23/11/2023
والد صاحب محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے، نوکری کا زیادہ تر حصہ تو بطور معلم خدمات سرانجام دیں مگر کچھ چار، پانچ سال انتظامی عہدوں پر بھی رہے۔ ہمارے گھر میں ایک بریف کیس نما بکسا ہوا کرتا تھا جو کاغذوں سے بھرا ہوا کرتا تھا۔ ان کاغذوں میں زیادہ تر فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ہوا کرتی تھیں جن میں قرب و جوار کے لوگوں کی نوکری اور تبادلوں کی درخواستیں، زکوت اور مالی امداد کی درخواستیں، تعلیمی اسناد، شناختی کارڈ، سڑک کے لیے گرانٹ وغیرہ شامل تھیں۔ لوگ یہ سب اس امید پر والد صاحب کے حوالے کرتے تھے کہ ان کی جان پہچان کافی تھی اور مظفرآباد تک آنا جانا تھا اس لیے شاید ان کا کام بن جائے۔ کچھ لوگوں کے کام ہو جاتے ہوں گے جبکہ باقی کاغذ بکسے میں ہی پڑے رہتے تھے۔ میں نے جب پڑھنا لکھنا سیکھا تو کبھی کبھار گھنٹوں تک ان کاغذوں کو پھرولتا رہتا تھا۔
پچھلے دنوں جب اپنے گزشتہ پندرہ سال کے سنبھال کر رکھے گئے کاغذات میں غیرضروری پھینکنے کا ارادہ کیا تو والد صاحب والے بکسے کی یاد آئی۔
یورپ کے کاغذ اور خاص کر لال پاسپورٹ کا حصول ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے، اس دوران پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے اور تمام کاغذات اور ان کی درجنوں فوٹو کاپیوں کو بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔
ان کاغذات کو جس پلاسٹک کے ڈبّے میں رکھا ہوا تھا وہ ٹوٹنے والا ہو چکا تھا کیونکہ ان کا وزن پانچ سے چھ کلو ہوا ہو گا۔
ان میں ورک پرمٹ، ویزوں اور امیگریشن کی درخواستیں، فیس جمع کروانے کی رسیدیں، تعلیمی اسناد، جاب آفرز، زبان سیکھنے کے ثبوت، شناختی کارڈ، پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں وغیرہ شامل ہیں جو اس ڈیجیٹل دور میں مذید سنبھال کر رکھنے شاید ضروری نہیں رہے۔