
14/07/2024
نیطشے اپنی کتاب "انسان، انتہائی انسان" میں کہتے ہیں:
"لوگ فحش خیالات سے خود شرمندہ نہیں ہوتے... لیکن انہیں اس بات پر شرمندگی ہوتی ہے کہ دوسرے انہیں ان خیالات سے منسوب کریں!!"
یہ عبارت انسانی سلوک کے ایک اہم نفسیاتی پہلو کو چھوتی ہے، یعنی خود آگاہی اور سماجی آگاہی کے درمیان فرق۔
افراد اس بات سے واقف ہو سکتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ خیالات یا خواہشات ہیں جو معاشرے کی نظر میں فحش یا غیر مقبول ہو سکتی ہیں۔ ذاتی سطح پر، وہ ان خیالات کے بارے میں شرمندگی یا گناہ کا احساس نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
شرمندگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب افراد تصور کرتے ہیں کہ دوسرے ان کے فحش خیالات کو جان لیں گے اور انہیں ان خیالات سے منسوب کریں گے۔ یہ احساس سماجی فیصلے، سزا یا سماجی گروپ سے اخراج کے خوف سے وابستہ ہے۔
سماجی نفاق:
یہ صورتحال ایک قسم کے نفاق کی عکاسی کرتی ہے جہاں افراد اپنی حقیقی خیالات کو چھپاتے ہیں تاکہ ایک مخصوص سماجی تصویر کو برقرار رکھ سکیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماجی اقدار اور اصول اکثر ظاہری مظاہر اور سماجی نمائش پر مبنی ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ اندرونی حقیقی اعتقادات پر۔
قبولیت کی خواہش:
انسان ایک سماجی مخلوق ہے جو قبولیت اور تعلق کی تلاش میں رہتی ہے، اور اسی لیے وہ ایسے خیالات کو ظاہر کرنے سے ڈرتا ہے جو اسے رد یا تنقید کا شکار بنا سکتے ہیں۔
سماجی دباؤ:
معاشرے رویوں اور اخلاقیات کے لئے مخصوص معیارات قائم کرتے ہیں، جو افراد کو اپنے بیرونی رویے کو ان معیارات کے مطابق ڈھالنے پر مجبور کرتے ہیں، چاہے ان کے اندرونی خیالات اس سے متصادم ہوں۔
مجموعی طور پر، یہ سب اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ انفرادی شناخت اور سماجی دباؤ کے درمیان تناؤ موجود ہے، اور یہ اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ افراد اپنی حقیقی خودی اور سماجی مطالبات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں کن پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہیں۔