Kalim Ahmad

Kalim Ahmad Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Kalim Ahmad, Digital creator, .

23/03/2024

Knowing the shelf life and maximum designed speed of your tires is crucial for a safe driving experience.

Did you know that the speed rating for each tire is indicated by a letter on the tire wall, ranging from L to H?

Additionally, the tire's shelf life is indicated by a four-digit number on the wall, with the first two digits indicating the week of manufacture and the last two indicating the year. It's important to note that a tire's validity is typically two to three years from the date of manufacture.

Therefore, it's crucial to ensure that your tires can withstand the pressure of high speeds to avoid accidents.

Many tire explosions occur due to increased speed, and this can be prevented by checking the letter indicated on your tires. Each wheel or tire has a certain speed rating, with the letter L meaning a maximum speed of 120 km/h and the letter H meaning above 210 km/h.

The letter L means a maximum speed of 120 km.
.. And the letter M means 130 km.
And the letter N means 140 km
And the letter P means 150 km.
And the letter Q means 160 km.
The letter R means 170 km.
And the letter H means above 210 km.

Stay safe on the road by being aware of your tire's maximum designed speed and shelf life.

21/03/2024
17/03/2024
29/01/2024
23/01/2024
13/01/2024
06/01/2024
30/12/2023
28/12/2023

‏تجارت + ملازمت + توکل
جب آپ رضہ اللہ کی وفات ہوئی تو ترکے میں صرف “کرنسی” کی مد میں 4 ارب 20 کروڑ 10 لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ ایک دینار گول سونے کا کچھ بھاری سا سکہ ہوتا تھا جو کہ ساڑھے 4 ماشے کے برابر تھا اور اسوقت ایک ماشہ پاکستانی 6 یا 7 ہزار روپے کا ہے۔ ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور 10 ہزار بکرے، بکریاں اور مویشی اس کے علاوہ تھے۔ مدینے اور اس کے اطراف میں بے شمار زمینیں تھیں، جبکہ آپ کی جائیداد میں سونے کی سلیں تک موجود تھیں ۔ وفات کے بعد ان سلوں کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا۔ مزدوروں نے صبح کاٹنا شروع کیا تو شام ہوگئی اور مزدوروں کے ہاتھ تک سوج گئے۔آپ کی وفات کے وقت آپ کی چاروں ازواج حیات تھیں اور بیوی کے حصے میں جائداد کا آٹھواں حصہ آتا ہے۔ آپ کی ایک ایک بیوی کے حصے میں کرنسی کی صورت میں 4 لاکھ دینار یعنی 400 ملین درہم آئے۔ یہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ تھے جن کو نہ صرف بدری صحابی ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہ ان 10 صحابہ میں آٹھویں نمبر پر موجود ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اسلام سے پہلے بھی تجارت ہی کیا کرتے تھے اور حضرت عثمانؓ کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو بالکل مفلوک الحال ہوچکے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مواخات بھی ایک انصاری صحابی سے کروادی۔ آپ نے ان انصاری صحابی سے کچھ نا لیا صرف یہ پوچھا کہ بازار کا راستہ کہاں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جو کماتے اس کے دو حصے کر دیتے تھے ایک حصہ خود رکھتے اور ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کر دیتے۔ ایک دفعہ 8 ہزار دینار کمائے تو 4 ہزار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا گھر پر کیا چھوڑا؟ فرمایا اتنا ہی ہے جتنا لے کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی “اے اللہ! عبدالرحمن جو رحمان کا تاجر ہے اس کے دونوں مالوں میں جو یہاں لے کر آیا ہے اور جو گھر پر چھوڑ کر آیا ہے اس میں برکت عطا فرما”۔ عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ ایک دفعہ مدینے میں ریت کا طوفان آ گیا لوگ حیران پریشان گھروں سے باہر نکل آئے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی دروازے پر آ گئیں اور پوچھا یہ طوفان کیسا ہے؟م لوگوں نے بتایا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ کا تجارتی قافلہ آیا ہے۔ آپ نے حیرت سے دریافت کیا بھلا تجارتی قافلہ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عین وسط شہر میں 700 سامان سے لدے اونٹ کھڑے تھے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ روتے جاتے اور لوگوں میں سامان بانٹتے جاتے تھے، حتی کہ پورے 700 اونٹوں کا سامان لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ مجموعی طور پر اسلام اور اسلامی معاشرے کا مزاج یہی ہے کہ تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جائے جبکہ نوکری اور غلامی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ رزق کے 10 دروازے ہیں جن میں سے 9 تجارت میں کھلتے ہیں اور باقی 1 میں دوسرے تمام شامل ہیں۔ لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ اسلام تبلیغ سے پھیلا یا تلوار سے؟ میرا ماننا یہ ہے کہ اسلام تجارت سے پھیلا ہے۔ مسلمان بے انتہا وسیع سوچ کے مالک تھے۔ یہ خود کو “برانڈ” بنانا اور “برانڈ” کرنا جانتے تھے۔ مسلمانوں نے خود کو کبھی بھی مکہ، مدینہ یا عرب تک محدود نہیں کیا۔ یہ ایران، عراق اور ہندوستان سے ہوتے ہوئے جزائر غرائب الہند تک پہنچ جاتے تھے اور اپنی “برانڈ” ساری دنیا میں متعارف کرواتے تھے۔ ان کی برانڈ کا نام “اسلام” تھا۔ مقصد اسلام ہوتا تھا اور نتیجے میں پیسہ بھی ملتا تھا۔ یہ کپڑے میں نقص اور عیب بتا کر بیچتے تھے، یہ بارش کے بعد گاہک کو بتاتے تھے کہ بارش کی وجہ سے گندم گیلی ہو گئی ہے اسلئے ہم اس کو اس کی اصل قیمت سے کم پر بیچیں گے۔ یہ معمولی فائدے پر بھی گاہک کو اچھی چیز بیچ دیتے تھے اور بیچا ہوا مال واپس بھی لیتے تھے اور تبدیل بھی کرتے تھے۔
آج ساری دنیا کو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ امپورٹ، ایکسپورٹ، سرمایہ کاری اور تجارت کرنے والوں کو عزت دینے سے ملک اور قومیں ترقی کرتی ہیں، لیکن جن کے اباؤ اجداد نے 3 براعظموں میں اپنا کاروبار متعارف کروایا وہی اس بات سے ناواقف ہیں۔ دنیا میں 500 بڑی آئل کمپنیز ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی کسی بھی مسلمان ملک کی نہیں ہے جب کہ تیل پیدا کرنے والے 11 میں سے 10 ممالک عرب ہیں۔ آپ کمال ملاحظہ کریں کہ مدینے میں یہودیوں کے مقابلے میں جو بازار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا وہاں پر باہر سے آنے والوں کو ”ٹیکس فری” ماحول دیا گیا۔ وہ وہاں اپنے خیمے لگاتے تھے لیکن ان سے کسی بھی قسم کی کوئی رقم نہیں لی جاتی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں یہودی بھاری بھاری ٹیکس لیتے تھے۔‏آج کاروباری لوگوں کے لیے اسرائیل ٹیکس فری ہے جبکہ ہمارے ملک میں کاروبار کرنا ہی عذاب بن گیا ہے

Copied

25/12/2023
19/12/2023

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kalim Ahmad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kalim Ahmad:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share