Yasar Mumtaz

Yasar Mumtaz I am an IT Professional currently settled in Norway and originally belongs to Rawalakot, Poonch, Jam

والد صاحب محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے، نوکری کا زیادہ تر حصہ تو  بطور معلم خدمات سرانجام دیں مگر کچھ چار، پانچ سال انتظامی...
23/11/2023

والد صاحب محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے، نوکری کا زیادہ تر حصہ تو بطور معلم خدمات سرانجام دیں مگر کچھ چار، پانچ سال انتظامی عہدوں پر بھی رہے۔ ہمارے گھر میں ایک بریف کیس نما بکسا ہوا کرتا تھا جو کاغذوں سے بھرا ہوا کرتا تھا۔ ان کاغذوں میں زیادہ تر فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ہوا کرتی تھیں جن میں قرب و جوار کے لوگوں کی نوکری اور تبادلوں کی درخواستیں، زکوت اور مالی امداد کی درخواستیں، تعلیمی اسناد، شناختی کارڈ، سڑک کے لیے گرانٹ وغیرہ شامل تھیں۔ لوگ یہ سب اس امید پر والد صاحب کے حوالے کرتے تھے کہ ان کی جان پہچان کافی تھی اور مظفرآباد تک آنا جانا تھا اس لیے شاید ان کا کام بن جائے۔ کچھ لوگوں کے کام ہو جاتے ہوں گے جبکہ باقی کاغذ بکسے میں ہی پڑے رہتے تھے۔ میں نے جب پڑھنا لکھنا سیکھا تو کبھی کبھار گھنٹوں تک ان کاغذوں کو پھرولتا رہتا تھا۔

پچھلے دنوں جب اپنے گزشتہ پندرہ سال کے سنبھال کر رکھے گئے کاغذات میں غیرضروری پھینکنے کا ارادہ کیا تو والد صاحب والے بکسے کی یاد آئی۔
یورپ کے کاغذ اور خاص کر لال پاسپورٹ کا حصول ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے، اس دوران پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے اور تمام کاغذات اور ان کی درجنوں فوٹو کاپیوں کو بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔
ان کاغذات کو جس پلاسٹک کے ڈبّے میں رکھا ہوا تھا وہ ٹوٹنے والا ہو چکا تھا کیونکہ ان کا وزن پانچ سے چھ کلو ہوا ہو گا۔
ان میں ورک پرمٹ، ویزوں اور امیگریشن کی درخواستیں، فیس جمع کروانے کی رسیدیں، تعلیمی اسناد، جاب آفرز، زبان سیکھنے کے ثبوت، شناختی کارڈ، پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں وغیرہ شامل ہیں جو اس ڈیجیٹل دور میں مذید سنبھال کر رکھنے شاید ضروری نہیں رہے۔

05/10/2022

مسّلہ ہماری تاریخ پیدائش کا
آج کل کا تو معلوم نہیں لیکن ہمارے آزادکشمیر کے دیہی علاقوں میں آج سے صرف پندرہ، بیس سال پہلے تک بھی زیادہ تر بچوں کی پیدائش گھر میں ہوا کرتی تھی اور شاید آج بھی وہاں بچوں کی درست تاریخ پیدائش کا کسی سرکاری رجسٹر یا ڈیٹا بیس میں ریکارڈ کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے پیدا ہونے والے اکثر لوگوں کے جب کمپیوٹرائزڈ سناختی جارڈ بنے تو ان تاریخ پیدائش یکم جنوری لکھی گئی۔
ہمارا زمانہ ذرا بعد کا ہے، ہمارے وقتوں میں اکثر تاریخ پیدائش سکول میں داخلے والے دن درج ہوتی تھی۔ چنانچہ جس تاریخ کو سکول میں داخلہ ہوا وہی دن اور مہینہ چار، پانچ سال پہلے والے سال کے ملا کر ساتھ اسکول کے رجسٹر میں درج ہوئے، اور پھر دسویں کی سند یا سکول کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ پر شناختی کارڈ بنا۔ بعض اوقات تاریخ پیدائش کے لیے کسی اہم دن جیسے کے یوم پاکستان، قائد اعظم یا علامہ کی سالگرہ یا بھٹو صاحب کی پھانسی والے دن کا بھی انتخاب ہو جایا کرتا تھا تا کہ یاد رکھنے میں آسانی رہے۔ ہمارے بڑوں نے تاریخ کو ہندسوں میں لکھتے وقت دن اور مہینوں کے مختلف ہونے کی الجھن کا حل یہ نکالا کہ زیادہ تر بچوں کی تاریخ دو فروری، تین مارچ، چار اپریل یا پانچ مئی وغیرہ درج کروا دی اور یوں ہمارے لیے جدید دور میں تاریخ کے مختلف فارمیٹس کا مسّلہ بھی حل کر دیا۔
تاریخ میں سال کی اہمیت زمانے کے حساب سے بدلتی رہی ہے پرانے وقتوں میں چونکہ شناختی کارڈ بنوا کر فوج میں بھرتی یا بیرون ملک جانا ہوتا تھا تو دو، تین سال زیادہ لکھوا لیے جاتے تھے، آج کل پڑھائی میں فیل ہونے کے خطرے یا ایک جماعت میں بہتر نتائج کے لیے دو سال لگانے کے خدشے کے پیش نظر دو، تین سال کم لکھوائے جاتے ہیں۔
پیدائش کے دن کی انگریزی تاریخ تو اکثرماؤں کو یاد رہتی ہے کیونکہ ان کے لیے تو یہ ایک بڑا واقعہ ہوتا ہے البتہ مہینوں کا حساب کتاب چونکہ ہندی تھا چنانچہ جیٹھ کی تین تاریخ یا پوہ کی بیس تاریخ والا حساب کتاب ہوتا ہے جس سے دن کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ ہم میں سے اکثر کی کاغذی تاریخ پیدائش وہ نہیں جو حقیقی ہے اور اسی لیے جب کبھی کبھار یہاں ہمارا کوئی کولیگ اچانک گرم جوشی سے کاغذی سالگرہ کی مبارک باد دے تو تراہ نکل جاتا ہے اور کچھ اس طرح کی صورتحال بن جاتی ہے۔

31/07/2022

قلم، دوات کے دور کی یادیں۔

05/06/2021

اعجاز

دسویں جماعت کے میتھس کے مشکل سے مشکل سوال حل کرنے ہوں یا پھر طبیعات کی مساواتوں کی دائیں طرف کو بائیں طرف کے برابر ثابت کرنا یہ سب اعجاز کے بائیں ہاتھ کھیل تھا۔
گورنمنٹ پرائمری اسکول بلاڑی سے شروع ہوا میرا تعلیمی سفر ہمالیہ پبلک سکول راولاکوٹ، اقراء پبلک سکول عزیز آباد، اسلام آباد کالج فار بوائز جی سکس تھری، گارڈن کالج راولپنڈی، بارانی یونیورسٹی راولپنڈی، ڈالارنا یونیورسٹی سویڈن سے ہوتا ہوا اوسلو یونیورسٹی ناروے پر اختتام پذیر ہوا۔ اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات میرے ہمسفر رہے۔ تعلیم کے بعد مختصر مدت کے لیے یونیورسٹی کی سطح پر ٹیچنگ کے علاوہ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرتے پندرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جن میں سے تیرہ سال ناروے میں گزرے ہیں۔
تعلیمی اعتبار سے جہاں مجھے پاکستان اور سکینڈے نیویا کے بہترین اداروں میں پڑھنے کا موقع ملا وہیں پروفیشنل لائف کے دوران مجھے سکینڈےنیویا اور یورپ کے بہترین تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل پروفیشنلز کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔
زندگی میں بہت سے زہین اور قابل لوگوں سے واسطہ پڑا ہے مگر ان سے کوئی ایک بھی ذہانت اور قابلیت میں اعجاز کے برابر تو شاید ہوا ہو گا مگر اس سے بڑھ کر نہیں ہوا ہو گا۔
اعجاز احمد سکول میں میرے سے دو جماعتیں اور اپنے ہم عصروں سے میلوں آگے ہوا کرتا تھا۔ نویں اور دسویں جماعت کا الجبرا، طبیعات، کیمیا، حیاتیات بلکہ باقی مضامین میں بھی کوئی اُس کا مقابل نہیں تھا۔
وہ سکول کے بعد فالتو وقت میں اپنے ہی ہم جماعتوں کو میتھس اور سائنس کے مضامین پڑھایا کرتا تھا۔ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی کتابی کیڑا قسم کا نوجوان تھا بلکہ وہ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہا کرتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُسے وہ سب کچھ بہت آسانی سے سمجھ آ جایا کرتا تھا جو دوسروں کو استاد کی مدد سے بھی سمجھنے میں مُشکل ہوتی۔
میں نے آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں اعجاز اور کچھ دوسرے لوگوں سے ٹیوشن بھی پڑھی مگر اس کے باوجود میٹرک میں میرے نمبر اس سے کافی کم تھے۔ ایف ایس سی میں بھی میری کارکردگی کافی اوسط درجے کی رہی مگر پاکستان میں ماسٹرز اور پھر سویڈن اور ناروے میں تعلیم کے دوران میں کلاس کے ٹاپرز میں شامل رہا۔ پروفیشنل لائف میں بھی میری کارکردگی اگر غیر معمولی نہ رہی ہو تو ہمیشہ کم از کم اوسط درجے سے اوپر کی رہی۔
اگر میں یہ سب کر سکتا تھا تو اعجاز کچھ بھی کر سکتا تھا، ڈاکٹر بن سکتا تھا، انجنیئر بن سکتا تھا، سی ایس ایس کر سکتا تھا یا دنیا کی کسی ٹاپ کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر سکتا تھا، مگر بدقسمتی سے اُسے مناسب سرپرستی اور مالی وسائل دستیاب نہ تھے۔
میٹرک کے بعد اس نے مقامی کالج میں داخلہ لیا اور خدا جانے کیا وجہ ہوئی کے اسے ایف ایس سی کرتے کرتے کہیں سال لگ گئے، کوئی سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہوا، اس کالج سے بھی اچھے نمبروں میں ایف ایس سی کرنا اس کے لیے ہر گز مشکل نہیں تھا۔
اس دوران وہ مقامی پرائیویٹ سکولوں پڑھاتا رہا، اکثر اسکولوں کے اشتہار میں اس کا نام فخر سے چھپا ہوتا تھا۔
بعد میں معلوم ہوا کے اس نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور پھر بی ایس سی بھی کر لی۔ والد صاحب محکمہ تعلیم میں اعلی عہدے پر فائز ھوئے تو اعجاز جو ان کا عزیز طالب علم بھی تھا اس کی بحثیت سرکاری استاد تعیناتی کا خیال ان کے ذہن میں آیا۔ میں اُن دنوں پاکستان گیا تو کہنے لگے کہ اگر یہ بی ایڈ کر لے تو میں بھاگ دوڑ کر سکتا ہوں۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے مالی مشکلات ہوں تو کم از کم فیس کے سلسلے میں تو میں کچھ نہ کچھ مدد کر ہی سکتا ہوں یہ خیال بھی بدقسمتی سے مگر صرف خیال ہی رہا۔ بعد میں سنا کہ اس نے بی ایڈ کر لیا اور شاید بطور استاد تعیناتی بھی ہو گئی جو اگرچہ بہت حوصلہ افزا بات ہے مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ وہ زندگی میں اس سے بہت بہتر مقام کا حقدار تھا۔
اعجاز کا تعلق ہمارے ہاں اقلیتی برادری سے ہے، اور شاید اکثریتی برادری کے کئی ایسے نوجوان بھی خود کو اس جینئیس انسان سے بہتر سمجھتے ہونگے جو صرف دھرتی کا بوجھ ہیں۔ ٹیلنٹ میں اس خاندان کے سب لوگ ہی کمال ہیں، ان لوگوں کے ہاتھ میں ایسی صفائی ہے کہ جس کے ہم صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ خود اعجاز نے ایک بار لکڑی سے اتنا زبردست کرکٹ بیٹ بنایا تھا جو بازار سے خریدے گئے بیٹ سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ گاؤں میں گھروں پر ٹین کے خوبصورت چھت بنانے ہوں، اندرونی چھت بنانے ہوں یا دروازے اور کھڑکیاں، بہت کم سازو سامان کے ساتھ یہ لوگ زمانوں سے یہ تمام کام مہارت کے ساتھ سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔ جس کام کو ایک بار دیکھ لیں اس کو کامیابی سے اور بعض اوقات اُس سے بہتر طریقے سے تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔
اعجاز کے ایک چچا جناب سید حسین صاحب ہمارے علاقے کی مشہور اور معروف شخصیت ہیں جن کی قابلیت اور ذہانت کی ایک دنیا معترف ہے۔ دوسرے چچا اللہ بخشے میر محمّد خان المعروف ایم ایم خان نے ستر اور اسّی کی دہائی میں ضلع پونچھ کے ہزاروں لوگوں کو خلیجی ممالک بھیج کر اس خطّے کی تقدیر بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
یہ غیر معمولی ذہانت، ٹیلنٹ اور قابلیت رکھنے والا خاندان اگر کسی ترقی یافتہ معاشرے میں ہوتے تو یقینی طور پر یہ لوگ وہاں کی کریم کہلاتے مگر ہمارے ہاں انھیں زندگی بھر مشکلات اور تعصب کا سامنا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سب لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ نامناسب رہا ہے بہت سے لوگ ان کی بہت عزت بھی کرتے ہیں مگر یہ ذہین لوگ اس سے کہیں بہتر سلوک کے مستحق ہیں۔

15/05/2021

بیٹیاں
زمانہ جاہلیت میں جب کسی شخص کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو مایوسی، غم اور شرم سے اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا، حتیٰ کے یہ خفت مٹانے کی خاطر بچیوں کو زندہ درگور کرنا معمول کی بات ہوا کرتی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ آج پندرہ سو سال بعد بھی پسماندہ معاشروں میں چہروں کے سیاہ پڑنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ زندہ درگور کرنے کی رسم اگرچہ اب نہیں رہی، البتہ بہت سے علاقوں میں یکے بعد دیگرے بچیوں کی پیدائش کے بعد ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا معلوم ہو جانے پر اسقاط حمل اب بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ آج بھی بہت سے گھروں میں بچیوں کی پیدائش پر طعن و تشنیح، مار پیٹ اور کبھی کبھی قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ تقریباً ہمیشہ ہی سارا ملبہ بیچاری خاتون کے سر پر گرتا ہے، حالانکہ سائنسی اعتبار سے جنس کا فیصلہ مرد کے (وائی) کروموسومز کی بنیاد پر طے ہونا ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں سائنس اتنی ترقی ضرور کر گئی ہے کہ اب ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کی جنس کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے البتہ یہ کیسے طے ہوا کہ جنس کیا ہو گی یا یہ کہ کیا اس عمل میں دخل اندازی سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں، اس بارے میں سائنس اب بھی کچھ کہنے اور کرنے سے قاصر ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں آخر آج بھی ہم بیٹی کی پیدائش پر ویسی خوشی کیوں نہیں منا پاتے، جیسی بیٹے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے۔
پہلی وجہ تو معاشرے میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں پیش آنے والی مشکلات ہیں، ہمارے ہاں ایک جاہل اور نکھٹو مرد بھی اپنے آپ کو ایک تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی خاتون سے برتر سمجھتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ ایک مرد پیدا ہوا۔
چار دیواری سے نکلتے ہی خواتین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا عشرعشیر بھی مردوں کو نہیں سہنا پڑتا اور بد قسمتی سے چار دیواری سے باہر اکثر ایسے مسائل کے ذمہ دار مرد حضرات ہی ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے گھر کی خواتین کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔
چار دیواری کے اندر ساس، بہو کے جھگڑے معمول کی بات ہے۔ بیٹیوں کی پیدائش پر سب سے زیادہ غم و غصے کا اظہار بھی ساس کی طرف سے ہوتا ہے۔ اکثر معاملات میں مرد حضرات اپنی ماں کے غلط رویے کے باوجود خود کو اس کے آگے بےبس پاتے ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتے۔
لفظ “غیرت” بھی ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین سے ہی جڑا ہوتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل بھی تقریباً ہمیشہ خواتین ہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کی بہن، بیٹی گھر سے بھاگ جائے تو اس کے خاندان والوں پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اسے قتل کر دیں ورنہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پھر سے معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ دوسری طرف بھگانے والے لڑکے کا خاندان اُس کا ہر ممکن حد تک دفاع کرتا ہے اور معاشرے میں بھی اسے خاص ناپسندیدگی یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
مغرب میں بسنے والے ہمارے لوگوں کی ساری غیرت بھی عموماً بیٹیوں تک ہی محدود ہے، بیٹے اکثر جو چاہے کرتے پھریں۔ پرلے درجے کے عیاش لوگ جنھوں نے ساری زندگی یہاں کی آزادیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہوتا ہے ان کے گھر بھی جب بیٹی پیدا ہو جائے تو وہ خاندان سمیت پاکستان شفٹ ہونے پر غور شروع کر دیتے ہیں۔
دوغلے پن اور منافقت کے علاوہ کچھ سنجیدہ مسائل بھی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے لوگ اولاد نرینہ کی خواہئش رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر بڑھاپے میں والدین کا خیال جس طرح بیٹا رکھ سکتا ویسا ہمارے ہاں بیٹی کے لیے ممکن نہیں۔ مالی طور پر والدین کو سپورٹ کرنا، ان کے علاج معالجے اور دیکھ بھال کا بندوبست بھی بیٹے کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے اور اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ اکثر لوگوں کی خواہئش ہوتی ہے کہ ان کی نسل چلتی رہے، کوئی ان کا نام لیوا رہے۔
مجموعی طور پر ہمیں دوغلے پن، منافقت، صنفی امتیاز اور خواتین کی طرف تحقیر آمیز رویوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

04/04/2021

چلتی کا نام گاڑی
اگرمیں آپ کو بتاؤں کہ سویڈن میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کی ماسٹر ڈگری کے سب سے مشکل کورس “الگورتھم اینڈ کمپلیکسٹی” میں پہلی “ٹرائی” میں اے گریڈ لینے والے ایک یا دو لوگوں میں سے ایک بندہ ناروے میں ڈرائیونگ لائسنس کی پہلی تین ٹرائیوں میں فیل ہو گیا تو شاید آپ کو مشکل سے یقین آئے مگر یہ حقیقت ہے اور وہ بندہ خاکسار ہی ہے۔
بچپن میں سڑک ہمارے گھر سے دو کلومیٹر دور تھی مگر نِسان بسیں، مزدہ/ڈبّہ بسیں، ہوڈ والے اکثر بھوسے سے لدے ٹرک اور فورڈ ویگنیں چلانے والے “استاد” ہی ہمارے پہلے پہل کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ اکثر بچے اسکول سے واپسی کے راستوں میں یا پھر گھروں کی کچی چھت پر ان “اساتذہ” کی سڑک پر موڑ کاٹتے ہوئے سٹئیرنگ گھمانے کی نقل اتارتے اور منہ سے ہارن بجاتے نظر آیا کرتے تھے۔ جس عرصے میں ہم کسّ بازار/عزیز آباد میں چھٹی جماعت میں پڑھا کرتے تھے ہم سے دو جماعتیں آگے کے کچھ لڑکوں نے سکول چھوڑ کر استادوں کے زیر سایہ فورڈ ویگن سیکھنی شروع کر دی تھی اور کچھ عرصے بعد یہ خود تھوراڑ سے راولاکوٹ روٹ پر ویگن چلایا کرتے تھے۔ یعنی گاڑی چلانا کوئی راکٹ سائنس ہر گز نہیں ہے، جو بندہ بھی کوشش کرے ایک نہ ایک دن سیکھ ہی جاتا ہے۔
میں نے پاکستان میں گزرے پچیس سال کے دوران کبھی موٹر سائیکل بھی نہیں چلائی، اپنے پاس تو خیر سائیکل خریدنے کی استطاعت بھی نہیں تھی، اتفاق سے کسی یار دوست کے ساتھ سیکھنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ اندازہ البتہ تھا کہ یہ آسان نہیں ہو گا اور اس کی بڑی وجہ بچپن سے کچھ یہ رہی کہ
چلتے چلتے یونہی رک جاتا ہوں میں
بیٹھے بیٹھے کہیں کھو جاتا ہوں
نہیں نہیں وہ وجہ نہیں ہوتی ہمیشہ، طبعیت ہی کچھ ایسی ہے اور اس طرح کی طبیعت گاڑی چلانے کے لیے بالکل بھی آئیڈیل نہیں ہے۔
ناروے میں لائسنس کا حصول اکثر کافی طویل، صبر آزما اور جیب پر بھاری منصوبہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس پانچ سال پرانا لائسنس ہو وہ اپنے بچوں یا دوستوں کو گاڑی کے پیچھے "ایل" یعنی لیرنگ کا نشان لگا کر گاڑی سکھا سکتے ہیں، دوسری صورت میں کسی ڈرائیونگ سکول سے ایک گھنٹہ جو کہ دراصل صرف پینتالیس منٹ ہوتے ہیں اس کے چھ سو کراؤن ادا کرنے پڑتے ہیں جو کے پاکستان روپوں میں دس ہزار بنتے ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر لائسنس کا حصول یہاں کے حساب سے بھی کافی مہنگا پراجیکٹ ہے۔ پاکستانی یا صومالی اکثر جگاڑ بھی لگاتے ہیں یعنی کچھ لوگ آپ کے دوست یا رشتہ دار بن کر کم پیسوں میں آپ کا ہاتھ "سیدھا" کروا دیتے ہیں، جس کے بعد سکول کے ساتھ صرف ضروری گھنٹے لگانے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شاہ جی ہمارے بھی “دوست” بن گئے جو ایک ہی وقت میں چار بندے ساتھ بٹھاتے تھے اور ایک کو سٹئیرنگ دے کر باقیوں کو کہتے تھے کے تم دیکھ کرسیکھو، یوں بندا کہیں گھنٹے ان کے ساتھ خجل ہوتا رہتا۔ میں نے بھی چند گھنٹے ان کے ساتھ لگائے مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا، وقت کا ضیاع بھی ہو رہا تھا چنانچہ میں نے اپنے دوستوں کے مشورے سے ایک پاکستانی بٹ صاحب سے ڈیل کر لی۔ بٹ صاحب ویسے تو بھلے آدمی تھے مگر میرا ان کے ساتھ ڈرائیونگ سیکھنے کا تجربہ بہت برا رہا۔ وہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تقریبا سرگوشیوں میں بات کیا کرتے مگر بندہ اگر کوئی غلطی کر رہا ہوتا تو لمبے لمنبے سانس لینا شروع کر دیتے جس سے اُس کے ہاتھ پاؤں مزید پھول جاتے. ایک مرتبہ گاڑی چلاتے ہوۓ میں نے "اوور کنفیڈنٹ" ہو کر ایک ہاتھ سے گاڑی چلانی شروع کی اور دوسرے ہاتھ سے ناک کھجانی شروع کی تو گاڑی سائیڈ پر لگوا کر انھوں نے سمجھایا کے آپ ابھی اتنے ماہر نہیں ہوئے کہ ایک ہاتھ سے گاڑی چلائیں، دونوں ہاتھ استعمال کیا کریں۔ پہلی بار ڈرائیونگ ٹیسٹ کا وقت قریب آیا تو بٹ صاحب ابھی میری مہارت سے مطمئن نہیں تھے، ان کا اصرار تھا کہ مجھے ابھی مزید گھنٹے لگانے کی ضرورت ہے مگر میں مُصر تھا کے میں نے ٹیسٹ دینا ہے۔ ان کے ساتھ میں ڈیل میں دو بار ٹیسٹ دینا شامل تھا، اس لیے میں سوچ رہا تھا کہ فیل ہو بھی جاؤں تو تجربہ ہو جائے گا۔
خیر ٹیسٹ ہوا، میں اتفاق سے بہت اچھی گاڑی چلا رہا تھا، روٹ بھی جانا پہچانا تھا، ایک جگہ مگر میں نے چھوٹی سڑک سے بڑی سڑک پر داخل ہونا تھا اور اصولی طور پر میں نے بڑی سڑک پر سے آنے والی گاڑیوں کے لیے رکنا تھا۔ میں نے پہلے تو بریک لگائی مگر پھر دیکھا کہ گاڑیاں تھوڑی دور ہیں تو اپنی گاڑی بڑی سڑک پر ڈال دی، تب تک ایک گاڑی کافی زیادہ قریب آ چکی تھی۔ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ بریانی کی دیگ "تھلے" لگ چکی ہے، خیر واپسی کے راستے پر باقی خیریت ہی رہی مگر سٹیشن پر پہنچ کر انسٹرکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کے تم نے کیا غلطی کی، میں نے تسلیم کیا کے مجھے بڑی سڑک پر داخل ہوتے وقت انتظار کرنا چاہئے تھا، اس نے مجھے بتایا کے وہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ میں تمہیں پاس نہیں کر سکتا ، اگر وہ غلطی نہ ہوتی تو تم پاس تھے۔
دوسری بار ایک بوڑھی مائی نے ٹیسٹ لیا اور میں نے بہت ناقص ڈرائیونگ کی، موٹر وے پر لائن بدلتے ہوۓ اشارہ نہیں لگایا اور اوپر سے بریک لگا کر سپیڈ بھی آھستہ کر لی، جس پر پیچھے سے آنے والے ایک ٹرالر نے کان پھاڑنے والا ہارن بجایا اور مائی نے مجھے اشارہ کیا کہ واپس سٹیشن چلو، اور یوں میں دوسری بار بھی فیل ہو گیا۔
بٹ صاحب کے ساتھ ڈیل لائیسنس کے بغیر ختم ہوئی، اب سے پروگرام یہ بنا کہ سکول کی ڈبل بریک والی گاڑی کرائے پر لے کر اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹیسٹ دیے جائیں، اب تک جتنے پیسے خرچ ہو چکے تھے، ٹرائی ٹرائی اگین کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔
تیسری بار ایک خاتون نے ٹیسٹ لیا، اس بار کوئی بڑی غلطی تو نہیں کی مگر اوور آل کارکردگی اتنی تسلی بخش نہیں تھی چنانچہ ایک بار پھر ناکامی مقدر ٹھہری۔
چوتھی بار بھی ایک خاتون ہی نے ٹیسٹ لیا، تین بار فیل ہونے کے بعد اب میں بڑی حد تک عادی ہو چکا تھا اور اپنے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ
سب سے پہلے تو میں نے گھبرانا نہیں ہے
اس دفعہ میں نے خاتون کے ساتھ ریلکس ہو کر گپ شپ شروع کر دی، اس پر اپنی سرکاری نوکری کا رعب جمایا تو اسے اپنے تین بار فیل ہونے کا بھی بتا دیا، ڈرائیونگ اچھی رہی، اگرچہ اس کا کہنا تھا کے تم پیچھے والے شیشے (بیک مِرر) میں بہت کم دیکھ رہے ہو اور گردن کو بھی بہت کم ہلاتے ہو۔ خیر رحمدل خاتون نے بلآخر مجھے چوتھی کوشش میں پاس کر دیا۔
اب تقریبا پانچ سال ہو چکے ہیں گاڑی چلاتے ہوئے اور ایک دو بار ریورس کرتے ہوۓ پارکنگ میں دوسری گاڑیوں کو رگید کر نقصان بھرنے کے علاوہ کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ پیرالل یا متوازی پارکنگ میں کھڑی ایک نئی الیکٹرک کار کے آگے والے بمپر میں میری ٹرالی لگانے والی ہک گھس گئی، آس پاس کوئی نہیں تھا، دل میں خیال آیا کہ اس کی نئی گاڑی ہے، انشورنس والے ٹھیک کروا دیں گے مگر پھر میرے اندر کا صادق اور امین جذباتی ہو گیا اور میں نے ایک کاغذ پر اپنے موبائل نمبر لکھ کر اس کی ونڈ سکرین پر چپکا دیا۔ بندے نے دو دن بعد رابطہ کیا اور میرا خاص کر شکریہ ادا کیا کہ اکثر لوگ ایسی صورتحال میں بھاگ جاتے ہوتے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کی گاڑی کا سینسر ڈیمیج ہو گیا تھا اور میری پرانی گاڑی کی قیمت کے لگ بھگ خرچہ آیا، جو زیادہ تر میری انشورنس نے میرا بونس کاٹ کر پورا کیا۔
خلاصہ یہی ہے کہ ہو سکتا ہے آپ ایک یا بہت سے مشکل معاملات بہت آسانی سے حل کر لیتے ہوں مگر کچھ دوسرے کام جو اکثر لوگ آسانی سے کر لیں آپ کے لیے اس قدر آسان نہ ہوں۔

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سےذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقیعلامہ کے اس مشہور شعر کا دوسرا مصرع جس م...
01/04/2021

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی

علامہ کے اس مشہور شعر کا دوسرا مصرع جس میں وہ "ساقی" سے مخاطب ہیں اپنے لفظی معنوں کے حساب سے یہاں ناروے میں بلکل فیل ہے. یہاں کی مٹی کو ذرا سی نمی کی بجائے اگر آپ اس کا گارا بنا دیں تو بھی اس میں خود رو گھاس اور جھاڑیوں کے علاوہ کوئی کام کی چیز نہیں اگے گی۔
لہٰذا اگر آپ کو اچانک "اپنا اگاؤ، اپنا کھاؤ" کا جنون چڑھا ہے تو آپ کو زرخیز مٹی کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ اور یہاں آ کر آپ کے دیسی محاورے "ماٹی کے مول" یا ہماری پہاڑی میں "مِٹیا نیں پہا" بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں کیونکہ مٹی یہاں اچھی خاصی قیمتی ہے. پاکستان میں اتنی قیمت کا چونا مل جاتا ہے جس سے سفیدی بھی کی جا سکتی ہے اور جو دوسروں کو لگانے کے کام بھی آتا ہے۔
ناروے کی کل زمین کا تقریبآ تین فیصد حصہ قابل کاشت ہے، الگ بات ہے کہ اس حصے سے بھی یہ لوگ اپنی خوراک کا ستر فیصد تک حاصل کر لیتے ہیں۔ یہاں پاکستان کی طرح "بارہ" موسم تو خیر کیا ہونگے، باقی دنیا کی طرح چار بھی نہیں ہیں۔ یہاں در اصل دو ہی موسم ہیں، اندھیری سفید شدید سردیاں، اور روشن سبز ہلکی سردیاں. اپریل کے مہینے میں شمال کو چھوڑ کر ملک کے باقی میدانی علاقوں میں برف پگھل جاتی ہے. زمین کی اندرونی سطح مگر پھر بھی کافی سرد رہتی ہے، اپریل میں بھی اگر آپ زمین کی سطح سے گھاس والی تہہ ہٹائیں اور کسی بندے کو سزا کے طور پرآنکھوں پر پٹی باندھ کر اور قمیض اتار کر زمین پر الٹا لٹا دیں تو غالب امکان ہے کہ وہ آپ کو وہی مغلظات سنائے گا جو اس نے برف پر لٹانے پر آپ کو سنانی تھیں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے دوسرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی تو میں نے سوچا کیوں نہ اس بار اپنے ذمینداری والے ٹیلنٹ کو برؤے کار لا کر یہاں کی بنجر زمین سے سونا "اگلوایا" جائے. چنانچہ منصوبہ بنایا کہ صحن میں جو تھوڑی سے جگہ ہے اسے استعمال میں لایا جائے یا بقول بیگم اچھے بھلے صحن کا بیڑا غرق کیا جائے۔
ایک تو ہم نے لکڑی کا ڈیڑھ میٹر لمبا اور ایک میٹر چوڑا مستطیل نما ڈبہ خرید لیا، جس میں صرف مٹی بھرنی تھی اور بیج لگا دینے تھے. میرا ارادہ مگر زیادہ “بڑے” پیمانے پر کاشتکاری کا تھا. پاکستان کی طرح کے کدال یہاں عام نہیں ہیں، اس لیے بیلچے سے ہی ایک دو بائی ڈیڑھ گز کا گڑھا کھودنے کا آغاز کیا. مٹی باہر نکالنے کے بعد میں نے اسے صحن میں باقی ناہموار جگہوں کو ہموار کرنے کے لیے منتقل کر دیا۔ اب دیکھا تو گڑھا میرے توقعات سے زیادہ گہرا ہو چکا تھا اور میں نے جو مٹی خرید کر لایا تھا وہ اسے بھرنے کے لیے کم پڑتی نظر آ رہی تھے. ذہن میں ایک فوجی بھائیوں والا آئیڈیا آیا، کہ کیوں نہ ایک اور گڑھا کھود کر اس کی مٹی استعمال میں لائی جائے۔ پھر احساس ہوا کہ میں تو ایک سویلین ہوں، اور دوسرا گڑھا بھرنے کے لیے ایک اور گڑھا کھودنا پڑے گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا. خیر اس گڑھے میں زرخیز مٹی اور گائے کا گوبر مکس کر کے زمین کے برابر کر دیا۔ اب میں نے وہاں کچھ آلو دبا دیے ہیں اور ساتھ ساتھ پیاز کے بیج بو دیے ہیں۔
اِس کے علاوہ بھی ٹماٹر اور کھیرے کے بیج ایک انڈوں کے خالی کریٹ میں بو دیے ہیں۔ اگر اِن میں کچھ نکل آیا تو پودوں کو ایک مہینے تک باہر لگا دوں گا۔
آج کل بھی رات کو درجہ حرارت اکثر نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا ہے اس لیے آگے چل کر کیا صورتحال ہو گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے.
البتہ چونکہ آج کل زمینی حقیقتوں سے زیادہ فیس بک پر نتائج اہم ہیں، اس لے فوٹو شاپ کی مدد سے سال بھر کے لیے آلو اور دوسری سبزیاں دکھانے کا پلان بی بھی تیار ہے۔

نوٹ، یہ تحریر پچھلے سال لکھی تھی، ترمیم کے بغیر لگائی گئی ہے.

ناروے میں مقیم کشمیری زمیندار کی کہانی
01/04/2021

ناروے میں مقیم کشمیری زمیندار کی کہانی

A tale of Kashmiri landlord in Norway ناروے میں مقیم کشمیری زمیندار کی کہانی

کرونا کی وجہ سے گھر سے کام، کاہلی اور جسمانی ورزش کی ضرورت. Working from home and lack of physical activity.  https://yo...
31/01/2021

کرونا کی وجہ سے گھر سے کام، کاہلی اور جسمانی ورزش کی ضرورت.
Working from home and lack of physical activity.
https://youtu.be/QoiiDVGoWUM

Work from home and lack of physical activity | گھر سے کام اور جسمانی ورزش کی ضرورت

پریشر کُوکربچپن میں ہمارے گھر میں نیا نیا پریشر کُوکر آیا تو اُس کی جادوئی قوتوں کے بارے میں طرح طرح کے انکشافات ہونے لگ...
10/01/2021

پریشر کُوکر
بچپن میں ہمارے گھر میں نیا نیا پریشر کُوکر آیا تو اُس کی جادوئی قوتوں کے بارے میں طرح طرح کے انکشافات ہونے لگے۔ مثال کے طور پر معلوم ہوا کہ ہم پہاڑی لوگوں کے پسندیدہ پکوان مثلاً سرخ لوبیا (مہوٹھی) اور گائے، بھینس کا گوشت (موٹا گوشت) کُوکر کے اندر آدھے گھنٹے میں گل جاتے ہیں۔ سطح سمندر سے بلندی کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ دونوں اور کچھ دوسری دیر سے پکنے والی غذائیں اکثر ادھ کچی ہی کھائی جاتی ہیں۔
فائدوں کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات کا بھی تذکرہ ہوا تو پتا چلا کہ بھاپ مکمل طور پر خارج کیے بغیر ڈھکن کھولنے کی صورت میں ایک خوفناک دھماکہ ہوتا ہے جس میں اگر بندا زندہ بچ بھی جائے تو اکثر ساری زندگی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا (کیونکہ منہ بری طرح سے جھلس جاتا ہے)۔ نیز یہ کہ اکثر چولہے کے ساتھ ہی گیس کا سلنڈر بھی رکھا ہوتا ہے اور اگر وہ بھی کُوکر کی لپیٹ میں آ گیا تو سمجھو سارا گھر ہی اڑ گیا۔ قرب و جوار کے دوسرے گاؤں میں پریشر کُوکر کی زد میں آ کر زخمی اور جان بحق ہوئے لوگوں کا سن کر دل دہل سا گیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ انجانے میں ہم ایک چھوٹا مگر خطرناک بم گھر لے آئے ہیں۔ میں اس سے چھٹکارا پانے کی ترکیب سوچنے لگا، کچھ دیر کے بعد میں نے پرجوش انداز میں گھر والوں کو مخاطب کیا اور انھیں بتایا کہ میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے. گھر والے متوجہ ہوئے تو میں نے کہا، اگر ہم اس کُوکر کو باہر برامدے کے کونے پر رکھیں جہاں سے آگے ڈھلوان ہے اور اس پر نشانہ باندھ کر اسے گولی سے اڑا دیں تو کیسا رہے گا؟
امی نے پہلے تو مجھے غور سے دیکھا اور پھر قہقہ لگا کر بولیں، میں نے یہ دو سو روپے کا کُوکر گولیوں سے اڑانے کے لیے لایا ہے؟ احتیاط کے ساتھ ساری دنیا استعمال کرتی ہے، ہم بھی کریں گے۔ بعد میں کافی عرصہ تک گھر میں میرا مذاق اڑایا جاتا رہا کہ یہ پریشر کُوکر کو گولیوں سے اڑانا چاہتا ہے۔
پریشر کُوکر کے اوپر ہلتے ہوئے ویٹ سے نکلتی ہوئی سیٹی کی آواز سے آج بھی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔

05/01/2021

کشمیری سُدھن کون ہیں؟
افغانی پشتون، پہاڑی راجپوت یا پھر برہمن جنگجو؟
ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کیا کہتے ہیں؟

کشمیری سُدھن کون ہیں؟ افغانی پشتون، پہاڑی راجپوت یا پھر برہمن جنگجو؟ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کیا کہتے ہیں؟ جملہ حقوق بحق...
25/12/2020

کشمیری سُدھن کون ہیں؟
افغانی پشتون، پہاڑی راجپوت یا پھر برہمن جنگجو؟
ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کیا کہتے ہیں؟
جملہ حقوق بحق "یاسر" محفوظ ہیں البتہ ویڈیو کو پسندیدگی اور ناپسندیدگی دونوں صورتوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلانے کی اجازت دی جاتی ہے.

https://youtu.be/qdvR5psomBw

What does DNA test reveals about origin of Kashmiri Sudhans? کشمیری سُدھن کون ہیں؟ افغانی پشتون، پہاڑی راجپوت یا پھر برہمن جنگجو؟ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کی...

30/10/2020

نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند نعتیہ اشعار.

26/10/2020

کچھ دن پہلے فرانس میں جب ایک تاریخ کے استاد نے فریڈم آف سپیچ کی مثال کے طور پر نبی پاک کے خاکے کلاس میں دیکھائے تو کلاس میں موجود طلبہ نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ بات مقامی مسلم کمیونٹی تک پھیل گئی اور مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر بھی احتجاج کیا۔
چیچنیا سے آئے ایک اٹھارہ سالہ پناہ گزین نے طیش میں آ کر استاد کا سر قلم کر دیا جسے جلد ہی پولیس نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
موجودہ دور میں دولت اسلامیہ کی وجہ سے سر قلم کرنا اکثر اسلام اور مسلمانوں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ فرانس سمیت پوری مغربی دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مغربی زرائع ابلاغ میں اسے خاص طور پر بہت پذیرائی ملی۔ مارے جانے والے اُستاد کو فرانس کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس واقعے کے چند دن بعد ممکنہ طور پر اسی کے رد عمل میں ایفل ٹاور کے پاس ایک مسلم خاندان پر اسلام مخالف خواتین نے پہلے تو کتے چھوڑ دیے اور جب انھوں نے کتوں کو روکنے کا کہا تو اُن پر چاقوؤں سے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں دو خواتین شدید زخمی ہو گئیں۔ اس دوسرے واقعے کا کسی نیوز چینل نے ذکر تک نہیں کیا، حتیٰ کے یہاں ناروے میں ہمارے ایک صحافی دوست نے یہاں کے اخبارت اور ٹی وی سے رابطہ بھی کیا مگر اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس موقعے پر مسلمانوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا مطلوب نہیں تھا۔
فرانس میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں، ان کی زیادہ تعداد الجزائر جیسے ممالک سے آئی ہے جہاں ابھی ماضی قریب تک فرانس کا قبضہ تھا بلکہ آج بھی کسی نہ کسی طریقے سے فرانس ان کا خون چوس رہا ہے۔ فرانسیسی صدر ایک خاص بیک گراؤنڈ کا حامل شخص ہے اور اس کے حالیہ اسلام مخالف بیانات محض اتفاقیہ نہیں ہیں۔ مغرب میں نائن الیون کے بعد سے مسلمان اور اسلام ایک ولِن کی حثیت رکھتے ہیں اور جب کبھی ان ممالک میں معاشی یا اندرونی مشکلات درپیش ہوں تو اکثر پہلے مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جاتا ہے، انھیں توہین آمیز خاکوں وغیرہ کے ذریعے اشتعال دلایا جاتا ہے اور پھر جب کوئی سانحہ ہو جائے تو چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے اور یوں کچھ عرصہ کے لیے توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔
یہ سلسلہ تب تک ایسے ہی چلے گا جب تک مغربی دنیا اپنے لیے کوئی نیا "دشمن" تخلیق نہیں کر لیتی۔
جہاں تک موجودہ دور کے مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ہمارے میاں محمد صاحب فرما گئے ہیں کہ
لِسّے دا کی زور محمد، نسّ جانا یا رونا

آپ نے یقینی طور پر بِٹ کوائن یا دوسری کریپٹو کرنسیز کا نام سنا ہو گا۔ بِٹ کوائن جس کی قیمت شروع میں ایک ڈالر تھی ابھی کچ...
05/10/2020

آپ نے یقینی طور پر بِٹ کوائن یا دوسری کریپٹو کرنسیز کا نام سنا ہو گا۔ بِٹ کوائن جس کی قیمت شروع میں ایک ڈالر تھی ابھی کچھ عرصہ پہلے بیس ہزار ڈالر تک بھی پہنچا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً پانچ ہزار قسم کی کریپٹو کرنسیز موجود ہیں۔ زیادہ تر کرنسیز کو مائن کرنے کے لیے طاقتور کمپیوٹرز چاہیے ہوتے ہیں۔ ان پانچ ہزار میں صرف ایک کرنسی ایسی ہے جس کو آپ اپنے موبائل فون سے بھی بنا سکتے ہیں.
اس کرنسی کا نام پائی (PI) ہے اور یہ امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی کے چند پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس کا پراجیکٹ ہے۔ ابھی اس کرنسی کو بنانا مفت ہے اور اگلے سال مارچ میں جب اسکی سیل سٹارٹ ہو گی تو امید کی جا رہی ہے کہ ایک پائی کوائن کی قیمت پچاس ڈالرز تک ہو سکتی ہے۔ آپ اس کی ایپ نیچے دیے ہوئے لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ موبائل ڈیٹا یا بیٹری کا بہت کم یا نہ ہونے کے برابر استعمال کرتی ہے۔
ہر روز چوبیس گھنٹے میں آپ کو ایک بار بٹن دبانا ہوتا ہے، جتنے زیادہ لوگ آپ کے سرکل میں شامل ہوتے ہیں اتنا ہی مائننگ کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ رجسٹریشن کے دوران جب Invitation code کا مرحلہ آئے تو آپ ysrmmz انٹر کر کے اس ایپ کو استعمال کرنا شروع کر سکتے ہیں۔

Pi is a new digital currency being developed by a group of Stanford PhDs. For a limited time, you can join the beta to earn Pi and help grow the network.

عجائب گھر کی سیرکریستیان ساند ناروےhttps://youtu.be/QwZ-5y6800g
26/09/2020

عجائب گھر کی سیر
کریستیان ساند
ناروے
https://youtu.be/QwZ-5y6800g

A visit to Kristiansand Museum Norway ناروے کے ایک عجائب گھر کی سیر

بچپن میں ہمارے سکول کے بستے بھی کچھ ایسے ہی ہوا کرتے تھے. عام طور جن بچوں کے والدین خلیجی ممالک میں نوکری کرتے تھے وہ ان...
25/09/2020

بچپن میں ہمارے سکول کے بستے بھی کچھ ایسے ہی ہوا کرتے تھے.
عام طور جن بچوں کے والدین خلیجی ممالک میں نوکری کرتے تھے وہ ان کے لیے وہاں سے پائیدار بستے لے آتے تھے. ہمیں اگر دیکھا دیکھی گھر والے بازار سے خرید بھی دیتے تو کوالٹی اتنی گھٹیا ہوتی کے درجن بھر کاپیوں اور کتابوں کا وزن چند دن میں ہی بستے کا کچومر نکال کر رکھ دیتا.
ایسے میں اکثر ہماری مائیں گھر کے بچے کھچے کپڑوں سے ہمارے لیے بستہ تیار کرتیں، جو کافی وقت نکال جایا کرتا تھا. اس کے علاوہ ہم شاپنگ بیگ بھی بستے کے طور پر استعمال کرتے مگر بازار سے ملنے والے بیگز بھی چند دن ہی نکال پاتے. ایسے میں "باہر" سے آئے لوگوں کے "بکسوں" میں سے نکلنے والے مضبوط شاپنگ بیگز پر بھی ہماری نظر ہوتی تھی.
اب سوچوں تو اپنی محرومیوں پر کوئی افسوس نہیں ہوتا، شاید اس لیے میرے بچوں کو اللہ کے کرم سے کسی چیز کی کمی نہیں. مگر وہ لوگ جو ساری زندگی خود بھی غربت کے دلدل میں رہے اور اب ان کے بچے بھی انہی مرحومیوں کا شکار ہیں ان کا سوچ کر دکھ ہوتا ہے.
اللہ پاک سب پر کرم فرمائے.

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو میری طرح اپنی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد کچھ سال پہلے مست...
11/09/2020

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو میری طرح اپنی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد کچھ سال پہلے مستقل طور پر ناروے منتقل ہوا. اس کا کہنا تھا کہ باقی یہاں کی سب سہولیات ایک طرف مگر میں جس چیز کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بیوی اگر رات کو دس بجے گھر آئے تو بھی مجھے یہ خوف نہیں ہوتا کے کوئی اسے راستے میں ہراساں کرے گا.
لاہورموٹر وے پر پیش آئے افسوسناک واقعے کے حوالے سے مزید گفتگو اس ویڈیو میں.

https://youtu.be/fOM0Kpq4uH4

موٹروے زیادتی کیس اور ہماری معاشرتی رویے

پیر نصیر الدین نصیر صاحب کی مشہور حمد کس سے مانگیں ،کہاں جائیں،کس سے کہیں؟​اور دنیا میں حاجت روا کون ہے؟​https://youtu.b...
05/09/2020

پیر نصیر الدین نصیر صاحب کی مشہور حمد
کس سے مانگیں ،کہاں جائیں،کس سے کہیں؟​
اور دنیا میں حاجت روا کون ہے؟​
https://youtu.be/f1C7rjKO75Q

پیر نصیر الدین نصیر کی مشہور حمد کس سے مانگیں ،کہاں جائیں،کس سے کہیں؟​ اور دنیا میں حاجت روا کون ہے؟​

04/09/2020
02/09/2020

امّاں کی دنیا کی جغرافیائی حدیں زیادہ پھیلی ہوئی نہ تھیں. بس جہاں جہاں تک اس وقت کے محدود ذرائع آمدورفت سے جانا ممکن تھا، وہاں وہاں تک. اور اِس دنیا سے باہر اگر کچھ تھا بھی تو امّاں کی بلا سے.
امّاں کا خیال تھا، اِس سارے علاقے میں سب سے زہین اور قابل بچہ اُس کا بیٹا ہے جو اگر کہیں دوسرے، تیسرے نمبر پر آئے گا بھی تو سُستی اور لاپروائی ہی اُس کی وجہ ہو گی. گاؤں کے پرائمری سکول سے تیسری جماعت میں اوّل آیا تو ایک چچا جان جو لگی لپٹی کہے بغیر کھری بات کہنے کے عادی تھے کہنے لگے، یہ اندھوں میں کانا راجا ہے. محاورے کی تو کوئی خاص سمجھ نا آئی، البتہ خود کو کانا کہنے پر چچا جان کو ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں خاصی اوپر جگہ ملی.
خود اپنے بارے میں کوئی خاص خوش فہمی تو نہ تھی، لیکن امّاں نے ایک اعتماد ضرور دے دیا تھا کے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں ہے. وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوتا گیا کے دماغی صلاحیت کچھ خاص غیرمعمولی نہیں ہے، بس ا وسط درجے کی ہو گی یا شاید اُس سے تھوڑا اوپر.
اللہ پاک کے خاص کرم، اپنی دعاؤں، تھوڑی بہت محنت اور صحیح وقت پر صحیح فیصلوں نے مگر امّاں کے بھرم کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیا.
ماؤں کے بھرم ٹوٹ جائیں تو بڑا نقصان ہوتا ہے.

30/08/2020

آزاد کشمیر یونیورسٹی کا راولاکوٹ کیمپس

جب آزاد کشمیر یونیورسٹی کے راولاکوٹ کیمپس میں بحیثیت لیکچرر(کمپیوٹر سائنس) تعیناتی ہوئی تو میری عمر بائیس برس تھی۔ پڑھائی ختم ہوئے ابھی چھ مہینے ہوئے تھے، راولپنڈی میں ایک مختصر انٹرنشپ اور ہائی سکول میں چند دن بطور کمپیوٹر انسٹرکٹر کے بعد یہ میری تیسری نوکری تھی۔ لیکچرر اور وہ بھی یونیورسٹی میں ہمارے ہاں ایک ٹھیک ٹھاک نوکری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مقامی زبان میں اسے لچکرار بھی کہا جاتا ہے، الگ بات ہے زیادہ ویلیو ہٹ دھرمی اور غیر لچکدار رویوں کی ہے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کے جس دن مجھے اپائنٹمنٹ لیٹرملا، مجھے بہت خوشی ہوئی تھی، اُس کے بعد زندگی میں کہیں بار اُس سے کہیں بہتر نوکریاں ملیں مگر ویسی خوشی مجھے پھر کبھی نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے خوشیوں کی اپنی اپنی قسم ہوتی ہے اور اُن کا ایک دوسرے سے موازنہ انگریزی محاورے کے مطابق ایپلز اور اورینجز کا موازنہ کرنے کی طرح ہے۔
اگلے دن یونیورسٹی میں حاضری دینی تھی، اس لیے صبح صبح راولاکوٹ کی طرح رخت سفر باندھا۔ راولاکوٹ شہر ہمارے گاؤں سے کوئی بیس، پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، دو کلومیٹر گھر سے لے کر قریب ترین پکی سڑک تک کا پیدل سفر ہے، جبکہ باقی آج سے بارہ، پندرہ سال پہلے فورڈ ویگنیں چلا کرتیں تھیں۔ راولاکوٹ شہر سے یونیورسٹی چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یونیورسٹی کے ارد، گرد کا علاقہ چہڑ کہلاتا ہے۔ ان دنوں ہجیرہ روڈ سے چہڑ کے لیے سوزوکیاں چلا کرتیں تھیں۔ ("سوزوکی" در اصل جاپانی کمپنی سوزوکی کی ایک چھوٹی گاڑی ہوتی ہے جسے پاکستان میں"موڈیفائی" کرنے کے بعد مال برداری اور بندے برداری کے لے استعمال کیا جاتا ہے۔) میں یونیورسٹی جانے کے لیے ایک سوزوکی میں بیٹھا تو وہاں پہلے سے دو اور نوجوان بیٹھے ہوۓ تھے، مجھے جلد اندازہ ہو گیا کے وہ مقامی نہیں ہیں، کیونکہ ایک تو ان کی رنگت بھی میری طرح سرخ اور سپید نہ تھی (جیسے کے مقامی لوگوں کی اکثریت کی ہوتی ہے) اور دوسرا ان کا اردو کا لہجہ بھی مقامی نہیں تھا۔ میں سمجھا شاید پنجاب سے آئے طالب علم ہیں، لیکن مختصر تعارف کے بعد پتا چلا کے وہ میرے ساتھ سلیکٹ ہونے والے دوسرے دو لیکچرر تھے۔
شوکت اور مسعود ایک دن پہلے حاضری دے چُکے تھے۔ میرا خیال تھا میں نے حاضری کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں دینی ہو گی تو اُس کا پتہ پوچھتا دوسری منزل پر پہنچا۔ دروازے پر ایک گھنی داڑھی، اوپر کی طرف مڑی (ڈِنگی) مونچھوں اور سپاٹ چہرے والا نوجوان کھڑا تھا، اُس نے گھور کر مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور مقامی لہجے میں پوچھا۔ کِدھر (کُدھر) ماسیر؟ اندر کلاس ہو رہی تھی اور میں فوری سمجھ گیا کے نوجوان کیا سوچ رہا ہے، ہمارے ہاں اکثر اجنبی، مشکوک افراد تصور کیے جاتے ہیں اور اُن پر کڑی نگاہ رکھنا ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ معصومیت سے عرض کی کہ میں یہاں نیا تعینات ہونے والا لیکچرر ہوں۔ ہمارے آنے کی خبریں عام ہو چُکیں تھیں لہذا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اندر ایک بڑا سا کمرا تھا جو بیک وقت کلاس روم اور کمپیوٹر لیب کے طور پر استعمال ہوتا تھا، کمرے کی پچھلی طرف دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے، جن میں سے ایک انتظامی امور کے لیے استعمال ہوتا تھا جبکہ دوسرا لیکچررز کے استعمال میں تھا۔ حاضری دینے کے بعد باقی سٹاف سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ یہاں ہمارے بارے میں خاصی چہ مگوئیاں چل رہی تھیں۔ مثلاً میرے بارے میں خبرعام تھی کہ لڑکے کا قریبی عزیز صدرِ ریاست کا کوآرڈینیٹر ہے، تعلیمی بیک گراؤنڈ بھی کچھ خاص نہیں ہے، سفارشی ہو گا۔ بات کِسی حد تک درست تھی چچا جان صدر صاحب کے کوآرڈینیٹر تھے، سفارش بھی انھوں نے کی ہو گی، جاب البتہ سفارش پر ملی یا میرٹ پر یہ بہرحال سلیکشن بورڈ کو ہی بہتر پتا ہوا ہو گا۔
دوسرے دن یہ طے پایا کہ میں سینئر کلاس کو دو سبجیکٹ پڑھاؤں گا۔ خوش قسمتی سے دونوں ہی سبجیکٹس میں نے تھوڑا عرصہ پہلے خود بہت اچھے ٹیچرز سے پڑھ رکھے تھے اور ایک کا تو کچھ پریکٹیکل تجربہ بھی تھا۔ میری بحیثیت اُستاد کارکردگی کیسی رہی یہ تو میرے شاگرد ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر میرے اپنے جو اُن پانچ ماہ کے تجربات ہیں، اُن کے بارے میں لکھنا ہی در اصل اس تحریر کا مقصد ہے۔
راولاکوٹ میں آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی کا ایگریکلچر کا شعبہ اسّی کی دھائی میں قائم ہوا، جبکہ دو ہزار دو میں اِسی کیمپس میں کمپیوٹر سائنس کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ ایگریکلچر کا شعبہ اُن دِنوں بھی کافی مستحکم ہوا کرتا تھا جہاں ایک بڑی تعداد میں پی ایچ ڈیز بھی موجود تھے جن میں سے کچھ پاکستان کے چوٹی کے ریسیرچرز بھی تھے۔
ہمارے کمپیوٹر سائنس کے ہیڈ اف ڈیپارٹمنٹ بھی زراعت کے شعبے کے ہی ایک پروفیسر تھے۔ مجموعی طور پر کمپیوٹر سائنس کا شعبہ ابھی تک ایک عارضی بندوبست دکھائی دیتا تھا جہاں ایک یا دو مستقل لیکچررز کو چھوڑ کر باقی لوگ کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے۔
کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اندازہ ہوا کے ذرعی شعبہ کے پروفیسر صاحبان کی آپس میں خاصی ان بن رہتی تھی، مثلا کسی کی ترقی ہو رہی ہوتی یا کسی کی کوئی ریسرچ گرانٹ منظور ہو رہی ہوتی تو دوسروں کو کچھ خاص خوشی نہ ہوتی اُلٹا وہ اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے۔
دوسری طرف یونیورسٹی میں کچھ لوئر گریڈ کے ملازمین کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ وہ اپنے سے بڑے عہدے پر موجود لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ تعلیم اگرچہ ان کی یہی کوئی میٹرک یا ایف اے ہوتی تھی مگر ان کے خیال میں ان میں کوئی ایسی پوشیدہ قابلیت موجود تھی جس کی بنیاد پر یونیورسٹی ڈین اور دوسری اہم پوسٹوں پر اصل میں ان کا حق بنتا تھا اور انُھیں وہاں تعینات نہ کر کے اُن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ یہ پوشیدہ قابلیت کیا ہے آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا، اس پر شاید ایک پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ میں نے قصے بھی کافی سنے اور خود بھی کچھ پروفیسروں کو ان “بڑے” صاحبوں کے آگے مجبور پایا۔ ہم نے اپنے ساتھ بھی کچھ اپنے والد صاحب کی عمر کے پروفیسر صاحبان کو مقابلہ کرتے دیکھا اور اُن کے کڑوے کسیلے فقرے بھی برداشت کیے اور کچھ ان “بڑے” صاحبان کے نخرے بھی کہ یہی وہاں کا دستور تھا۔
ضلع پونچھ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کے پہلے چند اضلاع میں سے ایک ہے اور اس بات کا احساس مجھے راولاکوٹ میں اپنے قیام کے دوران بھی ہوا۔ میرے شاگردوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد تقریبا برابر تھی، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں پر گھر کی بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں ضرور ہوتی ہیں اس کے باوجود لڑکیوں کی اکثریت پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ لڑکوں کی راولاکوٹ میں پڑھائی اور کھیل کود کے علاوہ کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں مثلا راولاکوٹ کے گردو نواح میں سڑکوں کی لمبائی ماپنا، ہوٹلوں میں چاۓ کی کوالٹی چیک کرنا وغیرہ۔ اس لیے پڑھائی میں لڑکیوں کی نسبت کچھ کمزور تھے مگر ان میں بھی کافی لڑکے محنتی اور قابل تھے۔ انٹرنیٹ نام کا ہی تھا، یعنی اس سے پڑھائی میں کسی قسم کی مدد کے چانسز کم ہی تھے اس کے باوجود پروگرامنگ جیسے سبجیکٹس میں بھی طلبہ اور طالبات کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ بعد میں بہت سے طالب علموں اور طالبات نے اسلام آباد میں بہت سے اچھی کمپنیوں میں ملازمتیں حاصل کیں جہاں ان کا مقابلہ پاکستان کے بہترین اداروں سے فارغ ہوئے لوگوں کے ساتھ تھا۔ راولاکوٹ کے شاگردوں کے کچھ منفی پہلو بھی تھے مثلاً یہ کہ وہ کافی منہ پھٹ تھے۔ میں نے کچھ ایسے واقعات کے بارے میں بھی سُنا جہاں لیکچررز کو پوری کلاس کے سامنے شاگرد کہہ دیتے تھے کہ یہ سبجیکٹ پڑھانا آپ کے بس کی بات نہیں ہے آپ کوئی اور کام کر لیں۔ ایک مرتبہ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے میرے نمبر کم لگائے ہیں جبکہ لڑکیوں کوآپ زیادہ نمبر دیتے ہیں۔ اُس نے شاید مجھے دباؤ میں لانے کے لیے ہوا میں تیر چلایا تھا۔ میں نے کسی ایک لڑکی کا پوچھا اور نام بتانے پر اُسے اُس کا اور اُس لڑکی کا پرچہ دکھایا، اُس نے دونوں پرچے دیکھ کر تسلیم کیا کہ اُس کا الزام درست نہیں تھا اور وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا۔
دوسرے سمیسٹر کے شروع شروع کے دن تھے۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ایک لیکچر کی تیاری کر رہا تھا جب میں نے اپنی میز پر پڑے بھاری کمپیوٹر مانیٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، میں سمجھا میرا سر چکرا رہا مگر پھر باہر سے شور بلند ہوا اور پوری عمارت لرزنے لگی۔ ہم بمشکل اپنی جان بچانے کی خاطر باہر بھاگے۔ خوش قسمتی سے راولاکوٹ میں ذلزلے کی شدّت مظفرآباد اور دوسرے علاقوں کے مقابلے میں کم تھی۔ ہماری عمارت مہندم ہونے سے بچ گئی اور نتیجتاً ہم بھی۔
آزاد کشمیر یونیورسٹی کے مظفرآباد اور راولاکوٹ کیمپس کچھ ماہ کے لیے بند کر دئیے گئے۔ ہمارے کنٹریکٹ عارضی تھے اُن کی تجدید نہ ہو سکی۔ بعد میں اگرچہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں عارضی کلاسز کا بندوبست کیا گیا مگر ہمارا راولاکوٹ یونیورسٹی کے ساتھ تعلق ختم ہو گیا۔
میرا خیال ہے کہ مقامی ہونے کی وجہ سے سٹاف اور شاگرد باقی لوگوں کی نسبت میرا کچھ زیادہ خیال رکھتے تھے، اِسی وجہ سے کافی اچھا وقت گزرا۔
کچھ مُشکلات بھی اگرچہ رہیں مگر میرے خیال میں وہ چند ماہ میری زندگی کے بہترین وقت میں سے ہیں۔

Adresse

Lillestrøm

Nettsted

Varslinger

Vær den første som vet og la oss sende deg en e-post når Yasar Mumtaz legger inn nyheter og kampanjer. Din e-postadresse vil ikke bli brukt til noe annet formål, og du kan når som helst melde deg av.

Videoer

Del