All About Attock

All About Attock تاریخ،تاریخی مقامات، لوک ورثہ، ثقافت،زراعت،باغبانی،مویشی پالنا،کاروبار،اٹک کا ٹیلنٹ،غربت سے کامیابی تک کی کہانیاں،

دنیا میں ترقی ریل سے شروع نہیں ہوئی۔ ریل کی پٹری تو بہت پہلے ہی بچھ چکی تھی۔ ترقی کی رفتار میں اہم کردار پہیے اور ریل کی...
25/01/2025

دنیا میں ترقی ریل سے شروع نہیں ہوئی۔ ریل کی پٹری تو بہت پہلے ہی بچھ چکی تھی۔ ترقی کی رفتار میں اہم کردار پہیے اور ریل کی پٹری نے ضرور ادا کیا مگر بہت سے مسائل تو رہے اور ذرائع نقل و حمل میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔ ریل کی پٹری بچھ گئی۔ اس پر چھوٹے ڈبے بھی بنا دئیے گئے جن کو تیز رفتار گھوڑے کھنچتے تھے۔ پہاڑوں سے کوئلہ نکالنا ہو یا دوسری معدنیات کو نکالنا مقصد ہو، ریل کی پٹری بچھائی جاتی جسے مضبوط آدمی کھینچا کرتے تھے۔ مشینی ترقی کو پہیئے تب لگے جب بھاپ ایجاد ہوئی۔ خدا نے بھی کیا کیا سوچ انسان کو بخشی ہے۔ یہاں کسی نےچائے کا پانی کیتلی پر چڑھایا اور اس کی ٹونٹی سے بھاپ نکلنے لگی۔ سائنس دان آدمی تھا۔ بیچارے کو اپنے کسی تجربے کے لیے خاموشی کی ضرورت ہو گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ تخلیقی کاموں کے لیے تنہائی درکار ہوتی ہے۔ ایک تنہا انسان ہی ایک اچھا تخلیق کار ہو سکتا ہے۔ خواہ وہ مصور ہو، سائنس دان ہو، کوئی اچھا ادب تخلیق کرنا ہو یا پھر کسی نئی روح کی تخلیق ہو۔ اگر آپ اپنی ذات سے لطف اندوز ہونا نہیں جانتے، تنہائی کے لطف سے واقف نہیں تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ ایک تخلیق کار ہو سکتے ہیں۔ وہ بیچارہ سائنس دان بھی اسی لئے تنہائی میں کچھ کام کر رہا ہو گا کہ چائے کی طلب نے اسے پانی کی کیتلی چولہے پر رکھنے پر مجبور کیا۔ ٹونٹی سے بھاپ نکلی تو بھاپ کے شور نے اس سائنس دان کے تخیل کو پریشان کیا ہو گا۔ بھاپ کے شور کو ختم کرنے کے لیے اس غریب اور معصوم انسان نے کیتلی کی ٹونٹی کو بھی ڈھانپ دیا جس سے کیتلی کا ڈھکن اوپر کو اٹھنے لگا۔ سائنس دان آدمی تھا، میری طرح کا نکما انجنئیر تھوڑا تھا۔ فوراً متوجہ ہوا کہ بھاپ میں اتنی طاقت ہے کہ کیتلی کے ڈھکن کو اوپر اٹھا سکے۔ پس وہی دن انسان کی ترقی کا اہم دن ٹھہرا اور یوں انجن کی ایجاد کی طرف پہلا قدم اٹھا۔
ایک عرصہ تک بھاپ سے چلنے والا انجن کمروں میں ہی بند رہا۔ صنعتی کام تو دے رہا تھا مگر بیچارہ کھلی فضاؤں میں سانس نہ لے سکا۔ بھلا ہو انیسویں صدی کے امریکی انجینئر رابرٹ فولٹن کا جس نے انجن کو ایک بحری کشتی میں نصب کیا اور اس کا پہیہ گھومانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کشتی کو چلانے والے انجن پر نظریں ایک انگریز انجینیر جارج سٹیفن نے گاڑھ لیں۔ جارج بھی میری طرح بڑا ہی کوئی حاسد قسم کا انسان تھا۔ دوسروں کی کامیابیوں سے بڑا ہی حسد کرتا تھا مگر اس کا حسد منفی نوعیت کا نہ تھا بلکہ وہ بھی میری طرح حسد کو ایک مثبت شے کے طور پر لیتا تھا۔ جارج نے جب انجن کو کشتی پر یوں سیر سپاٹے کرتے دیکھا تو من ہی من میں ٹھان لی کہ وہ انجن کو پانیوں سے نکال کر زمین پر لائے گا اور اس کے مدد سے مختلف چیزوں کو دوڑائے گا۔ تجربات ہونے لگے، نئے نئے ماڈل بننے لگے۔ ریل کی پٹری تو پہلے سے ہی تھی مگر چوں کہ انھیں صرف گھوڑے کھنچتے تھے ، اس لئے ان کی رفتار تو کم ہی تھی مگر مضبوطی بھی زیادہ نہ تھی۔ انجن کے لئے نئی فولادی اور مضبوط پٹری کو بچھایا گیا اور ایسی ریل کار بنا لی گئی جو بھاپ سے چلنے والے انجن سے چلتی تھی مگر شروع شروع میں ابھی اسے صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا تھا۔ مگر جلد ہی تقریباً 1830 میں جارج نے پہلی بار تاجِ برطانیہ کے دو بڑے شہروں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان ایک باقاعدہ نظام کے تحت مسافر گاڑی چلا دی جس کی ابتدائی رفتار تقریباً ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس کے بعد کیا امریکہ، کیا افریقہ ہر جگہ بس بھاپ اڑاتا ہوا انجن اپنے پیچھے چند ڈبوں کو لے کر گھومتا رہتا۔ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے ہونے لگا اور دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں۔ ریل اور ترقی کا سفر ایک ساتھ چلتا رہا مگر جب پیسوں سے پیٹ کافی حد تک بھر گیا تو ماحول سے دوستی کا بھی خیال آیا۔ سوچ آئی کہ کوئلہ انجن کو تو چلا رہا تھا مگر اس سے بننے والا کالا دھواں ماحول کو شدید متاثر کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو ریل کو بجلی سے چلانے کا فیصلہ ہوا مگر بعد میں انجن صاحب کو وزنی بیٹریوں سے بھی چلایا گیا مگر ریل کی رفتار زیادہ نہ ہو سکی۔ واضح رہے کہ ریلوے انجن کو لوکو موٹیو Locomotive، بھاپ سے چلنے والے انجن کو اسٹیم لوکو موٹیو اور برقی انجن کو الیکڑک لوکو موٹیو کہا جاتا ہے مگر ہم سادہ بندے صرف انجن کے لفظ سے ہی گزارا کریں گے۔
ریل کی پٹریوں پر بھاپ سے چلنے والا اور برقی انجن تو چل ہی رہا تھا کہ اسی دوڑ میں 1912 میں ڈیزل انجن بھی شامل ہو گیا۔ رفتہ رفتہ تجربات سے ثابت ہونے لگا کہ یہی ڈیزل انجن ہی سب سے بہتر اور تیز رفتار انجن ہے۔ دوسرے انجن خاص کر بھاپ سے چلنے والے انجن کو آہستہ آہستہ متروک کر دیا گیا۔ بھاپ سے چلنے والے انجن کی سیٹی کہیں گم سی ہو گئی اور اب ڈیزل انجن ہی ہر جگہ دنداناتے پھرتے ہیں۔
انگریز جب ساری دنیا میں اپنے اسٹیم انجن کی بدولت اپنا منہ کالا کروا چکے تو چپ کے سے سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتوحات کسی بھی صورت ممکن نہ تھیں اگر انھیں اندر سے تعاون فراہم نہ ہوتا۔ میسور کے ٹیپو سلطان سے لے کر پنجاب کے سکھ حکمران ، سب اپنوں کی سازش کا شکار ہوئے اور یوں انگریز برسر اقتدار آئے اور اپنے ساتھ کالا دھواں چھوڑنے والا کالا انجن بھی لائے۔ وجہ عوام کی سہولت تو نہ تھی مگر اپنی فوجی نقل و حمل ضرور آسان اور مضبوط بنانا تھی۔ اگرچہ کہ بعد میں یہی ریل عوام کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوئی بلکہ ہو رہی ہے۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو ریل کا نظام تو دور کی بات ہے ، مناسب سڑکیں تک نہ تھیں۔ انھوں نے سڑک پر توجہ دینے کی بجائے ریل پر توجہ مرکوز کی اور علاقے پر علاقے فتح کرتے چلے گئے۔ پہلی ریلوے لائن بمبئی سے "تھانے" کے درمیان چلائی گئی جب کہ آپسی فاصلہ 34 کلومیٹر کا تھا۔ پٹری کی چوڑائی پانچ فٹ چھ انچ رکھی گئی اور مزید پٹریوں کے لیے یہی معیار مقرر کیا گیا مگر بعد میں اس سے تنگ پٹریاں بھی اکثر علاقوں میں بچھائی گئیں جنھیں میٹر گیج اور نیرو گیج کا نام دیا گیا۔ پہلی مسافر ریل گاڑی کے بارے دل چسپ بات یہ بھی تھی کہ اس کی چار سو مسافروں کے لئے تیرہ ڈبے تھے اور ان تیرہ ڈبوں کو تین انجن کھینچ رہے تھے۔ تینوں انجنوں کے نام بھی رکھے گئے تھے جو صاحب ، سلطان اور سندھو تھے۔ ہے ناں یہ دل چسپ بات۔
ایک بار جب ریل گاڑی ہندوستان میں چلنا شروع ہوئی تو پھر نہ انگریز رکے اور نہ ہی ان کی ریل۔ دریاؤں ، نہروں پر پُل تعمیر ہونے لگے۔ انگریز طورخم اور چمن کے راستے ریل کو افغانستان میں لے گئے جب کہ ان کا منصوبہ تھا کہ ہندوستان کو ریل کے ذریعے برطانیہ سے ملا دیا جائے۔ ان تمام منصوبوں پر تیزی سے کام جاری تھا کہ جرمنی میں ہٹلر کو نہ جانے کیا مستی سوجھی کہ اس نے جنگِ عظیم دوم چھیڑ دی۔ انگریز اور اس کے اتحادیوں کو ناک و چنے چبو ڈالے۔ چند ہی دنوں میں پورے کا پورا یورپ ہڑپ کر گیا مگر اس قدر بے وقوف اور لا علم تھا کہ شدید سردیوں میں روس پر حملہ کر دیا۔ وہاں ایسا پھنسا کہ پھر نکل نہ سکا۔ اگرچہ کہ ہٹلر ہار گیا مگر اس نے انگریزوں کا اچھا خاصا نقصان کر دیا۔ رہی سہی کسر جنگِ عظیم دوم نے پوری کر دی۔ اتحادی ایٹم بم کی بدولت جنگ تو جیت گئے مگر انگریزوں کا اس قدر نقصان ہو چکا تھا کہ انھیں نہ صرف ہندوستان سے نکلنا پڑا بلکہ اور بھی بہت سے علاقے انھیں اس وقت حالی کرنا پڑے۔ انگریزوں نے چودہ اگست 1947 کو ہندوستان آزاد اور تقسیم کر دیا۔ تقسیم کے وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں آٹھ ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود تھی جس میں الحمدللہ ہم نے آج تک ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں کیا جب کہ دوسری جانب بھارت میں یہ باسٹھ ہزار کلو میٹر تھی جسے وہ اب تقریباً دو گنا کر چکے ہیں۔ آج روس اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ریلوے بھارت کے پاس ہے۔ بھارت نے نا صرف اپنی مسافر گاڑیوں بلکہ مال بردار گاڑیوں پر بھی محنت کی جب کہ ہماری حکومتوں نے ریل کی بجائے سڑک پر محنت کی۔ جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی گئی، ریلوے کو نقصان پہنچایا گیا اور رفتہ رفتہ ریلوے لائن خالی ہونے لگیں۔دنیا بھر میں جہاں مال گاڑیوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کو سب سے محفوظ اور سستا ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، وہیں ہمارے یہاں مہنگا رحجان ہے کہ مال گاڑیوں کی ترسیل بھی ٹرکوں اور ٹریلروں سے ہوتی ہے۔ ہم وہ عظیم لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہر ادارے کو تباہ کیا ہے۔ کسی دوسرے کو ہمیں نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ریل کے بارے میں دی گئی معلومات محمد سعید جاوید صاحب کی کتاب " ریل کی جادو نگری" سے لی گئی ہیں۔

لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابراہام نے انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کے لئیے نزع کے شکار لوگوں پر پانج سال میں بارہ سو تجربے کیے....
24/01/2025

لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابراہام نے انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کے لئیے نزع کے شکار لوگوں پر پانج سال میں بارہ سو تجربے کیے.
اس سلسلے میں اس نے شیشے کے باکس کا ایک انتھائی حساس ترازو بنایا، وہ مریض کو اس ترازو پر لٹاتا، مریض کی پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا، ان کے جسم کا وزن کرتا ہے اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا ہے مرنے کے فوراً بعد اس کا وزن نوٹ کرتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہام نے سینکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیا کہ...
"انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے"

ابراہام کا کہنا تھا کہ انسانی روح اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، کھدروں، درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے، موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور انسان فوت ہوجاتا ہے ۔۔۔!!
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ 21 گرام کتنے ہوتے ہیں۔۔؟؟
21 گرام لوہے کے 14چھوٹے سے دانے ہوتے ہیں ، ایک ٹماٹر ،پیاز کی ایک پرت، ریت کی چھہ چٹکیاں اور پانج ٹشو پیپر ہوتے ہیں۔۔
یہ ھے ہماری اور آپ کی اوقات
لیکن...
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روح کا وزن 21 گرام ہے تو ان 21 گراموں میں ہماری خواھشوں کا وزن کتنا ہے؟؟؟
اس میں ہماری نفرتیں، لالچ، ہیراپھیری، چالاکی، سازشیں، ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے غرور کا وزن کتنا ھے...؟

اپنا تراپتراپ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا ایک دُور کا قصبہ ہے اور غالباً تحصیل جنڈ کا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ تراپ دریاے سواں کی ...
23/01/2025

اپنا تراپ

تراپ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا ایک دُور کا قصبہ ہے اور غالباً تحصیل جنڈ کا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ تراپ دریاے سواں کی وجہ سے تراپ شمالی اور تراپ جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ دریا کے اِس پار تراپ شمالی(گاوں تراپ، اور اسکی مضافاتی ڈھوکیں) اور تراپ داخلی(گاوں امن پور اور اسکی مضافاتی ڈھوکیں) ہیں۔ جبکہ دریا کے دوسری طرف تراپ جنوبی ضلع چکوال تحصیل تلہ گنگ کا حصہ شمار ہوتا ہے جس میں ڈھوک چٹھہ، کھرمار، شمار اور علاقہ لیٹی شامل ہیں۔
تراپ شمالی حالیہ حلقہ بندی اور شماریات کے حساب سے دس ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل آبای کا قصبہ ہے جس کی وجہ شہرت پورے علاقہ بھر میں آج سے چند سال پہلے تک ایک بہترین شاپنگ پواٸنٹ تھی کیونکہ تراپ اور اسکی مضافاتی درجن بھر سے زیادہ ڈھوکیں اور گاوں امن پور، بروالہ، ڈھوک سرفراز، انجرا، کانی، ہدووالی، مکھڈ شریف، چھوٸی، نکہ افغاناں اور لکڑمار تک کے لوگ شادی بیاہ تک کی خریداری کے لیے یہاں کے مشہور تاجر مرحوم حاجی سلطان اور انکے صاحبزادوں، مرحوم حاجی عبدالرحمان اور انکے صاحبزادوں کی دکان سے کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں مگر انہی تاجروں نے انجرا کو مرکز جانتے ہوے اپنا کاروبار کا آدھا حصہ علاقاٸی عوام اور بزنس پروموشن کے لیے وہاں شفٹ کر لیا۔ تراپ میں اسوقت ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ دکاندار مختلف چھوٹے بڑے کاروبار کر رہے ہیں۔
تراپ قصبہ میں مساجد کی بات کی جاے تو پچیس سے زیادہ مساجد ہیں اور دو امام بارگاہ ہیں(تراپ میں اتحاد بین المسلمین کا بہترین نمونہ جامع مسجد بنی والی بھی موجود ہے جہاں اہلِ تسنن و اہل تشیع مل کر عبادات کرتے ہیں)۔
تراپ گورنمنٹ بواٸز ہاٸی سکول اپنی مینیجمنٹ اور اساتذہِ کرام کی وجہ سے بھی پورے علاقہ میں توجہ کا باعث رہا ہے مزید گورنمنٹ گرلز ہاٸی سکول، بنیادی مرکزِ صحت، ویٹنری ڈسپنسری کی سہولت ریاست کی طرف سے مہیا ہے جبکہ کمپیوٹراٸزڈ اراضی مرکز بھی آفیشلی فنگشنل ہونے کےقریب ہے۔ دہاٸیاں پہلے واٹر سپلاٸی سکیم کے کنوٸیں بھی مکمل واٹر سپلاٸی سسٹم کے ساتھ موجود تھے جو کہ لوکل بورنگ کیوجہ سے اب ضرورت میں نہیں رہے۔ تراپ میں بھٹو صاحب کے دور میں بنی ایک بھٹو کالونی بھی موجود ہے جو اُسوقت کے مستحقین میں غالباً پانچ مرلہ سکیم کے تحت پلاٹنگ کے دی گٸ تھی۔
تراپ چونکہ ضلع اٹک کا دور کا قصبہ ہے جس وجہ سے صحت اور تعلیم کی سہولت کی خاطر عوام کو قریب اور دور کے شہروں میں بالخصوص ضلع کے صدر مقام کی طرف ہجرت پہ مجبور کرتا رہا۔ مگر پھر بھی علاقہ کے چند مثبت سوچ کے حامل ازہان نے دامِ درمے سخنے قریب بارہ سال پہلے سماجی کاموں کی طرف اپنی مدد آپ کے تحت دھیان دیا۔ ان تمام کاوشات کی اگر فردِ واحد کو شاباش دی جاے تو مرحوم ماسٹر عبدالرحیم صاحب کے فرزند برادر احمد علی ملک کا حق بنتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے گاوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے اپنا تراپ کے نام سے ویب پیج بنا کر متعارف کرایا مگر سلسلہ روزگار ہمیشہ سے سماجی کاموں کے تسلسل میں آڑے آتا رہتا ہے۔
تراپ میں سماجی کاموں کی ابتدا کے لیے تحریکِ انسانیت تراپ(موجودہ کنسیپٹ ”اپنا تراپ“) کی چلتے پھرتے ہی بنیاد رکھ دی گٸ۔
اس پروگرام کے لیے راقم کی تجویز پہ چندہ مہم کے لیے ماہانہ بنیادوں پہ انتہای کم ڈونیشن کےلیے تحریکِ انسانیت تراپ کے نام سے ممبر شپ مہم بھی چلاٸی گٸ مگر اس سے زیادہ چند گاوں سے محبت کرنے والے اور دور کے شہروں میں بسنے والوں نے اندازے سے بڑھ کر معاونت کی جس بنا پر گرلز اور بواٸز سکول کے مستحق بچوں میں سکالر شپ جیسی معاونت، پوزیشنز ہولڈرز میں انعامات، آٹھویں گریڈ سے اگلی کلاس میں پروموٹ ہونے والی بیٹیوں میں پردے کی اہمیت کو مسلسل رکھنے لیے چادروں کی تقسیم، اطرافی ڈھوکوں سے تراپ میں خریداری کے لیے آنے والی خواتین کے لیے قصبہ کے لاری اڈہ پہ سٹیل فریمڈ شیڈ(زنانہ مسافر خانہ) کی تعمیر جیسے بنیادی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس شامل تھے۔
سال ٢٠١٥ کے بعد سی پیک کی تعمیر سے ایک حوصلہ افزا بات سامنے آٸی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ہکلہ تک کے سی پیک روٹ پر ایک انٹر چینج ہمارے قصبہ کے حصہ میں آٸی جس سے تراپ جیسے قصبے کا نام بھی ضلع اٹک کے بڑے بڑے ناموں اور دفتروں میں بھی عام ہونے لگا مگر_______.
خیر انجمنِ دوستاں و امیدوارانِ بہار اپنی مصروفیات میں سے قصبہ کے لیے وقت نکالتے رہے۔ سال ٢٠١٩ میں کے آخر میں میل چوک جسے بھٹو چوک بھی کہا جاتا ہے کی ری ہیبلیٹیشن کے لیے برادر احمد علی نے پھر سے آغاز کیا جسے محدود پیمانے پہ بنایا گیا کیونکہ چاروں اطراف کی بے ہنگم ٹریفک سے اس چوک نے ایک سے دو جانیں بھی لے لی تھیں مگر کوہاٹ، جنڈ__تلہ گنگ کی ٹریفک کا زور اینٹوں کے سہارے بنا مانومنٹ برداشت نہ کر سکا۔
سال ٢٠٢٠ میں کرونا کی لہر میں بڑے شہروں میں مخیر حضرات اور سماجی ورکرز نے جہاں خدمتِ خلق کی وہیں تراپ میں بھی برادر احمد علی کے مشورے پہ کمیٹی بنی اور انکے ہمراہ برادر حنیف اور سر اشفاق صاحب نے باقی تمام احباب کے ساتھ ملکر کم و بیش ساڑے تین سو سفید پوش گراٸیوں کے گھر راشن پہنچایا۔
عرصہ چھ سات سال سے جہاں سوشل میڈیا پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے گاوں کے مکینوں کےلیے بھی اخبار کا کردار ادار کرنے لگا وہیں سال ٢٠٢١ کے جولاٸی میں جنڈ واسیوں کی مہم مشن گرین جنڈ سے بہت انسپاٸریشن ملی اور راقم کی تجویز پہ اپنا تراپ کےنام سے بنے سوشل گروپ میں مہم شروع کی گٸی جس کو ہمیشہ کی طرح عملی جامہ پہنانے کے برادر احمد علی ملک، برادر محمد حنیف اور سر اشفاق صاحب نے کمر کس لی اور مشن گرین تراپ کے نام سے بسم اللہ کر لی مگر اگست ٢٠٢١ میں ٹارگٹ پورا نہ ہونے سے شجرکاری کو فروری ٢٠٢٢ تک کے لیے پوسٹ پون کر دیا گیا۔
اِمسال جنوری کی مہم سے ایک معقول رقم اور بزرگ مخیران کی طرف سے عطیہ کیے گۓ پودوں سے کم و بیش اٹھارہ سو پودوں سے مختلف مقامات پر شجرکاری کی گٸی مگر مقامی آبادی سے دور سڑک کے اطراف کی گٸ شجرکاری مسلسل آبیاری کا بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے حوصلہ افزا نہ رہی جس کے لیے آٸندہ شجرکاری مہم میں مخصوص بجٹ کا تعین ہی مقصد پورا کر سکے گا۔
انشااللہ اسی جذبے کے تحت تراپ/میل چوک کی ری کنسٹرکشن سمیت صفاٸی کے مسٸلے سمیت، زنانہ مسافر خانہ کی توسیع، اگر یہ جذبہ مسلسل رہا تو اپنی مدد آپ کے تحت گاوں کے بچوں کے لیے کسی شاملات پہ پلے پارک،تراپ کی واحد ہیریٹیج ساٸٹ(شیر شاہ شوری کے دور کی بنی ”واں“) کی مزید تزین و آراٸش(رنگ و روغن کی ذمہ داری ڈھوک ڈوبہ کے جوانان نے پوری کر دی) چند ایسے بنیادی نوعیت کے منصوبہ جات ہیں جس کے لیے انشااللہ خیر ہوگی۔

توصیف نقوی

21/01/2025
چین نے  سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اع...
20/01/2025

چین نے سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان ۔ اس سنگ میل کو چین کا Manhattan Project بھی کہا جا رہا ہے ۔ اس نام کا پروجیکٹ امریکا نے حد درجہ خفیہ طریقے سے ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔چین کے حالیہ اعلان کردہ منصوبے کی جزئیات پیش کرتا ہوں ۔ جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک کس جانب روانہ ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔

زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔ یہ سورج کی توانائی کو اپنے اندر محفوظ کرے گا۔ اس کے بعد اسے چین کے ایک ٹرانس میٹر سے منسلک کر دے گا ۔ اس سولر اسٹیشن کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ 24گھنٹے کام کرے گا ۔

دن اور رات میں اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اسٹیشن صرف چین کو اتنی توانائی مہیا کرے گا جو پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ایک سال میں پیدا کی جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر توانائی کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہو تو پھر آبی ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے دوسرے ذرایع کس قدر غیر اہم ہو جائیں گے۔ جو بجلی ‘ سپیس اسٹیشن میں موجود ہو گی اسے مائکروویوز میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اسے زمین پر منتقل کرنا حد درجہ آسان ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیشن ایک سو بلین کے وی ایچ پیدا کرے گا ۔

چین کے سائنسدانوں نے اس سولر اسٹیشن کو خلا کا Three Gorges Dam قرار دیا ہے ۔ یہ آبی ڈیم چین نے 2008میں بنایا تھا ۔ اس کی لاگت 35بلین ڈالر آئی تھی اور یہ Yangtze دریا پر واقع ہے۔ اس آبی ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی قوت 95 Twhسالانہ ہے ۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ فرمائیے کہ خلائی اسٹیشن اس عظیم آبی ڈیم سے بھی بڑھ کر بجلی پیدا کرے گا ۔ چینی سائنسدانوں نے اس عظیم کارنامے کو خود سرانجام دیا ہے ۔ خلائی اسٹیشن کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں ۔ انھیں راکٹس کی مدد سے خلا میں بھیجا جائے گا ۔

جہاں سائنسدان اور خلائی ہوا باز اس کو ایک اسٹیشن میں تبدیل کر دیں گے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل ہو گا کیونکہ اتنا اچھوتا کارنامہ کسی بھی ملک نے اب تک سرانجام نہیں دیا ۔ چینی قیادت اور سائنسدانوں کا کمال دیکھیے کہ انھوں نے تمام جزئیات ترتیب دینے کے بعد اس کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکا ‘جسے ناز ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہے سائنس اور تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی انتظامیہ اور خلائی سائنسدانوں نے انگلیاں چبا لی ہیں کیونکہ وہ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ چین اس خلائی اسٹیشن کے بعد دنیا میںترقی کی دوڑ میں سب سے آگے موجود ہو گا۔ چینی حکام وہ کام کر رہے ہیں جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
فالو Urdu Insights

گورنمنٹ پوسٹ گویجویٹ کالج اٹکایک صدی سے قائم عظیم درسگاہ ہےُکالج کی تاریخ میں پہلی مرتبہ25جنوری2025 بروز ہفتہ ایک کتاب م...
20/01/2025

گورنمنٹ پوسٹ گویجویٹ کالج اٹک
ایک صدی سے قائم عظیم درسگاہ ہےُکالج کی تاریخ میں پہلی مرتبہ25جنوری2025 بروز ہفتہ ایک کتاب میلہ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے
اس مادر علمی کی آغوش میں زیور علم سے آراستہ ہونے والےتمام سابقہ و موجودہ طلاب سے اس میلے میں شرکت کی اپیل کی جاتی ہے دیگر اہل علم اور کتاب دوست اس میلے میں ضرور شریک ہوں
شکریہ

20/01/2025

ضلع اٹک کے مضافات میں بوندا باندی شروع اللہ تعالیٰ رحمت والی بارش عطا فرمائے آمین ثم آمین

سرجن ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نےمیڈیکل کی فیس کے لیے اسی کالج میں مزدوری کی، جہاں انکا داخلہ ہوا تھا۔بلوچستان کے ضلع قلات سے ت...
20/01/2025

سرجن ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نےمیڈیکل کی فیس کے لیے اسی کالج میں مزدوری کی، جہاں انکا داخلہ ہوا تھا۔

بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے سرجن ڈاکٹر محمد اعظم بنگلزئی نے میڈیکل کی تعلیم کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج سے حاصل کی مگر اُنھوں نے اسی کالج کی عمارتوں کی تعمیر میں بطور مزدور کام بھی کیا اور بعد میں اس سے منسلک ہسپتال میں سرجن بھی رہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ وہ دن کو کالج میں پڑھتے اور پھر شام کو زیر تعمیر عمارت جاتے جہاں ان کا روپ مزدور کا ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح رات گئے تک محنت مزدوری کرنے کے بعد تھوڑا بہت آرام کرتے اور اس کے بعد پھر کلاس اور لائبریری میں ہوتے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی دیہاڑی 30 روپے ہوتی تھی اور اس طرح تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم بنتی تھی۔

مزدوری کے دوران بھی کتابیں ساتھ ہوتی تھیں‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’چونکہ مزدوری میری مجبوری تھی اور میرا اچھا خاصا وقت مزدوری پر صرف ہوتا تھا اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ مزدوری کے دوران بھی کچھ پڑھا کروں، اس لیے اپنی کتابیں بھی ساتھ لے جاتا تھا۔‘

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے کہا کہ ’ایک دن میں ریت اور سیمنٹ کے مکسچر سے بھری ریڑھی جب عمارت میں اوپر لے جا رہا تھا تو ریڑھی میرے ہاتھ سے گر گئی۔

’بدقسمتی سے اس وقت ٹھیکیدار بھی وہاں موجود تھا۔ ٹھیکیدار ریڑھی کو گرتے اور سیمنٹ کو ضائع ہوتے دیکھ کر غصے میں آ گیا۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’ٹھیکیدار نے مجھے کہا کہ آپ کو تو کام کرنا نہیں آتا، اس لیے آپ کام چھوڑ کر چلے جائیں۔ میں نے ان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا لیکن اُنھوں نے مجھے نکال دیا۔‘

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کے مطابق اُنھوں نے ٹھیکیدار سے کہا کہ اگر مزید کام کرنے نہیں دیتے تو بے شک مت کرنے دیں لیکن کم از کم اس روز کی دیہاڑی تو پوری ہونے دیں لیکن وہ سیمنٹ کے ضائع ہونے پر اتنا ناراض تھا کہ مجھے دیہاڑی پوری نہیں کرنے دی بلکہ آدھی مزدوری یعنی 15 روپے دے کر فارغ کیا۔‘

ڈاکٹر اعظم نے بتایا کہ بعد میں اُنھیں ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھنے کا موقع ملا اور ریڈیو کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی والوں نے بھی انھیں خبروں کا ترجمہ کرنے اور پڑھنے کے لیے بلا لیا، جس سے ان کے اخراجات پورے ہوتے رہے۔



جب ٹھیکیدار مریض بن کر سرجن اعظم بنگلزئی کے پاس آیا

سرجن اعظم بنگلزئی نے کہا کہ جنرل سرجری میں ایم ایس کرنے کے بعد سرجن کی حیثیت سے اُن کی تقرری بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں ہوئی۔

ایک دن میری او پی ڈی میں ڈیوٹی تھی تو میں نے دیکھا وہی ٹھیکیدار اپنے بیٹے کے ساتھ ایک پرچی لے کر میرے پاس آیا۔

’ٹھیکیدار بوڑھا ہو گیا تھا۔ میں نے اسے پہچان لیا لیکن وہ مجھے نہیں پہچانتا تھا۔ میں نے اس کا نام لیا اور اسے اپنے پاس بلایا تو وہ حیران ہوا کہ یہ شخص کس طرح مجھے جانتا ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ جب ٹھیکیدار اُن کے پاس آیا تو اُنھوں نے اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا، جس پر ٹھیکیدار نے ان سے پوچھا کہ وہ اُنھیں کس طرح جانتے ہیں۔

اعظم بنگلزئی نے بتایا کہ ٹھیکیدار کو وہ بہت زیادہ تو یاد نہیں تھے لیکن جب اُنھوں نے کئی باتیں یاد کروائیں تو وہ کام سے نکالنے کی بات پر رو پڑے اور کہا کہ ’میں نے آپ کو کام سے نکال کر ظلم کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ٹھیکیدار کو بتایا کہ آپ نے کوئی ظلم نہیں کیا کیونکہ ویسے بھی وہ میری منزل نہیں تھی بلکہ میری منزل یہ تھی جہاں آج میں پہنچا ہوں۔‘

والدہ کا آخری دیدار نہیں کر سکا‘

ڈاکٹر اعظم نے بتایا کہ جب وہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں پوسٹ گریجویشن کر رہے تھے تو ایک رات اُنھیں ایک خاتون کا آپریشن کرنا پڑا۔

’یہ عجیب اتفاق تھا کہ جس وقت میں وہ آپریشن کر رہا تھا تو مجھے کوئٹہ سے فون آیا اور بتایا گیا کہ کوئٹہ میں آپ کی والدہ کو ایمرجنسی میں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

’دوسرا عجیب اتفاق یہ تھا کہ جس خاتون کی میں آپریشن کررہا تھا وہ معدے کے زخم کی مریضہ تھی جبکہ میری والدہ بھی اسی بیماری میں مبتلا تھی۔ جب میں آپریشن کرنے کے بعد نکلا اور والدہ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ وفات پا گئی ہیں۔‘

’اگرچہ میں فرض کی بجا آوری کے باعث اپنی والدہ کا آخری دیدار نہیں کرسکا لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس دوران میں نے ایک خاتون کی زندگی بچائی۔‘

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کا کہنا تھا کہ جب بھی وہ نئے بولان میڈیکل کالج، اس کے ہاسٹل اور بولان میڈیکل کمپلیکس کی عمارتوں کے سامنے سے گزرتے ہیں، تو فخر محسوس کرتے ہیں۔

’مجھے یہاں سے گزرتے ہوئے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان عمارتوں میں میری محنت اور پسینے کی خوشبو ہے۔‘

( یہ معلومات بی،بی،سی،اردو سے احذ کی گئی ہے۔)

پنجاب حکومت کی ہدایات پر چیف آفیسر بلدیہ اٹک سردار آفتاب احمد خان کی زیر نگرانی کامرہ تین میلہ روڈ پر ناجائز تجاوزات کے ...
20/01/2025

پنجاب حکومت کی ہدایات پر چیف آفیسر بلدیہ اٹک سردار آفتاب احمد خان کی زیر نگرانی کامرہ تین میلہ روڈ پر ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری۔اٹک کامرہ روڈ پر غیر قانونی تعمیرات گرانے کا عمل جاری ہے۔

124 Followers, 4 Following, 349 Likes - Watch awesome short videos created by Voice Of Attock - VOA

20/01/2025

’’پینجے ‘‘
جو سردیوں کی آمد سے کچھ پہلے لحافوں کی روئی دُھننے آیا کرتا تھا ۔اب نہ وہ روئی والے لحاف رہے نہ پینجے، کہ پینجا پنجائی شروع کرتا تو اک ایسی موسیقی جنم لیتی جسے کم از کم میں تو بیان نہیں کر سکتا اور روئی کے گالوں کا اڑنا بھی اک ایسا منظر تھا جسے بھلایا نہیں جاسکتا
کیا کوئی موسیقار ایسا ہے جوپنجائی کے دوران پیدا ہونے والی آواز کو اپنی کسی دھن میں سمو سکے؟’’

🐝🐝🐝  کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک چمچ 🍯 شہد انسان کو 24 گھنٹے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے؟  📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے پہلے ...
19/01/2025

🐝🐝🐝
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک چمچ 🍯 شہد انسان کو 24 گھنٹے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے پہلے سکے پر مکھی کی علامت ہوتی ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد میں زندہ انزائمز پائے جاتے ہیں؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر شہد کا دھاتی چمچ سے واسطہ پڑے تو یہ انزائمز مر جاتے ہیں؟
▪️ شہد کھانے کا بہترین طریقہ لکڑی کے چمچ کے ساتھ ہے؛ اگر یہ دستیاب نہ ہو تو پلاسٹک کا چمچ استعمال کریں۔

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد میں ایک ایسا مادہ ہوتا ہے جو دماغ کی کارکردگی کو بہتر کرنے میں مدد کرتا ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد زمین پر موجود چند ایسی غذاؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی زندگی کو برقرار رکھ سکتی ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں شہد کی مکھیوں نے لوگوں کو فاقہ کشی سے بچایا ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ مکھیوں کے ذریعہ تیار کردہ پروپولس سب سے طاقتور قدرتی اینٹی بائیوٹک میں شامل ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد کی کوئی تاریخ ختم ہونے کی نہیں ہوتی؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے شہنشاہوں کی لاشوں کو سنہری تابوتوں میں دفن کیا گیا اور پھر انہیں شہد سے ڈھانپ دیا گیا تاکہ وہ سخاوت سے محفوظ رہیں؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ "ہنی مون" کی اصطلاح شادی کے بعد زرخیزی کو فروغ دینے کے لیے نئے نوبیاہتہ جوڑوں کی روایات سے آتی ہے؟

📒 کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک مکھی 40 دن سے کم زندہ رہتی ہے، کم از کم ایک ہزار پھولوں کی زیارت کرتی ہے، اور ایک چمچ شہد سے بھی کم پیدا کرتی ہے، لیکن یہ اس کے لیے پوری زندگی کا کام ہے؟
شکریہ، قیمتی مکھیوں۔۔! 🐝💕

جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والے سبھی سنجیدہ افراد ضرور پڑھیں۔ایک عورت صبح اٹھی، فریج میں پڑے انڈے اٹھائے، ناشتہ بنایا، خ...
18/01/2025

جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والے سبھی سنجیدہ افراد ضرور پڑھیں۔
ایک عورت صبح اٹھی، فریج میں پڑے انڈے اٹھائے، ناشتہ بنایا، خود کھایا، شوہر کو دیا، شوہر اپنے کام پر چلا گیا، عورت اپنے کام پر چلی گئی۔ چند گھنٹوں بعد شوہر نے بیوی کو کال کرکے کہا کہ گھر پہ تھوڑا مسئلہ ہوگیا ہے، تم آج سیدھی امی کی طرف چلی جانا۔ میں معاملہ نمٹا کر تمہیں لے آؤں گا۔۔۔۔

بیوی نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو شوہر ٹال گیا، لیکن بیوی کے اصرار کرنے پر اس نے بتا دیا کہ صبح جو تم نے فریج سے انڈے لے کر بنائے تھے وہ امی نے باجی کے لیے منگوا کر رکھے تھے۔ امی کو لگتا ہے تم نے وہ جان بوجھ کر اٹھا کر استعمال کیے ہیں۔ امی تھوڑی ناراض ہیں۔ تم اپنی امی کی طرف چلی جانا، میں گھر جا کر معاملہ سلجھا کر شام تک تمہیں لے آؤں گا۔

لیکن عورت نے شوہر کی بات نہ مانی۔ جاب سے سیدھی گھر گئی۔ جاتے ہوئے ایک درجن انڈے لیتی ہوئی گئی۔ گھر پہنچ کر انڈے لے جا کر ساس کے سامنے رکھے اور کہا ان انڈوں کی وجہ سے آپ نے جھگڑا کھڑا کیا تھا ناں؟ دو اٹھائے تھے بارہ لے کر آئی ہوں۔ شوہر بھی یہ سب سن رہا تھا۔ ساس نے بیٹے کو آواز دی اور کہا کہ دیکھو اس نے انڈے لا کر میرے منہ پر مارے ہیں۔ آج تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ میرے ساتھ کتنی بدتمیزی کرتی ہے۔ تم اسے ابھی کے ابھی فارغ کرو۔ معاملہ بگڑتا بگڑتا اس حد تک پہنچا کہ شوہر نے وہیں کھڑے کھڑے بیوی کو ایک طلاق دے ڈالی۔
دو انڈوں کی وجہ سے ایک گھر ٹوٹ گیا۔

*قصور وار کون کون تھا؟*
1_ ساس جس نے بہو کی اتنی سی بات پر فساد برپا کیا۔
2_ شادی شدہ بہن، جو ماں کو روک نہ سکی، سمجھا نہ سکی۔
3_ بیوی جس نے شوہر کو اپنے طریقے سے معاملہ حل نہ کرنے دیا۔
4_ شوہر جو بالآخر ماں کے دباؤ میں آکر اتنی سی بات پر طلاق دے بیٹھا۔

*اس سب پر کیسے کیسے قابو پایا جاسکتا تھا؟*
1_ ساس بڑا پن دکھاتی، انڈے دوبارہ منگوا لیتی۔
2_ بہن ماں کو کسی نہ کسی طرح ٹھنڈا کر لیتی۔
3_شوہر ماں کی بات کو ہلکے پھلکے انداز میں نظرانداز کرکے فون پر ہی سمجھا دیتا کہ کوئی بات نہیں، اگر میری بیوی سے اتنی سی غلطی ہوگئی ہے تو چھوڑیں، دو انڈے ہی تو ہیں، منگوا لیں۔ اور بیوی کو فون نہ کرتا۔
4_ بیوی اس کو انا کا مسئلہ نہ بناتی، شوہر کی بات مان کر ماں کے گھر چلی جاتی یا سسرال جاکر خاموشی اختیار کرتی یا ساس سے معذرت کرلیتی کہ اوہو امی! مجھے تو پتا ہی نہیں چلا وغیرہ وغیرہ۔
5_ شوہر کسی نہ کسی طرح اپنے اعصاب کو قابو میں رکھ لیتا۔ بیوی سے ناراض ہوجاتا، اسے کچھ دن اس کی ماں کے گھر بھیج دیتا لیکن یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔

ہمارے معاشرے میں ہمیشہ نہیں تو اکثر جھگڑے "دو انڈوں" جیسی بے مول چیزوں پر ہی شروع ہوتے ہیں، پھر انا، زبان کی تیزی اور غصہ معاملے کو طلاق تک لے جاتا ہے۔ یہ معاملات بگاڑنے میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان ہی میں سے کسی ایک کی ذرا سی کوشش، تھوڑی سی معاملہ فہمی، دور اندیشی اور انا پر سمجھوتہ گھر ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔
بس جب بھی ایسا کوئی معاملہ پیش آئے تو سمجھیں کہ میں ہی وہ واحد انسان ہوں جو اس معاملے کو سلجھا سکتا ہے، لہذا اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور نسلوں کو بربادی سے بچا لیں۔

16/01/2025

کھلواڑا۔
انگریز کے دور میں اپریل کا سالم مہینہ سکول بند رہتے تھے – ان چھٹیوں کو “لَوواں آلیاں چھٹیاں“ کہتے تھے ، کیونکہ دراصل یہ چھٹیاں “ لَو“ —فصل کی کٹائی—- کے لیئے ہوتی تھیں – دیہآتی علاقے میں بچے بھی فصل کی کٹائی میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے تھے – اس لیے یہ چھٹیاں ضروری تھیں – انگریز ظالم سہی ، مگر علاقے کے رسم و رواج کا خیال رکھتے تھے –
دیہی علاقے کی معیشت سو فیصد زرعی تھی – پیسے کاکام بھی گندم سے لیا جاتا تھا – نقد پیسہ تو صرف ملازموں کو تنخواہ کی صورت میں ملتا تھا – باقی لوگ اپنی ضروریات زندگی گندم کے بدلے میں خریدتے تھے – دکان دار گندم تول کر مقررہ نرخ کے مطابق اس کی قیمت بتا دیتے اور پھر لوگ اتنی قیمت کی چیزیں خرید لیتے تھے – جب گندم ختم ہو جاتی تو اگلی فصل تک ادھار چلتا تھا –
فصل کی کٹائی کے بعد اپنے حصے کی گندم کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا – سال بھر کھانے کے لیے گندم نکال کر بقیہ گندم پیسوں کی جگہ استعمال کی جاتی تھی –
یہی موسم شادیوں کا موسم بھی کہلاتا تھا – کیونکہ شادی کے اخراجات بھی گندم بیچ کر ادا کیے جاتے تھے -سیدھی سادی شادیاں ہوتی تھیں – اس لیے خرچ بہت کم ہوتا تھا –
شہری علاقوں میں لَووں کی چھٹیاں نہیں ہوتی تھیں – وہاں عیسائیوں کے تہوار ایسٹر کے نام پر اپریل کے پہلے دس دن چھٹیاں ہوتی تھیں – ان چھٹیوں کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا تھا – اس لیے بچوں کو نئی کلاس کی کتابیں خریدنے کی مہلت بھی ان چھٹیوں کے باعث مل جاتی تھی –
قیام پاکستان کے بعد یہ نظام تبدیل ہو گیا – دیہات کی معیشت بھی زرعی کی بجائے کاروباری ہو گئی ، اس لیے لَووں کی چھٹیوں کی ضرورت ہی نہ رہی –
گندم کی کٹائی کے بعد اسے بھُوسے سے الگ کر نے تک کا عمل اب تو بہت آسان ہوگیا ہے – ہارویسٹر ، تھریشر اور کمبائین کئی دنوں کا کام چند گھنٹوں میں کر دیتے ہیں – پرانا طریقہءکار اب شاید ہی کہیں دور افتادہ علاقوں میں استعمال ہوتا ہو –
اس طریقہء کار سے متعلق کچھ الفاظ ہوتے تھے – ان میں سے کئی الفاظ مر چُکے ہیں ، چند اب آخری سانس لے رہے ہیں – آج کچھ ذکر ان الفاظ کا جو فصل کی کٹائی کے بعد والے عمل میں استعمال ہوتے تھے –
اس عمل کو “گاہ“ یا “گاہیا“ کہتے تھے – جس جگہ گاہ کا عمل ہوتا تھا اسے “کھلواڑا“ کہتے تھے – کھلواڑا صاف ستھرا میدان ہوتا تھا – گندم کی “گَڈِیاں (گٹھے) کھلواڑے کے ایک کنارے پر ترتیب سے اُوپر نیچے رکھتے جاتے تھے -اس ڈھیر کو “پَسا“ کہتے تھے –
گاہ کا عمل بیل سرانجام دیتے تھے – گندم کی گَڈیاں ایک دائرے میں زمین پر بچھا کر ان کے اوہر پانچ سات بیل پھرائے جاتے تھے – دوچار گھنٹے میں گندم کے پودے پِس کر ان کے سِٹوں سے دانے الگ ہو جاتے تھے – پوَدے اس عمل کے دوران پِس کر بُھوسا بن جاتے تھے –
گندم اور بھُوسے کو الگ الگ کرنے کا عمل “اڈاری“ کہلاتا تھا – اس میں ترینگل ۔ کراہی یا چھاج استعمال ہوتے تھے – ترینگل یا کراہی پر گندم ملے بُھوسے کو اٹھاکر ہوا میں اُچھالتے تو ہوا کے زور سے بھوسا اُڑ کر الگ ہو جاتا تھا – تھریشر میں ہوا دینے کے لیئے پنکھا لگا ہوتا ہے – ہمارے ہاں صبح سویرے سے لے کر دوپہر تک اللہ تعالی کا پنکھا چلتا تھا – شمال سے آنے والی اس تیز ہوا کو “جابہ“ کہتے تھے،- بہت تیز زوردار ہوا ہوتی تھی –
آج کا سبق خاصا مشکل تھا – کوشش کی ہے کہ آپ آسانی سے سمجھ لیں – مقصد اپنی زبان کے مرتے ہوئے الفاظ کو محفوظ کرنا ہے –
حسین اور دلچسپ یادیں بیان کی ہیں –
جی ہاں ، جب گندم کٹ جاتی تو بچے کھیتوں میں پھر کر گرے پڑے, بچے کُھچے سِٹے جھولیوں میں بھر کر دکانوں پر لے جاتے اور دکان داروں سے ان کی قیمیت کے مطابق گُڑ ، ٹانگری ، مرُنڈا اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں لے لیتے –
جب گندم کی ڈھیری کو بوریوں میں بھر کر گھر لے جانے کا وقت آتا تو دیہاتی کارکنوں ، موچی ، درکھان، لوہار وغیرہ کے علاوہ بچو ں کی فوج بھی اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ جاتی – سخی زمیندار کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے — ہمارا گھر اللہ کے فضل سے اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ تھا ، لیکن مانگ کر کھانے کا ایک اپنا مزا ہے ، اس لیے دوسرے بچوں کے ساتھ ہم بھی قطار میں لگ کر لَپ بھر گندم وصول کر لیتے تھے –
ایک دوست نے کمنٹ میں بہت خوبصورت بات یاد دلائی ہے – اگر دکاندار کہتا تمہارے کچھ پیسے بچتے ہیں ، پیسے لوگے یا چیز ؟ تو بچہ کہتا “ ان پیسوں کی نِکی بہن کے لیے چیز دے دو “-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ۔
رہے نام اللہ کا۔

کلیفورنیا امریکا ہی نہیں دنیا کا ایک امیر ترین ریاست ہے، جس کا رقبہ 423,970 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا جی ڈی پی 2024 میں 4.0...
14/01/2025

کلیفورنیا امریکا ہی نہیں دنیا کا ایک امیر ترین ریاست ہے، جس کا رقبہ 423,970 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا جی ڈی پی 2024 میں 4.080 ٹریلین ریکارڈ ہوئی، جو دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہے، یہ اگر ملک ہوتی تو جرمنی اور جاپان کے ہم پلہ ہوتی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا جی ڈی پی حجم 341 بلین ڈالر ہے جو 195 ممالک کے فہرست میں 43 ویں نمبر پہ ہے۔

کیلیفورنیا امریکہ کا سب سے گنجان آباد ریاست ہے، جس کی آبادی 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق 38.9 ملین ہے، یہ اگر ایک ملک ہوتی تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس کا نمبر 38 واں ہوتی۔ کیلیفورنیا کے خوبصورت اور حیرت انگیز شہروں میں لاس اینجلس، سان فرانسیسکو، سان ڈیاگو، سیکرامینٹو ( کیلیفورنیا کا دارالحکومت) آکلینڈ اور لانگ بیچ وغیرہ شامل ہیں۔

ان میں سب سے مشہور نام لاس اینجلس (Los Angeles)
کا ہے جہاں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس سٹی کا رقبہ 1300 مربع کلومیٹر ہے، اس کے مقابلے میں لاہور کا رقبہ 1772 مربع کلومیٹر ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی 3.99 ملین تھی، اس کے مقابلے میں کراچی کی آبادی 14.9 ملین، لاہور کی 11.3 ملین، فیصل آباد کی 3.2 ملین اور راولپنڈی کی آبادی 2.1 ملین تھی۔

یہ شہر ہالی وڈ کے فلموں کے وجہ سے ذیادہ نمایاں ہے، پھر یہاں خوبصورت مقامات ہیں، جیسے ہالی ووڈ، بیورلی ہلز، سانتا مونیکا اور وینس جیسے ساحلوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً 3,979,576 افراد پر مشتمل ہے، یہ مسلمانوں کے دوسری بڑی آبادی والا سٹیٹ ہے، یہاں مسلمانوں کے آبادی 500,000 تک ہے۔

یہاں اہم اداکاروں اور کئی امیر ترین افراد کے گھر ہیں، مثلاً ہالی ووڈ اداکارہ Taylor Swift، بین افلک، گلوکارہ لیزو (Lizzo) ،مشہور گلورہ اریانا (Rihanna)، وہی گلوکارہ جن کو امبانی نے شادی میں پرفارم کرنے پر نو دس ملین ڈالر ادا کئے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا کے امیر ترین شخص اور امیزان کے مالک Jeff Bezos کا گھر بھی یہی ہے۔

لاس اینجلس کے علاقے میں حالیہ جنگل کی آگ میں کم از کم ایک چرچ، (کارپس کرسٹی کیتھولک چرچ) تباہ ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ الٹادینا کمیونٹی چرچ بھی متاثر ہوا ہے، ساتھ ہی قریبی مسجد التقوی اور ایک آرمینیائی عیسائی اسکول بھی مکمل طور پر متاثر ہوچکے ہیں۔ لاس اینجلس فائر ڈپارٹمنٹ کا اندازہ ہے کہ آگ نے تقریباً 300 عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے عبادت گاہیں ہیں۔

امریکی لوگ پہلے سے یہاں کے آگ ہسٹری سے باخبر ہیں، کیونکہ کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، آن ریکارڈ واقعہ 1889 کی آگ کی ہے، جس میں سینٹیاگو کینین فائر (Santiago Canyon Fire) سب سے قدیم ریکارڈ شدہ جنگل کی آگ ہے، جس نے جنوبی کیلیفورنیا میں تقریباً 300,000 ایکڑ اراضی کو جلائی تھی۔ اس کے بعد کئی آگ لگنے کی واقعات رونما ہوئے۔ مثلاً

▪️مٹیلیجا فائر (The Matilija Fire) 1932 میں لگی تھی، جس نے وینٹورا کاؤنٹی میں تقریباً 220,000 ایکڑ اراضی کو جلائی تھی۔

▪️دی گریفتھ پارک فائر (The Griffith Park Fire)
کا واقع 1933 میں پیش آیا، نتیجے میں 29 اموات ہوئی۔

▪️دی ٹنل اک لینڈ ہل فائیر (The Tunnel-Oakland Hills Fire) ، یہ آگ 1991 میں لگی تھی جو 25 اموات کا سبب بنی، اس میں 2,900 عمارات کو تباہ کر دیا۔

▪️دی کیمپ فائیر (The Camp Fire) یہ آگ 2018 میں بھڑک اٹھی تھی، جس کے نتیجے میں 85 اموات ہوئیں اور 18,000 سے زیادہ عمارات تباہ ہوئے۔

▪️2020 میں پھر سے آگ لگی جس میں 4.3 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبہ جل گیا۔

آخر کلیفورنیا میں آگ لگنے کی اسباب کیا ہیں؟

یہاں خشک موسم میں ہمیشہ آگ کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ ایک نیچرل فینامینا ہے جیسے ہمارے ہاں بھی جو سیلاب و ذلزلہ آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، انسانی سرگرمیاں کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ کی ایک اہم وجہ ہے، اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی جنگل کی آگ کے خطرے کو بڑھا رہی ہے۔

لیکن چونکہ امریکی قوم محنتی اور ذہین ہے، پھر ان میں یکجہتی اور ہمدردی بھی موجود ہے اور ان کے پاس وافر مقدار میں وسائل بھی موجود ہیں لہذا یہ لوگ بہت کم وقت میں ہی پرانی سے کہیں بہتر شہر تعمیر کریں گے۔ لیکن ہمارے ہاں خدانخواستہ اسی لیول کی تیز آگ بھڑک جاتی تو کتنے لوگ لقمہ جل بنتے اور بحالی کا کام کب تک لٹکتا رہتا ؟

Address

Attock

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when All About Attock posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to All About Attock:

Videos

Share