13/04/2022
*میرے والد محترم فقیہ ملت ابرار العلماء حضرت علامہ مفتی محمد ابرارالحسن رحمہ اللہ باتھوی،سیتامڑھی،بہار* (١٩٤٧_٢٠٠٩ )
ان پاکیزہ نفوس میں سے ہیں, جن کے علمی فیضان سے علاقہ ترہت روشن ہے ۔جن کی فقاہت ,علمی دیانت داری، خلوص و للہیت ،تقوی و طہارت کا پوارا علاقہ معترف ہے ۔
*مرکز اہل سنت مدرسہ نور الھدی ،پوکھریرا شریف میں آپ کی علمی خدمات کا دائرہ تقریبا نصف صدی کو محیط ہے* ،جہاں سے بحیثیت پرنسپل و مفتی ،ہزاروں فتاوے و دیگر تنازعات کے فیصلے فرماکر اپنے وقت میں مرجع علما و عوام رہے ۔
آپ نے پوری زندگی اپنے گاؤں باتھ اصلی کی *جامع مسجد میں* فی سبیل اللہ *امامت فرمائی* اور پورے گاؤن کی عید و *بقرہ عید کی امامت فرمائی* ، آپ خود بھی سختی سے اسلام اور مسلک اعلی حضرت کے پابند تھے ،اور دوسروں کو بھی ہر عمل میں *احکام اسلام کی پیروی کا حکم دیا کرتے تھے*۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے *چھہ صاحبزادوں میں سب کے سب دینی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ* ہوکر مفتی ،عالم و فاضل حافظ و قاری ہیں جو ملک کے مختلف گوشوں میں رہکر بذریعہ تحریر و تقریر ، درس و تدریس ،امامت و خطابت دین اسلام کی خدمات انجام دے رہے ہیں، اسی طرح آپ کے دامادوں میں بھی سب کے سب علما و حفاظ ہیں ۔
*محفل میلاد میں آخری خطاب آپ کا ہی ہوتا ،ہر *تقریر میں اللہ و رسول کی محبت کی ترغیب ضرور پائی جاتی* ،قرآن و احادیث طیبہ کے بعد سب سے زیادہ صوفیاے کرام کی کتابوں کا حوالہ دیا کرتے, خصوصا *مولانا روم کی مثوی شریف* کے اشعار ترنم میں پڑھتے اور اس کے ترجمے اور مطالب آسان لب و لہجے میں عوام الناس کو سمجھاتے* ۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی شخص کو نہیں دیکھا جو میرے والد محترم کی طرح اپنی والدہ کا ہر وقت ادب و احترام کیا کرتا ہو،اور خیال رکھتا ہو ، نہ ہی کسی ماں کو دیکھا جو اپنے بیٹے اور بہو سے الفت و محبت کا اس قدر اظہار کرتی ہو ، جس طرح میری دادی جان مصباح النساء (بنت علامہ ولی الرحمن ابن سرکار عبد الرحمن محبی رحمۃ اللّٰہ علیہ) اپنے بیٹے اور بہو (میری والدہ محترمہ ،طیبہ ،طاہرہ، پروردہ آغوش ولایت ،روشن جہاں ) الفت و محبت کرتی تھیں ۔
ابا جان معمول کے مطابق صبح بعد نماز فجر تا وقت مدرسہ، دروازے پر کرسی لگا کر بیٹھتے اور *مولانا روم کی مثنوی شریف* کا مطالعہ کرتے ،تھوڑی دیر بعد ستو ،چائے ،پان پیش کیا جاتا ،اس کے بعد مدرسہ تشریف لے جاتے ۔
ہم لوگ ستو ،چائے لے جاتے ،تو پہلا سوال، ابا جان کی طرف سے یہی ہوتا: "دادی کو دیئے ؟" اگر اثبات میں جواب دیتا، تو قبول کرتے ،ورنہ کہتے: "پہلے دادی کو دیجے "،اگر لاعلمی کا اظہار کرتا، تو ،فرماتے "جائیے پوچھ آکر آئیے "
*ہمیشہ پہلے دادی ستو کھاتی ،چائے پیتی پھر ابا جان کھاتے پیتے* ۔
مدرسہ جاتے وقت باادب دادی کی باگاہ میں سلام عرض کرتے اور دادی جان اپنے پیارے بیٹے کو دروازہ تک چھوڑنے آتیں ،اور کہتیں: "اللہ کے حوالے " دادی کا یہ دعائیہ جملہ سن کر ہم لوگ بھی بلند آواز سے چلاتے "*اللہ کے حوالے* ،اللہ کے حوالے "
جب ابا جان کے آنے کا وقت ہوتا تو آدھے ایک گھنٹے پہلے ہی دادی انتظار میں گم ہوجاتی ،ان کی منتظر نظریں کبھی دروازے پر تو کبھی گیٹ پر لگی رہتی ، ابا جان مدرسے کی واپسی پر سلام عرض کرتے ۔
*مزارات اولیا کی حاضری بڑے شوق و عقیدت سے کیا کرتے ،خصوصا ہرسال بلاناغہ اجمیری مقدس و بریلی شریف عرس کے موقع سے حاضر ہوتے* ۔
جب بڑے سفر پر نکلتے تو دادی سے کہتے " اماں ہم چاہتے ہیں کہ اجمیر شریف، بارگاہ خواجہ میں حاضری دیتے ؟ "
دادی کا جو جواب ہوتا، اسی پر عمل کرتے ۔
ایک خاص بات یہ بھی ہوتی تھی کہ دادی کے جواب پر ابا جان وجہ نہیں پوچھتے ،اور نہ ہی اپنی خواہش کے مطابق جواب کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتے ، بل کہ جواب سنتے اور اسی ہر عمل کرتے ۔
لمبے سفر کی آمد و رفت پر دادی جان کے دونوں قدموں کو بیٹھ کر اپنے لبوں سے چومتے ،اور دادی جان اپنے اکلوتے بیٹے کی بلائیں لیتی ،اور یہ کیوں نہ ہوتا جب کہ دادی جان کی کل کائنات ہی ابا جان تھے ،اور اباجان کی ،جان ،دادی جان میں بستی تھی ۔
میری پیاری دادی جان، جس کی آغوش میں ہم لوگوں نے ہوش سنبھالا ہے ،وہ مشفقہ ،بارعب ،باوقار ،عابدہ ،زاہدہ ،نظافت پسند، مصباح النساء (،بنت علامہ ولی الرحمن ابن سرکار عبد الرحمن محبی علیھما الرحمہ ،پوکھریروی ۔) ہیں، جو اپنے پوتوں اور پوتیوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں ۔
دادی جان کی مرضی کے بغیر ہمارے بچپنے میں باہر جانا،بڑا مسئلہ ہوتا تھا ،دادی کہتی مت جاؤ ! اگر گئے تو سمجھ جاؤ ! آنے دو میرے بیٹا کو ! تم کو گھر سے نکال باہر کردیگا میرا بیٹا !
پھر بھی اگر چلا جاتا تو دادی ڈھونڈو اکر ،گھر بلوا لیتی مگر اباجان کو نہیں بتاتی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے والد محترم بڑے نرم دل ،عفو در گزر والے ہیں ،اس ذرا سی بات پر زجر و توبیخ نہ کریں گے ،لیکن یہ سوچ کر دل دھل جاتا تھا کہ اگر دادی نے شکایت کی تو معاملہ الگ ہوگا ، وہی ہوگا جو دادی چاہے گی ۔ یہ ہے میرے والد محترم کا اپنی ماں کے ساتھ ادب و احترام اور ان کا خیال ،اور *وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ* " پر عمل ۔
میرے مولی بخش دے میرے والدین کریمین کو اور میرے دادا جان اور دادی جان کو اپنے فضل و کرم سے اور اس رحمت ،مغفرت اور نجات والے رمضان المبارک کے طفیل۔
*رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا*۔ آمین آمین
*11 رمضان المبارک 2009 ء کو اباجان کا وصال ہوا ، آپ حضرات دعا کریں کہ اللہ پاک میرے والدین کریمیں اوردادا دادی کی مغفرت فرمائے ،جنت الفردس میں اعلی مقام عطا فرمائے* ۔ آمین
*ابن ابرار العلماء*
*احمدرضا عشقی مصباحی*
*خطیب و امام مدینہ مسجد*
11 رمضان المبارک 1443 ھ
13 اپریل 2022 ء