Manqoolat

Manqoolat Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Manqoolat, News & Media Website, .

- founded by Syed Nizamuddin
- a online newspaper
- a source of neutral information
- a channel of authentic facts
- a preserver of our viewers opinions
- independent concepts and information
- digital media Plattform

https://youtu.be/IEd1lSN7zN8?si=-mN_4MYedr5-Dqj4
31/10/2024

https://youtu.be/IEd1lSN7zN8?si=-mN_4MYedr5-Dqj4

Kinder im Kreuzfeuer: Die erschütternde Realität von Millionen Minderjährigen in Krisengebietenبچے جنگ کی آگ میں: بحران زدہ علاقوں میں لاکھوں نابالغوں کی دل ...

https://youtu.be/tZtfo9USR08?si=JywcSa9qBS8MGvrB
28/10/2024

https://youtu.be/tZtfo9USR08?si=JywcSa9qBS8MGvrB

عنوان: "امریکی انتخابات میں مسلم ووٹرز کا کردار: ایک تجزیہ"امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں مسلم ووٹرز کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ...

پاکستان کا تعلیمی بحران: ایک قومی المیہ اورخواب ٹوٹنے کی داستان:پاکستان کا عظیم خواب جو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔  اسکی ت...
25/10/2024

پاکستان کا تعلیمی بحران: ایک قومی المیہ اورخواب ٹوٹنے کی داستان:
پاکستان کا عظیم خواب جو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اسکی تعبیر کی باقیات کو اب بازار میں نیلام کرا جا رہا ہے۔

آج پھر سے پاکستان کی ریاست تعلیم کے شعبے کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اس سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو حلال کرنے کے درپے ہے۔

خبروں کے مطابق پاکستان کی صوبائی حکومتیں پہلے سے دگرگوں حالت میں موجود اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جلد پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

پاکستان کی تعلیمی صورتحال ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ آزادی کے 77 سال بعد بھی ہم اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں 26 ملین سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں، جو کہ سکول جانے کی عمر کے کل بچوں کا تقریباً 39 فیصد ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ہماری موجودہ نسل کے مستقبل کو تاریک بنا رہی ہے، بلکہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کو بھی شدید متاثر کر رہی ہے۔
تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی تعلیم کو اہمیت دی گئی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ "تعلیم ایک قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔" لیکن افسوس کی بات ہے کہ عملی طور پر ہم اس اہم شعبے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے، مختلف حکومتوں نے تعلیمی اصلاحات کا وعدہ کیا، لیکن عملی پیش رفت بہت کم ہوئی۔
اس بحران کی جڑیں ہماری حکومتی پالیسیوں اور ترجیحات میں چھپی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم پر سرکاری اخراجات میں مسلسل کمی آئی ہے۔ 2017 سے 2024 تک، تعلیم پر خرچ کیا جانے والا بجٹ جی ڈی پی کے 2.12 فیصد سے گھٹ کر محض 1.5 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق مطلوبہ 4 فیصد سے بہت دور ہے۔
حکومت کے دعووں کے برعکس، تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ سکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، اساتذہ کی ناکافی تعداد، اور پرانے نصاب جیسے مسائل اس کمی کے واضح ثبوت ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے، جہاں 74 فیصد سکول سے باہر بچے رہتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں نجکاری کی حالیہ لہر نے بھی کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ اگرچہ نجی سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس سے تعلیم مہنگی ہوئی ہے اور غریب طبقے کے لیے ناقابل برداشت بن گئی ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر رہا ہے، جہاں امیر بچوں کو بہتر تعلیمی مواقع ملتے ہیں جبکہ غریب بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس بحران کا ایک اہم پہلو جنسی عدم مساوات ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم خاص طور پر متاثر ہوئی ہے، جہاں 53 فیصد سکول سے باہر بچے لڑکیاں ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انفرادی سطح پر لڑکیوں کے مستقبل کو متاثر کر رہی ہے، بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کو بھی روک رہی ہے۔
مزید برآں، پاکستان میں تعلیمی نظام کی ایک بڑی خامی مختلف نظاموں کا ہونا ہے۔ سرکاری سکول، نجی سکول، مدارس، اور کیمبرج نظام کے سکول، سب اپنے الگ نصاب اور تدریسی طریقوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معیار میں فرق پیدا ہوتا ہے بلکہ سماجی انضمام بھی متاثر ہوتا ہے۔
اساتذہ کی تربیت اور ان کی معاشی حالت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کم تنخواہوں اور پیشہ ورانہ ترقی کے محدود مواقع کی وجہ سے بہت سے اہل افراد تدریس کے پیشے سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، خاص طور پر سرکاری سکولوں میں، تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے دور میں، پاکستان کے بہت سے سکول ابھی بھی بنیادی کمپیوٹر سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ ہمارے طلبہ کو عالمی مقابلے میں پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے اس خلا کو اور بھی واضح کر دیا، جب آن لائن تعلیم کی طرف منتقلی میں بہت سے طلبہ پیچھے رہ گئے۔
اس المناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف تعلیم کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کرنا چاہیے، بلکہ اس کے استعمال کو بھی زیادہ شفاف اور موثر بنانا چاہیے۔ نصاب کی اصلاح، اساتذہ کی تربیت، امتحانی نظام میں تبدیلی اور تعلیمی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مزید برآں، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، خواتین اساتذہ کی تعیناتی، اور معاشرتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آگاہی مہمات شامل ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم صرف ایک شعبہ نہیں، بلکہ ایک قوم کے مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم نے اب اقدامات نہ کیے، تو ہم نہ صرف اپنے بچوں کا مستقبل، بلکہ پاکستان کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں اور اپنے بچوں کو وہ تعلیم دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔

پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں درج ذیل بڑے چیلنجز موجود ہیں:
- سکول سے باہر بچوں کی بڑی تعداد: تقریباً 26 ملین بچے (5-16 سال کی عمر کے) سکول سے باہر ہیں، جو کہ سکول جانے والی عمر کے کل بچوں کا 39% ہے۔
- تعلیمی معیار کی کمی: سکول میں داخل 43 ملین بچے بھی مطلوبہ معیار کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔
- ناکافی سرکاری فنڈنگ: پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.9% تعلیم پر خرچ کرتا ہے، جو کہ عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔
- علاقائی عدم مساوات: بلوچستان اور سندھ کے اکثر اضلاع تعلیمی کارکردگی میں سب سے پیچھے ہیں۔
- صنفی امتیاز: لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں رکاوٹیں موجود ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔
- پرانا نصاب: موجودہ نصاب زمانے کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے اور رٹا سسٹم پر مبنی ہے۔
- اساتذہ کی تربیت کی کمی: بہت سے اساتذہ مناسب تربیت یافتہ نہیں ہیں۔
- بنیادی ڈھانچے کی کمی: بہت سے سکولوں میں بنیادی سہولیات جیسے بجلی، پانی اور بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔
- تعلیمی نظام کی تقسیم: سرکاری، نجی اور مدرسہ نظام تعلیم کے درمیان فرق موجود ہے۔

آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ تعلیمی بحران سے نمٹنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے لیے پورے معاشرے کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ والدین، اساتذہ، سول سوسائٹی، اور کاروباری شعبے کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح ہم اپنے بچوں کو ایک روشن مستقبل دے سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

یہ ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ ہمارا فرض ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی ہمارے ملک کے مستقبل کے ساتھ غداری ہوگی۔ آئیے، ہم سب مل کر پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔






18/10/2024
برسلز میں یورپی یونین اور خلیجی ممالک کی ملاقاتکل بروز بدھ 16 اکتوبر 2024 سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ی...
17/10/2024

برسلز میں یورپی یونین اور خلیجی ممالک کی ملاقات

کل بروز بدھ 16 اکتوبر 2024 سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یورپی یونین برسلز کے دورے پر ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یورپی یونین اور خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے پہلے اجلاس میں شرکت کی۔
انسانی حقوق کے گروپوں کی تنقید کے باوجود، یورپی سفارتکاروں نے ان کی موجودگی کو نظرانداز کیا۔

کل کی ملاقات یورپی میڈیا کے نظروں میں دونوں فریقین کے لئے بہت زیادہ مشکل تھی اور مذاکرات کی حتمی اعلامیے کے لئے بات چیت انتہائی پیچیدہ تھی اور گھنٹوں تک جاری رہی۔

یورپی یونین روس کی سخت مذمت چاہتی تھی، جبکہ خلیجی ممالک ابتدا میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ مشرق وسطیٰ پر مختلف مؤقف خلیجی ممالک نے اسرائیل کی زیادہ سخت تنقید پر زور دیا۔ مشترکہ اعلامیے میں غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا اور اسرائیلی آبادکاری کی مذمت کی گئی۔

- فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار کے ذمیدار
یورپی یونین نئے توانائی کے ذرائع تلاش کر رہی ہے، جبکہ خلیجی ممالک اہم تیل اور گیس برآمد کنندہ ہیں۔

افسوسناک طور پر، امیر عرب خلیجی ممالک اسرائیل اور ایران کے خلاف ایک محتاط حکمت عملی اپنا رہے ہیں، جو مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہیں کرتی۔ اس کے بجائے، وہ یورپی یونین کے ساتھ معاشی مفادات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ یہ ناکافی حمایت فلسطینیوں کی مسلسل دردناک صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مظلومیت اور ان کی آزادی کی جدوجہد کو نظرانداز کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ ان کی آہیں اور دعائیں ہمیں بے چین کر رہی ہیں، لیکن امت مسلمہ کی خاموشی دل کو چیر دیتی ہے۔

- فلسطین کی آزادی: عرب دنیا کی امیدیں اور حقیقت
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی یورپی یونین اور خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی۔ اگرچہ انسانی حقوق کے گروپوں نے تنقید کی، لیکن یورپی سفارتکاروں نے اس پر خاموشی اختیار کی۔ اس اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے مسائل، خاص طور پر فلسطین کے مستقبل پر گہری بحث ہوئی۔
عرب ممالک نے اسرائیل کی سخت تنقید کی اور غزہ اور لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کے ساتھ وہ دو ریاستی حل کے حامی ہیں، جس میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کی حکمت عملی محتاط اور پیچیدہ ہے۔ وہ ایران کو خطے میں اپنا حریف سمجھتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات بھی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ یورپی یونین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
مستقبل میں، عرب ممالک فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہ کوشش زیادہ تر سفارتی اور اقتصادی دباؤ تک محدود رہے گی۔ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ خطے میں اپنے مفادات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ امکان ہے کہ وہ بین الاقوامی فورمز پر فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے، لیکن عملی اقدامات محدود ہوں گے۔
فلسطینیوں کے لیے یہ صورتحال مایوس کن ہو سکتی ہے۔ انہیں اپنے عرب بھائیوں سے زیادہ ٹھوس مدد کی امید ہے، لیکن عرب ممالک کی پیچیدہ سیاسی اور اقتصادی مجبوریاں انہیں فعال کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں۔ آنے والے وقت میں، فلسطین کا مسئلہ عالمی سطح پر زیر بحث رہے گا، لیکن اس کا حل مشکل اور وقت طلب ہو گا۔

ہم فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج کرتے ہیں اور ہمارے دل اس انسانیت سوز مظالم پر رو رہے ہیں۔ اور عرب دنیا کی اس برسلز میں یورپی یونین کے ساتھ ملاقات کو فلسطین کےمسلمانوں اور دنیا میں رہنے ہر خطے کے مظلوم مسلمانوں کے سفیر کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ صرف معاشی اور توانائی کے مختلف دولت کمانے کے مواقع کے علاوہ مسلمانوں کے لئے بھی نتیجہ خیز معاہدے طے کئے جائیں گے۔
الداعی الی الخیر
سید نظام الدین چشتی

صحت مند عمر رسیدگی کے رجحانات: طویل زندگی سے زیادہ اہم ہے صحت مند زندگیآج کل صحت کی تحقیق میں ایک نیا رجحان سامنے آ رہا ...
17/10/2024

صحت مند عمر رسیدگی کے رجحانات: طویل زندگی سے زیادہ اہم ہے صحت مند زندگی

آج کل صحت کی تحقیق میں ایک نیا رجحان سامنے آ رہا ہے جسے "جیروسائنس" کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد صرف زندگی کو لمبا کرنا نہیں، بلکہ صحت مند زندگی کو بڑھانا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں صرف عمر بڑھانے پر توجہ نہیں دینی چاہیے، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت تک صحت مند رہیں۔

اس تحقیق میں بوڑھے ہونے کے عمل کو سمجھنے اور اس کو آہستہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بھی صحت مند اور فعال رہیں۔

یہ ایک اہم موضوع ہے کیونکہ دنیا بھر میں بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہم نہ صرف زیادہ دیر تک زندہ رہیں، بلکہ زیادہ دیر تک صحت مند بھی رہیں۔

Quellen:
[1] Why Healthspan May Be More Important Than Lifespan https://time.com/6341027/what-is-healthspan-vs-lifespan/
[2] Pace of Aging in older adults matters for healthspan and lifespan https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC11071564/
[3] Longevity leap: mind the healthspan gap | npj Regenerative Medicine https://www.nature.com/articles/s41536-021-00169-5
[4] The Emergence of Geroscience as an Interdisciplinary Approach to the Enhancement of Health Span and Life Span https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4817738/

     عنوان: "کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی دولت کہاں جا رہی ہے؟ 😱💰"حیران کن حقیقت: جرمنی میں صرف 36 ارب پتی ملک کی نصف آبا...
02/10/2024


عنوان: "کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی دولت کہاں جا رہی ہے؟ 😱💰"

حیران کن حقیقت: جرمنی میں صرف 36 ارب پتی ملک کی نصف آبادی کے برابر دولت رکھتے ہیں! 🤯
کیا یہ انصاف ہے؟ آپ کیا سوچتے ہیں؟ 🤔
اپنے تجاویز کمنٹس میں لکھیں! 👇

قرآنی حکمت: "تاکہ یہ (مال) صرف تمہارے امیروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔" - سورہ الحشر، آیت 7 📖
کیا یہ آیت آج کی دنیا مسئل کے حل کے لئے مشعل راہ نہیں ہے؟ 🎯
اس آیت کو ہمارے پاکستانی معاشرے میں امپلیمنٹ کرنے کے لئے کیا ضروری ہے۔ اسکے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟ کمنٹس میں بتائیں

اس وقت مملکت پاکستان جہاں بہت ساری معاشی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار وہیں پر ان مشکلات سے نکلنے کے لئے جو حل ڈھونڈے جار...
18/09/2024

اس وقت مملکت پاکستان جہاں بہت ساری معاشی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار وہیں پر ان مشکلات سے نکلنے کے لئے جو حل ڈھونڈے جارہے ہیں وہ کسی بھی طرح مسائل کے حل کی طرف نہی لے کر جارہے۔
ساتھ ہی پاکستانی معاشرے کی کالی بھیڑیں جو کہ اپنے ذات کی خاطر پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہیں انکی نشان دہی بھی ضروری ہے۔
نہایت بے شرمی سے ایسے لوگ صرف فوٹو سیشن اور اخباری سرخیوں کے لئے ہر آنے والے صاحب اختیار کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ہر سیاسی دور طاقت کا ساتھ دیتے ہیں جو ہر دور میں ارباب اختیار کی حمایت کرتے ہیں اور طاقت کے محور سے چمٹے رہنے میں اپنی بقا کا راستہ سمجھتے ہیں ہمیشہ سے ہم لوگوں میں موجود ہیں-
آج کسی ایک ادارے کے نام پر جھوٹے نعرے لگانے والے پاکستان کے دوسرے اداروں کا قلعہ قمع کر نے پر بے سوچے سمجھے تلے ہوئے ہیں۔
ان سب کی نشان دہی نہایت ضروری ہے۔ یہ خوشامدی لوگ اور ذہنیت ہی تمام قوموں کی تباہی کا سبب ہے۔

مندرجہ ذیل میں ہم پاکستان کی سیاسی مستقبل اطراف کی طرز حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک موازنہ پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ ہمارے قارئین کو معلومات پہنچائی جاسکیں کہ پاکستان کو کس طرف لے جایا جارہا ہے-

ایران، مصر، شمالی کوریا، سعودی عرب، اور پاکستان کی حکومتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان ممالک میں موجودہ طرز حکومت اور ان کے درمیان مماثلتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے ساتھ ان کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایران
ایران کی حکومت ایک تھیوکریٹک ریپبلک ہے جہاں سپریم لیڈر کو وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے، ایران میں مذہبی رہنماؤں کا غلبہ ہے جو ملک کی سیاسی اور مذہبی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے تحت، حکومت نے سخت گیر پالیسیوں کو اپنایا ہے اور حالیہ برسوں میں سیاسی اصلاحات کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔
مصر
مصر کی حکومت ایک نیم صدارتی جمہوری نظام پر مبنی ہے، جہاں صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ 2013 میں فوجی بغاوت کے بعد سے، ملک میں سیاسی آزادیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور حکومت پر آمرانہ طرز عمل کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
شمالی کوریا
شمالی کوریا ایک موروثی آمریت ہے جو ایک پارٹی سوشلسٹ نظام کے تحت چلتی ہے۔ یہاں کیم خاندان کی شخصیت پرستی اور سخت کنٹرول کے ساتھ ایک مکمل آمریت قائم ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزادیوں کی شدید کمی کے باعث یہ ملک عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب ایک موروثی بادشاہت ہے جہاں آل سعود خاندان حکومت کرتا ہے۔ یہاں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں پائی جاتی اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل پر پابندی ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔
پاکستان
پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے، جہاں صدر کا انتخاب پارلیمان کرتی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی چیلنجز نے ملک کو متاثر کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور معاشی مسائل جیسے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرامز نے ملکی سیاست کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
مماثلتیں
آمرانہ عناصر: ایران، مصر، شمالی کوریا، اور سعودی عرب میں آمرانہ عناصر موجود ہیں، جہاں سیاسی آزادیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا کردار: سعودی عرب اور شمالی کوریا میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل یا ان کا فعال کردار محدود یا ممنوع ہے، جبکہ ایران اور مصر میں بھی سیاسی جماعتیں محدود آزادی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔
انسانی حقوق: ان ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔
پاکستان کے ساتھ موازنہ
پاکستان میں اگرچہ جمہوری نظام موجود ہے، لیکن سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات نے اسے متاثر کیا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی حکومتی ادارے طاقتور ہیں جو کہ بعض اوقات جمہوری عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں سیاسی جماعتیں فعال کردار ادا کرتی ہیں جو کہ سعودی عرب یا شمالی کوریا کے برعکس ہے۔
ان ممالک کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف طرز حکومت مختلف چیلنجز پیش کرتے ہیں، اور پاکستان کو اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے داخلی سیاسی استحکام اور معاشی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
اور انتہائی سچائی کے ساتھ ان لوگوں کو آگے آنا ہوگا جو قابلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں اور قوم کو مستقبل میں بہتر راستہ پر لیکر جاسکتے پیں۔
بادشاہ کے خوشامدیوں سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
آمین ثمہ آمین
الداعی الی الخیر
سید نظام الدین چشتی

Politik nach dem Solinger Anschlag: Eine Perspektive muslimischer Immigranten:Ich habe lange überlegt was ich über diese...
30/08/2024

Politik nach dem Solinger Anschlag: Eine Perspektive muslimischer Immigranten:
Ich habe lange überlegt was ich über dieses Thema schreiben soll. Leider fehlen mir die Worte und ich kann auf keinster Weise nachvollziehen, was die Verantwortlichen sich vorgestellt haben und wie Sie eine solch abscheuliche Tat begehen konnten. Damit haben sie die Islamische Lehre und die Muslime in den Schmutz gezogen und sie mit den Konsequenzen allein gelassen.

Der Anschlag in Solingen hat nicht nur tiefe Wunden in der deutschen Gesellschaft hinterlassen, sondern auch die muslimische Gemeinschaft in Europa vor Herausforderungen gestellt. Aus der Sicht muslimischer Immigranten stellt sich die Frage, wie solche Taten verurteilt werden können und welche Rolle internationale muslimische Organisationen dabei spielen sollten.

Warum verurteilen internationale muslimische Organisationen solche Taten nicht stärker?
Internationale muslimische Organisationen, die in Europa aktiv sind, stehen oft im Fokus, wenn es um die Verurteilung von extremistischen Taten geht. Diese Organisationen sind auf die politische und finanzielle Unterstützung europäischer Muslime angewiesen. Dennoch wird oft kritisiert, dass sie nicht laut genug gegen Taten wie den Anschlag in Solingen Stellung beziehen.
Verurteilung von Gewalt: Viele muslimische Organisationen verurteilen extremistische Gewalt, jedoch wird dies in der medialen Berichterstattung oft nicht ausreichend hervorgehoben. Die Herausforderung besteht darin, eine klare und einheitliche Stimme gegen Extremismus zu finden, die in der breiten Öffentlichkeit wahrgenommen wird.

Rolle der Medien: Medien spielen eine entscheidende Rolle bei der Verbreitung solcher Verurteilungen. Oftmals wird die Stimme der muslimischen Gemeinschaft in den Medien nicht ausreichend vertreten, was zu einem verzerrten Bild führen kann.
Die Herausforderung der Solidarität in Krisenzeiten
Muslime in Europa fühlen sich oft allein gelassen, wenn es um die moralische Unterstützung in Krisenzeiten geht. Während westliche Länder häufig um Unterstützung gebeten werden, fehlt es in solchen Situationen an sichtbarer Solidarität.

Mangelnde Unterstützung: In Krisenzeiten fehlt es oft an sichtbarer Unterstützung seitens der breiteren Gesellschaft, was zu einem Gefühl der Isolation führen kann. Dies kann die Integration und das Gemeinschaftsgefühl negativ beeinflussen.
Stärkung der Gemeinschaft: Es ist wichtig, dass muslimische Gemeinschaften in Europa ihre Solidarität untereinander stärken und gemeinsam gegen Extremismus auftreten, um ein positives Bild des Islam zu fördern.

Die nächste Generation überzeugen
Die jüngere Generation von Muslimen in Europa steht vor der Herausforderung, islamische Werte von Brüderlichkeit und Zusammenhalt zu bewahren, während sie sich gleichzeitig von extremistischen Taten distanziert.

Bildung und Aufklärung: Bildung spielt eine zentrale Rolle, um junge Muslime über die Gefahren des Extremismus aufzuklären und ihnen zu zeigen, wie sie sich aktiv in die Gesellschaft einbringen können.

Positive Vorbilder: Es ist wichtig, positive muslimische Vorbilder zu fördern, die den Jugendlichen zeigen, dass man islamische Werte leben und gleichzeitig ein aktiver Teil der europäischen Gesellschaft sein kann.

Schutz vor extremistischen Haltungen
Neue Immigranten und Schutzsuchende müssen vor extremistischen Haltungen geschützt werden, um ihre Integration in die Gesellschaft zu fördern.

Präventionsprogramme: Programme zur Prävention von Radikalisierung sind entscheidend, um neue Immigranten vor extremistischen Einflüssen zu schützen. Diese Programme sollten kulturell sensibel gestaltet sein und die spezifischen Bedürfnisse der muslimischen Gemeinschaft berücksichtigen.

Integration und Dialog: Ein offener Dialog zwischen verschiedenen Kulturen und Religionen kann helfen, Vorurteile abzubauen und ein besseres Verständnis füreinander zu entwickeln.
Rechtsextremismus und gesellschaftliche Verantwortung
Rechtsextremismus in Deutschland stellt eine Bedrohung dar, die Muslime oft an den Rand drängt und ihnen nur eine einzige Lösung zu bieten scheint. Die Gesellschaft muss alternative Lösungen anbieten, um verbale und physische Gewalt gegen Muslime zu verhindern.

Gesellschaftliche Verantwortung: Die Gesellschaft als Ganzes trägt die Verantwortung, gegen Rechtsextremismus vorzugehen und Muslime zu schützen. Dies erfordert ein klares Bekenntnis zu Vielfalt und Toleranz.
Politische Maßnahmen: Politische Maßnahmen zur Bekämpfung von Extremismus sollten sowohl islamistischen als auch rechtsextremen Bedrohungen entgegenwirken und die Sicherheit aller Bürger gewährleisten.

Insgesamt ist es entscheidend, dass die muslimische Gemeinschaft in Europa zusammen mit der breiteren Gesellschaft an einem Strang zieht, um Extremismus zu bekämpfen und ein friedliches Miteinander zu fördern. Nur durch gemeinsame Anstrengungen kann ein Umfeld geschaffen werden, in dem alle Menschen unabhängig von ihrer Herkunft oder Religion sicher und respektiert leben können.

جدید کار کے انجن آج کی آٹو میٹو ٹیکنالوجی کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تیار کئے جارہے ہیں۔ جو کہ نہ صرف ماحولیاتی نظام کے...
06/07/2024

جدید کار کے انجن آج کی آٹو میٹو ٹیکنالوجی کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تیار کئے جارہے ہیں۔ جو کہ نہ صرف ماحولیاتی نظام کے لئے بہتر ہیی بلکہ پٹرول کا بھی کم سے کم استعمال کرتے ہیں
آوادی Aavadi انجن ایک جدید اندرونی دہن انجن ڈیزائن ہے جو امریکہ میں تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ 4 اسٹروک، سنگل سلنڈر پٹرول انجن ہے جو پسٹن اور روٹری انجن کے عناصر کو یکجا کرتا ہے۔
Avadi MA-250 انجن کی اہم خصوصیات میں شامل ہیں:
کومپیکٹ اور ہلکا پھلکا ڈیزائن: وزن صرف 23.6 پونڈ (10.7 کلوگرام)
پاور آؤٹ پٹ: 3700 rpm پر 15.8 hp
ٹارک: 3500 rpm پر 22.3 ft-lbs
بریک تھرمل کارکردگی: 42.12٪
روایتی Otto سائیکل انجنوں کے مقابلے میں، Avadi انجن نمایاں طور پر زیادہ موثر ہے۔ اس کی 42.12% بریک تھرمل کارکردگی عام پٹرول انجنوں (تقریباً 20%) کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے اور یہاں تک کہ ٹویوٹا کے جدید 2.5-لیٹر انجن (39% کارکردگی) کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
آوادی انجن موازنہ کرنے والے انجنوں سے بہت ہلکا ہے۔ مثال کے طور پر، اسی طرح کی نقل مکانی کے ساتھ ایک Honda GX240 کا وزن 77.2 lbs (35 kg) ہے، جو Avadi سے تین گنا زیادہ بھاری ہے۔
اگرچہ آوادی انجن وعدہ ظاہر کرتا ہے، مستقبل قریب میں الیکٹرک کاروں کی جگہ لینے کا امکان نہیں ہے۔ یہ اب بھی ایک اندرونی دہن انجن ہے، اس لیے یہ الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کے اخراج کے خدشات کو دور نہیں کرتا ہے۔ تاہم، اس کا کمپیکٹ سائز اور کارکردگی اسے مختلف ایپلی کیشنز کے لیے موزوں بنا سکتی ہے، بشمول پورٹیبل پاور جنریشن، چھوٹی گاڑیاں، اور ممکنہ طور پر ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے رینج ایکسٹینڈر کے طور پر یہ نئی ٹیکنالوجی استعمال ہوسکتی یے۔
#منقولات

- Are Ukrainian Soldiers the New European Taliban?A recent ZDF report sheds light on a comprehensive training mission in...
27/06/2024

- Are Ukrainian Soldiers the New European Taliban?

A recent ZDF report sheds light on a comprehensive training mission initiated by the EU, aiming to equip around 20,000 Ukrainian soldiers with specialized skills by the end of the year. These soldiers are being trained in a range of disciplines, including medical assistance and tank operations.

- European Official Stance: A Resounding No!

Unlike the Taliban, whose rise was marked by fundamentalist ideology and insurgency tactics, Ukrainian soldiers are being prepared to defend their homeland against foreign aggression, specifically from Russia. Their training is part of a broader strategy to bolster Ukraine's defense capabilities and align them with Western military standards.

- Key Differences in Ideology and Objectives

1. **Ideological Basis**: The Taliban's ideology is rooted in a strict interpretation of Sharia law. In stark contrast, the Ukrainian military defends a sovereign, democratic state with aspirations of European integration.

2. **Support and Legitimacy**: The Ukrainian military receives backing from international bodies like the EU and NATO, viewing Ukraine as a bulwark against authoritarianism and a potential future member of the European community.

3. **Training and Tactics**: EU-led training emphasizes modern military techniques, humanitarian principles, and adherence to international law. This sharply contrasts with the guerrilla warfare and insurgency tactics often associated with the Taliban.

- Implications for Europe

The training of Ukrainian soldiers signifies a commitment to European security and stability. It represents an investment in a democratic neighbor under siege, aimed at preventing the spread of conflict and maintaining the international order.

While the provocative question of whether Ukrainian soldiers are the "new European Taliban" sparks debate, it oversimplifies and misconstrues the complex geopolitical and ideological realities at play. Ukrainian soldiers are being trained to uphold democratic values and defend their nation's sovereignty, standing in stark contrast to the Taliban's origins and objectives.

For further details, visit the [ZDF report]( #).
https://www.zdf.de/nachrichten/zdf-morgenmagazin/ukraine-soldaten-ausgebildung-eu-tainingsmission-100.html















🚀✨ "انسائیڈ آؤٹ 2" ایک شاندار فلم ہے جو نوجوانوں میں اضطراب کو ایک مثبت پہلو کے طور پر دکھاتی ہے! 🎬💕 رائلی کی نئی جذباتی...
25/06/2024

🚀✨ "انسائیڈ آؤٹ 2" ایک شاندار فلم ہے جو نوجوانوں میں اضطراب کو ایک مثبت پہلو کے طور پر دکھاتی ہے! 🎬💕 رائلی کی نئی جذباتی مہم جوئی ہمیں نوجوان بچوں کی افزائش کی پیچیدگیوں کو دلچسپ انداز میں دکھاتی ہے۔ 🧠💫 نئے جذبات، جیسے اضطراب اور حسد، رائلی کو زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ 👏😃 دیکھنے والوں کے لیے ایک لازمی فلم! 🎥🔥 💖🌟


ایک تجزیاتی مضمون پوسٹ کے پہلے کمنٹ میں پڑھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں شکریہ

Revolutionary Research on the ISS: Cool Flames to Increase Combustion Engine Efficiency An experiment on the Internation...
10/06/2024

Revolutionary Research on the ISS: Cool Flames to Increase Combustion Engine Efficiency


An experiment on the International Space Station (ISS) has shown that cool flames can significantly increase the efficiency of combustion engines. Currently, the efficiency is about 35%, but by applying cool flames, it could be increased to up to 60%. This would greatly improve the efficiency and environmental friendliness of such engines.

Cool flames burn at around 550 degrees Celsius and offer a promising solution. They could help reduce energy losses and pollutant emissions because they burn at lower temperatures.

Research on cool flames requires a zero-gravity environment, which is why the ISS National Lab was used. A team led by Professor Peter Sunderland from the University of Maryland studied the properties of cool flames in microgravity. These experiments could provide important data for the development of more efficient and environmentally friendly combustion engines.

Current combustion engines lose about 65% of their energy as heat. The application of cool flame chemistry could reduce these losses while also decreasing emissions. Cool flames were first discovered in 1810 and re-examined on the ISS in 2012. This research uses gaseous fuels to explore the conditions for cool diffusion flames.

The results show that cool flames have the potential to significantly increase the efficiency of combustion engines while reducing environmental impact. This could make a significant contribution to the development of more environmentally friendly technologies, even if new combustion cars will be banned in Europe from 2035.

Source: [National Geographic](https://www.nationalgeographic.de/wissenschaft/2022/05/revolutionaere-forschung-auf-der-iss-kuehle-flammen-zur-steigerung-des-verbrennungsmotor-wirkungsgrads)


Source: National Geographic
Image credit: NASA

---

03/06/2024

دریائے رائن اونچے درجے کے سیلاب کے فضائی مناظر




قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔’اے ایمان والو !اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ،کب...
31/05/2024

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’اے ایمان والو !اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ،کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔‘‘"( الحجرات، آيت نمبر: 6)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔‘‘
(صحيح مسلم)

انٹرنیٹ پر ڈی کونٹیکسٹنگ (غیر متعلقہ, جھوٹا سیاق وسباق) کیا ہے، اور ہم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں
اور اس کے پیچھے موجود خطرات کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟

آن لائن ڈی کونٹیکسٹنگ سے مراد معلومات کو اس کے اصل سیاق و سباق سے ہٹانا ہے، جو غلط تشریح اور ممکنہ خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ نکات یہ ہیں:

# # قارئین پر اسکا اثر
- غلط معلومات جو دراصل دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے آسانی سے پھیلایا جاسکتا ہے کیونکہ قارئین میں سیاق و سباق کے مطابق معلومات کی کمی ہوتی ہے-
- لوگوں کو اسکے ذریعے گمراہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اہم پس منظر کی معلومات موجود نہیں ہوتی ہیں-
- جب مواد کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جائے تو تعصب، امتیازی سلوک اور نفرت انگیز مواد لکھا اور پھیلایا جاتا ہے-

# # خطرات کو پہچاننا

- مواد میں جھوٹ کا پتہ لگانے کے لیے مواد اور ذرائع کی تنقیدی چھان بین ضروری ہے-
- مکمل سیاق و سباق کو حاصل کرنے کے لیے متعدد قابل اعتماد ذرائع کا موازنہ کیا جانا چاہیے-
- میڈیا کی خواندگی اور تعلیم غیر متعلقہ ہونے کے خطرات کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں-

خلاصہ یہ کہ، آن لائن غیر سیاق و سباق غلط معلومات، ہیرا پھیری اور یہاں تک کہ نفرت انگیز مواد کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ ہم تک اہم پس منظر کی معلومات نہی پہنچ پاتی ہیں۔ ان خطرات کی شناخت اور ان سے بچنے کے لیے تنقیدی سوچ، میڈیا کی خواندگی اور متعدد خبر اور مواد پہنچانے والے ذرائع کا موازنہ بہت ضروری ہے۔ لہذا کسی بھی خبر یا بات پر یقین کرنے سے پہلے اسکی تصدیق بہت ضروری ہے۔

جاری ہے___

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Manqoolat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Manqoolat:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share