Interview khabar Urdu

Interview khabar Urdu s
(1)

24/03/2024
मुस्लिम समुदायको पाचौं बर्षको स्थापना दिवस २०८०को   सम्मान
21/03/2024

मुस्लिम समुदायको पाचौं बर्षको स्थापना दिवस २०८०को सम्मान

19/03/2024

बिरयानी

19/03/2024
  itehat sangh Nepal
02/03/2024

itehat sangh Nepal

Please Subscribe channel for more videos
28/10/2022

Please Subscribe channel for more videos

بین الاقوامی امریکن تئیزم یونیورسٹی فلوریڈا کی جانب سے ڈاکٹر مفتی محمدتقی عثمانی، ڈاکٹر  عزیز الرحمن، ڈاکٹر حافظ علاؤ ال...
12/10/2022

بین الاقوامی امریکن تئیزم یونیورسٹی فلوریڈا کی جانب سے ڈاکٹر مفتی محمدتقی عثمانی، ڈاکٹر عزیز الرحمن، ڈاکٹر حافظ علاؤ الدین سارنگ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

کراچی ۔ بین الاقوامی امریکن تئیزم یونیورسٹی فلوریڈا کی جانب سےڈاکٹر محمدتقی عثمانی نائب صدر دارالعلوم کراچی( اسلامک بینکنگ) ڈاکٹر عزیز الرحمن ناظم تعلیمات دارالعلوم کراچی (اسلامی نظام قانون وفقہ) ڈاکٹر حافظ علاؤ الدین سارنگ جامعہ مطلع العلوم کوئٹہ ( کو بین المذاہب مکالمہ وہم آہنگی) کے موضوعات پر حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔گزشتہ روز یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر ایھاب الشامی نے دورہ پاکستان کے دوران ڈاکٹر ہدایت الرحمان اور ڈاکٹر زاہد علی کی میزبانی میں ملک بھر کی دس سرکاری و پرائیوٹ جامعات کے مختلف تقریبات کے دوران تین گرانقدر علمی شخصیات کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔مزید یونیورسٹی حکام نے ڈاکٹر تقی عثمانی کو بورڈ آف اسٹڈیز کا چیرمین مقرر کردیا، دریں اثناء علمی حلقوں نے اعزاز پانے والے شخصیات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے بین الاقوامی اعزاز قرار دیا۔

28/09/2022

ملک گیر چھاپوں اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) کے 240 سے زیادہ ارکان کی گرفتاری کے بعد، مرکزی حکومت نے مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزام میں تنظیم پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی۔

ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ PFI اور اس سے وابستہ تنظیموں یا محاذوں کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت فوری اثر سے "غیر قانونی ایسوسی ایشن" قرار دیا گیا ہے۔

11/09/2022

📚 مسلمانوں کی عظمت رفتہ کیسے بحال ہوگی؟

آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ایک بھی معاشرہ یا ملک ایسا موجود نہیں جو پوری طرح اسلامی زندگی کی بھرپور نمائندگی کررہا ہو اور جس کو دیکھ کر یہ محسوس ہو سکے کہ اسلامی اخلاق کیا ہوتا ہے۔ مسلمان کیا معاملہ کرتا ہے اور کس طرح وہ خطرات کے باوجود سچائی کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس لیے میرے نزدیک اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ایک ایسا صالح معاشرہ قائم کیا جائے، جو اسلامی تعلیمات کی، ان کی روح کے مطابق نمائندگی کرے اور ان خصوصیات کا حامل معاشرہ ملکوں کی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر جلوہ گر ہو۔ اپنا وزن محسوس کراسکے۔ اس کے بغیر دنیا میں کوئی صالح انقلاب برپا نہیں ہوسکتا، آج پورے عالم اسلام کی کمزوری یہ ہے کہ ہم کسی ایک ملک یا خطے کا نام نہیں لے سکتے، جہاں کوئی آنکھ بند کر کے چلا جائے اور دیکھ لے کہ اسلام عملى زندگی میں کیسا ہوتا ہے، اسلامی اخلاق کیسے ہوتے ہیں، جہاں دیکھا جاسکے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا، ناپ تول میں کی نہیں کرتا ، دھوکہ نہیں دیتا، مسلمان زر کا پرستار نہیں ہے، وقتی منافع کی خاطر دائمی منافع کو ضائع نہیں کرتا، وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ مسلمان ظلم کرنا نہیں جانتا اسے سیم و زر کی بڑی سے بڑی ترغیب اور دولت خرید نہیں سکتی۔ وہ اپنے ضمیر کے خلاف کام نہیں کرتا، وہ جس بات کو حق کہتا ہے اس پر اپنا گھر لٹا سکتا ہے، اور اپنا سر کٹا سکتا ہے، اپنے خاندان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اوراس کی خاطر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ سکتا ہے، اور فاقہ کرکے مر سکتا ہے۔ آج پوری دنیائے اسلام کی سب سے بڑی احتیاج، اس کا سب سے بڑا فاقہ، اس کا سب سے بڑا فقر، سب سے بڑی تڑپ اور سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کوئی ایسا معاشرہ قائم ہوجائے کہ جس کی طرف ہم انگلی اٹھا کر فخر سے یہ کہہ سکیں کہ اسلام کو دیکھنا ہے تو اس معاشرے کو دیکھ لو۔ یہ چلتا پھرتا اسلام ہے، یہ زندہ شریعت محمدیﷺ ہے۔

11/09/2022

ایک بہت خوبصورت واقعہ کسی صاحب سے سنا آپ کی نظر کرتا ہوں
وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ دفتر سے میں نے چھٹی لی ہوئی تھی کیونکہ گھر کے کچھ ضروری کام نمٹانے تھے۔ میں بچوں کو کمپیوٹر پر گیم کھیلنا سکھا رہا تھا کہ باہر بیل بجی۔ کافی دیر کے بعد دوسری بیل ہوئی تو میں نے جا کر دورازہ کھولا۔ سامنے میری ہی عمر کے ایک صاحب کھڑے تھے۔
"...السلام علیکم ۔۔۔۔!"
انہوں نے نہایت مہذب انداز میں سلام کیا۔ پہلے تو میرے ذہن میں خیال گزرا یہ کوئی چندہ وغیرہ لینے والے ہیں۔ ان کے چہرے پر داڑھی خوب سج رہی تھی، اور لباس سے وہ چندہ مانگنے والے ہر گز نہیں لگ رہے تھے۔
"جی فرمایئے" ، میں نے پوچھا۔
"آپ طاہر صاحب ہیں؟"
’’جی‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔
"وہ مجھے رفیق صاحب نے بھیجا ہے۔ غالباً آپ کو کرائے دار کی ضرورت ہے۔"
ہاں ہاں۔۔۔!
"مجھے اچانک یاد آیا کہ میں نے دفتر کے ایک ساتھی کو بتایا تھا کہ میں نے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن کرائے پر دینا ہے اگر کوئی نیک اور چھوٹی سی فیملی اس کی نظر میں ہو تو بتائے۔ کیونکہ دفتر کی تنخواہ سے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اتنی دھوپ میں کافی دیر اسے باہر کھڑا رکھا۔"

اسے چھ ماہ کے لیے مکان کرائے پر چاہیے تھا۔ کیونکہ اپنا مکان وہ گرا کر دوبارہ تعمیر کروا رہے تھے۔ میں نے تین ہزار کرایہ بتایا۔ لیکن بات دو ہزار پر پکی ہو گئی۔
وہ چلا گیا تو مجھے افسوس ہونے لگا کہ کرایہ کچھ کم ہے۔ گو اوپر صرف ایک چھوٹا سا کمرہ، کچن اور باتھ روم تھا۔
مجھے اپنی بیوی کا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اسے معلوم ہو گا تو کتنا جھگڑا ہوگا۔ اور وہی ہوا۔ بقول اس کے دو ہزار تو صرف بچوں کی فیس ہے۔ مجھے اس نے کافی برا بھلا کہا اور میں چپ چاپ سنتا رہا، اور اپنی قسمت کو کوستا رہا ۔
میں نے ایم ایس سی بہت اچھے نمبروں سے کیا تھا۔ اس لیے فوراً نوکری مل گئی، نوکری ملی تو شادی بھی فوراً ہو گئی۔
میری بیوی بھی بہت پڑھی لکھی تھی۔ وہ بھی ایک انگریزی اسکول میں پڑھاتی تھی، ہمارے تین بچے تھے۔ مگر گزارا مشکل سے ہوتا تھا۔

اگلے ہی دن وہ صاحب اور ان کے بیوی بچے ہمارے گھر شفٹ ہوگئے۔ ان کی بیوی نے مکمل شرعی پردہ کیا ہوا تھا۔ دونوں بڑے بچے بہت ہی مہذب اور خوبصورت تھے۔ چھوٹا گود میں تھا۔
کچھ دنوں بعد ایک دن میں دفتر سے آیا تو میری بیوی نے بتایا کہ میں نے بچوں کو کرائے دار خاتون سے قرآن مجید پڑھنے کے لیے بھیج دیا ہے۔ اچھا پڑھاتی ہیں، ان کے اپنے بچے اتنی خوبصورت تلاوت کرتے ہیں۔

مزید کچھ دن بعد جب میں نے ان کے ایک بیٹے سے تلاوت سنی تو پہلی مرتبہ میرے دل میں خواہش ابھری کہ کاش ہمارے بچے بھی اتنا اچھا قرآن مجید پڑھیں۔
ایک دن میں باہر جانے لگا تو اپنی بیوی سے پوچھ ہی لیا کہ وہ پارلر جائے گی تو لیتا چلوں۔ کیونکہ پہلے تو دو مہینے میں تین چار مرتبہ پارلر جاتی تھی اور اس مہینے میں ایک بار بھی نہیں گئی تھی۔
اس نے جواب دیا کہ پارلر فضول خرچی ہے۔ جتنی خوبصورتی چہرے پر پانچ بار وضو کرنے،نماز اور تلاوت سے آتی ہے کسی چیز سے نہیں آتی۔ اگر زیادہ ضرورت ہو تو گھریلو استعمال کی چیزوں سے ہی چہرے پر نکھار رہتا ہے۔
ایک روز میں کیبل پر ڈرامہ دیکھ رہا تھا تو میرے چھوٹے بیٹے نے مجھے بغیر پوچھے ٹی وی بند کر دیا اور میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
"بابا یہ بیکار مشغلہ ہے۔ میں آپ کو اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ سناؤں۔"
مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن اپنے بیٹے کی زبانی جب واقعہ سنا تو میرا دل بھر آیا۔
"یہ تمہیں کس نے بتایا"، میں نے پوچھا۔
"ہماری استانی محترمہ نے۔۔۔ وہ قرآن مجید پڑھانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متعلق بتاتی ہیں۔"
اپنے گھر کی اور بیوی بچوں کی تیزی سے بدلتی حالت دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا کہ ایک روز بیوی نے کہا کہ کیبل کٹوادیں۔ کوئی نہیں دیکھتا اور ویسے بھی فضول خرچی اور اوپر سے گناہ ہے۔
چند روز بعد بیوی نے شاپنگ پر جانے کو کہا تو میں بخوشی تیار ہو گیا، اس نے کافی دنوں بعد شاپنگ کا کہا تھا ورنہ پہلے تو آئے دن بازار جانا رہتا تھا۔
"کیا خریدنا ہے؟"، میں نے پوچھا۔
’’برقعہ۔۔۔۔۔!!‘‘
کیا؟؟
میں ہنسا تو وہ بولی،
’’پہلے میں کتنے ہی غیر شرعی کام کرتی تھی، آپ نے کبھی مذاق نہیں اڑایا تھا، اب اچھا کام کرنا چاہتی ہوں تو آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔‘‘
میں کچھ نہ بولا۔
پھر چند دن بعد اس نے مجھے کافی سارے پیسے دیئے اور کہا فریج کی باقی قیمت ادا کر دیں۔ تاکہ مزید قسطیں نہ دینی پڑیں۔
"اتنے روپوں کی بچت کیسے ہوگئی؟"
"بس ہو گئی"، وہ مسکرائی
"جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے احکام پر چلنے لگے تو برکت خود بخود ہو جاتی ہے۔یہ بھی وہ کرائے دار خاتون نےبتایا ہے‘‘

سکون میرے اندر تک پھیل گیا۔میری بیوی اب نہ مجھ سے کبھی لڑی، نہ شکایت کی۔ بچوں کو وہ گھر میں پڑھا دیتی ہے۔ خود بچوں کے ساتھ قرآن مجید تجوید سے پڑھنا سیکھ رہی تھی، وہ خود نماز پڑھنے لگی تھی، اور بچوں کو سختی سے نماز پڑھنے بھیجتی۔
مجھے احساس ہونے لگا کہ نجات کا راستہ یہی تو ہے۔ پیسہ اور آرائش سکون نہیں دیتا۔ اطمینان تو بس اللہ کی یاد میں ہے۔
مجھے اس دن دو ہزار کرایہ تھوڑا لگ رہا تھا، آج سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ تو اتنا زیادہ تھا کہ آج میرا گھر سکون سے بھر گیا ہے۔
جزاک اللہ

10/09/2022

.
دنیا کا گندہ ترین دریا ۔

بنارس میں گنگا کنارے مانیکارنیکا شمشان گھاٹ۔
ہر ہندو کی خواہش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس ک لاش کو اس گھاٹ پر چتا دی جائے۔ بہت سے جاں بلب مریض اپنی موت سے پہلے یہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں تاکہ مرنے کے فورا" بعد ان کی چتا کو اس متبرک مقام پر آگ نصیب ہو سکے۔

اس مقصد کے لئے گھاٹ کنارے باقاعدہ کمرے بھی دستیاب ہیں جہاں مریض اور اس کے ساتھ آئے رشتے دار قیام کرتے ہیں۔ بنارس کے مختلف گھاٹوں پر روزانہ تقریبا" سو چتائوں کو آگ لگائ جاتی ہے جہاں ہر وقت جلے گوشت کی چراند پھیلی رہتی ہے۔ لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے بعض اوقات چتا کو جلانے والے متوفی کے لواحقین کے جانے کے بعد لکڑی بچانے کے لئے ادھ جلی لاش کو ہی کھینچ تان کر گنگا برد کردیتے ہیں جہاں اکثر ادھ جلی لاشیں پانی میں تیرتی نظر آتی ہیں ۔

بعض اوقات کنارے سے لگ جانے والی لاشوں کو کتے بھنبھؤڑتے ہیں۔ ان لاشوں کی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ھے اور اسی پانی میں یاتری خود کو غوطے دے کر اشنان کرتے ہیں اور اپنے پاپ دھوتے ہیں۔ اس مقام پر گنگا دنیا کا غلیظ ترین دریا بن جاتا ھے ۔

بنارس کے یہ چتا گھاٹ زمین پر جہنم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کہیں ارتھیاں پڑی ہوتی ہیں تو کہیں چتا میں مردے کی لاش آگ سے اکڑ رہی ہوتی ھے ۔
لکڑی اور چتا کو آگ لگانے والوں سے مول تول کرتے لوگ۔ کہیں لاش جل کانے کے بعد بانسوں کی مدد سے کھوپڑی پر ضربیں لگا کر اس کے ٹکڑے کہے جا رہے ہوتے ہیں۔
رات میں یہ منظر مزید بھیانک ہو جاتا ھے جب جگہ جگہ جلتی چتائیں اور دھوتی میں ملبوس آسیب نما افراد چتائوں کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف راکھ کوئلے آگ کیچڑ اور بدبو کا راج ہوتا ھے ۔

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور پاکیزگی ہمارا ایمان ہے
اللہ نے انسان کے لئے قبر کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جیسے اس کا بھرم بھی رہ جائے اور اس کی پاکیزگی بھی برقرار رہے

09/09/2022

جب کسی قوم میں مقصدو ہدف سے دوری،سستی وکاہلی اور غفلت ولاپرواہی اجتماعی طور پر عام ہوجائے تو تباہی و بربادی اس کا نصیب اورتنزلی وزوال پذیری اس کا مقدربن جاتی ہے

۔کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ قدرت قوموں کے مد وجزر، عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں کے اطلاق میں من حیث القوم کوئی فرق نہیں کرتی، جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کے لئے ہیں، وہی امت مسلمہ کے لیے ہیں اور جو ضابطے اہل کفر کے لئے ہیں وہی اہل ایمان کے لیے ہیں۔حق تعالی کے اصول اٹل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔
آج مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں جس پس روی کا شکار ہیں،اس کی واحد بنیادی وجہ تساہل پسندی وغفلت شعاری ہے۔ معروف سعودی عالم ڈاکٹرناصر بن سلیمان العمر اپنی کتاب‘‘الفتور؛مظاہرہ و اسبابہ’’میں ارقام فرماتے ہیں کہ سستی کی بیماری کسی خاص گروہ یا جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے؛البتہ جب یہ کسی قوم ومعاشرے کو اپنا ہدف بناتی ہے توصرف خاص عمر یا خاص پیشے والوں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی؛ بل کہ ہر عمر اور ہر قسم کے افراد خواہ علماء ہوں یا عوام، شیوخ ہوں یا نوجوان،مرد ہوں یا خواتین،امیر ہوں یا غریب،تندرست ہوں یا بیمار،پرہیز گار ہوں یا فاسق سب اس وبا میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ البتہ اس وبا میں مبتلا ہونے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔یہ کسی کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے اور کوئی اس سے کم متاثر ہوتا ہے۔اورہر کسی کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی وجوہات بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔
امام ابن جوزی ؒ (م 597ھ)فرماتے ہیں کہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا معاوضہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‘‘کل’’کا تصور ہماری زندگی میں ایک دھوکا ہے جو ہمیں ضیاع وقت کے افسوس سے بچاتا رہتا ہے۔ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو ’’کل‘‘ کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں، اتنی حماقتوں، اتنی و عدہ خلافیوں، اتنی بے جا امیدوں، اتنی غفلتوں، اتنی بے پروائیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لئے جواب دہ ہو؛ کیوں کہ اس کا آنے والا ’’کل‘‘ یعنی ’’فردا‘‘ کبھی نہیں آتا۔شاید اسی لیے داناؤو ں کے رجسٹر میں ’’کل‘‘ کا لفظ کہیں نہیں ملتا، البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثرت مل سکتا ہے۔
علّامہ ابنِ قدامہ مقدسیؒ(م 689ھ) لکھتے ہیں: کام کو آئندہ پر ٹالنے والے شخص کی مثال اُس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت کاٹنا ہو، جب وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے اور بہت مشقّت سے کٹے گا تو وہ کہے کہ میں ایک سال کے بعد اِس کو کاٹنے کے لئے آؤں گا؛مگراُسے یہ شُعور نہیں ہوتا کہ اِس عرصے میں درخت مزید مضبوط ہوجائے گا اور خود اُس شخص کی جتنی عمر گزرتی جائے گی وہ کمزور ہوتا جائے گا۔ آج جب وہ طاقتور ہونے کے باوجود درخت کونہیں کاٹ سکا تو ایک سال بعد جب وہ کمزور ہوجائے گا اور درخت زیادہ مضبوط، تو وہ کیونکر اُس درخت کو کاٹ سکے گا۔ (مختصر منہاج القاصدین، ص316)
غور کیاجائے توسستی اور کاہلی کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں،مثلاً زندگی کے بارے میں مقاصد کا واضح نہ ہونا، ترجیحات کا متعین نہ ہونا۔ اہم اور فوری امور کے بارے میں شعور کی کمی، اطمینان اور حسن کارکردگی کی کمی یا ناکامی کا خوف، اپنی ذات کا حقیقت سے بلند تصور، غلطیوں سے پاک کام کرنے کے بارے میں سوچتے رہنا، افراد اور متعلقہ لوگوں کو کام سپرد نہ کرنا،حالات اور ضرورت کے مطابق مطلوبہ صلاحیتوںکافقدان اور ارادے کی کمزوری،وغیرہ۔

*بیکاری کی نحوست:*
معاشرہ میں کسل مندی اور بے کاری کا رحجان اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔‘‘بیکاری’’ہزار خرابیوں کے پروان چڑھنے کا سبب بنتی ہے۔ بیکاری سے برائیوں کے دہانے کھلتے ہیں اور لایعنی معصیت تک پہونچاکر دم لیتی ہے۔آدمی مصروف رہے تو بے شمار برائیوں سے خود بخود بچارہتا ہے۔ غیر قوموں میں اس کا خاص اہتمام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے تعلیم کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں اپنے کاروبار میں مشغول رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں؛مگر مسلمان معاشرے میں اولاً تعلیم ہی ضرورت سے کم ہے اور تعلیم ہے بھی تو اس کے ساتھ بیکاری اور بری صحبت جیسی خرابیاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں قومی بیداری پیدا کی جائے اور والدین کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنی اولاد کو بیکاری کے عیب سے بچائیں۔ ورنہ اولاد جہنم کا ایندھن بن جائے گی۔
آج پان کی دکان پر، چائے کی سدابہار ہوٹلوں کے پاس، گلیوں اور شاہراہوں کے نکڑوں پر، یہ ہم عمروں کی بھیڑکیسی؟جو ہنسی مذاق میں مشغول اور ادھر ادھر گنہگار نگاہیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ جائیے! قریب جاکر معلوم کر لیجئے! ہر ایک اپنی شناخت ”اسلامی نام ” سے بتا دے گا؛ لیکن یہ مفت میں یہاں کھڑے ہو کر گناہ لوٹنے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟ کیا انہیں کوئی روک ٹوک

کرنے والا نہیں ہے؟ہاں! مگر روک ٹوک کون کرے؟ اگر غیر روکے گا تو اس کی عزت کی خیر نہیں اور والدین کو اپنے پیاروں کی بیکاری اور مٹر گشتی پرفکر ہوتی تو رونا ہی کس بات کاتھا؟ (ملخص از آج کا سبق ”صفحہ53مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحبؒ)
غفلت پسند اورسست مزاج لوگوں کووقت کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دن چڑھتا ہے تو ان پر سستی کی چادر تن جاتی ہے،ہلکے پھلکے آسان کام بھی انہیں پہاڑ کی طرح بھاری بھرکم دکھائی دیتے ہیں۔وقت کی متاع گراں مایہ وہ اپنے ہاتھوں سے برباد کر کے کہتے ہیں: بس ذرا سی سستی ہوگئی! کام کرنے کو جی نہیں چاہا! آج نہیں تو کل ہوجائے گا۔لمحوں سے گھنٹے،گھنٹوں سے دن،دنوں سے ہفتے اور ہفتوں سے مہینے وسال گزرتے چلے جاتے ہیں؛مگرغفلت و لاپرواہی کا شعور و احساس تک نہیں ہوتا۔ وقت کی تجوری سے جو خزانہ خرچ ہو گیا وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ ہمارے ہاتھ میں جو وقت ہے وہی ہماری اصل زندگی ہے۔سستی اور کسل مندی کا آسیب ہماری انمول زندگی کو بے مول کر کے رکھ دیتا ہے۔قرآن مجید میں منافقین کے حوالے سے کہاگیا کہ وہ نماز میں سستی کرتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔(النساء)ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے، پھر اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ بد مزاج اور سست رہتا ہے‘‘۔(بخاری ومسلم)معلوم ہوا کہ نماز چھوڑ کر صبح دیر تک سوتے رہنا بھی سست مزاجی کا ایک سبب ہے۔ رسول پاک ﷺ نے اپنی دعاؤوں میں سستی سے پناہ مانگی ہے، آپﷺ کی ایک مسنون دعا کا مفہوم یہ ہے۔اے اللہ میں غم اور حزن سے، بے بسی اور کسل مندی(سستی) سے، بخیلی اور بزدلی سے پناہ مانگتا ہوں۔(مسلم)ہم سب کو چاہیے کہ مذکورہ دعا اور دیگر مسنون دعاؤوں کو اپنے معمولات کاحصہ بنائیں؛ اس لیے کہ استعانت و استعاذہ یعنی اللہ سے مدد اور شیطان سے پناہ چاہے بغیر سستی جیسی بیماری سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

*سستی کے مضرات و نقصانات:*
کاہلی کے بہت سے مضرات و نقصانات ہیں،اجتماعی بھی اور انفرادی بھی۔یہ حقیقت ہے کہ ایک سست آدمی اپنی کاہلی و بے کاری کے سبب اپنی ذات، اپنے خاندان، اپنے معاشرے اور اپنی قوم سب کو نقصان پہنچاتا ہے۔اس کی کاہلی کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا؛بل کہ متعدی ہوتا چلا جاتا ہے۔ کاہلی ہی درحقیقت زوال،نقصان،تباہی اور خسران کا سبب ہے۔تساہل پسند مزاج کا حامل بہت جلد عزت سے ذلت کی طرف، دولت سے غربت کی طرف، بلندی سے پستی کی طرف،مستعدی سے بیکاری کی طرف اور اعلی ترین مناصب و ذمہ داریوں سے معمولی قسم کے کاموں کی طرف نزول کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اس طرح کیوں ہورہا ہے؟
کاہلی جیساکہ عرض کیا گیا قوموں کی پسماندگی کی اصل وجہ ہے،اسی سے غربت اور بے روزگاری عام ہے، چوری،ڈکیتی اور دیگرجرائم کی کثرت ہے،تعلیمی،معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بھی اگر کوئی چیز سم قاتل ہے تو وہ صرف کاہلی ہے۔ کاہل خود کو فائدہ نہیں پہونچاتا،چہ جائے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے،وہ نہ دوسروں کا بھلا کرتا ہے،نہ بھلے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے،سست مزاج آدمی کم ہمت اور پست حوصلہ ہوتا ہے، وہ محنت، کوشش اور جدوجہد کے بغیر ہی فوائد و غنائم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سستی کا شکار انسان اندر سے مایوس رہتا ہے اور یہی مایوسی و ناامیدی کی کیفیت اس میں میں بے عملی کا رجحان پیدا کرتی ہے۔ سستی کے بالمقابل محنت کشی،حوصلہ مندی،مستقل مزاجی، لگن، ولولہ، جوش، ارادے کا پکا ہونا وغیرہ یہ تمام رویے جس شخص میں ہوں گے وہ اپنے انمول خزانے کی قدر کرنے والا ہو گا،اپنے وقت کی قدر کرنے والا ہو گا،وہ ہر روز اپنے مقاصد کی فہرست بنا کر انہیں حاصل کرنے اور کام مکمل کرنے کی لگن میں رہے گا، سوشل میڈیا پر بے مقصد کی سکرولنگ اورتانک جھانک کے دوران اسے احساس ہو گا کہ وہ وقت کا خزانہ غلط جگہ لٹا رہا ہے۔
الغرض: سستی دینی اور دنیاوی ہر طرح کے خیر اور بھلائی سے محرومی کا سبب ہے۔پس جس شخص میں سستی سرایت کرگئی اور وہ اس پر راضی ہوگیا تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو خیر کثیر سے محروم کر دیا۔

*📌 سستی و کسل مندی کا علاج:*
کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مہلک مرض سے نجات حاصل کریں۔ اس بری عادت پر قابو پانے کی فکر و کوشش کریں جس کے لیے کچھ اہم امور کی طرف توجہ دیں:

1. نظام الاوقات بنائیں او رہر کام کو مناسب اور قابل عمل حصوں میں تقسیم کرلیں،پھر اسی کے مطابق عمل در آمد کریں۔

2. ناخوش گوار اور محنت طلب کام کو پہلے کر لیں تاکہ خوش گوار کاموں کو کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔

3. گزرے ہوئے وقت اور کیے ہوئے کام کا احتساب اور جائزہ لیتے رہیں،اس سے مزید کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

4. ان فوائد پر غور کریں جو کام کی تکمیل کے بعد آپ کو حاصل ہوں گے۔

5. اگر کام مکمل نہ ہو سکا تو درپیش آنے والے نقصانات پر غور کریں۔

6. اپنے قیمتی وقت کو بچانے کے لئے معمولی کاموں کو دوسروں کے سپرد کر دیں تاکہ آپ کے پاس اہم کاموں کے لئے وقت دستیاب ہو سکے۔

7. جب بھی آپ کوئی کام مکمل کر لیں تو اس پر خود کو انعام بھی دیں۔

22/06/2022

ملاقاتیں ضروری ہیں اگر رشتے بچانے ہیں
لگا کر بھول جانے سے پودے بھی سوکھ جاتے ہیں

Address

Rautahat
Gaur
0555

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Interview khabar Urdu posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Media/News Companies in Gaur

Show All