MD Tanweer

MD Tanweer follow my page for information about Islam. inshallah, every question will be answered

I REQUEST YO

28/11/2024
16/03/2024

Shahadat ka bahana chahiye

03/12/2023

*لفظ "ہجرت" کی جامعیت۔*

*ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔*
ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن ہو، اہل و عیال ہوں، سب کو چھوڑ دینا" (مسئلہ خلافت: ۴۷)، یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ خالی نہیں، کوئی لمحہ اس سے مبرا نہیں، انسانی حیات کا کوئی بھی مقام ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس کے تمام مطالبات اور مرضیات کا دائرہ ہجرت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، دنیا کی عظیم ترقیاں، حیرت انگیز انکشافات، انقلاب انگیز ایجادات، دولت کی فراوانی، تجارت کی عالمگیری، نئی نئی آبادیوں کا قیام اور ان سب کا علمی و تمدنی تعلق یہ سب کے سب ہجرت ہی کی دین ہیں، اسی کے عمل حق سے ان سب کا وجود ہے۔
*ذرا سوچئے! کولمبس اگر ہجرت نہ کرتا تو دنیا کا نصف تمدن اوجھل رہتا، یوروپ اگر ہجرت نہ کرتا تو آج نیویارک اور واشنگٹن کی سر بفلک عمارتوں کا وجود نہ ہوتا، اگر یوروپ کی قومیں اپنے ملکوں سے ہجرت نہ کرتیں تو آج تمام دنیا کی دولت ان کے گھروں میں کھنچ کر نہیں جاتی، اور ایشائی ممالک پر ان کا تسلط (حقیقی یا فکری) کبھی بھی قائم نہ ہوتا، وہ دنیا کی سربراہی کا مقام قطعا نہ پاتے، لیکن عجیب بات یہ ہے؛ کہ جب اسی چیز کو اللہ تعالی کی شریعت ایک جامع تر لفظ "ہجرت" سے تعبیر کرے، تو اس کا انکار کیا جاتا ہے، ہر کوئی اسے قبول کرنے کو تیار ہے؛ کہ تمدن کی خاطر دریائے نیل کا مخرج دریافت کرنے کیلئے سینکڑوں انسان اپنا گھر بار چھوڑ دیں، اور ہلاک و برباد ہوجائیں؛ لیکن یہ وحشت ہے کہ قیام حق اور اشاعت صداقت کی راہ میں اللہ کے بندے ترک وطن کریں؟ اگر نیوٹن اپنی نیند و راحت اور راتوں کا سکون برباد کر کے کشش ثقل کا قانون دریافت کر لے؛ تو یہ علم پرستی سمجھی جاتی یے، اور اگر کوئی عزم و طلب کے ایسے ہی پرستار کو دیکھے جو کشش ثقل کے بجائے قانون نجات عالم کیلئے عازم صادق ہو، اور وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہو، تو اسے حق پرستی کیوں نہیں کہتے؟ کیوں ایسوں کو فرسودہ خیال کا طعنہ دیا جاتا ہے؟ ان پر دقیانوسیت کے تیر برسائے جاتے ہیں؟*

✍ *محمد تنویر پورنوی*

Celebrating my 3rd year on Facebook. Thank you for your continuing support. I could never have made it without you. 🙏🤗🎉
19/11/2023

Celebrating my 3rd year on Facebook. Thank you for your continuing support. I could never have made it without you. 🙏🤗🎉

27/08/2023

मैं MD Tanweer फेसबुक(meta)को अपनी तस्वीरों, अपनी जानकारी या अपने प्रकाशनों, अतीत और भविष्य दोनों, मेरी या जहां मैं दिखाई देता हूं, का उपयोग करने की अनुमति नहीं देता हूं। इस कथन के अनुसार, मैं फेसबुक को अपना नोटिस देता हूं, इस प्रोफ़ाइल और/या इसकी सामग्री के आधार पर मेरी जानकारी, फ़ोटो का खुलासा करना, कॉपी करना, वितरित करना, देना, बेचना या मेरे खिलाफ कोई अन्य कार्रवाई करना सख्त वर्जित है। इस प्रोफ़ाइल की सामग्री निजी है और गोपनीय जानकारी। गोपनीयता का उल्लंघन कानून द्वारा दंडित किया जा सकता है (यूसीसी 1-308-1 1 308-103 और रोम क़ानून)।
फेसबुक अब एक सार्वजनिक संस्था है। सभी सदस्यों को इस तरह का एक नोट अवश्य पोस्ट करना चाहिए। यदि आप चाहें, तो आप इस संस्करण को कॉपी और पेस्ट कर सकते हैं। यदि आप कम से कम एक बार कोई बयान प्रकाशित नहीं करते हैं, तो आपने अपनी तस्वीरों के उपयोग की अनुमति देने के साथ-साथ प्रोफ़ाइल की स्थिति के अपडेट में निहित जानकारी के लिए मौन सहमति दे दी है। सांझा ना करें। hधन्यवाद!!,

14/06/2023

*भारतीय इतिहास (Indian History One Liner Q&A)*

1. कौन ‘लोहितवादी’ के उपनाम से प्रसिद्ध हुए? – गोपाल हरि देशमुख

2. 1857 के विद्रोह के समय जगदीशपुर में विद्रोहियों का नेतृत्व किसने किया था? – कुँवर सिंह ने

3. सल्तनत काल में ‘दार-उल-शफा’ क्या होता था? – चिकित्सालय

4. ‘दीवान-ए-अमीर कोही’ नामक विभाग, जो कृषि से सम्बन्धित था, किसने स्थापित किया था? – मुहम्मद बिन तुगलक ने

5. अकबर ने सर्वप्रथम दक्षिण भारत के किस राज्य पर आक्रमण किया था? – अहमदनगर पर

6. पानीपत के तृतीय युद्ध के समय पेशवा कौन था? – बालाजी बाजीराव

7. विक्रमशिला महाविहार की स्थापना किस वंश के शासकों द्वारा करवाई गई थी? – पालवंश के शासकों द्वारा

8. तमिल में ‘तोलकाप्पियम’ किस विषय से सम्बन्धित पुस्तक है? – तमिल व्याकरण से

9. सूर्य देवी गायत्री को सम्बोधित गायत्री मंत्र किस ग्रंथ में है? – ऋग्वेद संहिता में

10. औरंगजेब ने किस सिख गुरु को फाँसी दी? – गुरु तेगबहादुर को भारतीय राष्ट्रीय आन्दोलन (Indian National Movement General Knowledge)

11. ‘पूर्ण स्वराज’ की शपथ कांग्रेस के किस अधिवेशन में ली गई? – लाहौर अधिवेशन (1929) में

12. किस वायसराय की अंडमान यात्रा के दौरान एक कैदी द्वारा हत्या करा दी गई थी? – लॉर्ड मेयो

13. ‘भारतीय प्रेस के मुक्तिदाता’ किनको कहा जाता है? – सर चार्ल्स मेटकाफ तथा लॉर्ड मैकॉले को

14. भारतीय राष्ट्रीय कांग्रेस के सूरत अधिवेशन के अध्यक्ष कौन थे? – रास बिहारी घोष

15. बाल गंगाधर तिलक को भारतीय अशान्ति का जनक किसने कहा था? – वेलेंटाइन चिरोल ने

16. 1904 में लंदन में ‘अभिनव भारत’ की स्थापना किसने की थी? – विनायक दामोदर सावरकर ने

17. असहयोग आंदोलन शुरू करते समय भारत का वायसराय कौन था? – लॉर्ड चेम्सफोर्ड

18. दक्षिण अफ्रीका से लौटने के बाद महात्मा गाँधी ने प्रथम सफल सत्याग्रह आंदोलन कहाँ प्रारंभ किया? – चम्पारन में

19. भारत की राजधानी कोलकाता (कलकत्ता) से दिल्ली किस वर्ष परिवर्तित की गई? – 1911 ई. में

20. 23 दिसम्बर, 1912 को भारत के गर्वनर जनरल लॉर्ड हार्डिंग पर दिल्ली के चाँदनी चौक में निकल रहे जुलूस पर बम फेंकने वालों का नेता कौन था? – रास बिहारी बोस

MD TANWEER ALAM
MOBILE NO
077399 39252

*General Knowledge*

13/04/2023

*مدرسہ نہیں، یہ مسلمانوں کی تاریخ کو جلایا گیا*

رام نومی کے موقع پر جلوسوں اور شوبھا یاتراؤں کے دوران جئے شری رام اور ہندو راشٹر بن کر رہے گا، بھارت کا بچہ بچہ بولے گا جئے شری رام-جئے شری رام‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے شرپسند عناصر نے صرف جذباتی یا اتفاقی طور پر نہیں بلکہ امسال بالکل ہی منصوبہ بند سازش کے تحت ملک کی چار ریاستوں بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور گجرات میں مسلمانوں پر حملے کیے۔ اس بار خاص طور پر اقلیتی طبقہ کے مذہبی و تجارتی اداروں اور مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے ایسا خطرناک تشدد برپا کیا گیا جس کی آگ میں صرف املاک ہی نہیں بلکہ بیش قیمتی و نایاب سرمایہ بھی جل کر خاک ہو گیا۔ بہار شریف میں واقع *مدرسہ عزیزیہ* کے ساتھ تو جو کچھ ہوا اس پر جتنا آنسو بہایا جائے وہ کم ہے۔
بہار شریف میں ہاسپیٹل روڈ موڑ سے بابو منی رام کے اکھاڑہ تک رام نومی شوبھا یاترا نکالی گئی جس کی اجازت پولیس و ضلع انتظامیہ کے ذریعہ پہلے ضرور دی گئی تھی، لیکن شوبھا یاتراؤں میں شریک شرپسند عناصر مقررہ جگہ تک محدود نہیں رہے بلکہ خاص طور پر ان مسلم محلوں میں بھی اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہو گئے جہاں انہیں جلوس نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ 30 مارچ کو رام نومی کا تہوار پورے ملک میں منایا گیا لیکن بہار شریف اور سہسرام شہر میں دوسرے دن، یعنی 31 مارچ کو بھی شوبھا یاترائیں نکالی گئیں جن میں عینی شاہدین کے مطابق بہار شریف شہر میں نکالی گئی شوبھا یاترا میں تقریباً 20 ہزار لوگ رام بھگت ہونے کے نام پر شریک تھے۔ تعداد کا معاملہ الگ موضوعِ بحث ہو سکتا ہے لیکن اس قدر جوشیلے اور اشتعال انگیز نعرے کے ساتھ جلوس میں شامل لوگ مشتعل ہو کر حملہ آور ہوئے کہ بیشتر محلوں کے مسلمان بازاروں اور دروازوں کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو گئے اور صبر و تحمل کا بے مثل مظاہرہ کیا۔ اس دوران شوبھا یاتراؤں میں شریک لوگ اشتعال انگیز نعرے کے ساتھ بجرنگ دل، وشوہندو پریشد، رام سینا اور ہندو سینا کے بینر پوسٹر بھی لہراتے رہے۔
پٹنہ کے خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری کے بعد بہار شریف کے مدرسہ عزیزیہ میں واقع لائبریری کا نام اکثر لیا جاتا تھا اور اسے عالمی شہرت و مقبولیت حاصل تھی۔ اس کی تاریخی اہمیت اس لئے ہے کہ یہاں 18 الماریوں میں 4500 سے زائد نایاب کتابیں، مخطوطات اور مکتوبات تھے جو نالندہ کی فخریہ علامت تھے۔ ان نایاب و نادر کتابوں سے بھری اس لائبریری کو شرپسند عناصر نے نذر آتش کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لائبریری خاک میں تبدیل ہو گئی۔ اس دوران اُن 6 الماریوں کو بھی جلا ڈالا گیا جن میں 100 برسوں میں اس مدرسہ سے فارغ ہوئے ہزاروں طلباء کی اسناد، اساتذہ و ملازمین کی پوری تفصیلات، مدرسہ کے الحاق اور اس کی منظوری وغیرہ کے تمام سرکاری ریکارڈ محفوظ تھے۔ ان 24 الماریوں میں رکھے بیش قیمتی سرمایہ کی دوسری کاپی کہیں محفوظ نہیں کی جا سکیں اور نہ ڈیجیٹائزیشن کیا جاسکا تھا۔ پورے بہار کے مسلمانوں کی شاندار تاریخ اس میں موجود تھی۔ پورے حالات کا جائزہ لینے پر بہت وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ شرپسند عناصر اور فرقہ پرست قوتوں کی منصوبہ بند سازش کے تحت مدرسہ عزیزیہ کو تباہ کیا گیا تاکہ ایک شاندار تاریخ مٹ جائے۔
مدرسہ عزیزیہ بہار شریف شہر کے مرار پور محلہ میں واقع ہے جسے ایک بڑی دولت مند بی بی صغریٰ نے 1896ء میں اپنی املاک وقف کئے جانے کے ساتھ قائم کر دیا تھا اور اسے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں ان کے نام سے ہی منسوب کیا تھا۔ ابتدائی دور میں مدرسہ کا خاکہ اور ڈھانچہ بہت بڑا نہیں تھا، بس ایک نظام ضرور تھا جو بی بی صغریٰ کی وسیع النظری کا عکس تھا۔ بی بی صغریٰ کی خدمات و قربانیاں اس اعتبار سے بھی ناقابل فراموش ہیں کہ وہ بہت ہی وسیع النظر تھیں اور انہوں نے جب اپنی املاک ملت کے لیے وقف کی تو وقف نامہ کی شرط میں تعلیم کو خاص ترجیح دی بلکہ تعلیم کو مسلمانوں کے لئے پہلی ضرورت اور ترجیح بتاتے ہوئے بڑے پیمانے پر اپنی املاک کا استعمال مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کرنے کی نصیحت دی جس پر اس دور کے لوگوں نے عمل بھی کیا اور پہلے بہار شریف میں مدرسہ عزیزیہ، پھر صغریٰ اسکول و کالج، مظفرپور اور دربھنگہ میں صغریٰ اسکول اور ریاست کے دیگر مقامات میں بی بی صغریٰ کے نام سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم کئے گئے
اس وقت مدرسہ عزیزیہ میں 500 سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ 10 اساتذہ اور 2 غیر تدریسی ملازمین ہیں۔ 5 اساتذہ کو صغریٰ وقف اسٹیٹ سے تنخواہ ملتی ہے۔ یہاں اسلامی ماحول میں دینی و عصری علوم کا بہتر نظم ہے۔ 1910ء میں مدرسہ کی عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور 1924ء میں مکمل ہوئی۔ اس اعتبار سے آئندہ سال 2024 میں صد سالہ جشن منائے جانے کی تیاری تھی مگر یہ جشن ایک سال پہلے ہی ماتم میں تبدیل ہوگیا۔ مدرسہ عزیزیہ کو پورے بہار شریف میں مرکزی حیثیت حاصل تھی جہاں علم کا خزانہ موجود تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ذریعہ بار بار تاریخ مٹانے اور نئی تاریخ لکھنے کی جو بات کہی جا رہی ہے، اس کا عملی تجربہ کیا گیا اور بہار شریف کو تجربہ گاہ بنایا گیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسا کہ مسلمانوں کی نسل کشی کا تجربہ گاہ سال 2002ء میں گجرات کو بنایا گیا۔ 3 ایکڑ رقبہ میں قائم مدرسہ عزیزیہ کا نذر آتش کیا جانا بالکل غیر معمولی واقعہ ہے۔ تاریخ مٹانے کی فرقہ پرست قوتوں کی کوشش کا ایک بڑا حصہ یہاں کامیاب ہو گیا اور اب اس کی تلافی بھی ممکن نہیں۔ رمضان کا موقع ہے اس لئے روایتی طور پر مدرسہ بند تھا، لیکن شرپسند عناصر نے گیٹ توڑ کر ایسی آگ زنی کی کہ مدرسہ خاک میں مل گیا۔ غور طلب ہے کہ انگریز کے دور اقتدار میں مدرسہ عزیزیہ کی نگرانی ایس ڈی او کے ذمہ تھی، آزادی کے بعد ضلع مجسٹریٹ اس مدرسہ کے صدر ہوتے رہے۔ ابھی چند برسوں قبل سے خانقاہ معظم کے سجادہ نشیں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ مدرسہ صغریٰ وقف اسٹیٹ کے ماتحت چلتا تھا۔ آئندہ سال 2024 میں اگر صد سالہ جشن منایا جائے گا تو مدرسہ عزیزیہ کچھ بولنے اور بتانے کے بجائے اپنے اوپر ہوئے ظلم و ستم پر آنسو بہا رہا ہوگا۔
عتیق الرحمن
(مضمون نگار بہار کے سینئر صحافی ہیں اور اس وقت روزنامہ پندار سے منسلک ہیں)

12/04/2023

*انسانی شخصیت کا انوکھا پن*

*اللہ تعالی نے انسان کو بہت انوکھا، نایاب بنایا ہے، انسان اللہ تعالی کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر، احسن اور لاجواب ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں، ارشاد فرمایا گیا:لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ. (تین:٤) "ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے" - - وہ اگرچہ ظاہری طور پر کمزور و لاغر اور دنیا کی بہت سی دیگر مخلوقات کے سامنے بے بس نظر آتا ہے؛ لیکن اس کی فکر و عقل اسے اتنا طاقتور بنا دیتی ہے کہ کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، انسانوں نے زمین و آسمان ہر جگہ کمند ڈال رکھی ہے، وہ جہاں نہیں پہنچ سکتا وہاں اپنی مشینیں پہنچا رہا ہے، اپنے کارنامے پہنچا کر وہاں کی ہر چیز ریکارڈ کر رہا ہے، انسان نے خود کے اوپر ہی ریسرچ کو ایک موضوع بنا کر اپنے ہی جسم کو بدلنے، ترقی کے الگ الگ مراحل میں ڈالنے اور اپنی مَن مانی کرنے کا ذریعہ پا لیا ہے، اب تو وہ اس مرحلے میں ہے کہ اپنی تخلیق کو اپنے مطابق کر سکے، اللہ تعالی اگرچہ اس کے جسم میں روح ڈالیں، اس کے ہاتھ پیر بنائیں؛ لیکن سائنس کی مدد سے اس کے ساخت کو اپنی مرضی کے مطابق کر لیں، انسان کا دماغ کچھ بھی کر سکتا ہے، انسان خدا ونبی کے سوا سب کچھ بن سکتا، یہ سب بھی اللہ تعالی کی قدرت، قوت کی بات ہے، وہ جس کو چاہے جیسی قوت دے، اگر کوئی شخص انہیں اپنی مرضی اور سرکشی کیلئے استعمال کر تا ہے تو وہ گنہگار ہے، اس نے اللہ تعالی کی عنایت کردہ انعام کا غلط استعمال کیا؛ لیکن اگر کوئی اللہ تعالی کی حقانیت اور برتری کیلئے استعمال کرتا ہے تو وہ حقیقی بندہ ہے، اسی لئے قرآن مجید نے بھی انسان کو اپنے آپ میں غور و خوض کرنے کی دعوت دی ہے، فرمایا گیا: وَ فِیْۤ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ. (ذاریات:٢١) "اور خود تمہاری ذات میں بھی ، کیا تم کو دِکھائی نہیں دیتاہے ؟" - - مولانا وحید الدین خان مرحوم کے ایک مضمون انسانی شخصیت کے انوکھے پن کو اجاگر کیا گیا ہے، مولانا رقمطراز ہیں:*
*"کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکھتا ہے وه یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی، وه صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے :*
Nothing dies, it only changes its form.
*اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں، جس طرح ماده کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پھٹنے یا کسی اور حادثہ سے وه فنا نہیں ہوتا بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے، اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بھی ناقابل فنا مخلوق سمجھیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنی قرار نہ دیں. یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں بلکہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براه راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر علم الخلیہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چھوٹے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنا ہے وه مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں- ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریبا 26 پدم ہوتی پے- یہ خلیے کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں؛ بلکہ وه ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازه خلیے فراہم کرتی رہتی ہے، یہ ٹوٹ پھوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بلکل نیا جسم ہو جاتا ہے- گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہده پر دستخط کئے تھے وه ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا- پھر بھی " پچھلے ہاتھ " سے دستخط کیا ہوا معاہده میرا ہی معاہده رہتا ہے- اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنائیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں- اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے- اگر صرف جسم کے خاتمہ کا نام موت ہے تو ایسی موت تو " زنده " انسانوں کے ساتھ بھی ہر روز پیش آتی رہتی ہے- ساٹھ سال کی عمر کا ایک شخص جس کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھتے ہیں، وه جسمانی خاتمہ کے معنی میں چھ بار مکمل طور پر مر چکا ہے- اب چھ بار کی جسمانی موت سے اگر ایک انسان نہیں مرا تو ساتویں بار کی موت سے کیوں اس کا خاتمہ ہو جائے گا- حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو موت کے بعد بھی زنده موجود رہتا ہے- دوسری چیزیں اگر گیس کی صورت میں باقی رہتی ہیں تو انسان اپنے شعوری وجود کی صورت میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے-"* (الرسالہ، اکتوبر 2000)

✍️ *مولانا محمد تنویر الحسینی القاسمی*

12/04/2023

*وقت ہماری قبر کھود رہا ہے*

*یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم وقت سے تیز بھاگنا چاہتے ہیں، زندگی کو ایک ریس بنا کر ہر چیز سے آگے نکل جانا چاہتے ہیں، دنیا کی تمام رعنائیاں، رنگ وبو کو چھونا، پانا، حاصل کرنا اور اپنے قابو میں کر لینا چاہتے ہیں، ہر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے پاس دولت و ثروت ہو، عزت و شرف ہو، گھر، بنگلہ، مکان ہو، دکان، کاروبار اور کمپنیاں ہوں، آسائش کی کوئی کمی نہ ہو، زندگی میں کوئی ایک تنکا بھی چھوٹنے نہ پائے، مگر ان سب کے دوران وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جس وقت سے وہ آگے نکلنا چاہتا ہے وہی وقت اس کیلئے ایک گڑھا کھود رہا ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ. (انعام:٢) "وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھرموت کا ایک وقت مقرر کردیا اور اللہ کے پاس ( ہر چیز کے لئے ) ایک مدت مقرر ہے ، پھر بھی تم شک کرتے ہو". انسان جس مٹی سے بنا ہے، جس سے اس کی پرداخت ہوئی ہے، وہ اسی میں مل جائے گا، دھیرے دھیرے گردش ایام کے پھاوڑے زمین کھود رہے ہیں، ایک ایک مشت مٹی نکالی جارہی ہے، ابھی کسی کا سائز لیا گیا ہے، کسی کیلئے ایک انچ، دو انچ یا اس سے زائد کھود دیا گیا ہے، کسی کی قبر تیار ہے، بَس انتظار ہے کہ اس کی سانسیں بند ہوں گی اور باہیں پھیلائے وہ اسے اپنے آپ میں سمیٹ لی گی، مٹی کے وہ سارے ڈھیر اس قبر کے کنارے پر لگے ہوئے ہیں، تودے کی شکل میں رکھے گئے ہیں؛ تاکہ جیسے ہی اس کو سلا دیا جائے گا، وہ ساری مٹی جو دراصل اس کی زندگی کے کارنامے ہیں، گھر، بنگلہ گاڑی اور نام ونمود سبھی کچھ اس کے اوپر ڈال دیا جائے اور اس کی نعش ڈھانپ دی جائے گی، اور اسے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ سڑے، گلے اور اس کی ہڈیاں شکستہ، چورہ چورہ ہوجائیں، اس کا حساب وکتاب ہو اور اپنے رب ذوالجلال کے سامنے حاضر ہو کر تمام خواہشوں، صبح و شام اور کارستانیوں کا حساب دے.*
*انسان ہر دن یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے ہر منظر ہے، اس کے گھر کے آس پاس لوگ مرتے ہیں، وہ قبرستان جاتا ہے زندگی کے حقائق دیکھتا ہے مگر پھر وہ واپس لوٹ کر اپنی زندگی میں مست و مگن ہوجاتا ہے، وہ پھر وقت کے ہاتھوں میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اور اس کے قبر کھودنے کا انتظار کرنے لگتا ہے، آپ زندگی میں جو کچھ بن جاییے، جہاں چاہیں وہاں جاییے اور جو چاہیں وہ حاصل کر لیجئے، سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ ناممکن ہے کہ آپ وقت کے اس پھاوڑے اور گرانتی کو روک سکیں، اگر آپ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو آپ ناکام ہوجائیں گے بلکہ رسوا ہوجائیں گے، عام طور پر لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو! زندگی مختصر ہے، وقت انسان کا سب سے بڑا محتسب ہے، اپنے وقت اور زندگی کو ضائع نہ کرو، اگر تم نے وقت کو نہیں سمجھا تو زندگی تمہیں کچھ نہیں سمجھے گی، یہی وقت تمہارے لیے وہ مصیبتیں لے کر آئے گا جس کی تم تاب نہ لا سکو گے، ایسا ہوتا بھی ہے کہ سینکڑوں لوگ وقت کی چکی کے دو پاٹ میں پس کر رہ جاتے ہیں، وہ لوگ جو وقت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا ہی کھیل بگڑ جاتا ہے، ظاہر ہے جو آپ کی قبر کھود رہا ہے، اس سے بھلا کیسے دو دو ہاتھ کیا جاسکتا ہے، وقت گزر رہا ہے، ہماری قبر سے مٹی مسلسل نکالی جارہی ہے، آپ جانتے ہیں کہ اس کی گہرائی زیادہ نہیں ہوتی، قد آدم سے تو زیادہ نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ کس کی گہرائی کہاں تک پہنچ چکی ہے، سو اپنے آپ کی قدر کیجئے، وقت کو غنیمت جانیے، خود کو ضائع نہ کیجئے، زندگی کو یوں تماشہ اور کھیل نہ بناییے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ۚ وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۟ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا. (نساء:٧٧)"آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والے کے لئے آخرت ( کہیں ) بہتر ہے ! اور تم سے ایک دھاگہ کے برابر بھی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔"*

✍️ *مولانا محمد تنویر الحسینی القاسمی*

05/04/2023

*اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایاں پہلو اور ہم* (١٤_

- - *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راست گوئی اور دیانت مکہ میں ضرب المثل تھی ، لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے ، خود ابو جہل بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ جھوٹے نہیں ہیں؛ لیکن کہتا تھا کہ جو باتیں آپ پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے ، آپ نے جب باشاہ روم کو دعوت اسلام کا مکتوب لکھا ، اس وقت ابوسفیان روم میں ہی تھے ، جو اس وقت آپ کے سخت مخالف تھے ؛ چنانچہ شاہ روم نے ابوسفیان سے آپ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ دعوی نبوت سے پہلے جھوٹ بھی بولتے تھے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں، ( صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسير ، باب دعاء النبي صلى الله عليه وسلم الناس إلى الاسلام ، حدیث نمبر : ۲۹۴۱) غرض که دشمنوں کو بھی آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا، دیانت داری کا حال یہ تھا کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے؛ چنانچہ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت سی امانتیں آپ کے پاس تھیں ،جنھیں آپ حضرت علی کے حوالہ کر کے گئے۔ (فقہ السیر اللغزالی:٤١٧) آپ لوگوں کو سچ بولنے اور دیانت داری کو قائم رکھنے کی خاص طور پر تاکید کرتے تھے ، ایک موقع پر ارشاد فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں : بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کر وہ تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو دیانت کے ساتھ واپس کرو، اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرو، نگاہوں کو پست رکھو، یعنی غیر محرم عورتوں پر نظر نہ جاؤ اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، یعنی ظلم نہ کرو ۔ (مستدرک حالم من عبادہ بن صامت : ۳۵۹/۴)ایفاء عہد کا آپ کو بڑا لحاظ تھا مصلح حدیبیہ میں جو شرطیں طے پائیں ، آپ ان پر سختی سے قائم رہے بعض مظلوم مسلمانوں کی قابل رقم حالت دیکھ کر بھی وعدہ خلافی کرنا گوارہ نہ کیا ، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ ایک تہائی سے بھی کم تھی ؛ اس لئے ایک ایک آدمی کی اہمیت تھی ؛ چنانچہ مین جنگ کے وقت حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان (جن کا اصل نام حسیل بن جابر تھا ) کہیں سے آرہے تھے کہ ان دونوں کو اہل مکہ نے پکڑ لیا ، اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے ، یہ حضرات مسلمانوں کے ساتھ غزوہ میں شریک ہونا چاہتے تھے ؛ لیکن آپ نے انھیں واپس کر دیا اور فرمایا: ہم ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کے قائل ہیں ، (اسد الغابة : ۷۰۶/۱ ، حدیث نمبر : ۱۱۱۳) نبوت سے پہلے ایک صاحب سے معاملہ ہوا، وہ آپ کو بیٹھا کر چلے گئے کہ آکر حساب کر دیتا ہوں ، مگر ان کو خیال نہیں رہا ، تین دنوں بعد آئے تو آپ اسی جگہ تشریف رکھتے تھے ، آپ نے فرمایا : تین دنوں سے یہیں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔* ( سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی العدة ، حدیث نمبر : ۴۹۹۶)
*ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں تو دوسری طرف ہماری بے ڈھنگ زندگی ہے، چنانچہ راست گوئی اور دیانت داری کی یہ تعلیم امت مسلمہ میں کہیں گم ہوگئی ہے، آج عالم یہ ہے کہ لوگ اسلام کو اچھا کہتے ہیں، اس کی بنیادوں پر سر دھنتے ہیں؛ لیکن مسلمان کو بدترین مخلوق گردانتے ہیں، انہیں معاشرے کیلئے ناسور سمجھتے ہیں، جھوٹا مکار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، آپ کسی سودا گر، کام کاج والے سے پوچھئے کہ وہ کس کے ساتھ معاملہ کرنا چاہے گا؟ تو وہ بتائے گا کہ سبھی سے معاملہ کر لو! مگر کسی مسلمان سے نہیں کرنا، مسلمانوں کی زبان جھوٹ پر اٹھتی ہے، اور اسی پر گامزن رہتی ہے، ان کے نزدیک وعدہ، ایفائے عہد کا کوئی پاس نہیں، عجیب بات یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دین دار کہلاتے ہیں، جن کے سینے میں علم نبوت کی روشنی ہے؛ لیکن ان کے کردار سے ظلمت ہی ظلمت ظاہر ہوتی ہے، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مسلمان جب تک اپنے اخلاق درست نہ کریں گے ان کے ایمان کی پختگی بھی تسلیم نہ کی جائے گی، اللہ تعالی پر حقیقی ایقان و ایمان کا اس سے بڑا گہرا تعلق ہے کہ انسان کا دل جو کہتا ہے، کیا وہ اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے یا نہیں؟ عمل سے کوتاہ انسان ایک اچھا مومن نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ کسی دوسرے کیلئے نمونہ کہا جاسکتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا کیلئے اسوہ بنایا گیا ہے وہ اس لئے بھی کہ صرف آپ ہی کی ذات جو قول و فعل کے مابین تضاد سے پاک ہے، آپ کی پوری زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی دھوکہ نہیں دیا یا کسی بھی طرح کی ایسی بات آپ سے سرزد نہ ہوئی جسے اخلاقی معیار کے منافی سمجھا جائے، یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا کرتے تھے، آپ کی ایک جھلک ان پر یہ اثر کرتی کہ ان کا دل موم ہوجاتا تھا، جو آپ کو معاملات میں آزما لیتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھلے ہی کتنی مخالفت ہوئی ہو؛ لیکن ان مخالفین نے بھی آپ کے اخلاقی اقدار کو کبھی گدلا نہیں کیا، مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات میں پچھڑ گئے، اخلاق و کردار میں غیر مسلموں سے بھی دور ہوگیے، آج ایک یہودی و نصرانی ہم سے زیادہ قابل اعتماد ہے، عالمی بازار میں ان کی ضمانت چلتی ہے؛ جبکہ مسلمان کو محلہ کا ایک تاجر بھی اعتماد کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اب ایسے میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیوں کر ہو؟ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف تسبیح کے دانے گھما لینے اور ظاہری حلیہ درست کر لینے سے اسلام کی اشاعت کا ذمہ ادا ہوجائے گا، اگرچہ یہ بھی ضروری ہیں؛ لیکن اخلاق کو درست کرنا زیادہ ضروری ہے، نہ جانے کیوں ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اخلاق بھی ایمان کا حصہ ہے، سورہ مدثر کی ایک اہم آیت کو اکثر نقل کیا جاتا ہے اور اس کا اختصار کر دیا جاتا ہے کہ تمہیں کیوں جہنم میں ڈالا گیا؟ جواباً کہا جاتا ہے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے، مگر اس کے بعد اخلاقی پہلوؤں کا تذکرہ ہے جنہیں چھوڑ دیا جاتا ہے، آپ ان آیات کا مطالعہ کیجئے! اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ، فِیْ جَنّٰتٍ یَتَسَآءَلُوْنَ عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ،مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ، قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ،وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ ،وَ کُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ. (مدثر: ٣٩ تا ٤٥) "سوائے داہنی طرف والوں کے کہ وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے ، گنہگاروں سے پوچھ رہے ہوں گے ،کہ تم کو کونسی چیز دوزخ میں لے گئی ؟تو وہ کہیں گے : ’ نہ ہم نماز پڑھا کرتے تھے ،نہ فقیر کو کھانا کھلاتے تھے ،ہم بھی باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنانے لگتے تھے" - - - اس لیے ضرورت ہے کہ اپنے اندر اخلاقی اقدار زندہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ کے حقیقی متبع بنیں!*
آخری بات
*غرض یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق حسنہ سے متصف ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ زمانے کیلئے اسوہ ہیں، افسوس ہم نے آپ کے اخلاقی اقدار کو اسوہ نہیں بنایا؛ بلکہ مغربی فکر، تہذیب حاضر کی چمک دمک اور ہوی و ہوس کی دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا، مادیت و خود غرضی کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوگئے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے، آپ کے اخلاق و کردار کا بیان کھول کھول کیا جارہا ہے مگر ہم التفات کرنا مناسب نہیں سمجھتے، چنانچہ ہم تنزلی کی راہ پر ہیں، خود کو تھکا دینے اور اپنے آپ کو باطل کی آغوش میں ڈال دینے کے درپے ہیں، ہماری صبح و شام دشمان اسلام کے طرز و طریق پر ہے، اسلام اب غریب الدیار ہوتا جا رہا ہے، اس کے ماننے والے ہی اسے دیس نکالا دے رہے ہیں، یاد رکھیے! اگر اسلام اور اقدار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری زندگی میں شیر و شکر نہ ہویے تو ہم بھی ایک نہ ایک دن غریب الدیار ہوجائیں گے اور ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں؛ لہذا لازم ہے کہ اسوہ حقیقی کی جانب لوٹیں اور اپنی شخصیت، معاشرت، معاملات اور تمام شعبہ ہائے زندگی کو درست کریں!*

✍️ *مولانا محمد تنویر الحسینی القاسمی*

Address

High School Geandobh
Purnea

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when MD Tanweer posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to MD Tanweer:

Videos

Share