Urze Pak ارض پاک

  • Home
  • Urze Pak ارض پاک

Urze Pak ارض پاک Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Urze Pak ارض پاک, Media/News Company, .
(1)

ارض پاک میں خوش آمدید! 🌐
یہاں آپ کو ملیں گی تازہ ترین اور مستند اردو خبریں، بصیرت افروز کالمز، اور قابل اعتماد معلومات۔ ہماری محنتی ٹیم یقینی بناتی ہے کہ آپ کو اہم واقعات کے بارے میں درست اور بروقت خبریں ملیں۔ ارض پاک کے ساتھ جڑے رہیں اور باخبر رہیں!

12/10/2024

علماء کے لیے دعوتِ فکر: امت کے اتحاد اور فرقہ واریت کا خاتمہ
تحریر: ابرار احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم علماء کرام اور اہل اسلام ! آج امت مسلمہ جس فتنے کا شکار ہے، وہ فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کا فتنہ ہے، جو نہ صرف امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک بغاوت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ فرقہ واریت ایک ایسی بیماری ہے جو امت کو کمزور کرتی ہے اور دین کے حقیقی مقصد سے ہمیں دور کر دیتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں، فرقہ واریت اسلام کے خلاف بغاوت اور دشمنی ہے، اور ہمیں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف الفاظ میں مسلمانوں کو اتحاد اور اخوت کی تلقین کی ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
(آل عمران: 103)
ترجمہ: "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ نہ بنو۔"
اس آیت کا پیغام انتہائی واضح ہے کہ امت کو ایک جماعت کی صورت میں رہنا چاہیے، اور تفرقہ بازی سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اختلافات سے بچیں اور دین کو تقسیم نہ کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا۔"
(ترمذی)
اس حدیث کو بعض لوگ غلط سمجھتے ہیں اور اس کو فرقہ بندی کا جواز بنا لیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث کسی بھی صورت میں فرقے بنانے کا جواز پیش نہیں کرتی۔ درحقیقت، نبی کریم ﷺ نے اس حدیث کے ذریعے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ فرقہ پرستی سے ہر حال میں بچا جائے، کیونکہ فرقہ پرستی امت کو تقسیم کرتی ہے اور اسے تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا مقصد ہمیں یہ دکھانا تھا کہ جو فرقے اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ جائیں گے، وہ تباہی کا شکار ہوں گے، جبکہ جو لوگ دین کی اصل تعلیمات پر قائم رہیں گے، وہ کامیاب ہوں گے۔
فرقہ واریت اور تفرقہ بازی اسلام کے اتحاد اور اخوت کے خلاف بغاوت ہے۔ اسلام ہمیں ایک امت بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے، اور فرقہ واریت اس بنیادی اصول کو توڑتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی بات کی اور امت کو تقسیم کرنے والے نظریات اور اعمال سے بچنے کی تاکید کی۔ فرقہ واریت کی وجہ سے امت مسلمہ آج کمزور ہو چکی ہے، اور اس کی قوت انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے"
(بخاری و مسلم)
فرقہ واریت اس اخوت اور یکجہتی کو توڑ دیتی ہے، اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ اسلام کے اصولِ محبت اور اخوت کے خلاف ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں بھی اختلافات پیدا ہوئے، مگر ان کو ہمیشہ حکمت، مشاورت اور اجتہاد کے ذریعے حل کیا گیا۔
غزوہ بدر کے بعد قیدیوں کے معاملے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا کہ انہیں فدیہ لے کر آزاد کیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فدیہ لینے کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل کی رائے دیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حکمت کے ساتھ دونوں آراء کو سنا اور فدیہ لینے کا فیصلہ کیا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے کہ اس صلح میں بظاہر مسلمانوں کی شرائط پوری نہیں ہوئیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے صبر اور حکمت سے ان اختلافات کو حل کیا اور بعد میں یہ صلح فتح مکہ کا سبب بنی
خلافت راشدہ کے دور میں بھی اختلافات پیدا ہوئے، مگر صحابہ کرام نے ہمیشہ اجتہاد، مشاورت اور صبر سے ان کو حل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت اختلاف پیدا ہوا، مگر صحابہ کرام نے مشاورت اور حکمت سے یہ معاملہ حل کیا اور امت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اجتہاد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف مسائل کا حل نکالا، جس سے امت کی وحدت اور استحکام برقرار رہا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ امت کے اتحاد کو مقدم رکھا اور صلح کی کوشش کی۔

آج کے دور میں علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو فرقہ واریت سے نکالیں اور انہیں دین کے اصل پیغام کی طرف واپس لائیں۔ ہمیں دین کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، رسالت اور آخرت پر اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں فرقہ پرستی کی زنجیروں سے باہر نکلنا ہوگا۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے فرقہ واریت کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا اور ہمیشہ اتحاد پر زور دیا۔
امام رومی رحمہ اللہ نے محبت اور اتحاد کی دعوت دی اور کہا کہ امت کے اختلافات کو حکمت اور محبت کے ذریعے حل کیا جائے۔
ابن العربی رحمہ اللہ نے اجتہاد کے ذریعے امت کے مسائل کو حل کرنے کی طرف بلایا۔
علماء کرام، امت مسلمہ آپ کی رہنمائی کی منتظر ہے۔ فرقہ واریت امت کو تباہ کر رہی ہے، اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ امت کو دوبارہ اتحاد کی طرف لائیں۔ ہمیں دین کے بنیادی اصولوں پر اکھٹا ہونا ہے اور اجتہاد کے ذریعے امت کے مسائل کا حل نکالنا ہے۔ ہمیں فرقہ واریت سے توبہ کرنی ہوگی اور امت کو ایک مضبوط اور متحد جماعت بنانا ہوگا۔
فرقہ واریت اسلام کے خلاف بغاوت ہے، اور اسلام ہمیں اتحاد اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اختلافات کو حل کرنا ہوگا اور امت کو ایک بار پھر سے اتحاد کی طرف لے جانا ہوگا۔ علماء کرام، آپ کی ذمہ داری ہے کہ امت کو فرقہ واریت سے بچائیں اور انہیں دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی طرف بلائیں۔
محترم علماء کرام اور امت مسلمہ، آج جس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ نہ صرف امت کا اتحاد ہے بلکہ ہمیں ہر میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ دینی اور دنیاوی علوم کو ساتھ لے کر چلنا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات میں دنیا کی اقوام کے ساتھ مسابقت کر سکیں۔ قرآن مجید نے ہمیں غور و فکر، تحقیق اور علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے:
"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"
(الزمر: 9)
ترجمہ: "کہو، کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟"
اسلام میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو بارہا بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔"
(ابن ماجہ)
آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بغیر ہم دنیا میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ امت مسلمہ کے افراد دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ہر شعبے میں آگے بڑھیں، خواہ وہ سائنس ہو، ٹیکنالوجی، طب، انجینئرنگ، یا معاشرتی اصلاحات۔
ہمارا اصل مقصد نہ صرف اپنی قوم اور امت کی فلاح ہونی چاہیے بلکہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى"
(المائدہ: 2)
ترجمہ: "نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے علم، صلاحیتوں اور وسائل کو انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ امت کو ہر میدان میں ترقی کرنے اور ایک مضبوط اور متحد قوت بننے کے لیے آگے آنا ہوگا۔
آج کے وقت میں امت مسلمہ کو دوبارہ اپنے اتحاد اور یکجہتی کی طرف پلٹنا ہوگا۔ فرقہ واریت اور تفرقے کو چھوڑ کر، ہمیں مل کر ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اگر ہم متحد ہو کر آگے بڑھیں تو دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ہمارے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گی۔ ہمیں اپنے وسائل، ذہنی و علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے تاکہ امت مسلمہ ہر شعبے میں اپنا لوہا منوائے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہمیں دنیا میں اپنی عظمت اور حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنا ہوگا، اور فلاح انسانیت ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
مصنف کا تعارف:
برار احمد ایک ممتاز پاکستانی مصنف، کالم نگار، افسانہ نویس، اور ناول نگار ہیں، جو سن 2000 سے فلاح انسانیت اور ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے اپنی تحریروں کے ذریعے بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی تحریریں گہرے تاریخی شعور، اخلاقی اقدار، اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ فکری و شعوری تربیت اور سماجی اتحاد و اتفاق کو اپنی تحریروں اور مکالموں میں مرکزیت دی ہے۔ ان کے کالمز، افسانے، اور ناولز میں انسانیت کی فلاح و بہبود، سماجی اصلاحات، اور امت مسلمہ کی یکجہتی کا پیغام واضح طور پر موجود ہوتا ہے۔
ابرار احمد اب تک سات کتب کے مصنف ہیں، اور ان کی ہر تحریر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف ادبی تفریح فراہم کرنا نہیں، بلکہ وہ معاشرتی ترقی، فکری بیداری، اور ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا ایک اور بڑا مقصد امت مسلمہ کو فرقہ واریت سے نکال کر اتحاد و اتفاق کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔
ابرار احمد تمام مکاتب فکر اور مسالک کے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے برے مقاصد کے لیے مسلمانوں کے داخلی اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر اتحاد پر کام کریں۔ ان کا ماننا ہے کہ جس قوم اور معاشرے میں نفرت، تعصب، اور انا و بغض پیدا ہو جاتا ہے، وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے۔
وہ اس بات کے قائل ہیں کہ مسلمانوں کو دین کے بنیادی عقائد، یعنی توحید اور رسالت، پر جمع ہونا چاہیے اور اجتہاد کے ذریعے امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانا چاہیے تاکہ اسلام کو فلاح انسانیت کا ذریعہ بنایا جا سکے۔ ان کی سوچ میں، ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر اتحاد کی راہ پر چلیں۔
اللہ ہمیں فرقہ واریت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایک متحد اور مضبوط امت بنائے۔ آمین۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست: ڈیجیٹل معیشت خطرے میںپاکستان میں حالیہ دنوں میں انٹرنیٹ کی رفتار میں غیر معمول...
17/08/2024

پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست: ڈیجیٹل معیشت خطرے میں

پاکستان میں حالیہ دنوں میں انٹرنیٹ کی رفتار میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی وجہ سے ڈیجیٹل معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس سے کئی سو ملین روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے متعلقہ اداروں کو دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس کی رفتار میں اس کمی کی ایک بڑی وجہ ملک میں فائر وال سسٹم کا نفاذ ہے، جس پر تقریباً 38 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس فائر وال کا مقصد سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنانا، غیر قانونی اور غیر اخلاقی مواد کو کنٹرول کرنا، اور سائبر جرائم سے نمٹنا ہے۔ فائر وال ایک سیکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک اور کمپیوٹر سسٹم کو غیر مجاز رسائی اور سائبر حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی ڈیجیٹل دیوار ہوتی ہے جو داخلی اور خارجی ڈیٹا کے بہاؤ کو کنٹرول کرتی ہے، اور مشکوک یا نقصان دہ مواد کو روکتی ہے۔

پاکستان میں فائر وال انسٹال کرنے کا بنیادی مقصد سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنانا اور انٹرنیٹ پر غیر قانونی مواد کو روکنا تھا۔ حکام کے مطابق، یہ اقدام دہشت گردی، مجرمانہ سرگرمیوں، اور غیر اخلاقی مواد کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
فائروال کی تنصیب کے بعد انٹرنیٹ کی رفتار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے کاروبار، آن لائن سروسز، اور عام صارفین متاثر ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست رفتار نے ای کامرس، فری لانسرز، اور آئی ٹی سیکٹر کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت پر برا اثر پڑا ہے۔
فائروال کے نفاذ سے کچھ لوگ آزادی اظہار پر پابندی محسوس کرتے ہیں، جس سے معاشرتی اور تخلیقی آزادی محدود ہو سکتی ہے۔
جہاں نقصانات ہیں وہاں کچھ فوائد بھی ہیں جیسے کہ فائروال سائبر حملوں اور غیر مجاز رسائی سے تحفظ فراہم کرتا ہے، جس سے ملکی ڈیجیٹل نظام محفوظ رہتا ہے فائروال کے ذریعے غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد کو روکنے میں مدد ملتی ہے، جس سے معاشرتی اخلاقیات کا تحفظ ہوتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں فائر وال سسٹمز کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ان کا نفاذ اور مقصد ہر ملک میں مختلف ہوتا ہے۔
چین میں "گریٹ فائر وال" کے نام سے معروف سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے، جو انٹرنیٹ پر سخت حکومتی کنٹرول فراہم کرتا ہے اور عالمی سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کو فلٹر کرتا ہے۔
روس نے بھی فائر وال سسٹم کے ذریعے انٹرنیٹ پر حکومتی کنٹرول کو مضبوط کیا ہے اور سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنایا ہے۔
ایران نے بھی فائر وال کے ذریعے انٹرنیٹ کی نگرانی اور کنٹرول کو مضبوط بنایا ہے، جہاں غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد کو روکنے کے لیے سخت پالیسیز نافذ کی گئی ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں عمومی طور پر سخت حکومتی فائر وال نہیں ہیں جیسے کہ چین، روس یا ایران میں ہیں۔ ان ممالک میں سائبر سیکیورٹی پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن انٹرنیٹ کنٹرول کا نظام اتنا سخت نہیں ہے۔ یہاں انفرادی ادارے اور کمپنیاں فائر وال کا استعمال اپنے نیٹ ورک کی سیکیورٹی کے لیے کرتی ہیں، مگر حکومتی سطح پر پورے ملک میں انٹرنیٹ پر پابندیاں عموماً نہیں لگائی جاتیں۔
پاکستان میں فائر وال کا نفاذ سیکیورٹی کے لیے ضروری تھا، مگر اس کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل جیسے انٹرنیٹ کی سست رفتار اور ڈیجیٹل معیشت پر منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے متوازن پالیسیز کی ضرورت ہے۔ فائر وال کا مقصد سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، لیکن اس کے نفاذ میں احتیاط اور عوام کی آزادی کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ پاکستان عالمی ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔ آج کے دور میں، ڈیجیٹل آزادی اور سیکیورٹی دونوں کو متوازن رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

03/08/2024

I gained 4,196 followers, created 19 posts and received 2,341 reactions in the past 90 days! Thank you all for your continued support. I could not have done it without you. 🙏🤗🎉

قسط2: پاکستان آرمی اور سیاست: ایک تفصیلی تجزیہ آرمی کو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آئین کے تحت آرمی کا کردار...
22/07/2024

قسط2: پاکستان آرمی اور سیاست: ایک تفصیلی تجزیہ
آرمی کو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آئین کے تحت آرمی کا کردار ملک کی سالمیت کی حفاظت اور خارجی خطرات سے نمٹنا ہے۔ آرمی کو سیاست سے دور رہ کر حکومت کا ذیلی ادارہ بن کر کام کرنا چاہیے۔ آرمی کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر توجہ دینی چاہیے اور سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں آرمی کی سیاست میں شمولیت کے نقصانات بھی سامنے آئے ہیں۔ مصر میں 2011 کی انقلاب کے بعد سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران پیدا ہوا، ترکی میں 1980 کی بغاوت کے بعد جمہوری ادارے کمزور ہو گئے، اور یونان میں 1967-1974 کی فوجی حکومت نے ملک کو اقتصادی اور سماجی بحران میں مبتلا کیا۔ یہ مثالیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ آرمی کی سیاسی مداخلت کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
مشہور فلسفی نیکولو میکیاویلی کے مطابق ایک ریاست کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے ایک مضبوط آرمی ضروری ہے، لیکن اس کا سیاست سے دور رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ ریاست کے عوامی اور جمہوری ادارے اپنی مکمل آزادی کے ساتھ کام کر سکیں۔ ایڈمنڈ برک کے مطابق آرمی کا سیاست میں دخل جمہوری اقدار کے لئے خطرہ ہے اور اس سے عوامی حقوق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے ۔
پاکستان آرمی کی پیشہ ورانہ تربیت اور حب الوطنی اس کی پہچان ہیں۔ آرمی کے سکل فل افراد ملکی ترقی کے مختلف منصوبوں میں معاونت فراہم کر سکتے ہیں، جیسے کہ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، قدرتی آفات میں امدادی کام، اور دیگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے۔ اگر آرمی سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلے اور ملک کی ترقی کے منصوبوں پر کام کرے، تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
پاکستان آرمی کو آئین کے دائرے میں رہ کر اور سیاست سے دور رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آرمی اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات اور باہمی اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ ملک میں استحکام رہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ جمہوری عمل کو مضبوط کریں اور بین الاقوامی معیار کے مطابق سول لیڈرشپ پیدا کریں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اداروں میں قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور سیاسی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ایسی قیادت پیدا ہو سکے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو۔
پاکستان کی آرمی کو سیاست سے دور رہنا چاہیے تاکہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ہوں اور عوامی اعتماد بحال ہو۔ آئین کے تحت آرمی کا کردار ملک کی سالمیت کی حفاظت ہے اور اس کردار میں رہتے ہوئے ہی وہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی تاریخ سے سیکھتے ہوئے آرمی کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے ۔

22/07/2024

پاکستان میں ہسپتالوں فقدان صحت اور ڈاکٹرز کی غفلت اور انسانی جانوں کا ضیائع
آج ہم جس مسئلے پر بات کر رہے ہیں وہ انتہائی اہم ہے اور اس کا تعلق انسانی زندگیوں سے ہے۔ انسانی جان کی قدر اور اہمیت ناقابلِ بیان ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ انسانی صحت کو بہتر کرنا اور انسانی جان کو بچانا ایک بنیادی اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان بشمول آزاد کشمیر میں صحت کی سہولیات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
مرحوم کی فیملی زرائع کے مطابق چمبر کالونی کے رہائشی حوالدار راجہ محمد ایوب کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں ڈی ایچ کیو کوٹلی منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے، ہسپتال میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی اور بیڈز کی کمی کے باعث، محمد ایوب کا علاج نہیں کیا جا سکا، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ ڈاکٹر کی صرف معذرت کے بعد، اہل خانہ کو اس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ صحت کے نظام کی بدانتظامی اور غفلت کا ایک واضح مظہر ہے۔
یہ واقعہ ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار اور ڈاکٹرز کی غفلت کی ایک تلخ مثال ہے۔ جب بنیادی طبی خدمات اور انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے موجود ادارے خود غیر ذمہ دار ہوں، تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ انسانی زندگی کی اہمیت ہر حال میں مقدم ہونی چاہیے اور صحت کے نظام میں سروسز کا معیار یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔
یورپ کی مثال: انسانی زندگی کی قدر
یورپ میں صحت کے نظام کی موثر نگرانی اور ڈاکٹرز کی ذمہ داری پر سخت قوانین ہیں۔ مثلاً، 2017 میں لندن کے "ساؤتھ ویسٹ لندن این ایچ ایس ٹرسٹ" کے ہسپتال میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ ایک مریضہ کی موت کی وجہ ڈاکٹر کی غفلت تھی، جس کے نتیجے میں ہسپتال کو تحقیقات کے بعد ساری ذمہ داری تسلیم کرنی پڑی۔ نتیجتاً، ہسپتال کا لائسنس معطل کر دیا گیا اور متعدد ڈاکٹرز کی ذمہ داریوں کو ختم کر دیا گیا۔ یورپ میں اس طرح کے اقدامات کی بدولت، ایسے واقعات کی روک تھام کی جاتی ہے اور انسانی زندگی کی قدر کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

پاکستان بشمول آزاد کشمیر میں صحت کی سہولیات کی حالت زار انتہائی خراب ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ وہاں مریضوں پر ظلم کیا جاتا ہے، انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے، اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کا لہجہ سخت اور غیر شائستہ ہوتا ہے، اور ایمرجینسی کی صورت میں بھی مریضوں پر توجہ دینے میں لاپرواہی برتی جاتی ہے۔ اس نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کو بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت کی سہولیات کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ یورپ میں، خاص طور پر برطانیہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کی قدر اور اہمیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، لندن کے ایک ہسپتال میں ایک ڈاکٹر کی غفلت کے باعث ایک مریض کی موت واقع ہوئی تھی، جس کے بعد اس ہسپتال اور عملے کے خلاف سخت کارروائی کی گئی اور کئی ڈاکٹرز کو لائسنسز سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یورپ میں انسانی جان کی قدر کی جاتی ہے اور صحت کے نظام میں شفافیت اور ذمہ داری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں صحت کے نظام کی اصلاح کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جہاں ہر مریض کو بہترین علاج فراہم کیا جائے اور انسانی جان کی قدر کی جائے۔ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تربیت کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو موثر طریقے سے ادا کر سکیں۔ عوام کو صحت کی سہولتوں اور اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ بہتر خدمات کے لیے آواز اٹھا سکیں۔
ابرار احمد ایک معتبر محقق، تاریخ دان، مصنف، اور کالمنسٹ ہیں، جن کی تحقیقاتی خدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی گئی ہیں۔ ان کی تحقیقاتی کتب میں "مسئلہ کشمیر کا حل: عالمی امن کا راستہ"، "پاکستان اور آزاد کشمیر کی تاریخ، نظام حکومت اور نئے نظام کی بازگشت"، اور "سید علی گیلانی: تحریک آزادی کشمیر کے عظیم سرخیل" شامل ہیں، جو عالمی امور پر ان کی وسیع تفہیم کا مظہر ہیں۔ ابرار احمد نے "کرپشن کے کیڑے"، "اسلامو فوبیا اور ففتھ جنریشن وار"، "کمیونٹی ڈویلپمنٹ"، اور "بیسک جرنلسٹ" جیسے اہم موضوعات پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کے ادارے، جیسے سیوہیومنٹی فاؤنڈیشن، اختلاف نیوز، ارض پاک، اور روزنامہ ستون، عالمی سطح پر انسانی حقوق، ترقی، اور انصاف کے قیام میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ابرار احمد کی تحقیقی خدمات، ہزاروں کالم، اور انٹرویوز نے عالمی سطح پر اہم مسائل پر شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔@

22/07/2024

دہشتگردی: ایک جامع تجزیہ
تحریر : ابرار احمد
دہشتگردی ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی فعل ہے جس میں تشدد یا دھمکی کا استعمال کر کے کسی فرد یا گروہ کو خوفزدہ کیا جاتا ہے تاکہ سیاسی، مذہبی، یا نظریاتی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ اس کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا اور حکومتوں یا دیگر اداروں پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔ دہشتگردی کی جڑیں تاریخ میں بہت پرانی ہیں۔ قدیم دور میں بھی ایسے گروہ موجود تھے جو اپنی نظریات کے فروغ کے لیے تشدد کا استعمال کرتے تھے۔ جدید دور میں، دہشتگردی کا تصور 19ویں صدی میں یورپ میں پیدا ہوا جب سیاسی انقلابیوں نے حکومتوں کو گرانے کے لیے تشدد کا استعمال شروع کیا۔

دہشتگردی کی جدید ابتدا کو عام طور پر 19ویں صدی کے روسی انقلاب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ نرودنایا وولیا (Narodnaya Volya) جیسی تنظیمیں حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد میں ملوث تھیں۔ 20ویں صدی میں، دہشتگردی کے مختلف رجحانات سامنے آئے جیسے کہ ائرلینڈ میں آئی آر اے (IRA)، فلسطین میں پی ایل او (PLO) اور بعد میں القاعدہ (Al-Qaeda) جیسی تنظیمیں۔ فلاسفروں نے دہشتگردی کو مختلف انداز میں دیکھا ہے۔ مائیکل والزر (Michael Walzer) کے مطابق، دہشتگردی "معصوم لوگوں کے خلاف منظم تشدد" ہے۔ نوآم چومسکی (Noam Chomsky) نے دہشتگردی کو "ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے ذریعے غیر قانونی تشدد" کے طور پر بیان کیا ہے۔ ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے دہشتگردی کو "تشدد کا منظم اور ادارہ جاتی استعمال" قرار دیا ہے۔

دہشتگردی کی طرف مائل ہونے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، اور سماجی ناانصافی افراد کو شدت پسند نظریات کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔ سیاسی نظام میں شرکت کے مواقع کی عدم موجودگی یا حکومتوں کی طرف سے مظالم بھی شدت پسند سوچ کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مذہبی یا سیاسی نظریات کا غلط استعمال اور پروپیگنڈا افراد کو دہشتگرد تنظیموں کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ ذاتی یا خاندانی مسائل، ناانصافی کے تجربات یا ذاتی مشکلات بھی دہشتگردی کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔

دہشتگرد تنظیمیں عموماً مخصوص نظریات پر مبنی ہوتی ہیں جن کا مقصد سیاسی، مذہبی، یا نظریاتی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ ان کے نظریات میں شدت پسندی، انقلابی تبدیلی، اور موجودہ نظام کی مخالفت شامل ہوتی ہے۔ یہ تنظیمیں اپنے اہداف کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال جائز قرار دیتی ہیں۔ دہشتگرد تنظیموں کو مختلف ذرائع سے حمایت ملتی ہے: غیر قانونی تجارت، اسمگلنگ، اور بعض اوقات ریاستی حمایت سے مالی وسائل حاصل کیے جاتے ہیں۔ بعض ممالک یا علاقائی گروہ اپنے مقاصد کے لیے دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔ بعض کمیونٹیز نظریاتی یا مذہبی ہم آہنگی کی بنا پر دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کرتی ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں، جن میں افغانستان، عراق، شام، پاکستان، بھارت، نائجیریا، امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور اسپین شامل ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (GTI) کے مطابق، صرف 2000 سے 2021 کے درمیان، دنیا بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں 200,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دہشتگردی کی طرف مائل ہونے والے افراد کی عمر عموماً 15 سے 35 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ نوجوان افراد عموماً جذباتی اور نظریاتی اثرات کے زیر اثر ہوتے ہیں اور زیادہ تر دہشتگرد تنظیموں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔

دہشتگردوں کی سوچ کو مثبت طور پر استعمال کرنے کے لیے معیاری تعلیم، روزگار اور معاشی مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ نفسیاتی مشاورت اور مدد فراہم کر کے ان کی منفی سوچ کو مثبت بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں سماجی دھارے میں شامل کر کے اور ان کی محرومیوں کو دور کر کے انہیں دہشتگردی سے روکا جا سکتا ہے۔ دنیا کے فلاسفروں نے دہشتگردی سے نکلنے کے لیے مختلف تجاویز دی ہیں، جیسے کہ جان رالز (John Rawls) نے انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے پر زور دیا ہے، امن کی تعلیم کو فروغ دینے کی تجویز دی گئی ہے، اور مذاکرات اور مکالمہ کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

پاکستان میں دہشتگردی کی ابتدا 1980 کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران ہوئی جب مختلف گروہوں کو مسلح کیا گیا اور تربیت دی گئی۔ اس وقت کے بعد سے مختلف شدت پسند گروہوں نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیاں کیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کو بعض اندرونی اور بیرونی عناصر کی حمایت حاصل رہی ہے، جن میں بعض ممالک اور خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستانی عوام کے ذہنوں سے شدت پسندی اور دہشتگردی کی سوچ کو ختم کرنے کے لیے تعلیم اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی کے خلاف نصاب شامل کرنا چاہیے اور عوامی سطح پر آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ مذہبی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ وہ عوام کو امن، برداشت، اور بھائی چارے کا پیغام دے سکیں۔

مجموعی طور پر، دہشتگردی ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے جامع اور متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی، معاشی، سماجی، اور نفسیاتی سطح پر مثبت اقدامات کر کے ہی ہم دہشتگردی کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔

بنوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور ان کے مضمراتازقلم : ابرار احمد پاکستان کے خیبرپختونخوا (KPK) کے علاقے بنوں میں حا...
22/07/2024

بنوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور ان کے مضمرات
ازقلم : ابرار احمد
پاکستان کے خیبرپختونخوا (KPK) کے علاقے بنوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر اس خطے کی سلامتی اور استحکام کے مسئلے کو نمایاں کر دیا ہے۔ بنوں کینٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملوں نے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کیا بلکہ عوامی تحفظ اور اعتماد کو بھی مجروح کیا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس سلسلے میں طالبان حکومت کے نائب ناظم الامور کو احتجاجی مراسلہ بھیجا ہے، جس میں حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بنوں اور دیگر ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی بنیادی وجہ کثیرالجہتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی قربت اور اس کے نتیجے میں طالبان کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی اور عسکری خلاء نے شدت پسند گروہوں کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے۔ یہ گروہ نہ صرف سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ مقامی طور پر بھی بھرتی اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان گروہوں کی فعالیت میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے دعوے مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔

پاکستان کو اس مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، داخلی سطح پر سیاسی استحکام اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عوام کی مشکلات اور مسائل کو دور کرنے کے لیے مقامی حکومتوں اور انتظامیہ کو فعال اور مؤثر بنانا ہوگا۔ انصاف کی فراہمی اور میرٹ پر فیصلے کرنا انتہائی اہم ہیں تاکہ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو۔

دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی نگرانی اور سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔ سرحدی علاقوں میں جدید ٹیکنالوجی اور انسانی انٹیلی جنس کے ذریعے نگرانی کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر قابو پایا جا سکے۔ مزید برآں، بین الاقوامی سطح پر افغانستان کی حکومت سے مضبوط سفارتی تعلقات اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ختم کیا جا سکے۔

عوام کو دہشت گردی سے نکال کر معاشرتی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تعلیم اور معاشی مواقع کی فراہمی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب ہونے سے روکنے کے لیے انہیں بہتر تعلیم، روزگار اور تربیت کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو متوازن اور مثبت زندگی گزارنے کی تربیت مل سکے۔

دہشت گردی اور کشیدہ حالات کے پیش نظر عوام کی ترقی اور خوشحالی متاثر ہوتی ہے۔ جب عوام خوف و ہراس کی فضا میں جی رہے ہوں تو ان کی معاشی اور سماجی سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں علاقائی ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔ عوام کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت معاشرتی انصاف اور برابری کو یقینی بنائے، اور عوام کو تحفظ فراہم کرے۔

پاکستان کو داخلی سیاست اور انتظامی امور میں انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ حکومتی اداروں کو مضبوط اور شفاف بنانا ہوگا تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بحال ہو۔ جب عوام کو یقین ہو کہ ان کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے تو وہ خود بھی امن اور ترقی کے عمل میں شریک ہو جاتے ہیں۔

دہشت گردی کے خاتمے کا فلسفہ تاریخی اور فلسفیانہ اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ تاریخ میں کئی ممالک نے مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔ ان میں عسکری کارروائیاں، مذاکرات، معاشرتی اصلاحات، اور تعلیم کی فروغ شامل ہیں۔

فلسفیوں نے بھی اس مسئلے پر غور کیا ہے۔ جرمن فلسفی، ایمانوئل کانٹ، کا کہنا تھا کہ پائیدار امن کے لیے عالمی قوانین اور بین الاقوامی تعاون ضروری ہیں۔ ان کے مطابق، انصاف اور انسانی حقوق کی فراہمی کے بغیر امن ممکن نہیں۔ اسی طرح، جان لاک نے بھی اس بات پر زور دیا کہ حکومتی ادارے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں۔

عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جن میں اقوام متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور دہشت گردوں کے مالیاتی نیٹ ورک کو ختم کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔

تاریخی طور پر، سماجی اور معاشرتی سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اقدامات میں تعلیم، سماجی ترقی، اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کو ترجیح دی گئی ہے۔

تعلیم ایک مؤثر ذریعہ ہے جو لوگوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف شعور دینے میں مدد دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، 2011 میں ناروے میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد، حکومت نے تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں اور طلباء کو انسانی حقوق، رواداری، اور جمہوریت کے بارے میں تعلیم دینا شروع کیا۔

سماجی ترقی کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں کو کم کیا جا سکتا ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بنیاد بنتی ہیں۔ سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک نے سماجی بہبود کے پروگرامز متعارف کروا کر نوجوانوں کو معاشرتی اور اقتصادی مواقع فراہم کیے ہیں۔

مقامی کمیونٹیز کی شمولیت اور انہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مؤثر کردار ادا کرنے کی تربیت دینا بھی ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ برطانیہ میں 'چینل پروگرام' کے تحت مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کیا گیا تاکہ نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکے۔

مجموعی طور پر، پاکستان کو دہشت گردی اور کشیدہ حالات کے مسئلے کے حل کے لیے جامع اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس میں داخلی سطح پر سیاسی استحکام، سرحدی نگرانی، بین الاقوامی تعاون، تعلیم اور معاشی مواقع کی فراہمی شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے ہی پاکستان ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال معاشرہ قائم کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جاری احتجاج: انسانی حقوق کی پامالی اور عوامی جدوجہد پر تجزیہڈھاکہ- بنگلہ دیش میں طلباء کی جانب سے جاری احت...
21/07/2024

بنگلہ دیش میں جاری احتجاج: انسانی حقوق کی پامالی اور عوامی جدوجہد پر تجزیہ

ڈھاکہ- بنگلہ دیش میں طلباء کی جانب سے جاری احتجاج نے ملک بھر میں ایک سنگین انسانی حقوق کے بحران کو جنم دیا ہے۔ حالیہ مظاہروں میں تقریباً 150 طلباء اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جس نے حکومت اور معاشرتی اداروں کے خلاف شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت طلباء کے اس احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

بنگلہ دیش میں طلباء کا احتجاج اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف طلباء کی شکایات کو نظر انداز کیا۔ طلباء کا مطالبہ ہے کہ ملازمتوں میں مساوی حقوق دیے جائیں اور موجودہ کوٹہ سسٹم کو ختم کیا جائے جو کہ ان کے مطابق غیر منصفانہ ہے۔ موجودہ نظام میں مجیب الرحمن کی حکومت کے حامیوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، جس سے دیگر اہل افراد کو مواقع سے محروم کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت نے احتجاج کو کچلنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ حکومت نے طلباء کو غدار اور ملک دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائیاں کی ہیں۔ اس صورتحال میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، اور بنگلہ دیش کی حکومت عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

ڈھاکہ کی سڑکیں دن کے آغاز پر تقریباً خالی تھیں، جب کہ فوجی دستے پیادہ اور بکتر بند گاڑیوں میں گشت کر رہے تھے۔ بعد میں دن کے دوران، ہزاروں افراد رامپورہ کے رہائشی علاقے میں سڑکوں پر نکل آئے، جہاں پولیس نے ہجوم پر براہ راست فائرنگ کی اور کم از کم ایک شخص کو زخمی کر دیا۔ اسپتالوں نے جمعرات سے گولیوں سے ہونے والی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اطلاع دی ہے۔

حکومت نے پورے ملک میں انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے اندر اور باہر رابطے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ حکومتی ویب سائٹس اور بڑے اخبارات کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپ ڈیٹ نہیں کیا جا سکا ہے۔

بنگلہ دیش کی حکومت کا اپنے عوام کے ساتھ ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے ہی حکومت مختلف مواقع پر اپنے شہریوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کرتی رہی ہے۔

1. 1971 کی جنگ اور اس کے بعد: بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد، شیخ مجیب الرحمن کی حکومت نے پاکستان کے حامی افراد کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے۔ بہت سے لوگوں کو غدار قرار دے کر سزائیں دی گئیں۔

2. 1975 کا فوجی انقلاب:مجیب الرحمن کے قتل کے بعد، بنگلہ دیش میں مختلف فوجی حکومتیں آئیں جو کہ عوامی آزادیوں کو محدود کرتی رہیں۔

3. 1990 کی دہائی: جمہوریت کی بحالی کے باوجود، حکومت کی جانب سے مخالفین کو کچلنے کی پالیسی جاری رہی۔

4. حالیہ دور: وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت نے 2009 سے جاری اپنے دور میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ طلباء کا حالیہ احتجاج اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے۔

انسانی حقوق اور انصاف کے فلسفے کے مطابق، کسی بھی حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ جان لاک، جین جیک روسو، اور جان اسٹورٹ مل جیسے فلسفیوں نے ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدے کے نظریے کو بیان کیا ہے، جس کے مطابق حکومت کو اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔

جان لاک نے اپنی کتاب "دوسرا مقالہ حکومت پر" (Second Treatise of Government) میں لکھا:
"ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔"
یہ اصول بنگلہ دیش کی حکومت کے حالیہ اقدامات کے خلاف ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔

جین جیک روسو نے اپنے مشہور معاہدۂ عمرانی (The Social Contract) میں کہا:
"حکومت کی مشروعیت صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب وہ عوام کی مرضی اور حقوق کا احترام کرے۔"
بنگلہ دیش کی حکومت کے حالیہ اقدامات اس اصول کے خلاف جاتے ہیں۔

جان اسٹورٹ مل نے اپنی کتاب "آزادی" (On Liberty) میں فرد کی آزادی اور حقوق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
"کسی بھی فرد کی آزادی کو صرف اسی صورت میں محدود کیا جا سکتا ہے جب اس سے دوسرے کی آزادی متاثر ہو۔"
طلباء کے احتجاج کو کچلنے کا عمل اس نظریے کے بالکل برعکس ہے۔

پاکستان کی قیادت اور عوام کے لیے پیغام
پاکستان کی قیادت اور عوام کو اس موقع پر بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے حالیہ اقدامات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کی پامالی جاری ہے۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کے عوام کی حمایت کرنی چاہیے اور بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے پر توجہ دلانی چاہیے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کا طلباء کے احتجاج کو کچلنے کا عمل انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ تاریخی طور پر، بنگلہ دیش کی حکومت نے مختلف مواقع پر اپنے شہریوں کے ساتھ ظلم و ستم کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں، ضروری ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر توجہ دے اور بنگلہ دیش کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کی قیادت اور عوام کو اس موقع پر بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urze Pak ارض پاک posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share