Piyara Watan Web Tv

Piyara Watan Web Tv سائنس کے طالبعلموں کیلئے بہترین پیج Piyara Watan web Tv is web Project of Daily piyara Watan news paper

چاند پر پیشاب اور کائنات کے راز!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنیقیناً آپ اس پوسٹ کا عنوان دیکھ کر حیران ہو رہے ہونگے کہ یہ کیسا...
01/24/2024

چاند پر پیشاب اور کائنات کے راز!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

یقیناً آپ اس پوسٹ کا عنوان دیکھ کر حیران ہو رہے ہونگے کہ یہ کیسا عجیب عنوان ہے مگر اس عنوان کی سمجھ آپکو پوسٹ پڑھ کر ہی آ سکے گی۔

آج سے 54 سال قبل چاند پر پہلا انسانی مشن اُترا۔ اس مشن میں تین خلا باز تھے۔ دو خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرن چاند کی سطح پر اُترے جبکہ تیسرا خلاباز مائیکل کولنز چاند کے گرد مدار میں کمانڈ ماڈیول میں رہا۔ جسکا مقصد چاند پر اُترے خلابازوں سے مشن کے دوران رابطے میں رہنا اور مشن کے مکمل ہونے پر انکی چاند گاڑی "لونر ماڈیول" سے جُڑ کر انہیں واپس زمین پر لانا تھا۔ یہ بات کس قدر دلچسپ ہے کہ مائیکل کولنز چاند کے اتنا قریب گئے مگر وہ نہ اس مشن میں چاند پر اُتر سکے اور نہ ہی اگلے کسی اپالو مشن میں چاند تک جا سکے۔
دسمبر 1972 میں ناسا نے چھٹا اور آخری انسانی مشن چاند پر بھیجا۔ اس مشن کا نام اپالو 17 تھا۔ اس میں بھی ہر مشن کی طرح تین خلاباز تھے۔ جن میں دو چاند پر اُترے جبکہ تیسرا خلا از کمانڈ ماڈیول میں چاند کے گرد چکر کاٹتا رہا۔چاند پر اُترنے والے آخری خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمِٹ تھے۔
یوں چاند پر کُل ملا۔کر 12 خلاباز اُترے۔
اپالو مشنز کے دوران چاند سے مٹی اور چٹانوں کے کئی ٹکڑے زمین پر لائے گئے اور یہاں سے اب ہم اصل مدعے پر آتے ہیں جو تحریر کا عنوان تھا۔
آپ کبھی پہاڑ پر چڑھے ہیں؟ جس قدر بلندی پر جاتے جائیں آپکو ہلکا سامان بھی بھاری لگنا محسوس ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ جس قدر کوئی شے زیادہ ماس رکھتی ہے اسے اس قدر اونچائی تک لے جانے میں زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ ایسے ہی جس قدر کوئی شے بھاری ہو اُسکی رفتار آہستہ کرنے میں یا اسے روکنے میں زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ایک کمرشل جہاز اگر مکمل فیول سے بھرا ہو تو اسے اُڑنے کے لیے زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ فیول سے جہاز کا وزن بڑھتا ہے۔ جیسے جیسے جہاز کا فیول دورانِ پرواز جلتا رہے گا، جہاز کا وزن کم ہوتا رہے گا۔ اب جہاز میں فیول کم ہے اور اسے اُڑنے اور ایک خاص رفتار رکھنے کے لیے بھی کم توانائی درکار ہو گی۔ اسی طرح اگر جہاز میں فیول بھرا ہوا ہے اور اسکا وزن زیادہ ہے تو اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنے میں اور اس قدر اونچائی سے فوراً زمین پر آنے میں مشکلات اور خطرات ہونگے۔ انجن کو رفتار کرنے کے لیے بے حد زور لگانا پڑے گا اور جہاز کے پروں پر بھی شدید دباؤ پڑے گا۔
اس واسطے جب جہاز اُڑتا ہے تو راستے اور فلائٹ کے دورانیے کے مطابق جہاز میں فیول بھرا جاتا یے۔ نہ بے حد کم نہ ضرورت سے زیادہ۔ اور اگر اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑے تو وزن کم کرنے کے لیے جہاز ہوا میں ہی فیول کی اچھی خاصی مقدار خارج یا ضائع کر دیتا ہے۔
اب آتے ہیں خلائی مشن پر ۔ راکٹ جب اُڑتا ہے تو اسے اونچائی تک جانے کے لیے بھی ایندھن درکار ہوتا یے۔ جس قدر راکٹ کا ماس زیادہ ہو گا اس قدر اسے زیادہ ایندھن درکار ہو گا۔ مگر ایندھن کا بھی تو ماس ہے لہذا جرنا زیادہ ایندھن بھریں گےز راکٹ مزجد بھاری ہو گا اور اسے اڑنے کے لیے مزید ایندھن چاہئے ہو گا۔راکٹ کے اوپری حصے پر پے لوڈ ہوتا ہے جس میں انسان بھی ہو سکتے ہیں اور سائنسی آلات، سپیس کرافٹ ، سیٹلائٹ یا خلائی دوربینیں بھی جنہیں خلا میں پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ جس قدر ہے لوڈ کا ماس کم ہو گا اس قدر چھوٹے راکٹ درکار ہونگے، اس قدر کم ایندھن سے راکٹ خلا میں انہیں لے جا سکے گا۔ ایسے ہی انسانی مشنز میں جب انسانوں کو واپس زمین پر آنا ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ماس انکے سپیس کرافٹ یا جہاز میں موجود ہو کہ جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہوں تو ان پر مزاحمت کم سے کم ہو اور انکا سپیس کرافٹ زیادہ وزنی ہونے کے باعث ہوا میں بکھر کر ٹوٹ نہ جائے۔ سو اب آپ یقیناً اس بات کی اہمیت کو سمجھ چکے ہونگے کہ خلائی مشنز میں کم وزن رکھنا کس قدر ضروری اور فائدہ مند ہے۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا خرچ بچتا ہے، مشن پر لاگت بھی کم آتی ہے بلکہ اس سے مشن زیادہ محفوظ بھی رہتا ہے۔

اپالو کے چھ مشنز میں ناسا یہ چاہتا تھا کہ خلاباز چاند پر اُتر کر وہاں سے زیادہ سے زیادہ مختلف طرح کے چاند کی چٹانوں کے ٹکڑے اور مٹی لا سکیں۔ چاند پر مختلف طرح کے گڑھے ہیں جو ماضی میں کئی شہابِ ثاقب کے گرنے سے بنے، اسکے علاوہ چاند کی سطح پر مخلتف طرح کی چٹانیں ہیں جو چاند میں ماضی میں لاوا بہنے سے جمیں۔ ان سب سے ہم چاند کے متعلق ، اسکی ساخت کے متعلق، اسکے بننے کے متعلق اور مستقبل میں یہاں انسانی بستیاں آباد کرنے کے متعلق بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لہذا زیادہ سے زیادہ چٹانوں کے ٹکڑے درکار تھے جو مشن کے وزن میں اضافہ کرتے۔ تاہم دوسری طرف مشن کو بحفاظت زمین پر اُتارنے کے لیے اسکا وزن کم سے کم رکھنا بھی ضروری تھا۔
اس وجہ سے ان مشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئرز نے یہ فیصلہ کیا کہ خلاباز چاند پر واپس آنے سے پہلے مشن کے دوران اکٹھا ہونے والا تمام انسانی فضلہ اور واپسی کے لیے غیر ضروری اشیاء بڑے بڑے پلاسٹک بیگز میں چاند پر ہی چھوڑ آئیں۔ ان میں سے 96 پلاسٹک بیگز میں انسانی فضلہ جیسے کہ پیشاب اُلٹیاں، تھوک، پسینہ وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ اپالو مشنز آٹھ سے 12 دن پر محیط ہوتے جن میں خلاباز دن تین سے چار دن چاند پر جانے میں لگاتے، پھر ایک سے دو دن چاند پر رہتے اور پھر واپس بھی تین سے چار دن میں آتے، لہذا اس دوران اِنکا انسانی فضلہ کافی حد تک جمع ہو جاتا۔ اب خلائی مشنز میں عوامی ٹوائلٹ تو تھے نہیں جس میں 10 روپے چھوٹے کے اور 20 روپے بڑے کے دیکر جان خلاصی کی جا سکتی۔ لہذا خلاباز خصوصی بیگز میں ہی رفع حاجت کرتے۔ یوں اس وقت چاند پر انسانی فُضلے سے بھرے 96 تھیلے موجود ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسہ ہے کہ انسانی فُضلے میں کم سے کم پچاس فیصد وزن، پیٹ اور آنتوں میں 1 ہزار سے زائد قسم کے بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔اسکے علاوہ انسان تھوک، پسینے وغیرہ میں بھی کئی ہزار قسم کے بیکٹریا پائے جاتے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں نے چاند پر ہزاروں بیکٹریاز بھیجے ہیں یعنی زندگی بھیجی ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس قدر سخت درجہ حرارت اور سورج کی تابکاری میں بغیر آکسیجن کے چاند کی سطح پر بیگز میں پڑے یہ کھربوں بیکٹریاز کیانصف صدی کے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہونگے؟ یہ جاننا دلچسپ ہو گا۔

ممکن ہے مستقبل میں جب ہم چاند پر دوبارہ جائیں تو وہاں ان بیگز کو کھول کر انکا تجزیہ کریں اور پائیں کہ زندگی اس قدر مشکل حالات میں بھی پنپپ سکتی یے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوشش ہمارے کئی سوالات کے جوابات اور کئی مسائل کے حل دے سکتی ہے۔ کیسے؟

اول تو یوں کہ ہم جان سکیں گے کہ زندگی کن شدید حالات میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔ لہذا ہم ممکنا طور پر کائنات میں اسے ان جگہوں پر بھی زندگی ڈھونڈیں گے جہاں ہمارے نزدیک زندگی کا ہونا(اس انکشاف سے پہلے،) بعید از قیاس تھا۔
دوسرا یوں کہ لمبے خلائی سفر پر شدید تابکاری اثرات سے بچاؤ کے لیے ہم ان بیکٹریاز میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کو جان کر، مستقبل میں انسانوں میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں کر کے، محفوظ خلائی سفر ترتیب دے سکیں گے۔

اور تیسرا یوں کہ ہم اس امکان کو مزید بہتر طور پر پرکھ سکیں گے کہ مخلتف سیاروں پر زندگی کے بیچ کیا کسی اور سیارے سے اُڑتے شہابیوں میں موجود بیکٹریاز کی بدولت آئے ؟ کیا زمین پر بھی زندگی کسی اور سیارے سے آئی؟ یا زمین پر ہی وجود میں آئی۔

یہ سب اور بہت کچھ محض چاند پر پڑے انسانی فُضلے کے تجزیے سے۔ ہے ناں دلچسپ کہ کائنات کے راز انسانی پیشاب سے کُھلیں گے :)

(نوٹ: دائمی قبض کے مریض اس پوسٹ سے دور رہیں)

اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ...
01/12/2024

اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ہونے اور پانی کے درجہ حرارت پر آنے سے پہلے بجلی کی راڈ کو آف کر دیا جائے تو پانی کی بہت سی حرارت پتیلے میں منتقل ہو جاتی ہے اس لیے پانی جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے- اس کے برعکس جب آگ پر پانی گرم کیا جائے تو پہلے پتیلا گرم ہوتا ہے پھر پانی گرم ہوتا ہے- اس لیے پتیلے کا درجہ حرارت یا تو پانی سے زیادہ ہو گا یا پانی کے برابر ہو گا لیکن پانی سے کم نہیں ہو گا- اس لیے پتیلے کو ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا اور پانی زیادہ دیر تک گرم رہے گا

اس 👇کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ہونے اور پانی کے درجہ حرارت پر آنے سے پہلے بجلی کی راڈ کو آف کر دیا جائے تو پانی کی بہت سی حرارت پتیلے میں منتقل ہو جاتی ہے اس لیے پانی جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے- اس کے برعکس جب آگ پر پانی گرم کیا جائے تو پہلے پتیلا گرم ہوتا ہے پھر پانی گرم ہوتا ہے- اس لیے پتیلے کا درجہ حرارت یا تو پانی سے زیادہ ہو گا یا پانی کے برابر ہو گا لیکن پانی سے کم نہیں ہو گا- اس لیے پتیلے کو ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا اور پانی زیادہ دیر تک گرم رہے گا

01/05/2024
سورج سے قریب مگر سردی!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنزمین کا سورج کے گرد مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ یعنی سال میں زمین کا سورج...
12/09/2023

سورج سے قریب مگر سردی!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

زمین کا سورج کے گرد مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ یعنی سال میں زمین کا سورج کے گرد فاصلہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کم تو کبھی زیادہ۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زمین جب سورج کے قریب ہوتی ہے تو گرمیاں آتی ہیں۔ مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ 3 جنوری کو زمین سورج کے سب سے قریب ہوتی ہے مگر آپ رضائی میں ٹھنڈ سے دبکے مونگ پھلیاں اور دیگر خشک میوہ جات رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں؟ کہ جنوری میں زمین سورج کے سب سے قریب ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں ایک مشکل سا نام دیا جاتا ہے Perihelion اور آپ رضائی میں سر گھسائے سردی کو کوس رہے ہوتے ہیں جبکہ 4 جولائی کو جب زمین سورج سے باقی سال کی نسبت سب سے دور ہوتی ہے جسے Apehlion کہتے ہیں تو آپ اے سی کے سامنے بیٹھے ٹھنڈا پانی پی رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

پہلی بات یہ جان لیں کہ زمین کے دو کرے ہیں۔ شمالی کرہ اور جنوبی کرہ۔ ان دو کروں کو زمین کے درمیان سے گزرتی ایک فرضی لکیر سے تقسیم کیا جاتا ہے جسے خطِ استوا یا ایکوئیٹر کہتے ہیں۔ مملکتِ خداداد یعنی پاک لوگوں کا ملک پاکستان اتفاق سے زمین کے شمالی کُرے پر واقع ہے۔ جب زمین کے شمالی کُرے پر جون میں سخت گرمیاں پڑ رہی ہوتی ہیں تو زمین کے جنوبی کُرے پر واقع ممالک جیسے کہ آسٹریلیا ، برازیل، چِلی وغیرہ میں سردیاں اور برف باری ہو رہی ہوتی ہے اور جب پاکستان اور شمالی کرے پر موجود دیگر ممالک میں لوگ دسمبر میں سردی سے کانپ رہے ہوتے ہیں تو جنوبی کُرے پر واقع ممالک یعنی آسٹریلیا ، برازیل, جنوبی افریقہ وغیرہ میں لوگ ساحلِ سمندر پر فحاشی اور عریانی کی مثالیں بنے ٹی شرٹ یا چڈیوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اور بعض تو محض سلیمانی لباس میں۔

گویا زمین پر موسم ہر جگہ، ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔ شمالی کُرے پر گرمیاں ہونگی تو جنوبی کُرے پر سردیاں ۔ البتہ خط ِ استوا پر واقع ممالک میں سارا سال موسم تقریباً ایک سا رہتا ہے جیسے کہ ایکواڈور ، کینیا وغیرہ۔

دراصل زمین پر سردیوں، گرمیوں، بہار، خزاں جیسے موسموں کا تعلق زمین کا سورج سے فاصلے پر منحصر نہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ زمین کے کس حصے پر سورج کی روشنی کتنی زیادہ پڑتی ہے۔ زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری تک جھکی ہوئی ہے۔ جسکی وجہ سے زمین کے شمالی کرے پر جنوری سے مارچ تک جھکاؤ کم ہوتا ہے جسکے باعث ان مہینوں میں یہاں سورج کی روشنی کم مدت تک پڑتی ہے تبھی سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں جبکہ اسکے بعد متواتر زمین کا جھکاؤ سورج کی طرف بڑھتا جاتا ہے اور موسم مئی جون تک گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔

چونکہ زمین کروی ہے تو اسکا ایک کُرہ جب سورج کی طرف زیادہ جھکا ہوتا ہے تو دوسرا کرہ کم۔ لہذا شمالی اور جنوبی کروں پر موسموں کی ترتیب اُلٹ ہوتی ہے۔ زمین پر درجہ حرارت دراصل زمین کی فضا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کی سورج کی روشنی کو جذب کرنے پر منحصر ہے نہ کہ زمین سے سورج کے فاصلے پر۔ جس قدر زیادہ وقت سورج زمین کے کسی حصے تک روشنی ڈالے گا یعنی جس قدر زیادہ زمین کے کسی حصے کا جھکاؤ سورج کی طرف ہو گا اس قدر زیادہ وقت فضا میں موجود گیسیں سورج کی روشنی کو جذب کریں گی اور زمین کو گرم رکھیں گی۔

پاکستان میں آ جکل سردیاں چل رہی ہیں جبکہ سورج میاں اس وقت زمین کے سب سے قریب ہیں۔ ویسے سردیوں سے یاد آیا فی زمانہ سچے دوست کی نشانی یہ ہے کہ جب آپ سردیوں میں اُسکے گھر جائیں تو وہ آپکی تواضع چلغوزوں سے بھری ٹرے سے کرے۔

جب امریکہ خود چل کر پاکستان آئے گا!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن آج زمین پر آٹھ برِ اعظم ہیں۔ ایشیاء ، یورپ ، افریقہ ، شمالی ...
11/26/2023

جب امریکہ خود چل کر پاکستان آئے گا!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

آج زمین پر آٹھ برِ اعظم ہیں۔ ایشیاء ، یورپ ، افریقہ ، شمالی امریکہ ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا ، انٹارکٹیکا اور ذیلینڈیا۔
ان میں سے آٹھواں برِ اعظم ذی لینڈیا کا رقبہ آسٹریلیا سے آدھا ہے اور اسکا محض 7 فیصد حصہ ہی سمندر سے باہر ہے جس میں نیوزی لینڈ کے جزائر اور بحر الکاہل میں موجود اسکے ساتھ دوسرے ممالک کے چھوٹے چھوٹے جزائر شامل پیں۔

مگر زمین پر ہمیشہ سے آٹھ برِ اعظم نہیں تھے اور نہ ہی یہ ہمیشہ سے وہیں تھے جہاں ہیں۔ اگر آپ آج سے 33 کروڑ سال پیچھے جائیں تو زمین پر اسکے خطِ استوا پر محض ایک ہی بڑا براعظم تھا جسکو سائنسدان آج "پِنجیا" کے نام سے پکارتے ہیں۔ زمین کی اوپری سطح یعنی کرسٹ پر موجود یہ براعظم دراصل اسکے نیچے موجود پگھلی چٹانوں پر تیر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہیں۔ اسے کانٹینٹل ڈرفٹ کہتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی چل رہا ہے۔ زمین پر جو زلزلے آتے ہیں یہ یہ بھی دراصل آپکے پاؤں تلے حرکت کرتی زمین کے باعث آتے ہیں ۔

مگر یہ سب ہمیں کیسے معلوم ہوا۔ ملیے آلفریڈ ویگینر سے۔ یہ صاحب بیسویں صدی کے ایک جرمن سائنسدان تھے۔
ویگینر نے جب دنیا کا نقشہ دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کے برِ اعظم کے درمیان سے اگر سمندر نکال دیا جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ یوں فٹ ہوتے ہیں جیسے کسی بچے کے پزل گیم کے ٹکڑے۔
تاہم یہ کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ میں ملنے والے جانوروں کے فوسلز بھی ایک جیسے ہیں یعنی ماضی میں دونوں براعظموں کے جانور بھی ایک سے تھے تب اس نے خیال ظاہر کیا کہ ماضی میں یہ دونوں بر اعظم آپس میں جڑے ہوئے تھے۔

اس نے اس خیال کو مزید اگے بڑھایا کہ ماضی میں تمام بر اعظم آپس میں جڑے ہوئے تھے جو بعد میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔

ویگینر کے اس خیال کو اس کی زندگی میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ وہ 1950 میں گرین کینڈ میں ایک مہم کے دوران مر جاتا ہے۔
60 کی دہائی میں جب سائنس کی ٹیکنالوجیز نے ترقی کی
اور زمین پر زلزلے اور مقناطیسیت معلوم کرنے کے لیے حساس آلات بنے تو سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ زلزلے زمین پر ہر جگہ نہیں آتے بلکہ مخصوص جگہوں پر آتے ہیں۔ایسے ہی جب انہوں نے سمندروں میں مقناطیسیت ماپنے والے آلات لگائے تو دیکھا کہ زمین کی مقناطیسیت بدلتی ہے۔
ان آلات سے ڈیٹا اکٹھا کر کہ سائنسدان اسی نتیجے پر پہنچے جس پر ویگنر میاں دو دہائیاں پہلے پہنچ چکے تھے۔ کہ ماضی میں بھی اور اب بھی زمین کے بر اعظم مسلسل حرکت میں ہیں۔ سائنسدانوں نے مزید دریافت کیا کہ زمین کی اوپری سطح یعنی کرسٹ 20 ٹیکٹکانک میں ٹوٹی ہوئی ہے جن پر بر اعظم تیر رہے ہیں۔جب ان پلیٹوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے تو ان سے توانائی خارج ہوتی ہے جس سے زلزلے آتے ہیں۔

آپ اگر دنیا کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو آپکو عموماً پہاڑ ان جگہوں پر نظر آئیں گے جہاں دو براعظم یا انکے درمیان ٹیکٹانک پلیٹس ہوں۔
ایسا اس لیے کہ جب ٹیکٹانک پلیٹس آپس میں ٹکراتی ہیں تو ان سے انکے درمیان زمین کی سطح اوپر اٹھتی ہے جو پہاڑوں کی شکل اختیار کرتی ہے۔

پہاڑ دراصل ٹیکٹانک پلیٹو ں کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
انکا زمین کی مضبوطی یا استحکام سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس دیرافت کے بعد آج ہم جانتے ہیں زمین پر بر اعظموں کی تقسیم ہمیشہ ایسی نہیں رہے گی۔ مستقبل میں آج سے 25 کروڑ سال بعد یہ تمام بر اعظم ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ پھر ممکن ہے آپکو امریکہ نہ جانا پڑے۔۔امریکہ خود چل کر پاکستان آ جائے۔ :)

کیا تمام ستارے اور سیارے کسی خاص مدار میں گھومتے ہیں؟تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنکائنات میں ستاروں اور سیاروں کی تعداد کھربوں...
10/29/2023

کیا تمام ستارے اور سیارے کسی خاص مدار میں گھومتے ہیں؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

کائنات میں ستاروں اور سیاروں کی تعداد کھربوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں کئی سیارے اپنے اپنے ستاروں کے گرد گھومتے ہیں جیسے کہ زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر سات سیارے جو سورج جیسے ستارے کے گرد اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
سورج خود ہماری کہکشاں ملکی وے کے مرکز کے گرد 23 کروڑ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ مگر کائنات میں اربوں ایسے سیارے اور اجرامِ فلکی ہیں جو کسی سورج یا ستارے کے گرد نہیں گھومتے۔ انہیں عرفِ عام میں روگ پلینیٹ (Rogue Planets) کہا جاتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق محض ہماری کہکشاں ملکی وے میں 50 ارب سے زائد ایسے روج پلینٹس موجود ہیں جو کسی ستارے کے گرد کسی مدار میں نہیں گھومتے بلکہ یہ بھٹکے یا آوارہ سیارے ہیں۔ جبکہ کائنات میں اِنکی تعداد کھربوں میں ہے۔ ان میں سے بہت سے زمین یا زمین سے کئی گنا بڑی سائز کے سیارے ہیں۔ انہیں زمینی یا خلائی دوربینوں سے ڈھونڈنا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ انکی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ تاہم کئی فلکی مشاہدات سے آج ہم ایسے کئی سیارے ڈھونڈ چکے ہیں۔

ایسے ہی کائنات کے آدھے ستارے کسی کہکشاں کا حصہ نہیں بلکہ کہکشاؤں کے درمیان خلا میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں Rogue Stars کہا جاتا ہے۔ مگر یہ ستارے کہکشاؤں میں ہی بنے۔ بعد میں یہ دو یا دو سے زائد کہکشاؤں کے ضم ہونے سے اپنی کہکشاں سے نکل گئے یا کسی بلیک ہول کے گرد دو ستاروں کے سسٹم میں سے ایک ستارہ غلیل کی طرح کہکشاں سے تیزی سے باہر نکلا اور بھٹک گیا اور آج تک بھٹک رہا ہے۔

سو ایسا ہرگز نہیں کہ کائنات میں تمام ستارے یا سیارے کسی خاص مدار میں گھوم رہے ہیں۔

سائنسدان کیسے معلوم کرتے ہیں فلاں جانور کا فوسل یا چٹان اس زمین پر ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں یا اربوں سال پرانی ہے؟کسی زمان...
10/20/2023

سائنسدان کیسے معلوم کرتے ہیں فلاں جانور کا فوسل یا چٹان اس زمین پر ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں یا اربوں سال پرانی ہے؟

کسی زمانے میں اس زمین پر #ٹرائلوبائٹس، #ڈائنوسارز، #میگلاڈون ایک بہت بڑی شارک اور رہا کرتے تھے۔ اب یہ جاندار اس دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے۔ ہمیں کیسے پتہ چلا ان جانوروں کے بارے میں یہ اس زمین پر موجود تھے اور کس دور میں موجود تھے۔ جب سائنسدانوں نے ان جاندار کے فوسلز ڈھونڈے تو پھر اگلا مشن تھا ان کا یہ پتہ لگایا جائے یہ اس دنیا پر کس دور میں زندہ تھے۔

سائنسدانوں مختلف جاندار کے فوسلز اور چٹانوں کی عمر معلوم کرنے کے لئیے بہت سے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ 1945 کے بعد سائنسدان ان چیزوں کی عمریں جاننے میں کامیاب ہوئے جو کروڑوں یا اربوں سال پرانی تھی۔

اس زمین پر بہت سی ایسی قدیم چٹانیں ہیں جن کے اندر آج بھی ایسا لاوا یا ash موجود ہے جس کے اندر ریڈیو ایکٹیو میٹریل موجود ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ آج بھی unstable ہیں۔ ان چٹانوں کے اندر سے ذرات اور انرجی کا آخراج آج بھی ہو رہا ہے۔ اس نیچرل پروسس کی وجہ سے ریڈیو ایکٹیو میٹریل ان کے اندر سے سڑ رہا ہوتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے ان چٹانوں پر کے بہت سارے وقت کے بعد یہ مکمل طور ان کے اندر سے ختم ہو جاتا ہے۔

اب مختلف ریڈیو ایکٹیو میٹریل کو ان میں سے خارج ہوتے مختلف وقت لگتا ہے۔ اب سائنسدان کیا کرتے ہیں اس ریڈیو ایکٹیو میٹریل میں سے یورینیم کے عنصر کی پیمائش کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی چٹان بہت زیادہ پرانی ہو تو اس کی آدھی زندگی چیک کرنے کے لئیے پہلے U_235 کی پیمائش استعمال ہو گی جس کی آدھی زندگی تقریباً 700 ملین سال ہے اس کے علاوہ U_238 کی آدھی زندگی تقریباً 5۔4 بلین سال ہے اس کے علاوہ کچھ اور ایسے عناصر بھی ہیں جن کی آدھی زندگی اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ سائنسدان کاربن 14 ڈیٹنگ سے بھی عمریں چیک کرتے ہیں مختلف چیزوں کی۔ اس کی آدھی زندگی تقریباً 5730 سال ہوتی یہ زیادہ تر پرانی ہڈیوں یا لکڑی کے اندر موجود ہوتا ہے وہ چیزیں جو پہلے کبھی جاندار تھی 100 سے 50,000 سال سے کم عمر والے فوسلز کو اس طریقہ کار سے چیک کیا جاتا ہے۔

اب ان جانداروں کے وہ فوسلز جو کہیں ملین سال پرانے ہیں ان کی عمریں انہی مختلف طریقہ کار کو سامنے رکھ کر چیک کی جاتی ہیں جن میں غلطی کا امکان ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔۔
تحریر: سہیل افضل

 قسط نمبر4.۔پاکستان_کے10ٹھنڈےترین_علاقے1۔سکردو گلکت بلتستان ۔Skardu یہ شہر پاکستان کے زیر انتظام گلکت بلتستان میی واقع ہ...
10/19/2023


قسط نمبر4.۔پاکستان_کے10ٹھنڈےترین_علاقے

1۔سکردو گلکت بلتستان ۔Skardu
یہ شہر پاکستان کے زیر انتظام گلکت بلتستان میی واقع ہے۔یہ پاکستان کا سب سے ٹھنڈا شہر ہے۔یہ علاقہ سطح سمندر سے 8202 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ دنیا کی چند بلند ترین چوٹیوں میی گھری ہوئی ہے۔جیسے K2 جوکہ 8611 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔گیشربرم Gasherbrum 8068 میٹر ،میشربرم Masherbrum 7821 میٹر بھی یہاں واقع ہے۔اس کے علاوہ دنیا کی دوسری بلند ترین پارک دیوسائی نیشنل پارک Deosai National Park بھی یہاں واقع ہے۔اس کے علاوہ اس کے اوپری علاقے میی دنیا کے چند بڑے گلیشیئر Glacier جیسے بالتورو گلیشیئر Baltoro Glacier بائفو گلیشیئر Biafo Glacier اور چوگو لنگما chogo lungma گلیشیئر بھی یہاں ہیی۔
اب بات کرتے ہیں اس علاقے کی آب ہوا climate کی تو گرمیوں میی یہاں موسم معتدل رہتا ہے اور درجہ حرارت 27 سینٹی گریڈ اور 8 سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے یہاں کا اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 14.9C ہے۔
جبکہ سردیوں میی یہاں درجہ حرارت عموما منفی 10 سینٹی گریڈ سے نیچے رہتا ہےاور بعض اوقات منفی 20 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔اور سب سے کم درجہ حرارت یہاں 7 جنوری 1995 کو 24.1C- ریکارڈ کیا گیاتھا۔
________________________________________
2۔ ناران ( kpk ) Naran
ناران صوبہ خیبر ہختونخوا کے ڈسٹرکٹ مانسہرہ میی واقع وادی کاغان میی واقع ہے۔یہ 7904 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ مشہور بابوسر ٹاپ Babusar Top سے 65 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
یہاں گرمیوں میی موسم معتدل رہتا ہے اور بارشیں ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اوسط درجہ حرارت یہاں پر 9.9 سینٹی گریڈ ہے۔جبکہ سردیوں میی یہاں اوسط کم سے کم درجہ حرارت 0.5C- ہے۔اور یہاں بہت زیادہ مقدار میں برفباری ہوتی ہے۔جبکہ یہاں پر کم سے کم درجہ حرارت 23.9C- ریکارڈ کیا گیا ہے۔
__________________________________________
3۔استور گلکت بلتستان ۔Astore
استور گلکت بلتستان میی واقع استور ڈسٹرکٹ کا دارالحکومت ہے۔یہ علاقہ سطح سمندر سے 8353 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
یہاں گرمیوں میی موسم معتدل رہتا ہے۔اور اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 12.5 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔جبکہ سردیوں میی یہاں ہڈیاں جمانے والے سردی ہوتی ہے۔یہاں سردیوں میی درجہ حرارت عموما نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے۔جبکہ کم سے کم درجہ حرارت یہاں پر 21C- ریکارڈ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ یہاں پر برفباری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔یعنی 2 سے 3 فٹ اور بعض جگھوں پر 6 فٹ تک پڑتی ہے۔ ۔
_________________________________________
4۔پاراچنار۔کرم ڈسٹرکٹ kpk۔ Parchinar
پاراچنار صوبہ خیبر پختونخواہ کے کرم ڈسٹرکٹ میی واقع ہے۔یہ بلکل افغانستان کے سرحد پر واقع ہے اور کابل سے فاصلہ صرف 110 کلومیٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 5594 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔اور گرمیوں میی اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔اور سردیوں میی یہاں تقریبا ہر صبح برفباری ہوتی ہے۔اور کم سے کم درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہےاور یہاں پر سب کم ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت 15C- ہے
________________________________________
5۔کالام سوات ڈسٹرکٹ خیبر پختونخواہ ۔Kalam
کالام مینگورہ سے 99 کلومیٹر کے دوری پر سوات ڈسٹرکٹ کے اوپری علاقے میی واقع ہے۔یہ سطح سمندر سے 6600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے جس میی فلک سر پہاڑ Mount Falaksar کی 5918 میٹر چوٹی بھی واقع ہے ۔گرمیوں میں ہیاں موسم معتدل رہتا ہے اور بارشیں ہوتی ہے جبل سردیوں میی شدید سردی پڑتی ہے اور درجہ حرارت منفی 10 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔جبکہ سب سے کم درجہ حرارت یہاں پر 17C- ریکارڈ کیا گیا تھا۔
__________________________________________
6۔مری۔پنجاب Muree
مری راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے گلیات علاقے میی واقع ایک خوبصورت قصبہ ہے۔یہ اسلام آباد سے 30 کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے ۔اس کا سطح سمندر سے بلندی 7516 فٹ ہے۔اس علاقے کا موسم گرمیوں میی معتدل اور زیادہ بارشیں ہوتی ہے جبکہ سردی میی یہاں سخت سردی پڑتی اور بہت زیادہ برفباری ہوتی ہے۔یہاں سالانہ 62 انچ برفباری ہوتی ہے۔اس علاقے میی سردی میی درجہ حرارت عموما نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہےاور یہاں کم سے کم درجہ حرارت 11C- ریکارڈ کیا گیا ہے۔
_________________________________________
7۔زیارت۔بلوچستان ۔Ziarat
زیارت کوئٹہ سے 130 کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے ۔اس کی سطح سمندر سے بلندی 8343 فٹ ہے۔یہاں جونیپر کے جنگلات ایک لاکھ دس ہزار ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیی۔اور یہاں گرمیوں میی معتدل موسم رہتا ہے۔جبکہ سردیوں میی یہاں شدید سردی پڑتی ہے اور درجہ حرارت منفی میں رہتا ہے۔یہاں ریکارڈ کیا گیا کم سے کم درجہ حرارت 15C- ہے۔یہاں عموما برفباری بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سائبرین ہوائیں یہاں موسم کو اور بھی ٹھنڈا کردیتی ہے۔
__________________________________________
8..قلات ۔بلوچستان۔kalat
قلات صوبہ بلوچستان کے قلات ڈسٹرکٹ کا دارالحکومت ہے۔یہ سطح سمندر سے 6585 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔قلات کی آب ہوا سرد اورخشک ہے۔ہیاں پر گرمیوں میی درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے ۔لیکن سردیوں میی یہاں شدید سردی پڑتی ہے اور بعض اوقات برفباری ہوتی ہے۔ہیاں سردی کی سب سے بڑی وجہ سائبرین ہوائیں ہے جو درجہ حرارت کو مزید گردایتی ہے۔ہیاں کم سے کم درجہ حرارت سردیوں میی نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے اور سب سے کم درجہ حرارت 20 جنوری 1978 کو 17C- ریکارڈ کیا گیا تھا۔
_________________________________________
9۔کوئٹہ بلوچستان ۔Quetta
کوئٹہ صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے اس کا پرانا نام شالکوٹ ہے۔یہ پاکستان کا دسواں بڑا اور بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔یہ 1935 کے مشہور زلزلے میی مکمل طور پر تباہ ہوا تھا لیکن اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
یہ سطح سمندر سے 5510 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہاں پر گرمیوں اور سردیوں کے درجہ حرارت میی بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔گرمیوں میی یہاں اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 24 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔اور بعض اوقات 40 سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔لیکن سردیوں میی یہاں کم سے کم درجہ حرارت عموما نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے۔اور یہاں پر کم سے کم درجہ حرارت 8 جنوری 1970 کو 18.3C- ریکارڈ کیا گیا تھا۔
یہاں برفباری بھی ہوتی ہے لیکن یہ کبھی کبھی ہوتی ہے۔جیسا کہ 1997 پھر 2002 میی بھی کافی برفباری ہوئی۔لیکن سب زیادہ برفباری 2008 میی ہوئی 29 جنوری اور 2 فروری کو بالترتیب 10 اور 25.4 سینٹی میٹر برفباری ہوئی تھی۔حال ہی میی 2017 اور 2019 میی بھی برفباری ہوئی تھی۔یعنی اوسطا 2 سے 3 سال بعد برفباری ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کوئٹہ کے ٹھنڈے پن کی دوسری وجہ برفباری نہیی بلکہ یہاں چلنے والی یخ بستہ سائبرین ہوائیں ہےجو موسم کو شدید سرد رکھتی ہے۔ اور نومبر سے مارچ کے درمیان شدید سردی پڑتی ہے اور اوسط کم سے کم درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے
________________________________________
10۔مالم جبہ سوات ڈسٹرکٹ kpk.Malam jaba
مالم جبہ سوات ڈسٹرکٹ کے ہندوکش پہاڑ کے دامن میی واقع ہے۔اس علاقے کے سطح سمندر سے بلندی 9200 فٹ ہے۔اور یہاں بہت زیادہ برفباری ہوتی ہے۔لیکن درجہ حرارت یہاں سردیوں میی نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہےاور یہاں کم سے کم درجہ حرارت 10C- ریکارڈ کیا گیا ہے۔
_______________________________________

تحریر ۔حمیداللہ

ہم گھاس کیوں نہیں کھاتے؟ زندگی کا ڈیزائندنیا میں سب سے وافر مقدار میں موجود نامیاتی مادہ سیلولوز ہے۔ اس میں اتنی ہی توان...
10/18/2023

ہم گھاس کیوں نہیں کھاتے؟ زندگی کا ڈیزائن

دنیا میں سب سے وافر مقدار میں موجود نامیاتی مادہ سیلولوز ہے۔ اس میں اتنی ہی توانائی موجود ہے جتنی نشاستے میں۔ یہ ہمارے لئے زہریلی بھی نہیں۔ اگر ہم اسے ہضم کرنے کے قابل ہوتے تو پھر ہم کم خوراک سے زیادہ توانائی لے سکتے تھے اور ہماری غذائی ضروریات بہت کم ہو جاتیں لیکن ایسا کیوں نہیں۔ اس کے تفصیلی جواب سے ہمیں زندگی کی ایک اہم منطق کا پتہ لگتا ہے۔

پودوں میں ہڈیاں نہیں۔ انہیں اپنی شکل برقرار رکھنے کے لئے مضبوط چیز درکار ہے اور وہ ہے ان کی خلیاتی دیوار جو کہ سیلولوز سے بنی ہے۔ سیلولوز کا یہ سٹرکچر گلوکوز کے ہزاروں یونٹ سے بنا ہے۔ یہ سٹرکچر جہاں پر اسے مضبوطی دیتا ہے، وہاں پر اس کے مالیکیولز کو توڑنا بھی مشکل بناتا ہے۔ گھاس اور بہت سے دوسرے پودے جن میں یہ سیلولوز زیادہ ہے وہ ہم ہضم نہیں کر سکتے۔

جو ممالیہ جانور اس کو ہضم کر سکتے ہیں، ان کو اس کے لئے کچھ انزائمز درکار ہیں اور وہ آتی ہے ان کے معدے میں پائے جانے والے کچھ جراثیم سے۔ یہ جراثیم اس انزائم کو اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ اس سے ہونے والے ری ایکشن سے ان کو ان کی اپنی خوراک ملتی ہے اور ان مویشیوں اور جراثیم کا باہمی تعاون کا رشتہ ان کے لئے اسے ہضم کرتا ہے لیکن اس کو ہضم کرنے کے لئے وقت چاہیۓ اور یہی وجہ ہے کہ گھاس کھانے والے جاندار اس میں بہت وقت لیتے ہیں۔

یہ انزائم ہمارے جسم میں کیوں نہیں۔ اس کی وجہ ہمارے معدے کی تیزابیت ہے۔ گائے کے معدے کا پی ایچ سات ہے اور ہمارے معدے کا تین سے بھی کم۔ یہ جراثیم اس میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن اگر ہمارے معدے میں اتنی تیزابیت نہ ہوتی تو نہ صرف یہ کہ ہم کچھ اور چیزیں ہضم نہیں کرنے سے رہ جاتے بلکہ اس سیلولوز کو توڑنے کی اہلیت والے دوسرے جانوروں کی طرح شاید پھر ہمیں بھی بہت سا وقت جگالی میں صرف کرنا پڑتا کیونکہ یہ توانائی میں تبدیل ہونے میں وقت لیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر جاندار کی خوراک صرف کچھ طرح کی ہوتی ہے اور نہ ہی ہم گھاس کھا سکتے ہیں اور نہ ہی گائے کبوتر کو۔ ہم صرف پالک یا ہرے پتوں والی وہ سبزیاں کھاتے ہیں جن میں سیلولوز کم ہوتا ہے اور اس سیلولوز کو پھر ہم ہضم نہیں کرتے۔

کیا ہم اس سیلولوز سے کسی طرح کی توانائی حاصل کر سکتے ہیں؟ ہاں، لکڑی جلانا یا بائیوفیول سیلولوز میں چھپی اسی توانائی کا استعمال ہے۔

گائے کے معدے میں یہ پی ایچ سات پر اور ہمارے معدے میں تین سے نیچے ہی کیوں برقرار رہتا ہے؟ ڈی این اے کے بعد زندگی کے ڈیزائن کا سب سے اہم حصہ ہے جسے ہومیوسٹیسس کہتے ہیں۔ اس پر تفصیلی پوسٹ بعد میں۔

ضمنی اضافہ: مویشیوں کے سیلولوز کو ہضم کرنے کے دوران بننے والی بائی پراڈکٹ میتھین ہے، جو کہ ایک گرین ہاؤس گیس ہے۔ اس وقت سالانہ آٹھ کروڑ ٹن میتھین گیس فضا میں اس وجہ سے داخل ہوتی ہے (چارے میں السی یا الفالفا کے استعمال سے اس میں کمی ہو سکتی ہے)۔ فوسل فیولز کے بعد گلوبل وارمنگ کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے۔ یہ ایک اور کڑی ہے اس چیز کی جس سے پتہ لگتا ہے کہ زمین اور زندگی کا رشتہ دو طرفہ ہے۔ زمین کا میٹابولزم زندگی کو شکل دیتا ہے اور زندگی کا میٹابولزم زمین کو۔
تحریر:وہارا امباکر

بلیک ہول کے اندر جانے سے کیا ہوتا ہے ؟رات کے وقت آسمان پر آپ جو ستارے اور سیارے دیکھ رہے ہیں، ان کے درميان میں لاکھوں "ب...
10/16/2023

بلیک ہول کے اندر جانے سے کیا ہوتا ہے ؟

رات کے وقت آسمان پر آپ جو ستارے اور سیارے دیکھ رہے ہیں، ان کے درميان میں لاکھوں "بلیک ہولز" بھی موجود ہیں جو ہم دیکھ نہیں سکتے،کیونکہ ان بلیک ہولز پر ستاروں کی جو روشنی پڑتی ہے۔ یہ اس کو واپس جانے نہیں دیتی، تاکہ ہم انہیں دیکھ سکیں،ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ رفتار بلیک ہولز سے نکلنے کے لٸے ناکافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس سے تیز رفتار چیز یونیورس میں موجود ہی نہیں،،،،،،،، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے بچ نکلنا تقریبا ناممکن ہے۔ وہاں سے کوٸی بھی چیز واپس نہیں نکل سکتی،۔۔ یہ بلیک ہولز بڑے بڑے ستاروں اور سیاروں کو نگل سکتے ہیں۔۔ جو چیز اس کی ایونٹ ہوراٸزن میں آیا، پھر اس کی خیر نہیں، چاہے اس کا ساٸز کتنا ہی بڑا کیوں نا ہوں۔۔۔

ناسا کے مطابق زمین کا قریب ترین "بلیک ہول" 1600 نوری سال کی "دوری" پر ہمارے ملکی وے "کہکشاں" میں واقع ہے، لیکن اس میں صرف یہی ایک بلیک ہول نہیں ہے۔ بلکہ انکی تعداد کافی زیادہ ہے۔۔ بلیک ہول کی گریوٹی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر فوٹانز جیسی تیز رفتار "پارٹیکلز" ان کے مخصوص علاقے میں آگٸے پھر انکو بھی واپس جانے نہیں دیتے جن کا ماس بھی نہیں ہے،، ہمارا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایک ایسی اسپیس کرافٹ میں بیٹھ جاٸیں، جو دو لاکھ اور اسی ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کے قریب ترین "بلیک ہول" کے پاس جائے جو کہ فی الحال نا ممکن ہے۔ لیکن ہم فرض کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اب اگر اسپیس کرافٹ ایونٹ ہوراٸزن کے اندر آگیا،،، تو یقینا آپ بلیک ہول کے اندر جاٸیں گے لیکن اندر کیا ہے؟ کسی کو بھی معلوم نہیں اور نہ ہی ہم معلوم کرسکتے ہیں۔

اب "بلیک ہول"آپ کو "اسپیس کرافٹ" کے ساتھ ساتھ نیچے کھینچے گا، اور اب اگر اسپیس کرافٹ کی رفتار دو لاکھ اور اسی ہزار کی بجاٸے تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ بھی کردیا جاۓ بچنا پھر بھی ناممکن ہے۔۔ آپ اس وقت لاکھ کوششیں کریں تب بھی آپ بلیک ہول کے اندر ہی جاٸیں گے۔ اب فرض کرتے ہیں کہ آپ "بلیک ہول" سے باہر نکل گئے،،،، اور زمین پر واپس پہنچ گئے۔۔ لیکن جب آپ زمین پہ پہنچیں گے تو یہاں سب کچھ بدل چکا ہوگا۔آپ کا دوست آپکا بھاٸی آپ کے گھر کے افراد آپ کے بیٹے کا بیٹا بوڑھا ہو چکا ہوگا۔۔ آپ کو کہیں بھی رشتہ دار نظر نہیں آٸیں گے،،،،، بل کہ وہ سارے مر چکے ہوں گے کیوں کہ اس دوران کافی زمانہ بیت چکا ہوگا۔

لیکن اگر آپکے پاس کوئی ایسی ٹیلی سکوپ ہے، جس پر آپ بلیک ہول کے پاس کھڑے ہوکر "زمین" کی طرف دیکھ سکیں تو آپ خیران ہو جائیں گے کے ایک بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے کچھ لمخے میں بوڑھا ہوکر مرگیا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کو یہ چیز شائد خیران لگے کہ وہ اپنے اسی 80 سال پورے کر کے مرا ہے اور آپکا ایک سال بھی نہیں گزرا آپ تو بس اسے دیکھ رہے تھے۔ جی ہاں یہ بات واضع سچ ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے اب ایسا کیا ہوگیا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ جب آپ بلیک ہول کے اندر گٸے تھے تو آپ کیلٸے ٹائم رُک گیا تھا کیونکہ گریویٹی ٹائم کو سست کر دیتی ہے۔ جتنی زیادہ گریویٹی ہوگی اتنے کم ٹاِئم کی سپیڈ ہوگی۔۔۔۔بلیک ہول میں آپ کیلیے وہ کچھ پل تھے مگر زمین پر وہ ہزاروں سالوں کے برابر ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔فلکیات سے محبت کرنے مجھے ایڈ کرسکتے ہیں آٸی نیچے منشن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

تحریر : Tehsin Ullah Khan

پلیٹلٹس کیا ہیں اور انکے  کم ہونے سے کیا ہوتا ہے؟تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنانسانی خون میں مخلتف طرح کے خلیے ہوتے ہیں جن میں...
10/14/2023

پلیٹلٹس کیا ہیں اور انکے کم ہونے سے کیا ہوتا ہے؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

انسانی خون میں مخلتف طرح کے خلیے ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ سرخ خلیے ہوتے ہیں جنکا کام جسم کے خلیوں تک آکسیجن پہنچانا اور جسم کے خلیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پھیپھڑوں تک لانا ہوتا ہے تاکہ یہ جسم سے خارج ہو سکے۔
ایسے ہی سفید خلیے جسم کا دفاعی نظام ہوتے ہیں یعنی سپاہی جو جسم کو باہر سے آنے والے جراثیم، بیکٹریا ،وائیرس وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں اور ان سے ہر روز لڑتے ہیں۔ خون میں تیسرے اہم خلیہ نما ہوتے ہیں پلیٹلٹس۔ یہ سرخ یا سفید خلیوں کی نسبت زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ انہیں پلیٹلس اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ خوردبین سے انہیں دیکھیں تو یہ پچکے ہوئے پلیٹوں کی طرح کے ہوتے ہیں۔

پلیٹلٹس کا بنیادی کام جسم میں لگنے والے کسی زخم کی جگہ پر اکٹھا ہونا اور خون کو جمانا ہے تاکہ زخم عارضی طور پر بھر جائے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ اگر آپکو کوئی چھوٹا زخم لگے تو وہ تھوڑی دیر کے بعد ایک سرخ تہہ سے بھر جاتا یے۔ یوں باہر سے بیکٹریا یا جراثیم اس کُھلے زخم کے ذریعے جسم میں داخل نہیں ہو سکتے۔

جب کوئی خون کی نالی زخم سے کٹتی ہے تو وہاں سے جسم میں سگنل جاتے ہیں جو جب خون میں موجود پلیٹلٹس کو ملتے ہیں تو وہ زخم کی جگہ پر جمع ہو کر وہاں خون کو جما دیتے ہیں۔ یہ پلیٹلس دراصل زخم کی جگہ پر پہنچ کر یہاں پھیلتے ہیں اور شاخیں سی بنا لیتے ہیں جس سے زخم بھر جاتا یے۔

ایک اوسط اور صحت مند انسان کی ایک ملی لیٹر خون کی بوند میں ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک پلیٹلٹس ہوتے ہیں۔

اگر خون میں پلیٹلٹس کی تعداد اوپر دی گئی تعداد سے بڑھ جائے تو جسم میں غیر معمولی طور پر ہاتھوں، پاؤں یا دیگر اعضا میں خون جم سکتا ہے جو دل کے عارضے کا باعث بن سکتا ہے۔
ایسے ہی اگر خون میں پلیٹلٹس کی تعداد کم ہو جائے تو اس حالت کو thrombocytopenia کہتے ہیں۔کم پلیٹلٹس کی وجہ سے ناک، منہ، معدے یا انتوں سے خون نکل سکتا ہے۔ اگر یہ بیماری شدید ہو اور اس کا بر وقت علاج نہ کرایا جائے تو دماغ میں بھی خون نکل سکتا ہے جس سے مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔

اگر یہ بیماری شدید نہ ہو تو اسکا علاج چند ماہ میں مخلتف ادویات جیسے کہ مخلتف قسم کے سٹیرائڈز سے ممکن ہے تاہم اگر یہ بیماری شدید نوعیت کی ہو تو اسکے علاج میں چند سال لگ سکتے ہیں۔

نوٹ: اس پوسٹ کا مقصد معلومات فراہم کرنا ہے۔ اس سے کوئی طبی مشورہ یا علاج اخذ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر آپکو یہ بیماری ہے تو فورآ کسی طبی معالج سے رابطہ کیجیے ۔ شکریہ

خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔

Address

Montreal, QC
H2X

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Piyara Watan Web Tv posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share