Knowledge Verified

  • Home
  • Knowledge Verified

Knowledge Verified all posts on this page will be verified other than intrnet or facebook inshaalah.

24/08/2024

*`پیریاڈک ٹیبل کو ذہن نشین کرنے کا آسان دیسی طریقہ`*

*`Memorization Of Periodic Table`*

*🔰Group I*
H ------ حا ----- Hydrogen
Li ------ لی ----- Lithium
Na ----- نے ---- Sodium
K ------ کی ----- Potassium
Rb ----- رب ---- Rubidium
Cs ----- سے ---- Cesium
Fr ----- فریاد --- Francium

حالی نے کی رب سے فریاد
---------------------------------------------
*🔰Group II*
Be -- بی ---- Berellium
Mg --مگ --- Magnesium
Ca ----کا ---- Calcium
Sr ----- سر --- Strontium
Ba ----- بھا --- Barium
Ra -----را ---- Radium

بی مگ کا سر بھا را
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*🔰Group III*
B ---بو --- Boron
Al ---- آلو ---- Aluminium
Ga ---- گیا --- Gallium
In ----- انڈیا ---- Indium
Tl ----- تیوان --- Thalium
Nh ---- ناروے ---- Nihonium

بو آلو گیا انڈیا تیوان ناروے
---------------------------------------------
*🔰Group IV*
C ------- س---- Carbon
Si ------ سی---- Silicon
Ge ------ گئی --- Germanium
Sn ------ سندھ ---- Tin
Pb ------ پنجاب --- Lead
Fl ------ فری ---- Flerovium

سسی گئی سندھ پنجاب فری
-----------------------------------------------
*🔰Group V*
N ------- نہیں ------ Nitrogen
P -------پا --- Phosphorus
As ------ اس --- Arsenic
Sb ------ سب ---- Antimony
Bi ------- بھائی --- Bismuth
Mc ------ میرے ---- Moscovium

نہیں پاس سب بھائی میرے
----------------------------------------------
*🔰Group VI*
O---او ---- Oxygen
S--- س ---- Sulfur
Se---سی ---- Selenium
Te----تے ---- Tellurium
Po--- پنو ----- Polonium
Lv---لو ----- Livermorium

او سسی تے پنو دا لو
----------------------------------------------
*🔰Group VII*
F --- فر -- Fluorine
Cl --- کل -- Chlorine
Br --- بارات -- Bromine
I --- آئی--- Iodine
At --- انٹی -- Astatine
Ts --- تسلیم -- Tennessine

فر کل بارات آئی آنٹی تسلیم کے گھر
-------------------------------------------

امریکہ اور روس کے درمیان دنیا کے دو بڑے سمندروں (بحر الکاہل اور آرکٹک) کے جمے ہوئے پانی میں یہ دو جزیرے کھڑے ہیں۔ انہیں ...
20/07/2024

امریکہ اور روس کے درمیان دنیا کے دو بڑے سمندروں (بحر الکاہل اور آرکٹک) کے جمے ہوئے پانی میں یہ دو جزیرے کھڑے ہیں۔ انہیں "ڈایامیڈ جزائر" کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بائیں والا بڑا جزیرہ روس کے کنٹرول میں ہے، اور دائیں والا چھوٹا جزیرہ امریکہ کا حصہ ہے۔

دونوں جزیروں میں فاصلہ صرف 3.5 کلو میٹر کا ہے، لیکن دونوں میں ٹائم کا فرق دیکھا جائے تو روس والا جزیرہ امریکہ کے جزیرے سے تقریباً 21 گھنٹے اگے ہے۔ یعنی اگر امریکہ والے جزیرے میں پیر کی دوپہر تین بجے ہوں گے تو روس والے جزیرے میں منگل کی دوپہر کے 12 بج چکے ہوں گے۔ یعنی صرف 3.5 کلو میٹر سفر کرنے پر آپ اگلی تاریخ میں بھی جاسکتے ہیں اور پچھلی تاریخ میں واپس بھی آسکتے۔

اس کے پیچھے کیا چکر ہے، اس کے لیے ہمیں meridians کی لائنوں کو سمجھنا ہوگا جو زمین کے نقشے کو سمجھنے کے لیے شمال سے جنوب کی طرف خیالی طور پر بنائی جاتی ہیں۔

ہماری زمین گول ہے، اور ایک گول دائرے میں 360⁰ ڈگریاں ہوتی ہیں، تو ہم زمین کے نقشے پر شمال سے جنوب 360 لائنیں بنا لیتے ہیں۔ ان لائنوں میں سے ایک لائن انگلینڈ کے علاقے "گرین وچ" سے گزرتی ہے، اسے 0⁰ ڈگری مان لیا گیا، اور یہاں کے وقت کو بھی سٹینڈرڈ مان لیا گیا، جسے "گرین وچ مین ٹائم" یعنی GMT کہا جاتا ہے۔

اس 0⁰ سے مشرق کی طرف ہر 15 لائن گزرنے کے ساتھ وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یعنی مشرق کی طرف ہر 15 ڈگری کے بعد GMT+1۔

جبکہ مغرب کی طرف ہر 15 لائن سے 1 گھنٹہ کم ہوتا جاتا ہے یعنی مغرب کی طرف ہر 15 ڈگری کے بعد GMT- 1۔

اس طرح جب 180⁰ کی لائن آتی ہے تو وہاں مشرق اور مغرب کے وقت میں اتنا فرق پڑ جاتا ہے کہ دونوں اطراف کی تاریخ بدل جاتی ہے، اور اس 180⁰ کی لائن کو انٹرنیشل ڈیٹ لائن کہا جاتا ہے، جو کہ بحر الکاہل میں سے گزرتی ہے۔

البتہ دنیا کے ممالک اس انٹرنیشنل ڈیٹ لائن کو پوری طرح فالو نہیں کرتے، کیونکہ یہ لائن کئی ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، مگر حکومتیں اپنے پورے ملک کا وقت اور تاریخ ایک ہی رکھتی ہیں۔

جیسے پاکستان سے تقریباً 18 لائنز گزرتی ہیں (60⁰سے 77⁰) لیکن ہم پچھہترویں (75th) لائن کے مطابق اپنا ٹائم رکھتے ہیں جو کہ GMT سے پانچ گھنٹے آگے بنتا ہے۔۔۔

20/07/2024

سلطان قطب الدین ایبک۔۔۔۔
1150ء میں ترکستان (ترک، ترکی پھر ترکیہ) کے غریب گھر میں پیدا ہونے والے قطب کے گھرانے کا ایک غلاموں پر مشتمل "ایبک" نامی قبیلے سے تھا۔ دور جہالت تھا، ابھی لڑکپن ہی تھا، والدین نے اپنے سے جدا کر کے نشاپور میں لگنے والی غلاموں کی منڈی میں بولی لگا کر اسے بیچ ڈالا، اسے آگے فخرالدین عبد العزیز کوفی، قاضی، تاجر اور ابوحنیفہ کی اولاد میں سے ایک نے خرید لیا۔
گھر پہنچ کر قاضی نے بچے سے اس کا نام ہوچھا، کمسن غلام نے نام بتانے سے انکار کر دیا:
" اگر نام بتا دیا تو یہ میرے نام کی توہین ہو گی، اب آپ کا غلام ہوں، جس نام سے پکاریں گے، وہی میرا نام ہو گا"
قاضی کو بچے سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی حیرت ہوئی اور اس کا جواب اچھا لگا کہ ابھی بچہ ہے، غلام ہے، عزت نفس کا کتنا احساس رکھتا ہے۔ رحمدل قاضی نے مشقت لینے کی بجاے اس کی اچھی تربیت، تعلیم اور پرورشں کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹے غلام پر خاص توجہ دی۔
بچہ شروع سے ہی بہادر تھا، جنگجوانہ مشاغل کھیلنے سے شوق رکھتا۔ بہت کم عرصے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تلوار، نیزہ بازی اور تیراندازی میں مہارت حاصل کر لی۔ قاضی غلام کی صلاحیتیں دیکھ کر حیران رہ جاتا۔
-----------
سلطان شہاب الدین غوری، غزنی کا شہنشاہ، ایک روز شاہی گھڑ دوڑوں کا مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ قاضی غلام کو لے کر سلطان کے پاس پہنچ گیا:
" سرکار، ساری سلطنت میں اس غلام کا گھڑ سواری میں کوئی مقابل نہ ثانی ملے گا"
سلطان خوبصورت، صحت مند، سانولہ، پرکشش رنگت والے نوجوان غلام کو دیکھ کر مسکرایا۔ جنگلی گھوڑا وحشی تصور کیا جاتا یے، جسے تربیت دینا مشکل ترین کام یے۔ غلام سے پوچھا:
" گھوڑے کو کتنا تیز دوڑا سکتے ہو؟"
غلام نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا:
" حضور, گھوڑے کو تیز دوڑانے میں کوئی مہارت نہیں، اصل مہارت اسے اپنا تابع بنانا ہے"
سلطان نے ستائشگی سے غلام کو دیکھا، ایک بہترین گھوڑے کی لگام غلام کے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا، کچھ دور دوڑا کر واپس لے آیا، انتہائی انوکھی بات یہ ہوئی کہ گھوڑا واپسی پر اپنے سُموں کے جن نشانات پر چل کر گیا تھا، انہیں قدموں واپس لایا۔ یہ سب دیکھنے والوں کے لئیے نہایت ناقابل یقین تھا، اس سے پہلے ایسی مہارت کبھی کسی میں دیکھی گئی تھی۔ سلطان غلام کی مہارت سے نہایت متاثر ہوا۔ جو جانور کو اپنا تابع و مطیع بنا سکتا ہے اس کے لئیے انسانوں کو فرمانبردار بنانا مشکل نہیں ہو گا
سلطان نے اسی وقت غلام کو منہ بولے دام دے کر مصایب خاص میں شامل کر لیا۔
ایک روز سلطان دربار میں بیٹھا خوش ہو کر غلاموں کو تحائف تقسیم کر رہا تھا، غلام خاص نے وہ تمام ضعیف غلاموں میں بانٹ دئیے۔ سلطان یہ دیکھ کر اسے مزید پسند کرتے اعلیٰ ترین عہدے " امیر خور" پر ترقی دے دی، پھر شاہی اصطبل کا سربراہ مقرر کر دیا جہاں سینکڑوں مال بردار اور جنگی تربیت یافتہ گھوڑوں کو ہمہ وقت سلطنت کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ غلام نے رفتہ رفتہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا مزید قرب حاصل کر لیا۔
1192ء کو سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کیا 42 سالہ غلام کو پہلے یہاں کا گورنر اور پھر شاہی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اگلے سال نوجوان غلام سپہ سالار نے سلطان کے حکم پر پڑوسی دشمن قنوج پر چڑھائی کر دی، پہلے سے بڑھ کر سپہ گری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ سلطان نے غلام کو اپنا فرزند بنا کر "فرمان فرزندی" کے اختیارات دے دئیے اور دو میں سے ایک نایاب ترین قیمتی سفید ہاتھی اسے انعام میں دیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسلام اپنے عروج پر اور سارا یورپ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبا پڑا تھا۔ اسلامی تاریخ کا ایک بہادر غلام سپہ سالار، قطب الدین ایبک پھر وہ عظیم حکمران بنا جس نے دہلی فتح کر کے یہاں سب سے پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔ یہاں سے غلام قطب الدین کا ستارہ چمکتا رہا، اس کی افواج گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا، دوآبہ، بہار اور بنگال میں اسلام کا سبز پرچم لہراتی داخل ہو گئیں۔
15 مارچ 1206ء کو سلطان محمد غوری کو جہلم کے قریب گکھڑوں قبیلے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا ہڑا، غلام پاس نہیں تھا، یہ مارا گیا۔
23 جون 1206ء کو لاہور میں ایبک کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ قطب الدین ایبک کی زندگی کا سارا زمانہ فتوحات میں گزرا، کبھی شکست نہیں کھائی۔ تخت پر بیٹھ کر سب سے پہلے عظیم ترین سلطنت پر توجہ دی۔ بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت کا امن و امان قائم رکھنے میں گزرا۔ عالموں کا قدر دان، فیاضی اور داد و درویشی سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے مشہور ہوا۔
یکم نومبر 1219ء لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے گھوڑے سے گر کر راہ ملک عدم ہوا، انار کلی بازار لاہور کے ایک کوچے ایبک، اب ایبک روڈ میں دفنا دیا گیا۔
از، کتاب "خدا اور میں"

18/07/2024

رقبے کے اعتبار سے کینیڈا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اتنا بڑا ملک کہ اس کا جغرافیہ دس ملین اسکوائر کلو میٹر پہ محیط ہے اور اتنا بڑا ملک کہ اس کی کوسٹل لائین یعنی ساحل سمندر ایک لاکھ پچیس ہزار پانچ سو ستر میل طویل ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک کی کوسٹل لائین سے کہیں زیادہ ہے ۔ سوچیئے زرا اس ملک کے چھ ٹائم زون ہیں جو روس کے بعد شائد دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔

دنیا کے نقشے میں شمالی امریکا کے حصے پہ نظر ڈالیں تو امریکا کے کندھوں پہ سوار اور الاسکا کے چرنوں میں موجود کینیڈا بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس تک پھیلا ہوا نظر آئے گا ۔

اگر اب بھی آپ اس ملک کی وسعتوں کا اندازہ نہیں کر پائے تو چلئے اس طرح سمجھ لیجئے کہ اس ملک کی غیر آباد زمینوں پہ لاکھوں بحریہ ٹاؤن اور لاکھوں ڈی ایچ اے بھی بن جائیں تب بھی قبضہ کرنے کو بہت سی زمین بچ رہے گی ۔
اب تو سمجھ گئے ناں ؟

آپ کی دلچسپی کے لیئے بتاتا چلوں کہ اس کثیرالجہتی زبانوں کے ملک میں یوں تو سو سے زیادہ زبانیں بولنے والے آباد ہیں مگر یہاں کی قومی زبانیں انگریزی اور فرانسیسی ہیں ۔واضح رہے کہ کینیڈا کا ابتدائی اور اصل نام KANATA بھی فرانسیسی زبان کا لفظ ہے ،جس کے معنی ہیں “ گاؤں یا آبادی “ ،پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ لفظ بگڑتے بگڑتے بلکہ سنورتے سنورتے کینیڈا بن گیا ۔ کینیڈا کے نام میں تبدیلی کا عمل تو یہاں تک آکر رک گیا لیکن کینیڈا کے سنورنے کا عمل آج تک جاری ہے ۔

قطب شمالی کی قربت کی وجہ سے برف ، بارشیں ، سرد ہوائیں اور برفانی طوفان کینیڈا کا مقدر ٹھہرے۔ شائد اسی لیئے کینیڈا کے بعض علاقوں کو “ برف کا جہنم “ بھی کہا جاتا ہے ۔برف اور اتنی برف کہ الحفیظ الامان ۔ تاہم یہاں کے سرد ترین موسموں میں مقامی لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنا اور زندگی کو سہل بنانا یہاں کی حکومتوں ، اداروں اور پیشہ ورانہ ماہرین کا ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی تعریف بھی کی جائے کم ہے ۔ کینیڈین حکومت نے جو انفرا اسٹرکچر بنایا اور جیسے نظام وضع کیئے اس پر آنکھ ششدر اورعقل حیران رہ جاتی ہے ۔
سردیوں میں یہاں کا درجۂ حرارت مائینس چالیس سے مائینس پچاس تک بھی چلا جاتا ہے جب کہ ٹمپریچر مائنس ۶۲ تک جا نے کا ریکارڈ بھی موجود ہے ۔

یہاں کی تین بڑی جماعتیں لبرلز ، کنزرویٹو اور این ڈی پی ہیں جو سیاست کے افق پہ نمایاں رہتی ہیں ۔ لبرلز اقتدار میں آجائیں تو ایسی قانون سازی کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آئیں ، پڑھیں لکھیں ، تجارت کریں اور کینیڈا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ کنزرویٹو( یعنی دقیانوسی) آجائیں تو صورت حال اس کے برعکس ہو جاتی ہے ۔

یہاں کا قومی کھیل آئس ہاکی ہے ، قومی کھیل نہ کہیں ، قومی جنون کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ آئس ہاکی میں دنیا کو سب سے زیادہ غیر معمولی کھلاڑی بھی کینیڈا ہی نے فراہم کیئے ہیں , گرمیوں میں کینیڈین کا قومی کھیل لیک روسس بن جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ باسکٹ بال بھی یہاں کا پسندیدہ ترین کھیل ہے ۔ اس کھیل کو تخلیق کرنے ، بنانے اور دنیا میں متعارف کروانے کا سہرا بھی کینیڈین اپنے سر باندھتے ہیں ۔

کینیڈا کے جھنڈے پہُ بنے ہوئے پتے کو بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیںُ مگر میپل لیف maple leaf کو آج پہلی بار ہاتھ میں لے کر اور چھو کر دیکھا تو اچھا لگا ۰۰ یہ وہی میپلُ ہے جس کا شربت (syrup) دنیا میں سب سے زیادہ کینیڈا بناتا اور فروخت کرتا ہے ۔

یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ کینیڈا کا قومی جانور “ بجو” ہے ۔
ہمارے ہاں تو بجو عموما” قبرستان میں پائے جاتے ہیں اور” قبر کے بجو “ کہلاتے ہیں ۰۰۰ایسے میں بجو قومی جانور کیسے قرار پایا ؟ اس پر تحقیق ہنوز باقی ہے ۔ میری اس تحریر کو ابھی تشنہ اور نا مکمل ہی سمجھیں ۰۰۰ قسط نمبر ۲ بہت جلد آپ کے مطالعے کے لیئے پیش کردی جائے گی ۰۰ بس ساتھ ساتھ رہیے گا ۰۰۰
سلیم مغل صاحب کی وال سے منقول

04/07/2024

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔
بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

12/05/2024
04/05/2024

کیا واقعی پاکستان چاند پر جا رہا ہے؟

جی بالکل، پاکستان چاند پر جا رہا ہے۔ پاکستان کا تیار کردہ سیٹلائٹ چینی مشن کے ساتھ چینی راکٹ کے ذریعے چاند کے مدار تک پہنچے گا۔ اور تین سے چھ ماہ تک مدار کے گرد چکر لگا کر چاند کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا لے کر پاکستان میں قائم زمینی اسٹیشن تک بھیجے گا۔

کیوبک سیٹلائٹ کا وزن بہت کم ہے تو اس کی اہمیت کیا ہے؟

اول یہ کیوبک نہیں کیوب سیٹلائٹ ہے۔ جس کا نام "آئی کیوب قمر" ہے۔ کیوب سیٹلائٹ چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں۔ جن کا وزن چند کلوگرام ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ راکٹ کے وزن سے سیٹلائٹ کے وزن کا موازنہ کر رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ یہ سچ ہے کہ کیوب سیٹلائٹ کا وزن محض چھ کلوگرام ہے۔ لیکن راکٹ کے وزن سے اس کا موازنہ نہیں بنتا۔ راکٹ میں فیول اور دیگر میکنزمز کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اپنے راکٹ کے ذریعے خلاء میں مشن بھیجنا ہمیشہ مہنگا سودا ہوتا ہے۔ جسے پاکستان نے چین کے ذریعے طے کیا۔

پاکستانی سیٹلائٹ میں خاص کیا ہے؟

کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ آئی کیوب قمر کو تیار کرنے کے لیے دو سال لگے۔ انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کی جانب سے تیار کردہ اس سیٹلائٹ کو بنانے میں الیکٹریکل، میٹیریئل سائنس، ایوی آنکس، ایرو سپیس، میکینکل انجینیئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے طلبا و ماہرین نے محنت کی۔ اس میں علیحدہ ہونے والے میکنزم، سٹار سینسر، ماونٹنگ بریکٹ اور کمیونیکیشن سسٹم نصب کیا گیا ہے۔ اس کی مدد سے چاند کی تصاویر بھیجی جا سکیں گی۔ جو کہ مستقبل میں مزید تحقیق اور تعلیم کے کام آ سکیں گی۔

اس مشن میں پاکستان کے لیے خاص کیا ہے؟

دیکھیں، دنیا کے چھ ممالک ایسے ہیں جو براہ راست اپنے خرچ یعنی اپنے راکٹس کی مدد سے چاند یا اس کے مدار تک جا سکے ہیں۔ یہ ممالک امریکہ، روس، چین، بھارت، جاپان اور یورپی یونین ہیں۔ جبکہ ان کے علاؤہ جنوبی کوریا، لگزمبرک اور اٹلی وہ ممالک ہیں جو امریکی و چینی راکٹوں کے سہارے چاند تک پہنچے ہیں۔(بی بی سی)
اور اب پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو اس فہرست میں شامل ہوا ہے۔ یوں یہ بات پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے آٹھ ممالک نے اس مشن کے ذریعے اپنا سیٹلائٹ مفت بھجوانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن ان میں قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا۔ اور اس کی وجہ آئی ایس ٹی کے تیار کردہ پرپوزل کا سب سے بہتر ہونا بنی۔

کیا اس مشن کا موازنہ بھارتی چندریان سے کیا جا سکتا ہے؟

ہرگز نہیں۔ بھارت نے اپنی کم خرچ ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند پر مشن بھیجا۔ جبکہ پاکستان چینی راکٹ کے سہارے چاند پر جا رہا ہے۔ ویسے بھی دونوں مشنز کا تکنیکی و دیگر موازنہ نہیں بنتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے مشن کو بے کار سمجھیں۔ ہمارا مسئلہ یہی کہ دو انتہاؤں پر سوچتے ہیں۔ یا تو براہ راست خود کو چاند پر سمجھ رہے ہیں یا پھر اس مشن کی اہمیت سے ہی سرے سے انکار۔۔۔۔ جبکہ بات ان انتہاؤں سے ہٹ کر ہے۔

ماضی میں سپارکو اس سے کہیں آگے تھا تو اب ڈھول بجانے کی کیا ضرورت؟

کب تک ماضی کو پیٹتے رہیں گے؟ آخر کہیں سے تو ابتداء کرنی ہے۔ آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھتے کہا تھا کہ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی بہت بڑی چھلانگ ہے۔ بعینہٖ پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا یہ چھوٹا کیوب سیٹلائٹ ایک بہت بڑے روشن دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے طلباء میں تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھلیں گی۔

کیا اس مشن کی سوشل میڈیا پر اتنی تشہیر کی جانی چاہیے؟

جی بالکل، اس مشن کا تذکرہ پواڑی گرل، چاہت فتح علی خان ، لاہور دا پاوا، پروگرام وڑ گیا، ویڈیو لیک وغیرہ وغیرہ جیسی فضولیات سے ہزار ہا درجے بہتر ہے۔ پاکستان اور پاکستانی طلباء کی جانب سے بہت اچھا قدم ہے۔ جتنی تحسین و ستائش کی جائے اتنی کم ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر ڈسکس کیا جانا چاہیے۔ اور خود پر فخر کریں۔ آج نہیں تو کل ہم ان شاءاللہ اس قابل بھی ہوں گے کہ ہمارے اپنے خلائی مرکز سے راکٹ پروان بھریں گے اور چاند پر موجود کالونیوں تک انسانوں کو لے کر جائیں گے اور وہاں سے آگے مریخ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ "سیاروں" سے آگے جہاں اور بھی ہیں.
آخر ہزار میل لمبے سفر کی شروعات بھی گھر سے اٹھائے گئے پہلے اور چھوٹے سے قدم سے ہی ہوتی ہے۔
اس لیے فخر کیجیے، شکر کیجئے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے۔ اس پر بات کیجیے۔ نوجوانوں میں ایسے موضوعات کو فروغ دیجیے۔

اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیے۔
کاپیڈ: ندیم رزاق کھوہارا

24/04/2024

تاریخ اسلام۔ عہدِ خلافت سیدنا حسن بن علی ؓ
*نام و نسب و حلیہ وغیرہ:*
حسن بن علی بن ابی طالب۔ خلفاء راشدین میں سب سے آخری خلیفہ سمجھے جاتے ہیں، آپ نصف شعبان ۳ ھ میں پیدا ہوئے، آپ کی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت مشابہ تھی، آپ کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکھا تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ نام کسی کا نہ تھا۔
امام بخاری نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ممبر پر تشریف رکھتے تھے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں بیٹھے تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف اور کبھی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور یہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں مصالحت کرائے گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، حدیث: ۲۷۰۴)
*سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔*
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک روز سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھا رکھا تھا، ایک شخص راستے میں ملا، اس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا کہ میاں صاحبزادے! تم نے کیا اچھی سواری پائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔
*رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت:*
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اہل بیت میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ مشابہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے
*خصائلِ حمیدہ:*
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نہایت حلیم، صاحب وقار، صاحب حشمت اور نہایت سخی تھے، فتنہ و خون ریزی سے آپ کو سخت نفرت تھی، آپ نے پیادہ پا پچیس حج کئے، حالانکہ اونٹ گھوڑے آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔

عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ صرف سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ جب بات کرتے تھے تو میں چاہتا تھا کہ آپ باتیں کئے جائیں اور اپنا کلام ختم نہ کریں اور آپ کی زبان سے میں نے کبھی کوئی فحش کلمہ نہیں سنا۔
مروان بن الحکم جب مدینہ کا عامل تھا اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی بعدِ ترکِ خلافت مدینہ ہی میں رہتے تھے تو مروان نے ایک مرتبہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی کی زبانی کہلا بھجوایا کہ تیری مثال خچر کی سی ہے (نعوذ باللہ) کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون تھا تو وہ کہتا ہے کہ میری ماں گھوڑی تھی۔
آپ نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں یہ بات کبھی نہ بھولوں گا کہ تو مجھے بلا سبب گالیاں دیتا ہے، آخر ایک روز تجھ کو اور مجھ کو خدا تعالیٰ کے سامنے جانا ہے، اگر تو اپنے قول میں سچا ہے تو خدائے تعالیٰ تجھ کو سچ بولنے کی جزائے خیر دے اور اگر تو جھوٹا ہے تو خوب یاد رکھ کہ خدائے تعالیٰ سب سے زیادہ منتقم ہیں۔
جریر ابن اسماء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو مروان آپ کے جنازہ پر رونے لگا، حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تو تُو روتا ہے اور زندگی میں ان کو ستاتا رہا، مروان نے کہا جانتے بھی ہو، میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا جو پہاڑ سے بھی زیادہ حلیم تھا۔
علی بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ اپنا مال راہ خدا میں خیرات کیا اور تین مرتبہ نصف نصف خیرات کر دیا، یہاں تک کہ ایک جوتا رکھ لیا، ایک دے دیا، ایک موزہ رکھ لیا اور ایک دے دیا۔ آپ عورتوں کو طلاق بہت دیا کرتے تھے، بجز اس کے جس کو آپ سے محبت ہو جاتی، حتیٰ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ سے کہنا پڑا کہ تم میرے بیٹے حسن کو لڑکیاں نہ دو، لیکن ہمدان نے کہا کہ ہم سے یہ نہ ہو گا کہ لڑکیاں ان کے نکاح میں نہ دیں۔
ایک مرتبہ آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تونگری سے مفلسی کو اور تندرستی سے بیماری کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا ان پر رحم کرے، میں تو اپنے آپ کو بالکل خدا کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں اور کسی بات کی تمنا نہیں کرتا، وہ جو کچھ چاہے کرے، مجھے دخل دینے کی کیا مجال ہے۔
آپ نے ربیع الاول ۴۱ ھ میں خلافت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو اس کے بعد آپ کے دوست جب آپ کو عارالمسلمین کے نام سے پکارتے تو آپ فرمایا کرتے کہ عار (شرمندگی) نار (دوزخ) سے بہتر ہے۔
ایک شخص نے آپ سے کہا کہ اے مسلمانوں کو ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو، تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ مجھے یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ تم کو ملک کے لیے قتل کرا دیتا۔
جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ افواہ ہے کہ آپ پھر خلافت کے خواہشمند ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب اہل عرب کے سر میرے ہاتھ میں تھے جس سے چاہتا لڑا دیتا اس وقت میں نے محض خوشنودی الہی کے لیے خلافت چھوڑ دی تو اب محض اہل حجاز کو خوش کرنے کے لیے کیوں قبول کرنے لگا تھا۔
آپ نے ماہ ربیع الاول ۵۰ ھ میں وفات پائی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی شہادت زہر کے ذریعہ ہوئی۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ہر چند آپ سے معلوم کرنا چاہا کہ آپ کو کس نے زہر دیا؟ مگر آپ نے نہ بتلایا اور فرمایا کہ جس پر میرا شبہ ہے اگر وہی میرا قاتل ہے تو خدائے تعالیٰ سخت انتقام لینے والا ہے، ورنہ میرے واسطے کوئی کیوں ناحق قتل کیا جائے۔
*سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قابل تذکرہ واقعات:*
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وفات کے وقت دریافت کیا گیا تھا کہ آپ کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اپنے حال میں مشغول ہوں، تم جس کو پسند کرو، اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینا، لوگوں نے اس کو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق اجازت سمجھ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی، سب سے پہلے قیس ابن سعد ابن عبادہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد اور لوگ بھی آ آ کر بیعت کرنے لگے، بیعت کے وقت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ لوگوں سے اقرار لیتے جاتے تھے کہ:
''میرے کہنے پر عمل کرنا، جس سے میں جنگ کروں تم بھی جنگ کرنا اور جس سے میں صلح کروں تم بھی اس سے صلح کرنا۔''
اس بیعت کے بعد ہی اہل کوفہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ ان کا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں معلوم ہوتا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے لیے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا لقب اختیار کیا اور اگرچہ وہ اہل شام سے فیصلہ حَکمین کے بعد ہی بیعت خلافت لے چکے تھے، لیکن اب دوبارہ پھر تجدید بیعت کرائی۔
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جب سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیز ملحدین سے جہاد کرنے پر بیعت کرتا ہوں، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا تھا کہ قتال وجہاد وغیرہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں شامل ہیں، ان کے علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں، اسی فقرہ سے اہل کوفہ کو مذکورہ سرگوشی کا موقع ملا تھا اور ان کو شبہ ہو گیا تھا کہ یہ جنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تجدید بیعت کے کام سے فارغ ہو کر اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر دمشق سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ صلح جنگ سے بہتر ہے اور مناسب یہی ہے کہ آپ مجھ کو خلیفہ وقت تسلیم کر کے میرے ہاتھ بیعت کر لیں، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہ سیدنا امیر معاویہ کوفہ کا عزم رکھتے ہیں، چالیس ہزار کا لشکر اپنے ہمراہ لیا اور کوفہ سے روانہ ہوئے، منزلیں طے کرتے ہوئے جب مقام دیر عبدالرحمن میں پہنچے تو قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو بارہ ہزار کی جمعیت سے بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا، ساباط مدائن میں پہنچ کر لشکر کا قیام ہوا تو وہاں کسی نے یہ غلط خبر مشہور کر دی کہ قیس بن سعد مارے گئے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے یہاں ایک روز قیام کیا تاکہ سواری کے جانوروں کو آرام کرنے کا موقع مل جائے، اس جگہ آپ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور حمدو ثنا کے بعد کہا کہ:
'' لوگو!تم نے میرے ہاتھ پر اس شرط کے ساتھ بیعت کی ہے کہ صلح وجنگ میں میری متابعت کرو گے، میں خدائے برتر و توانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ کو کسی سے بغض و عداوت نہیں، مشرق سے مغرب تک ایک شخص بھی مجھ کو ایسا نظر نہیں آتا کہ میرے دل میں اس کی طرف سے رنج و ملال اور نفرت و کراہت ہو، اتفاق و اتحاد، محبت و سلامتی اور صلح و اصلاح کو میں نااتفاقی اور دشمنی سے بہر حال بہتر سمجھتا ہوں۔
*خوارج کی طرف سے امام حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ:*
اس تقریر کو سن کر خوارج اور منافقین نے فوراً لشکر میں یہ بات مشہور کر دی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنا چاہتے ہیں، پھر ساتھ ہی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگانے کی رسم منافقوں اور سبائیوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، انہی لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا، کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج ہمارے زمانے کے بڑے بڑے اعلم العلماء اور افضل الفضلاء کہلانے والے جبہ پوش مفتی منافقوں اور مسلم نما یہودیوں کی اس پلید سنت کے زندہ رکھنے اور امت محمدیہ کے شیرازہ کو اپنی تکفیر بازی و فتویٰ گیری کے خنجر سے پارہ پارہ اور پریشان کرنے میں پوری مستعدی و سرگرمی کو کام میں لا رہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
غرض اس کفر یہ فتوے کا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر پر یہ اثر ہوا کہ تمام لشکر میں ہلچل مچ گئی، کوئی کہتا تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کافر ہو گئے، کوئی کہتا تھا کہ کافر نہیں ہوئے، آخرکار کافر کہنے والوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے اپنے مخالف خیال لوگوں پر زیادتی اور مار دھاڑ شروع کر دی، پھر بہت سے لوگ کافر کافر کہتے ہوئے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے خیمے میں گھس آئے اور ہر طرف سے آپ کا لباس پکڑ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا، یہاں تک کہ آپ کے جسم پر تمام لباس پارہ پارہ ہو گیا، آپ کے کاندھے پر سے چادر کھینچ کر لے گئے اور ہر چیز خیمے کی لوٹ لی، یہ حال دیکھ کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قوم ربیعہ و ہمدان کو آواز دی، یہ دونوں قبیلے آپ کی حمایت و حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بدمعاشوں کو آپ کے پاس سے دفع کرنے میں کامیاب ہوئے، کچھ دیر کے بعد وہ شور و شر جو لشکر میں برپا تھا فرو ہوا، وہاں سے آپ شہر مدائن کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں ایک خارجی نے جس کو جراح بن قبیصہ کہتے تھے موقع پا کر آپ کے ایک نیزہ مارا جس سے آپ کی ران زخمی ہوئی، آپ کو ایک چار پائی یا سر پر اٹھا کر مدائن کے قصر ابیض میں لائے اور وہیں آپ مقیم ہوئے، عبداللہ بن حنظل اور عبداللہ بن ظبیان نے جراح بن قبیصہ خارجی کو قتل کیا، قصر ابیض میں آپ کے زخم کا علاج جراحوں نے کیا اور جلد یہ زخم اچھا ہو گیا۔
قیس بن سعد جو بارہ ہزار کا لشکر لے کر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ ہوئے تھے، مقام انبار میں مقیم تھے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آ کر ان کا محاصرہ کر لیا اور عبداللہ بن عامر کو تحریک صلح کے لیے مدائن کی طرف بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا، ادھر مدائن میں پہنچ کر اور اپنے لشکر والوں کی یہ بدتمیزیاں دیکھ کر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ پہلے ہی صلح کا ارادہ کر کے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد یعنی عبداللہ بن حارث بن نوفل کو جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے مع درخواست صلح روانہ کر چکے تھے۔
عبداللہ بن عامر کو مدائن کے قریب پہنچا ہوا سن کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے مع لشکر مدائن سے نکلے، عبداللہ بن عامر نے اپنے مقابلہ پر لشکر کو آتا ہوا دیکھ کر اور قریب پہنچ کر اہل عراق کو مخاطب کر کے کہا کہ میں لڑنے کے لیے نہیں آیاہوں، میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقدمۃ الجیش ہوں اور امیر معاویہ انبار میں بڑے لشکر کے ساتھ مقیم ہیں، تم لوگ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں میرا سلام پہنچاؤ اور عرض کرو کہ عبداللہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ لڑائی سے ہاتھ روکو تاکہ ہلاکت سے بچ جائیں۔
سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو مدائن میں واپس چلے آئے اور عبداللہ کے پاس پیغام بھیجا کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوں، بشرطیکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میری چند شرطیں منظور کر لیں جن میں سب سے مقدم یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتاب و سنت پر عامل رہنے اور سابقہ مخالفتوں کو فراموش کر کے کسی کے جان و مال سے تعرض نہ کرنے اور ہمارے طرف داروں کو جان کی امان دینے کا وعدہ کر لیں، والصلح خیر۔
عبداللہ بن عامر یہ سن کر فوراً سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گئے اور کہا کہ چند شرطوں کے ساتھ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تفویض خلافت پر آمادہ ہیں، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ شرطیں کیا ہیں؟ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ جب تم فوت ہو جاؤ تو تمہارے بعد خلافت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ملے، دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم زندہ رہو ہر سال پانچ لاکھ درہم سالانہ بیت المال سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے رہو، تیسری شرط یہ ہے کہ علاقہ اہواز و فارس کا خراج امام حسن رضی اللہ عنہ کو ملا کرے۔
یہ تینوں شرطیں عبداللہ بن عامر نے بطور خود سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کر کے پھر وہ شرطیں سنائیں جو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہلا کر بھجوائی تھیں۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو یہ تمام شرطیں منظور ہیں اور سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ان کے علاوہ بھی کوئی اور شرط پیش کریں گے تو وہ بھی مجھ کو منظور ہے، کیونکہ ان کی نیت نیک معلوم ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں میں صلح و آشتی کے خواہاں نظر آتے ہیں، یہ کہہ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید کاغذ پر اپنی مہر و دستخط ثبت کر کے عبداللہ بن عامر کو دیا اور کہا کہ یہ کاغذ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ جو جو شرطیں آپ چاہیں اس کاغذ پر لکھ لیں، میں سب کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ صلح پر آمادہ ہیں تو وہ ان کے پاس آئے اور اس ارادے سے باصرار باز رکھنا چاہا، لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو پسند نہ فرمایا۔ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے اہل کوفہ اور اہل عراق کو دیکھ رہے تھے، دوسری طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انتظام ملکی اور نظام حکومت کی مضبوطی بھی ان کے پیش نظر تھی، لہذا صلح کے ارادے پر قائم رہے۔
*سیدنا امام حسن ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان صلح نامہ:*
جب عبداللہ بن عامر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مہری و دستخطی کاغذ لے کر آئے اور تمام پیش کردہ شرائط کا تذکرہ کیا تو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس شرط کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد میں خلیفہ بنایا جاؤں، کیونکہ کہ اگر مجھ کو خلافت کی خواہش ہوتی تو میں اسی وقت کیوں اس کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا؟ اس کے بعد اپنے کاتب کو بلایا اور صلح نامہ لکھنے کا حکم دیا، جو اس طرح لکھا گیا۔
'' یہ صلح نامہ حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان لکھا جاتا ہے، دونوں مندرجہ ذیل باتوں پر متفق اور رضا مند ہیں۔''
*امرِ خلافت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمان مصلحتِ وقت کے مطابق جس کو چاہیں گے خلیفہ بنائیں گے، معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور زبان سے سب اہل اسلام محفوظ و مامون رہیں گے اور معاویہ رضی اللہ عنہ سب کے ساتھ نیک سلوک کریں گے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلقین اور ان کے طرفداروں سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی تعرض نہ کریں گے، حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلقین کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی ضرر نہ پہنچائیں گے اور یہ دونوں بھائی اور ان کے متعلقین جس شہر اور جس آبادی میں چاہیں گے سکونت اختیار کریں گے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے عاملوں یا گماشتوں کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ ان کو اپنا محکوم سمجھ کر اپنے کسی ذاتی حکم کی تعمیل کے لیے مجبور کریں، صوبہ اہواز کا خراج حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہنچاتے رہیں گے، کوفہ کے بیت المال میں جس قدر روپیہ اب موجود ہے، وہ سب امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت سمجھا جائے گا، وہ اپنے اختیار سے اس پر جس طرح چاہیں گے تصرف کریں گے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کو انعام و عطیہ میں دوسروں پر مقدم رکھیں گے۔
اس عہد نامہ پر عبداللہ بن الحارث بن نوفل اور عمروبن ابی سلمہ وغیرہ کئی اکابر کے دستخط بطور گواہ اور ضامن کے ہوئے، جب یہ صلح نامہ مرتب ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس مقام انبار میں پہنچا تو وہ بہت خوش ہوئے، وہاں سے محاصرہ اٹھا کر اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو آزاد چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بھی اسی روز شام کو مع اپنے ہمرائیوں کے کوفہ میں پہنچ گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں پہنچ کر امام حسن رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ سے بیعت لی، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا اور مسجد میں نہ آئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس بھی ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط ثبت کر کے بھیج دیا اور کہلا بھجوایا کہ جو کچھ تمہاری شرطیں ہوں اس پر لکھ لو مجھ کو منظور ہوں گی، انہوں نے صرف اپنی اور اپنے ہمراہیوں کی جان کی امان چاہی، مال وغیرہ مطلق طلب نہ کیا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی شرط کو منظور کر لیا، اس کے بعد انہوں نے اور ان کے ہمراہیوں نے بھی آ کر بیعت کر لی۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت سے انکار کیا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اصرار ہوا تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ سے اصرار نہ کریں، آپ کی بیعت کرنے کے مقابلہ میں ان کو اپنا فخر عزیز تر ہے، یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے، لیکن بعد میں پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی، اس سفر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حسن رضی اللہ عنہ سے فرمائش کیجئے کہ وہ مجمع عام کے رو برو ایک خطبہ بیان فرمائیں، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا اور ان کی درخواست کے موافق سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ:
*مسلمانو! میں فتنے کو بہت مکروہ رکھتا ہوں، اپنے جد امجد کی امت میں فساد اور فتنے کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کے لیے میں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور ان کو امیر اور خلیفہ تسلیم کیا، اگر امارت اور خلافت ان کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا تو میں نے ان کو بخش دیا۔*
*رسول الله ﷺ کی پیشگوئی:*
اس کے بعد صلح کے تمام مدارج طے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ پیشگوئی بھی جو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ نے ارشاد فرمائی تھی پوری ہو گئی کہ:
*’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا‘‘* (صحیح بخاری، کتاب الصلح، حدیث: ۲۷۰۴)
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ منبر سے اترے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بےساختہ ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ:
'' ابو محمد! آپ نے آج اس قسم کی جواں مردی اور بہادری دکھائی ہےکہ ایسی جواں مردی اور بہادری آج تک کوئی بھی نہ دکھا سکا۔''
یہ صلح ۴۱ ھ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چھ ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی، اس لیے ۴۱ ھ کو عام الجماعت کے نام سے موسوم کیا گیا۔
بعد تکمیل صلح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے اور جب تک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ زندہ رہے، ان کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑی تکریم و تعظیم کا برتاؤ کیا اور برابر ان کی خدمت میں حسب قرار داد صلح نامہ روپیہ بھیجتے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوفہ سے واپس چلے جانے کے بعد اہل کوفہ نے آپس میں یہ چرچا کرنا شروع کیا کہ یہ صوبہ اہواز کا خراج تو ہمارا مال غنیمت ہے، ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ہرگز نہ لینے دیں گے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سن کر اہل کوفہ کو جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کی کہ:
اے اہل عراق! میں تم سے بار بار درگزر کر چکا ہوں، تم نے میرے باپ کو شہید کیا، میرا گھر بار لوٹا، مجھے نیزہ مار کر زخمی کیا، تم دو قسم کے مقتولین کو یاد رکھتے ہو، ایک وہ لوگ جو صفین میں مقتول ہوئے، دوسرے وہ جو نہروان کے مقتولین کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو معاملہ تم سے کیا ہے، اس میں تمہاری کوئی عزت بھی نہیں اور انصاف بھی یہی ہے، پس اگر تم موت پر راضی ہوتو میں اس صلح کو فسخ کر دوں اور تیغ تیز کے ذریعہ فیصلہ طلب کروں اور اگر تم زندگی کو عزیز رکھتے ہوتو پھر میں اس صلح پر قائم رہوں۔
یہ سنتے ہی ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ صلح قائم رکھئے، صلح قائم رکھئے۔ بات یہ تھی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی کم ہمتی اور بیوقوفی سے خوب واقف تھے، انہوں نے صرف دھمکی سے ان کو سیدھا کرنا مناسب سمجھا۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اب بلا اختلاف عام عالم اسلام کے خلیفہ ہو گئے، سیدنا سعد بن ابی وقاص جو معاملات ملکی سے قطع تعلق کر کے اونٹوں اور بکریوں کے چرانے اور گوشہ نشینی کے عالم میں مصروف عبادت رہتے تھے، انہوں نے بھی سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی، غرض کوئی ایسا قابل تذکرہ شخص باقی نہ رہا جس نے جلد یا کچھ تامل کے بعد سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ وقت تسلیم کر کے بیعت نہ کی ہو۔
بعد انعقادِ صلح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ چند روز کوفہ میں رہے، پھر کوفہ کی سکونت ترک کر کے مع جملہ متعلقین مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، اہل کوفہ تھوڑی دور تک بطریق مشایعت ہمراہ آئے، مدینہ آ کر پھر آپ نے کبھی کسی دوسری جگہ کی سکونت کا قصد نہیں فرمایا۔
*زہر کا افسانہ:*
۵۰ ھ یا ۵۱ ھ میں آپ نے وفات پائی، عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو آپ کی بیوی جعدہ بنت الاشعث نے زہر دیا تھا، مگر جب کہ خود سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی تحقیق نہ ہو سکا کہ زہر کس نے دیا اور کیوں دیا تو دوسروں کا حق نہیں ہے کہ وہ سیکڑوں ہزاروں برسوں کے بعد یقینی طور پر اسے مجرم قرار دیں۔
وفات کے وقت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک خلافت پہنچی اور تلواریں میانوں سے نکل آئیں اور یہ معاملہ طے نہ ہوا، اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں نہیں رہ سکتیں، یہ بھی ایک اندیشہ ہے کہ سفہائے کوفہ تم کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کریں گے تم ان کے فریب میں نہ آنا، میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے کہا تھا کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت دے دیں، اس وقت تو انہوں نے مان لیا تھا، اب لوگوں کا خیال ہے کہ تم پوچھو گے تو نہ مانیں گی، مگر میرے بعد تم ان سے پھر دریافت کرنا، اگر وہ اجازت نہ دیں تو اصرار نہ کرنا۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے بسرو چشم منظور ہے، لیکن جب مروان نے یہ خبر سنی کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے اجازت دے دی ہےتو وہ مانع ہوا، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسلح ہو کر چلے، مگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور کشت و خون کے ارادے سے باز رکھا، چنانچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ ماجدہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس دفن کر دیا گیا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے نو بیٹے اور چھ بیٹیاں کل پندرہ اولاد تھیں۔
*خلافت حسنی پر ایک نظر:*
بعض مؤرخین نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شش ماہ خلافت کو خلافت راشدہ میں شامل نہیں سمجھا، کیونکہ وہ قلیل مدت کے لیے تھی اور نامکمل تھی، نا مکمل کہنا اس لیے نا درست ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی پھر تو نا مکمل کہہ کر خلافت راشدہ سے خارج کرنا پڑے گا، حالانکہ یہ جائز نہیں، مدت خلافت کا کم ہونا بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اگر صبرو سکون کے ساتھ نظر ڈالی جائے تو وہ خلافت راشدہ کا نہایت ہی اہم حصہ ہے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت اگرچہ ملکی فتوحات اور جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے خالی ہے، لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جنگ کے میدان گرم کئے اور خون کے دریا بہائے بغیر اسلام اور عالم اسلام کو اس قدر فائدہ پہنچا دیا جو شاید بیسیوں برس کی خلافت اور سینکڑوں لڑائیاں لڑنے کے بعد بھی نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔
خدمت اسلام کے اعتبار سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ یقیناً خلفاء راشدین کے پہلو بہ پہلو جگہ پانے کا حق رکھتے تھے، انہوں نے دس سال کی خانہ جنگی کو جس کے دور ہونے کی توقع نہ تھی، یک لخت دور کر دیا، انہوں نے منافقوں اور مسلم نما یہودیوں کی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں کو جو دس سال سے نشونما پا کر اب بہت طاقتور اور عظیم الشان ہو چکی تھیں، یکایک درہم برہم کر دیا اور شرارت پیشہ لوگ حیران و مبہوت ہو کر ان کا منہ تکنے لگے۔
انہوں نے دس سال سے رکی ہوئی فتوحات اسلامی کو پھر جاری ہونے کا موقع دیا، انہوں نے مشرکین کے اطمینان کو جو دس سال سے مسلمانوں کی خانہ جنگی کا تماشا مزے لے کر دیکھ رہے تھے، برباد کر دیا۔
انہوں نے ان خارا شگاف تلواروں اور آہن گداز نیزوں کا رخ دشمنان اسلام کی طرف پھیر دیا، جو اس سے پہلے مسلمانوں کی گردنیں اڑانے اور سینے زخمی کرنے میں مصروف تھے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر بہادری کا نمونہ دکھایا، جب کہ کوفہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، ان کے اپنے ان مختصر الفاظ سے کہ:
*اگر امارت و خلافت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا تو میں نے ان کو بخش دیا۔*
نہ صرف اسی زمانے کے مسلمانوں کو عظیم الشان درس معرفت حاصل ہوا، بلکہ قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی رہبری کا عظیم الشان کام انجام دینے کی غرض سے خونخوار و بے پناہ سمندروں کی تاریکیوں میں ایک لائٹ ہاؤس قائم ہو گیا۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار جنگجو فوج موجود تھی، یہ فوج خواہ کیسے ہی بے وقوف اور متلون مزاج لوگوں پر مشتمل ہو اور ان سے کیسی ہی گستاخیاں بھی سرزد ہوئی ہوں، لیکن اہل شام اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑنے اور مارنے مرنے کا حلف سب اٹھائے ہوئے تھے، ایسی حالت میں ایک ۳۷ سال جوان العمر، جنگ آزمودہ اور بہادر باپ کا بیٹا اپنے باپ کے رقیب اور مد مقابل سے دو دو ہاتھ کئے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا تھا۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ یہ بھی جانتے تھے کہ تمام عالم اسلام اس بات سے واقف ہے کہ ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کس قدر محبت تھی اور ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ اس بات کا موقع حاصل تھا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی حمایت و ہمدردی کو تھوڑی سی مدت اور بڑی آسانی سے اپنی طرف جذب کر سکیں، ہم چشموں بھائیوں، ماتحتوں، جنگی افسروں کی ترغیب اور صلح کی حالت میں طعن و تشنیع بھی ان کے لیے دامن گیر تھے، وہ خود سپہ سالاری کی قابلیت اور شہنشاہی کی اہلیت بخوبی رکھتے، اولو العزمی اور بلند ہمتی اس عمر کا خاصہ ہے، لیکن خدائے تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں، بے شمار رحمتیں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی روح پر نازل ہوں کہ انہوں نے اخلاص، ایثار اور خدمت اسلام کا وہ بہترین نمونہ امت محمدیہ ﷺ کے لیے چھوڑا، جس کی توقع خیرالبشر اور جامع جمیع کمالات انسانیہ کے نواسے سے ہو سکتی تھی۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! آپ نے مسلمانوں کے دو ٹکڑوں کو آپس میں ملا کر ایک کر دینے کا وہ عظیم الشان کام کیا ہے، جو دو لخت شدہ کرۂ زمین کے جوڑنے، شق شدہ آسمان کا باہم جوڑ ملانے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! آپ نے اپنی مدت خلافت میں کوئی میدان کار زار گرم نہیں کیا، لیکن آپ نے دنیا کے تمام بہادروں، تمام شمشیر زنوں، تمام سپہ سالاروں، تمام ملک گیروں، تمام شیر افگنوں کی سرداری حاصل کر لی۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! آپ ہی کے فعلِ حسن کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے بحر روم اور بحر روم کے جزیروں پر قبضہ کیا، قسطنطنیہ کی فصیل تک پہنچ کر عیسائی شہنشاہی کو ذلیل و فضیحت کیا، طرابلس الغرب، مراکو، اسپین، سندھ، افغانستان اور ترکستان وغیرہ ممالک اسلامی حکومت میں شامل ہو گئے۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! آپ نے عالم اسلام میں زندگی کی روح پھونک دی۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! آپ نے اپنی شرافت کا نمونہ دکھا کر کشت اسلام کو ازسر نو سر سبز کیا۔
اے حسن رضی اللہ عنہ! مسلمانوں کی ہر ایک کامیابی، مسلمانوں کی ہر ایک فتح مندی، مسلمانوں کی ہر ایک سر بلندی آپ کی روح پر رحمت الہی کی ایک بارش بن جاتی ہو گی۔
اے فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لاڈلے! اے خاندان ابی طالب کے ماہتاب اور اے امت مسلمہ کے چشم و چراغ! میری روح آپ کی محبت میں گداز ہے، میرا دل آپ کی عزت و عظمت سے لبریز ہے، میرے جسم کے ہر رونگٹے اور میرے بدن کے ہر ذرے سے آپ کی مدح وثنا کا ایک شور برپا ہے، آپ کی بہادی کوہِ ہمالیہ سے زیادہ عظیم الشان ہے، آپ کی مردانگی بحرالکاہل سے زیادہ شوکت و جبروت رکھتی ہے۔
اے اشجع الناس اور اے اہل جنت کے سردار!
میری طرف سے لا تعداد سلام و صلوۃ و برکات قبول فرما!
اور اے بہادر! قیامت کے دن مجھ کو بھول نہ جانا ۔۔۔۔ والسلام=
*تاریخ اسلام۔ جلد 1، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Address


Telephone

+3224758795

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Knowledge Verified posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Knowledge Verified:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share