touqueer_badr

  • Home
  • touqueer_badr

touqueer_badr I am M***i & Orator. We provide answer to questions plz grow it my Email :[email protected]

04/06/2023

!

السلام عليكم رحمت اللہ و برکاتہ!

مفتی صاحب زید کو ایک بکری ملی
مالک کا پتہ نہیں چل پایا
اس نے خالد کے ہاتھ اسے بیچ دیا

اب خالد اسکی قربانی کرنا چاہتا ہے خالد کو خریدتے وقت علم نہیں تھا کہ یہ بکری لقطہ کی ہے.

جب قربانی کا وقت قریب ہوگیا، تو خالد کو بکری کے اصل مالک کا پتہ چل گیا

اب خالد کے لئے کیا حکم ہے کیا وہ اس بکری کی قربانی کرسکتا ہے؟

محمد عبداللہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ
بتوسط مولانا احتشام قاسمی مدرسہ عارفیہ ناڑی دربھنگہ
________________

الجواب باسم من یلھم الصواب!
راستے میں یا کسی اور جگہ پر کوئی چیز گری پڑی ہوئی ملے یا پالتو جانور ملے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو،تو اسے لقطہ کہتے ہیں.
اسے ضائع ہونے سے بچانے اور مالک تک پہونچانے کی نیت سے اٹھالینے کی اجازت ہے،بلکہ بعض صورتوں میں اسے مستحب عمل گردانا گیا ہے.

لقطہ کا حکم یہ ہےکہ لقطہ کی نوعیت یعنی وہ قیمتی چیز ہے یا معمولی اسے دیکھ کر اس کے مطابق اسکی تشہیر کی جائے،جب اتنا وقت گزر جائےکہ لقطہ اٹھانے والے کا غالب گمان ہو جائےکہ اب مالک اس کی تلاش نہیں کرے گا تو ملتقط یعنی اس لقطہ کو اٹھانے والا اس کو خود استعمال کر سکتا ہے.بشرطیکہ وہ فقیر ہو،اور اگر خود مالدار ہوتو پھر کسی فقیر کو مالک کی طرف سے صدقہ کی نیت سے دے دے،لیکن صدقہ کرنے کے بعد اگر مالک آجائے،اور وہ صدقہ پر راضی نہ ہو،اور ضمان و قیمت کا مطالبہ کرے تو تاوان بشکل قیمت ادا کرنا ہوگا یا وہ چیز موجود ہو تو اسے واپس کرنا ہوگا۔
چناچہ ہندیہ میں ہے:
"الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء،لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط ‌وإن ‌كانت ‌اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين۔(الفتاوى الهنديه،كتاب اللقطة،ج:2۔ص:299)

لہذا صورت مسئولہ کے مطابق اب جب بکرے کا مالک مل گیا ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ بکرا کے مالک کو زید اسکی قیمت دیے دے،یا خالد زید سے قیمت واپس لیکر بکرا کے معلوم مالک کو دے دے،یا مالک اپنا بکرا خالد سے واپس لے لے،خالد زید سے اسکے پیسے واپس لے لے.یا پھر یہ مالک انکو راضی خوشی ہدیتا دے دے! الغرض معلوم مالک سے بیان کردہ مفاہمت اور اسکی رضامندی کے بغیر قربانی درست نہیں ہوگی!
ہندیہ میں ہی ہے "ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه...وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً" {فتاوی ہندیہ ٣٠٢/٠٥}
ھذا عندی والصواب عنداللہ!

توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا.
١٣/١١/١٤٤٤
٠٣/٠٦/٢٠٢٣
📞+918789554895
🥏+919122381549

👆🏽👆🏽
صدقہ جاریہ جانکر مسائل کو عام کریں!

I am M***i & Orator. We provide answer to questions plz grow it my Email :[email protected]

https://youtu.be/Ny1-0q6unS8👆🏽Untold story of Imam Nanautwi Foundr of    👆🏽تاسیس  #دارالعلوم دیوبند اور بانی دارالعلوم ح...
30/05/2023

https://youtu.be/Ny1-0q6unS8

👆🏽
Untold story of Imam Nanautwi Foundr of
👆🏽

تاسیس #دارالعلوم دیوبند اور بانی دارالعلوم حضرت #نانوتوی کے متعلق نایاب اور کچھ اہم فکری باتیں!

Plz Forward to everyone & subscribe this channel

***iTouqueerBadr , مولانا قاسم نانوتوی,

29/05/2023

#اسلام اپنے ماننے والوں کو #مرتے وقت یا بعد #مرگ کیا دیتا ہے کوئی دکھا سکتا ہے؟

ایک بھائی کی طرف سے سوال!

السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!

مفتی صاحب ہمارے ابو ڈاکٹر ہیں.ہمارے بیٹھک میں سبھی کے قسم لوگ آتے رہتے ہیں.دین دنیا کی باتیں ہوتی ہیں.
ایک دن ایک غیر مسلم بزرگ جو آتے رہتے ہیں،وہ بولے میاں یہ بتاؤ کہ اسلام اپنانے کے بعد اسلام کی بدولت مرتے وقت یا موت کے بعد ایسی کون سی خوبی و اچھائی ایمان پر مرنے والے کو نصیب ہوتی ہے،جسے عام لوگ اور دنیا دیکھ سکے!اور وہ خوبی کسی اور کے پاس نہ ہو!

ان کا کہنا تھا کہ موت کے بعد تو کسی بھی مذہب والے مردہ کے ساتھ کیا ہوتا ہے،یہ تو کوئی مردہ آکر کسی سے بتا نہیں سکتا!تم اسلام میں کچھ خوبی آنکھوں دیکھا بتاسکتے ہو تو بتاؤ!

براہ کرم آپ اس حوالے سے ہمارے راہنمائی فرمائیں!

معذرت کے ساتھ درخواست یہ ہے کہ ہمارا نام پوشیدہ رکھیں!بس آپ کا ایک دینی بھائی!

---------------
وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
آپ ان سے اسلام کی بدولت اسلام پر مرنے والے کی مرتے وقت خوبی و اچھائی کے حوالے سے کھل کر حکیمانہ اسلوب میں یہ گفتگو کرسکتے ہیں کہ ایک مسلمان کی جب موت ہوتی ہے،تو اسلامی عقیدے کے مطابق اسے بالکلیہ ختم و فنا نہیں،بلکہ ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف انتقال و کوچ مانا جاتا ہے، اور یہ وقت اسکے رخصت کا ہوتا ہے.یہ موت مؤمن کے حق میں اپنے رب سے ملاقات کا ذریعہ ہوتی ہے.اسی کے ساتھ ساتھ وفات یافتہ سے آئندہ زندگی میں وقت مقررہ پرپسماندگان کا جا ملنا،ایمان کی بدولت دنیا سے بڑھ کر وہاں بیش بہا انعام و اکرام سے فیضیاب ہونا نیز رب کریم سے ملاقات وغیرہ ان پسماندگان کے لیے اطمینان و سکون کا باعث ہوتی ہے.

چناچہ موت کے بعد پہلے پہل اس مردے کی ہیئت درست کی جاتی ہے،پھر اس دنیا سے رخصت ہونے کے پیش تدفین و تکفین کا سامان کیا جاتا ہے.اسے پورے دھیان سے قاعدے و ضابطے کے مطابق غسل دیا جاتا ہے،پھر نیئے کپڑے میں پورے اہتمام و التزام کے ساتھ الگ الگ پوشاک کے پیش نظر اسے کفنایا جاتا ہے.اسکے بعد اس پر خوشبو کا چھڑکاؤ ہوتا ہے.بعد ازاں پورے اعزاز و اکرام اور دعاؤں کے ساتھ مغموم آنکھوں سے اعزہ اقربا بڑے چھوٹے،الغرض ہر قبیل و ہر منصب کے لوگ اپنے کاندھوں پر ہولے ہولے بنا کسی جھٹکے کے ادب کے ساتھ جنازہ گاہ و قبرستان اسے لے جاتے ہیں،وہاں سبھی اسکی نماز جنازہ اسے آگے رکھ کر پڑھتے ہیں اور جنازے میں شامل ہر ایک فرد اس نماز کے توسط سے اسکے لئے رب سے اسکی معافی و مغفرت کے لیے دعا گو ہوتا ہے اور بعد والوں پر اس مردے کے حوالے سے ایک اسلامی فریضہ ہوتا ہے.پھر اسے ایک مختص کوٹھری نما قبر میں قرآنی آیت و دعا کے ساتھ تنہائی میں لٹا کر اللہ کے حوالے کر آتے ہیں.جہاں بعد میں بھی اعزہ و اقربا وقتا فوقتاً دعا کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں!

یاد رہے یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے بیانیے کے مطابق ہوتا ہے اور ان کام کو انجام دینے والے ثواب کی امید پر ایک فریضہ سمجھ انجام دیتے ہیں.یوں یہ سارا کچھ اسلام کی خوبصورت تعلیمات و برکت کی صورت میں ہی ممکن ہوپاتا ہے.

بیان کردہ تفصیل کے مطابق مسلم مُردے کے ساتھ کس قدر اکرام و اعزاز کیا جاتا ہے اور کتنے اعزاز و اکرام کے ساتھ اسلام کا پیرو کار سپرد خاک کیا جاتا ہے.اسے دنیا دیکھ بھی سکتی ہے.اور اسے سراہے بنا رہ بھی نہیں سکتی!
سراہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان اعزاز و اکرام کے فطری ہونے پر کوئی شبہ نہیں کرسکتا،بلکہ ہر ذی شعور، انصاف پسند،سلیم الفطرت انسان _خواہ وہ کسی مذہب و دھرم کا ہو_ ان اعزاز و اکرام کا اپنی حیات میں خود بھی خواہاں ہوتا ہے.اور بہر صورت اپنے عزیز و معزز ہستی زندہ یا مردہ کے لیے خواہاں رہتا ہے.

اگر آپ کے بیٹھک والے مذکورہ باتوں کا اقرار نہ کریں تو ان سے پوچھیں کہ آخر نیند وغیرہ میں کون اپنی ہیئت درست نہیں رکھنا چاہتا؟ کون کہیں جانے سے قبل غسل نہیں کرتا اور نئے کپڑے کون نہیں پہننا چاہتا؟کپڑے پر خوشبو و پرفیوم چھڑکنا کسے پسند نہیں؟رخصت و الوداع کے وقت ہر ایک ملاقاتی سے کون سلام و دعا کا خواہش مند نہیں ہوتا؟
اور سوال و جواب کے وقت آرام دہ تنہائی والی جگہ میں ہونا کون نہیں پسند کرتا؟جب یہ سب تسلیم ہیں، تو واضح رہے اسلامی ہدایت کے مطابق ایک مسلم مُردے کے ساتھ جو یہاں سے کوچ کر رہا ہوتا ہے، بوقت رخصت یہ سب کچھ عین اسکی پسند کے مطابق کیا جاتا ہے.
یہ وہ مسلّم فطریی و انسانی خواہشات ہیں،جس سے انکار ممکن نہیں! اور اسلام کی ہی خوبی و برکت ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی وفات شدہ انسان کی مزاج و پسند کا خیال بعد والوں کو رکھنے کہتا ہے.

ان سے آپ پوچھیں کیا ایک مرنے والے کے ساتھ یہ اسلامی ہدایت و ایمانی برکت کے بغیر ممکن ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں!

ہاں یہاں کوئی کہہ سکتا ہے غیر مسلم بھی تو اپنے مردے کو نہاتے و کفنانے ہیں اور کاندھوں پر اپنے مُردوں کو لیکر جاتے ہیں؟
تو ان سے یہی عرض ہے کہ یہ بتانے کی بھی زحمت کی جایے کہ انکے نہانے و کفنانے کی حقیقت و ہییت کیا ہوتی ہے؟ کاندھوں پر لیکر جانے والے کون کون ہوتے ہیں؟ اسکی فضیلت و اہمیت انکی کس کس کتاب میں آئی ہے؟ آیا انکے پاس کوئی مستند و معتبر کتاب بھی ہے؟ کیا وہ سپرد خاک کرتے ہیں؟یا اس موقع سے سراسر خلاف انسانیت ایک غیر فطری کام انجام دیتے ہیں؟

دنیا جانتی ہے زندگی میں جس عزیز یا معزز ہستی کو ایک چنگاری سے یا کرنٹ سے تکلیف ہوتی ہے یا چیل کوّیے و کیڑے مکوڑے کی کاٹ سے چوٹ و تکلیف پہونچتی ہے اور پھر دوا علاج کی ایک دنیا شروع ہوجاتی ہے،اسی عزیز یا معزز ہستی کو موت کے بعد انکے اپنوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی و سنگدلی سے دہکتے شعلوں یا برقی انگیٹھی کے حوالے کردیا جاتا ہے.سوال یہاں پر یہ اٹھنا چاہیے کہ ایسا آخر کیوں؟یا پھر کھلے میدان میں یا اونچی جگہ پر چیل کووں کے سامنے چیر پھاڑ کر انہیں انکا لقمہ تر بننے دیا جاتا ہے.کویی بتایے تو سہی ایسا کیوں؟
آہ! نہ کوئی اجتماعی دعا نہ کسی قسم انسانی کا اعزاز و اکرام! نہ کوئی مختص کمرہ نما قبر، نہ کوئی کبھی کسی عزیز قریب کا وہاں جاکر دعا کرنے کا امکان! کیا ان میں سے ایک بھی عمل فطری ہوسکتا ہے؟ کیا جیتے زندگی کوئی اس عمل کو اپنے لیے پسند کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں!

ابھی حال ہی میں ایک ملامتی انسان نام سے لگنے والا مسلمان جس نے زندگی میں اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کو کوسنا ہمیشہ اپنا واجبی فریضہ جانا،اسکی موت کے بعد اسکی بیٹی مسلمانوں کے قبرستان میں اسکے لیے قبر کی متلاشی ہوئی،اور ہر جگہ سے انکار پر اسے بالآخر "سپردِ نار" کیا گیا.یہ تلاشِ قبر فطرت کی تکمیل نہیں تھی تو اور کیا بات تھی؟

یہ اور بات ہے کہ انکار کی صورت میں خفت مٹانے کے لیے اسکی گزشتہ ٹوئٹ کو اسکی "وصیت برائے سپردِ نار" کا حوالہ بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا.

حاصل مدعا یہ ہے کہ آپ ان نکات پر ان سے حکمت کے ساتھ گفتگو کریں گے تو ان شاء اللہ کم از کم "اسلام کی آنکھوں دیکھی برکت مرتے وقت اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ"سے اس پس منظر میں انہیں ضرور روشناش کراپائیں گے.

دعاؤں میں یاد رکھیں

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
27/05/2023
📧[email protected]
📞+918789554895
🥏+919122381549

👆🏽👆🏽
علمی فکری باتوں کو صدقہ جاریہ جانکر سبھی سے ضرور شییر کریں!

I am M***i & Orator. We provide answer to questions plz grow it my Email :[email protected]

22/05/2023

ِ_خدا :

معقول و نامعقول کی ایک منطقی بحث

السلام علیکم ورحمت اللہ
سر! فرض کیجیے ایک اسکول ٹیچر ہے.اسے بسا اوقات الگ الگ مذاہب کے بچوں کے درمیان انکے خدا کو بتانا اور سمجھانا ہوتا ہے. مثلا وہ بتاتا ہے کہ جو ملحد اور ناستک ہوتے ہیں، وہ مانتے ہیں کہ خدا ہی نہیں ہے.اور جو بدھسٹ ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ خدا ہے یا نہیں؟تلاش جاری رکھو! جبکہ جو ہندو ہیں وہ مانتے ہیں کہ خدا انسانی شکل میں فلاں فلاں دیوی دیوتا ہیں اسی طرح جانور کے روپ میں گائے ہے.ان کے برعکس عیسائی یہ مانتے ہیں کہ خدا تین فرد و ذات کے مجموعے کو کہتے ہیں وہ انکو بھی خدا مانتے ہیں؛جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ مرگیا اور سولی چڑھ گیا.
ہاں البتہ اسلام کے ماننے والوں کا عقیدہ ان سب سے الگ ہے.انکے نزدیک خدا ہے؛البتہ العیاذ باللہ نہ وہ انسان کی شکل میں ہے نہ جا نور کے روپ میں،بلکہ یہ سب انکی مخلوق ہیں.
اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ اسکول ٹیچر گھر پر اپنے بچوں کو اسلامی عقیدے کی معقولیت Fairness اور دیگر مذاہب کی نامعقولیت Unfairness کو بتایے تو کیونکر اور کیسے؟

براہ کرم اس سلسلے میں آپ ہماری راہنمائی فرمائیں!آپ کا رابطہ نمبر ہمارے دوست زاہد سے ملا.
آپ کا نیازمند سید ثاقب پٹنہ
_________________
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ!
اسلامی عقیدے کے مطابق وجودِ خدا اور توحیدِ باری تعالیٰ کی معقولیت {Fairnees} اور سوال میں پیش کردہ دیگر مذاہب اور نظریات نیز انکی نامعقولیت {Unfairness} خود انکے بیانیے میں مذکور ہے.بس تھوڑی گہرائی سے انہیں جانچنا اور پرکھنا ہوگا.

چناچہ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اور ملحدین و ناستک کہلاتے ہیں ان کی نامعقولیت کے لیے کیا یہ کافی نہیں ہے،کہ یہ مادہ پرست {Matterialist} لوگ انکارِ خدا پر آج تک ایک بھی مسلّم و معیاری دلیل {Authentic logic & Reasoning} پیش نہیں کرسکے، بس یہی کہتے رہتے ہیں کہ "اگر ہے تو دکھاؤ!" حالانکہ انکا خود یہ دعویٰ " خدا نہیں ہے" اور دلیل "وہ نظر نہیں آتا" ہر پل انکی سفاہت و حماقت کو بیان کرتی رہتی ہے.وہ خود اس دعویٰ و دلیل کو لیکر نفاق {Hypocrisy} والی زندگی جی رہے ہوتے ہیں.

یہ کویی الزام نہیں حقیقت ہے،آپ بھی اس کا پتا لگا سکتے ہیں،مثلا وہ روح کو مانتے ہیں، مگر آج تک اسے نہ تو خود دیکھ سکے،نہ کسی کو دکھا سکے.لہذا اس صورت میں انہیں اس کا انکار کردینا چاہیے.مگر نہیں،اسی طرح مثلا وہ نیوٹن کے Law of} {gravitational force کو پڑھتے ہوئے قانون قوت ِ کششِ ثقل كو مانتے ہیں،اسکا خوب پرچار بھی کرتے ہیں.اور فقط اسکے نتیجے دیکھ کر اس قانون {Law} پر عقیدہ رکھتے ہیں؛براہ راست آج تک نہ تو اس قوت کشش کو خود دیکھ سکے نہ کسی کو دکھا سکے!
اسی طرح سائنسی کلیات و دنیا میں سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی،جہاں یہ بن دیکھے اندھے بہرے بنے اس پر ایمان رکھتے ہیں،مگر جب بات وجود باری کی آتی ہے،تو یہ منافقت {Hypocrisy} سے کام لیتے ہوئے اس کا انکار کرجاتے ہیں.اور نفاق {Hypocrisy} یہ سراسر نامعقولیت {Unfairness} ہی تو ہے.

اسی طرح بدھسٹوں کا معاملہ ہے،وہ نظر آنے والی دنیا جہاں کی ساری چیزوں اور ساری باتوں کو یقینی ہاں یا ناں کے درجے میں رکھتے ہیں،مگر عقیدہ جیسی اہم بات کو بس ایک غیر اہم شی جانکر ماننے والوں کی فہم پر چھوڑ دیتے ہیں.ان کا ڈانڈا بھی وہی مادہ پرستی سے ہو کر، نہ نظر آنے والی ذات کے انکار سے ہوتا ہوا ملحدین سے جا ملتا ہے، جنکی نامعقولیت {Unfairness} اوپر بیان کی جاچکی!

ان کے برعکس جہاں تک ہندو عقیدے کی نامعقولیت کی بات ہے،تو آپ خود بھی غور کریں اور بچوں سے بھی پوچھیں کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو خدا انسانی روپ میں دیوتا ہوگا یا وہ کوئی دیوی ہوگی،وہ کسی رنگ و نسل اور علاقے سے متاثر ہوکر دوسرے رنگ و نسل اور علاقے والے سے بھید بھاؤ کربیٹھے؟ کیا جو مرد ہوگا وہ مرد حمایتی اور عورت مخالف نہیں ہوگا،یا جو عورت ہوگی وہ عورت حمایتی اور مرد مخالف نہیں ہوگی؟اسی طرح جانور کے روپ میں ماننے سے یہ ساری خرابیاں تسلیم کرنا پڑتی ہیں.
الغرض بہر صورت کم از کم آج کے رام اور روان والے الگ الگ علاقے اور انکے تئیں الگ الگ نظریے نیز ریزرویشن اور نن ریزرویشن والے دور اور بیالوجیکل ڈائورسٹی عہد میں ان باتوں کو ڈسکس کرکے انکی نامعقولیت {Unfairness} تک تو پہونچ ہی سکتے ہیں!

اسی طرح جہاں تک عیسائیوں کے عقیدے کی بھی نامعقولیت کا سوال ہے تو آپ نے خود کہا کہ انکے عقیدے کے مطابق تین کے مجموعے میں سے ایک کی موت بھی ہویی اور وہ سولی پر بھی چڑھا _نعوذ باللہ منہ_ ظاہر ہے انکے عقیدے کے مطابق جب ایک عاجز و بے بس {Helpless} ہوکر سولی پر چڑھا اور دیگر دوسرے سبھی بے بسی سے دیکھتے رہے_العیاذ باللہ _تو پھر ایسے عاجز و بے بس {Helpless} کو کوئی کیونکر خدا تسلیم کرے گا؟ کیا اسکی نامعقولیت مزید محتاج بیان ہوسکتی ہے؟

ہاں ان مذاہب کے درمیان بلاشبہ مذہب اسلام کو ہی یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس عظیم الشان امر و عقیدے کو صاف شفاف طریقے سے بتایے اور بنا کسی ایچ پیچ کے دل و دماغ میں اتار سکے،جسکی بنا پر ماننے والے کو ماننے میں کوئی خلجان نہ ہو!
چناچہ یہی نہیں کہ ایک کلمہ گو یہ سب مانے،بلکہ کھل کر مسلم و معیاری دلائل کی روشنی میں قیام امن و انصاف کے واسطے وہ دنیا کو بتایے، کہ اللہ تعالیٰ رب ہی العالمین ہیں.وہی کاینات کو بنانے اور چلانے والے ہیں.نہ انکی کوئی ابتدا ہے نہ کوئی انتہا.نہ انکی ذات کسی سے پیدا ہویی ہے نہ کوئی انکی ذات سے پیدا ہوا.نہ کوئی انکا ہمسر و ہم مثل ہے نہ کوئی اس کا شریک کار. وہ انسانی و دیگر مخلوق والی سبھی محدود صفات و نقائص سے پاک و بے عیب ہے.وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہیگا.اسے موت تو دور نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ،نہ کوئی اسے تھکا سکتا ہے نہ کوئی اسے کبھی کسی وجہ سے عاجز کرسکتا ہے.وہ سب پر قادر و متصرف ہے. وہ سارے کاینات اور اسکے ذرے ذرے،جاندار و بیجان مخلوق و شئی سبھی کو ہرپل دیکھنے سننے والا اور ان سے واقف کار ہے.وہی دنیا و آخرت میں ایمان و خیر اور عدل و انصاف کی راہ اپنانے والے کو نوازتا ہے اور اسکے خلاف جانے والے کو سزا سے دوچار کرتا ہے.

امید کہ جب آپ ان حقائق کی روشنی میں مذکورہ باتوں کا جائزہ لیں گے،تو ان میں کون سا فکر و عقیدہ معقول ہے اور کون نامعقول، اسی طرح کون قابل تبلیغ ہے اور کون ناقابل بیان،وہ سب کچھ کھل کر سامنے آجایے گا.

دعا یہی ہے رب کریم ہم سبھی کو صواب و سداد کی راہ پر قائم رکھے آمین!

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
٢١/٠٥/٢٠٢٣

💌[email protected]
📞+918789554895
🥏+919122381549
👆🏽👆🏽

ان باتوں کو سبھی مسلم والدین و ٹیچر اور طلبہ سے سارے گروپ پر ضرور شییر کریں!

کسی  #غریب کے لیے مختص  #اسکول سے   محروم کیوں؟السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!مفتی صاحب ایک جگہ کمیٹی وانجمن والوں یا ...
07/05/2023

کسی #غریب کے لیے مختص #اسکول سے محروم کیوں؟

السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
مفتی صاحب ایک جگہ کمیٹی وانجمن والوں یا سرمایہ داروں نے مل جل کر غریبوں کے لئے اسکول کھولا وہاں معمولی فیس برایے نام پر غریب و نادار کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے.تو کیا ہم مالدار لوگ بھی اپنے بچوں کو وہاں پڑھا سکتے ہیں؟یا یہ بھی ہمارے یہاں زکاہ کا مال ہے.لہذا فقط مستحقین زکوٰۃ کے بچے بچیاں ہی پڑھ سکتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ آخر ہم مالدار کے بچے بچیاں وہاں کیوں نہیں پڑھ سکتے؟ اسکی وضاحت فرماتے ہوئے آپ براہ کرم شرعی راہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی.
مرتضیٰ /شوکت /اقبال ایم پی
==============
وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ!
اصول تو یہ ہے جو چیز جس کام کے لیے مختص ہوتی ہے،اسکی قانونی وضاحت و حد بندی اس کے اختصاص کو طے کرتی ہے.بصورت دیگر عموم و اطلاق کی بناء پر اس سے فائدہ اٹھانے میں سبھی آزاد ہوتے ہیں.

لہذا سوال میں مذکورہ صورت کے اندر اگر انجمن/کمیٹی والوں نے یا کسی سرمایہ دار نے اس اسکول کو بنایا اور بنانے کے بعد اس اسکول کو فقط غریب بچیے بچیوں کے لیے مختص کردیا نیز اسکی وضاحت اسکے دستور میں بھی کردی ہے،تو پھر آپ مالداروں کے بچے بچیاں، غریب بچے بچیوں کے لیے اس مختص اسکول میں نہیں پڑھ سکتے.
*آخر ہم مالدار کے بچے وہاں کیوں نہیں پڑھ سکتے* کا جواب یہ ہے کہ
ایسی ہدایت اس لیے کیونکہ اس صورت میں کسی معمولی حیثیت والے کی مرضی کے بغیر اسکی معمولی شی سے ایک بڑی حیثیت والے کا فائدہ اٹھانا ہوتا ہے، جو عام دنیاوی ضابطے و عرف میں اصول شرافت اور ضابطہ انسانیت کے خلاف ہے.
یہی نہیں ایسی صورت میں بسا اوقات جھوٹ، فریب اور جعل سازی یا دھونس و زبردستی سے کام لینا پڑتا ہے.ایک انسان کو داخلے کے وقت وقتی طور پر وہ بننے کی ایکٹنگ کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں ہوتا ہے.اور نہ عام حالات میں وہ بنے رہنا پسند کرتا ہے. _*یوں کہیے وہ ایسے موقع سے خود سے جھوٹ بول کر خود کو دھوکہ دیکر خود کو خود کی نگاہوں میں کمزور کررہا ہوتا ہے.اسلام اسی کمزوری سے اسے روکتا ہے.*_

*ذرا سوچیے کیا بچے بچیوں کی تعلیم اور آغاز تعلیم کی بنیاد ان جھوٹ، فریب اور طرح طرح کی جعل سازی پر رکھنا کسی مسلمان خوددار و مالدار باپ کو گوارہ ہونا چاہیے؟*

ہاں اگر کسی قسم کی حدبندی نہیں طے کی ہے،فقط ترجیحی طور پر غریب بچے بچیوں کے لیے اسے کھولا ہے،تو گنجائش کے وقت آپ یا کسی بھی مالدار کے بچے بچیاں بھی وہاں اسی فیس پر پڑھ سکتے ہیں.اس میں کوئی حرج نہیں! *کیونکہ ایسی صورت میں کوئی مکر و جبر نہیں*
واضح رہے کہ اس صورت میں یہ أموال زکاۃ کا مسئلہ نہیں ہوگا.یہ ایک قسم کا مسئلہ وقف کہلایے گا.

ایسی صورت میں مال زکاۃ تو تب مانا جایے گا،جب ضابطے کے مطابق زکوۃ کے طور پر وہ مال زکاۃ یا سرمایہ ادا کیا جایے اور اسکے لیے مال یا مال سے بنے اس اسکول کا مالک غربا و مستحق کو بنایا جایے کیونکہ حنفیہ کے نزدیک یہ تملیک لازمی ہے.لہذا اگر مذکورہ انجمن، کمیٹی یا سرمایہ دار نے کسی ایک غریب یا چند غربا کو پیسے یا اسکول بننے کے بعد غربا کے قبضے میں اس اسکول کر دیکر مالک نہیں بنایا،بلکہ براہ راست اپنے ہاتھوں سے اپنی نگرانی میں اسکول بنایا اور وہی اسکی دیکھ ریکھ کررہے ہیں،تو یہ أموال زکاۃ نہیں،بلکہ رفاہ عامہ کا ایک حصہ کہلایے گا،جس سے فائدہ اٹھانے کی تفصیل اوپر آچکی ہے.

بصورت دیگر اگر مذکورہ انجمن/کمیٹی یا سرمایہ دار نے کسی ایک غریب یا چند غریبوں کو مال کا مالک بنادیا اور اس ایک غریب یا چند غریبوں نے اس پیسے سے اسکول قائم کی،اور اسے سبھی کے لیے عام رکھا،تو پھر اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں!ہاں اگر اس صورت میں بھی ان غریب لوگوں نے اس کو اپنے بچوں کو لیے ہی مختص رکھا ہو اور مالدار کے بچے بچیوں کو دستوری طور پر فائدہ اٹھانے سے روک دیا ہو !تو پھر اس سے فائدہ اٹھانا مناسب و درست نہیں!جیسا کہ اسکی وضاحت جھوٹ و جعل سازی یا دھونس و زبردستی کی صورت میں اوپر آچکی ہے.
آپ کی تسلی کے لیے قرآنی آیت اور اس سے مستنبط فقہی روایت بھی پیش کی جاتی ہیں.

١-(قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى -) لقوله تعالى {وآتوا الزكاة} [البقرة: ٤٣] والإيتاء هو التمليك. (البحر الرائق: 2/ 216).

٢-شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء. (رد المحتار: 4/ 343).

ھذا عندی والصواب عنداللہ
توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
پندرہ شوال ١٤٤٤
٠٦/٠٥/٢٠٢٣
📧[email protected]
📞+918789554895
🥏+918789554895

👆🏽👆🏽
صدقہ جاریہ جانکر ان مسائل کو عوام میں عام کریں اور پبلک میں شئیر کریں!

 ! ؟ السلام علیکم ورحمت اللہ! مولانا صاحب میں ایک کمپنی میں جاب کرتی ہوں اور سائڈ سے ٹیچر بھی ہوں.بچیوں کے اندر تعلیم کو...
14/03/2023

!

؟

السلام علیکم ورحمت اللہ!
مولانا صاحب میں ایک کمپنی میں جاب کرتی ہوں اور سائڈ سے ٹیچر بھی ہوں.بچیوں کے اندر تعلیم کو لیکر میں کافی ایکٹو رہتی ہوں.ایک دن اسی کام کے پیش نظر میں سفر پر تھی.چند تحریروں کو موبائل پر دیکھ رہی تھی.جبھی میری ایک دوست کا یہ اعتراض سامنے آیا کہ *تمہارے اسلام میں تو عورت اور لڑکی کو منحوس* سمجھا جاتا ہے.ہم نے اس سے انکار کیا تو اس نے چند احادیث بھیج دی.وہ سب میں آپ کو بھیج رہی ہوں.

اب سوال یہ ہے کہ اگر ان سبھی حدیثوں کو درست نہ جانوں تو مشکل،کیونکہ بچپن سے یہ سنتی آرہی ہوں کہ یہ ہمارے ایمان کا بنیادی سورس ہے اور اگر مانتی ہوں تو مسئلہ یہ ہے کہ پھر ایسی باتوں کو رہتے،دین اسلام کی خوبی اور "انسانیت کے لیے بہتر دین" کہکر اسکی تبلیغ یا آرگیو کسی سہیلی کے سامنے کس طرح کرپاوں گی؟

پلیز آپ اس سلسلے میں میری راہنمائی کریں!کیا یہ ساری حدیثیں واقعی درست ہیں؟انکی اصل حقیقت کیا ہیں؟پرائمری رسورس یعنی قرآن مقدس اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پریکٹیکل لائف کیا تھی؟

آپ کی ایک دینی بہن ن فاطمہ... ممبئی مہاراشٹر
_________
وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
سب سے پہلے تو آپ اچھی طرح سے ذہن میں یہ بٹھالیں کہ دین اسلام میں عورت سے متعلق نحوست یعنی "خیر سے یکسر خالی ہونے والی" جیسی کوئی بات نہیں ہے.یہ مغرب کی نقالی میں پھیلایا ہوا ایک بھرم Myth ہے.

اسلام کی پرائمری ریسورس یعنی قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت تو دور ایک لفظ تک نہیں دکھایا جا سکتا؛جس سے یہ سمجھا جایے کہ عورت ذات فقط عورت ہونے کی وجہ سے منحوس ہوتی ہے.یعنی اس صنف نازک میں کوئی خیر نہیں ہوتا!
اس سے وابستہ ہوکر ایک انسان خود کو بدبخت و بیکار اور نکما و ناکارہ بنا لیتا ہے.دین سے دور ہوجاتا ہے اور اپنی آخرت و عاقبت خراب کرلیتا ہے.یوں تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے.

ہاں یہ ضرور جگ ظاہر ہے کہ اس صنف نازک کو پیدا ہونے کے بعد زندہ در گور ہونے سے بچانے،شادی کے بعد شوہر کی وفات پر اسکی چتا میں اسکی لاش سمیت ستی اور جل کر بھسم ہونے سے دور رکھنے اور انسانی نسل میں معزز و محترم بنانے کا جو راستہ ان عورتوں کو بالخصوص اور عام انسانوں کو بالعموم اسلام نے واضح کرکے دکھایا ہے،وہ فقط اسلام کا ہی خاصا ہے.

اپ سبھی مذاہب کا مطالعہ کرلیں. آپ اسی نیتجے پر پہونچیں گی کہ اس حوالے سے کوئی بھی دھرم یا مذہب، دین اسلام کی ہمسری نہیں کرسکتا!

اس کے بعد یہ عرض ہے کہ آپ نے جن احادیث کو بھیجا ہے.بلاشبہ وہ احادیث کی کتابوں میں ملتی ہیں اور بیان کرنے والے راویوں کی کڑی و سند (Chain) کے اعتبار سے یہ درست بھی ہیں.البتہ آپ انکے متون (Text) پر اگر غور کریں گی تو محسوس ہوگا کہ وہ سبھی احادیث تین طرح کے الفاظ سے سامنے آتی ہیں. اور وہ اپنے مفاہیم کے اعتبار سے معترض کے فہم کے بالکل الٹ و مغائر ہیں.

اول:"إنما الشؤم" ...کہ بلاشبہ نحوست( خیر سے خالی ہونا) فقط تین چیزوں میں ہوتی ہے.دوم :"الشؤم" ... نحوست (خیر سے خالی ہونا) تین چیزوں میں ہوجاتی ہے. سوم:"ان کان یا ان یکن الشؤم" ...بالفرض اگر نحوست(خیر خالی ہونا) کسی چیز میں ہوتی،تو ان تین چیزوں میں ہوتی.

پیش کردہ روایت اولی کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی ایک تفصیلی و تحقیقی روایت کافی چشم کشا باتیں ہمیں بتاتی ہیں.انکی زبانی آپ حدیث کی مستند و مشہور کتاب میں دیکھ سکتی ہیں.اس میں اسکی وضاحت موجود ہے،کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تین چیزوں کے بارے میں _بعض روایت کے مطابق یہودیوں_ اور بعض روایت کے مطابق _دور جاہلیت کے لوگوں کے_ نقطہ نظر کی تردید فرمارہے تھےکہ اللہ ان یہودیوں کو غارت کرے یہ کہتے ہیں کہ عورت، گھر مکان اور سواری میں نحوست ہوتی ہے.
تو اصل بات ان یہودیوں یا زمانہ جاہلیت والوں کے افکار کا بیان اور رد تھا، مگر ہوا یہ کہ اسے بیان کرنے والے صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس میں اس وقت آیے جب آپ اس واقعے کا آخری جملہ "عورت، گھر اور سواری میں نحوست ہوتی ہے" بول رہے تھے. یعنی وہ شروع کی بات نہ سن سکے، فقط آخری بات سن پایے اور یہ ادھوری بات انکی زبانی نشر ہوگئی!

چناچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنھا باضابطہ اس بابت شدید غصے کااظہار کرتی نظر آتی ہیں.مندرجہ ذیل دو روایت ترجمہ سمیت آپ دیکھ سکتی ہیں.

الف:"عن أبي حسان، قال دخل رجلان من بني عامر على عائشة فأخبراها أن أبا هريرة يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " الطيرة في الدار، والمرأة، والفرس " فغضبت فطارت شقة منها في السماء، وشقة في الأرض، وقالت: والذي أنزل الفرقان على محمد ما قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم قط، إنما قال: " كان أهل الجاهلية يتطيرون من ذلك" ( مسند احمد بن حنبل رقم 26034)"
ب:"عن عائشة أم المؤمنين لم يَحفَظْ أبو هُرَيرةَ،لأنّه دخَلَ و رَسولُ اللهِ ﷺ يقولُ: قاتَلَ اللهُ اليَهودَ، يقولون:إنّ الشُّؤمَ في ثَلاثٍ: في الدّارِ، والفَرَسِ، والمَرأةِ، فسمِعَ آخِرَ الحَديثِ، ولم يَسمَعْ أوَّلَه" شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج المسند ٤٣‏/١٥٩)
یعنی تابعی جناب ابو حسان مسلم بن عبداللہ اعرجؒ سے یہ بات آن رکارڈ موجود ہے کہ قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اوران سے عرض کیا کہ: ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بہت غصہ آیا اور ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ :اس ذات کی قسم جس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ یہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ” ان چیزوں کو منحوس جانتے تھے اور(نحوست کے قائل ) ان سے برا شگون لیتے تھے۔“

اور دوسری روایت میں ہے کہ ابوہریرہ پوری بات محفوظ نہیں کر پایے،جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا،کیونکہ وہ اس وقت مجلس میں آیے میں جب آپ آخری بات فرمارہے تھے کہ( بقول انکے) نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے.یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ سنا ہی نہیں کہ یہ بات کس پس منظر میں کس کے حوالے سے کہی جارہی تھی.
گویا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا بتارہی ہیں کہ یہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت کی سوچ بتا کر اسکی تردید کررہے تھے، نہ کہ اس بابت اپنی کوئی رایے {view} دے رہے تھے.البتہ ہوا یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بس آخری بات سنی،شروع کی بات وہ نہیں سکے،پوری بات سنتے تو اصل حقیقت انکے سامنے رہتی!
خلاصہ یہ کہ یہ فقط غلط فہمی {Misunderstanding} ہے.اور کچھ نہیں! That's all

اسی طرح روایت ثانیہ کے متعلق شراح حدیث اور ماہرین یہ کہتے ہیں کہ بسا اوقات ایک انسان ان تین بیان کردہ چیزوں میں مبتلا ہوکر خود کو نکما و ناکارہ بنالیا کرتا ہے.ان میں پڑ کر ان کا ایسا اسیر ہوجاتا ہے کہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا.دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر لیتا ہے.تو مانو بظاہر یہ چیزیں اس کے حق میں منحوس بن جاتی ہیں.

یہاں اگر غور کیا جایے تو اس بیانیے کے مطابق پتا چلے گا کہ منحوس فقط عورت ہی نہیں، بلکہ اگر کسی مرد صورت میں مبتلا ہوکر کوئی خاتون خود کو نکما و ناکارہ بنالیا کرتی ہے.اس کے چکر میں پڑ کر اس کا ایسا اسیر ہوجاتی ہے کہ پھر کسی کام کا نہیں رہتی.دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر لیتی ہے، تو پھر یہ مرد بھی اس عورت کے لیے منحوس ٹھہرے گا.اور ایسی صورت میں آخر کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے؟

چناچہ روایت ثالثہ کی رو سے یہ بیان کردہ توجیہ بالکل بے غبار ہوجاتی ہے،کیونکہ اس میں ہے"مان لو Suppose that اگر کسی چیز میں انسان مبتلا ہوکر خود کو دیوانہ و ناکارہ بناسکتا ہے،دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر سکتا ہے،تو وہ عورت، مکان اور سواری جیسی ہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں.
اب اسے تباہی کہیے یا نحوست کوئی فرق نہیں پڑتا.

حاصل مدعا یہ ہے کہ یہاں ایک قیاسی انداز {Hypothetical way} میں بات سمجھایی جارہی ہے.نہ کہ کسی حقیقت کا اظہار کیا جارہا ہے.لہذا اسے اچھی طرح سے سمجھ لیں!

جہاں تک آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی و عملی زندگی کا تعلق ہے،تو بلاشبہ آپ نے شادی بلکہ شادیاں کیں،ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو گھر مکان فراہم کیا،آپ کے پاس سواری بھی تھی،چناچہ سبھی سیرت نگار تفصیل سے بتاتے نظر آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کتنی تھیں اور سواریاں کیا کیا تھیں آپ کا مکان و حجرہ کیسا تھا؟

آپ سوچیے نعوذ باللہ اگر یہ سب چیزیں فی نفسہ منحوس ہوتیں تو کیا آقا صلی اللہ علیہ انہیں اپناتے؟ اور امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ و التسلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سنت جانکر انہیں اپناتی؟ہرگز نہیں!

یہی نہیں ان سب کے برعکس آپ ابن ماجہ کی روایت میں دیکھ سکتی ہیں کہ کس طرح انہی تین چیزوں کو باعث برکت بھی قرار دیا گیا ہے "مِخْمَرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لاَ شُؤْمَ وَقَدْ يَكُونُ الْيُمْنُ فِى ثَلاَثَةٍ فِى الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ » (سنن ابن ماجہ۔رقم الحدیث 1993،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :1930)
ترجمہ:مخمر بن معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:’’نحوست کچھ نہیں ہے۔ اور برکت (بسا اوقات) تین چیزوں میں ہوتی ہے : عورت، گھوڑے اور مکان میں۔‘‘

آپ ہی بتائیں کیا یہاں انصاف کی بات یہ نہیں ہونی چاہیے کہ اگر اوپر والی احادیث سے غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی اعتراض کربیٹھا تھا،تو اسے چاہیے تھا کہ اس آخری حدیث کی روشنی میں وہ اسلام کی واضح اچھائی و بڑائی کا اعتراف و اعلان بھی کرتا!؟

بہر حال آپ ان احادیث کو انکے مفاہیم کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور احادیث صحیحہ پر پورے اطمینان و شرح صدر {Highly Confidence} کے ساتھ اپنی سہیلیوں کے درمیان اسلام کی بات رکھیں!اور پر اعتماد ہوکر آرگیو {Argue} کریں!
یجزیک اللہ خیرا واحسن الجزأ!
دعاؤں میں یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
13/03/2023
📧[email protected]
📞+918789554895
🥏+919122381549

اسے سبھی اردو داں تک پہونچانے کی کوشش کریں!

آج یہ سمجھنا ہوگا کہ  #ہندوازم کی سوچ و گفتگو اور اسکی دلیل و معقولیت کیا ہے؟غیر مسلم کا کہنا ہے کہ سورج، چاند،سمندر جب ...
09/02/2023

آج یہ سمجھنا ہوگا کہ #ہندوازم کی سوچ و گفتگو اور اسکی دلیل و معقولیت کیا ہے؟

غیر مسلم کا کہنا ہے کہ سورج، چاند،سمندر جب یہ ساری دنیا کو فایدہ پہنچاتے ہیں تو یہ معبود و پر ماتما کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس کا معقول و مدلل جواب!
👇
https://youtu.be/7lXR8J4Uuio

Share it with everyone on every group on your mobiel

اسے ہر گروپ پر عام کریں!

Sun Sea & Moon can't be creator ¦ Surya Chamdrma Bhagwan nahi ho sakte ¦ God is not helpless ¦ Helpless isn't God ¦God is great ¦ The Creator is Almighty ¦ خ...

06/01/2023

!

سوال
جب دو دو منٹ کے وظیفوں سے ستر ستر سال کے گناہ معاف ہو رہے ہوں تو اس ہجوم کو اپنی اخلاقیات و اعمال درست کرنے کی کیا ضرورت ہے.
ایسی باتوں کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟
بھائی حبیب مالیگاوں مہاراشٹر
-----
آپ نے جو سوال بھیجا ہے.
اس کا جواب یہ ہے کہ نہ تو یہ بات کہ "دو دو منٹ کے وظائف ہی ستر ستر سال کے گناہوں کی معافی و اخلاق و اعمال کی درستگی کے لیے کافی ہیں" مکمل طور پر سچ اور درست ہے اور نہ یہ مکمل طور پر جھوٹ اور غلط!

بلکہ اسکی حقیقت مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ہوسکتی ہے.

"دو دو منٹ کے وظائف" سے روز مرہ والے احادیث صحیحہ ثابت میں "ذکراللہ" مراد ہے،تو اسکی فضیلت اور اسکا شرف دین اسلام میں بالکل واضح ہے، اور اس کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ذکر الہی میں مشغول لوگوں کا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب :"الوابل الصيب من الكلم الطيب" میں ذکر کرتے ہیں کہ ذکر الہی کے سو سے زیادہ فوائد ہیں.

چناچہ اگر یہاں دومنٹ کے وظائف سے روزانہ دو منٹ والا ذکراللہ مراد ہے تو اسکی فضیلت سے انکار نہیں!

تاہم یہی سارے اخلاق و اعمال کے لیے کافی ہوں،یا زندگی میں دومنٹ جیسے تیسے ذکر کرلیا اور فقط انہیں کافی سمجھا جایے، تو یہ درست نہیں!

ایسا اس لیے کیونکہ فقط یہی وظائف قرآن و حدیث میں بیان کردہ اخلاق و اعمال اور انکے سدھار و اصلاح کے واسطے کافی ہوں اور ان اخلاق و اعمال کے بغیر یہی وظائف عنداللہ مقبول بنانے والے ہوں.یہ سب قابل غور ہے باتیں ہیں!

اہل علم جانتے ہیں کہ "وظائف و ذکراللہ" کی فضیلت کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے کہ انسان کے گناہوں کا ازالہ کب کب فقط ذکر و اذکار اور عبادت و استغفار سے ہوتا ہے.اور کب کب ان کے ساتھ ساتھ ان گناہوں سے توبہ و ندامت اور آئندہ وہ گناہ صادر نہ ہو،اس کا عزم بھی اسکے لیے لازم ہوتا ہے.

کیونکہ فقہا کے یہاں یہ مسلم ہے کہ جہاں گناہ صغیرہ کا ازالہ فقط نیکی و استغفار(وظائف) سے ہوجاتا ہے،وہیں گناہ کبیرہ کے ازالہ کے واسطے اللہ سے توبہ اور مالی و جسمانی معاملہ ہو تو اسکی ادائیگی و معافی بھی شرط ہے.

لیکن جہاں تک "اسلامی اخلاق" کا تعلق ہے.تو یاد رہے قرآن و سنت کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دراصل عبدیت و تواضع،باہمی عدل و انصاف، مساوات و رواداری، انفاق و سخاوت ،ناپ تول اور قول و قرار میں سچائی،زیر کفالت کے لیے بھرپور محنت و حلال کمائی،عہد و پیمان میں پختگی، صدق و صفا اور راست بازی و سادگی کا نام ہے.
جب کہ "اسلامی اعمال"طہارت و پاکیزگی، نماز روزہ، حج زکوٰۃ،جد و جہد اور صدقہ و خیرات کہلاتے ہیں.
دسیوں قرآنی آیات ان اخلاق واعمال کے وجود پر مہر ثبت کرتے نظر آتے ہیں.جبکہ احادیث میں اعلیٰ اخلاق کے احیاء و اتمام کو بعثت نبوی کا مقصد بتایا گیا ہے.

اسی طرح یہ دھیان رہے کہ جہاں وظائف کا فائدہ ایک انسان کو ذاتی طور پر نفع دے سکتا ہے،اور گناہ صغیرہ کا ازالہ ہوسکتا ہے، وہیں اخلاق و اعمال کا فائدہ خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی سراپا خیر ہوتا ہے.اور معاشرے کی بہتری اور اخروی ترقی کے لئے یہ اخلاق و اعمال اور انکی درستگی بھی انتہائی ناگزیر ہے.فقط وظائف انکے لیے کافی ہوں یہ درست نہیں ہے.

اس سے ہم آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وظائف کی اہمیت کتنی اور کہاں تک ہے، جبکہ قرآن و سنت میں بیان کردہ اخلاق و اعمال اور انکی درستگی کس قدر اسلامی معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں.

خلاصہ کلام: اسلامی معاشرے و افراد کے لئے روزانہ فقط دو منٹ کے مذکورہ وظائف کافی نہیں ہیں،بھلے اسکی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،بلکہ انکے لیے اوپر بیان کردہ اخلاق و اعمال اور اسکی درستگی بھی انتہائی ناگزیر ہیں.اس بات کو اچھی طرح سے ذہن میں بٹھا لیا جایے!
ھذا عندی والصواب عنداللہ

توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
05/01/2023
📧[email protected]
📞+918789554895
🥏+918789554895

ان باتوں کو صدقہ جاریہ جانکر سبھی دوستوں سے عام کریں!

I am M***i & Orator. We provide answer to questions plz grow it my Email :[email protected]

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when touqueer_badr posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to touqueer_badr:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share