29/12/2025
آج کا تازہ کالم (29/12/2025)
…….
روزنامہ “طاقت”
تسخیرِ کائنات اور ہم: دفاعی حصار سے علمی وقار تک
تحریر: عاکف غنی
تاریخ کے بے رحم اوراق کا مطالعہ کریں تو ایک لرزہ براندام حقیقت سامنے آتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کا حتمی فیصلہ میدانِ جنگ کے بارود سے نہیں، بلکہ درس گاہوں کے گوشوں میں جلنے والے چراغوں سے ہوتا رہا ہے۔ وہ معاشرے جو فکر و نظر کی جولاں گاہوں میں پیچھے رہ گئے، وقت کی تند و تیز لہروں نے انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ آج جب ہم اکیسویں صدی کے وسط میں کھڑے ہو کر عالمی منظر نامے پر نگاہ دوڑاتے ہیں، تو ایک طرف علم و دانش کا سورج مغرب کے افق سے پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف عالمِ اسلام کی پسماندگی کی وہ طویل اور سیاہ شام ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ تضاد محض اتفاقیہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کی علمی ریاضت اور دوسری طرف مجرمانہ غفلت کی ایک طویل داستان ہے۔
مغرب کی علمی جاگیرداری اور تحقیق کا جنون
موجودہ دور میں علم کسی خاص خطے کی میراث نہیں، مگر اس پر تصرف آج انہی کا ہے جنہوں نے تحقیق کو اپنی روح کی غذا بنا لیا ہے۔ عالمی درجہ بندی (QS Ranking) کے ماتھے کا جھومر بننے والی جامعات محض پتھروں اور اینٹوں کے بے جان ڈھیر نہیں، بلکہ وہ "تخلیقِ نو" کے مقدس مراکز ہیں۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) سے لے کر اسٹینفورڈ، اور آکسفورڈ سے لے کر کیمبرج کی قدیم درس گاہوں تک، یہ وہ چراغ ہیں جن کی روشنی سے آج پوری مادی دنیا منور ہے۔
ان اداروں نے انسانیت کو وہ بصیرت عطا کی جس نے اسے سمندروں کی تہوں سے لے کر ستاروں کی وسعتوں پر کمند ڈالنے کے قابل بنایا۔ وہاں کے اساتذہ محض نصاب کی جگالی نہیں کرتے، بلکہ وہ نئے ذہنوں کی آبیاری کرتے ہیں، سوال اٹھانے کی جسارت سکھاتے ہیں اور مروجہ فرسودہ نظریات کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کا علمی بجٹ پاکستان جیسے کئی ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ جب ایک یونیورسٹی کا سالانہ ریسرچ بجٹ اربوں ڈالر ہو، تو وہاں سے کینسر کا علاج، مصنوعی ذہانت کا انقلاب اور کائنات کے سربستہ رازوں کا انکشاف ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں رہتی۔
ہمارا گم گشتہ ورثہ: جب ستارے ہمارے قدموں میں تھے
مگر یہاں یہ سوال روح کو تڑپا دیتا ہے کہ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے ہی تہی دست اور پسماندہ تھے؟ کیا علم کی اس دوڑ میں ہمارا کوئی حصہ نہ تھا؟ تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ جب یورپ جہالت کی تاریک راہوں (Dark Ages) میں بھٹک رہا تھا، تب بغداد، قرطبہ، نیشاپور اور قاہرہ کی گلیاں علم کی خوشبو سے مہک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے دنیا کو "یونیورسٹی" کا باقاعدہ تصور اس وقت دیا جب مغرب ابھی حروفِ تہجی کی پہچان سے بھی قاصر تھا۔
859ء میں مراکش کی سرزمین پر ایک باہمت خاتون فاطمہ الفہری کے ہاتھوں قائم ہونے والی جامعہ القرویین آج بھی دنیا کی قدیم ترین فعال یونیورسٹی کے طور پر ہمارے علمی عروج کی زندہ گواہی دے رہی ہے۔ بغداد کا "بیت الحکمت" وہ عالمی مرکز تھا جہاں یونان، ہند اور ایران کے علوم کو نہ صرف محفوظ کیا گیا بلکہ ان میں ایسی حیرت انگیز اضافات کی گئیں جن کے بغیر آج کی جدید سائنس کا تصور بھی محال ہے۔ الخوارزمی نے جب الجبرا کی بنیاد رکھی، ابنِ سینا نے جب طب کے قوانین مرتب کیے، جابر بن حیان نے جب کیمیا کے تجربات کیے اور ابنِ الہیثم نے جب بصریات (Optics) کے اصول وضع کیے، تو دراصل وہ جدید دنیا کا نقشہ ترتیب دے رہے تھے۔ ان کی کتابیں صدیوں تک یورپ کے تعلیمی نصاب کا حصہ رہیں، مگر افسوس کہ ہم نے اپنے اسلاف کے ورثے کو سنبھالنے کے بجائے اسے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔
عالمِ اسلام: 57 ستارے اور ایک علمی خلا
آج عالمی نقشے پر 57 مسلم ممالک کی موجودگی ایک توانا اور فیصلہ کن آواز ہونی چاہیے تھی، مگر المیہ یہ ہے کہ ان تمام ممالک کی علمی پیداوار مل کر بھی تنہا ایک چھوٹے سے ملک جیسے جنوبی کوریا یا جرمنی کا مقابلہ نہیں کر پا رہی۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے ممبر ممالک کے پاس قدرتی وسائل کی ریل پیل ہے، تیل کے چشمے ابل رہے ہیں اور دولت کے انبار ہیں، لیکن جب باری "فکری دولت" اور "پیٹنٹ رائٹس" کی آتی ہے تو ہم دنیا کی صفِ اول میں کہیں نظر نہیں آتے۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی کنگ فہد یونیورسٹی اور قطر و امارات کی جامعات نے رینکنگ کے زینے طے کر کے ٹاپ 100 کی فہرست میں دستک دینا شروع کی ہے، لیکن یہ کوششیں ابھی تشنہ اور محدود ہیں۔ مسلم دنیا کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو محض "ڈگری" اور "سرکاری ملازمت" کا ذریعہ سمجھا، اسے "شعور" اور "تسخیرِ کائنات" کا راستہ نہیں بنایا۔ ہماری درس گاہیں ہر سال لاکھوں گریجویٹس تو پیدا کر رہی ہیں، مگر وہ محقق پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں جو دنیا کو کوئی نیا نظریہ یا ایجاد دے سکیں۔
پاکستان کا تضاد: ایٹمی طاقت اور تعلیمی پسماندگی
جہاں تک ارضِ پاک کا تعلق ہے، تو ہماری کہانی ایک عجیب و غریب تضاد کا مرقع ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات، عالمی پابندیوں کی زنجیروں اور معاشی تنگی کے باوجود ایٹمی طاقت بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ ہم نے خلا کی وسعتوں میں اپنے سیٹلائٹ بھیجے اور جے ایف-17 تھنڈر جیسے جدید جنگی طیارے تیار کر کے دنیا کی بڑی دفاعی قوتوں کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ تمام کارنامے اس بات کی ناقابلِ تردید دلیل ہیں کہ پاکستانی ذہن کی زرخیزی اور ذہانت کسی بھی عالمی معیار سے کم نہیں ہے۔
مگر مقامِ حیرت و افسوس یہ ہے کہ جو ہاتھ ایٹم کے دل کو چیر سکتے ہیں، جو دماغ میزائلوں کی پیچیدہ ریاضی حل کر سکتے ہیں، وہ عالمی تعلیمی رینکنگ میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ پاکستان کی سب سے معتبر درس گاہیں، جیسے قائداعظم یونیورسٹی، نسٹ (NUST) یا پنجاب یونیورسٹی، عالمی سطح پر تیسرے، چوتھے یا پانچویں سو درجے پر آتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ دفاعی میدان میں ہماری حیران کن کامیابی کا راز "قومی ترجیح"، "منظم ڈھانچہ" اور "مستقل مزاجی" تھا، لیکن تعلیمی میدان میں ہم نے ہمیشہ ایڈہاک ازم، سیاسی مداخلت اور بجٹ کی کٹوتی کو آڑے آنے دیا۔
ترجیحات کا المیہ اور معاشی حقیقتیں
ہمیں یہ کڑوی حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ دفاعی حصار ہمیں جسمانی تحفظ تو فراہم کر سکتا ہے، لیکن عالمی برادری میں "علمی وقار" کے بغیر ہم محض ایک کنزیومر سوسائٹی (صارف معاشرہ) بن کر رہ جائیں گے۔ پاکستان کی جی ڈی پی کا محض 1.7 سے 2 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم ہماری ریاست کی ترجیحات میں کس قدر نیچے ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل جیسا چھوٹا ملک اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد کے قریب تحقیق اور ترقی (R&D) پر خرچ کرتا ہے۔
جب تک ہم تعلیم کو "عیاشی" کے بجائے "بقا کی ضرورت" نہیں سمجھیں گے، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ہماری جامعات میں ریسرچ کا کلچر صرف پروموشن کے لیے لکھے گئے مقالوں تک محدود ہو چکا ہے۔ صنعت اور جامعہ (Industry-Academia Linkage) کے درمیان کوئی رشتہ موجود نہیں، جس کی وجہ سے ہماری ڈگریاں مارکیٹ کی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔
آگے کا راستہ: کیا کرنا ہوگا؟
اگر ہم واقعی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے:
* تعلیمی بجٹ میں اضافہ: تعلیم پر خرچ ہونے والے بجٹ کو کم از کم جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لانا ہوگا۔
* سیاسی مداخلت کا خاتمہ: جامعات کو مکمل خود مختاری دی جائے اور وائس چانسلرز کا تقرر صرف اور صرف میرٹ پر ہو۔
* تحقیق پر توجہ: ریسرچ گرانٹس کو بڑھایا جائے اور ایسے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مقامی مسائل (جیسے پانی کی کمی، توانائی کا بحران اور زرعی مسائل) کا حل نکال سکیں۔
* دفاعی اور تعلیمی اداروں کا اشتراک: جس طرح نسٹ اور ایئر یونیورسٹی دفاعی منصوبوں میں مدد کرتی ہیں، اسی طرح دیگر جامعات کو بھی قومی پیداوار کا حصہ بنایا جائے۔
حرفِ آخر
دفاعی فتوحات قوموں کو عارضی فخر اور تحفظ کا احساس دیتی ہیں، لیکن علمی فتوحات انہیں ابدی بقا اور عالمی قیادت عطا کرتی ہیں۔ پاکستان کے پاس ٹیلنٹ کا سیلاب موجود ہے، ضرورت صرف اس بند کو کھولنے اور اسے صحیح سمت دینے کی ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے اس "تحقیقی مزاج" کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا جس نے ہمیں کبھی دنیا کا امام بنایا تھا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قلم کی حرمت کو پہچانیں اور اپنی جامعات کو ایسے منور چراغوں میں بدل دیں جن کی لو سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کا مستقبل روشن ہو سکے۔ ایٹمی طاقت ہونا بلاشبہ ایک اعزاز ہے، مگر "علمی طاقت" ہونا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو صرف ایک مسلح ملک دے کر جانا چاہتے ہیں یا ایک ایسا معاشرہ جو علم، دانش اور تحقیق کا گہوارہ ہو؟ یاد رکھیں، جو قومیں کتاب اور لیبارٹری سے رشتہ توڑ لیتی ہیں، ایٹم بم بھی ان کی معاشی اور فکری غلامی کی زنجیریں نہیں کاٹ سکتا۔