01/24/2024
چاند پر پیشاب اور کائنات کے راز!!
تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن
یقیناً آپ اس پوسٹ کا عنوان دیکھ کر حیران ہو رہے ہونگے کہ یہ کیسا عجیب عنوان ہے مگر اس عنوان کی سمجھ آپکو پوسٹ پڑھ کر ہی آ سکے گی۔
آج سے 54 سال قبل چاند پر پہلا انسانی مشن اُترا۔ اس مشن میں تین خلا باز تھے۔ دو خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرن چاند کی سطح پر اُترے جبکہ تیسرا خلاباز مائیکل کولنز چاند کے گرد مدار میں کمانڈ ماڈیول میں رہا۔ جسکا مقصد چاند پر اُترے خلابازوں سے مشن کے دوران رابطے میں رہنا اور مشن کے مکمل ہونے پر انکی چاند گاڑی "لونر ماڈیول" سے جُڑ کر انہیں واپس زمین پر لانا تھا۔ یہ بات کس قدر دلچسپ ہے کہ مائیکل کولنز چاند کے اتنا قریب گئے مگر وہ نہ اس مشن میں چاند پر اُتر سکے اور نہ ہی اگلے کسی اپالو مشن میں چاند تک جا سکے۔
دسمبر 1972 میں ناسا نے چھٹا اور آخری انسانی مشن چاند پر بھیجا۔ اس مشن کا نام اپالو 17 تھا۔ اس میں بھی ہر مشن کی طرح تین خلاباز تھے۔ جن میں دو چاند پر اُترے جبکہ تیسرا خلا از کمانڈ ماڈیول میں چاند کے گرد چکر کاٹتا رہا۔چاند پر اُترنے والے آخری خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمِٹ تھے۔
یوں چاند پر کُل ملا۔کر 12 خلاباز اُترے۔
اپالو مشنز کے دوران چاند سے مٹی اور چٹانوں کے کئی ٹکڑے زمین پر لائے گئے اور یہاں سے اب ہم اصل مدعے پر آتے ہیں جو تحریر کا عنوان تھا۔
آپ کبھی پہاڑ پر چڑھے ہیں؟ جس قدر بلندی پر جاتے جائیں آپکو ہلکا سامان بھی بھاری لگنا محسوس ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ جس قدر کوئی شے زیادہ ماس رکھتی ہے اسے اس قدر اونچائی تک لے جانے میں زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ ایسے ہی جس قدر کوئی شے بھاری ہو اُسکی رفتار آہستہ کرنے میں یا اسے روکنے میں زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ایک کمرشل جہاز اگر مکمل فیول سے بھرا ہو تو اسے اُڑنے کے لیے زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ فیول سے جہاز کا وزن بڑھتا ہے۔ جیسے جیسے جہاز کا فیول دورانِ پرواز جلتا رہے گا، جہاز کا وزن کم ہوتا رہے گا۔ اب جہاز میں فیول کم ہے اور اسے اُڑنے اور ایک خاص رفتار رکھنے کے لیے بھی کم توانائی درکار ہو گی۔ اسی طرح اگر جہاز میں فیول بھرا ہوا ہے اور اسکا وزن زیادہ ہے تو اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنے میں اور اس قدر اونچائی سے فوراً زمین پر آنے میں مشکلات اور خطرات ہونگے۔ انجن کو رفتار کرنے کے لیے بے حد زور لگانا پڑے گا اور جہاز کے پروں پر بھی شدید دباؤ پڑے گا۔
اس واسطے جب جہاز اُڑتا ہے تو راستے اور فلائٹ کے دورانیے کے مطابق جہاز میں فیول بھرا جاتا یے۔ نہ بے حد کم نہ ضرورت سے زیادہ۔ اور اگر اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑے تو وزن کم کرنے کے لیے جہاز ہوا میں ہی فیول کی اچھی خاصی مقدار خارج یا ضائع کر دیتا ہے۔
اب آتے ہیں خلائی مشن پر ۔ راکٹ جب اُڑتا ہے تو اسے اونچائی تک جانے کے لیے بھی ایندھن درکار ہوتا یے۔ جس قدر راکٹ کا ماس زیادہ ہو گا اس قدر اسے زیادہ ایندھن درکار ہو گا۔ مگر ایندھن کا بھی تو ماس ہے لہذا جرنا زیادہ ایندھن بھریں گےز راکٹ مزجد بھاری ہو گا اور اسے اڑنے کے لیے مزید ایندھن چاہئے ہو گا۔راکٹ کے اوپری حصے پر پے لوڈ ہوتا ہے جس میں انسان بھی ہو سکتے ہیں اور سائنسی آلات، سپیس کرافٹ ، سیٹلائٹ یا خلائی دوربینیں بھی جنہیں خلا میں پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ جس قدر ہے لوڈ کا ماس کم ہو گا اس قدر چھوٹے راکٹ درکار ہونگے، اس قدر کم ایندھن سے راکٹ خلا میں انہیں لے جا سکے گا۔ ایسے ہی انسانی مشنز میں جب انسانوں کو واپس زمین پر آنا ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ماس انکے سپیس کرافٹ یا جہاز میں موجود ہو کہ جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہوں تو ان پر مزاحمت کم سے کم ہو اور انکا سپیس کرافٹ زیادہ وزنی ہونے کے باعث ہوا میں بکھر کر ٹوٹ نہ جائے۔ سو اب آپ یقیناً اس بات کی اہمیت کو سمجھ چکے ہونگے کہ خلائی مشنز میں کم وزن رکھنا کس قدر ضروری اور فائدہ مند ہے۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا خرچ بچتا ہے، مشن پر لاگت بھی کم آتی ہے بلکہ اس سے مشن زیادہ محفوظ بھی رہتا ہے۔
اپالو کے چھ مشنز میں ناسا یہ چاہتا تھا کہ خلاباز چاند پر اُتر کر وہاں سے زیادہ سے زیادہ مختلف طرح کے چاند کی چٹانوں کے ٹکڑے اور مٹی لا سکیں۔ چاند پر مختلف طرح کے گڑھے ہیں جو ماضی میں کئی شہابِ ثاقب کے گرنے سے بنے، اسکے علاوہ چاند کی سطح پر مخلتف طرح کی چٹانیں ہیں جو چاند میں ماضی میں لاوا بہنے سے جمیں۔ ان سب سے ہم چاند کے متعلق ، اسکی ساخت کے متعلق، اسکے بننے کے متعلق اور مستقبل میں یہاں انسانی بستیاں آباد کرنے کے متعلق بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لہذا زیادہ سے زیادہ چٹانوں کے ٹکڑے درکار تھے جو مشن کے وزن میں اضافہ کرتے۔ تاہم دوسری طرف مشن کو بحفاظت زمین پر اُتارنے کے لیے اسکا وزن کم سے کم رکھنا بھی ضروری تھا۔
اس وجہ سے ان مشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئرز نے یہ فیصلہ کیا کہ خلاباز چاند پر واپس آنے سے پہلے مشن کے دوران اکٹھا ہونے والا تمام انسانی فضلہ اور واپسی کے لیے غیر ضروری اشیاء بڑے بڑے پلاسٹک بیگز میں چاند پر ہی چھوڑ آئیں۔ ان میں سے 96 پلاسٹک بیگز میں انسانی فضلہ جیسے کہ پیشاب اُلٹیاں، تھوک، پسینہ وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ اپالو مشنز آٹھ سے 12 دن پر محیط ہوتے جن میں خلاباز دن تین سے چار دن چاند پر جانے میں لگاتے، پھر ایک سے دو دن چاند پر رہتے اور پھر واپس بھی تین سے چار دن میں آتے، لہذا اس دوران اِنکا انسانی فضلہ کافی حد تک جمع ہو جاتا۔ اب خلائی مشنز میں عوامی ٹوائلٹ تو تھے نہیں جس میں 10 روپے چھوٹے کے اور 20 روپے بڑے کے دیکر جان خلاصی کی جا سکتی۔ لہذا خلاباز خصوصی بیگز میں ہی رفع حاجت کرتے۔ یوں اس وقت چاند پر انسانی فُضلے سے بھرے 96 تھیلے موجود ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسہ ہے کہ انسانی فُضلے میں کم سے کم پچاس فیصد وزن، پیٹ اور آنتوں میں 1 ہزار سے زائد قسم کے بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔اسکے علاوہ انسان تھوک، پسینے وغیرہ میں بھی کئی ہزار قسم کے بیکٹریا پائے جاتے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں نے چاند پر ہزاروں بیکٹریاز بھیجے ہیں یعنی زندگی بھیجی ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس قدر سخت درجہ حرارت اور سورج کی تابکاری میں بغیر آکسیجن کے چاند کی سطح پر بیگز میں پڑے یہ کھربوں بیکٹریاز کیانصف صدی کے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہونگے؟ یہ جاننا دلچسپ ہو گا۔
ممکن ہے مستقبل میں جب ہم چاند پر دوبارہ جائیں تو وہاں ان بیگز کو کھول کر انکا تجزیہ کریں اور پائیں کہ زندگی اس قدر مشکل حالات میں بھی پنپپ سکتی یے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوشش ہمارے کئی سوالات کے جوابات اور کئی مسائل کے حل دے سکتی ہے۔ کیسے؟
اول تو یوں کہ ہم جان سکیں گے کہ زندگی کن شدید حالات میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔ لہذا ہم ممکنا طور پر کائنات میں اسے ان جگہوں پر بھی زندگی ڈھونڈیں گے جہاں ہمارے نزدیک زندگی کا ہونا(اس انکشاف سے پہلے،) بعید از قیاس تھا۔
دوسرا یوں کہ لمبے خلائی سفر پر شدید تابکاری اثرات سے بچاؤ کے لیے ہم ان بیکٹریاز میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کو جان کر، مستقبل میں انسانوں میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں کر کے، محفوظ خلائی سفر ترتیب دے سکیں گے۔
اور تیسرا یوں کہ ہم اس امکان کو مزید بہتر طور پر پرکھ سکیں گے کہ مخلتف سیاروں پر زندگی کے بیچ کیا کسی اور سیارے سے اُڑتے شہابیوں میں موجود بیکٹریاز کی بدولت آئے ؟ کیا زمین پر بھی زندگی کسی اور سیارے سے آئی؟ یا زمین پر ہی وجود میں آئی۔
یہ سب اور بہت کچھ محض چاند پر پڑے انسانی فُضلے کے تجزیے سے۔ ہے ناں دلچسپ کہ کائنات کے راز انسانی پیشاب سے کُھلیں گے :)
(نوٹ: دائمی قبض کے مریض اس پوسٹ سے دور رہیں)