![دنیا میں ترقی ریل سے شروع نہیں ہوئی۔ ریل کی پٹری تو بہت پہلے ہی بچھ چکی تھی۔ ترقی کی رفتار میں اہم کردار پہیے اور ریل کی...](https://img3.medioq.com/039/707/952795020397075.jpg)
25/01/2025
دنیا میں ترقی ریل سے شروع نہیں ہوئی۔ ریل کی پٹری تو بہت پہلے ہی بچھ چکی تھی۔ ترقی کی رفتار میں اہم کردار پہیے اور ریل کی پٹری نے ضرور ادا کیا مگر بہت سے مسائل تو رہے اور ذرائع نقل و حمل میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔ ریل کی پٹری بچھ گئی۔ اس پر چھوٹے ڈبے بھی بنا دئیے گئے جن کو تیز رفتار گھوڑے کھنچتے تھے۔ پہاڑوں سے کوئلہ نکالنا ہو یا دوسری معدنیات کو نکالنا مقصد ہو، ریل کی پٹری بچھائی جاتی جسے مضبوط آدمی کھینچا کرتے تھے۔ مشینی ترقی کو پہیئے تب لگے جب بھاپ ایجاد ہوئی۔ خدا نے بھی کیا کیا سوچ انسان کو بخشی ہے۔ یہاں کسی نےچائے کا پانی کیتلی پر چڑھایا اور اس کی ٹونٹی سے بھاپ نکلنے لگی۔ سائنس دان آدمی تھا۔ بیچارے کو اپنے کسی تجربے کے لیے خاموشی کی ضرورت ہو گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ تخلیقی کاموں کے لیے تنہائی درکار ہوتی ہے۔ ایک تنہا انسان ہی ایک اچھا تخلیق کار ہو سکتا ہے۔ خواہ وہ مصور ہو، سائنس دان ہو، کوئی اچھا ادب تخلیق کرنا ہو یا پھر کسی نئی روح کی تخلیق ہو۔ اگر آپ اپنی ذات سے لطف اندوز ہونا نہیں جانتے، تنہائی کے لطف سے واقف نہیں تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ ایک تخلیق کار ہو سکتے ہیں۔ وہ بیچارہ سائنس دان بھی اسی لئے تنہائی میں کچھ کام کر رہا ہو گا کہ چائے کی طلب نے اسے پانی کی کیتلی چولہے پر رکھنے پر مجبور کیا۔ ٹونٹی سے بھاپ نکلی تو بھاپ کے شور نے اس سائنس دان کے تخیل کو پریشان کیا ہو گا۔ بھاپ کے شور کو ختم کرنے کے لیے اس غریب اور معصوم انسان نے کیتلی کی ٹونٹی کو بھی ڈھانپ دیا جس سے کیتلی کا ڈھکن اوپر کو اٹھنے لگا۔ سائنس دان آدمی تھا، میری طرح کا نکما انجنئیر تھوڑا تھا۔ فوراً متوجہ ہوا کہ بھاپ میں اتنی طاقت ہے کہ کیتلی کے ڈھکن کو اوپر اٹھا سکے۔ پس وہی دن انسان کی ترقی کا اہم دن ٹھہرا اور یوں انجن کی ایجاد کی طرف پہلا قدم اٹھا۔
ایک عرصہ تک بھاپ سے چلنے والا انجن کمروں میں ہی بند رہا۔ صنعتی کام تو دے رہا تھا مگر بیچارہ کھلی فضاؤں میں سانس نہ لے سکا۔ بھلا ہو انیسویں صدی کے امریکی انجینئر رابرٹ فولٹن کا جس نے انجن کو ایک بحری کشتی میں نصب کیا اور اس کا پہیہ گھومانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کشتی کو چلانے والے انجن پر نظریں ایک انگریز انجینیر جارج سٹیفن نے گاڑھ لیں۔ جارج بھی میری طرح بڑا ہی کوئی حاسد قسم کا انسان تھا۔ دوسروں کی کامیابیوں سے بڑا ہی حسد کرتا تھا مگر اس کا حسد منفی نوعیت کا نہ تھا بلکہ وہ بھی میری طرح حسد کو ایک مثبت شے کے طور پر لیتا تھا۔ جارج نے جب انجن کو کشتی پر یوں سیر سپاٹے کرتے دیکھا تو من ہی من میں ٹھان لی کہ وہ انجن کو پانیوں سے نکال کر زمین پر لائے گا اور اس کے مدد سے مختلف چیزوں کو دوڑائے گا۔ تجربات ہونے لگے، نئے نئے ماڈل بننے لگے۔ ریل کی پٹری تو پہلے سے ہی تھی مگر چوں کہ انھیں صرف گھوڑے کھنچتے تھے ، اس لئے ان کی رفتار تو کم ہی تھی مگر مضبوطی بھی زیادہ نہ تھی۔ انجن کے لئے نئی فولادی اور مضبوط پٹری کو بچھایا گیا اور ایسی ریل کار بنا لی گئی جو بھاپ سے چلنے والے انجن سے چلتی تھی مگر شروع شروع میں ابھی اسے صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا تھا۔ مگر جلد ہی تقریباً 1830 میں جارج نے پہلی بار تاجِ برطانیہ کے دو بڑے شہروں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان ایک باقاعدہ نظام کے تحت مسافر گاڑی چلا دی جس کی ابتدائی رفتار تقریباً ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس کے بعد کیا امریکہ، کیا افریقہ ہر جگہ بس بھاپ اڑاتا ہوا انجن اپنے پیچھے چند ڈبوں کو لے کر گھومتا رہتا۔ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے ہونے لگا اور دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں۔ ریل اور ترقی کا سفر ایک ساتھ چلتا رہا مگر جب پیسوں سے پیٹ کافی حد تک بھر گیا تو ماحول سے دوستی کا بھی خیال آیا۔ سوچ آئی کہ کوئلہ انجن کو تو چلا رہا تھا مگر اس سے بننے والا کالا دھواں ماحول کو شدید متاثر کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو ریل کو بجلی سے چلانے کا فیصلہ ہوا مگر بعد میں انجن صاحب کو وزنی بیٹریوں سے بھی چلایا گیا مگر ریل کی رفتار زیادہ نہ ہو سکی۔ واضح رہے کہ ریلوے انجن کو لوکو موٹیو Locomotive، بھاپ سے چلنے والے انجن کو اسٹیم لوکو موٹیو اور برقی انجن کو الیکڑک لوکو موٹیو کہا جاتا ہے مگر ہم سادہ بندے صرف انجن کے لفظ سے ہی گزارا کریں گے۔
ریل کی پٹریوں پر بھاپ سے چلنے والا اور برقی انجن تو چل ہی رہا تھا کہ اسی دوڑ میں 1912 میں ڈیزل انجن بھی شامل ہو گیا۔ رفتہ رفتہ تجربات سے ثابت ہونے لگا کہ یہی ڈیزل انجن ہی سب سے بہتر اور تیز رفتار انجن ہے۔ دوسرے انجن خاص کر بھاپ سے چلنے والے انجن کو آہستہ آہستہ متروک کر دیا گیا۔ بھاپ سے چلنے والے انجن کی سیٹی کہیں گم سی ہو گئی اور اب ڈیزل انجن ہی ہر جگہ دنداناتے پھرتے ہیں۔
انگریز جب ساری دنیا میں اپنے اسٹیم انجن کی بدولت اپنا منہ کالا کروا چکے تو چپ کے سے سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتوحات کسی بھی صورت ممکن نہ تھیں اگر انھیں اندر سے تعاون فراہم نہ ہوتا۔ میسور کے ٹیپو سلطان سے لے کر پنجاب کے سکھ حکمران ، سب اپنوں کی سازش کا شکار ہوئے اور یوں انگریز برسر اقتدار آئے اور اپنے ساتھ کالا دھواں چھوڑنے والا کالا انجن بھی لائے۔ وجہ عوام کی سہولت تو نہ تھی مگر اپنی فوجی نقل و حمل ضرور آسان اور مضبوط بنانا تھی۔ اگرچہ کہ بعد میں یہی ریل عوام کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوئی بلکہ ہو رہی ہے۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو ریل کا نظام تو دور کی بات ہے ، مناسب سڑکیں تک نہ تھیں۔ انھوں نے سڑک پر توجہ دینے کی بجائے ریل پر توجہ مرکوز کی اور علاقے پر علاقے فتح کرتے چلے گئے۔ پہلی ریلوے لائن بمبئی سے "تھانے" کے درمیان چلائی گئی جب کہ آپسی فاصلہ 34 کلومیٹر کا تھا۔ پٹری کی چوڑائی پانچ فٹ چھ انچ رکھی گئی اور مزید پٹریوں کے لیے یہی معیار مقرر کیا گیا مگر بعد میں اس سے تنگ پٹریاں بھی اکثر علاقوں میں بچھائی گئیں جنھیں میٹر گیج اور نیرو گیج کا نام دیا گیا۔ پہلی مسافر ریل گاڑی کے بارے دل چسپ بات یہ بھی تھی کہ اس کی چار سو مسافروں کے لئے تیرہ ڈبے تھے اور ان تیرہ ڈبوں کو تین انجن کھینچ رہے تھے۔ تینوں انجنوں کے نام بھی رکھے گئے تھے جو صاحب ، سلطان اور سندھو تھے۔ ہے ناں یہ دل چسپ بات۔
ایک بار جب ریل گاڑی ہندوستان میں چلنا شروع ہوئی تو پھر نہ انگریز رکے اور نہ ہی ان کی ریل۔ دریاؤں ، نہروں پر پُل تعمیر ہونے لگے۔ انگریز طورخم اور چمن کے راستے ریل کو افغانستان میں لے گئے جب کہ ان کا منصوبہ تھا کہ ہندوستان کو ریل کے ذریعے برطانیہ سے ملا دیا جائے۔ ان تمام منصوبوں پر تیزی سے کام جاری تھا کہ جرمنی میں ہٹلر کو نہ جانے کیا مستی سوجھی کہ اس نے جنگِ عظیم دوم چھیڑ دی۔ انگریز اور اس کے اتحادیوں کو ناک و چنے چبو ڈالے۔ چند ہی دنوں میں پورے کا پورا یورپ ہڑپ کر گیا مگر اس قدر بے وقوف اور لا علم تھا کہ شدید سردیوں میں روس پر حملہ کر دیا۔ وہاں ایسا پھنسا کہ پھر نکل نہ سکا۔ اگرچہ کہ ہٹلر ہار گیا مگر اس نے انگریزوں کا اچھا خاصا نقصان کر دیا۔ رہی سہی کسر جنگِ عظیم دوم نے پوری کر دی۔ اتحادی ایٹم بم کی بدولت جنگ تو جیت گئے مگر انگریزوں کا اس قدر نقصان ہو چکا تھا کہ انھیں نہ صرف ہندوستان سے نکلنا پڑا بلکہ اور بھی بہت سے علاقے انھیں اس وقت حالی کرنا پڑے۔ انگریزوں نے چودہ اگست 1947 کو ہندوستان آزاد اور تقسیم کر دیا۔ تقسیم کے وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں آٹھ ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود تھی جس میں الحمدللہ ہم نے آج تک ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں کیا جب کہ دوسری جانب بھارت میں یہ باسٹھ ہزار کلو میٹر تھی جسے وہ اب تقریباً دو گنا کر چکے ہیں۔ آج روس اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ریلوے بھارت کے پاس ہے۔ بھارت نے نا صرف اپنی مسافر گاڑیوں بلکہ مال بردار گاڑیوں پر بھی محنت کی جب کہ ہماری حکومتوں نے ریل کی بجائے سڑک پر محنت کی۔ جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی گئی، ریلوے کو نقصان پہنچایا گیا اور رفتہ رفتہ ریلوے لائن خالی ہونے لگیں۔دنیا بھر میں جہاں مال گاڑیوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کو سب سے محفوظ اور سستا ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، وہیں ہمارے یہاں مہنگا رحجان ہے کہ مال گاڑیوں کی ترسیل بھی ٹرکوں اور ٹریلروں سے ہوتی ہے۔ ہم وہ عظیم لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہر ادارے کو تباہ کیا ہے۔ کسی دوسرے کو ہمیں نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ریل کے بارے میں دی گئی معلومات محمد سعید جاوید صاحب کی کتاب " ریل کی جادو نگری" سے لی گئی ہیں۔