20/01/2024
5)…سائلوں کو دینا۔ یاد رہے کہ صرف ا س سائل کو اپنا مال دے سکتے ہیں جسے سوال کرنا شرعی طور پر جائز ہو جیسے مسکین، جہاد اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول افراد وغیرہ، اور جسے سوال کرنا جائز نہیں اس کے سوال پر اسے دینا بھی ناجائز ہے اور دینے والا گناہگار ہو گا، البتہ بعض لوگوں کو سوال کرنا جائز نہیں ہوتا لیکن ضرورت مند ہوتے ہیں انہیں بغیر مانگے دینا جائز ہے جیسے فقیر۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں ، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے، بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایۂ عزت جانتے ہیں اور بہت ساروں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں ، سود کا لین دین کرتے، زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔(بہار شریعت، حصہ پنجم، سوال کسے حلال ہے اور کسے نہیں ، ۱ / ۹۴۰-۹۴۱)