Daily jamhoryat paris

  • Home
  • Daily jamhoryat paris

Daily jamhoryat paris زرد صحٓفت کے خلاف اعلان جنگ
آزادی صحافت کا علمبردار

29/09/2023
22/07/2023

ایک اہل تشیع اپنے مسلک کے اعتبار سے بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے پاس کافی معلومات بھی تھیں۔ اس کے بقول میرے ان سوالات کا جواب کسی مولوی کے پاس نہیں ہے۔

میں نے اس سے جب ملاقات کی تو اس کی ہر ہر ادا سے گویا علماء سے حتیٰ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی نفرت و حقارت کی جھلک واضح تھی۔

میں نے میزبان ہونے کی حیثیت سے بڑے اخلاق سے بٹھایا۔تھوڑی دیر حال احوال دریافت کرنے کے بعد گفتگو شروع ہو گئی۔

اس کا پہلا سوال ہی بزعم خود بڑا جاندار تھا اور وہ یہ کہ تم ابوبکر کو نبی کا خلیفہ کیوں مانتے ہو؟۔ ہم تو ابوبکر کو خلیفہ رسول اسلیئے نہیں مانتے کہ انہوں نے سیَّدہ کائنات، خاتون جنت کو ان کاحق نہیں دیا تھا۔بلکہ ان کا حق غصب کر لیا تھا۔

میں نے کہا ذرا کھل کر بولیں جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں۔ اور اس حق کی وضاحت کر دیں کہ وہ حق کیا تھا؟۔

کہنے لگا وہ، باغ فدک؛ جو حضور ﷺ نے وراثت میں چھوڑا تھا۔ وہ حضور ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ کو ملنا تھا۔لیکن وہ باغ انہیں ابوبکر نے نہیں دیا تھا۔
یہ صرف میرا دعویٰ ہی نہیں بلکہ میرے پاس اس دعوے ہر مسلک کی کتابوں سے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں جنہیں آپ کا کوئی عالم جھٹلا نہیں سکتا۔
یہ بات اس نے بڑے پر اعتماد اور مضبوط انداز میں کہی۔

مزید اس نے کہا کہ میری بات کے ثبوت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ باغ فدک؛ آج بھی سعودی حکومت کے زیر تصرف ہے۔ اور وہ حکومتی مصارف کیلئے وقف ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج تک آل رسول کو ان کا حق نہیں ملا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں جنہوں نے آل رسول کے ساتھ یہ کیا ہو ہم انہیں کیسےخلیفہ رسول تسلیم کر لیں؟

میں نے اس کی گفتگو بڑے تحمل سے سنی۔ اور اس کا اعتراض سن کر میں نے پوچھا کہ آپ کا سوال مکمل ہو گیا یا کچھ باقی ہے؟
وہ کہنے لگا میرا سوال مکمل ہو گیا ہے اب آپ جواب دیں۔

میں نے عرض کیا کہ آپ نبی کریم ﷺ کے بعد پہلا خلیفہ کن کو مانتے ہو؟

وہ کہنے لگا ہم مولیٰ علی کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔

میں نے کہا کہ عوام و خواص کے جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ خلیفة المسلمین کی ذمہ داری ہوتی ہے کسی اور کی نہیں۔مجھے آپ پر تعجب ہو رہا ہے کہ آپ خلیفہ بلا فصل تو سیَّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مان رہے ہیں اور اعتراض سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کر رہے ہیں۔ یا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ مانو پھر آپ کا ان پر اعتراض کرنے کا کسی حد تک جواز بھی بنتا ہے ورنہ جن کو آپ پہلا خلیفہ مانتے ہو یہ اعتراض بھی انہی پر کر سکتے ہو کہ آپ کی خلافت کے زمانے میں خاتون جنت رضی اللہ عنہا کا حق کیوں مارا گیا؟

میری بات سن کر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا مگر ساتھ ہی اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا جی بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مولیٰ علی کی خلافت ظاہری آپ کے خلفاء ثلاثہ کے بعد شروع ہوتی ہے اس سے پہلے تو ہم ان کی خلافت کو غصب مانتے ہیں یعنی آپ کے خلفائے ثلاثہ نے مولیٰ علی کی خلافت کو ظاہری طور پر غصب کیا ہوا تھا۔ اسلیئے مولیٰ علی تو اس وقت مجبور تھے وہ یہ حق کیسے دے سکتے تھے؟۔

اس کی یہ تاویل سن کر میں نے کہا عزیزم ! میرے تعجب میں آپ نے مزید اضافہ کر دیا ہے ایک طرف تو آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ مولیٰ علی مشکل کشا ہیں۔ عجیب بات ہے کہ انہیں کے گھر کی ایک کے بعد دوسری مشکل آپ نے ذکر کر دی یعنی ان کی زوجہ محترمہ کاحق مارا گیا لیکن وہ مجبور تھے اور وہ مشکل کشا ہونے کے باوجود ان کی مشکل کشائی نہ کر سکے۔ پھر ان کا اپنا حق (خلافت) غصب ہوا لیکن وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی نہ کر سکے۔ یا تو ان کی مشکل کشائی کا انکار کر دو اور اگر انہیں مشکل کشا مانتے ہو تو یہ من گھڑت باتیں کہنا چھوڑ دو کہ طاقتوروں نے ان کے حقوق غصب کر لیئے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض و المحال آپ کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اصحاب ثلاثہ نے ان کی خلافت غصب کر لی تھی، اب سوال یہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد جب أمیر المؤمنين علی رضی اللہ عنہ کو ظاہری خلافت مل گئی اور ان کی شہادت کے بعد انہی کے صاحبزادے سیَّدنا حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کیا اس وقت انہوں نے باغ فدک لے لیا تھا؟

جب آپ کےبقول وہ خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں غصب کیا گیا تھا، اب تو انہی کی حکومت تھی جن کا حق غصب کیا گیا۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت ہونے کے باوجود اس حق کو کیوں چھوڑ دیا تھا؟۔ آج بھی آپ کے بقول وہ سعودی حکومت کے زیر اثر ہے تو بھائی وہ باغ جن کا حق تھا جب انہوں نے چھوڑ دیا ہے تو آپ بھی اب مہربانی کر کے ان قِصُّوں کو چھوڑ دیں اور اگر آپ کا اعتراض سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ہے کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟ تو یہی اعتراض آپ کا أمیر المؤمنين علی رضی اللہ عنہ پر بھی ہو گا کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟؟؟

میری بات سن کہ وہ کچھ سوچنے لگا مگر میں نے اسی لمحہ اس پر ایک اور سوال کر دیا کہ آپ یہ بتائیں کہ وراثت صرف اولاد کو ہی ملتی ہے یا بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے؟
کہنے لگا۔۔۔ بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے۔

میں نے کہا پھر آپ کا اعتراض صرف سیَّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے کیوں ہے؟ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے آپ نے کیوں نہیں کہا کہ انہیں بھی وراثت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات میں سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیَّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور أمیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیَّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپ نے خلفاء رسول پر یہ الزام دھرنے سے پہلے کبھی نہیں سوچا کہ اگر انہوں نے نبی ﷺ کی صاحبزادی کو حضور ﷺ کی وراثت نہیں دی تو اپنی صاحبزادیوں کو بھی تو اس سے محروم رکھا ہے۔

میری گفتگو سن کر اب وہ مکمل خاموش تھا۔ ساتھ ہی وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا بھی معلوم ہوا۔

میں نے اسے پھر متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ عزیزم ! کب تک ان پاک ہستیوں کے بارے بدگمانی پیدا کرنے والی بے سر و پا جھوٹی باتوں کی وجہ سے حقائق سے آنکھیں بند کر کے رکھو گے؟۔
اب میں تمہیں وہ حقیقت ہی بتا دوں جس کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ کی وراثت آپ ﷺ کے کسی وارث کو نہیں دی گئی۔ وہ خود جناب رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے؛ *{نحن معشر الانبیاء لانرث ولا نورث، ما ترکنا صدقة؛}* یعنی ہم انبیاء دنیا کی وراثت میں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے۔ ہم جو مال و جائیداد چھوڑتے ہیں وہ امت پر صدقہ ہوتا ہے۔

میں نے اسے کہا عزیزم! یہ وہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے أمیر المؤمنین ابوبکر سے لے کر سیَّدنا علی اور سیَّدنا حسن رضی اللہ عنہم تک کسی بھی خلیفہ نے؛ باغ فدک؛ آل رسول کاحق نہیں سمجھا جسے لے کر آج آپ ان کےدرمیان نفرتیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نوجوان اب میری گفتگو سن کر پریشان اور نادم محسوس ہونے لگا۔ پھر انتہائی عاجزی سے اس نے مجھے دیکھا اور گویا ہوا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ آج سے میں اس طرح کے اعتراضات کرنے سے توبہ کرتا ہوں۔ اب میں رب تعالیٰ سے بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اپنی سوچ کو مثبت بناوں گا۔

میں نے اس نوجوان کو مبارک دی اور ایک محبت سے بھرپور معانقہ و مصافحہ ہوا۔
پھر وہ نوجوان شکریہ ادا کرتے ہوئے چلا گیا۔
والسلام ۔۔۔۔
یہ جو تحریر آپ نے پڑھ لی ہے میرے دوستو اور بہن بھاٸیوں، یہ ایک لاجواب اور ہزاروں کتابوں سے زیادہ پُر مغز مدلل مضمون ہے براہ کرم اس کو اتنا پھیلا دیجٸے کہ حق وسچ ہر ایرے غیرے پر بھی واضح ہو جاٸیں۔ لہذا آپ کی ایک کوشش دوسرے کی رہنمائی کا باعث بن سکتی ہے!!
اسلام اور معاشرہ کے ساتھ منسلک رہیں!

26/01/2023
23/08/2022

نیازی جاہل ھے یا پاگل۔ اسکے بیان پڑھ کر فیصلہ کریں۔

میں عمران خان کے خلاف کیوں ہوا 👈فرقہ عمرانی
1:اللّٰہ نے مجھے غلطی سے انسان بنا دیا (نعوذبااللہ اللہ کی گستاخی)
2: اللّٰہ مجھے ایسے تیار کر رہا ہے جیسے اس نے نبی کو تیار کیا تھا (نعوذبااللہ پیغمبری طرح کا دعویٰ )
3:کچھ دن وحی نہیں آئ تو نبی پاک نے سمجھا کہ شائد میں پاگل ہو گیا ہوں ( نعوذبااللہ) ( نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ و‌‎سلم کی گستاخی)
4:مکہ والوں نے نبی پاک کو زلیل کیا (نعوذبااللہ )
( نبی پاک کی گستاخی)
5: صحابہ ڈر گئے تھے (نعوذبااللہ صحابہ پر بہتان)
6: صحابہ نے لوٹ مار شروع کر دی
(نعوذبااللہ صحابہ کی گستاخی )
7: تاریخ میں حضرت عیسیٰ کا کوئ زکر نہیں
(نعوذبااللہ پیغمبر کی گستاخی)
8:دوزخ میں مجھے گرمی نہیں لگے گی (نعوذبااللہ اللہ کے‌‎عذاب کا بھی مذاق)
9: عمرہ کرنے سے بہتر ہے میرا ساتھ دو (اللہ کے حکم کو رد کرنے کی گستاخی , آہنی ذات کو اللہ کے حکم اور اسلام کے اہم رکن سے بھی اوپر سمجھنے کا گناہ نعوذبااللہ)
10: قرآن میں اللّٰہ نے میرے جیسے کیلئے بتایا ہے کہ یہ حق پر ہے اسکا ساتھ دو (نعوذبااللہ اللہ کی کتاب کا غلط حوالہ )
11:قبر‌‎میں سوال ہوگا کہ آپ نے
عمران خان کا ساتھ کیوں نہیں دیا (نعوذبااللہ بیک وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے سے انحراف کرنا اور خود کو پیغمبر سمجھنا)
12: جیسے نبیوں نے اللّٰہ کی تبلیغ ایسے ہی آپ لوگوں نے گھر گھر جا کر میری تبلیغ کرنی ہے ( نعوذ باللہ, پیغمبری سے بھی آگے نکل ‌‎کر خدائی دعوی بھی ہو گیا)
13:جنہوں نے مجھ سے بغاوت کی انہوں نے شرک کیا ( اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کو خدا ماننے, سجدہ کرنے کو شرک کہتے ہیں (نعوذبااللہ صرف اللہ تعالیٰ کی برابری کیلئے یہ لفظ استعمال ہوتا یے ,کسی پیغمبر
کیلئے بھی نہیں تو کسی عام انسان کیلئے کیسے استعمال ہو سکتا یے ؟ )
‌‎برائے مہربانی اس فتنے کو ایکسپوز کریں🙏🏼

13/08/2022

ﺍﺏ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺟﺸﻦ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ : ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺮﺍﺯ

ﺍﺏ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺟﺸﻦ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﺩﯾﺲ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺍ
ﺍﺏ ﮐﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﺖ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﺗﻦ ﻣﻦ ﮐﺎﺟﻮ ﺩﻭﻧﯿﻢ ﮨﻮﺍ

ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺭﯾﺰﮦ ﺭﯾﺰﮦ ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮨﻮﺍ
ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺟﻮ ﭨﮑﮍﺍ ﭨﮑﮍﺍ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺗﻮﻗﯿﺮ ﮨﻮﺍ

ﺍﺱ ﭘﺮﭼﻢ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟﻧﯿﻼﻡ ﮨﻮﺋﯽ
ﺍﺱ ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﻋﺪﻭﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮨﻮﺋﯽ

ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺗﻢ ﮨﺎﺭ ﭼﮑﮯ، ﺍﺱ ﺭﺳﻢ ﮐﺎﺟﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺱ ﺯﺧﻢ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﺟﺎﻥﮐﺎ ﺟﻮ ﻭﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﺱ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﺪﻗﺴﻤﺖ ﺗﮭﺎ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟﺑﮩﺎ ﯾﺎ ﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎ
ﺍﺱ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮯ ﻗﯿﻤﺖ ﺗﮭﺎ، ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟﮐﮭﻼ ﯾﺎ ﺑﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎ

ﺍﺱ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻧﯿﺰﮮ ﮐﯽ ﺍﻧﯽ، ﻣﺮﮨﻢ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﭨﺎ، ﮐﻢ ﺳﻤﺠﮭﺎ

ﺍﻥ ﻣﻌﺼﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﮩﻮ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞﺮﺍﺗﯿﮟ ﮐﯿﮟ
ﯾﺎ ﺍﻥ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺧﻨﺠﺮ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮞﮑﯿﮟ

ﺍﺱ ﻣﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻋﻔﺖ ﻟﭩﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﻋﯿﺴﯽٰ ﮐﺎ ﺟﻮ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻏﻢ ﺧﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ

ﺍﻥ ﻧﻮﺣﮧ ﮔﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻗﺘﻞﮐﯿﺎ ﺧﻮﺩ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻡ ﺳﺎﺯ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﯾﺴﮯ ﺟﻼﺩﺑﮭﯿﮩﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﻥ ﺑﮭﻮﮐﮯ ﻧﻨﮕﮯ ﮈﮬﺎﻧﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺭﻗﺺ ﺳﺮﺑﺎﺯﺍﺭ ﮐﺮﯾﮟ
ﯾﺎ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻢ ﻗﺰﺍﻗﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮﻭﺍﺭ ﮐﺮﯾﮟ

ﯾﺎ ﺍﻥ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺗﻠﮏ ﺍﯾﻔﺎ ﻧﮧﮨﻮﺋﮯ
ﯾﺎ ﺍﻥ ﺑﮯ ﺑﺲ ﻻﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ

ﺍﺱ ﺷﺎﮨﯽ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺩﺳﺖ ﺑﺪﺳﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﻨﮓ ﻭﻃﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ، ﮐﯿﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯﺍﺱ ﻗﺼﮯ ﻣﯿﮟ

ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﻮ، ﮨﻮﻧﭩﻮﮞﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻝ ﻟﯿﮯ
ﺍﺱ ﺟﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ ﻧﻮﺣﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻟﯿﮯ

12/08/2022

"اُٹھو مریم نواز ! ہم تمہارے ساتھ ہیں
؛؛ووٹ کو عزت دو کے لیے بطور خاص؛؛؛

5 جولائی 1977 کی صبح 1 بج کر 45 منٹ کی روداد بینظیر بھٹو بتاتی ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں ممی میرے کمرے سے صنم کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہہ رہی تھیں:
” اٹھو، جاگو، کپڑے بدلو. فوج نے قبضہ کر لیا ہے”۔
اور جب حفیظ پیرزادہ کی بیٹی نے فون پر روتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرے والد کو مارا پیٹا اور ساتھ لے کر چلے گئے تو پنکی کے پاپا نے کہا کہ پُرسکون رہو اور اپنے خاندان کے وقار کا خیال رکھو.

ہماری دعا ہے اے قوم کی حسین و جمیل، نازوں پلی محترم بیٹی مریم نواز کہ آپ کی 5 جولائی ایسی طلوع نہ ہو۔

اُسی سال 3 ستمبر رمضان کے مہینے میں صبح 4 بجے کا منظر بینظیر بتاتی ہیں کہ کمانڈوز میرے بیڈ روم میں گھس آئے۔ ایک میرے کمرے میں اُچھلتا کودتا پھر رہا تھا۔ الماری سے اس نے میرے کپڑے نکال نکال باہر پھینکے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی چیزیں الٹ دیں۔ فون کا تار کھینچ کر توڑ دیا۔ میں نے احتجاج کیا تو پستول تان لیا کہ اگر زندہ رہنا چاہتی ہو تو چپ رہو۔

مگر ہماری دعا ہے اے قوم کی عظیم بیٹی مریم نواز کہ آپ کی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا میک اپ کا مہنگا سامان جوں کا توں رکھا رہے۔ ایک عدد لپ اسٹک بھی نہ ٹوٹے۔ اور خدا نہ کرے کہ رات گئے کوئی نامحرم آپ کے بیڈ روم میں گھس آئے۔

1980 کے ایک دن جب صنم المرتضیٰ میں مقید بیمار پڑی ماں اور بہن سے ملنے آتی ہے تو کیپٹن افتخار صنم کے پیچھے پیچھے کمرے میں گھس آتا ہے۔ بینظیر اسے شرم دلاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر بینظیر پر ہاتھ اٹھاتا ہے کہ میں جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔ ہاتھ اٹھانے پر بینظیر اسے اپنے باپ کا احسان یاد دلاتے ہوئے للکارتی ہے تو وہ ہاتھ نیچے کر دیتا ہے۔

نہیں نہیں، اے قوم کی بیٹی مریم نواز، آپ کے لیے ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔

16 دسمبر 1977 کو بینظیر اور نصرت بھٹو قذافی اسٹیڈیم پہنچتی ہیں کرکٹ میچ دیکھنے۔ ہجوم تالیوں کی گونج کے ساتھ ان کے اعزاز میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگلے لمحے قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ آنسو گیس اور لاٹھیوں کی شدید بارش کے بیچ ماں کو تلاش کرتی بینظیر کو جب ماں ملتی ہے تو لوہے کی سلاخوں سے ٹکرائی، پھٹے سر کے ساتھ لہولہان۔

تصویر آج بھی گوُگل پر موجود ہے۔

نہ نہ ۔۔۔۔۔ ایسا دن ایک بار پھر نہ آئے۔ ہم اپنی قوم کی ماں اور قوم کی بیٹی کو پھر اس حالت میں نہ دیکھیں۔ ایک اور تصویر ہمیں منظور نہیں اے قوم کی عظیم بیٹی۔

4 اکتوبر 1978 کو بینظیر اور اس کی سہیلی یاسمین کو ملتان ائرپورٹ پر بندوقوں کی نوک پر جہاز سے اتار دیا جاتا ہے۔ یاسمین کو نامحرم اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں کہ تم بینظیر کے ساتھ نہیں جا سکتیں اور بینظیر کو ایک اور چھوٹے سے جہاز میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یاسمین نامحرموں سے نگاہ بچا کر، ان کے نرغے سے بھاگ کر دوڑتی بینظیر کے ساتھ چھوٹے طیارے میں گھس جاتی ہے، جس میں صرف تین لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ تیسرا پائلٹ ہے، جو باہر کھڑے پہریداروں کو کہتا ہے کہ اگر اندھیرا ہو گیا تو جہاز اُڑ نہیں سکے گا۔ اسے اڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ صبح سے بھوکا پیاسا ہے۔ پائلٹ کے لیے پانی اور لنچ باکس لایا جاتا ہے۔ جہاز کے اندر پائلٹ بینظیر کو پانی اور کھانا یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ اس نے بینظیر کی پانی کی ضرورت کو سپاہیوں کے سامنے مسترد ہوتے سن لیا تھا۔ جہاز راولپنڈی پہنچتا ہے، جہاں بینظیر کو اترنا ہے۔ دروازہ کھولتی ہی ہے کہ پائلٹ اشکبار آنکھوں سے اسے مخاطب کرتا ہے ” میں سندھی ہوں”.
راولپنڈی میں جہاز سے اتار کر بینظیر کو وہاں پہنچایا جاتا ہے جہاں نصرت بھٹو مقید تھیں۔ بیٹی کے کپڑے پھٹے تھے اور جسم پر خراشیں۔ مگر ماں خوش تھی کہ اب ہم قید میں ساتھ ساتھ ہوں گی۔

اے میری قوم کی عظیم بیٹی قابلِ احترام مریم نواز، جب قوم کی بیٹیاں قوم کی طرف سے بندوقوں کے سامنے سینہ سپر ہو کھڑی ہوتی ہیں تو اسی قوم کے افراد انہیں اپنی آنکھوں کے اشک پیش کرتے ہیں۔ مگر یہ تب ممکن ہوتا ہے جب زندگی کے سارے سکھ چین اور عیش و آرام قربان کر دیے جائیں اور دامن اور ہاتھ خالی ہوں۔ سامنے مال و ملکیت بچانے کا معاملہ درپیش نہ ہو۔ فقط ایک جان کُل متاع ہو جو داؤ پر لگی ہو۔

ذہنی اذیت کا کھیل کیسے کیسے کھیلا جاتا ہے! آپ کو اندازہ نہیں اے میری قوم کی عظیم بیٹی۔ نیب تو کچھ بھی نہیں ہے! یہ تو آنی جانی چیز ہے۔ ورنہ یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ سکھر جیل، کراچی جیل، راولپنڈی جیل وغیرہ وغیرہ کی وحشتوں میں مسلسل دربدر رکھتے ہوئے ایک دن نوجوان لڑکی کو ایک اجنبی ڈاکٹر کے سامنے پیش کر دیا جائے اور جو اسے کہے کہ تمہارے پہریداروں کا خیال ہے کہ تمہیں رحم کا کینسر ہے اور تمہارا آپریشن کرنا پڑے گا۔ پھر اسے اسی وحشت کے عالم میں کراچی جیل میں اس جھوٹ کے ساتھ لے جایا جائے کہ آپریشن سے پہلے ہم تمہیں تمہاری ماں سے ملوانے لے جا رہے ہیں اور وہ وحشت سے جیل کی خالی کھولیوں میں ممی ممی پکارتی بولائی پھر رہی ہو اور ماں کہیں بھی نہ ہو۔ پھر بغیر کسی اپنے کی موجودگی کے، پکڑ کر اس کا آپریشن بھی کر دیا جائے۔
پھر اسی نقاہت کے عالم میں اسے چھوٹی بہن سے ملوانے کے لیے ایک اور ہسپتال میں لایا جائے اور چھوٹی بہن اسے اسٹریچر پر مدد کے لیے پکارتی دکھائی دے جسے زبردستی آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جا رہا ہو۔ وہ پکار رہی ہو کہ یہ مجھے قتل کر دیں گے۔۔۔ پاپا ۔۔۔۔ پاپا ۔۔۔۔ یہ مجھے قتل کر دیں گے ۔۔۔۔ پولیس نے اس کی چھوٹی بہن کا اسٹریچر گھیرے میں لے رکھا ہو اور اسے طرح طرح کی ٹیوبس لگی ہوں۔ مگر اسے چھوٹی بہن سے ملنے کا موقع نہ ملے اور بخار و نیم غنودگی کی حالت میں واپس جیل پہنچا دی جائے۔

دعا ہے کہ یہ اذیت بھرے مناظر پھر کبھی نہ آئیں اے قوم کی عظیم بیٹی۔ ہم نے تو تب بھی شکرانہ ادا کیا جب آپ جیسی عظیم بیٹی نے اپنے ابا جی کا چھوٹا سا آپریشن نہایت رازداری سے لندن میں کروا دیا۔ اس کمال خوبی سے کہ مجال ہے کہ کسی دشمن کی نگاہ بھی اس ہسپتال پر پڑی ہو۔ اس سے بھی بڑا احسان تو یہ ہوا کہ اس مشکل وقت میں آپ نے قوم و ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ شکر ہے کہ پاکستان اب ویسا نہیں رہا جیسے آپ کے ابا جی کے استادِ محترم کے دور میں تھا۔ ورنہ پاکستان میں تو ہسپتال کے بستر پر مخالفین کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی رہی ہے۔

یہ بھی شکر ہے کہ اتنی دال روٹی آپ لوگ اپنی کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے ہسپتالوں کے بجائے لندن سے علاج معالجہ کروا لیتے ہیں۔

ورنہ سکھر جیل کی 48 سینٹی گریڈ کی گرمی میں پھٹ چکی جلد، پھنسیوں سے بھر چکے جسم، کان کے شدید انفیکشن میں مبتلا نصرت بھٹو کی پنکی جو پیلے گدلے پانی سے پیاس بجھانے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہے اور جسم پر بار بار چڑھ آتے کیڑے مکوڑوں سے لڑتی رہتی ہے، اسے ماں اپنی قید سے اس کی قید میں خط بھیجتی ہے کہ ۔۔۔۔ میری بہت ہی پیاری پنکی! ۔۔۔۔ دن میں تین یا چار مرتبہ اپنے جسم پر پانی ڈالو تا کہ حدت کم محسوس ہو۔ اس کو آزماؤ۔ میں بھی پہلے اپنا سر جھکاتی ہوں، گردن کے پیچھے اور سر کے اوپر پانی کے مگ ڈالتی ہوں۔ پھر پنکھے کے نیچے بستر پر لیٹ جاتی ہوں۔ اس طرح کپڑے خشک ہونے تک بہت ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے۔ اس طریقے سے پھنسیوں سے بھی حفاظت رہتی ہے۔ یہ شاندار نسخہ ہے۔ میں اس کی پرزور سفارش کرتی ہوں پیار کے ساتھ۔ تمہاری ممی۔

مگر یہ سب باتیں پرانی ہو چکیں۔

بس اے قوم کی عظیم بیٹی ہماری دعا ہے کہ آپ نامحرموں کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے جب پیش ہوں تو آپ بینظیربھٹو کی طرح سادہ کپڑوں میں، آنکھوں میں آئی لائنر کے بجائے رت جگے لیے ہوئے نہ ہوں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی انگلیاں تھامے بھری دوپہر آپ کو قید میں پڑے شوہر سے ملاقات کے لیے جیل جیسی گھٹیا جگہ کے چکر نہ لگانا پڑیں۔

لیکن نہیں، آپ پر انشااللہ ایسا وقت نہیں آئے گا۔ آپ کے شوہر تو جے آئی ٹی کی آنکھوں میں سرمہ ڈال کر نکل گئے۔ وہ تو لاج رہ گئی کہ یہ نہیں کہا کہ میں مریم نواز کا شوہر ہی نہیں ہوں۔ باقی تو ہر بات سے انکار کر دیا۔ حد کر دی۔ بینظیر کا شوہر جیسا کھلاڑی شخص سات سال جیل میں بیٹھ گیا! اسے کیوں یہ خیال نہیں آیا! کیپٹن صاحب کی طرح کہہ دیتا وہ بھی کہ جناب میں درویش آدمی ہوں۔ عبادت میں دن رات محو رہتا ہوں۔ بیوی آتی ہے، منہ میں نوالے ڈال کر چلی جاتی ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ دال تھی کہ پائے! بچے پتہ نہیں کتنے ہیں۔ کب پیدا ہوئے اور کب باہر گئے پڑھنے۔ میں تو خود آپ سے سن رہا ہوں کہ میرے بچے بھی ہیں! میں وزیراعظم ہاؤس میں رہتا بھی نہیں۔ باہر گارڈز کی کوٹھڑی میں نوافل ادا کرتا رہتا ہوں۔

اس بے وفائی کی امید نہیں تھی آپ کے کیپٹن سے! یا شاید کیپٹن سارے ہی حسیناؤں کے معاملے میں ایسے ہی بے وفا ہوتے ہیں!

خیر اللہ آپ کا سہاگ سلامت رکھے۔ شادی پرانی ہو جائے تو نکھٹو شوہر کو بھی ماں بن کر پالنا پڑتا ہے۔

دعا ہے کہ آنے والی صبح آپ سُرخرو ہوں۔ ہم ٹوئٹر پر نگاہیں بچھائے آپ کے منتظر ہوں گے۔ آپ ہمیشہ کی طرح فریش فریش چلی جائیے گا۔ آپ کے حصّے کے آنسو ڈار صاحب رو چکے ہیں۔

ویسے بھی پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ شاعر بھی خواب آنکھوں میں لیے مر گئے جو کہتے تھے کہ بندوقوں والے ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے۔ وہ لڑکی بھی بم کے دھماکے سے اُڑ گئی جو بندوقوں سے نہ جھکی۔

اب لوٹ مار کے بازار میں خدا کرے سب کی دکانیں چلتی رہیں اور پاکستان کا شٹر کبھی نہ گرے۔

(نُور الہدیٰ شاہ)

22/07/2022

اگر چودھری شجاعت اور پرویز الہی زرداری صاحب کی بات نہیں مان رھے تواس کی دو وجوھات ھو سکتی ھیں یا تو انہیں مسلم لیگ نون پر اعتبار نہیں ھے یا پھر اسٹیبلشمنٹ عمران کے ساتھ ھے _ جبکہ عمران فوری انتخابات چاھتا ھے جبکہ پرویز الہی اپنی مدت پوری کرنا چاھتا ھے حالانکہ زرداری صاحب نے موجودہ مدت اور ائندہ الیکشن کے لیے بہتر اپشن دئیے تھے _ اگر زرداری صاحب کا سیاسی فارمولا کامیاب نہ ھوا تو پھر وہ غیر سیاسی گند پڑ جائے گا جس سے ملک اور عدم استحکام کی طرف چلا جائے گا معیشت اور خراب ھو جائے گی مہنگائی غربت بےروزگاری اور بڑھے گی لاقانونیت اور بڑھ جائے گی اکائیوں کے درمیان غلط فہماں اور گہری ھو جائیں گی اپ کے بین الااقوامی تعلقات اور مثاتر ھونگے ایک ایسا شیطانی گول دائرےکا چکر شروع ھو جائے گا جس کو روکنا سیاست دانوں کے بس میں نہیں رھے گا خدانخواستہ ملک خانہ جنگی انتشار یا کسی فوجی مہم جوئی کی طرف بھی جا سکتا ھے مگر اج کے سیاسی بونے اس بات کو زرداری صاحب کی ملاقوں کو سمجھ نہیں پا رھے الٹا ان کا مذاق اڑا رھے ھیں خیر پی ٹی ائی سے تو کوئی گل نہیں عمران خان تو ایا ھی صیہونی یہودی اسرائیلی ایجنڈے پر ھے مگر ھمیں حیرت چودھری برادران اور ان کے ھینڈلرز پر ھو رھی ھے کہ وہ یا تو حالات کی نزاکت کو سمجھ نہیں رھے جو میں نہیں سمجھتا کہ ایساھے یا وہ اپنے لیے کوئی چانس بنا رھے ھیں وہ توانہیں ھو وقت حاصل ھوتا ھے جبکہ معیشت اور خطے کے حالات بظاھر ان کے حق میں نہیں لگتے _ ھم سمجھتے ھیں کہ صدر زرداری اس وقت پاکستان کے وہ واحد لیڈر ھیں جو نہ صرف پاکستان کے مسائل کی صحیح نشاندھی کر رھے ھیں بلکہ ان سے بچنے کی سیاسی جدوجہد بھی کر رھے ھیں ان کے ساتھ میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمان صاحب کا اور باقی پارٹیوں یعنی اے ین پی بی این پی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کا کولیکٹیو وزڈم بھی ساتھ ھیں ھم حیران ھیں کہ یا تو سیاسی بریک تھرو ھونے نہیں دیا ج رھا یا کسی کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ھےیا اداروں اور سیاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی ھے یا کوئی ایسی خاموش تقسیم ھے جو سیاسی عمل میں روکاوٹ ھے بہرحال جو بھی ھےایک بات طے ھے کہ اس تمام کی قیمت پاکستان اور غریب کو چکانی پڑے گی جتنی دیر ھوگی اتنا مسلہ بڑھے گا کیونکہ عمران خان کی اپنی کارکردگی نہیں ھوتی اس لیے وہ دوسروں پر تنقید کرتا ھے تاکہ اس کے عیب چھپے رھیں عمران سوائے تباھی کےکچھ نہیں کر سکتا

17/07/2022

اگر ہم 10 محرم کہ طرف جاتے ہوئے رستہ میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جس میں شھید ہونیوالے کا نام حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے❣️

جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں❣️
وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں❣️
وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں❣️
وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں❣️
وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں❣️
وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں❣️
وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں❣️
خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں❣️
کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی❣️
حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے ❣️
حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے کئے جاتے ہیں انکے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی ہے یہ کہ انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کے قصہ کو عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا🌹🌹

تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ کی مظلومیت کا ذکر کیا جائے میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ عثمان وہ مظلوم تھا...
جسکا 40 دن پانی بند رکھا گیا آج وہ عثمان پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا
حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی کوئی ہے جو مجھے پانی پلائے ؟
حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو مشکیزہ لیکر علیؓ عثمان ؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آرہے ہیں💖💖
ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نا آیا❣️

کربلا میں حسینؓ کے ساقی اگر عباس تھے💖💖
تو مدینہ میں عثمانؓ کے ساقی علیؓ تھے💖💖

اس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا🥀🥀

آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے🥀🥀

40 دن گزر گئے اس عثمانؓ کو کھانہ نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ نبیؐ کی خدمت میں پیش کردیا کرتا تھا🥀

آج اس عثمان کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے🥀🥀
آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا🥀🥀
آج اس عثمانؓ۔کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ سے آپؐ کی بیعت کہ تھی🥀🥀
ہائے عثمان میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں اور دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں🥀🥀
آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا🥀🥀🥀

آج آپؐ کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں
18ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھنچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں🥀 ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے وہی ہاتھ جس ہاتھ سے آپ کی بیعت کی تھی قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپکی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے😢😢😢

اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی🌹
دیا خون صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی🌹

مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کی قبر مبارک۔۔🌹🌹

15/07/2022

الذوالفقار کیا اور کیوں پارٹ 1
اور پانچ جولائی 1977 کا مارشل لاء جھوٹ اور بے بنیاد الزامات اور جھوٹے وعدوں پر مشتمل تھا اس کا پہلا جواز کے 1977 میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے دھاندلی کا مقصد کسی ہاری ہوئی پارٹی جیتنا ہوتا جو یقینا کسی صورت میں نہیں تھا اور کسی بھی ملکی یا غیر ملکی ایجنسی یا مبصرین نے انتخابات سے پہلے یہ رائے نہیں دی کے پیپلز پارٹی انتخاب ہار رہی ہے کتنی سیٹیں جیتے گی اس پر اختلاف ہو سکتا تا مگر حکومت پیپلز پارٹی کی ہی رہے گی اس پر کوئی دو رائے نہیں تھی اور اگر اہتمام حجت کے مان بھی لیا جائے کے انتخابات درست نہیں تھے تو پیپلز پارٹی اور شہید بٹھو کی طرف نہ صرف نئے انتخابات بلکہ الیکشن کمیشن بھی پی این اے کا نام زد کردہ ہوگا اور انتخابات تک تمام حکومتی امور کے فیصلے ے ایک مشترکہ کونسل کرے گی جس میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی برابر ہو گی ان سب باتوں کو پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے تسلیم کئے جانے کے بعد ایک ایسی شرط پیش کی گئی جس کے بارے میں اپوزیشن کے لیڈروں کو یقین تھا کہ شرط بٹھو صاحب نہیں مانے گا کیونکہ وہ تسلیم کرنا شائد بٹھو صاحب کے بس میں نہیں کیونکہ اس معاملے کے پیچھے فوج کھڑی ہے وہ تھا ولی خان اور کے ساتھیوں کو جن پر غداری کا الزام تھا رہا کیا جائے اس پر بٹھو صاحب نے اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ فوجی جرنیلوں کو بیٹھایا اور ان سے ولی خان اور ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کریا اور پھر تہ کیا گیا کے پانچ جولائی صبح معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے پھر چار اور پانچ جولائی کی رات کو مارشل لاء نافذ کیاگیا اور فوج نے اپنا ہی ملک فتح کرلیا یہ بات کے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاملات پا گئے تھے میں نہیں کہتا بلکہ پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے رکن جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہے معاہدہ طے پاگیا تھا یہ بات صرف پروفیسر غفور احمد صاحب نے ہی نہیں مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا مفتی محمود اور تیسرے رکن نواب زادہ نصر اللہ خان نے بھی برسر عام تسلیم کی ہے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ضیاء نے قوم سے خطاب میں قرآن پاک کی تلاوت کے بعد اعلان کیا کہ فوج کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے بلکہ 90 دنوں کے اندر نئے انتخابات کرا کر اقتدار جیتنے والی پارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا اس اعلان کا پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے خیر مقدم کیا اور انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا صرف اس بات پر کے مجھے کیوں نکالا پر رونے دھونے کا اعلان نہیں کیا جب بھٹو صاحب کو مری سے رہا کیا گیا اور جب انہوں نے پہلے لاہور جانے کا فیصلہ کیا اور یہ اعلان کیا وہ فلاں فلائٹ پر لاہور آئیں گے نواب صادق حسین قریشی کے گھر قیام کریں گے میں بھی پنجاب کے سابق سینئر وزیر ڈاکٹر عبدل خالق کے ساتھ لاہور گیا ائیر پورٹ سے نواب صادق حسین قریشی کے گھر کو تین متبادل راستے تھے عوام کو علم نہیں تھا کے بٹھو صاحب کس راستے جائیں گے اس لئے تینوں سڑکوں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا میں نے اور ڈاکٹر خالق نے ائیر پورٹ تک جانے کی کوشش کی مگر با صد مشکل جیل روڈ پر شیرپاؤ پل تک پہنچ پائے بھٹو صاحب کی فلائٹ سے پہلے اور فلائٹ جو شائد کراچی سے ا رہی تھی پی این اے کے معروف لیڈر مولانا شاہ احمد نورانی تشریف لائے آئر پورٹ پر بٹھو کا استقبال کرنے والوں اتنا بڑا اجتماع موجود کے بجا طور کہا جا سکتا تھا کے اگر میٹھی بھر کر سرسوں کے بیج پھینکے جائیں تو ایک دانا بھی زمین پر نہیں پڑے گا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی مولانا شاہ احمد نورانی نے ائر پورٹ سے باہر آنے غلطی کی اور پیپلز پارٹی کے جیالے جو بجا طور پر سمجھتے تھے کہ مارشل لاء کی راہ ہموار کر نے میں ان لوگوں کا کردار ہے مولانا کے ساتھ زیادتی کی اور ان پگڑی اتار دی اس کا مقدمہ درج کیا گیا اور اس میں اس وقت کے طالب علم لیڈر جہانگیر بدر اور ایک فلم ایکٹر شاہنواز کو گرفتارکر کے بعد میں بٹھو صاحب کے سل کے باہر جہاں سے ان کو ان کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں یہ پہلے دو اشخاص تھے جن سے ضیا شاہی کے کوڑوں کا آغاز کیا گیا مگر ضیاء اور اس کے حواریوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب بٹھو شہید نے چیخوں کی بجائے جئے بھٹو کے نعرے سنے کو ملے تو اصل صورتحال کی طرف لوٹتے ہوئے میں اور ڈاکٹر خالق کافی دیر وہاں کھڑے رہے بٹھو صاحبِ کس راستے اور کب نواب صادق حسین قریشی کے گھر پہنچے دوسرے ہم لوگوں کی مختصر سی ملاقات ہوئی اور وہ کراچی چلے گئے اور میں راولپنڈی چلا آیا ڈاکٹر صاحب کو لاہور میں وہ سرکاری گھر خالی کرنا اور بچوں کو لیکر راولپنڈی آنا پنڈی میں ایک واقف حال نے بتایا کہ ضیاء اور جنرل چشتی نے ایک ساتھ لاہور والے استقبال کی فلم دیکھی اور چشتی ساتھ ٹیبل پر ہاتھ مار کر کہتا تھا mad people جانے کیوں وہ اپنے پھیلائے جھوٹ کو کے بٹھو مقبولیت کھو بیٹھا ہے یہ بات درست ہے کے بٹھو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک میں عوام کی بھر پور شرکت تھی کسی کا یہ دعویٰ نہیں کے سو فیصد عوام پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کے ساتھ ہیں پی این اے کی 9 جماعتیں ان کے کارکنوں اور ان حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد اور وسائل کے لئے امریکی ڈالر کی یلغار اس تحریک میں جان تو اور دائیں بازو کے اخبارات اس کو دو سے ضرب لگا کر پیش کرتا تھا مگر یہ سب باتیں بٹھو صاحب کی مقبولیت کو کم نہیں کر سکتے تھے جس کا مظاہرہ لاہور کے عوام نے کیا تھا اس کے بعد بٹھو صاحب نے ٹرین کے ذریعے آبائی گھر جانے کا فیصلہ کیا تو سندھ کے عوام ریل کی پٹری کے دونوں طرف دور دور تک پھیلے نظر آئے اس منظر نے ضیاء اور چشتی کو پا گل کردیا اور انہوں نے بٹھو صاحب نواب احمد کے قتل میں گرفتار کر لیا نواب احمد پیپلز پارٹی کے ایم این اے احمد رضا قصوری کا باپ تھا انگریز سرکار کی فوج سے ریٹائر جے سی او تھا جس کو سرکار نے آنریری مجسٹریٹ بھی لگایا تھا احمد رضا قصوری پارٹی کا بنیادی رکن تھا سنٹرل کمیٹی کا رکن بھی منہ سے طبلا بجاتا بہت Ambitious تھا جس کے نتیجے میں خوشامدی بھی تھا میں نے اس کو راولپنڈی فلیش مین ہوٹل میں بٹھو صاحب کی ٹانگیں دباتے اور منہ سے طبلا بجاتے دیکھا ہوا ہے 1970 کے انتخابات کے عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن کو اکثریت ملی تو یہ پوشیدہ طور سے ڈھاکہ گیا اور شیخ صاحب کو کہا کہ آپ کی پارٹی میں شامل ہونے کو تیار ہوں تو شیخ مجیب الرحمٰن نہ تو پاکستان کا وزیراعظم بنے میں دلچسپی رکھتا تھا اور پاکستان کے ساتھ رہنے میں وہ تو صرف اپنے منشور کے چھ نکات کی بنیاد پر آئین بنانا چاہتا تھا جس سے خود بخود آئینی طور پر پانچ ٹکڑے ہو جائے تو اس نہ صرف اس کو لفٹ نہیں دی بلکہ بٹھو صاحب کو بتا دیا کہ تمہارا ایم این اے میری پارٹی میں شامل ہونا چاہتا ہے اور جب بنگلہ دیش الگ ہو گیا مغربی پاکستان کی حد تک بچے پاکستان کا اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا گیا اور بٹھو صاحب وزیراعظم بن گئے تو احمد رضا قصوری نے وزارت داخلہ کے لئے بٹھو صاحب کو گزارش کی جواب بھٹو صاحب صرف مسکرائے قصوری کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہاں ہے نہ کیوں کے اس کو اس بات کی کوئی ہوا بھی نہین تھی کہ بٹھو صاحب کو اس کی شیخ مجیب الرحمٰن سے اس کی ملاقات کے بارے میں خبر ہے اور جب وزارتیں بنی تو وزیر داخلہ کجا کسی وزارت کا پارلیمانی سیکرٹری تک نہیں بنایا گیا تواس نے اسمبلی میں بٹھو صاحب شدید تنقید کرنی شروع کر دی جب اس نظر انداز کیا گیا تو اس نے کہنا شروع کر دیا کے مجھے قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں ہیں جب یہ تیر بھی ناکام رہا تو اس ایک دن اسمبلی حال میں داخل ہوتے ہی رونا شروع کر دیا اور کہا کہ اسمبلی کی طرف آ رہا تو پچھلے چوک میں کسی نے میری گاڑی پر فائرنگ کی ہے جو شائد مجھے قتل کرنے کو تھی سپیکر قومی اسمبلی نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا اور تحقیق پر پتہ چلا کہ اس علاقے میں کسی بھی شخص نے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی اس حربے کی ناکامی کے بعد کیوں کہ وکیل بھی تھا اپنی ٹانگ میں گولی مارکر تھانے میں Fir درج کرائی کے ذولفقار علی بھٹو نے بندے بھیج کر مجھے قتل کرانے کی کوشش کی پولیس نے رپورٹ درج کرنے کے بعد اس کو ڈاکٹر کے پاس میڈیکل چک اپ کے لئے لے گی ڈاکٹر نے چک کرنے کے بعد رپورٹ دی کے یہ زخم خود ساختہ ہے تو اس کا پرچہ خارج ہو گ۔ اس کے بعد لاہور سمن آباد چوک میں جہاں کبھی جیل اور ایسی جیل میں آذدی کے متوالوں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تھی اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے وقت کسی مجسٹریٹ کی موجودگی لازمی ہے اور لاہور کے سارے مجسٹریٹ جن دیسیوں کے علاؤہ گورے بھی تھے سب نے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی پھانسی کے عمل کی نگرانی کرنے سے انکار کر دیا اور قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد قصوری جو آنریری مجسٹریٹ تھا کو حکم دیا گیا کے وہ پھانسی کے عمل کی نگرانی کرے جو اس کر دی اور عین اسی مقام پر جب بواب محمد احمد قصوری جو اپنے بیٹے احمد رضا قصوری کے ساتھ کسی شادی میں شرکت کے لئے جا رہا تھا احمد رضا قصوری گاڑی چلا رہا تھا اس کا باپ اس کے ساتھ والی سیٹ پر اور والدہ پچھلی بیٹھی تھی عین چوک کے پاس سے گزر تے وقت جب گاڑی کی رفتار کم ہوتی ہے کسی نامعلوم شخص نے جس کو کسی نے نہیں دیکھا تھا گولی گولی چلا کر نواب احمد کو قتل کر دیا احمد رضا قصوری نے باپ کی لاش کو بھی اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا اور تھانے میں جا کر پرچہ درج کرانے کے درخواست میں لکھا کے مجھ بٹھو کے بھجے آدمیوں نے قتل کرنے کی غرض سے گولی چلائی اور گولیاں میرے پاس سے گزر کر میرے باپ کو لگی اور وہ فوت ہو گیا اور بٹھو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے ایس ایچ او وزیراعظم کے خلاف پرچہ کاٹنے کو تیار نہیں تھا احمد رضا تھانے میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا تو ایس ایچ او بذریعہ آئی جی وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے سے مشورہ طلب کیا تو رامے صاحب نے سختی سے ایف آئی آر میں وزیراعظم کا نام ڈالنے سے منا کر دیا اور احمد رضا قصوری کسی صورت میں راضی نہیں ہو رہا تھا تو آئی جی راؤ رشید صاحب نے ملتان میں موجود وزیراعظم صاحب کو آگاہ کیا تو بٹھو صاحب نے دو سیکنڈ کے اندر حکم دیا کہ مقتول کے بیٹے کی خواہش کے مطابق پرچہ کیا جو بھی نام وہ دے اس کے خلاف اس کے بعد انہوں نے وزیر اعلی پنجاب کو کہا کہ وہ جوڈیشل انکوائری کرانے وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف ف جسٹس سے درخواست کی کے وہ جج نامزد کرے تو جسٹس شفیع الرحمان کو جس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کے وزیراعظم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں البتہ پولیس کو چائے اصل قاتل تک پہنچنے کے انکوائری کرے اور پولیس نے بعد میں لکھا کے مقتول کا بیٹا جو موقع وارد پر موجود تھا پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا اس بنیاد پر انکوائری بند کر دی گئی اس کے بعد 1977 کے انتخابات سے قبل احمد رضا قصوری نے بیگم نصرت بھٹو کے پاوں پر گر کر معافی مانگ لی اور پارٹی ٹکٹ کی درخواست کی جو اس کو نہیں دیا گیا مگر اس کی وجہ Fir نہیں بلکہ اس کی وجہ شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات تھی اور ایک اہم این اے بھی ہے جس کا نام لینا مناسب نہیں کو بھی ایسی وجہ دوبارا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا اس Fir کی بنیاد پر ضیا نے بٹھو صاحب گرفتار کر کے لاہور کوٹ لکھپت جیل میں ڈالا بھٹو صاحب کی طرف سے ضمانت کی درخواست دی گئی جو جسٹس صمدانی صاحب نے سنں نہ صرف ضمانت منظور کرلی بلکہ فیصلے میں لکھا کے یہ کس بےبنیاد ہے جس کو جوڈیشل انکوائری مسترد کر چکی بعد میں جب اس کیس کا ٹرائل شروع ہوا تو قائدے کے مطابق جسٹس صمدانی صاحب کو اس بنچ کا حصہ ہونا چاہیے تھا مگر کو ہائی کورٹ سے فارغ کر کے لا سیکرٹری لگا لگا دیا گیا اور بعد میں فارغ کر دیا گیا اس مقدمے کے بارے میں پہلے بھی چکا ہوں اس کے علاؤہ اور کیا جب بٹھو صاحب کو سزائے موت دینے والا ایک نسیم حسن شاہ اپنی کتاب میں تحریر کر چکا کے بٹھو صاحب کو بے گناہ مارشل لاء کے دباؤ میں سزا دی تھی اس نے
Sardar Saleem صاحب کہ تحریر

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily jamhoryat paris posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Daily jamhoryat paris:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share