News opinions articles poetry

News opinions articles poetry This page contains news, job oppurtunities including articles and educational awareness.this page wi

سری لنکا کے ناول نگار’ شیہان کروناتیلاکا‘ کو ان کے ناول’’The Seven Moons Of Maali Almeida‘‘پر بوکر انعام دیاگیا
18/10/2022

سری لنکا کے ناول نگار’ شیہان کروناتیلاکا‘ کو ان کے ناول’’The Seven Moons Of Maali Almeida‘‘پر بوکر انعام دیاگیا

08/10/2022

بہت مصروف رہنا بھی
خدا کی ایک نعمت ہے۔
ہجومِ دوستاں ہونا'
کسی سنگت کا مِل جانا'
کبھی محفل میں ہنس لینا'
کبھی خِلوت میں رو لینا'

کبھی تنہائی ملنے پر
خود اپنا جائزہ لینا'

کبھی دُکھتے کسی دل پر'
تشفّی کا مرہم رکھنا'

کسی آنسو کو چُن پانا'
کسی کا حال لے لینا'

کسی کا راز ملنے پر'
لبوں کو اپنے سِی لینا'

کسی بچے کو چھُو لینا'
کسی بُوڑھے کی سُن لینا'

کسی کے کام آ سکنا'
کسی کو بھی دُعا دینا'

کسی کو گھر بلا لینا'
کسی کے پاس خود جانا'

نگاہوں میں نمی آ نا'
بِلا کوشش ہنسی آ نا'

تلاوت کا مزہ آ نا'
کوئی آیت سمجھ پانا'

کبھی سجدے میں سو جانا'
کسی جنت میں کھو جانا'

خدا کی ایک نعمت ہے

۔۔۔۔اور۔۔۔۔

شکر واجب ھے

سامیہ عدنان

04/10/2022

ندگی کی راہوں میں
بارہا یہ دیکھا ہے
صرف سن نہیں رکھا
خود بھی آزمایا ہے
تجربوں سے ثابت ہے
جو بھی پڑھتے آئے ہیں
اس کو ٹھیک پایا ہے
اس طرح کی باتوں سے
منزلوں سے پہلے ہی
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
لوگ روٹھ جاتے ہیں
یہ تمہیں بتا دوں میں
چاہتوں کے رشتے میں
پھر گرہ نہیں لگتی
لگ بھی جائے تو اس میں
وہ کشش نہیں ہوتی
ایک پھیکا پھیکا سا
رابطہ تو ہوتا ہے
تازگی نہیں رہتی
روح کے تعلق میں
زندگی نہیں رہتی
بات وہ نہیں بنتی
دوستی نہیں رہتی
لاکھ بار مل کر بھی
دل کبھی نہیں ملتے
ذہن کے جھروکھوں میں
یاد کے دریچوں میں
تتلیوں کے رنگوں کے
پھول پھر نہیں کھلتے
اس لیے میں کہتا ہوں
اس طرح کی باتوں میں
احتیاط کرتے ہیں
اس طرح کی باتوں سے
اجتناب کرتے ہیں

معین نظامی

سویڈش نوبل پرائز اکیڈمی کے چھ عدد نوبل انعاماتکل 3 /اکتوبر پیر کو11:30 بجے دن پہلا انعام کا اعلانپہلا ایوارڈ(علم الحیات۔...
02/10/2022

سویڈش نوبل پرائز اکیڈمی کے چھ عدد نوبل انعامات
کل 3 /اکتوبر پیر کو11:30 بجے دن پہلا انعام کا اعلان
پہلا ایوارڈ(علم الحیات۔ Physiology) یا (Medicine۔علم طب)کے لئے مختص

زندگی کے مختلف شعبہ حیات میں نمایاں کارنامے انجام دینے والوں اور نوع انسانی کو فوائد پہونچانے کی کوشش کرنے والوں کے اعزاز میں ہر سال نوبل انعام کا اعلان کیاجاتا ہے اور زندگی کے مختلف شعبہ حیات میں نمایاں کارنامے انجام دینے والوں کو یہ انعامات عطاکئے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ الفریڈ نوبل نامی ایک سائنسداں نے اپنی وصیت میں اس خواہش کا اظہار کیا تھاکہ اس کی ترکہ میں موجودساری رقم کا استعمال ایسی شخصیتوں کو انعامات عطاکرنے کےلئے کیا جائے جنہوں نے اس دنیامیں امن و امان کو فروغ دینے کےلئے کام کیا ہے یاان کے کام سے انسانیت کو فائدہ پہونچا ہے ۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی بے جانہ ہوگا کہ اس سائنسداں نے دھماکو اشیا تیار کی تھی جسے ابتدا میں تو سرنگیں بنانے کے لئے استعمال کیا جاتاتھا لیکن بعد میں اسے جنگوں میں انسانی آبادی کونست و نابود کرنے کےلئے استعمال میں لایاگیا۔اس شئے کو بعد میں الفریڈ نے ڈائنامیٹ کا نام دیا۔الفریڈ نوبل کی پیدائش یوروپ کے ملک سویڈن میں سن 1833 میں ہوئی اور سن 1896 میں اٹلی میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ اپنی وصیت میں اس نے کہا کہ میری متروکہ دولت میں سے ایسے افراد کو انعامات دئے جائیں جنہوں نے Physicsیعنی طبیعات ’ Chemistryیعنی علم کیمیا’اسی طرح Physiology یعنی علم الحیات یا Medicine یعنی علم طب کے علاوہ Literature یعنی ادبیات اور Peaceیعنی امن نیز Economic Sciences یعنی علم الاقتصاد کے لئے کارہانے نمایاں انجام دئے ہوں ۔

ایسے انعامات دینے کےلئے سن 1900میں نوبل پرائز اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔جس کے بعد سے اس اکیڈمی نے سال 2021 تک 137 انعامات عطا کئے ۔ان انعامات کا ہر برس اکتوبر کے مہینہ میں اعلان کیا جاتا ہے ۔ اس اکیڈمی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق/3 اکتوبر کو صبح11: 30 بجے دن Physiology یعنی علم الحیات یا Medicine یعنی علم طب کے میدان میں کارنامہ انجام دینے والی شخصیت کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔اسی طرح /4اکتوبر کو صبح 11:45بجے دن Physicsیعنی طبیعات کے انعام کا اعلان ہوگا ۔علاوہ ازیں /5اکتوبرکو11:45بجےدن Chemistryیعنی علم کیمیاکے میدان میں کارنامہ انجام دینے والے کے نام کا انکشاف ہوگا ۔نیز/6 اکتوبر کو 1:00 بجے دن Literature یعنی ادبیات سے تعلق رکھنے والی شخصیت کے نام کا اعلان ہوگا۔اسی طرح/7 اکتوبر کو صبح ب11:00بجے دن Peaceیعنی امن کے نوبل انعام پانے والی شخصیت کا اعلان ہوگا اور سب سے آخر میں یعنی /10اکتوبر کو صبح 11:45بجے دنEconomic Sciencesیعنی علم الاقتصادکے لئے اس انعام کا اعلان ہوگا۔

نوٹ ۔ان انعامات کا اعلان کل یعنی /3 اکتوبر پیر سے شروع ہوگا اور پیر کوصبح11:30بجے دن اس سلسلہ کا پہلانوبل انعام physiology یعنی علم الحیات یا medicine یعنی علم طب کے میدان میں کارنامہ انجام دینے والی شخصیت کو دیا جائے گا۔

28/09/2022

جو بھی فیصلہ ہوبےخوف و خطر ہوکر لو، ذرا سا شک شبہ یا کمزور دکھنا طاقت کے حصول میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انسان بہادر اور فیصلہ کن لوگوں کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں، کمزور اور بزدلی ہمیں پرکشش نہیں لگتی۔ بہادری اور اعتماد میں طاقت ہے۔

19/09/2021

میں اس مہربان خدا کا ذکر نہیں کررہا ہوں بلکہ اس خدا کی بات کررہا ہوں جس سے پادری ہمیں اس طرح ڈراتے ہیں گویا وہ کوئی ڈنڈا ہو۔وہ خدا جس کے نام پر پادری اور مولوی ’تمام لوگوں کو چند افراد کی مجرمانہ خواہش کے سامنے سجدے کروانا چاہتے ہیں۔انہوں نے تو ہم پر اس جھوٹے خدا کو مسلط کردیا ہے! ہم سے ہر اس چیز کے ذریعہ سے لڑتے ہیں جو ان کے ہاتھ لگ جائے !ذرا ایک لمحے کے لئےسوچوں!خدا نے انسان کو اپنے ہی جیسا بنایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر انسان اس کی طرح ہے تو وہ انسان سے مشابہہ ہے ۔لیکن ہم دیوتائوں سے زیادہ وحشی درندوں سے مشابہ ہیں۔خانقاہ میں خانقاہ والوں نے ہمارے سامنے ایک ہوا کھڑا کردیا ہے ۔اپنا خدا تو ہمیں بدلنا ہی ہوگا۔اسے ذرا مانجھ کر صاف بھی کرنا ہوگا !ان لوگوں نے اسے جھوٹ اور بہتان میں ملبوس کردیا ہے ۔ہماری روحوں کوکچلنے کے لئے خدا کا چہرہ مسخ کردیا گیا ہے ۔(میکسم گورکی کے ناول ‘ماں ’سے اقتباس)
I did not speak about that good and gracious God in whom you believe, but about the God with whom the priests threaten us with a stick, about the God in whose name they want to force all of us to the evil will of the few. They have mutilated even our God for us. They have turned everything in their hands against us. God created man in his own image and after his own likeness. Therefore he is like man if man is like him. But we have become, not like God, but like wild beasts! In the churches they set up a scarecrow before us. We have got to change our God. We must cleanse him! They have dressed him up in falsehood and calumny; they have distorted his face in order to destroy our souls.
Excerpts taken from Maxim Gorky’s novel ‘The Mother’.

12/09/2021

سچ تک رسائی کے لئے ہمیں ہرشئے پر شک کرنا ہوگا۔اساتذہ سے حاصل کردہ باتیں‘مروجہ عقائد‘فہم عامہ کے تمام تصورات‘معروضی دنیا اور خود اپنے وجود پرشک کرنا چاہئے۔(فرانسسی فلسفی رینے ڈیکارٹ)

07/09/2021

جس حق سے کسی کی آزادی چھینی جاسکتی ہے اس حق کی بناء اگر وہ قوم اپنی آزادی واپس لے لے تو‘یا تو قوم اس کے واپس لینے میں حق بجانب ہے یا پھر اس کو آزادی سے محروم کرنا نا جائز تھا۔

05/09/2021

ابھی منتشر نہ ہو اجنبی’
نہ وصال رت کے کرم جتا

جو تری تلاش میں گم ہوئے
ذرا ان دنوں کا حساب کر

یہ ہجوم شہر ستم گراں’
نہ سنے گا تری صدا کبھی

میری حسرتوں کو سخن سنا’
مری خواہشوں سے خطاب کر

31/08/2021

‘‘Is filling our stomachs the only thing we want?’’ no! we must show those who sit on our necks, and cover up our eyes, that we see everything, that we are not foolish, we are not animals, and that we do not want merely to eat, but also to live like decent human beings. We must show our enemies that our life of servitude, of hard toil which they impose upon us , does not hinder us from measuring up to them in intellect, and as to the spirit, that we rise far above them!’’Excerpts taken from maxim gorki’s novel‘‘THE MOTHER’’)

‘‘کیا ہمیں صرف پیٹ بھر روٹی ہی چاہئے ؟ نہیں ’ایسا نہیں ہے !’’ ان لوگوں کو جو ہماری پیٹھ پر سورا ہیں اور جنہوں نے ہماری آنکھیں بندکر رکھی ہیں ’ہمیں یہ بتا دینا چاہئے کہ ہم سب کچھ دیکھ سکتے ہیں ۔نہ تو ہم بے وقوف ہیں اور نہ جانور کہ ہمیں اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کچھ چاہئے ہی نہیں ۔ہم ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو انسانوں کے شایان شان ہو ’ہمیں اپنے دشمنوں پر یہ ثابت کردینا چاہئے کہ غلامی کی زندگی جو انہوں نے ہم پر مسلط کر رکھی ہے’ ہمیں ذہنی اعتبار سے ان کے برابر ہی نہیں بلکہ ان سے ارفع و اعلی ہونے سے بھی نہیں روک سکتی۔( میکسم گورکی کے ناول ‘‘ماں ’’ سے اقتباس(

30/08/2021

Those who say we ought to know everything are right. We have to illumine ourselves with the light of reason, so that the people in the dark may see us; we ought to be able to answer every question honestly and truly. We must know all the truth, all the falsehood.(Excerpts taken from maxim gorki’s novel ‘’THE MOTHER’’).

یہ لوگ بالکل صحیح ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں ہرچیز کا علم ہونا چاہئے’ ہمیں اپنے ذہنوں کو ادراک اور عقل و دانش کی روشنی سے منور کرنا چاہئے اور ان لوگوں کو روشنی دکھانا چاہئے جن کے ذہنوں پر لا علمی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ہمارے پاس ہر چیز کا ایماندارانہ اور سچا جواب ہونا چاہئے ۔ہمیں مکمل صداقت اور مکمل جھوٹ کا علم ہونا چاہئے۔(میکسم گورکی کے ناول ‘‘ماں ’’ سے اقتباس)

27/08/2021

ایک بالکل عجیب اور حیرت انگیز تحریر جو جسم میں سنسنی پیدا کردے۔
‘‘میں نے اپنی زندگی میں ہر طرح کی خوشیاں حاصل کیں۔ میری پیدائش ایک دولت مند اور تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی اوربچپن میں اچھے تعلیمی ادارہ میں تعلیم پائی ۔جب جوان ہوا اور تعلیم مکمل کی تو ایک خوبصورت لڑکی سے میری شادی ہو گئی اورایک بہترین ملازمت مل گئی ۔ ملازمت میں آہستہ آہستہ مجھے ترقی ملی اورمیری دولت میں بھی اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ میں خوشحال افراد میں شمار کیا جانے لگا۔ مجھے اولاد جیسا سکھ بھی نصیب ہوا اور میں نے میر ی اولاد کو بھی اعلی تعلیم فراہم کی اور انہیں مختلف کاروبار سے جوڑ دیا ۔ میرے بیٹے آج کامیاب تاجرین میں شمار کئے جاتے ہیں اور بیٹیاں جن گھروں میں بیاہی گئیں ہیں وہاں پر وہ راج کررہی ہیں کیونکہ میں نے انہیں گرہستی کے تمام گنُ سکھائے جس کے باعث وہ اپنے شوہروں کی پیاری اور اپنے سسرال والوں کی آنکھ کا تارہ بن گئیں۔میَں عمر بھر کسی خطرناک بیماری میں مبتلابھی نہیں ہوااور اس وقت بھی میرے سر پر سارے بال موجود ہیں اور تمام دانت بھی سہی سالم ۔ میری بینائی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ لہذا میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میں نے ایک خوشحال اور پُر مسرت زندگی گزاری ہے۔ اور اب میَں چاہتا ہوں کہ اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوجاوں کیونکہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میَں کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائوں یا عمر کے اس حصہ میں پہونچ جائوں جہاں پر میَں دوسروں کا محتاج ہوجائوں یا پھر دوسروں کے سہارے مجھے زندگی گزارنی پڑے اور لوگ مجھے ایک کمزور ’ناتواں’لاغر اور بے بس کہیں۔ میَں اس حال میں خوش ہوں اور اِسی حالت میں موت کو گلے لگا رہا ہوں ۔ موت میرے لئے کوئی غم کی بات نہیں بلکہ میَں تو بہت خوش ہوں کہ میَں ایک اچھی اور صحت مند حالت میں اس دنیا سے جارہا ہوں اور جانے سے پہلے اپنے خیالات کو قلمبند کررہا ہوں۔اسی لئےمیری اِس موت کو خودکشی متصور نہ کیا جائے بلکہ اسے موت کی خوشی کہا جائے۔ کل صبح جب میری اولادکو میری نعش کے سرہانے یہ خط ملے تو اُنہیں حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی افسوس’غم اور اندوہ کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ افسوس اور غم کا تعلق نقصان سے ہوتا ہے اور موت میرے لئے نقصان نہیں بلکہ خوشی ہے ۔ میری نظر میں وہ تمام لوگ بے وقوف ہیں جو اپنی صحت مند زندگی کو گزارکرکمزوری ’بیماری اور لاچاری کی حالت میں موت کا انتظار کرتے ہوئے دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔میرا اُن تمام سے یہ سوال ہے کہ جب ہمارے ہاتھ میں زندگی اور موت دونوں چیزیں موجود ہیں تو ہم کیوں بے بسی اور ایک غمگین ’ درد ناک ’تکلیف دہ موت کا انتظار کریں ۔ کیوں نہ ہم اچھی حالت میں خوشی خوشی اس دنیا سے رُخصت ہوجائیں ۔موت کا درد سہنے کی بجائے کیوں نہ ہم موت کی خوشی سے بھی لطف اندوز ہوجائیں۔ تو آئیے موت کی خوشی کوخوشی خوشی اپنائیں ۔ اچھی اور خوشحالی میں موت کے سفر پر روانہ ہوجائیں’’۔
البرٹ کا میو کی کتاب ‘‘موت کی خوشی سے اقتباس’’

26/08/2021

exploitation of women by local party for its political gain.
The hyderabad based muslim-political party is forced to take help and support of women for its political survival as few months ago it has involved a lady as well as party worker to defame an member of its rival group and that woman had also played a role of ''dying '' by making drama of commiting su***de after purpotedly consuming so-called poison and she was shifted to a private hospital instead of admitting to govt hospital.Now she is fine and busy in her life. The police has also registered a case against that member under the charges of abbeting to su***de and sent the member behind bars but he has been released by the high court and he is also busy in his personal life. The drama has over. But now a days this political party has again taken help of a former martial arts expert woman for political campaign in karnataka municiple elections.

24/08/2021

قوانین فطرت اٹل ہیں اور یہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ جو صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ زمین پر موجود کسی ہستی کے جنبش انگل سے لاکھوں کلومیٹر دور موجود چاند دو ٹکڑے ہوسکتا ہے یا کسی عصا کی ضرب سے بحیرہ احمر دو لخت ہوسکتا ہے یا پھر انگلی کی پور سے پورے قبیلے کو دودھ پلایا جاسکتا ہے یا آگ ایک لحظے میں گل و گلزار بن سکتی ہے یا صلیب سے اتارا کوئی لاشہ دوبارہ زندہ ہوکر اٹھ سکتا ہے تو وہ چند لمحات کےلیے روایت پسندی اور عقیدت کے شکنجوں سے آزاد ہوجائیں اور پھر ان دعووں کو کائناتی اصولوں کی روشنی میں عقل کے ترازو میں اچھی طرح پرکھیں اور اگر ہوسکے تو ان روایات کے راویوں کا علمی محاسبہ کریں۔
ایسا تو نہیں کہ آپ ہزاروں سال پہلے کی سنی سنائی قصوں کو محض اس لیے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ آپ کے آباؤ اجداد صدیوں سے انہیں درست مانتے آرہے ہیں۔ دیکھ تو لیں کہ کہیں کوئی آپ کی عقیدت بھرے جذبات سے فائدہ اٹھا کر ہاتھ تو نہیں کر گیا! کوئی آپ کی سادگی سے کھیل تو نہیں رہا!
اس طرح کی دیومالائی کہانیاں تو ہر معاشرے نے اپنے حساب سے گھڑ رکھی ہیں۔ کرشنا نے پورا گووردھن پہاڑ ایک دفعہ سر پر اٹھا لیا تھا تاکہ اس کے نیچے چھپ کر انسان اور مویشی ایک غضب ناک طوفان سے بچ سکیں اور سنا ہے کہ کچھ ایسی ہی کسی اور کہانی میں ہنومان جی نے پورا لنکا ڈھا دیا تھا۔
ہر معاشرے کو بس اپنی ہی گھڑی ہوئی کہانیاں سچ اور بے عیب لگتی ہیں جب کہ دوسروں کی لغو اور مضحکہ خیز۔ سچ تو یہ ہے کہ کہانیاں تو بس کہانیاں ہی ہوتی ہیں۔ انہیں قدیم فکشن سمجھ کر انجوائے کریں۔ ان کہانیوں کو حقیقت سمجھنے والے یقینا اپنے عہد سے کہیں پیچھے کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔
فطرت ﮐﺎ ﺻﺎﻑ اور واضع ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ اس کے ﻃﮯ ﮐﺮﺩﮦ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﺳﮯ ﻣﺎﻭﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ۔ کوئی ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ فطرت کی ﻓﺼﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺍﮌ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻝ سکتی۔
فطرت ﺳﮯ ﻧﻤﭩﻨﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ اس کے ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻣﯿﮑﻨﺰﻡ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ اس کے ﺛﻤﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﯾﺎ اس کے ﻣﻀﻤﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺗﺮﺍﮐﯿﺐ ﻭﺿﻊ ﮐﺮﯾﮟ۔

20/01/2021

میرے لئے یہ بات بے حد کم اہمیت کی حامل ہے کہ کوئی چیز یوروپی پراڈکٹ ہے یا نہیں. اور یہ بھی میرے نزدیک ذرہ برابر بھی اہم نہیں کہ کوئی چیذ اصلی ہے یا نقلی. اگر آپ مجھ سے پوچھیں لوگوں کی نقلی اشیاء کی نا پسندیدگی کا حقیقی یا نقلی سے نہیں بلکہ اس خوف سے تعلق ہے کہ لوگ یہ نہ سونچیں کہ انہوں نے اس چیذ کو سستا خریدا ہے.
میرے نزدیک بدترین بات یہ ہے کہ لوگ برانڈ کا خیال کرتے ہیں اور خود چیز کا نہیں .آپ جانتے ہیں کس طرح کچھ لوگ اپنے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے اور صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ جانے کیا کہیں گے.
Excerpts taken from Egyptian Noble liteurate Orhan Pamuk 's novel " Museum of Innocence"

05/01/2021

شائد مجھے نکال کر پچھتارہے ہوں آپ۔ ۔ ۔ ۔
محفل میں اس خیال سے پھرآگیا ہوں میں۔ ۔ ۔

27/12/2020

trying to resume the previous and to overcome untold depression..

24/07/2020

روسی عوام نے ہمارے دل موہ لئے۔ہم ان کی معصومیت اور خلوص کے مداح ہوگئے۔ہم کمیونسٹ نظام کے تحت ان کی اجتماعی ترقی‘دوسری جنگ عظیم کی بربادیوں میں سے سرخرو ہوکر نکلنے اور تقریباًپورے روس کو دوبارہ تعمیر کرنے کے معجزے سے آگاہ ہوئے اور اقوام عالم میں وہ جو ایک عزت نفس اورفخر رکھتے تھے‘اس سے شناسا ہوئے۔دنیا بھر کے نوجوانوں کو ماسکو میں مدعو کرکے ان کی مدارات کرکے انہیں کمیونزم سے مرعوب کرنے کا منصوبہ روسی لیڈروں۔۔۔خروشچوف‘بلگانن اور مکویان۔۔۔ کا تو ہوسکتا ہے لیکن ایک عام روسی اس نوعیت کی سیاست سے بے خبر ہم پر صدق دل سے نچھاور تھا۔

Address

Falaknuma
Hyderabad

Telephone

+919392355946

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when News opinions articles poetry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category