12/10/2024
علماء کے لیے دعوتِ فکر: امت کے اتحاد اور فرقہ واریت کا خاتمہ
تحریر: ابرار احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم علماء کرام اور اہل اسلام ! آج امت مسلمہ جس فتنے کا شکار ہے، وہ فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کا فتنہ ہے، جو نہ صرف امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک بغاوت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ فرقہ واریت ایک ایسی بیماری ہے جو امت کو کمزور کرتی ہے اور دین کے حقیقی مقصد سے ہمیں دور کر دیتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں، فرقہ واریت اسلام کے خلاف بغاوت اور دشمنی ہے، اور ہمیں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف الفاظ میں مسلمانوں کو اتحاد اور اخوت کی تلقین کی ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
(آل عمران: 103)
ترجمہ: "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ نہ بنو۔"
اس آیت کا پیغام انتہائی واضح ہے کہ امت کو ایک جماعت کی صورت میں رہنا چاہیے، اور تفرقہ بازی سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اختلافات سے بچیں اور دین کو تقسیم نہ کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا۔"
(ترمذی)
اس حدیث کو بعض لوگ غلط سمجھتے ہیں اور اس کو فرقہ بندی کا جواز بنا لیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث کسی بھی صورت میں فرقے بنانے کا جواز پیش نہیں کرتی۔ درحقیقت، نبی کریم ﷺ نے اس حدیث کے ذریعے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ فرقہ پرستی سے ہر حال میں بچا جائے، کیونکہ فرقہ پرستی امت کو تقسیم کرتی ہے اور اسے تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا مقصد ہمیں یہ دکھانا تھا کہ جو فرقے اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ جائیں گے، وہ تباہی کا شکار ہوں گے، جبکہ جو لوگ دین کی اصل تعلیمات پر قائم رہیں گے، وہ کامیاب ہوں گے۔
فرقہ واریت اور تفرقہ بازی اسلام کے اتحاد اور اخوت کے خلاف بغاوت ہے۔ اسلام ہمیں ایک امت بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے، اور فرقہ واریت اس بنیادی اصول کو توڑتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی بات کی اور امت کو تقسیم کرنے والے نظریات اور اعمال سے بچنے کی تاکید کی۔ فرقہ واریت کی وجہ سے امت مسلمہ آج کمزور ہو چکی ہے، اور اس کی قوت انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے"
(بخاری و مسلم)
فرقہ واریت اس اخوت اور یکجہتی کو توڑ دیتی ہے، اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ اسلام کے اصولِ محبت اور اخوت کے خلاف ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں بھی اختلافات پیدا ہوئے، مگر ان کو ہمیشہ حکمت، مشاورت اور اجتہاد کے ذریعے حل کیا گیا۔
غزوہ بدر کے بعد قیدیوں کے معاملے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا کہ انہیں فدیہ لے کر آزاد کیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فدیہ لینے کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل کی رائے دیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حکمت کے ساتھ دونوں آراء کو سنا اور فدیہ لینے کا فیصلہ کیا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے کہ اس صلح میں بظاہر مسلمانوں کی شرائط پوری نہیں ہوئیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے صبر اور حکمت سے ان اختلافات کو حل کیا اور بعد میں یہ صلح فتح مکہ کا سبب بنی
خلافت راشدہ کے دور میں بھی اختلافات پیدا ہوئے، مگر صحابہ کرام نے ہمیشہ اجتہاد، مشاورت اور صبر سے ان کو حل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت اختلاف پیدا ہوا، مگر صحابہ کرام نے مشاورت اور حکمت سے یہ معاملہ حل کیا اور امت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اجتہاد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف مسائل کا حل نکالا، جس سے امت کی وحدت اور استحکام برقرار رہا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ امت کے اتحاد کو مقدم رکھا اور صلح کی کوشش کی۔
آج کے دور میں علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو فرقہ واریت سے نکالیں اور انہیں دین کے اصل پیغام کی طرف واپس لائیں۔ ہمیں دین کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، رسالت اور آخرت پر اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں فرقہ پرستی کی زنجیروں سے باہر نکلنا ہوگا۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے فرقہ واریت کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا اور ہمیشہ اتحاد پر زور دیا۔
امام رومی رحمہ اللہ نے محبت اور اتحاد کی دعوت دی اور کہا کہ امت کے اختلافات کو حکمت اور محبت کے ذریعے حل کیا جائے۔
ابن العربی رحمہ اللہ نے اجتہاد کے ذریعے امت کے مسائل کو حل کرنے کی طرف بلایا۔
علماء کرام، امت مسلمہ آپ کی رہنمائی کی منتظر ہے۔ فرقہ واریت امت کو تباہ کر رہی ہے، اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ امت کو دوبارہ اتحاد کی طرف لائیں۔ ہمیں دین کے بنیادی اصولوں پر اکھٹا ہونا ہے اور اجتہاد کے ذریعے امت کے مسائل کا حل نکالنا ہے۔ ہمیں فرقہ واریت سے توبہ کرنی ہوگی اور امت کو ایک مضبوط اور متحد جماعت بنانا ہوگا۔
فرقہ واریت اسلام کے خلاف بغاوت ہے، اور اسلام ہمیں اتحاد اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اختلافات کو حل کرنا ہوگا اور امت کو ایک بار پھر سے اتحاد کی طرف لے جانا ہوگا۔ علماء کرام، آپ کی ذمہ داری ہے کہ امت کو فرقہ واریت سے بچائیں اور انہیں دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی طرف بلائیں۔
محترم علماء کرام اور امت مسلمہ، آج جس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ نہ صرف امت کا اتحاد ہے بلکہ ہمیں ہر میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ دینی اور دنیاوی علوم کو ساتھ لے کر چلنا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات میں دنیا کی اقوام کے ساتھ مسابقت کر سکیں۔ قرآن مجید نے ہمیں غور و فکر، تحقیق اور علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے:
"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"
(الزمر: 9)
ترجمہ: "کہو، کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟"
اسلام میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو بارہا بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔"
(ابن ماجہ)
آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بغیر ہم دنیا میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ امت مسلمہ کے افراد دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ہر شعبے میں آگے بڑھیں، خواہ وہ سائنس ہو، ٹیکنالوجی، طب، انجینئرنگ، یا معاشرتی اصلاحات۔
ہمارا اصل مقصد نہ صرف اپنی قوم اور امت کی فلاح ہونی چاہیے بلکہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى"
(المائدہ: 2)
ترجمہ: "نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے علم، صلاحیتوں اور وسائل کو انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ امت کو ہر میدان میں ترقی کرنے اور ایک مضبوط اور متحد قوت بننے کے لیے آگے آنا ہوگا۔
آج کے وقت میں امت مسلمہ کو دوبارہ اپنے اتحاد اور یکجہتی کی طرف پلٹنا ہوگا۔ فرقہ واریت اور تفرقے کو چھوڑ کر، ہمیں مل کر ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اگر ہم متحد ہو کر آگے بڑھیں تو دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ہمارے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گی۔ ہمیں اپنے وسائل، ذہنی و علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے تاکہ امت مسلمہ ہر شعبے میں اپنا لوہا منوائے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہمیں دنیا میں اپنی عظمت اور حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنا ہوگا، اور فلاح انسانیت ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
مصنف کا تعارف:
برار احمد ایک ممتاز پاکستانی مصنف، کالم نگار، افسانہ نویس، اور ناول نگار ہیں، جو سن 2000 سے فلاح انسانیت اور ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے اپنی تحریروں کے ذریعے بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی تحریریں گہرے تاریخی شعور، اخلاقی اقدار، اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ فکری و شعوری تربیت اور سماجی اتحاد و اتفاق کو اپنی تحریروں اور مکالموں میں مرکزیت دی ہے۔ ان کے کالمز، افسانے، اور ناولز میں انسانیت کی فلاح و بہبود، سماجی اصلاحات، اور امت مسلمہ کی یکجہتی کا پیغام واضح طور پر موجود ہوتا ہے۔
ابرار احمد اب تک سات کتب کے مصنف ہیں، اور ان کی ہر تحریر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف ادبی تفریح فراہم کرنا نہیں، بلکہ وہ معاشرتی ترقی، فکری بیداری، اور ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا ایک اور بڑا مقصد امت مسلمہ کو فرقہ واریت سے نکال کر اتحاد و اتفاق کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔
ابرار احمد تمام مکاتب فکر اور مسالک کے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے برے مقاصد کے لیے مسلمانوں کے داخلی اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر اتحاد پر کام کریں۔ ان کا ماننا ہے کہ جس قوم اور معاشرے میں نفرت، تعصب، اور انا و بغض پیدا ہو جاتا ہے، وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے۔
وہ اس بات کے قائل ہیں کہ مسلمانوں کو دین کے بنیادی عقائد، یعنی توحید اور رسالت، پر جمع ہونا چاہیے اور اجتہاد کے ذریعے امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانا چاہیے تاکہ اسلام کو فلاح انسانیت کا ذریعہ بنایا جا سکے۔ ان کی سوچ میں، ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر اتحاد کی راہ پر چلیں۔
اللہ ہمیں فرقہ واریت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایک متحد اور مضبوط امت بنائے۔ آمین۔