برداری کے لیے ہوتا تھا۔ چونکہ موریہ سلطنت کا دائرہ کار وسیع تھا، بیل گاڑی کے ذریعے اشیاء کی نقل و حمل ممکن بنائی گئی۔

مغل دور (1526–1857): مغل دور میں بیل گاڑی نے نقل و حمل کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر مزید ترقی کی۔ بڑی سڑکوں اور راستوں کی تعمیر کے بعد بیل گاڑیوں کا استعمال زیادہ ہو گیا، خاص طور پر لمبے سفر اور بھاری سامان کی نقل و حمل کے لیے۔

19ویں اور 20ویں صدی: برطانوی دور حکومت میں، جبکہ ریل اور سڑکوں کی جدید سہولیات متعارف کروائی گئیں، بیل گاڑی کا استعمال دیہی علاقوں میں جاری رہا۔ برطانوی افسران اکثر دور دراز دیہاتوں کے دوروں کے لیے بیل گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے۔

20ویں صدی کے آخر اور 21ویں صدی: جدید دور میں ٹریکٹر اور دیگر زرعی مشینری کے آنے کے بعد، بیل گاڑی کا استعمال کم ہو گیا۔ لیکن آج بھی، دیہی علاقوں میں، خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے کچھ حصوں میں، بیل گاڑی کا استعمال دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر زرعی کاموں اور مقامی نقل و حمل کے لیے۔

بیل گاڑی برصغیر کی تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ رہی ہے، اور آج بھی اس کا استعمال کچھ علاقوں میں ایک روایتی اور ثقافتی علامت کے طور پر موجود ہے۔

اٹک(حافظ عبدالحمید خان سے) پروفیسر ڈاکٹر قاری تاج افسر  (ڈین شعبہ تفسیر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) بین ا...
24/08/2024

اٹک(حافظ عبدالحمید خان سے) پروفیسر ڈاکٹر قاری تاج افسر (ڈین شعبہ تفسیر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) بین الاقوامی مقابلہ حسن قرات و تحفیظ اور تفسیر قرآن ، منعقدہ مکہ مکرمہ سعودی عرب میں بطور جج شرکت کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ علماء کرام ، طلبہ اور تلامذہ نے ان کا شاندار استقبال کیا۔اس موقع پر علماء کرام اور دیگر عوامی حلقوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھچھ بھر کے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ یاد رہے کہ قاری تاج افسر نے 1990 میں مکہ مکرمہ سعودی عرب میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی مقابلہ حسن قرات میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اب ایک بار پھر بطور جج خدمات سرانجام دے کر ملک بھر خصوصاً اہل علاقہ چھچھ کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
24/08/2024

23/08/2024

اٹک ڈھیری کوٹ وقعہ کے متاثرین کے صدمے سے سنبھل نہ پائے تھے
کہ انسانیت کش عناصر دوسرا وار کرنے میں کامیاب ہو گئے
اٹک ،جنڈ کے گاؤں گلیال میں بچوں کے سکول گاڑی کے ڈرائیور پر حملہ
چھریوں کے وار کر کے ڈرائیور کو زخمی کر دیا گیا
اور حملے کی وجہ ذاتی دشمنی بتایا جا رہا ہے
اور حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے
معصوم ذہنوں پر اس کھلی دہشت گردی کے جو اثرات پڑیں گے اس کی تلافی ناممکن ہے
ہمارا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ ہے کہ حملہ آوروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے

23/08/2024

ڈھیری کوٹ کے بعد آج گلیال میں سکول وین پر حملہ ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان?
مجرموں پر دہشگردی ایکٹ لگایا جانا چاہئیے

23/08/2024

میرے اٹک کے پر امن ضلع کو کس کی نظر بد لگ گئی

جنڈ گلیال گاؤں میں سکول وین پر حملہ ہوا وجہ ڈرائیور سے ذاتی دشمنی بتائ جا رہی ہے
کل اٹک ڈھیری کوٹ والے واقعے کی وجہ سے بچوں پر بہت اثر پڑا اور والدین بھی پریشان
ذاتی دشمنی کےلئے سکول شفٹ کا وقت ہی ملا؟
بچوں میں خوف پھیلانے پر دہشت گردی کا پرچہ دیا جاۓ اور ملزمان فوری گرفتار کئے جائیں اور کڑی سے کڑی سزا دی جاۓ

پانچ ہزار سال پہلے کے جغرافیہ دان:عظیم اہرامِ مصر کا وزن بہت زیادہ ہے، جو شاید 6,000,000 ٹن یا اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ ی...
23/08/2024

پانچ ہزار سال پہلے کے جغرافیہ دان:

عظیم اہرامِ مصر کا وزن بہت زیادہ ہے، جو شاید 6,000,000 ٹن یا اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ تصور کرنا آسان ہے کہ اتنے بڑے وزن کی وجہ سے زمین نیچے دھنس سکتی تھی۔ زمین کے ایسے علاقے بہت کم ہیں جو اس قدر بھاری عمارت کو برداشت کر سکیں۔ اگر یہ اہرام بنکاک میں بنایا جاتا، تو وہاں کی مٹی دباؤ کی وجہ سے وقت کے ساتھ نیچے دھنس جاتی اور عمارت کو نقصان پہنچتا۔ مگر ہزاروں سال گزرنے کے باوجود، اور ماضی میں شدید زلزلوں کے باوجود، عظیم اہرام نے کوئی اہم دھنساؤ برداشت نہیں کیا۔

آج کل ہر معمار اپنی تعمیراتی ڈیزائن میں "دباؤ" کو مدنظر رکھتا ہے، اور جغرافیائی مطالعے اور سٹیٹک حسابات کیے جاتے ہیں تاکہ یہ یقین دہانی ہو سکے کہ عمارت مضبوط ہے۔ عام طور پر، ایک عمارت کو 100 سال میں 15 سینٹی میٹر تک دباؤ برداشت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن، عظیم اہرام نے 5,000 سال میں صرف 1.5 سینٹی میٹر سے کم دباؤ برداشت کیا ہے، جو کہ غیر معمولی ہے۔

جس جگہ پر یہ اہرام بنایا گیا تھا، اس کے انتخاب میں بہت مہارت دکھائی گئی تھی۔ تعمیراتی ماہرین نے زمین کو 230 میٹر میں ایک سینٹی میٹر کی غلطی کے ساتھ ہموار کیا۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ قدیم تہذیب کے جغرافیہ دان اور انجینئرز بہت زیادہ ماہر تھے، حالانکہ وہ سادہ آلات استعمال کرتے تھے۔

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ عظیم اہرام اس خاص جگہ پر بنایا گیا؟ کیا ممکن ہے کہ ہزاروں سال پہلے کے لوگ آج کے دور کے لوگوں سے زیادہ سمجھدار تھے، یا پھر ہمیں ان کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں معلوم؟

انتہاٸی افسوس ناک خبر😭😭😭🚨🚨اٹک🚨🚨 نیوز الرٹ۔۔۔اٹک، ڈھیری کوٹ کے علاقے میں نامعلوم افراد کی سکول وین پر فائرنگ .ابتدائی معل...
22/08/2024

انتہاٸی افسوس ناک خبر😭😭😭
🚨🚨اٹک🚨🚨 نیوز الرٹ۔۔۔

اٹک، ڈھیری کوٹ کے علاقے میں نامعلوم افراد کی سکول وین پر فائرنگ .ابتدائی معلومات کے مطابق 2 بچے جاں بحق، 5 بچے زخمی .سکول وین کا ڈرائیور بھی زخمی ہے.ریسکیو 1122 نے زخمی بچوں اور لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا۔تمام بچے 10 سے 12 سال کی عمر کے ہیں، نامعلوم افراد موقع سے فرار ہو گئے۔

21/08/2024

یونین کونسل آفس کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ بورڈ نظر سے گزرتا ہے
اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو ہمارا سسٹم ہمیشہ ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتا ہے
ہمیشہ ترقی وخوشحالی بینرز اور سائن بورڈ پر تو بڑی شد ومد سے دکھائی جاتی ہے لیکن حقیقتاً ترقی وخوشحالی چراغ لے کر بلکہ ایل آئی ڈی کے وڈے بلب کی روشنی میں بھی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی
نگران حکومت پنجاب نے شہروں کی صفائی کے بعد دیہاتوں کو گندگی سے پاک کرنے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا تھاجس کا نام "اب گاؤں چمکیں گے” ۔ مروجہ طریقے کار کے مطابق چند دیہات میں جا کر فرضی صفائی کے فوٹو سیشن کر کے ارباب اختیار کو کامیاب پروگرام کی نوید سنا دی گئی تھی۔

یاد رہے 2017 میں بھی خادم پنجاب صاف دیہات پروگرام بھی بنا تھا، جو فرضی کاروائیوں فوٹو سیشن اور خصوصی میٹنگ تک محدود رہا۔

اب گاؤں چمکیں گے۔ پروگرام کے لئے حلقہ پٹواری ، یونین کونسل کا سیکرٹری اور گاؤں کا نمبردار ہر گھر سے 50 روپے دوکان 200 روپے مارکیٹ، میرج ہال 1000 روپے جبکہ چھوٹے یونٹ فیکٹری سے 2000 روپے ماہانہ وصول کر کے اس پروگرام چلایا گیاتھا، ہر یونین کونسل ایک لوڈر رکشہ اور تین خاکروب صفائی کے لیے مامور کیئےگے تھے
جو کہ عوام کے ساتھ بہت بڑا مذاق تھا کہ پوری یونین کونسل دس سے بارہ گاؤں کے لیئے تین خاکروپ

محکمہ بلدیات پنجاب نے ’اب گاؤں چمکیں گے‘ منصوبے سے 10 کروڑ (100 ملین) روپے کا ریونیو اکٹھا کرلیا تھا، یہ رقم دیہات میں بلدیاتی سہولیات کی فراہمی کو مزید بہتر بنانے پر خرچ کی جانی تھی
نگران حکومت تو نہ رہی لیکن عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے لگائے گئے بورڈز سلامت ہیں اور اکٹھا ہونے والا ریوینو کہاں گیا کوئی پوچھنے والا ہو تو پتہ چلے

تلاش گمشدہنام: وسیم اختر ولد غلام نبیعمر: 36 سالسکنہ محلہ شاہ نگر، نزد سنجوال بیرئیر اٹک کینٹآج مورخہ 2024-08-20 بروز من...
21/08/2024

تلاش گمشدہ
نام: وسیم اختر ولد غلام نبی
عمر: 36 سال
سکنہ محلہ شاہ نگر، نزد سنجوال بیرئیر اٹک کینٹ
آج مورخہ 2024-08-20 بروز منگل صبح 8:00 بجے گھر سے کام کے لیے نکلا تھا لیکن کام پہ نا پہنچا، تاحال کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہے اور اس کا موبائل نمبر بھی مسلسل بند جارہا ہے۔ برائے مہربانی اگر کسی نے بھی اسے دیکھا ہو یا اس کے بارے کچھ معلومات ہوں تو نیچے دئیے گئے نمبر پہ رابطہ کریں۔شکریہ
03025612935

پاکستانی پارلیمنٹ پرچوہوں کا راجمصنف, شہزاد ملکعہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آبادپاکستان کی پارلیمان کی جانب سے اہم قانون س...
20/08/2024

پاکستانی پارلیمنٹ پرچوہوں کا راج

مصنف, شہزاد ملک
عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

پاکستان کی پارلیمان کی جانب سے اہم قانون سازی کی دستاویزات کُتر کُتر کر ضائع کرنے والے چوہوں سے چھٹکارا پانے کے لیے بالآخر مدد مانگ لی گئی ہے۔
پارلیمنٹ میں چوہوں کی موجودگی کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وزارت برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی قائمہ کمیٹی نے ایک پبلک کمیٹی کا سنہ 2008 کا ریکارڈ طلب کیا۔ لیکن جب یہ ریکارڈ ڈھونڈنے کے لیے حکام ریکارڈز روم میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ریکارڈ کا زیادہ تر حصہ تو چوہے کتر چکے ہیں۔۔۔
اس معاملے کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے نوٹس میں لایا گیا اور انھوں نے اسلام آباد میں ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں ہدایات جاری کیں کہ اس کے سدباب کے لیے متعلقہ محکمے کو آگاہ کیا جائے۔
قومی اسمبلی کے ترجمان ظفر سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر چوہے پارلیمنٹ ہاؤس کے فرسٹ فلور پر ہیں جہاں کمیٹی رومز واقع ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے فرسٹ فلور میں نہ صرف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتے ہیں بلکہ مختلف وزارتوں کی قائمہ کمیٹیاں بھی یہیں بیٹھتی ہیں۔ اسی فلور پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا دفتر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کینٹین بھی موجود ہے۔
قومی اسمبلی کے ترجمان کے مطابق ’اس فلور پر چوہے اتنے موٹے تازے ہیں کہ شاید بلیاں بھی ان کو پکڑنے کے بجائے ان سے ڈر جائیں۔‘
پارلیمنٹ ہاؤس میں تعینات ایک اہلکار کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے مختلف فلورز کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لیے پلاسٹک آف پیرس کی مصنوعی چھتیں بھی بنائی گئی ہیں ’جب شام کے وقت یہاں عمومی طور پر لوگ موجود نہیں ہوتے تو چوہے ایسے دوڑتے ہیں کہ جیسے میراتھن ریس لگی ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہاں پر تعینات عملہ تو اب اس چیز کا عادی ہو چکا ہے لیکن اگر کوئی بندہ یہاں پہلی بار آتا ہے تو خوف زدہ ہو جاتا ہے۔‘
قومی اسمبلی کے ترجمان ظفر سلطان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس سے چوہوں کے خاتمے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ پارلیمنٹ ہاؤس کی دیکھ بال کی ذمہ داری سی ڈی اے کی ہے تو اس لیے انھیں اس ضمن میں ٹینڈر جاری کرنے اور اس کی بولی میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو فوری طور پر اس کام کو سونپے جانے کا کہا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سی ڈی اے نے اس ضمن میں مختلف اخبارات میں ایک اشتہار بھی دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف دو پارٹیوں نے ہی اس ٹینڈر میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

پنجروں اور بلیوں کا بھی بندوبست کریں‘
پارلیمنٹ ہاؤس میں تعینات اہلکار کے مطابق سی ڈی اے کو یہ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ وہ جس بھی کمپنی کو یہ کام دیں انھیں خصوصی ڈائریکشن دیں کہ وہ ’چوہے مار ادویات کے ساتھ ساتھ چوہوں کو پکڑنے والے پنجروں اور بلیوں کا بھی بندوبست کریں۔‘
اہلکار کے مطابق یہ بلیاں پارلیمنٹ ہاؤس کے مختلف جگہوں پر چھوڑی جائیں گی۔
لیکن پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی وہ واحد سرکاری عمارت نہیں جہاں چوہوں نے مکینوں کو جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔
سی ڈی اے کے ایک ترجمان فائق علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد میں جتنی بھی پرانی عمارتیں ہیں وہاں پر چوہوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس سے چوہوں کے خاتمے کے لیے جو 12 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے اس کا ٹینڈر حاصل کرنے والی کمپنیاں صرف ایک مرتبہ ہی کام نہیں کریں گی، بلکہ وہ پورا سال اس چوہوں کو تلف کرنے لیے ضروری اقدامات کرنے کی پابند ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے چوہوں کو ختم کرنے کے لیے بلیوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔
فائق علی کا کہنا ہے کہ یہ ٹینڈر دینے کا مقصد چوہوں کو پارلیمنٹ ہاؤس سے بھگانا ہے اور اس کے لیے جس بھی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی اسے کہا جائے گا کہ وہ گم شیٹ کا استعمال کرے۔
گم شیٹ پر کھانے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں اور جیسے ہی چوہے انھیں کھانے کے لیے لپکتے ہیں ان کے پاؤں اس شیٹ پر چپک جاتے ہیں۔
فائق علی کے مطابق گم شیٹ پر چپکنے بعد بھی چوہے دو سے تین دن تک زندہ رہ سکتے ہیں اور پھر ان کی موجودگی کی شکایت ملنے کی صورت میں دو افراد پر مشتمل ٹیم ان چوہوں کو پارلیمنٹ ہاؤس سے نکال کر کہیں دور چھوڑ دے گی۔
سی ڈی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’چوہا ایک جنگلی جانور ہے اس لیے اس کو مارنا بھی ٹھیک نہیں، اس لیے ترجیح یہ ہو گی کہ ان چوہوں کو زندہ پکڑ کر کہیں دور چھوڑ دیا جائے۔‘

  (چھٹانک پتھر)ناڑہ موڑ سے ناڑہ گاوں کی طرف سفر کریں تو مڑیالہ گاوں سے پہلے روڈ کے ساتھ ایک بڑا پتھر آپکو نظر آئے گا اس ...
20/08/2024

(چھٹانک پتھر)
ناڑہ موڑ سے ناڑہ گاوں کی طرف سفر کریں تو مڑیالہ گاوں سے پہلے روڈ کے ساتھ ایک بڑا پتھر آپکو نظر آئے گا اس پتھر کے بارے مشہور ہے کہ یہ پتھر ساتھ والی پہاڑیوں سے سرک کر روڈ پہ آ گیا تھا جس وجہ سے راستہ بند ہو گیا تھا تو گاوں والوں نے کافی تگ و دو کی لیکن پتھر جگہ سے ہل نہیں سکا کہتے ہیں کہ یہاں قریب ہی ایک شاہ زور قسم کا جوان رہتا تھا اسکو جب پتا چلا کہ پتھر ہٹانا ہے تو اس نے اترا کر کہا کہ اس پتھر کا وزن تو میرے سامنے ایک چھٹانک بھی نہیں اس شاہ زور نے اپنی طاقت سے اس پتھر کو روڈ سے دور کر دیا اور راستہ کھل گیا اس نسبت سے یہ جگہ چھٹاکی وٹا کے نام سے مشہور ہو گئی اور یہ پتھر آنے والی نسلوں کے لئیے ایک سمبل کے طور پہ محفوظ ہو گیا اس پتھر کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے اور اس گاوں کا نام چھٹاکی وٹا پڑ گیا ۔۔۔۔
آپ احباب اگر مزید اس بارے میں کچھ جانتے ہیں تو ہمارے ساتھ ضرور شیئر کیجئے گا ۔جزاک اللہ
بشکریہ
حافظ شاپنگ سنٹر ٹھٹہ

قوم "عاد : قوم عاد ایک ایسی قوم تھی جوبڑے طاقتور تھے 40 ہاتھ جتنا قد800 سے 900 سال کی عمر نہ بوڑھے ھوتےنہ بیمار ھوتے نہ ...
19/08/2024

قوم "عاد :
قوم عاد ایک ایسی قوم تھی جو
بڑے طاقتور تھے
40 ہاتھ جتنا قد
800 سے 900 سال کی عمر
نہ بوڑھے ھوتے
نہ بیمار ھوتے
نہ دانت ٹوٹتے
نہ نظر کمزور ھوتی
جوان تندرست و توانا رہتے
بس انھیں صرف موت آتی تھی
اور کچھ نہیں ھوتا تھا
صرف موت آتی تھی
ان کی طرف اللہ تعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کو بھیجا
انھوں نے ایک اللہ کی دعوت دی
اللہ کی پکڑ سے ڈرایا
مگر وہ بولے
اے ھود ! ہمارے خداوں نے تیری عقل خراب کر دی ھے
جا جا اپنے نفل پڑھ
ہمیں نہ ڈرا
ہمیں نہ ٹوک
تیرے کہنے پر کیا ہم اپنے باپ دادا کا چال چلن چھوڑ دیں گے
عقل خراب ھوگئی تیری
جا جا اپنا کام کر
آیا بڑا نیک چلن کا حاجی نمازی
تیرے کہنے پر چلیں تو ہم تو بھوکے مر جائیں
انھوں نے شرک ظلم اور گناھوں کے طوفان سے اللہ کو للکارا
تکبر اور غرور میں بد مست بولے
،
،
فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿١٥﴾
اب قوم عاد نے تو بےوجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟ (۱) کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، (۲) وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا (۳) انکار ہی کرتے رہے۔
کوئی ھے ہم سے ذیادہ طاقتور تو لاو ناں ؟
ہمیں کس سے ڈراتے ھو ؟
اللہ نے قحط بھیجا
بھوک لگی
سارا غلہ کھاگئے
مال مویشی کھا گئے
حرام پر اگئے
چوھے بلی کتے کھاگئے
سانپ کھاگئے
درخت گرا کر اسکے پتے کھا گئے
بھوک نہ مٹی
نہ بارش ھوئی نہ قطرہ گرا نہ غلہ اگا
پھر تنگ آکر اپنا ایک وفد بیت اللہ بھیجا
ان کا دستور تھا جب مصیبت آتی تو اوپر والے کو پکار اٹھتے
جب دور ھوجاتی تو اپنے بتوں کو پوجنے لگتے
بیت اللہ وفد گیا اور کہا کہ ہمارے لئے اللہ سے دعا کرو کہ بارش برسائے
اللہ نے3 بادل پیش کئے
کالا
سفید
سرخ
اللہ نے فرمایا ان میں سے ایک کا انتخاب کرو
انھوں نے آپس میں مشورہ کیا
کہ سرخ میں تو ھوا ھوتی ھے
سفید خالی ھوتا ھے
کالے میں پانی ھوتا ھے
کالا مانگو
اللہ تعالی نے کہا واپس پہنچو بادل بھیجتا ھوں
وہ خوشی خوشی واپس آئے
سب لوگ ایک میدان میں جمع ھوئے
بادل آیا
وہ ناچنے لگے کہ اب بارش ھوگی
قحط مٹے گا
کھانے کو ملے گا
کیا پتا تھا
کہ وہ بارش نہیں اللہ کا عذاب ھے
جو تم ھود سے کہتے تھے کہ
لے آ ! جس سے ہم کو ڈراتا ھے
اس بادل مین ایسی تند و تیز ھوا تھی کہ
جس نے ان کو اٹھا مارا ان کے گھر اڑا دئیے
60 ہاتھ کے قد اور لوگ تنکوں کی طرح اڑ رہے تھے
ھوا ان کے سروں کو ٹکراتی تھی اتنی زور سے ٹکراتی کہ ان کے بھیجے نکل نکل کر منہ پر لٹک گئے
بعض لوگ بھاگ کر غار میں گھس گئے کہ یہاں تو ھوا نہیں آ سکتی
مگر میرے رب کا حکم ھو کر رہتا ھے
ھوا غار میں بگولے کی طرح داخل ھوتی اور انکو باہر اٹھا کر پھینک دیتی
اللہ نے فرمایا
فھل تری من باقیہ
کیا کوئی باقی بچا ھے ؟
اللہ تعالی نے ان کو ہلاک کر کے دکھایا کہ جب تم اللہ کی اس کے رسول کی نافرمانی کروگے
اللہ تم پر ایسی جگہ سے عذاب بھیجے گا جہاں سے گمان بھی نہ ھوگا
جو گناہ قوم عاد نے کیا
کیا وہ ہم نہیں کر رہے
کیا ہم اللہ کی حدوں کا پار نہیں کر گئے
کیا ہم نے اللہ کو اپنی نافرمانی سے نہیں للکارا ھوا ھے
توبہ کرو
اللہ سے ڈرو
قرآن پڑھو
جن گناھوں کو ہم معمولی سمجھتے ہیں اللہ نے ان گناھوں پر پوری پوری قومیں زمین بوس کر دی ہیں

جنڈ مکھڈ روڈ نالہ ریسی  موڑ بجری سے بھرا 10 وہیلر ڈمپر حادثے کا شکار الحمدللہ کوئی جانی نقصان نہیں ھوا۔
19/08/2024

جنڈ مکھڈ روڈ نالہ ریسی
موڑ بجری سے بھرا 10 وہیلر ڈمپر حادثے کا شکار الحمدللہ کوئی جانی نقصان نہیں ھوا۔

13/12/2023

اٹک کی زرخیز دھرتی کی بیٹی کا بیوہ خواتین کو سکلز دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور دستِ سوال کی شرمندگی سے بچا کر باعزت روزگار دینے کی عظیم کاوش دیکھیں اس ویڈیو میں

12/12/2023

ناظرین
_سردی سے بچنے کے لیے
ایک دوسرے سے جلتے رہیں۔😜

.                               شتر مرغی کا انڈہ               انڈہ  پہلے آیا یا مرغی، سنتے ہیں کہ سیانے صدیوں سے اس مخم...
12/12/2023

. شتر مرغی کا انڈہ

انڈہ پہلے آیا یا مرغی، سنتے ہیں کہ سیانے صدیوں سے اس مخمصے میں ہیں. سیانوں کی ایسی حرکتیں دیکھ کر بعض اوقات تو لگتا ہے، ایام ہائے گذشتہ میں سیانے کی ڈگری بھی کسی آنلائن یونیورسٹی سے حاصل کی جاتی تھی. یا یہ گمان ہوتا ہے کہ کسی کو سیانا قرار دینے کا نظام اس دور میں بھی افسرشاہی کے پاس رہا ہو. حالانکہ سادہ سی بات ہے اگر انڈہ پہلے آیا تو اس پر بیٹھا کون تھا. ویسے کسی سیانے کاقول ہے کہ وہ سیانا ہی کیا ہوا جو سادہ سی بات کو سادہ رہنے دے. کہ کسی سادہ بندہ کی سمجھ میں آجائے. اور یہ بھی کسی سیانے نے ہی کہا ہے کہ جب تک سادہ سی بات کو مشکل نہ کردیں سادہ لوگ دھیان ہی نہیں دیتے.

سیانوں نے انڈوں کی بابت تاریخ میں اور بھی کئی خورد برد کررکھے ہیں. مثال کے طور پر مرغی، مچھلی، بطخ، فاختہ، کوئل یہاں تک کہ کوی اور کبوتری تک کے متعلق مشہور کررکھا ہے کہ وہ یعنی مادائیں انڈے دیتی ہیں. انہیں سیتی ہیں، اور جب بات آتی ہے شترمرغ کی تو سب کہتے ہیں شترمرغ کا انڈہ. کبھی کسی سیانے کو توفیق نہیں ہوئی کہ تردیدی بیان دے کہ نہیں بھائی یہ بھی شترمرغی کا انڈہ ہے. کبھی سنا پڑھا ہو تو کہیے. اصل میں یہ سیانے مان کر ہی نہیں دیتے کہ کوئی مادہ اتنا… بڑا… کارنامہ بھی سر انجام دے سکتی ہے. سیدھا سیدھا صنفی امتیاز کا معاملہ ہے. اور وجہ اس کی شاید یہی کہ سیانوں نے آج تک کسی عورت کو "سیانی" کی ڈگری جاری ہی نہیں کی. خود سوچیں اگر ہوتی تو لوگ یوں نہ کہتے… کسی سیانی کا قول ہے…. گویا صنفی امتیاز کا ایک اور کیس. ہماری تمام تر ہمدردیاں تحریک حقوق نسواں کے ساتھ ہیں. بلکہ صلاح ہے کہ آئندہ یوم نسواں کے احتجاج میں دو کتبے اس بابت بھی شامل کریں. جن پر لکھا ہو 'شترمرغی کوعزت دو' اور 'میں آپ سیانی' وغیرہ وغیرہ

قابل خرگوشوی صاحب کا مانناہے کہ انڈہ ایک مکمل غذا ہے. اس میں, نشاستہ، لحمیات، حیاتین، اور نمکیات کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو انسانوں کیلئے زبردست مفید ہے. ان کا نکتہ نظر ہے کہ اس قیمت میں کوئی دوسرا ایسا زبردست غذائی پیکیج ملنا ناممکن ہے. لوگوں کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے اسکا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں. مایوس دقیانوسی کو مگر اختلاف رہتا ہے. وہ کہتے ہیں جناب یہ تو آپکا نکتہ نظر ہے مگر کبھی انڈے کو نالائق طالبعموں، پاکستانی بلے بازوں یا مرغیوں کے نکتہ نظرسے بھی دیکھ لیا کریں. ہوسکتا ہے انکے لئے یہ زیادہ فرحت بخش تجربہ نہ رہا ہو.

گو بہت سے دکاندار اور اساتذہ بھی بکثرت انڈے دیتے پائے گئے ہیں، پھر بھی مگر زیادہ انڈے پرندے ہی دیتے ہیں. اس کی سب سے بڑی وجہ تو شاید یہی ہے کہ وہ اگر انڈے نہ دیں تو پھر کیا دیں. اب ظاہر ہے وہ قرض تو دینے سے رہے. اور بالفرض اگر وہ انڈوں کی جگہ قرض دینا بھی شروع کردیں تو بنک والے پھر کیا دیا کریں گے. کیونکہ یہ تو طے ہے کہ بنک والے انڈے نہیں دے سکتے. اسی طرح اگر پرندوں سے انڈے دینے کی ذمہ داری لیکر جانوروں کو تفویض کردی جائے تو بھی بڑی گڑبڑ ہوگی. سوچیں وہ انڈہ کس شے سے بنا ہوگا جس پر ہتھنی بیٹھ کر سیتے گی. کم از کم اتفاق سٹیل کا.اور اتفاق سے اتفاق تو اٹھ ہی گیا ہے دنیا سے اور اتفاق سٹیل بھی. سائنسدانوں کا ویسے خیال ہے کہ ڈائنوسار انڈے ہی دیا کرتے تھے. اسی لیے ختم بھی تو ہوگئے نا، یہ ہمارا جوابی خیال ہے. یقیناً آدھی ڈائنوسارنیاں انڈے دیتے ہوئے مرجاتی ہوں گی اور آدھے انڈے انکے کے بیٹھنے سے ٹوٹ جاتے ہوں گے.

مرغی کا انڈہ روزانہ کھانے سے انسان کا رنگ لال سرخ ہو جاتا ہے. کیونکہ اس میں لحمیات اور حیاتین ہوتے ہیں. مگر جو انڈے اساتذہ دیتے ہیں. ان میں نہ لحمیات ہوتے ہیں نہ حیاتین.. پھر بھی جسکو ملتا ہے اس کے پہلے کان لال ہوتے ہیں، پھر چہرہ، پھر ہاتھ اور پھر تشریف. اور یہ استاد بھی بڑے استاد ہوتے ہیں . جس کو انڈہ دیتے اسی کو پھر مرغا بھی بناتے ہیں. یوں تعلیم کے زور پر ثابت کرتے ہیں کہ انڈے اور مرغ کا تعلق مضبوط ہی نہیں کثیر الجہت بھی ہے. انڈوں کی ایک اہم قسم ہوتی ہے گندا انڈہ. تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سب انڈے پہلے اچھے ہوتے ہیں تاہم ان میں سے کچھ آہستہ گندے انڈے بن جاتے ہیں. اس عمل میں خراب ماحول بنیادی کردار ادا کرتا ہے. گندے انڈے زیادہ تر کیک اور حکومت بنانے کے کام آتے ہیں.

کہتے ہیں انڈہ باہر سے ٹوٹے تو موت اور اندر سے ٹوٹے تو حیات کا مظہر ہے. اپنی طرف سے بڑی فلسفیانہ بات کی ہے. حالانکہ دانت بھی اگر باہر سے ٹوٹے تو موت ہی پڑتی ہے. نہیں یقین تو کسی سے تڑوا کردیکھ لیں. سائنسدانوں نے کھوج لگایا ہے کہ انڈے کے چھلکے میں کیلشیم ہوتا ہے. اور ہم نے کھوج لگایا کہ جس میں چیز میں کیلشیم کی زیادتی ہو وہ سفید ہوجاتی ہے جیسے انڈے کے چھلکے، دانت، ہڈیاں اور چونا وغیرہ. ادھر حکیم درمیانے خاں صاحب کا کھوج ہے کہ لڑکیوں کا زیادہ سفید رنگ کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے. دیسی مرغی کے انڈے ویسے سفید نہیں ہوتے. حالانکہ ان میں کیلشیم کی کمی بھی نہیں ہوتی . دیسی لوگوں میں البتہ تعلیم اور اعتماد کی کمی ضرور ہوتی ہے. ماہرین بتاتے ہیں کہ دیسی مرغی سال میں سو سے ڈیڑھ سو انڈے دیتی ہیں اور ولائتی تین سو سے زائد. لیکن ماہرین یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ کمبخت سارے دیسی ہر کام میں پیچھے کیوں ہیں.

حکیم درمیانے خاں صاحب سے ہم نے ایک روز پوچھا.. کہ یہ اطباء بھی شاید سیانے ہی تھے. کہ اچھے بھلے مرغی کے انڈے کو 'بیضہ مرغ' بنادیا. مجال ہے جو کسی حکمت کی کتاب میں مرغی کا انڈہ لکھا ہو. آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بنی نوع مرغی کے ساتھ زیادتی ہے. کہ مرغ کاہل نے تو آج تک بانگ کے سوا کچھ دیا ہی نہیں. کہنے لگے بھئی جب متاثرہ فریق کو اعتراض نہیں تو پھر آپ کون ہوتے ہیں احتجاج کرنے والے. انڈے سے زیادہ انسانوں کے لیے کیا چیز مفید ہے. ہم نے اگلا سوال پوچھا.. کہنے لگے ابلا ہوا انڈہ.

(ابن فاضل)

12/12/2023

کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے

تحریر مکمل پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ لامحالا آپ کی زبان سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی،، کیونکہ میں جس چیز کی طرف آپ ل...
11/12/2023

تحریر مکمل پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ لامحالا آپ کی زبان سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی،، کیونکہ میں جس چیز کی طرف آپ لوگوں کو لے جانے والا ہوں،،،،،،، وہ حیرانگی کا ایک سمندر ہے۔۔۔ آپ خود مان لیں گے کہ ہم کچھ بھی نہیں، آپ خود اقرار کرلیں گے کہ "کاٸنات" میں ہماری کوٸی اوقات نہیں،، اور صرف ہماری نہیں بل کہ ہماری وہ ٹیکنالوجی بھی اسکے اگے بالکل زیرو ہے جس پر ہم فخر کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ ان انجنٸیرز سے نامید ہوجاٸیں گے جن پر فخر کرتے چلے آرہے ہیں، گو کہ میں مالک کاٸنات کے ایک چھوٹے سے جلوے کا ذکر کرنے والا ہوں۔۔ اور امید رکھتا ہوں کہ زیر نظر تحریر پڑھ کر اس ذات کی کمالات "عالیہ" اور قدرت ہاٸے کاملہ پر ہمارا ایمان مظبوط سے مضبوط تر ہوگا۔

اس وقت زمین سے 420 کلو میٹر دور خلا میں امریکہ اور چین کے کچھ ایسے لوگ موجود ہیں،،،،،، جو زمین کے اردگرد فری گھوم رہے ہیں۔۔۔ جی ہاں آپ نے بالکل صحیح پڑھا، میں انٹرنيشنل اسپیس اسٹیشن ISS کی بات کررہا ہوں ہم جب بندوق سے "فاٸرنگ" کرتے ہیں تو وہ "گولی" ایک سیکنڈ میں زیادہ سے زیادہ ایک دو کلو میٹر تک دور چلی جاتی ہے یعنی اگر بندوق بالکل سیدھی آسمان کیطرف کرکے فاٸرنگ کردیں۔ تو وہ گولی ایک دو کلو میٹر اوپر تک جا کر پھر واپس زمین پر آگرے گی، کیونکہ زمین "گولی" پر برابر فورس لگارہی ہے۔ جس کو ساٸنس کی زبان میں "گریوٹیشن فورس" کہتے ہیں۔

ہم جو بھی چیز اوپر کی طرف پھینکتے ہیں وہ نیچے واپس آکر گرجاتی ہے۔۔۔۔ لیکن اگر ہم کسی ایسی بندوق سے فاٸرنگ کردیں جس سے نکلی ہوئی "گولی" گیارہ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑ لے،،،،،،، تو وہ زمین پر کبھی واپس نہیں آئیگی کیونکہ یہ زمین کی اسکیپ ولاسٹی ہے،، اور اسی رفتار سے ہی زمین کی کشش سے باہر "نکلا" جا سکتا ہے۔۔۔ اس سے کم رفتار پر ہم چاہتے ہوٸے بھی "زمین" کی"کشش" سے خود کو آزاد نہیں کراسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ ناسا والے جب "ISS" کے لیے خلاباز Astronauts یا خوراک وغیرہ بھیجتے ہیں، تو انکے خلاٸی جہاز کا رفتار اس قدر بڑھا دیتے ہیں،،،،،،،، جو اسے زمین کی کشش آزاد کرانے کے لئے کافی ہو۔۔ اب یہ تو صرف زمین سے باہر نکلنے کی بات ہوگٸی۔اگر سولر سسٹم سے باہر نکلنا ہو تو اسکےلئے ہمیں تقریبا 42 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑنی ہوگی اور یہی سولر سسٹم کی اسکیپ ولاسٹی ہے۔

ناسا اور "اسپیس ایکس" کمپنی کے ساتھ جو خلاٸی گاڑیاں ہیں وہ ابھی تک اس قابل نہیں کہ یہ رفتار پکڑ لیں، کیونکہ ایک سیکنڈ میں 42 کلو میٹر تک "جانا" کوٸی "مذاق" نہیں، اسی طرح اگر ہمیں اپنی کہکشاں ملکی وے سے باہر نکلنا ہو تو اس کے لئے ہمیں 550 کومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑنی ہوگی۔اگر ہم نظام شمسی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو بھی گٸے، تو ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنا نہ صرف آج ناممکن ہے بلکہ ہزار سال بعد بھی اس کا تصور کرنا محال ہے کیونکہ آج کل جو جدید "اسپیس کرافٹس" ہیں وہ 50 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار تک بھی نہیں پہنچ پاٸے ہیں یعنی ہم ملکی وے کہکشاں کے اندر بند ہیں۔۔۔۔۔ اور رہیں گے۔ پھر ملکی وے کہکشاں لوکل گروپ کلسٹر کے اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لوکل گروپ کلسٹر کو پھر ورگو سپر کلسٹر نے گھیر رکھا ہے۔

ناسا ماہرین کے مطابق پوری کاٸنات میں تقریبا دو ہزار ارب کہکشائیں موجود ہیں۔اور ان بیس ارب کہکشاٶں میں ملکی وے کہکشاں( جس میں ہم رہتے ہیں) ایک درمیانی ساٸز کی کہکشاں ہے۔۔ ملکی وے کہکشاں میں تقریبا چار بلین ستارے موجود ہیں،، جن میں ایک ہمارا سورج بھی ہے۔ پوری کاٸنات میں 24 اکٹیلین سے زیادہ ستارے ہیں،، اگر ایک سال کا بچہ کھانے پینے اورسوۓ بغیر "کاٸنات" میں موجود ستارے گننے لگے تو یہی بچہ گنتے گنتے ساٹھ ٦٠ سال کی "عمر" تک پہنچ جاٸے گا۔ لیکن "کاٸنات" میں پاٸے جانے والے ستارے گن نہیں پاٸے گا،،،، کیونکہ "کاٸنات" میں "ستاروں" کی تعداد زمین پر موجود ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہے۔

کیا ناسا کی(خلائی گاڑیوں) نے کبھی نظام شمسی اور ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے ؟؟؟ یہ سوال واقعی بنتا ہے۔ تو اس کا جواب ہے کہ ''ہاں'' اس وقت امریکہ کے چار مشنز سولر سسٹم سے باہر ہونے کو ہیں،، جی ہاں آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا۔

میں دراصل واٸجر ون، واٸجر ٹو، پاٸنیر دس اور پاٸنیرگیارہ کی بات کررہا ہوں۔ تازہ ترین اپڈیٹ کے مطابق وائجر ون اور ٹو اس وقت "سولر سسٹم" کے آخری کناروں پر ہیں،،،، ان کے پیچھے پیچھے، پائنیر دس اور پائنیر گیارہ بھی سولر سسٹم سے باہر نکلنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔چاروں اسپیس گاڑیوں کی رفتار ناقابل یقین حد تک پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واٸجر ون اس وقت 17 کلو میٹر فی سیکنڈ، واٸجر ٹو 15 کلومیٹر فی سیکنڈ،،،،،،، پاٸینرز دس اسپیس کرافٹس 11.2 کلو میٹر فی سیکنڈ اور پاٸینرز گیارہ 36 کلو میٹر فی سیکنڈ کی "رفتار" سے رواں دواں ہے۔۔۔ یہ چاروں مشنز ہر بیس گھنٹے بعد ناسا کو ابڈیٹ دے رہی ہیں۔۔۔۔ ناسا کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ واٸجر ون سولر سسٹم سے باہر ہوگیا ہے،،،، واٸجر ون ہم سے اتنا دور جا چکا ہے، کہ اس کے بھیجے ہوٸے سگنلز 22 گھنٹے بعد ہی زمین پر پہنچتے ہیں۔۔۔۔ اس سے آپ اندازہ لگاٸیں کہ واٸجر ون اس وقت کہاں ہوگا ؟ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہی چاروں 4 اسپیس گاڑیاں ہماری ملکی وے کہکشاں سے باہر نکل پاٸیں گی تو ایسا سوچنا بھی نہیں،، کیوں کہ ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنے کے لٸے لاکھوں اربوں سال درکار ہونگے۔

ہم اس قدر "بے بس" ہیں کہ دو ہزار ارب کے قریب کہکشاٶں میں صرف ایک "درمیانی" ساٸز کی "کہکشاں" سے ابھی نکل نہیں سکے ہیں،،،، "کاٸنات" سے نکلنا تو دور کی بات ہے۔ ناسا فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ "وائجر ون" کا رخ ہمارے قریبی ستارے پروکسما سنٹوری کی طرف ہے۔۔۔ یعنی واٸجر ون 45 سالوں سے مسلسل "پروکسما سنٹوری" ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ واٸجر ون اسپس کرافٹ اگلے چند سو سالوں میں وہاں پہنچ جاٸے گا، تو اسکا جواب ہے کہ نہیں کیونکہ مکمل "کلکولیشن" سے پتا چلتا ہے کہ "واٸجر ون" وہاں اگلے ستر ہزار سال میں پہنچے گا۔۔ میں پھر دہراتا چلوں کہ ستر سال نہیں بل کہ ستر ہزار سال۔ جب کہ واٸجر ٹو بھی واٸجر وان کا پھیچا کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس طرح پائنیر دس ایک Aldebaran نامی ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ تقریباً بیس لاکھ سالوں کے بعد وہاں پہنچے گا۔

اس کے علاوہ پاٸنیر گیارہ جس ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے وہ ہم سے بہت ہی دوری پر واقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ مذکورہ اسپیس کرافٹ اپنے قریبی ستارے تک چالیس لاکھ سال کے بعد ہی پہنچ پاٸے گا۔۔۔۔۔ لیکن کیا یہ صحیح سلامت وہاں تک پہنچ پاٸے گا، اس سلسلے میں وثوق سے کچھ نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہاں سے "ریڈیو" سگنلز وصول ہونے میں دشواری پیش آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ ہمارے قریبی ستارے ہیں۔۔ جہاں تک ان اسپیس کرافٹس کو پہنچے میں اتنا لمبا عرصہ درکار ہے۔ جبکہ یہ وہ ستارے ہیں۔ جو ٹیلی سکوپ کے بغیر ہی "زمین" کے مختلف "پوزیشن" پر بڑی اسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ملکی وے سے نکلنے کے لٸے ان "اسپیس کرافٹس" کو کم از کم ایک ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ کی ولاسٹی چاہیے،،،، جب کہ اتنی زیادہ سپیڈ حاصل کرنے کے لئے ان اسپیس کرافٹس کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔۔۔ مطلب یہ کہ مذکورہ اسپیس کرافٹس کبھی بھی ملکی وے کہکشاں سے نہیں نکل سکیں گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

تحریر Tehsin Ullah Khan

Address

Attock

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when All About Attock posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to All About Attock:

Videos

Share