Truth Message

  • Home
  • Truth Message

Truth Message videos creator, voice over artist & graphic designer.
(1)

اقوالِ امام شافعیؒ
30/10/2023

اقوالِ امام شافعیؒ

14/09/2023

صاحبِ تدبرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحیؒ

مسلم اورکافر کا اصلی فرق-1مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ...
21/07/2023

مسلم اورکافر کا اصلی فرق

-1مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟
برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ایسا ہی سمجھتے ہوں گے کہ مسلمان کا درجہ کافر سے اونچا ہے۔ مسلمان کو خدا پسند کرتا ہے اورکافر کو ناپسند کرتا ہے۔ مسلمان خدا کے ہاں بخشا جائے گا اور کافر کی بخشش نہ ہو گی۔ مسلمان جنت میں جائے گا اور کافردوزخ میں جائے گا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ مسلمان اور کافرمیں اتنا بڑا فرق آخر کیوں ہوتا ہے؟ کافر بھی آدم کی اولاد ہے اور تم بھی۔ کافر بھی ایسا ہی انسان ہے جیسے تم ہو۔ وہ بھی تمھارے ہی جیسے ہاتھ، پائوں، آنکھ، کان رکھتا ہے۔ وہ بھی اسی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ یہی پانی پیتا ہے۔ اسی زمین پر بستا ہے۔ یہی پیداوار کھاتا ہے۔ اسی طرح پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح مرتا ہے۔ اسی خدا نے اس کو بھی پیدا کیا ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ پھر آخر کیوں اس کا درجہ نیچا ہے اور تمھارا اونچا؟ تمھیں کیوں جنت ملے گی اور وہ کیوں دوزخ میں ڈالا جائے گا؟

2-کیا صرف نام کا فرق ہے؟

یہ بات ذرا سوچنے کی ہے۔ آدمی اور آدمی میں اتنا بڑا فرق صرف اتنی سی بات سے تو نہیں ہو سکتا کہ تم عبداللہ اور عبدالرحمٰن اور ایسے ہی دوسرے ناموں سے پکارے جاتے ہو،اور وہ دین دیال اورکرتار سنگھ اور رابرٹسن جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، یا تم ختنہ کراتے ہو اور وہ نہیں کراتا، یا تم گوشت کھاتے ہو اور وہ نہیں کھاتا۔ اللہ تعالیٰ جس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جو سب کا پروردگار ہے ایسا ظلم تو کبھی نہیں کر سکتا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی مخلوقات میں فرق کرے اور ایک بندے کو جنت میں بھیجے اور دوسرے کودوزخ میں پہنچا دے۔

*اصلی فرق___ اسلام اور کفر

جب یہ بات نہیں ہے تو پھر غور کرو کہ دونوں میں اصلی فرق کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں اصلی فرق اسلام اور کفر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسلام کے معنی خدا کی فرماں برداری کے ہیں، اور کفر کے معنی خدا کی نافرمانی کے۔ مسلمان اور کافر دونوں انسان ہیں، دونوں خدا کے بندے ہیں، مگر ایک انسان اس لیے افضل ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے، اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کے انجام سے ڈرتا ہے، اور دوسرا انسان اس لیے اونچے درجے سے گر جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کو نہیں پہچانتا اور اس کی فرماں برداری نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے مسلمان سے خدا خوش ہوتا ہے اور کافر سے ناراض۔ مسلمان کو جنت دینے کا وعدہ کرتا ہے اور کافر کو کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالوں گا۔

*فرق کی وجہ___ علم اور عمل

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کافر سے جدا کرنے والی صرف دو چیزیں ہیں: ایک، علم اور دوسری عمل۔ یعنی پہلے تو اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ اس کی مرضی پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ کن کاموں سے وہ خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے؟ پھر جب یہ باتیں معلوم ہو جائیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مالک کا غلام بنا دے۔ جو مالک کی مرضی ہو اس پر چلے اور جو اپنی مرضی ہو اس کو چھوڑ دے۔ اگر اس کا دل ایک کام کو چاہے اور مالک کا حکم اس کے خلاف ہو تو اپنے دل کی بات نہ مانے اور مالک کی بات مان لے۔ اگر ایک کام اس کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور مالک کہے کہ وہ برا ہے، تو اسے برا ہی سمجھے، اور اگر دوسرا کام اسے برا معلوم ہوتا ہے مگر مالک کہے کہ وہ اچھا ہے تو اسے اچھا ہی سمجھے۔ اگر ایک کام میں اسے نقصان نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے کیا جائے، تو چاہے اس میں جان اور مال کا کتنا ہی نقصان ہو، وہ اس کو ضرور کرکے ہی چھوڑے۔ اگر دوسرے کام میں اس کو فائدہ نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے نہ کیا جائے، تو خواہ دنیا بھر کی دولت ہی اس کام میں کیوں نہ ملتی ہو، وہ اس کام کو ہرگز نہ کرے۔
یہ علم اور یہ عمل ہے جس کی وجہ سے مسلمان خدا کا پیارا بندہ ہوتا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور خدا اس کو عزت عطا کرتا ہے۔ کافر یہ علم نہیں رکھتا اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا عمل بھی یہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ خدا کا جاہل اور نافرمان بندہ ہوتا ہے اور خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
اب خود ہی انصاف سے کام لے کر سوچو کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، مگر ویسا ہی جاہل ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے، اور ویسا ہی نافرمان ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے تو محض نام اور لباس اورکھانے پینے کے فرق کی وجہ سے وہ کافر کے مقابلے میں کس طرح افضل ہو سکتا ہے اور کس بنا پر دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اسلام کسی نسل یا خاندان یا برادری کا نام نہیں ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو آپ ہی آپ مل جائے۔ یہاں یہ بات نہیں ہے کہ برہمن کا لڑکا چاہے کیسا ہی جاہل ہو اور کیسے ہی برے کام کرے مگر وہ اونچا ہی ہو گا، کیوں کہ برہمن کے گھر پیدا ہوا ہے اور اونچی ذات کا ہے۔ اور چمار کا لڑکا چاہے علم اور عمل کے لحاظ سے ہر طرح اس سے بڑھ کر ہو، مگر وہ نیچا ہی رہے گا، کیوں کہ چمار کے گھر پیدا ہوا ہے اور کمین ہے۔ یہاں تو خدا نے اپنی کتاب میں صاف فرما دیا ہے کہ:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات 49:13)
یعنی جو خدا کو زیادہ پہچانتا ہے اور اس کی زیادہ فرماں برداری کرتا ہے، وہی خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے۔
حضرت ابراہیم؈ ایک بت پرست کے گھر پیدا ہوئے، مگر انھوں نے خدا کو پہچانا اور اس کی فرماںبرداری کی، اس لیے خدا نے ان کو ساری دنیا کا امام بنا دیا۔ حضرت نوح؈ کا لڑکا ایک پیغمبر کے گھر پیدا ہوا، مگر اس نے خدا کو نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی، اس لیے خدا نے اس کے خاندان کی کچھ پروا نہ کی اور اسے ایسا عذاب دیا جس پر دنیا عبرت کرتی ہے۔ پس خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا کے نزدیک انسان اور انسان میں جو کچھ بھی فرق ہے وہ علم اور عمل کے لحاظ سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی رحمت صرف انھی کے لیے ہے جو اس کو پہچانتے ہیں، اور اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو جانتے ہیں، اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ صفت نہیں ہے ان کے نام خواہ عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہوں، یا دین دیال اور کرتار سنگھ، خدا کے نزدیک ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں اور ان کو اس کی رحمت سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔

3-آج مسلمان ذلیل کیوں؟

بھائیو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو، اور تمھارا ایمان ہے کہ مسلمان پر خدا کی رحمت ہوتی ہے، مگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا خدا کی رحمت تم پر نازل ہو رہی ہے؟ آخرت میں جو کچھ ہو گا وہ تو تم بعد میں دیکھو گے، مگر اس دنیا میں تمھارا جو حال ہے اس پر نظر ڈالو۔ اس ہندوستان میں تم نو (۹)کروڑ ہو۔ تمھاری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر ایک ایک شخص ایک ایک کنکری پھینکے تو پہاڑ بن جائے۔ لیکن جہاں اتنے مسلمان موجود ہیں وہاں کفار حکومت کر رہے ہیں۔ تمھاری گردنیں ان کی مٹھی میں ہیں کہ جدھر چاہیں تمھیں موڑ دیں۔ تمھاراسر، جو خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتا تھا، اب انسانوں کے آگے جھک رہا ہے۔ تمھاری عزت جس پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی ہمت نہ کر سکتا تھا، آج وہ خاک میں مل رہی ہے۔ تمھارا ہاتھ، جو ہمیشہ اونچا ہی رہتا تھا، اب وہ نیچا ہوتا ہے اور کافر کے آگے پھیلتا ہے۔ جہالت اور افلاس اور قرض داری نے ہر جگہ تم کو ذلیل وخوار کر رکھا ہے۔ کیا یہ خدا کی رحمت ہے؟ اگر یہ رحمت نہیں ہے، بلکہ کھلا ہوا غضب ہے، تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا غضب نازل ہو! مسلمان اور ذلیل ہو! مسلمان اور غلام ہو! یہ تو ایسی ناممکن بات ہے جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی۔ جب مسلمان خدا کا محبوب ہوتا ہے تو خدا کا محبوب دنیا میں ذلیل وخوار کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا نعوذ باللہ تمھارا خدا ظالم ہے کہ تم تو اس کا حق پہچانو اور اس کی فرماں برداری کرو، اور وہ نافرمانوں کو تم پر حاکم بنا دے، اور تم کو فرماں برداری کے معاوضے میں سزا دے؟ اگر تمھاراایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلّت سے نہیں مل سکتا، تو پھر تمھیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو اسی میں کوئی غلطی ہے۔ تمھارا نام سرکاری کاغذات میں تو ضرور مسلمان لکھا جاتا ہے، مگر خدا کے ہاں انگریزی سرکار کے دفتر کی سند پر فیصلہ نہیں ہوتا۔ خدا اپنا دفتر الگ رکھتا ہے، وہاں تلاش کرو کہ تمھارا نام فرماں برداروں میں لکھا ہوا ہے یا نافرمانوں میں؟
خدا نے تمھارے پاس کتاب بھیجی، تاکہ تم اس کتاب کو پڑھ کر اپنے مالک کو پہچانو اور اس کی فرماں برداری کا طریقہ معلوم کرو۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ خدا نے اپنے نبیؐ کو تمھارے پاس بھیجا تاکہ وہ تمھیں مسلمان بننے کا طریقہ سکھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نبی a نے کیا سکھایا ہے؟ خدا نے تم کو دنیااور آخرت میں عزت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔ کیا تم اس طریقے پر چلتے ہو؟ خدا نے کھول کھول کر بتایا کہ کون سے کام ہیں جن سے انسان دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ کیا تم ایسے کاموں سے بچتے ہو؟ بتائو تمھارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر تم مانتے ہو کہ نہ تو تم نے خدا کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی زندگی سے علم حاصل کیا اور نہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کی، تو تم مسلمان ہوئے کب کہ تمھیں اس کا اجر ملے؟ جیسے تم مسلمان ہو ویسا ہی اجر تمھیں مل رہا ہے اور ویسا ہی اجر آخرت میں بھی دیکھ لو گے۔
میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے، اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، تو بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر، قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے؟ کافر، نہیں جانتا کہ رسول اللہa کی کیا تعلیم ہے اور آپؐ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے؟ اگر مسلمان بھی اسی کی طر ح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا؟ کافر،خدا کی مرضی پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی پرچلتا ہے۔ مسلمان بھی اگراُسی کی طرح خودسر اور آزاد ہو، اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو، اسی کی طرح خدا سے بے پروا اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ (خدا کا فرماں بردار) کہنے کا کیا حق ہے؟ کافر حلال اور حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ یا لذت دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے، چاہے خداکے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام۔ یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا؟ غرض یہ ہے کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کورا ہو جتنا کافر ہوتا ہے، اور جب مسلمان بھی وہ سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلے میں کیوں فضیلت حاصل ہو، اور اس کا حشر بھی کافر جیسا کیوں نہ ہو؟ یہ ایسی بات ہے جس پر ہم سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔

غور کا مقام

میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں۔ نہیں، میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ میں خود بھی سوچتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ سوچے کہ ہم آخر خدا کی رحمت سے کیوں محروم ہو گئے ہیں؟ ہم پر ہر طرف سے کیوں مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں؟ جن کو ہم کافر، یعنی خدا کے نافرمان بندے کہتے ہیں وہ ہم پرہر جگہ غالب کیوں ہیں؟ اور ہم جو فرماں بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہر جگہ مغلوب کیوں ہو رہے ہیں؟
اس کی وجہ پر میں نے جتنا زیادہ غور کیا، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ ہم میں اور کفار میں بس نام کا فرق رہ گیا ہے، ورنہ ہم بھی خدا سے غفلت اور اس سے بے خوفی اور اس کی نافرمانی میں کچھ ان سے کم نہیں ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہم میں اور ان میں ضرور ہے، مگر اس کی وجہ سے ہم کسی اجر کے مستحق نہیں ہیں، بلکہ سزا کے مستحق ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور پھر اس کے ساتھ وہ برتائو کرتے ہیں جو کافر کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ محمدa اللہ کے نبی ہیں، اور پھر ان کی پیروی سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کافر بھاگتا ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ جھوٹے پر خدا نے لعنت کی ہے، رشوت کھانے اور کھلانے والے کو جہنم کا یقین دلایا ہے، سود کھانے اور کھلانے والے کو بدترین مجرم قراردیا ہے، غیبت کو اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر بتایا ہے، فحش اور بے حیائی اور بدکاری پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے، مگر یہ جاننے کے بعد بھی ہم کفار کی طرح یہ سب کام آزادی کے ساتھ کرتے ہیں، گویا ہمیں خدا کا کوئی خوف ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو کفار کے مقابلے میں تھوڑے بہت مسلمان بنے ہوئے نظر آتے ہیں، اس پر ہمیں انعام نہیں ملتا بلکہ سزا دی جاتی ہے۔ کفار کا ہم پر حکمران ہونا، ہر جگہ ہمارا زِک اٹھانا اسی جرم کی سزا ہے کہ ہمیں اسلام کی نعمت دی گئی تھی اور پھر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔

عزیزو! آج کے خطبے میں جو کچھ میں نے کہا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم کو ملامت کروں۔ میں ملامت کرنے نہیں اٹھا ہوں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کھویا گیا ہے اس کو پھر سے حاصل کرنے کی کچھ فکر کی جائے۔ کھوئے ہوئے کو پانے کی فکراُسی وقت ہوتی ہے جب انسان کو معلوم ہو کہ اس کے پاس سے کیا چیز کھوئی گئی ہے اور وہ کیسی قیمتی چیز ہے۔ اسی لیے میں تم کو چونکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر تم کو ہوش آ جائے اورتم سمجھ لو کہ حقیقت میں بہت قیمتی چیز تمھارے پاس تھی، تو تم پھر سے اس کے حاصل کرنے کی فکر کرو گے۔

*حصولِ علم کی فکر

میں نے پچھلے خطبے میں تم سے کہا تھا کہ مسلمان کو مسلمان ہونے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلام کا علم ہے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کی تعلیم کیا ہے، رسولِ پاکؐ کا طریقہ کیا ہے، اسلام کس کو کہتے ہیں، اور کفر واسلام میں اصلی فرق کن باتوں کی وجہ سے ہے؟ اس علم کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا، مگر افسوس ہے کہ تم اسی علم کو حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک تم کو احساس نہیں ہوا کہ تم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو۔
میرے بھائیو! ماں اپنے بچے کو دودھ بھی اُس وقت تک نہیں دیتی جب تک کہ وہ رو کرمانگتا نہیں۔ پیاسے کو جب پیاس لگتی ہے تو وہ خود پانی ڈھونڈتا ہے، اور خدا اس کے لیے پانی پیدا بھی کر دیتا ہے۔ جب تم کو خود ہی پیاس نہ ہو تو پانی سے بھرا ہوا کنواں بھی تمھارے پاس آ جائے تو بے کار ہے۔ پہلے تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ دین سے ناواقف رہنے میں تمھارا کتنا بڑا نقصان ہے۔ خدا کی کتاب تمھارے پاس موجود ہے، مگر تم نہیں جانتے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس سے زیادہ نقصان کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ نماز تم پڑھتے ہو، مگر تمھیں نہیں معلوم کہ اس نماز میں تم اپنے خدا کے سامنے کیا عرض کرتے ہو؟ اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ کلمہ، جس کے ذریعے سے تم اسلام میں داخل ہوتے ہو، اس کے معنی تک تم کو معلوم نہیں اور تم نہیں جانتے کہ اس کلمے کو پڑھنے کے ساتھ ہی تم پر کیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں؟ ایک مسلمان کے لیے کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی نقصان ہو سکتا ہے؟ کھیتی کے جل جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، روزگار نہ ملنے کا نقصان تم کو معلوم ہے، اپنے مال کے ضائع ہو جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، مگر اسلام سے ناواقف ہونے کا نقصان تمھیں معلوم نہیں۔ جب تم کو اس نقصان کا احساس ہو گا تو تم خود آ کر کہو گے کہ ہمیں اس نقصان سے بچائو، اور جب تم خود کہو گے تو ان شاء اللہ تمھیں اس نقصان سے بچانے کا بھی انتظام ہو جائے گا۔
٭…٭…٭

باب اوّلمسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت(1)الله کا سب سے بڑا احسانبرادرانِ اسلام! ہر مسلمان سچے دل سے یہ سمجھتا ہے کہ دنی...
19/07/2023

باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت

(1)الله کا سب سے بڑا احسان

برادرانِ اسلام! ہر مسلمان سچے دل سے یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں خدا کی سب سے بڑی نعمت اسلام ہے۔ ہر مسلمان اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے نبی کریم کی امت میں اس کو شامل کیا اور اسلام کی نعمت اس کو عطا کی۔ خود اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنے بندوں پر اپنا سب سے بڑا انعام قرار دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ
(المائدہ 5 :3)
آج میں نے تمھارا دین تمھارے لیے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اس بات کو پسند کر لیا کہ تمھارا دین اسلام ہو۔

(2)احسان شناسی کا تقاضا

یہ احسان جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرمایا ہے اس کا حق ادا کرنا آپ پر فرض ہے، کیوںکہ جو شخص کسی کے احسان کا حق ادا نہیں کرتا وہ احسان فراموش ہوتا ہے، اور سب سے بدتر احسان فراموشی یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کے احسان کا حق بھول جائے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ خدا کے احسان کا حق کس طرح ادا کیا جائے؟ میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ جب خدا نے آپ کو امتِ محمدیہؐ میں شامل کیا ہے تو اس کے اس احسان کا صحیح شکریہ ہے کہ آپ محمد صلی الله عليه وسلم کے پورے پَیرو بنیں۔ جب خدا نے آپ کو مسلمانوں کی ملت میں شامل کیا ہے تو اس کی اس مہربانی کا حق آپ اسی طرح ادا کر سکتے ہیں کہ آپ پورے مسلمان بنیں۔ اس کے سواخدا کے اس احسانِ عظیم کا حق آپ اور کسی طرح ادا نہیں کر سکتے، اور یہ حق اگر آپ نے ادا نہ کیا تو جتنا بڑا خدا کا احسان ہے اتنا ہی بڑا اس کی احسان فراموشی کا وبال بھی ہو گا۔ خدا ہم سب کو اس وبال سے بچائے۔ آمین!

(3)مسلمان بننے کے لیے پہلا قدم

اس کے بعد آپ دوسرا سوال یہ کریں گے کہ آدمی پورا مسلمان کس طرح بن سکتا ہے؟
اس کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے اور آئندہ جمعہ کے خطبوں میں اسی کا ایک ایک جزو آپ کے سامنے پوری تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ لیکن آج کے خطبے میں، مَیں آپ کے سامنے وہ چیز بیان کرتا ہوں جو مسلمان بننے کے لیے سب سے مقدّم ہے، جس کو اس راستے کا سب سے پہلا قدم سمجھنا چاہیے۔

کیا مسلمان نسل کا نام ہے؟

ذرا دماغ پر زور ڈال کر سوچیے کہ آپ مسلمان کا لفظ جو بولتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا انسان ماں کے پیٹ سے ’اسلام‘ ساتھ لے کر آتا ہے؟ کیا ایک شخص صرف اس بنا پر مسلمان ہوتا ہے کہ وہ مسلمان کا بیٹا اور مسلمان کا پوتا ہے؟ کیا مسلمان بھی اسی طرح مسلمان پیدا ہوتا ہے جس طرح ایک برہمن کا بچہ برہمن پیدا ہوتاہے، ایک راجپوت کا بیٹا راجپوت، اور ایک شودر کا لڑکا شودر؟ کیا مسلمان کسی نسل یا ذات برادری کا نام ہے کہ جس طرح ایک انگریز کسی انگریز کے گھر پیدا ہونے کی وجہ سے انگریز ہوتا ہے، اور ایک جاٹ، جاٹ قوم میں پیدا ہونے کی وجہ سے جاٹ ہوتا ہے؟ اسی طرح ایک مسلمان، صرف اس وجہ سے مسلمان ہو کہ وہ مسلمان نامی قوم میں پیدا ہوا ہے؟
یہ سوالات جو مَیں آپ سے پوچھ رہا ہوں اِن کا آپ کیا جواب دیں گے؟
آپ یہی کہیں گے نا کہ نہیں صاحب! مسلمان اس کو نہیں کہتے۔ مسلمان نسل کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ اسلام لانے سے مسلمان بنتا ہے، اور اگر وہ اسلام کو چھوڑ دے تو مسلمان نہیں رہتا۔ ایک شخص خواہ برہمن ہو یا راجپوت، انگریز ہو یا جاٹ، پنجابی ہو یا حبشی، جب اس نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں میں شامل ہو جائے گا، اور ایک دوسرا شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اگر وہ اسلام کی پَیروی چھوڑ دے تو وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو جائے گا، چاہے وہ سیّد کا بیٹا ہو یا پٹھان کا۔
کیوں حضرات آپ میرے سوالات کا یہی جواب دیں گے نا؟
اچھا تو اب خود آپ ہی کے جواب سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت، یعنی مسلمان ہونے کی نعمت جو آپ کو حاصل ہے، یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہو جائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں، بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے۔ اگر آپ کوشش کرکے اسے حاصل کریں تو آپ کو مل سکتی ہے اور اگر آپ اس کی پروا نہ کریں تو یہ آپ سے چھن بھی سکتی ہے، معاذ الله۔

(4)اسلام لانے کا مطلب

اب آگے بڑھیے۔ آپ کہتے ہیں کہ اسلام لانے سے آدمی مسلمان بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام لانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اسلام لانے کا یہ مطلب ہے کہ جو آدمی بس زبان سے کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں یا مسلمان بن گیا ہوں، وہ مسلمان ہے؟ یا اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک برہمن پجاری بغیر سمجھے بوجھے سنسکرت کے چند منتر پڑھتا ہے، اسی طرح ایک شخص عربی کے چند فقرے بغیر سمجھے بوجھے زبان سے ادا کر دے اور بس وہ مسلمان ہو گیا؟ آپ خود بتائیے کہ اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ یہی کہیں گے نا کہ اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے جو تعلیم دی ہے اس کو آدمی جان کر، سمجھ کر، دل سے قبول کرے، اور اس کے مطابق عمل کرے۔ جو ایسا کرے وہ مسلمان ہے اور جو ایسا نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔

(5)پہلی ضرورت___ علم

یہ جواب جو آپ دیں گے، اس سے خود بخود یہ بات کھل گئی کہ اسلام پہلے علم کا نام ہے اور علم کے بعد عمل کا نام ہے۔ ایک شخص علم کے بغیر برہمن ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہ برہمن پیدا ہوا ہے اور برہمن ہی رہے گا۔ ایک شخص علم کے بغیر جاٹ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ جاٹ پیدا ہوا ہے اور جاٹ ہی رہے گا، مگر ایک شخص علم کے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتا، کیوں کہ مسلمان پیدائش سے مسلمان نہیں ہوا کرتا، بلکہ علم سے ہوتا ہے۔ جب تک اس کو یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کی تعلیم کیا ہے؟ وہ اس پر ایمان کیسے لا سکتا ہے اور اس کے مطابق عمل کیسے کر سکتا ہے؟ اور جب وہ جان کر اور سمجھ کرایمان ہی نہ لایا تو مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟
پس معلوم ہوا کہ جہالت کے ساتھ مسلمان ہونا اور مسلمان رہنا غیر ممکن ہے۔ ہر شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے، بلکہ مسلمان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو، اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتاہو۔ ایک کافرا ور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اورایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے کہ وہ دھوتی باندھتا ہے اور یہ پاجامہ پہنتا ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان، بلکہ اصلی فرق ان دونوں کے درمیان علم کا ہے۔ وہ کافر اس لیے ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ خداوندِ عالم کا اس سے اور اس کا خداوندِ عالم سے کیا تعلق ہے، اور خالق کی مرضی کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ کیا ہے؟ اگر یہی حال ایک مسلمان کے بچے کا بھی ہو تو بتائو کہ اس میں اور ایک کافر میں کس چیز کی بناپر فرق کرتے ہو، اورکیوں یہ کہتے ہو کہ وہ تو کافر ہے اور یہ مسلمان ہے۔
حضرات! یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کو ذرا کان لگا کر سنیے اور ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجیے۔ آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت جس پرآپ شکر اور احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا حاصل ہونا اور حاصل نہ ہونا، دونوں باتیں علم پر موقوف ہیں۔ اگر علم نہ ہو تو یہ نعمت آدمی کو حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اور اگر تھوڑی بہت حاصل ہو بھی جائے تو جہالت کی بنا پر ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ یہ عظیم الشان نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ محض نادانی کی بنا پر وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتا رہے گا کہ میں ابھی تک مسلمان ہوں، حالانکہ درحقیقت وہ مسلمان نہ ہو گا۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے، اور اسلام اور شرک میں کیا امتیاز ہے؟ اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ایک پگڈنڈی پر چل رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ سیدھی لکیر پر چلتے چلتے خود اس کے قدم کسی دوسرے راستے کی طرف مڑجائیں اور اس کو خبر بھی نہ ہو کہ میں سیدھی راہ سے ہٹ گیا ہوں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستے میں کوئی دجّال کھڑا ہوا مل جائے اور اس سے کہے کہ ارے میاں! تم اندھیرے میں راستہ بھول گئے، آئو میں تمھیں منزل تک پہنچا دوں۔ بیچارہ اندھیرے کا مسافر خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ اس لیے نادانی کے ساتھ اپنا ہاتھ اس دجال کے ہاتھ میں دے دے گا اور وہ اس کو بھٹکا کر کہیں سے کہیں لے جائے گا۔
یہ خطرات اس شخص کو اسی لیے تو پیش آتے ہیں کہ اس کے پاس خود کوئی روشنی نہیں ہے اور وہ خود اپنے راستے کے نشانات کو نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس کے پاس روشنی موجود ہو تو ظاہر ہے کہ نہ وہ راستہ بھولے گا اور نہ کوئی دوسرا اس کو بھٹکا سکے گا۔ بس اسی پر قیاس کر لیجیے کہ مسلمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اگر کوئی ہے تو یہی کہ وہ خود اسلام کی تعلیم سے ناواقف ہو۔ خود یہ نہ جانتا ہو کہ قرآن کیا سکھاتا ہے اور حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کیا ہدایت دے گئے ہیں؟ اس جہالت کی وجہ سے وہ خود بھی بھٹک سکتا ہے اور دوسرے دجال بھی اس کو بھٹکا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کے پاس علم کی روشنی ہو تو وہ زندگی کے ہر قدم پر اسلام کے سیدھے راستے کو دیکھ سکے گا۔ ہر قدم پر کفر اور شرک اور گمراہی اورفسق وفجور کے جو ٹیڑھے راستے بیچ میں آئیں گے اُن کو پہچان کر اُن سے بچ سکے گا، اور جو کوئی راستے میں اس کو بہکانے والا ملے گا تو اس کی دو چار باتیں ہی سن کر وہ خود سمجھ جائے گا کہ یہ بہکانے والا آدمی ہے، اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔

(6)علم کی اہمیت

بھائیو! یہ علم جس کی ضرورت مَیں آپ سے بیان کر رہا ہوں، اس پر تمھارے اور تمھاری اولاد کے مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کا انحصار ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ اس سے بے پروائی کی جائے۔ تم اپنی کھیتی باڑی کے کام میں غفلت نہیں کرتے، اپنی زراعت کو پانی دینے اور اپنی فصلوں کی حفاظت کرنے میں غفلت نہیں کرتے، اپنے مویشیوں کو چارہ دینے میں غفلت نہیں کرتے، اپنے پیشے کے کاموں میں غفلت نہیں کرتے، محض اس لیے کہ اگر غفلت کرو گے تو بھوکے مر جائو گے اور جان جیسی عزیز چیز ضائع ہو جائے گی۔ پھر مجھے بتائو کہ اُس علم کے حاصل کرنے میں کیوں غفلت کرتے ہو جس پر تمھارے مسلمان بننے اور مسلمان رہنے کا دارومدار ہے؟ کیا اس میں یہ خطرہ نہیں کہ ایمان جیسی عزیز چیز ضائع ہو جائے گی؟ کیا ایمان، جان سے زیادہ عزیز چیز نہیں ہے؟ تم جان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کے لیے جتنا وقت اور جتنی محنت صَرف کرتے ہو، کیا اس وقت اور محنت کا دسواں حصہ بھی ایمان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کے لیے صَرف نہیں کر سکتے؟
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص مولوی بنے، بڑی بڑی کتابیں پڑھے اور اپنی عمر کے دس بارہ سال پڑھنے میں صَرف کر دے۔ مسلمان بننے کے لیے اتنا پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں کا ہر شخص رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ علمِ دین سیکھنے میں صَرف کرے۔ کم از کم اتنا علم ہر مسلمان بچے اور بوڑھے اور جوان کو حاصل ہونا چاہیے کہ قرآن جس مقصد کے لیے اور جو تعلیم لے کر آیا ہے اس کا لُبِّ لباب جان لے، نبی صلی الله عليه وسلم جس چیز کو مٹانے کے لیے اور اس کی جگہ جو چیز قائم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اُس کو خوب پہچان لے، اور اس خاص طریقِ زندگی سے واقف ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ اتنے علم کے لیے کچھ بہت زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر ایمان عزیز ہو تو اس کے لیے ایک گھنٹہ روز نکالنا کچھ مشکل نہیں۔
٭…٭…٭

"خطباتِ مودودیؒ"____دیباچہ طبع ہشتم____میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر1940ء میں شائع ہوا تھا۔ نومبر نومبر...
18/07/2023

"خطباتِ مودودیؒ"

____دیباچہ طبع ہشتم____

میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر1940ء میں شائع ہوا تھا۔ نومبر نومبر1951ء تک گیارہ سال کی مدت میں اس کے سات اڈیشن تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے، اور اس پوری مدت میں کسی کو اس کے اندر کوئی فتنہ نظر نہ آیا، مگر جب علمائے کرام کسی وجہ سے مجھ سے اور جماعت اسلامی سے ناراض ہو گئے تو میری دوسری کتابوں کی طرح اس کتاب میں سے بھی ان کی نگاہِ فتنہ جُو نے کچھ فتنے ڈھونڈ نکالے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مفتی صاحبان نے خود پوری کتاب پڑھ کر دیکھی تھی، یا کسی کو محض اس خدمت پر مامور فرما دیا تھا کہ اس کو پڑھ کر کچھ ایسے فقرے نکال دے جن پر فتویٰ جڑا جا سکے۔ بہرحال جو صورت بھی ہو، اُن کی نگاہ پوری کتاب میں سے صرف چند فقروں پر جا کر ٹھیری جو انیسویں اور پچیسویں خطبے میں اُن کو ملے۔
انیسویں خطبے کے یہ فقرے اُن کی توجہات کے ہدف بنے ہیں:
۱۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص 166)
۲۔ ان دو ارکانِ اسلام (یعنی نماز وزکوٰۃ) سے جو لوگ رُوگردانی کریں ان کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے۔ (ص؛170)
۳۔ قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ (ص؛173)
اور پچیسویں خطبے کے یہ فقرے انھوں نے فتویٰ لگانے کے لیے چھانٹے ہیں:
رہے وہ لوگ جن کوعمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک اُن کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ (ص234)
ان عبارات پر یہ فتویٰ لگایا گیا ہے کہ میں خارجی اور معتزلی ہوں، مسلک اہلِ سنت کے خلاف، اعمال کو جزوِ ایمان قرار دیتا ہوں، اور بے عمل مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہوں۔
حیرت یہ ہے کہ ان فقروں سے متصل ہی دوسرے فقرے موجود تھے جن سے نہ صرف میرے اصل مدّعا کی توضیح ہوتی تھی، بلکہ اس الزام کا جواب بھی ان سے مل سکتا تھا، مگر مفتی صاحبان کی ان باتوں پر یا تو نگاہ نہ پڑی، یا مفیدِ مطلب نہ ہونے کی وجہ سے قصداً انھوں نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ مثلاً پہلے فقرے کو اوپر کے فقرے سے ملا کر پڑھئیے تو پوری عبارت یوں بنے گی:
یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبر ؄نے ان سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بیکار ہیں۔کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص 156)
اسی طرح آخری فقرے سے پہلے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت، نبی صلی الله علیہ وسلم کی دو حدیثیں اور حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی نقل کیا تھا جو میرے بیان کی توثیق کر رہا تھا، مگر نگاہِ انتخاب اس پوری عبارت کو چھوڑ گئی۔ یہ کرتب ہیں اُن بزرگوں کے جو ہمارے ہاں علمِ دین کے معلم اور تزکیۂ نفس کے ماہر بنے ہوئے ہیں۔
پھر اسی کتاب میں میرا ایک پورا خطبہ اس موضوع پر موجود ہے کہ میں اس کتاب میں دراصل کس اسلام وایمان سے بحث کر رہا ہوں (ملاحظہ ہو: خطبہ نمبر ۹ )۔
اس میں، میں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ ایک تو ہے وہ قانونی اسلام جس سے فقیہ اور متکلم بحث کرتے ہیں، جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اس کی آخری سرحد کو پار نہ کر جائے اس کو خارج از ملت ٹھیرا کر اُن تمدنی ومعاشرتی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جو اسلام نے مسلمانوں کو دیے ہیں۔
دوسرا وہ حقیقی اسلام وایمان ہے جس پر آخرت میں آدمی کے ایمان یا نفاق یا کفر کا فیصلہ ہو گا۔ میں نے ان دونوں کا فرق واضح کرتے ہوئے اس خطبے میں یہ بتایا ہے کہ انبیا ؑ کی دعوت کا اصل مقصود صرف پہلی قسم کے مسلمان بنا بنا کر چھوڑ دینا نہ تھا، بلکہ ان کے اندر وہ حقیقی ایمان پیدا کرنا تھا جس میں اخلاص اور اطاعت اور فدائیت کی روح پائی جاتی ہو۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف اس اسلام پر قانع نہ ہو جائو جس کی آخری سرحد پار کرنے سے پہلے کوئی مفتی تمھیں کافر نہ کہہ سکے، بلکہ اس اسلام وایمان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر کرو جس سے خدا کے ہاں تم واقعی ایک مخلص اور وفادار مومن قرار پا سکو۔
میری یہ ساری بحث اگر مفتی صاحبان پڑھ لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب میں نے دراصل کس غرض کے لیے لکھی ہے اور پھر اس کتاب کا ایک ایک لفظ شہادت دیتا ہے کہ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے سارے خطبوں میں یہی غرض میرے پیش نظر رہی ہے، مگر مفتیوں کو اس سے کیا بحث کہ کتاب اور اس کے مصنف کا مدعا کیا ہے۔ ان کو تو تلاش ایسے فقروں کی تھی جنھیں سیاق وسباق سے الگ کرکے ایک فتویٰ لگایا جا سکے۔ ان کے لیے فتویٰ ایک دینی حکم نہیں ہے جسے لگانے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہو، بلکہ ایک لٹھ ہے جس کو لوگوں سے ذاتی رنجشوں کا بخار نکالنے کے لیے وہ جب ضرورت محسوس کرتے ہیں استعمال کر لیتے ہیں۔
جس شخص کو علم سے کچھ بھی مَس ہو اُسے کسی کتاب کی کسی عبارت کا مطلب مشخّص کرنے سے پہلے کتاب کے موضوع کو سمجھنا چاہیے۔ یہ کتاب فقہ یا علمِ کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔ اس میں مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مرتد یا خارج از ملت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصود خدا کے بندوں کو فرماں برداری پر اکسانا، نافرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعۃ کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک کتاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب زوائد ہیں۔ تم ان سب کو چھوڑ کر بھی مسلمان رَہ سکتے ہو؟ رہا بجائے خود ایمان اور عمل کے باہمی تعلق اور تکفیرِ مسلمین کا مسئلہ تو اس باب میں اپنا مسلک میں اپنے مضامین میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں جو خاص اسی موضوع پر میں نے لکھے ہیں۔ اس مسلک کو میری کتاب تفہیمات حصہ دوم سے معلوم کرنے کے بجائے خطبات کے ان منتشر فقروں سے مستنبط کرنا آخر کون سی دیانت تھی؟

ابو الاعلیٰ
ذوالحج ۱۳۷۱ھ
مطابق۱۶ ؍اگست ۱۹۵۲ء

02/07/2023

*اسلام نے دنیا کو کیا دیا؟*
اس دنیا کا بلکہ اس کائنات کا سب سے پہلا دین اسلام ھے۔
آدمؑ کو اللہ تعالٰی نے اس زمین پر زندگی گزارنے کے جتنے بہتر اصول تھے سب کچھ سمجھا کر،بتا کر بھیجا تھا اور ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ تمہارااور تمہاری نسلوں کا دین قیامت تک یہی اسلام ہوگا۔
لیکن آدم ہی کی زندگی میں خود ان کے بیٹے قابیل کے ہاتھوں دنیا کاسب سے پہلااور بڑادو فساد ایک قتل اور دوسرا بت پرستی ایجاد ہوا۔وہیں سے اللہ کے دین کی جو شبیہ بگڑی ہی تو آج تک بگڑتی ہی جا رہی ہے۔
آج کی دنیا میں جتنے بھی مذہب، مسلک،دھرم خواہ یہودیت ہو،عیسائیت ہو،صابئیت ہو، ھندویت ہو،سکھ مت ہو،جین مت ہو،
بودھ مت ہو وغیرہم
سب اسلام ہی کے بگڑے ہوئے اڈیشن ہیں۔اس لئے کہ دنیا کے دماغ میں دین کا کوئی تصور ہی نہیں تھاکہ جس کو وہ ایجاد کرتے۔
اس طرح سے دنیا کو اسلام نے سب سے پہلے دین دیا،اور خدا کا تعارف کروایااور یہ بتایا کہ تم سے خدا کا کیا تقاضا ہے۔
دوسرے اس نےکتاب کی شکل میں علم دیا۔جس میں ہر شعبہ اخلاق، ادب، عبادت ، معیشت، معاشرت، سیاست،
عدالت،صلح وجنگ،
معاملات،انسانی
حقوق، غذا کی حلت و حرمت،جرم وسزا،
الغرض کہ ہر طرح کے قوانین کی نشان دہی کر دی گئی تھی۔
ہاں مکمل ضابطہ اور طریقہ آنحضورﷺ کے ہاتھوں ملا۔
تیسرےاس نے عقل دی۔اس نے انسان پر جبرا کوئی چیز تھوپی نہیں، بلکہ غوروفکر کی مہلت دی، سوچنے سمجھنے کا وقت دیا،دلیل سے بتایا۔جتنی بھی آسمانی کتابیں آئی ہیں آپ اس میں دیکھئے توآج بھی تحریف کے باوجود غوروفکر کی دعوت دکھائی دیتی ہے۔
چوتھے اسلام نے روشن خیالی کا نظریہ انسان کو دیا۔
اسلام دقیانوسیت، تقلید پرستی، آباء پرستی، پیر پرستی، روایت پرستی، نظریہ پرستی، کاقائل نہیں ہے بلکہ وہ اجتہاد کا نظریہ دیتا ہے۔کیونکہ اجتہاد سے انسانی عقل کادائرہ بڑھتا ہے،
نئے نئے نقوش ابھرتے ہیں، نئی نئی راہیں کھلتی ہیں،علمی اور عقلی ترقی کے مواقع سامنے آتے ہیں۔اس کے برعکس لکیر کے فقیر بنے رہنے سے عقل سمٹتی ہے،سوچ کا دائرہ تنگ ہو جاتا ھے اور انسان علم و عقل کا غریب بن کر رہ جاتا ھے۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے آنحضور اور قرآن سے پہلے اس نظرئے کو نظر انداز کیا تھا اور عقل کے استعمال کو حرام قرار دیا تھا اورصرف
اپنے مٹھادھیسوں، جوگیوں،پادریوں اور
فقیہوں کے غلام بنے ہوئے تھے تب تک ہر حیثیت سے دنیا کا کاروبار ٹھپ پڑا ہوا
تھا اور قدم قدم پر ہر طرح کی خرابیوں گمراہیوں اور جہالتوں کا انبار بھراپڑا تھا۔اور جو چیز سمجھ سے بالا ہوتی تھی وہ خالق بنتی چلی جارہی تھی۔حتی کہ اہل کتاب تک جانوروں، ستاروں، انسانوں اور فرشتوں تک کو معبود کا درجہ دے رکھے تھے۔اور جھالت کا وہ بازار گرم کئے تھے کہ صرف ہنسی آتی تھی۔آپ کو میں ایک واقعہ سنائوں۔
یورپی مورخ "ولیم ڈریپر" لکھتا ہے:- "1456میں جب دمدار ستارہ طلوع ہواتو اسے خدا کا قہر سمجھا گیا اور جنگ، وبااور مختلف طرح کی بلائوں کا نتیجہ قرار دیا گیا۔پاپائے مقدس کے حکم سے یورپ کے تمام گرجائوں کے گھنٹے خوب بجائے گئے تاکہ ان کی ٹن ٹن سے تارہ دم دبا کر بھاگ جائے۔
مگر تارہ اپنی شاہانہ چال چلتا رہا اور جب وہ اپنا سفر پورا کر کے اپنے مقام پر چلا گیا تو یہ اعلان کیا گیا کہ حضرت پاپائے اعظم کوخدا نے دمدار ستارے پر فتح عطا فرمائی۔"
ذرا غور کیجئے کہ ستارے کا کیا تعلق جنگ وجدال،وبا و بلا اور کسی کی قسمت بنانے اور بگاڑنے سے ہے۔لیکن عقل کو استعمال میں نہ لانے کا نتیجہ ہوا کہ علم نجوم کو تقدیر سے جوڑ دیا گیا۔
اس طرح کی جھالت میں پوری دنیا جکڑی ہوئی تھی،اور صرف خرافات میں کھوئی ہوئی تھی۔کسی کے دماغ میں خالص خدا کا تصور،خالص خالق کی ہدایات کا نقش اور غور وفکر اور تدبر و تحقیق کا مادہ موجود نہیں تھا۔بلکہ آنکھ رکھتے ہوئے اندھے،دماغ رکھتے ہوئے حمار،دل رکھتے ہوئے بہرے بنے ہوئے تھے۔
پانچویں اسلام نے دنیا کو سائنسی نظریہ دیا۔تحقیق، تفتیش، تدبر، ریسرچ،
غور و خوض،مشاہدہ،
اسی کا نام سائنس ہے۔
قرآن دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسانی عقل پر بھر پور وار کیا، اس نے انسان کو تفکر اور تجربہ کی راہ پر ڈالا۔
ورنہ آج بھی دنیا آدی باسی ہی بنی رہتی۔
قرآن کی یہ آواز
"افلا یتفکرون" "افلا یتدبرون" "افلا تذکرون" افلا یعلمون "افلا یبصرون" افلا یعقلون" "افلا یفقھون" جب اہل دنیا کے کانوں سے ٹکرائی اور آنحضور کی رہنمائی میں جب اہل قرآن اس نظرئے کی روشنی میں کان،
آنکھ اور دماغ لے کر اٹھے ہیں تو دنیا کے سوچنے کے زاوئے کو بدل کر رکھ دیا۔انہیں نیا دماغ دیا، نیا طرز فکردیا، نئ نئی راہیں دیں،بلکہ انہیں بالکل نیا انسان بنادیا۔تب
سے لے کر آج تک جتنی بھی دریافتیں، جتنی بھی ایجادیں، جتنی بھی سائنسی ریسرچیں منظر عام پر آئی ہیں اس کے پیچھے بالواسطہ یابلا واسطہ انہیں اسلامی نظریات کا ہاتھ رہا ہے، جس کے اعتراف پر اسلام کے دشمن تک مجبور ہیں۔
ایک مغربی مورخ "ہنری پرین"لکھتاہے۔
"Islam changed the face of the globe, The traditional order of history was over throw.
اسلام نے کرئہ زمین کا نقشہ بدل دیا اس نے تاریخ کے بنائے ہوئے روایتی ڈھانچے کو اکھاڑ کر پھینک دیا "
یعنی دنیا نے جو نظریات، جو خیالات، جو قیاسات، زندگی کے جو اصول، اور تعلیمی، سیاسی، معاشی، قانونی، عبادتی،عدالتی جو پیمانے بنائے تھے ان سب کو توڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ تمہارے لئے رہنما اصول صرف وہ ہیں جو میں لے آیا ہوں۔اور بالآخر دنیا نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے قبول کر ہی لیا۔
آج دنیا کے پاس جو بھی اصول زندگی ہے وہ اسلام ہی سے ماخوذ ہے۔خواہ وہ بنی ہوئی شکل میں ہو یا بگڑی ہوئی شکل میں۔
چھٹا اسلام نے دنیا کو امت واحدہ کا تصور دیا۔دنیا کے پاس ایک امت کا کوئی تصور نہیں تھا، اور نہ ہی آج بھی ایک امت کا تصور کسی مذہب اور کسی قوم میں ھے۔
قرآن کہتا ہے:-ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ"یہ خدا کی بنائی ہوئی ایسی امت ہے کہ جو خدا، رسول اور قرآن پر ایمان لے آئے وہ اس امت کا فرد ہو گیا۔بحث اس سے نہیں کہ وہ کس قوم
کا تھا،کس برادری کا تھا، کس خاندان کا تھا، کس نسل کا تھا، کس رنگ کا تھا، کس ملک کا تھا۔بلکہ اسے پیدائشی مسلمان کی طرح سے بغیر کسی بھید بھائو کے ہر حقوق دئے جائیں گے۔
کیا اس جیسا تصور دنیا میں کسی کے پاس ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک قوم اور ایک مذہب میں بھی امت واحدہ کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ مختلف طرح کی برادریاں، مختلف طرح کے نظریات، مختلف طرح کے مسالک کہیں کیتھولک، کہیں پروٹسٹنٹ، کہیں برہمن ازم،کہیں شودر
کہیں ویدک دھرم، کہیں جین دھرم حتی کہ رنگ تک سفید فام ،نیگرو اور کینگرو(آسٹریلیائی قوم) حائل ہیں۔
لیکن اسلام کی نظر میں یہ سب جاہلانہ نظریات ہیں جو انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں، اور انسان میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔یہی سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ اسلام کو بنانے والا کوئی راسپوٹین،کوئی سینٹ پال، کوئی منو،کوئی بودھ، کوئی گرو نہیں تھا بلکہ کوئی محمد بھی نہیں تھے بلکہ وہ تھا جو انسان کو بنانے والا ہے،انسان کی
نفسیات کو سب سےبڑھ کرجاننے والا ہے،جو انسان کی رگ جاں(jugular vein)
سے بھی زیادہ قریب ہے۔
ساتواں اسلام نے تکریم انسانیت کا نظریہ دنیا کو دیا۔اس نے کہا:-"ولقد کرمنا بنی آدم۔ہم نے اولاد آدم کو باعث تعظیم بنایا"
انسانیت کی تکریم کا نظریہ اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب، کسی قوم، کسی ملک اور کسی برادری میں نہیں ہے۔بلکہ الٹا انسانیت کی تذلیل ضرور ہے۔
مثال کے طور پر یہودیت کو دیکھئے۔جس کے نزدیک سب سے معزز اور محترم یہودی نفوس ہیں کیونکہ وہ خدا کے نطفے سے پیدا ہوئے ہیں باقی لوگ کتے اور سور سے بدتر ہیں جو یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔جیسا کہ وہ اس کا اعتراف ببانگ بلند یوں کرتے ہیں۔
"یہودی جانیں نہایت معزز ہیں، کیونکہ وہ خدا کے مادے سے پیدا ہوئے ہیں۔جس طرح کی بیٹااپنے باپ کے مادے سے پیدا ہوتا ہے۔اور دیگر قومیں شیطان کی اولاد ہیں۔اورکوے، کتے،اور گدھے بھی ہیں۔اور ان کی زندگیاں خنزیر سے مختلف نہیں ہے۔اللہ تعالٰی نے دوسرے لوگوں کو اس لئے انسانی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ وہ رات دن صرف یہودیوں کی خدمت کریں۔یہودیوں کے لئے اپنی قوم کے علاوہ کسی دوسری قوم پر ترس کھانا حرام ہے، اگر کوئی یہودی کسی دوسری قوم کی عورت کے ساتھ زنا کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک ثواب کا مستحق ہے۔کیونکہ وہ حیوانات کی نسل سے ہیں۔یہودی کے سامنے اگر بھوکے کتےاور غیر یہودی بیٹھے ہوں تو کتوں کو کھلانا افضل ہے۔"
یہ اقتباسات اور اس طرح کے بیہودہ نظریات یہودیوں کی سب سے بڑی فقہی کتاب "تلمود "میں بھرے پڑے ہیں جس کا مصنف یہ حضرت موسی کو بتاتے ہیں۔
موسی تو بڑی دور کی بات ہے، ایسے انسانیت دشمن احکام کا تصور تو ایک شریف آدمی سے بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہی حال عیسائیت کا ہے۔بلکہ انسانیت کی تفریق میں یہ بھی یہودیوں سے پیچھے نہیں ہے۔
ان کے یہاں صرف چمڑی کے ہیر پھیر سے یعنی کسی کی کالی ہے کسی کی گوری ایک ہی قوم کے لوگ نہ ساتھ میں رہ سکتے ہیں، نہ ساتھ میں بیٹھ سکتے ہیں، نہ ساتھ میں پڑھ سکتے ہیں، نہ ساتھ میں کام کر سکتے ہیں، نہ ساتھ میں عبادت کر سکتے ہیں،حتی کہ گوروں کے گرجوں میں بھی داخل نہیں ہو سکتے ہیں۔کیونکہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہےکہ گورے پیدائشی آقا ہیں اور کالے پیدائشی غلام۔
اسی وجہ سے کوئی بھی کسر ان پر ظلم ڈھانے کی نہیں چھوڑتے ہیں۔
امریکہ کا مشہور ماہر معاشیات"فکٹر بیرلو"
لکھتا ہے۔
"نسلی برتائو کا زہر ملک کے چاروں طرف بری طرح پھیل چکا ہے۔اور امریکی زندگی کے رگ وریشہ میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب لوگ اس قدرعادی ہو چکے ہیں کہ حبشی اقوام اور دوسری اقلیتوں کی تحقیر کو کسی موقع پرنہ جانےدیں۔"
ایسے بہت سارے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کس طرح کے انسان ہیں، ایا انسان ہیں بھی کی نہیں؟
یہ ہے وہ عیسائیت جو پوری دنیا کو یہ پیغام دئے پھرتی ہے کہ عیسی مسیح تمام عالم انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔
یہی حال ہندومت کا ہے۔ہندو دھرم میں بھی انسانیت کے تعلق سے جو نظریہ ہے وہ بالکل یہودیت کا چربہ ہے۔اس سے ہٹ کر ہمیں کوئی اور نظریہ نہیں ملتا۔
بڑی ذات کے ہندئوں کے سب سے بڑے مہاراج "منو"اور ان کی سب سے بڑی کتاب "منو سمرتی"
کے نفرت انگیز قوانین دیکھیں کہ کس طرح سے انسانیت کا قتل کیا گیا ہے۔
"برہمن نیک ہو یا پاگل وہ خدائے بزرگ ہے۔برہمن کا نام نیکی کو ظاہر کرتا ہے اور شودر کا کمینہ پن کو۔برہما نے شودر کو برہمنوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے۔شودر پیدائشی غلام ہے۔اگر شودر برہمن کے نام ذات وغیرہ کو گالی دے تو اس کے منھ کو دس انچ لمبی گرم لوہے کی سلاخ سے داغ دیا جائے۔اگر شودر برہمن کو کسی کام کا حکم دے تو اس کے منہ اور کانوں میں کھولتا ہوا تیل ڈال دیا جائے۔برہمن عورت سے ہم بستری کرنے والے شودر کا عضو تناسل کاٹ دیا جائے۔عورتوں اور غیر برہمنوں کا قتل گناہ نہیں۔"
اس طرح کے اشلوک سے منو سمرتی بھری پڑی ہے، اور یہ سب صرف کاغذی قوانین نہیں تھے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی خوب ہوا ہے۔اب آپ سمجھ لیجئے کہ اس طرح کے قوانین کسی خاص مذہب، کسی خاص مسلک، کسی خاص فرقہ،
کسی خاص برادری سے بدلہ لینے کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں بلکہ پوری انسانیت سے انتقام لینے کی غرض سے وضع کئے گئے ہیں۔
اس کےبرعکس اسلام
کو دیکھو جو ان جیسے حیوانیت زدہ تصورات پر لعنت بھیجتا ہے اور صاف طور پر کہتا ہے کہ میری سرحد میں بحیثیت انسان کوئی تفریق نہیں ہے۔نہ ذات برادری کی،نہ امیر غریب کی،نہ نسل رنگ کی،نہ ملک قوم کی،نہ پیشہ دھندے کی۔البتہ تفریق تقوی ،کفر، شرک، الحاد کی بنا
پر ہے۔تم میں سب سے زیادہ معزز و محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ورنہ نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے،نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت ہے،نہ کسی نسل کو کسی برادری پر کوئی فضیلت ہے،نہ کسی ملک کو کسی قوم پر کوئی فضیلت ہے۔
ایک شکایت کوئی یہ کر سکتا ھے کہ اسلام میں بھی تو بندر بانٹ ہے۔ذات برادری کی،نسل و قوم کی، مذہب و مسلک کی۔
لیکن یہ تنقید ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔کیونکہ یہ اسلام میں نہیں ہے، بلکہ جاہل مسلمانوں نے اپنی جہالت کو اسلام
میں گھسیڑ دیا ہے۔اور جاہلوں کے کارناموں کو کسی دین اور دھرم سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔
اسلام کا تکریم انسانیت یا مساوات انسانی کے متعلق سب سے اہم چارٹر یہ ہے۔
"یا ایہاالناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوباوقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ورنہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے"
(الحجرات۔۱۳)
اس میں کوئی بھی شخص "قوم اور برادری" کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھائے۔کیونکہ قوم اور برادری کا ہونا ایک رحمت ہے۔ورنہ کہیں اگر دنیا میں صرف ایک ہی قوم، ایک ہی نسل،ایک ہی رنگ،
ایک ہی زبان ہوتی تو انسان کے لئے کس قدر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا۔نہ مختلف زبانوں کا وجود ہوتا، نہ مختلف طرح کے نظریات کا خروج ہوتا،نہ مختلف طرح کی نسلوں کا وجود ہوتا اور کاروبار دنیا آگے نہ بڑھتا۔بس اس سے سمجھ لیجئے کہ اگر دنیا میں صرف ایک ہی درخت ہوتا تو کیا ہوتا۔دنیا میں جتنے بھی اختلاف موجود ہیں ان میں دنیا کی ترقی کا راز مضمر ھے۔
لیکن افسوس کہ قدرت نے جس چیز کو تعارف کا ذریعہ بنایا تھا انسان نے اپنی بدمعاشی سے اسے تفاخر(Boast)کا ذریعہ بنا لیا۔جو آج انسان کو لڑانے کے لئے، انسان کو ذلیل کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔
یہی سبب ہے کہ اسلام کی دعوت صرف مسلمان کے لئے، یا کسی خاص قوم کے لئے، یا کسی خاص ملک کے لئے نہیں ہے،بلکہ اسکا خطاب، اسکا پیغام بنی نوع انسان کے لئے ہے۔
آٹھواں اسلام نے مساوات مرد وعورت کے تعلق سے دنیا کو ایک نرالا نظریہ دیا ہے۔ورنہ دنیا کی تنگ نظری عورت کوکوئی سنجیدہ مخلوق ماننے کو تیار نہیں تھی۔بلکہ اسے ایک رنگین فتنہ، مردوں کو برباد کرنے کا حربہ، کنیز، بچہ پیدا کرنے کی مشین، آفت، بھیڑیا صفت،ناگن سی زہریلی،کتیا،
شیطان کی خالہ نہ جانے کیا کیا کہتے تھے۔اور آج بھی یہ تصور کم و بیش ہر مذہب میں زندہ ہے۔
مثال کے طور پر "یہودیت" کو لیجئے۔
یہودیت میں عورت شوہر کی زر خرید غلام ہوتی تھی، اس کا وراثت میں بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، وہ دوسری شادی بھی نہیں کر سکتی تھی، وہ ایک بکاؤ مال بھی ہوتی تھی جس کو جب چاہے بیچا بھی جا سکتا تھا، اسی وجہ سے باپ اپنی بیٹی کو جب چاہتا تھا بیچ بھی دیتا تھا۔"
اسی طرح سے "عیسائیت" میں عورت کا یہ تصورتھا۔
"وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے،وہ مردوں کو غارت کرنے والی ہے،وہ گناہ کی پوٹلی ہے،ان پر لعنت بھیجنا واجب ہے، یہ خدا کی عبادت بھی نہیں کر سکتی ہے، یہ جنت میں بھی داخل نہیں ہوگی،اس کے اندر انسانی روح بھی نہیں ہے۔"
اسی جیسا تصور "ھندویت"میں بھی ہے۔ذرا کچھ اپدیش اور اشلوک دیکھیں۔
"عورت لڑکپن میں اپنے باپ، جوانی میں شوہراور بیوہ ہونے کے بعد اپنے بیٹوں کے ماتحت رہے، عورت کے لئے قربانی کرنا اور برت رکھنا گناہ ہے،عورت اپنے شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے شوہر کا نام نہ لے،جھوٹ بولنا عورتوں کی فطرت ہے، عورتوں کا وجود صرف اس لئے ہے کہ بچے دیں اور ان کی پرورش کریں۔"
یہ منو سمرتی کے مصنف "منو "کے اقوال ہیں۔
اب آئیے اسلام کو دیکھئے کہ اس نے کیسا بے نظیر نظریہ دنیا کو دیا۔
قرآن کہتا ہے:-
"من عمل صالحامن ذکر وانثی وھو مومن فاولئک یدخلون الجنۃ۔جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو وہ جنت میں جائیں گے"
"نسائکم حرث لکم۔تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں"
یعنی کھلونا نہیں، خادمہ نہیں بلکہ تمہاری نسلوں کو بڑھا کر تمہارا نام زندہ رکھنے والی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
"ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجۃ۔
عورتوں کے لئے بھی بھلے طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں،البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ
(معاشیات کےسبب)
حاصل ہے"(بقرہ،۲۲۸)
"ھن لباس لکم وانتم لباس لہن۔وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔"
آنحضور ﷺارشاد فرماتے ہیں۔
"انما النساء شقائق الرجال۔بےشک عورتیں مردوں کے برابر ہیں" (ترمذی )
یعنی وہ ضمیمہ نہیں ہیں بلکہ مرد انہیں سے مکمل ہے۔
یہ عورتوں کے متعلق اسلام کی آواز تھی اور محض آواز ہی نہیں بلکہ اسلام نے اس تیزی کے ساتھ عورت کو ایسے مقام بلند پر اٹھایا جس کا یقین خود عورت کو بھی نہیں تھا۔اور جو عورت زمانہ دراز سے دبی کچلی،ڈری سہمی چلی آرہی تھی مرد اس سے اس قدر محتاط ہو گئے کہ کہیں کوئی اسکے ساتھ زیادتی اور بے اعتدالی نہ ہو جائے۔ورنہ قدرت کی گرفت میں آجائیں گے۔
یہ تھا اسلام کا نظریہ عورت کے تعلق سے جس پر آج بھی مسلمان عورت کی پوزیشن بحال ہے۔مگر دنیا کی تنگ نظری نے آج بھی اپنی عورتوں کو اسلام کا دسواں حصہ بھی نہ دے سکی۔اور جو تھوڑا بہت ان کی عزت کرنے،ان کو حقوق دینے کے لئے تیار ہوئی ہے خاص طور سے عیسائیت اور ہندو یت تو یہ ان کی روشن خیالی نہیں ہے بلکہ اسلام ہی سے انہوں نے یہ نظریہ لیا ہے۔یہ میرا کوئی ہوائی دعوی نہیں ہے بلکہ دلیل پڑھئے۔
"اینی بسنٹ"کہتی ہے۔
"عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانہ تک انگلستان میں اپنائے جا رہے تھے،یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جارہا تھا۔
جائیداد، وراثت اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا،اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔"
(The life teaching of Mohammed.P, 3)
اسی طرح سے ایک فرنچ مستشرق "لی بان" کہتا ہے:-
"اسلام پہلا دین ہے جس نے عورتوں کو عزت و حرمت کا مستحق بنا دیا۔اسلام نے جاہلی بندھنوں سے عورت کو نکالنے میں پہلا رول ادا کیا۔
انہیں میراث کا حق دیا، انہیں ملکیت کا حق دیا،نکاح وطلاق میں جو بے اعتدالی چلی آرہی تھی اس کی اصلاح کی"
ذرا سوچئے کہ ان نظریات کی بنیاد پر اگر دنیا کی تعمیر ہو جائے تو یہ زمین کیسا جنت کا نمونہ بن جائے گی،ہر طرح کا فساد ختم ہو جائے گا اور شیطان مایوس ہو جائے گا۔
تحریر طویل ہوتی
چلی جارہی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہی ہے کہ اس پر صفحات نہیں بلکہ کتابیں درکار ہیں
اس لئے بات کو سمیٹنے کے لئے یہی کہنا ہے کہ دنیا کے ہر درد کی دوا صرف اسلام کے پاس ہے، جو سب سے بہتر طریقے سے دنیا کی اصلاح کر سکتا ہے۔بس لوگ تعصب کی عینک اتار کر اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔آج دنیا کے پاس جو کچھ بھی ہے خواہ بگڑی ہوئی ہی شکل میں کیوں نہ ہو وہ اسلام ہی کا طفیل ہے۔اور آئندہ بھی دنیا جوبھی اصول زندگی
بنائے گی وہ اسلام ہی سے ماخوذ ہوگی۔
کیونکہ اسلام دین فطرت ہے،اور اوپر والے نے اسے ٹھیک انسانی مطالبے کی روشنی میں بنا کر بھیجا ھے۔
لہٰذا دنیا اس پر غور کرے،اسی پر دنیا کی صلاح و فلاح اور طغیان و خسران منحصر ہے۔
(ڈاکٹر ابوذر اصلاحی پھول پور۔پرنسپل نورالاسلام، مئو )

Address

Khandwari

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Truth Message posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Truth Message:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share