Salhad Talent Magazine

Salhad Talent Magazine main aim is to highlight salhad talent
(4)

its quarterly Magazine to be published on web, however copies would be available from Malik and other shops upon request if budget allowed. Mainly it would be colorful Magazines where I tend to include different sections depends on content we receive one can write on any topic as long as it does not hurt any section of the society not political motivated or not going to enrage anyone, anyone inte

rested please join this page and let us know what you can do, we will publish it along with your colored Picture. We will also introduce intellectuals interviews and try to highlight people respected by everyone for their work and contributions.

10/12/2023

ایبٹ آباد سائیکلنگ کلب کے 5 اراکین جنکی سربراہی COMSATS یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان خالد کر رہے تھے نے ایبٹ آباد تا کالاباغ براستہ بانڈی عطائی خان، بٹالہ، کیالہ میرا، دیوال، نگری پائیں، مکول، نگری بالا اور سجن گلی سے ہوتے ہوئے کالا باغ اور واپس براستہ مری روڈ ایبٹ آباد تک *96 کلومیٹر* فاصلہ سائیکلوں پہ 11 گھنٹوں میں طے کیا۔ اس سفر میں رننگ اینڈ ہائیکنگ کلب ایبٹ آباد کے بانی سمیع اللّٰہ خان اور کامسیٹس یونیورسٹی کے تین طلباء بھی تھے۔ یاد رہے ایبٹ آباد سائیکلنگ کلب معاشرے میں سائیکل سواری کو بطور ذریعہ سفر اور صحتمند سرگرمی فروغ کے لئے کوشاں ہے۔

10/12/2023
07/12/2023
28/11/2023
28/11/2023
28/11/2023
ہم خوش کیوں نہیں رہتے ؟کسی نے کیا خوب کہا کیا انسان کے لئے اس سے بڑا کوئی المیہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی ہر چیز ہ...
28/11/2023

ہم خوش کیوں نہیں رہتے ؟

کسی نے کیا خوب کہا کیا انسان کے لئے اس سے بڑا کوئی المیہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی ہر چیز ہو مگر وہ خوشی کے لئے ترس رہا ہو۔
سوچیں انسان کے پاس دنیا کی جدید ترین سہولیات نہ ہوں، وہ غریب ہو لیکن خوش و خرم زندگی گزار رہا ہو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟
انسان کے لیے خوشی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جو انسان خوش ہے اس کے لیے زندگی جنت جیسی ہے اور جس انسان کے پاس دنیا کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے لیکن وہ خوش نہیں اور دکھی ہے تو اس سے بڑا بدقسمت انسان کوئی نہیں۔
اس دکھ والی کفیت کا ذمہ دار کون ہے بظاہر تو یہ دنیا ہے جب سب پیسے مادہ پرستی میں کھوئے ہوئے ہیں تو ظاہر ہے نہ چاہتے ہوئے ہم بھی انہی کی طرح بھاگ دوڑ کرینگے کہ میرے پاس بھی پیسہ دولت زمینیں ہوں اچھی گاڑی ہو اچھا ایک لمحے کیلئے سوچیں ؟
جن کے پاس موجود ہیں کیا وہ پر سکون ہیں ہرگز نہیں اور میرا مقصد ہرگز یہ بھی نہیں کہ آپ زندگی میں پیسہ نہ کمائیں آگے نہ بڑھیں بھائی یہ بھی وقت کی ضروریات ہیں اگر یہ نہ ہوں تو کوئی آپکو سلام بھی نہیں کریگا۔

لیکن میرا مقصد ہے اپنے آپکو پرسکون رکھیں صحت ہوگی تو آپ پیسہ بھی کما لیں گے بلکہ ہر ایک خواب کی تکمیل آپکی صحت سے جڑی ہے تو لہذا اپنے لئیے وہ وقت ضرور نکالا کریں جن سے آپکو راحت ملتی ہو۔

مجھے ہمیشہ پیدل چلنے واک کرنے سے راحت محسوس ہوتی ہے اس ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے ہمیں فطرت سے بہت دور کر دیا ہے لیکن میں اپنی وہ سرگرمی ہر صورت نبھا رہا ہوں جن سے مجھے سکون ملتا ہے ۔
آجکل کے دور میں خوش رہنا بھی ایک آرٹ ہے وہ آرٹ آپ نے خود ترتیب دینا ہے ورنہ تو دن سیکڑوں ٹینشنز روز نت نئی معرض وجود میں آتی رہتی ہیں جس دن یہ آپکی صحت پر اثر انداز ہونگی آپ پھر کچھ ںھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
خیر گزشتہ سال اپنی جگہ پر سبزیاں اگائیں پھل پودے لگائے لیکن اس سال ذرا لیٹ ہوگیا مگر دوبارہ واک ٹریک اور لان بنانے میں مصروف ہیں انشاءاللہ تھوڑی سردی کم ہو تو نئے پودے لگا کر از سر نو خوبصورت لان تبدیل کر دینگے اس دفعہ بچوں کیلیئے جھولے بھی لگائیں گے اور بچوں کو خوش کر مزید ہماری خوشی دوبالا ہوگا ٫

ہم تین دوست ملکر دوبارہ باغیچہ بنانے میں مصروف ہیں مزے کی بات ہے اگر مجھے یہ فطرت سے پیار نہ ہوتا تو یہ ٹریکٹر یہ رکشہ چلانا بھی نہ آتا الحمداللہ جہاز میسر نہیں آیا ورنہ اس پر بھی ہاتھ صاف کرتے ٫ میں چھوٹا تھا تو ابو نے موٹرسایکل چلانی سکھائیں تھی باقی گاڑی ٹریکٹر رکشہ ٹرک وغیرہ یہ سب از خود سیکھے اور سیکھنے میں بھی شاید ایک آدھ دن لگا تھا بات کہنے کا مقصد اتنا ہے شوق کے مول نہیں ہوتے آپ سب کر سکتے ہیں بس جذبہ جوان ہونا چاہئے۔

ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا ہم اسی فطرت کے بنے ہوئے ہیں، اسی کائنات کا تو حصہ ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے ہم بھول گئے ہیں۔ فطرت کے ساتھ ہمارا جو ریلیشن شپ ہے ، ہم وہ بھول چکے ہیں اور کچھ ایسے کام کرنے میں مصروف ہیں جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ کرنے سے ہمیں خوشی مل جائے گی۔ اب سوال یہ کہ کیا ہمیں خوشی مل گئی۔ سب کچھ تو کر لیا۔ نوکری مل گئی، دولت مل گئی، گھر ، بنگلے، گاڑیاں مل گئیں۔ اب بھی خوش کیوں نہیں ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

حل یہ ہے کہ جیسے سماج سوچ رہا ہے ، کیا وہ سچ ہے یا نہیں؟ سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان فطرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ہم فطرت کے ساتھ جڑے ہیں تو کیا ہم پودوں درختوں کو دیکھتے ہیں، کیا صبح واک کرنے جاتے ہیں، کیا پارک میں بیٹھ کر پرندوں کو آسمان پر اڑتا ہوا دیکھتے ہیں یا انہیں پودوں درختوں کی ٹہنیوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے ہیں۔ کائنات کے ساتھ دلکش رشتہ بنانے سے ہی انسان خوش رہ سکتا ہے۔ خوشی صبح کی تازہ ہوا میں ہے، خوشی پیڑ پودوں پرندوں اور جانوروں کے ساتھ رشتہ بنانے میں ہیں۔

خوشی ایک ہونے میں ہے۔ کائنات میں موجود ہر جاندار اور بے جان چیز ایک ہی ہے۔ ہم سانس کی وجہ سے زندہ ہیں اور یہ سانس آکسیجن ہے۔
Muhammad abuzar

“ ”جب ہم بچے تھے تو ہمارے محلے میں ایک مسجد تھی " العزیز " مسجد  - اس میں ہر سال رمضان کی ستائیسویں پر جب ختم قران ہوتا ...
26/11/2023

“ ”

جب ہم بچے تھے تو ہمارے محلے میں ایک مسجد تھی " العزیز " مسجد - اس میں ہر سال رمضان کی ستائیسویں پر جب ختم قران ہوتا تھا یا جب جمعے کی نماز میں کوئی اعلان کرنا ہوتا تھا تو اس کی تقریب سے خطاب کرتے ہویے اس مسجد کے متولی ہر دفعہ یہ بتاتے تھے کہ "اس مسجد کا افتتاح میری والدہ نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا ' اور ..اور ..............ہم ہم ..وہ "

اور والدہ کا ذکر آتے ہی وہ پچپن چھپن سال کا شخص چار پانچ سال کے بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگ جاتا تھا - یہ مشاہدہ بہت کامن تھا حتی کہ ہمارے ساتھ کچھ دوست بیٹھے ہوتے تھے جو مذاق سے اس وقت کانوں میں سرگوشی کرتے تھے "دیکھنا ! یہ یہ آج بھی روییںگے "

یہ مہر جاوید انکل کی کسی انسان کیلئے محبت کا میرا پہلا مشاہدہ تھا جو ان کی والدہ تھیں - اس کے بعد پچیس سال گزر گیے - ان پچیس سالوں میں میں نے یہ جانا کہ ان کی یہ انسان دوستی اور محبت فقط اپنی ماں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس طرح کے آنسوں تب بھی بہتے تھے جب وہ ایک بس کرایے پر لے کر ' اس میں سارے شہر کے جھگی والے غریب بچے بھر کر ان کو شہر کے کسی اچھے فاسٹ فوڈ اور گھنٹہ گھر میں آئسکریم کھلوانے لے کر جایا کرتے تھے تو مجھے اکثر ان بچوں کے جذبات بتاتے ہویے بھی وہ آبدیدہ ہوجاتے تھے ---- ان کی یہ ہچکی اس وقت بھی بندھ جاتی تھی جب وہ سردیوں میں انڈے بیچنے والے غریب بچوں اور سردی سے ٹھھٹرتے مزدروروں کیلئے دو سو دو سو گرم کوٹس اپنی گاڑی یا چنگچی رکشے میں رکھ کر شہر کے کسی چوک میں ایک بینر لگا کر کھڑے ہوجاتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا "میرے اس ٹھیلے پر گرم کوٹ کی قیمت ایک مسکراہٹ ہے " - اس وقت ان کی سادگی اور درویشی دیکھ کر کوئی بھی یہ گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ آدمی تیس سال میامی' فلوریڈا ( امریکا) میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں پاکستان کا نمائندہ رہا ہے -

میں نے پچھلے دس سالوں میں فلتنتھراپی کے پروجیکٹس کرتے ہویے بہت سے لوگوں کو غریبوں کے گھر راشن دیتے اور اس کام کیلئے محنت کرتے دیکھا ہے لیکن میں نے بہت کم لوگوں کو اس کام میں "پارٹی " محسوس کرتے اور اس کو دل سے انجواے کرتا دیکھا ہے - انکل جاوید یتیموں ' مسکینوں اور غریبوں کی خدمت میں انجواے کرتے تھے - لوگ عموما راشن کی تقسیم کیلئے ان گھروں اور خاندانوں کو ڈھونڈتے ہیں جہاں غربت نے ویرانے پھیلاے ہوں لیکن یہ وہ شخص تھا جو اس راشن کی خریداری کیلئے بھی پورے شہر کا چکر لگا کر ایسی کریانہ دکان ' ایسا جنرل سٹور ڈھونڈتا تھا جس کے پاس کوئی گاہک نہیں جاتا تھا - جس کا مالک کوئی غریب بزرگ ہوتا تھا - جس کی سیل نہیں ہوتی تھی - یہ وہاں سے سامان خرید کر وہاں پہنچاتا تھا اور ہمیں سکھاتا تھا کہ نیکی میں تقسیم یا تفریق کا فارمولا اپلائی نہیں ہوتا ' بلکہ یہ جمع اور ضرب کا ایسا معجزانہ فارمولا ہے جو اس کو کرنے میں شامل فاعل' مفعول اور ڈاکیے سب کو فائدہ ہی دیتا ہے -

انکل مہر جاوید کا خاندان ایک سیاسی خاندان تھا - ان کے بڑےبھائی مہر عبدالرشید بے نظیر بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے تھے -اس کے باوجود میں نے ان میں سیاستدانوں والی اکڑ اور طوطا چشمی نہیں دیکھی تھی - انہوں نے ہمارے محلے میں " ادارہ حقوق العباد " کی بنیاد رکھی- اس جگہ ہر ہفتے لنگر ہوتا تھا جس میں غریبوں کیلئے صرف فری کھانا نہیں بلکہ ہنسنے کیلئے لطیفے ' محظوظ ہونے کیلئے اقبال کے شعر اور تفریح کیلئے پنگوڑے اور آسمانی جھولے والے بھی ہوتے تھے - گویا لنگر کیا ایک پورا " بزم ادب " ہوتا تھا جس کے "چیف گیسٹ" وہ سب غریب ' مزدور 'مفلوک اور مخدوش افراد ہوتے تھے جن کو اپنی زندگیوں میں کبھی "چیف گیسٹ " بننے کا اعزاز نہیں ملا ہوتا - اس سال میں پاکستان گیا تو میں ان کے ایک ایسے بزم ادب میں شامل ہوا - ایک بات مجھے آج بھی یاد ہے جو میرے لئے بہت یونیک ہے - لنگر شروع ہونے سے پہلے انکل جاوید نے ان سب "چیف گیسٹس " کو مخاطب کر کے کہا
" آپ سب کو پتا ہے کیا کہ آپ کتنے وی ای پی ہیں ؟ -

سب حیران ہو کر ان کو اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ ہم تو یہاں خیرات میں کھانا کھانے بیٹھے ہیں - کپڑے میلے ہیں - پاؤں میں جوتا بھی نہیں ہے - جب کہ اسی تقریب میں امریکہ سے آے ڈاکٹر ' شہر کی ٹیکسٹائل مل کے مالک اور یونیورسٹی کے پروفیسر بھی ساتھ بیٹھے ہیں تو ہم بھلا " وی ای پی " کیسے ہوگیے -

اس پرانکل جاوید نے جو اگلا جملہ بولا وہ بحثیت ایک کالم نگار میرے لئے میرے کالموں کی زینت ہے :

انہوں نے کہا کہ "آپ سب بہت وی ای پی لوگ ہیں کیونکہ مجھے امریکا ' انگلینڈ سے بڑے بڑے لوگ ' یہ ٹیکسٹائل ملز کے مالک ' یہ ڈاکٹر ' یہ پروفیسرز جب پیسے بھیجتے ہیں تو ساتھ یہ رئیکوسٹ بھی کرتے ہیں کہ میں آپ سے ان لوگوں کیلئے دعا کا کہوں - اب یہ آپکی مرضی ہے کہ آپ دعا دیں یا نہ دیں - تو پھر وی ای آپی کون ہوا ؟ "

ان کا یہ جملہ سن کر چٹائی پر بیٹھے وہ سب غریب افراد سینہ چوڑا کرنے لگے جنہوں نے اس سے پہلے "وی آئ پی " کے الفاظ خود کیلئے نہیں سنے تھے اور پھر انہوں نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیے - اس خوبصورت انداز میں دعا کرنے کا کہنا اور اس میں بھی غریبوں کو بڑا اور وی ای پی محسوس کروانا میرے لئے بہت یونیک تھا -

انکل مہر جاوید نے اپنی مسجد کے ساتھ ایک فری ڈسپنسری بھی قائم کی ہوئی تھی جہاں ہر ہفتے فری آی کلینک لگتا تھا جس میں باقاعدہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بیٹھتا تھا اور غریبوں کا معائنہ کرکے انکی نظر کی عینکیں بنتی تھیں - وہ عینکیں بھی انکل جاوید خود بنوا بنوا کر ان غریب عورتوں اور بزرگوں کے گھروں میں تقسیم کرتے تھے - وہ کلینک بھی کیا تھا پورا کلاس روم تھا جس میں جگہ جگہ اقوال زریں ' اردو شعر اور انگلش کوٹس لکھے ہوتے تھے -

اگر آپ کو وہ اپنے گھر نہ ملیں تو ان کو مسجد میں ڈھونڈلیں - وہاں نہ ملیں تو اس کلینک میں ڈھونڈلیں اور اگر وہ کلینک میں بھی نہ ملیں اور کسی غریب بستی کی طرف بھی نہ نکلیں ہوں اور تب بھی وہ آپ کو نہ ملیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے - یہ میری ان کے ساتھ 26 جون 2023 کو آخری ملاقات کی تصویر ہے - مہر جاوید صاحب کل اپنے خالق حقیقی سے جا ملے - کل وہ اپنی ان امی سے جا ملے جن کا ذکر کرتے ہویے ہم نے اپنے بچپن سے ان کو آبدیدہ دیکھا تھا - میں نے بزرگوں کے ساتھ تصویر کھنچوائی ' چیف جسٹس ' سیاستدانوں اور شوبز فنکاروں کے ساتھ بھی تصویر کا حصہ بنا - لیکن یہ ایک فرشتے کے ساتھ میری پہلی اور آخری تصویر ہے - مجھے نہیں لگتا کہ اب اپنی زندگی میں کبھی میں اتنے انسان دوست ' اتنے حساس اور اتنے یونیک انسان سے پھر سے مل پاؤنگا - -آج خدمت انسانیت اور غریب دوستی کا ایک باب ختم ہوگیا - -
آج یتیموں کا خیال رکھنے والا ادارہ "حقوق العباد " خود یتیم ہوگیا——- آج میرے دور کا عبد الستار ایدھی رخصت ہوگیا - خدا ان کو ویسے ہی راحت پہنچایے جیسے وہ سردیوں میں ٹھٹھرتے بچوں کو اور فاقوں سے ڈرتی جھگی بستیوں کو راحت کا سامان پہنچاتے تھے -

انا لله و انا الیه راجعون

سب کہاں کچھ لا لُاو گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گئ کہ پِنہاں ہو گئیں

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج‌ہاۓ گراں مایہ کیا کیے

(ان کے کچھ بینرز کی تصویر یہاں لگا رہا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہوجائیگا کہ وہ اس کام کو انجواے کرتے تھے - مقصد ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا ‘ دوسروں کو اس کی ترغیب دینااور ان کیلئے دعاؤں کی درخواست ہے )

نواز

26/11/2023

Upper salhad mein choor ayay hein kai yeh darust hay kai ?

25/11/2023

گورا قبرستان ایبٹ آباد | ایک کہانی دیڑھ صدیوں کی
ایبٹ آباد کینٹ کا یہ مسیحی شہر خموشاں 1853 سے آباد ہے ، یہاں کئی جرنیل کرنیل ، افسران ، مسیحی بیبیاں اور یسوع کے عام و خاص پیروکار مدفن ہیں۔ سب سے پہلی قبر کا کتبہ بھی دیکھا جا سکتا ہے جو 1853 کا ہے، 1860 سے 1947 تک کے درجنوں قبروں کے کتبے محفوظ ہیں۔
جب میں سعد اورنگزیب صاحب کے ساتھ یہاں پہنچا تو وہاں ایک نئی قبر تیار کی جا رہی تھی۔ انھوں نے بتایا آج بھی اس قبرستان کے اندر دفن ہونا ہر مسیح کی خواہش ہوتی ہے تاہم ہو سکتا ہے یہاں بھی طبقاتی تقسیم رائج ہو۔
پس منظر:
سن 1849 تک ایبٹ آباد ٹاؤن جو اس وقت نواں شہر ، دہمتوڑ ، سلہڈ اور بانڈہ جات پر مشتمل تھا۔ یہاں نیم خودمختار خانگیاں تھیں ۔
انگریزوں نے 1853 کے لگ بھگ ایبٹ آباد چھاؤنی کی بنیاد رکھی ، یہ چھاؤنی سرد جنگ کے زمانے میں سٹرٹیجک اہمیت رکھتی تھی اسی لئے یہاں برٹش ہندوستان کی بہترین رجمنٹ گورکھا رجمنٹ کو سٹیشن کیا گیا۔
اس نئی چھاؤنی کو خوبصورت بنانے کےلئے سرینگر سے دیودار کے درخت منگوا کر لگائے گے ، اس زمانے میں ایبٹ آباد سے سرینگر تانگہ گاڑیاں جاتی تھیں جو براستہ گڑھی حبیب مظفرآباد داخل ہوتیں اور پھر دو میل سے بارہ مولا کی طرف محو سفر ہوتیں ۔
1900 صدی کے آغاز تک ایبٹ آباد کا تاریخی صدر بازار اپنے کاروباری عروج تک جا پہنچا تھا۔ یہاں گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا اور سردیوں میں شدید برف باری پڑتی ، دیہات سے ایبٹ آباد کا زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ۔
سردیوں میں کاروبار ماند پڑ جاتا ، لوگ دوکانیں کھولتے اور سارا دن لکڑی کی آگ کے سامنے بیٹھے قہوے اور حقے کے دور چلاتے۔
انگریز احکام ایبٹ آباد کے ساتھ مخلص رہے ، انھوں نے یہ ٹاؤن ماسٹر پلان کے ساتھ ترتیب دیا ، آج کا سکڑا ہوا کمپنی باغ کبھی فوارہ چوک سے شروع ہوتا تھا اور کینٹ تھانے تک جا لگتا تھا۔ سڑکیں کشادہ ، خوبصورت حب ندی ، مختصر مگر پررونق کینٹ بازار ، ماشکی روز پانی کا چھڑکاؤ کرتے ۔ سارے دن کے تھکے ہارے دیہاتی کمپنی باغ کی ٹھنڈی چھاؤں میں کچھ دیر رخصت سے پہلے آرام کرتے۔
اشرافیہ کےلئے کینٹ تھانے کے سامنے کیفے ، کچہری روڈ پر بار اور ٹھہرنے کےلئے پیلس ہوٹل کا شاندار انتظام موجود تھا ۔ عام مسافروں کےلئے گوشت مارکیٹ میں سرائے تھی جہاں شاید آج بھی سو ڈیڑھ سو روپے میں چارپائی مل جاتی ہے ۔ خانوں اور زمینداروں کی عیاشیوں اور بربادیوں کا سامان موتی بازار میں ریڈ لائٹ محلہ میں رکھا تھا۔
قصہ مختصر، یہ ٹھنڈا ٹاؤن اپنے آپ میں بہت پررونق تھا۔
تارڑ لکھتے ہیں سن 50 کی دہائی میں وہ رتی گلی براستہ ایبٹ آباد گے ، وہاں کے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ان کو ایک انگریز دور کی یادگار ڈائری ملی جس میں ایک انگریز کے یہ تاثرات لکھے تھے کاش وہ ایبٹ آباد ہی رک جاتا اور وہسکی سے اس وقت اپنی تواضع کر رہا ہوتا۔
آج یہ بےمثال ٹاؤن جن کے ہاتھ میں ہے ، وہ پیدا گیر ہیں ، وہ خود اربوں روپے کما چکے ہیں مگر اس شہر کو ایک وسیع سڑک تک نہی دے سکے ہیں۔ یہ شہر اب گھٹن زدہ ہے ، اب یہاں گندگی ہے ، سارے پہاڑ سربن ہلز سوسائٹی کے نام سے کاٹ کر پانچ پانچ مرلہ کر کے بیچ دیے گے ہیں۔
افسوس ، اس ٹاؤن کے مسیحا اب گورا قبرستان میں گہری نیند میں محو ہیں۔ یہ یتیم اور لاوارث شہر اپنے سنہری ماضی کا شہر خموشاں بن گیا ہے۔
Written by our friend and little historian Muhammad Jibran Abbasi

25/11/2023
Daughter of Salhad
25/11/2023

Daughter of Salhad

Salhad damping point...1995 main green area..Time k Sath 2023 main gandgee ka dheer ban gyaa...Credit  Khan tanoli
22/11/2023

Salhad damping point...1995 main green area..
Time k Sath 2023 main gandgee ka dheer ban gyaa...
Credit Khan tanoli

17/11/2023
16/11/2023

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات اور ماہر سماجیات فلپ زمبارڈو نے 1969 میں ایک دلچسپ تجربہ کیا جو بعد میں خاص طور پر کرمنالوجی اسٹڈیز اور عمومی طور پر سماجی علوم میں سب سے مشہور تجربات میں سے ایک بن گیا.
زمبارڈو نے دو کاریں دو بالکل مختلف جگہوں پر لاوراث چھوڑ دیں، دونوں کاروں کے بونٹ اور ڈگی کو کھول کر اوپر اٹھا دیا، نمبر پلیٹوں کو اتار کر ایک کار کو نیو یارک شہر کے زیادہ تر غریب، جرائم سے متاثرہ محلے میں، اور دوسری کار پالو آلٹو، کیلیفورنیا کے کافی متمول محلے میں کھڑی کر دی گئی۔

صرف 10 منٹ کے بعد نیویارک کے غریب محلے میں راہگیروں نے گاڑی کی توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ سب سے پہلے ایک خاندان نے گاڑی کی بیٹری اور ریڈی ایٹر نکال لیا، اس کے بعد دوسرے راہگیروں نے کار کے دیگر حصوں کے لیے بے ترتیب توڑ پھوڑ شروع کردی۔ کار کا جو حصہ کسی بھی طرح اٹھایا جاسکتا تھا وہ اٹھا لیا گیا اور بچ جانے والے حصوں مثلاً شیشوں وغیرہ کو توڑ کر ناکارہ بنا دیا گیا۔ تین دن کے اندر کار مکمل تباہ ہوکر سکریپ میں بدل گئی۔
اس کے برعکس پالو آلٹو میں کھڑی دوسری کار ایک ہفتے سے زائد عرصے تک اچھوت رہی۔

آخر کار، زمبارڈو نے کچھ غیر معمولی کیا، اس نے ایک ہتھوڑا لیا اور کیلیفورنیا میں کھڑی کار کے شیشوں کو توڑ دیا۔
اس کے بعد وہ قریب ہی چھپ کر تماشہ دیکھنے لگا، پہلے تو راہگیر جھجکتے ہوئے گزرتے رہے پھر جب راہگیروں نے ٹوٹے ہوئے شیشے دیکھے اور دیکھا کہ لاوارث کار کے آس پاس کوئی نہیں ہے تو ہر راہگیر نے حسب توفیق حصہ ڈالا اور گاڑی کی توڑ پھوڑ شروع ہوگئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلیفورنیا میں کھڑی کار کے شیشے ٹوٹنے کے بعد اس کی تباہی میں اور نیویارک میں تباہ شدہ کار دونوں میں ایک جیسا ہی وقت لگا۔ یہ فیلڈ اسٹڈی اس بات کا ایک سادہ سا مظاہرہ تھا کہ کس طرح واضح طور پر نظر انداز کی جانے والی چیز غنڈہ گردی یا بڑی تباہی کا نشانہ بن سکتی ہے۔
اور اگر لوگ جرائم پیشہ یا جلاؤ گھیراؤ کرنے والے نہ بھی ہوں تو وہ اردگرد کی "ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں" سے اثر لے کر غلط اقدام اٹھا لیتے ہیں.
زمبارڈو کا یہ تجربہ آنے والے دنوں میں اس نظریے سے کہیں زیادہ کسی چیز میں بدل گیا۔ یہ امریکہ میں جرائم اور پولیسنگ کے سب سے زیادہ بااثر نظریات میں سے ایک ایسے نظریے کی بنیاد بن گیا جسے "ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں" کا نام دیا گیا.

زمبارڈو کے تجربے کے چند برسوں بعد دیگر ماہرین نے اسی تجربے سے مختلف نظریات اخذ کیے مثلاً ماحول میں کسی بھی مسئلے کے چھوٹے حجم کو قطع نظر کرنے یا اسے حل کرنے میں کوتاہی برتنے سے اس ماحول کے بارے میں لوگوں کے رویوں اور طرز عمل پر منفی اثر ڈالے گا، جس سے زیادہ بڑے اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوں گے۔

ان مطالعات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کاروں اور عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی وہ مجرم نہیں تھے، اور وہ زیادہ تر عوام کا احترام اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری تھے۔
تاہم، ٹوٹی ہوئی کھڑکی نے ایک لطیف پیغام بھیجا کہ "اس مسئلے کی کسی کو پرواہ نہیں ہے اور جو چیز پہلے ہی ٹوٹ چکی تھی اسے مزید نقصان پہنچانے کے کوئی غلط نتائج نہیں ہیں".

یہ نظریہ زندگی کے بہت سے دوسرے شعبوں پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر؛

اگر کوئی عوامی پارک میں کچھ کچرا پھینک دیتا ہے، اور اس کوڑے کو مناسب وقت میں نہیں ہٹایا جاتا نہ ہی پھینکنے والوں پر کوئی سختی یا کوئی جرمانہ کیا جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے دوسرے لوگ اسی پارک میں اور دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہی کریں گے، اور جلد ہی عوامی پارک کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو جائیں گے، اور بالآخر ایک دن ہر خاص و عام کے داخلے پر پابندی لگ جائے گی، آج کل کچھ عوامی پارکوں میں یہی حال ہے۔

اس لیے آج چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرنا مستقبل میں بہت بڑے مسائل کا باعث بنے گا۔ درحقیقت، آج ہم جن بڑے مسائل جیسے صحت، ماحولیاتی اور سماجی و اخلاقی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، وہ کسی وقت کے چھوٹے چھوٹے غلط اعمال، رویے اور حالات کا تھوڑا تھوڑا جمع ہونے کا نتیجہ ہیں، جنہیں بروقت حل کرنے کی بجائے نظر انداز کیا گیا تھا.

لہٰذا اپنی زندگی میں ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہو۔ Broken windows
تحریر، تحقیق اور ترجمہ : توقیر بُھملہ

06/11/2023
05/11/2023

کیا آپ غیر شادی شدہ ہیں؟ یا آپکی ابھی نئی شادی ہوئی ہے؟ یا آپ ابھی مزید بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

اگر اس سوال کا جواب ہاں ہے

اور اگر آپ نے نہیں یہ بلڈ ٹیسٹ نہیں کرایا تو پہلی ہی فرست میں فوراً اپنا ایک انتہائی ضروری Hb- Electrophoresis نامی بلڈ ٹیسٹ کروائیے۔ جو آپ کو یہ بتائے گا کہ آپ تھیلیسیمیا کے کیرئیر تو نہیں ہیں۔ یہ سہولت تمام ٹیچنگ ہسپتالوں اور ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں موجود ہے۔

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔ جو والدین سے بچوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔۔

تھیلیسیمیا مائنر

اگر والدین میں سے کسی ایک میں سے کسی ایک میں بھی خون کے سرخ خلیوں میں موجود ہیمو گلوبن بنانے کی ایک ابنارمل جین ہے۔ اور وہ ابنارمل جین بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ تو وہ بچہ تھیلیسیمیا کا کیریئر ہوگا۔ تھیلیسیمیا کیرئیر میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اس کی جانچ اوپر بتائے گئے خون کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ اسے تھیلیسیمیا مائنر بھی کہیں گے۔ اگر دونوں والدین تھیلیسیمیا کے کیرئیر ہیں تو وہ اپنے بچے میں یہ ابنارمل جین منتقل کر سکتے ہیں۔ اور ہر حمل میں 25 فیصد چانس ہے کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہوگا۔

تھیلیسیمیا میجر

یہ خون کی ایک خطرناک بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کو وقفہ وقفہ کے بعد خون لگانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔اگر ان کو بروقت خون نہ لگایا تو انکی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے اور کئی دیگر بیماری حملہ آور ہو سکتی ہیں۔

تھیلیسیمیا انٹر میڈیا۔

یہ تھیلیسیمیا کی ایک درمیان قسم ہے۔ جس میں ہیمو گلوبن 9-7 gm/dl کے درمیان رہتا ہے۔ اور مریض کو خون لگوانے کی ضرورت تھیلیسیمیا میجر کی نسبت کم ہوتی ہے۔

پاکستان میں تھیلیسیمیا کے کیرئیر کی شرح 5.4 فیصد ہے۔ یعنی کل آبادی میں سے 1 کروڑ سے بھی زیادہ لوگ تھیلیسیمیا کے کیرئیر ہیں۔ مگر کیرئیر ایک نارمل زندگی ہی گزارتے ہیں۔ جب انکی شادی دوسرے کیرئیر سے ہوگی تو کام خراب ہوگا۔ اور ہر سال پاکستان میں 6 ہزار بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جو ساری عمر خون لگواتے رہتے ہیں۔

ایک اصول بنا لیں۔ کہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کا سو فیصد تھیلیسیمیا مائنر کا کیرئیر ٹیسٹ کروائیں۔ اگر اسکریننگ میں لڑکا کیرئیر نہیں نکلتا تو اسکی شادی بے فکر ہو کر کریں۔ لیکن اگر تشخیص میں لڑکا کیرئیر نکلتا ہے تو اسکی ہونے والی بیوی کا ٹیسٹ کرانا سمجھیں فرض ہوگیا۔ تاہم لڑکیاں بھی اپنا ٹیسٹ ضرور کروائیں کہ اگر وہ تھیلیسیمیا کی کیرئیر ہوں تو پھر ہونے والا خاوند کا شادی سے پہلے لازمی ٹیسٹ کرانا ہوگا۔

اگر انجانے میں دو کیرئیرز کی شادی ہو چکی ہے تو حمل کے تیسرے ماہ کے دوران CVS جنیٹک ٹیسٹ ہوتا ہے۔ وہ بھی حکومت پنجاب فری کرتی ہے۔ آپ کسی اچھے پرائویٹ ہسپتال سے بھی کرا سکتے ہیں۔ اگر بچہ میجر ہو تو حمل ضائع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے.

سی وی ایس ٹیسٹ کا طریقہ کار۔

اس ٹیسٹ کے لیے 13-11 ہفتے کے حمل میں پلاسنٹا (آنول) کا سامپل لیا جاتا ہے۔۔ جسے ماں کے خون کے ساتھ ملا کر چیک کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ سے وہ لوگ ہر حمل میں فائدہ اٹھائیں جو دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہیں۔ اور انکی شادی ہو چکی ہے۔ وہ سمجھیں ہر حمل میں انکا یہ ٹیسٹ کرانا انتہائی لازم ہے۔

دو تھیلیسیمیا مائنر کی شادی ہو جائے تو 25 فیصد چانس ہے بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔ یعنی 4 میں سے ایک بچہ۔ 25 فیصد چانس ہے کہ بچے میں ابنارمل جین نہیں منتقل ہوگی۔ اور 50 فیصد چانس ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا کیرئیر ہوگا۔

یہ ٹیسٹ وہ لوگ بھی ضرور کرائیں جنکی ابھی ابھی شادی ہوئی۔۔یا وہ جنکے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور وہ مزید بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

28/10/2023

16 اسباق آپ کو پڑھنا شروع کرنا چاہیے۔

1. علم حاصل کرنے کے لیے پڑھیں۔

2. یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے پڑھیں۔

3. تنقیدی اور تجزیاتی مہارتوں کو مضبوط بنانے کے لیے پڑھیں۔

4. اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے پڑھیں۔

5. لکھنے کی مہارت کو بہتر بنانے کے لیے پڑھیں۔

6. تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے کے لیے پڑھیں۔

7. توجہ اور ارتکاز کو بہتر بنانے کے لیے پڑھیں۔

8. ذہنی تخلیق اور حوصلہ افزائی کے لیے پڑھیں۔

9. اپنی رفتار سے سیکھنے کے لیے پڑھیں۔

10. تخیل کی حوصلہ افزائی کے لیے پڑھیں۔

11. گفتگو کی مہارت کو بہتر بنانے کے لیے پڑھیں۔

12. مزید ہمدرد بننے کے لیے پڑھیں۔

13. پڑھنے سے آپ کو بہتر نیند آنے میں مدد ملتی ہے۔

14. پڑھنا آپ کو صحبت کا ذریعہ محفوظ کرنے میں مدد کرتا ہے۔

15. پڑھنا آپ کی عمر بڑھاتا ہے۔

16. پڑھنا آپ کو صحیح لوگوں سے جوڑتا ہے

26/10/2023
25/10/2023
25/10/2023
24/10/2023

If this message reaches you, say yes please in comment section

سکول کے طلباء سے مارننگ اسمبلی میں بات کرنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ آپ یادوں کی بارات کے ساتھ اسکول میں داخل ہوتے ہیں...
15/10/2023

سکول کے طلباء سے مارننگ اسمبلی میں بات کرنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ آپ یادوں کی بارات کے ساتھ اسکول میں داخل ہوتے ہیں۔۔میں جب 12 اکتوبر 2023 کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نمبر 1 ایبٹ آباد کے محترم پرنسپل جناب اکرام الحق صاحب کی دعوت پر صبح سویرے اسکول پہنچا تو مجھے اپنی کچی کلاس کا زمانہ یعنی 1975 یاد آیا جب ہم پثھر کی روڑی سےبنے کچے فرش پر آلتی پالتی مار کر پڑھا کرتے تھے۔ہمارے اسکول کے پاس ہی پانی کے جندر ہوتے تھے۔ جن کے قریب ہی دریائے دوڑ کا پانی رواں دواں رہتا تھا۔ خواتین ڈمڑیں سے کپڑوں کو پیٹ کر چھویا نکالتی تھیں اور ہم اپنے بیگ یا قمیض کے دامن ( چہولی) میں چھوٹے چھوٹے پتھر یعنی روڑے بھر کر اسکول کے فرش کے لئے لے جایا کرتے تھے۔کیا زمانہ تھا وہ بھی۔

گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر 1 ایبٹ آباد کی عمارت پرانی طرز کی ہے۔ یہاں آ کر ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔اسکول میں دو طرح کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ہائی اسکول اور کالج سیکشن۔ فرسٹ ائیر کے طلباء سفید لباس اور دوسرے طلباء نیلے لباس میں ملبوس تھے۔ ہمارے زمانے میں ملیشیا کے کالے کپڑے ہوتے تھے۔

مارننگ اسمبلی میں اساتذہ اور طلباء نے انتہائی انہماک کے ساتھ گفتگو سنی۔ میں نے طلباء کو بتایا کہ اساتذہ کے اندر موجود کسی مرشد یا رہبر کو تلاش کریں پھر اس کے ساتھ جڑ جائیں۔ یہ بندہ یا mentor آپ کی کایا پلٹ دے گا۔تبدیلی کے عمل میں سب سے اہم شخصیت آپ خود ہیں۔ آپ کی رضا مندی، آپ کی willingness اگر نہیں تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ والدین، اساتذہ، ادارہ آپ کے سامنے بے بس ہیں۔ جب آپ تبدیلی کے لئے تیار ہوں گے سب آپ کے ساتھ آن کھڑے ہوں گے۔ورنہ کچھ نہیں۔

میں نے اپنے بچپن ،لڑکپن اور کالج کی زندگی کے کچھ واقعات سے گفتگو کا آغاز کیا اور پھر پاک فضائیہ کے فائیٹر جہازوںjet fighters کا ذکر کرنے کے بعد پسینجر جہازوں یعنی سی ون تھرٹیC-130 ،بوئنگ Boeing، کاساCasa کا ذکر کیا۔ پھر کیسے لگاتار محنت کے ذریعے پاکستان سول سروس جوائن کی۔ اور پھر تعلیم کے سلسلہ کو جو بیس برس قبل معاشی تنگدستی سے ٹوٹ گیا تھا کیسے واپس جوڑا۔ اس گفتگو کا مقصد بچوں کو یہ حوصلہ دینا تھا کہ آپ کے جذبہ اور عزم صمیم کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ محنت کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ یہاں تک کہ ذہانت بھی محنت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

میں تقریباً پینتالیس منٹ تک بچوں سے مخاطب رہا۔ آخری پندرہ منٹ سوالات کی نشست کے لئے مختص کۓ گئے تھے۔ ایک سوال بڑا ہی دلچسپ تھا۔
سوال: بندہ کیسے ہمہ وقت موٹیویٹڈ motivated رہ سکتا ہے۔?
میں نے بتایا کہ ایسی رفاقت اختیار کیجاۓ جہاں ہر وقت مثبت تبدیلی کی باتیں ہوتی رہتی ہوں۔ مثبت لوگوں سے نکلنے والی وائبز vibesآپ کو موٹیویٹڈ رکھیں گی۔ لہذا ان لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہیں جو نیگیٹو اسٹیٹس کو negative status quo کو توڑنا چاہتے ہیں۔
پرنسپل صاحب انتہائی ملنسار ،خوش اخلاق اور دور اندیش شخصیت تھے۔ چند اساتذہ کو میں پہلے سے جانتا تھا۔اس سیشن کے فوکل پرسن جناب عمر صاحب تھے جو خود بھی ایک محنتی ٹیچر ہیں۔مہمان نوازی میں ادارہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو اساتذہ مجھے رخصت کر رہے تھے ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ آج کی گفتگو بچوں کو مدتوں یاد رہے گی۔میرے لۓ بھی یہ سیشن بہت ہی پیارا تھا۔ میں نے ہر سطح کے بچوں کو خطاب کیا ہے لیکن اسکول کے بچوں سے بات کرنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔
Ali sahib

14/10/2023

گامی اڈہ پر واقع بچوں کی ہسپتال میں تھلیسیمیا کی ایک بچی کے لئے O نیگیٹو - بلڈ کی اشد ضرورت ہے جس کسی کا بھی ہو 5378257-0316 پر رابطہ کرے ۔ شکریہ

13/10/2023

Any Rose Valley students want to pay tribute or write few words about their late beloved teacher, this game welcomes your messages and tribute please do reach out to us

13/10/2023

میرا نام فہد قیوم ہے اور آج میں آپنے ایک عزیز استانی صاحبہ کے بارے میں ایک مقالہ تحریر کر رہا ہوں جن کی وفات ہو گئی ہے۔ جنازہ کل سلہڈ میں ادا کیا گیا۔ انھوں نے میری زندگی کو ایک قیمتی رنگ دیا اور ان کی محبت سے بھرپور شناخت کرنا واقعی ایک املاک کا اظہار ہے.

وہ مجھے تقریباً 8 سال تک تعلیم دیتی رہی تھیں. میرے دوسری جماعت کے وقت سے ہی میری تعلیم کا آغاز کیا اور میٹرک تک میری تعلیم کاری کرتیں رہی. ان کی طرف سے دی گئی تعلیم نے میرے علمی سفر کو روشن کیا اور مجھے ہر موقع پر بہتر بنانے کی راہوں کا راستہ دکھایا.

ان کی مہربانی اور تعلیم کی طرز پرمیانا ہوچکا تھا. وہ ہمیں محبت اور تعلیم کے اصول سکھاتیں تھیں جو ہمارے دلوں میں ہمیشہ جینے والے اصول بن گئے. ان کی معرفت اور تعلیم نے ان سب طلباء کو بھی فائدہ پہنچایا جو سلہڈ گاؤں کے تعلیم کے لئے ان کی راہوں پر آئے.

البتہ، ایک دن ایک دردناک خبر نے ہمارے دلوں کو چھوا. تقریباً آخری 8 سے 10 سالوں تک وہ فالج کا شکار ہو گئیں اور ان کی حالت بہت کرب بھری تھی. ان کی یہ بیماری انہیں آزادی سے حرکت کرنے سے محروم کر رہی تھی. تاہم، وہ اپنے کرم کے سلسلے کو جاری رکھے ہوۓ تھیں۔

آج، ہم ان کی آخرت میں سکون کی دعائیں کرتے ہیں. ہم ان کی دی ہوئ تعلیم کو یاد کرتے ہیں جو ہمیں ہمیشہ راہنمائی دیتی رہے گی. اللہ تعالی سے یہ دعا ہے کہ وہ ان کو جنت میں بلند مقام دے اور ان کی روح کو سکون دے۔

یہ معلمہ کی زندگی اور تعلیم کی قیمتی مثال ہے جو ہمیں یاد رہے گی اور ہمیں ہمیشہ ان کی محبت اور راہنمائی کا فائدہ حاصل ہوتا رہے گا. ان کی یادوں کو سر انجام دینا ایک قیمتی ورثہ ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا.اللہ تعالٰی سے دعا ہے انہیں جنتالفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ دعا گو فہدقیوم۔

Address

Abbottabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Salhad Talent Magazine posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category