Pothwari Food secrets

  • Home
  • Pothwari Food secrets

Pothwari Food secrets Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Pothwari Food secrets, Digital creator, .

01/10/2022
14/09/2022

سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔

استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔

جب استانی گھر گئی تو روتی ہوئی یہ کہانی اپنے شوہر کو سنائی جس پر اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ رونے کی وجہ دریافت کی تو استانی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ مجھے رونا وفا عبد الکریم کے جوتوں سے زیادہ دیگر بچوں کی احساس اور اپنی بے حسی پر آتا ہے۔ جب میں نے ڈبے میں موجود دیگر کاغذ کے ٹکڑوں کو چیک کیا تو سب نے ایک ہی نام لکھ دیا تھا “وفا عبد الکریم” ان معصوم بچوں کو وفا عبد الکریم کے چہرے پر موجود لاچاری کے درد اور کرب محسوس ہوتا تھا لیکن ہمیں نہیں جس کا مجھے افسوس ہے۔

میرے ایک استاد بتایا کرتے تھے کہ بچوں کے اندر احساس پیدا کرنا اور عملا سخاوت کا درس دینا سب سے بہترین تربیت ہے۔ ہمارے کئی اسلاف کے بارے میں کتابوں میں موجود ہے کہ وہ خیرات، صدقات اور زکوات اپنے ہاتھوں سے نہیں دیتے بلکہ بچوں کو دے کر ان سے تقسیم کرواتے تھے جب پوچھا گیا تو یہی وجہ بتائی کہ اس سے بچوں کے اندر بچپن سے انفاق کی صفت اور غریبوں و لاچاروں کا احساس پیدا ہوتا ہے.

13/09/2022

رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ
اے پروردگار !
میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف فرما دے۔
سورةالقصص: 16
یااللّٰه ہم سے جو گناہ ہوئے سب پر تجھ سے معافی کے طلبگار ہیں
تو ہمارے گناہ معاف فرما۔ آمین

السلام علیکم ورحمةاللّٰه
صباح الخیر

09/09/2022

آج پوری فیس بک پر لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ‎ ٹاپ ٹرینڈ ہونا چاہیے
کاپی پیسٹ کریں

09/09/2022

بیٹی کا جہیز

ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھشکر۔‘‘ چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ بازار میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔

09/09/2022

ایک بار محبت کے ساتھ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھ لیجئے
🌹بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ🌹
📿اَللهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمِّدِ نِ النَّبِىِّ الْاُمِّىِّ وَعَلى آلِه وَصَحْبِه وَبَارِكْ وَسَلِّمْ📿

💕اگر آپکی زبان کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ درود شریف کے ہونگے تو پھر آپ محسوس بھی ایسا ہی کریں گے کہ جیسے خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ رحمتیں آپ پر ہی برس رہی ہوں💕

٭درود شریف ڈوبنے سے بچنے کا سبب ہوتا ہے۔
٭درود شریف مال میں برکت کا سبب ہوتا ہے۔
٭درود شریف مرنےسے پہلے دنیا میں ہی جنت میں اپنی جگہ دیکھنے کا سبب ہے۔
٭درودشریف تہمت سے بری ہونے کا ذریعہ ہے۔
٭درود شریف سے دین اور دنیا کی ساری برکتیں اور فائدے مل جاتے ہیں۔
٭درودشریف دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے۔
٭درود شریف قرآن پاک کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔
٭درود شریف منہ اور جسم کی بدبو کو ختم کرتا ہے۔
٭درودشریف پڑھنے والے کیلئے قیامت میں ایک خاص قسم کا نور ہوگا۔
٭درود شریف پڑھنے سے خوشبو پیدا ہوتی ہے۔
٭درود شریف پڑھنے سے اسی سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
٭ درود شریف جب تک لکھا رہے گا تب تک ثواب ملتا رہے ؒ 🍀

💚اللَّهُمَّ صَل عَلٰی سَيِد ِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَلِمُ💚

اللّه پاک ہمیں اپنے فضل سے پیارے نبی پاک ،ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﯿْﮧِ ﻭَﺍٰﻟِﻪ ﻭَﺳَﻠَّﻢ کے صدقے زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائےِ۔۔آمین ثم آمین

04/09/2022

‏درود شریف وہ سویرا ہے جو زندگی میں کبھی اندھیرا نہیں ہونے دیتا💯❤️🥀
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم... ♥️

❤❤❤❤❤

04/09/2022

میرے ہو کہ رہو
قسط نمبر 2
ماہین ملک
based
hero
marriage

یورپ جیسے مغربی ملک کی گہما گہمی زندگیوں میں رہتے ہوئے وہ اپنے اصل کو نہیں بھولیں تھے۔۔۔

یہی وجہ تھی اتنے سال رہنے کے باوجود بھی وہ اس رنگ میں خود کو رنگ نا پائے۔۔

زینب اور عمان شاہ یہاں بھی صبح سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد تلاوت قران پاک انکا روز کا معمول تھا ۔۔

ضرار شاہ کی تربیت بھی انہوں نے ایسے ہی کہ تھی۔۔ وہ بھی اپنے ماں باپ کی طرح یہ ہی طرز زندگی اپنائے ہوئے تھا۔۔
لیکن کچھ چیزوں میں وہ اپنی فیملی میں بہت مختلف تھا۔
،، انتہا کا ضدی اور تیز دماغ پایا تھا۔۔اسکی چھٹی حس بلا کی تیز تھی،،،
مقابل کو ایک ہی وار میں چت کرنے والا ضرار شاہ ہی تھا،،
،،اپنے دل میں وہ کسی کے لیے کوئی بات نا رکھتا،،اور اگر کوئی بات رہ بھی جاتی تو وہ یقینن کوئی بھی معمولی بات تو نا ہوتی،،

،،اپنے اصولوں پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نا ہوتا تھا،،
یہ سب ہی باتیں اسکی زات کا خاصہ تھی وہ عام رہ کر بھی سب میں خاص جانا جاتا،،
،،صبح جلد اٹھ کر نماز ادا کرنے کے بعد جاگنگ کرنا اسکی معمولات کا حصہ تھی،،
ضرار شاہ ڈائیٹ کے معاملے میں بہت کانشس تھا۔۔،، اگر کوئی ایسا کھانا جس میں ہائی کیلوریز ہوتی وہ کھانے سے پرہیز کرتا۔۔
،،اور کبھی اپنی ماں کے اصرار پر کچھ بھی لیتے تو ورزش کا دورانیہ بڑھا دیتا۔،،۔

اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے اور آج چھٹی ہونے کی وجہ سے وہ دن چڑھے سوتا رہا۔۔
زینب شاہ نے اسکے روم کا ڈور ہلکے سے نوک کیا۔۔۔

کوئی جواب نا پا کر وہ ہلکے سے ڈور کھول کر اندر جھانکا۔۔
نیم اندھیرے میں وہ بیڈ پر داہنی کروٹ لیے سکون کی نیندلے رہا تھا۔۔
کمرے میں اسکی پر سکون سانسوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھی۔۔

دن کے گیارہ بجنے کے باوجود بھی ایک پل کو اسکے ہمرے میں قدم رکھ کر رات کا گمان ہوتا۔۔۔

،،،ضراررررر،، زینب نے ہلکے سے آواز دی۔۔
ضرار نیند میں اپنے نام کی پکار سن کر کسمسایا۔۔۔لیکن آنکھیں پھر بھی نا کھولی۔۔۔

زینب شاہ جانتی تھی وہ صبح جاگنگ کر کے پھر سے سویا ہوگا،،
اسلیے اسے دوبارہ سے آواز دینا مناسب نا سمجھا۔۔دھیرے سے دروازہ بند کر کے چلی گئی۔۔۔
،،کیا ہوا ضرار اٹھا نہیں کیا؟؟ عمان شاہ جو کہ ہاتھ میں کوئی فائل پکڑے بیٹھے تھے،،
زینب شاہ کو ایسے منہ لٹکائے ہوئے آتا دیکھ کر فائل ایک سائیڈ پر رکھ کر پوچھنے لگے۔،،

ہممم نہیں ۔۔۔ لگتا ھے وہ صبح کافی دیر تک جاگنے کے بعد سویا ھے۔۔میں نے پھر دوبارہ اواز دینامناسب نا سمجھا،،،

،،جب سے پاکستان واپس جانے کا ارادہ کیا تھا تب سے زینب شاہ کا بس نی چل رہا تھا کہ وہ ایک لمحے میں اپنے ملک اپنے لوگوں کا پاس چلی جائے،،،

عمان شاہ کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی وہ بھی دن رات اسی کوشش میں لگے تھے کہ جلد از جلد وہ اپنا سارا بزنس پاکستان وائنڈ اپ کر لے،،

تو بس آج کل دونوں میاں بیوی ان ہی کوششوں میں لگے تھے۔،،،
تھوڑا اطمینان رکھے زینب اس بار آپ عید اپنی فیملی کےساتھ ہی کرے گی۔۔

،،عمان شاہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ایک ایکسیڈینٹ میں انکی موت واقع ہو گئی تھی کچھ عرصہ وہ پاکستان میں ہی رہے اس کے بعد وہ یورپ میں شفٹ ہو گئے یہاں آ کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک اچھے عہدے پر انہیں جاب مل گئی اور یہ پھر یہی کہ ہو کر رہ گئے،،
بس اب کچھ دور کے رشتے دار ہی تھے جن سے انکا تعلق واجبی سا ہی رہ گیاتھا،،

،،میرا تو بس نی چل رہا کہ کب دن سے رات ہو اور میں سب کے پاس ہوں،، زینب نے کہتے ہوئے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کر کے کہنے لگی،،

،،میں تو اللہ کا جتنا شکر کرو اتنا کم ھے مجھے لگا تھا کہ ضرار شاید پاکستان ناجائے لیکن سد شکر کہ اس نے ہمارے فیصلے کا احترام کیا ھے،،

،،ہمم مجھے بھی یہی لگا تھا۔۔ پر وہ اس معاملے میں بلکل آپ پر گیا ھے ،،یاد نہیں میرے یہاں آنے پر آپ کتنے مہینے ڈسٹرب رہی تھی،،

،،لیکن آپ نے ایک بار بھی مجھ سے شکوہ نہیں کیا،،عمان شاہ نے محبت پاش نظروں سے اپنی شریک حیات کو دیکھا،،

،،کیا بات ھے؟؟ ،،آج تو بڑی محبت بھری نظروں سے میری پیاری اماں جان کو دیکھا جا رہا ھے،،

،،ضرار نے پیچھے سے زینب کی گردن میں محبت سے اپنی بازو حمائل کرتے ہوئے کہا،،

،،کہیں جا رہے ہو کیا؟؟زینب نے ضرار کو نک سک سے تیار ہوتا دیکھ کر کہا،،

'،،جی اماں میں وہ بس اپنے دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں ،، جانے سے پہلے کچھ ضروری کام بھی ھے جو مجھے نبٹانے ھے،،،
،،اور واپسی کب تک ھے؟؟؟
ضرار،، آپ بے فکر ہو جائے افطاری سے پہلے پہلے میں آجاوں گا۔۔

،،بیٹا آپکی اماں کو آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی،، عمان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں زینب کو تسلی کا اشارہ۔کرتے کہا،،

،،میں جانتا ہوں کہ اماں کوکس بات کی فکر ھے،،

،،ضرار نے ہمیشہ کی طرح پہلے سے وہ بات دہرا دی جس بات کو لے کر وہ دونوں میاں بیوں خدشات کا شکار تھے۔،،

،،ضرار نے اپنی ماں کے آگے بیٹھتے ہوئے زینب کے ہاتھ تھام کر ان۔پر بوسہ دیا،،

،،آپ کس بات سے پریشان ھے؟؟؟ یہ ہی نا کہ میں اتنی جلدی کیسے مان گیا ،،،

،،تو میری پیاری اماں جان آج نہیں تو کل ہم نے یہاں سے واپس جانا ہی تو تھا نا ۔۔،،اپنوں سے دور تو رہا جا سکتا ھے پر ان سے کٹ کر تو نہیں رہا جا سکتانا؟؟

،،اور میرے لیے یہ اہم نہیں رکھتا کہ میں کہاں رہنا چاہتا ہوں ۔۔۔میرے لیے آپ دونوں کا ساتھ ہونا اہم ھے،،

،،زینب نے اپنے فرمابردار بیٹے کو فخر سے دیکھا،،کہاں سے سیکھتا تھا وہ سب باتیں؟؟
،،کس قدر خیال رکھتا تھا ؟؟کتنا احترام کرتاتھا وہ اپنے ماں باپ کی خواہش کا،، اس سے بڑھ کر سکون اور کیا ہوگا والدین کے لیے جب انکی اولاد انکے دل کی بات بنا کہے ہی سمجھ جائے،،،

،،اب میں چلتا ہوں آپ جتنی جلدی ممکن ہو سکے جانے کی تیاری کیجیے،،

یہ کہہ کر ضرار گاڑی کی چابی اٹھا کر ان دونوں کو حیران کرتا ہوا چل دیا۔۔۔

،،آپ بے کار میں ہی پریشان ہو رہی تھی۔ اب خوش ھے نا آپ؟؟؟ ،،

زینب نے ایک پرسکون آہ بھرتے ہوئے ضرار کی خوشیوں کی دل میں دعا مانگی،،،

☆☆☆☆☆☆

،،ارے دیکھو تو ساتھ والے گھر میں کوئی آیا ھے اس بھوت بنگلے میں کون رہنے آ گیا،،

یہ بات ھے ان دنوں کی جب بیلا محض آٹھ سال کی تھی وہ اور پرنیا شام کے وقت لان میں کھیل رہی تھی ،،
،،جب ساتھ والے گھر کے ٹیرس پر انہوں نے اپنی ہی ہم عمر بچے کو دیکھا،،،
''معصوم سا وہ بچہ آنکھوں میں حسرت لیے ان دونوں کو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ناجانے کب سے کھڑا تک رہا تھا،،

،،،اوہ ہیلو کیا نام ھے تمہارا؟؟؟'''بیلا نے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کو ہموار کرتے ہوئے چیختے ہوئے پوچھا،،

'ارےے کیا کر رہی ہو بیلا؟؟؟ نا جانے کون ھے دادو کو پتاچل گیا تو جان نکال دے گی۔،،،پرنیا نے بیلا کو اپنی دادو جان حفصہ شاہ کا ڈراوا دیا۔۔۔

،،پر وہ بیلا ہی کیا جو کسی دھمکی سے ڈر جائے،،،
افوں تم تو چپ کرو پوچھنے تو دو کہ وہ ھے کون کہاں سے آیا ھے؟؟؟

،،تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔کیا نام ھے تمہارا؟؟بیلا نے ایک پھر سے آواز کو مزید بلند کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔،،
لگتا ھے اسے میری آواز نہیں جا رہی ایسا کرتے ہے انکے گھر چلتے ھے،،،
بیلا نے آسان سی تجویز ایسے پیش کی جیسے وہ ناجانے کب سے اسے جانتی ہو،،،

،،پاگل ہو کیا میں نہیں جارہی۔۔اور تم بھی نہیں جاو گی پرنیا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا،،،
ابھی وہ دونوں اسی بحث میں تھی کہ پرنیا کی نظر ٹیرس پر گئ تو وہاں کوئی بھی نا تھا،،

،،بس دیکھ لو وہ وہاں سے بھاگ بھی گیا ،، ہونہہ بڑی آئی پتا کرنے جانا ھے،، '''پرنیا طنز سے کہتی ہوئی اندر کی بڑھ گئی"""

،،،پر بیلا کو تو پتا کرنا تھا جو کھد بد لگی تھی وہ کم تب ہی ہونی تھی جب تک وہ اس کا پتا نا لگا لیتی"""اور وہ موقع اسے بہت ہی جلد مل گیا،،،

،،کچھ ہی دنوں بعد وہ جب سائیکلنگ کرنے کے بہانے گھر سے نکلی،،، اور اسے وہی ٹیرس والا بچہ سائیکل کو چلانے کی کوشش میں ہلکان ہوتا ہوا ملا،،

،،کیا ہوا سائیکل چلانی نہیں آتی ؟؟؟ اس نے نفی میں سر ہلایا،،،
،،اتنے بڑے ہو کر سائیکل چلانی نی آتی؟؟ میں تو چھوٹی سی تھی تب سے مجھے آتی ھے،،،بیلا نے فخر سے اپنی گھنگھریالے بالوں والی پونی کو جھلاتے ہوئے اسے آگاہ کیا،،،

،،،اس معصوم سے بچے نے شرمندگی سے ایک نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔اور دوبارہ سے لگا کوشش کرنے۔،،
بیلا کو ایک لمحے کے لیے اپنے رویہ برا لگا۔۔۔اگر نہیں آتی تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نا تھا۔۔،،،

،،آو میں سکھاتی ہوں تمہیں۔۔۔فورا سے پہلے پیشکش کی گئی۔۔۔،،،

جو بنا کسی عذر کےان لی گئ۔،،،
،،کیا نام ھے تمہارا،،،پہلا سوال اسکی طرف مصروف انداز میں پھینکا گیا۔۔۔۔

۔زین،،، یک لفظ جواب دیا گیا۔،،، تو کب آئے ہو اس بھوت بنگلے میں؟؟؟دوسرا سوال اسکی سائیکل پر بیٹھتے ہوئے پوچھاگیا،،،

بھوت بنگلے کی بات سمجھ نی آئی نا سمجھی سے اس دوگز لمبی زبان والی بلا کی طرف دیکھا گیا،،،

،،،اففف میرا مطلب ھے کب آئے ہو اس گھر میں۔؟؟؟ بیلا نے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا"""

پانچ دن پہلے،،
،،پھر سے مختصر جواب،،،
،،میرا نام بیلا ھے،، میں ساتھ والے گھر میں رہتی ہوں،،

،،،بیٹھو سائیکل پر میں تمہیں سکھاتی ہوں،، بیلا اسے بٹھا کر ساتھ ساتھ انٹرویو کا کام بھی کرتی رہی،،،

سب کچھ جان کر اسے زین سے دلی ہمدردی ہوئی۔۔۔اسی سے اسے پتا چلا کہ اسکی ماما کی ڈیتھ ہو گئی ھے اور اسکے پاپا بزنس کے سلسلے میں زیادہ تر بیرون ملک میں آتے جاتے ھے،،،

،،گھر میں ایک ملازمہ ھے جو مستقل اسکے ساتھ رہتی ھے،، اور کوئی بہن بھائی بھی نہیں ھے،،
،،یہ سب سن کر بیلا کو شاک لگا کہ وہ سارا دن گھر میں اکیلا ہوتا ھے۔۔۔

،،بیلا نے فورا سے بیشتر اسے گھر میں آنے کی دعوت دے ڈالی۔""

،،اچھا اب میں چلتی ہوں،،کل سے ہمارے گھر آجانا ،،،بیلا یہ کہہ کر گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔،،
ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا۔،،وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی،،،

،،بیلا نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور اندر کی جانب بڑھ گئی،،،
دوسرے دن صبح کے وقت ناشتے کی میز پر زین کے بارے میں ساری معلومات گھر والوں کے گوش گزار کر دی۔،،

سب کو ہی اس معصوم بچے سے ہمدردی ہونے لگی۔۔۔حفصہ شاہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔کہ وہ ابھی جا کر اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے لے آتی،،

،،بیلا نے جب یہ بتایا کہ وہ اسے آج اپنے گھر انے کا کہہ بیٹھی ھے پہلی بار حفصہ شاہ کو اسکی زہانت پر عش عش کر بیٹھی۔۔۔

وہ دن اور آج کا دن زین کو اس گھر میں فیملی کا ہی حصہ سمجھا جانے لگا،،،

بیلا اور زین دوست پلس بھائی بہن کے رشتے میں بندھ گئے۔،،،
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا شاہ پیلس کے مکینوں کو ہی اپنی فیملی سمجھنے لگا۔۔

زین اور بیلا ایک دوسرے کے بنا رہ نہیں پاتے،،،یونیورسٹی میں بھی ان دونوں کو کرائم پارٹنر کے نام سے جانا جاتا تھا،،

،،وہ الگ بات کہ زین دوست کی بہن کو بہن نہیں سمجھتا تھا۔،،،

یہ بات وہ بیلا سے بھی کبھی کہہ نہیں پایا تھا۔
☆☆☆☆☆☆

،،یہ سب کیا دھرا اس پرنیا چڑیل کا ھے--اسی نے گرینی کے دماغ میں یہ بات ڈالی ہوگی،،،

،،،ہائےے اب میں کیا کروں،،۔۔۔""کیسے اس آفت کو ٹالوں؟؟
چاہے جو ہو جائے میں اپنے کمرے کو چھوڑ کر نی جاوں گی"
،،""کتنا منحوس ھے یہ ضرارا شاہ ابھی آیا بھی نہیں کہ آنے سے پہلے ہی مجھے میرے ہی کمرے سے بے دخل کروادیا،،،

بیلا کسی زخی ناگن کی طرح اپنے کمرے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ادھر سے ادھر جلے پیر کی بلی کی طرح لگی تھی چکر کاٹنے"""

،،افف میں اس معاملے میں کس سے مددمانگوں؟؟ کمر پر ہاتھ رکھے وہ سوچنے میں لگی تھی کہ اسے زین کا خیال آیا""

""تیزی سے اپنے موبائل کی طرف لپکتی لگی زین کو کال ملانے""
""بیل مسلسل جا رہی تھی"" اور وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا۔""
""ارے منحوس اٹھا لے تیری دوست کا آشیانہ اس سے چھینا جا رہا ھے،،
،،کب تک سوتا رہے گا؟؟؟آج بیلا کی آنکھوں سے نیند روٹھ چکی تھی،،، پہلے تووہ خود بھی اس وقت منہ کھولے سو رہی ہوتی تھی،،،

،،زین کے کال پک نا کرنے پر بیلا نےتھک ہار کر موبائل ایک طرف رکھ دیا""

آہ بیلا شاہ کوئی امید نظر نہیں آرہی۔،، چل سو جا اب آرام کی نیند تو اس کمرے میں کچھ ہی دنوں کی مہمان ھے،،
""کچھ ہی دیر میں بیلا کے خراٹوں سے کمرہ گونجنے لگا""

☆☆☆☆☆

،، شکر کرو تم پر ترس کھا کر ہم نے تمہیں اپنے کمرے میں پنا دی۔ تمہارا بستر تو کچن میں ہونا چاہئے تھا۔ اب اٹھاو اپنا بستر اور شکل گم کرو،،،

پاس پرے موبائل کا الارم کان کے پاس چھنگھاڑ رہا تھا ۔ بیلا ہڑبرا کر اٹھتی ادھر ادھر ہاتھ مارتی اپنے موبائل کا الارم بند کرتی۔۔

،،،توبہ کتنا ڈراونا خواب تھا،، اپنی بے ترتیب سانسوں کو ہموار کرتی کہنے لگی،،،،

یہ بھی شکر ھے کہ خواب ہی تھا۔۔

اپنے گھنگھریالے بالوں کو جوڑے شکل میں باندھتی سکر ادا کرنے لگی۔۔۔

اوہ زین ،،،،جیسے ہی اسے زین کا خیال آیا فٹ سے بیڈ سے اترتی وہ یونی جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔۔

☆☆☆☆☆

داود کب سے اپنی دادی کے پاس بیٹھا ان سب کا انتظار کر رہا تھا،،تاکہ ان سب کو یونی چھوڑ کر جلدی سے اپنے آفس جا سکے۔۔۔

،،،نا جانے کب ان سب کو عقل آئے گی۔۔گھر کا کوئی کام تو ڈھنگ سے کرتی نہیں ھے،،ہر وقت پری سوتی رہتی ھے۔۔۔اتنا بھی خیال نہیں ھے کہ بچہ کب سے بیٹھا انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا ھے۔،،،

،،اماں جان پرنیابس آتی ہی ہوگی۔۔نایاب اپنی ساس کی بلند سرگوشی سن کر کمرے میں سے باہر آ کر انہیں جلدی سے بتانے لگی،،،

،،،اور وہ ڈاکٹرنی ابھی تک پری سو رہی ھے کیا؟؟
نہیں اماں جی آج کوئی ایمرجنسی تھی تو وہ سحری کے ایک گھنٹہ بعد ہی اپنی گاڑی میں چلی گئی تھی،،،

،،انہیں منہا کے گھر داری نا سنبھالنے پر لاکھ اختلاف سہی پر دل ہی دل میں وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی۔۔۔

،،،جس نے اپنے نام کا بنا سہارا لیا اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر اپنا مقام بنایا تھا،،،

جب وہ شاہ پیلس کے نام کی تختی کے ساتھ
"ڈاکٹر منہا شاہ"" کے نام کی نیم پلیٹ دیکھتی تو فخر سے ان کا قد مزید اونچا ہوجاتا،،،

،،ان کی یہ پوتی بہت ہی سادگی سے رہنے والی تھی،،
پرنیا بھی بس آتی ہی ہوگی۔۔۔
،،یہ کہہ کر نایاب حفصہ شاہ کے پاس تخت پر ہی بیٹھ گئی۔،،
یوں تو حفصہ شاہ کا کمرہ بلکل درمیان میں تھا ایک طرف احمد شاہ کی فیملی کے کمرے تھے۔۔۔تو دوسری طرف ابراہیم شاہ کے تھے

لاونج کے ایک طرف بہت ہی خوبصورت سا حفصہ شاہ کے لیے تخت بچھایا گیا تھا۔۔
''وہ اپنے کمرے میں کم زیادہ تر اسی پر آرام فرما رہی ہوتی""
یہ تخت انکے درمیان والے بیٹے ابراہیم نے انکے لیے بنوایا تھا۔۔۔لاونج میں تخت کی سیٹنگ اس طرح سے کی گئی تھی۔۔

،،کہ جیسے ہی کوریڈور سے آتے ہوئے لاونج میں جو بھی قدم رکھتا تھا اسکی سب پہلی نظر تخت پر ہی جاتی۔۔

،،تینوں بیٹے گھر میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلے اپنی ماں کا چہرا دیکھتے،،وہی سب کے لیے صوفوں کی سیٹنگ بھی کی گئی تھی جہاں وہ آتے ہی حفصہ بیگم کے پاس بیٹھ کر چائے پیتے باتیں کرتے پھر اپنے کمرے میں قدم رکھتے۔۔
""بیلا تو جیسے ہی یونی سے آتی دھڑام سے تخت پر برا جمان ہو جاتی پورے ایک گھنٹے دادی کی گود میں سر رکھ کر سستانے کے بعد اپنے روم میں جاتی۔۔۔

ایک تو تھکی ہوئی آتی اوپر سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم تک جانے میں اسکو موت نظر اتی۔۔کبھی کبھی تو وی اپنے اس فیصلے پر پچھتاتی کہ اس نے اوپر والے پورشن میں روم۔کیوں لیا۔۔۔
پر جب کوئی کسی کام۔کی وجہ سے اسے پکار پرتی یہ ریلنگ پر ہی کھڑی ہو کر کوئی بھی کام۔کا بہانہ بنا کر سوتی رہتی۔
اور اپنی چالاکی پر خود کو داد دیے بنا بھی نا۔رہتی

شاہ پیلس میں سب کے روم ایک ہی ساتھ تھے سب سے چھوٹے قاسم شاہ کی فیملی بھی اوپر والے پورشن میں رہتی تھی صرف بیلا نے ضد کر کے اپنا روم اوپر والے پورشن میں لیا تھا۔۔
اسکا روم تھا بھی سب سے پیارا بڑی بری ونڈو جو کہ لان کی طرف کھلتی تھی۔۔

سامنے ہی روڈ پر سب کے عالی شان گھر تھے جو نظر آتے تھے""

،، عائشے گل بہارے گل یاد سے اماں جان سے پہلے سر پر پیار لینا ھے پھر بھائی کے ساتھ جانا ھے اور کتنی بار کہا ھے دونوں رات کوہی اپنا بیگ تیار کر کے رکھا کرو،،،

اب دیکھو،،،۔
،،بھائی کب سے انتظار کر رہی ھے۔۔۔ رشمہ گل اپنی دونوں گل کو روز کی بات بتانا نا بھولی تھی،،


،،داود کے منہ پر ''کر رہی ''لفظ سن کر ایک جاندار مسکراہٹ آگئی۔۔۔

اپنے روم سے نکلتی ڈوپٹہ سیٹ کرتی میرال نے داود کی دل موہ والی مسکراہٹ کو دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی،،

''واللہ کتنی پیاری مسکراہٹ ھے سامنے دادی کے پاس بیٹھے داود کی مسکراہٹ دیکھ کر میرال کھو سی گئی۔۔۔

پھولے منہ سیڑھیاں اتر کر آتی بیلا میرال سے تکڑاتے اسے ہوش میں لے آئی۔۔۔

،،توبہ روزے میں کیا کیا سوچ رہی ہوں میں بھی""جلدی سے کانوں کو ہاتھ لگاتی میرال اللہ سے معافی مانگنے لگی،،

""داود بھائی میں باہر گاری میں ویٹ کر رہی ہوں،، بیلا نے روکھے سے انداز میں سب کو سلام کر کے باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی جب نایاب نے اسے پکارا،،
بیلااااا"" جی تائی امی؟؟ کیا ہوا ھے؟؟؟ نایاب نے تشویش سے پوچھا،،،

جاری ھے
اپنے تمام ریڈرز کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔۔۔ آپ سب پلیز نائس اور نیکسٹ کا کمنٹ مت کیا کیجیے آپ یہ بھی بتایا کرے کہ آپ کو ناول میں کس کا کریکٹر زیادہ پاور فل لگا۔۔ کچھ اندازہ بھی لگائے کہ کونسا کپل کس کے ساتھ ھے۔ ۔۔رائٹرز کو اپنے آئیڈیاز دیا کرے ۔ خوش رہے سلامت رہے

04/09/2022

میرے ہو کہ رہو
قسط نمبر 1
ماہین ملک
based
hero
marriage

"شاہ پیلس میں اس وقت سحری کا اہتمام زوروشور سے جاری تھا"
"اس گھر کی لاڈلی اور انتہائی نکمی لڑکیاں اپنی اپنی ماوں کو تنگ کرنے میں کوئی کثر نا چھوڑتی"

"سوائے ایک میرال شاہ کے جس کو تینوں مائیں سگھڑ بنانے میں جی توڑ محنت کر رہی تھی""

"اور وجہ تھے داود شاہ ""۔۔۔۔
اس گھر کے سب سے بڑے اور ہونہار پلس ""اینگری برڈ ""

""جن کا نام ان ہی کی زوجہ نے نہایت محبت سے رکھاتھا" جس پیار کے نام سے داود شاہ خود بھی ناواقف تھے

""داود شاہ کا نکاح میرال کے 10 دسویں جماعت میں ٹاپ کرنے پر انہیں تحفے کے طور پر داود شاہ کو سونپ دیا گیا"

آہ کیا دن تھا """"وہ بھی جب میرال سر پر سرخ ڈوپٹہ اوڑھے خونخوار نظروں سے اپنے کچھ ہی گھنٹوں پہلے بنے گئے مزاجی خدا کو گھورنے میں مصروف تھی""۔۔
او دوسری طرف داود شاہ کیا کمال بے نیازی سے ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایسے بیٹھے تھے """جیسے پانی پت کی جنگ لڑ کر آئے ہو۔۔

بخت شاہ اور حفصہ شاہ کی چار اولادیں تھیں"۔۔
"سب سے بڑے بیٹے احمد شاہ جن کی شادی اپنی زوجہ کی مخالفت کو کسی خاطر میں نا لاتے ہوئے اپنے دوست کی بیٹی نایاب سے کی گئی تھی۔۔
وجہ ان کا بے حد پڑھا لکھا ہونا تھا" حفصہ بیگم خود تو پنجاب سے تھی ۔۔۔
لاہور شہر سے تعلق رکھنے والی حفصہ بیگم نے اگر شادی کے بعد کسی چیز کو سب سے زیادی یاد کیا تھا تو وہ تھی انکی پنجابی زبان"
اسلام آباد میں بیاہ کر آنے والی حفصہ کو اردو بولنے میں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی""۔۔۔جو بچوں کو ڈانٹتے ہوئے پنجابی زبان کا استعمال زوروشور سے کرتی۔۔

اور بہو تھی انکی نہایت نفیس اردو سپیکنگ تھی"" جو بچون کو ڈانٹتی بھی ایسے تھی"""
جیسے کسی کالج میں اپنے پسندیدہ ٹاپک پر لیکچر دے رہی ہو""
جس پر انکی ساس حفصہ بیگم کو ان کے نام نایاب سے لے کر ہر بات اور ہر کام ہی نایاب لگتا تھا"""
انکی تین بیٹیاں تھیں۔۔۔
سب سے بڑی منہا شاہ تھی""جو آنکھوں پر موٹاسا چشمہ لگائے"" موٹی موٹی کتابوں میں ہروقت سر گھسائے"۔۔۔اہنی پیاری دادی جان کا دل ہولائے رکھتی۔"""
جس کا خواب ڈاکٹر بننے سے شروع ہو کر قابل ڈاکٹر بننے تک ہی محدود تھا۔۔
ان سے چھوٹے داود شاہ جو خاندان بھر کے چہیتے ہونہار اور ہینڈسم ہونے میں اپنی مثال آپ تھے۔۔۔

"""جو ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ نہایت زہین اور قابل بھی تھے۔۔۔جو ایم بی اے کی ڈگڑی لے کر اپنے بابا اور چھوٹے دو چاچووں کے ساتھ مل کر بزنس چلا رہے تھے۔۔۔

داود سے چھوٹی تھی نیہا شاہ جو انتہا کی شرمیلی تھی وہ بھی اس وقت جب انکی شرارتوں کا پٹارا کھولا جاتا""

احمد شاہ سے چھوٹے ابراہیم شاہ تھے """۔۔۔۔ان کی شادی حفصہ بیگم نے خاندان بھر لڑکیاں چھان کر اپنے دور کے رشتےداروں میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔۔۔""
ہاجرہ نامی انکی منجھلی بہو ان ہی کی طرح میٹھی زبان یعنی کے پنجابی بولتی تھی""۔۔۔

اور اس بات پر دونوں ساس بہو ایک دوسرے کے وارے نیارے جاتی""۔ اور یہ ہی وجہ ھے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں رہنے کے بعد بھی ان دونوں ساس بہو کی زبان میں رتی برابر فرق نا آیا۔۔۔
سد افسوس

انکی تین بیٹیاں تھیں۔۔۔سب سے بڑی میرال شاہ تھی جس کا نکاح سولہ سال کی عمر میں ہی داود سے کر دیا گیا تھا ۔۔۔
وہ بی ایس فزکس کی سٹودنٹ تھی""۔۔۔

ان سے چھوٹی بیلا شاہ تھی جو بیلا شاہ کم بلکہ بلا زیادہ تھی۔۔۔
""جو کہ دوسروں کو صبر کے اصل معنی سمجھانے والی بیلا شاہ """
انتہا کی منہ پھٹ۔۔۔پھوہڑ اور زبان کے جوہر دکھانےوالی ""

جو بغیر دانت گاڑھے خون پینے والی بلا تھی۔۔""بس ایک بات جو اسکی ساری خامیوں پر حاوی ہو جاتی وہ تھا اسکا احساس کرنے والا دل۔۔۔"""

سب سے چھوٹی پرنیا تھی جسے دادی کی جاسوسن کہا جاتا تھا ۔۔۔جو ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات دادی کے گوش گزار کرنے کی ڈیوٹی پر دادی جان نے اسے فائز کیا ہوا تھا۔۔
جس کو وہ انتہائی خوش اسلوبی سے پوری بھی کر رہی تھی۔۔۔
ابراہیم شاہ سے چھوٹے تھے قاسم شاہ ۔۔ جو بلا کہ ضدی طبعیت کے تھے ۔۔۔
اور یہ ہی وجہ تھی زات سے باہر شادی نا کرنے والی رسم کو انہوں نے اپنے پاوں کے نیچے روند کر اپنی پسند سے شادی کی۔۔

قاسم شاہ اپنے آفس کے کسی کولیگ کی شادی پر گئے اور وہی پر رشمہ گل ایسی دل کو بھائی کہ اسی پل انہیں اپنی شریک حیات کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔

حفصہ بیگم کو جتنا انکے بھی بولنے کے انداز پر اعتراض نہیں اعتراضات تھے۔۔۔ جن کا آج تک وہ مزکر مونث ٹھیک نا کروا سکی ۔۔۔
تو دوسری طرف قاسم شاہ رشمہ کے بولنے کے انداز پر صدقے واری جاتے۔۔۔
کہاں کی ضد اور کہاں کا غصہ وہ نہ جانے رشمہ کے آنے پر کہاں جاسویا۔۔

رشمہ گل کو اپنے نام سے بہت محبت تھی۔۔۔خاندان بھر میں کسی کے ہاں بھی بیٹی ہوتی وہ نام ہی ایسا بتاتی جس میں گل کا لاحقہ لازم و ملزوم ٹھہرتا۔۔۔

ان کا بس نا چلتا وہ اپنے شوہر قاسم شاہ کے نام کے ساتھ بھی گل کا لاحقہ لگا دیتی۔۔۔
اور قاسم شاہ سے بھی کچھ بعید نا تھا وہ لگوا بھی لیتے۔۔۔
اللہ نے انہیں دو بہت ہی پیاری جڑواں بیٹیوں سے نوازا
عائشے گل اور بہارے گل۔۔
رشمہ گل نے اپنے خاندان کی روایت کو نا توڑتے ہوئے اپنی بیٹیوں کے نام کے ساتھ گل کا گلستان ضرور لگایا۔۔۔

بخت شاہ اور حفصہ شاہ کی چوتھی اولاد منتوں اور مرادوں سے مانگی گئی ۔۔۔
تین بیٹوں کے بعد اللہ نے ان پر رحمت کی اور انکے ہاں زینب شاہ کہ ولادت ہوئی۔۔۔

جو گھر بھر کی لاڈلی تھی۔۔اتنے لاڈ اور ناز نخرے اٹھانے پر بھی انکے عادتیں خراب نا ہوئی۔۔

بخت شاہ کی تو اس میں جان تھی۔۔۔ ہارٹ پیشنٹ کے مرض میں لاحق ہونے کے بعد سے اگر انہیں کسی کی فکر تھی تو وہ زینب شاہ کی تھی۔۔
انہیں بس اگر کسی بات کا انتظار تھا تو وہ اپنی زندگی میں ہی زینب کو اسے اپنے گھر کا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔۔

احمد شاہ کی شادی کے فورا بعد ہی زینب کی شادی اپنے کزن کے بیٹے عمان شاہ سے کر دی۔۔۔
اور خود ابدی نیند جا سوئے۔۔۔ بخت شاہ کے جانے کا دھچکا شاہ پیلس کے مکینوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔۔۔

عمان شاہ اور زینب شاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ضرار شاہ۔۔۔جو کسی بھی تعارف کا محتاج ناتھا۔۔۔

جو ملک سے باہر عرصہ دراز سے مقیم تھے اور اس سال عید سے پہلے پہلے انکی آمد متوقع تھی۔۔۔

آج کل شاہ پیلس کی ماوں کو عید سے زیادہ ضرار شاہ کے آنے کا انتظار تھا
☆☆☆☆☆☆☆

بیلا منحوس اٹھ جاو ۔۔۔کب تک سوتی رہو گی ۔۔۔ میرال کب سے بیلا کو اٹھانے میں لگی تھی ۔۔
پر وہ ڈھیٹ نا جانے گھوڑے گدھے کیا شاید پورا اصبطل ہی بیچ کر سوتی تھی

کیا مصیبت ھے کون سی پانی پت کی جنگ لگ گئ ھے جو مجھے اٹھایا جا رہا ھے۔۔۔ بیلا نے منہ تک چادر تانتے ہوئے کہا۔۔۔

دل تو کر رہا ھے اسی پانی پت کی جنگ کے پانی میں تمہیں غوطہ دے دوں۔۔۔میرال نے غصے سے اپنے کھلے بالوں کا جوڑا بناتے کہا۔۔۔

جلدی سے اٹھ جاو سحری کا ٹائم ختم ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی ھے۔۔

افوہ یار کیا ھے اب ۔۔۔پرنیا کو تو اٹھاو میں پانچ منٹ تک آ جاتی ہوں۔۔

تمہاری اطلاع کے لیے عرض ھے وہ کب سے دادو جان کے پاس جا کر بیٹھ گئی ھے ۔۔۔اور دادو کو سورہ رحمن کی تلاوت سنا رہی ھے۔۔۔

اب تم پلیز جلد آ جاو۔۔۔میں بار بار نہیں آوں گی اٹھانے۔۔۔
میرال یہ کہتے ہوئے جانے لگی کہ اچانک سے پیچھے پلٹ کر آتی پانی کی بوتل بیلا کی ٹیبل پر پری دیکھ کر اسے شرارت سوجھی۔۔۔

اور پوری بوتل بیلا پر انڈیل کر باہر کی طرف بھاگی۔۔۔

بیلا ہڑبڑا کر اٹھتی اپنے گھنگھریالے بالوں کو دیکھتی دانت پر دانت جمائے اس افتاد پر بوکھلا گئی۔۔۔۔

نیند سے بھری سنہری آنکھیں جن میں بھر بھر کاجل لگایا گیاتھا

گھنگھریالے بالوں کی اطراف میں بکھری لٹو میں سے پانی کی بوندیں ٹپکتی ہوئی اسے اور مضحکہ خیز بنا رہی تھی۔۔۔

اس سے پہلے بیلا کوئی رد عمل کرتی۔۔۔۔

میرال جلد سے بھاگتی ہوئی کمرے سے رفو چکر ہوگئی بیلا سے بچنے کے چکر میں وہ سامنے سے آتے ہوئے داود سے ٹکڑا گئ۔۔۔

کیا آفت آن پڑی ھے جو یوں ٹکڑاتی پھ رہی ہو۔۔۔
داود نے بروقت میرال کو تھامتے ہوئے آنکھوں میں مصنوعی غصہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔

داود کے اسے یوں تھامنے پر میرال کی ہوائیاں اڑگئی۔۔۔وہ داود کے غصے سے بہت خوف زدہ ہوتی تھی۔۔
اس سے پہلے کہ داود مزید اسکی جان کو ہلکان کرتا کہ میرال آنکھوں کو بند کرتی منہ میں کچھ پڑھنے لگی۔۔۔۔

وہ جو اسے مزید کچھ کہنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔اس کے اس طرح منہ میں بڑبڑانے سے داود کے لبوں پر دھیمی سی مسکان آن ٹھہری۔۔۔

بڑابڑاہٹ اتنی اونچی تھی جسے داود باآسانی سے سن سکتا تھا ۔۔۔

داود نے اسکے لرزتے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اسے خاموش کروایا۔۔۔
میرال کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے داود کے شکنجے میں تھی پٹ سے آنکھیں کھول دی ۔۔۔

سحری میں تھوڑا سا ٹائم رہ گیا ھے کہاں بھاگتی پھر رہی ہو۔۔
وہ میں ۔۔۔ کیا میں بولو؟؟؟ داود نے اسے خود کے شکنجے سے آزاد کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
وہ میں بیلا کو اٹھانے گئی تھی۔۔۔۔

بیلا کو اٹھانے گئی تھی اور جو میں نے کہا تھا کہ مجھے سحری میں تم جگایا کرنااس کا کیا بولو۔۔۔

داود نے میرال کو آنکھوں میں سموتے کہا۔۔۔میرال آنکھیں جھکائے وہاں سے جانے کے لیے پر تول رہی تھی ۔۔۔۔

اگر نظر اٹھا کر اپنے اینگری برڈ کو لو برڈ بنے دیکھتی تو یقینننا بے ہوش تو وہ ضرور ہو جاتی۔۔۔

کل سے مجھے تم اٹھانے آو گی سنا تم نے ۔۔۔اگر بھولی یا کوئی بہانہ بنایا تو یاد رکھنا۔۔۔۔ داود کی اس دھمکی آمیز الفاظوں سے میرال کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔

یہ کہتے ہوئے داود نے اسکی حالت سے محظوظ ہوتے مسکراتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔
نا جانے اس کے دل میں اس وقت کیا سمائی۔۔۔ فاصلہ کم کرتے ہوئے میرال کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے۔۔۔

میرال جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھی داود کی اس عنایت پر آنکھیں پھاڑے داود کو یک ٹک دیکھنے لگی۔۔

داود نے نظریں چراتے ہوئے اسے ایسے دیکھا جیسے اسکی دل میں چھپی ہوئی چوڑی پکری گئی ہو۔۔

ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے دوبارہ اپنی اسی اینگری برڈ کی ٹون میں واپس آتے ہوئے اسے لگا اسے گھورنے۔۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو روزہ نہیں رکھنا کیا۔۔چلو اب جلدی سے۔۔۔

یہ کہتے ہوئے داود نے آگے کو قدم بڑھائے جب پیچھے سے اس نے میرال کی بلند اواز میں کی گئی بڑبڑاہٹ کو سنا۔۔۔

لگتا ھے روزے رکھ کر اینگری برڈ کا دماغ خراب ہو گیا ھے۔۔۔
میرال کے منہ سے جب اینگری برڈ کا لفظ سنا پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔۔۔

پھر جب لفظوں پر غور کیا تو سمجھ لگی کہ یہ لقب اسے دیاگیا ھے۔۔۔

داود نے جب پیچھے مرتے دیکھا میرال اپنے ماتھے پر اس کا لمس محسوس کرتے ہوئے اسی کو گھور رہی تھی۔۔۔

داود کے مڑنے پر جلدی سے ہاتھ نیچے کرتی وہاں سے رفو چکر ہوگئی۔۔

داود نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ڈائننگ ہال کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔
☆☆☆☆☆

بیلا جب ڈائینگ ہال میں پہنچی تو وہاں سب اس وقت سحری کرنے میں مصروف تھے۔۔۔

حفصہ بیگم نے جب بیلا کو سر جھاڑ منہ پھاڑ سحری کرتے ہوئے آتے دیکھا ۔۔۔

ایک ناگوار سی شکن انکے ماتھے پر ابھری۔۔۔

اماں آپ کو اور پراٹھا دوں؟؟ ہاجرہ نے اپنی ساس کی توجہ دوسری طرف لگاتے ہوئے کہا۔۔۔

نہیں بہو تم میری فکر چھوڑو اور اس بلا کی فکر کرو۔۔۔نا جانے کیوں یہ ہمارا خون پینے پر تلی ھے ۔۔۔

نا میں کہتی ہوں کہ یہ کونسا طور طریقہ ھے اس گھر کا ایک یہ ڈاکٹر صاحبہ ھے جو ڈاکٹر کم اور مریض زیادہ لگتی ھے۔۔۔

یا تو ہاسپٹل یا پھر اپنی موٹی موٹی کتابوں میں سر گھسائے رکھتی ھے۔۔۔

ارے کچھ سلیقہ بھی سکھاو اسے ۔۔۔خود تو نایاب ہو ہی اوپر سے بیٹی بھی نرالی ھے ۔۔۔حفصہ بیگم نے اب توپوں کا رخ سب سے بڑی والی کی طرف سے کرتے ہوئے سب سے چھوٹی والی تک گولہ بارود برسانا تھا۔۔۔

جی بہتر اماں میں اسے سمجھا دوں گی۔۔۔نایاب نے صلح جو انداز اپناتے ہوئے کہا۔۔۔

یہ سب روز کا معمول تھا شاہ پیلس میں ۔۔۔ حفصہ بیگم اپنی سب ہی پوتیوں پر صدقے واری جاتی تھی بس ظاہر نہیں کرتی تھی۔۔۔

ان کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ انکی پوتیوں کو پرائے گھر میں کوئی بات نا کہے ۔۔۔
انکی تربیت پر کوئی انگلی نا اٹھائے ۔۔۔بس یہ ہی وجہ تھی وہ ہر وقت اس گھر کی بکریوں یعنی کہ بیٹیوں کو سدھارنے اور انہیں سکھڑاپا سکھانے میں اپنا دل جلاتی رہتی۔۔۔

جس سے یہ سب شروع ہوا تھا وہ لاپرواہ بنے آرام سے سحری ٹھونسنے پر فوکس کیے بیٹھی تھی۔۔۔

اماں جان آپکی زینب سے بات ہوئی کس دن فلائیٹ ھے ؟؟؟

احمد شاہ نے ماں کی توجہ زینب کی طرف مبزول کروائی۔۔۔

ارے مجھ سے جو پوچھ رہے ہو خود بہن کو فون کرنے پر پابندی ھے کیا؟؟؟

اس بات پر تمام لڑکیاں کھی کھی کر کے ہنسنے لگی۔۔۔

نی اماں جان وہ میں نے پرسوں کی تھی بات تو زینب بتا رہی تھی کہ وہ دسویں روزے تک انشاء اللہ پاکستان آ جایے گی۔۔۔

یہ بات سن کر حفصہ شاہ کو تسلی ہوئی کہ بھائیوں کی محبت میں رتی برابر بھی کمی نا آئی تھی۔۔۔

اماں جان انکے لیے کونسا کمرہ سیٹ کروانا ھے وہ اپ مجھے بتا دیجیے گا میں ٹائم سے پھر وہ کمرہ سیٹ کروا لے گی۔۔۔

رشمہ نے اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے اماں جان کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔۔۔

نا رشمہ گل بی بی پہلے تم اپنا یہ گا ۔گی سیٹ کرواوں پھر اور کچھ سیٹ کروانا۔۔۔

رشمہ نے برا نا مناتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔ لاکھ وہ اپنی بہووں سے خائف رہتی پر وہ سب انکی تھی بہت تابعدار۔۔۔
خود چاہے وہ جو مرضی کہہ دیتی پر اپنی بہووں کے بارے میں ایک لفظ بھی سننے کی روادار نا ہوتی۔۔۔

رشمہ تم ایسا کرنا ضرار کے لیے بیلا کا کمرہ سیٹ کروا لینا ۔۔۔

بیلا نے جیسے ہی سنا وہ ایک دم سے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے دادی کو دیکھنے لگی۔۔۔

گرینی مجھے اپنے کمرے کے علاوہ اور کہیں نیند نہیں آتی۔۔بیلا نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے دادی سے کہا

تو گرینی کی جان اسی لیے تو تمہارا کمرہ دے رہی ہوں تاکہ تم زرا جلدی سے اٹھنے کی عادت اپناو۔۔۔
اور کھانے کی ٹیبل پر یوں سر جھاڑ منہ پھاڑ نا پہنچو۔۔۔

گرینی پلیزززز نا ایسا مت کرے آپ میرال کا کمرہ دیں دے نا ۔۔ اور میرال میرے ساتھ میرے روم میں سو جایا کرے گی
بیلا نے ایک اور تجویز پیش کی ۔۔۔

میرال کے کمرے میں پرنیا سوئے گی اسکے ساتھ اور زینب میرے ساتھ سویا کرے گی ۔۔۔

ارے اتنے سالوں بعد میری بچی واپس آ رہی ھے تو کیا اب میں اسے دوسرے کمرے میں ٹھہراوں گی کیا؟؟

میں نے تو زینب کو کہہ دیا ھے دو تین دن میں سب سسرالی رشتوں داروں کو نبٹا کر بس میرے پاس ہی رہے۔۔۔

تو گرینی میں کونسا منع کر رہی ہوں مجھے بھی پھپھو سے پیار ھے ۔۔۔

بیلا اب چپ ہو جاو اماں نے کہہ دیا ھے نا تو بسس اپنی ضروری چیزیں سب میرال کےکمرے میں شفٹ کر دینا۔۔۔

ہاجرہ نے بیلا کو گھورت ہوئے کہا۔۔۔بیلا منہ بسورے سب کو دیکھنے لگی۔۔۔

جیسے ہی ازان ہونے لگی گھر کے سب ہی مرد نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی تیاری کرنے لگے۔۔۔

سب ہی ڈائینگ ہال سے باری باری نکلنے لگے منہا تو جلدی سے روم میں بھاگ گئی ۔۔۔

بیلا آنکھوں میں انگارے لیے پرنیا کو دیکھ رہی تھی جو لبوں پر دھیمی سی مسکان سجائے بیلا کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔

بیلا نے اسکی دل جلانے والی جب مسکراہٹ کو دیکھا تو سب سمجھ گئی گرینی کے دماغ میں یہ بات ڈالنے کے پیچھے اس پرنیا کا ہی ہاتھ ھے۔۔۔

بیلا کا بس نی چل رہا تھا کہ پرنیا کو اپنی آنکھوں سے ہی بھسم کر ڈالے۔۔۔

دل ہی دل میں اس سے بدلہ لینے کا سوچتے ہوئے تن فن کرتی وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔۔۔۔

پرنیا بھی کہاں باز آنے والی تھی ہونہہ کرتے ہوئے حفصہ بیگم کا ہاتھ پکر کر کہنے لگی

آئے دادو میں آپکو وضو کروا کر کمرے میں چھوڑ آوں۔۔۔

ارے جیتی رہ میری بچی شکر ھے تجھے میں نے گھٹی دی تھی یہ سب اسی کا اثر ھے جو تو اتنی فرمانبردار ھے۔۔۔۔

حفصہ بیگم نے پیار سے پرنیا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

داود اپنی شرٹ کا پوچھنے کے لیے آیا تو دیکھا ہال میں صرف میرال تھی جو برتن اٹھانے کے ساتھ ساتھ منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اپنا غصہ برتنوں پر نکال رہی تھی۔۔۔

یہ کس کا غصہ برتنوں پر نکالا جا رہاھے۔۔۔

داود کی آواز اپنے اتنے نزدیک سننے پر میرال کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔

کچھ دیر پہلے داود کی گئی عنایت یاد آنے پر میرال کا بے دھیانی میں ہاتھ اپنے ماتھے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

داود نے اسکی اس حرکت کو بغور دیکھتے ہوئے اپنے لبوں پر آئی مسکراہٹ کو پیچھے دھکیلا۔۔۔

کیا پوچھ رہاہوں ؟؟؟ کس کا غصہ نکال رہی ہوں بولو۔۔۔

وہ بس میں بیلا کا روم میں شفٹ ہونے پر بس۔۔۔

داود کےسامنے میرال کی ایسے ہی بولتی بند ہو جاتی تھی۔۔۔
رشتہ ہی کچھ ایسا تھا ۔۔۔ داود فورا سے پہلے بات کی تہہ تک پہنچ گیا ۔۔۔۔

اوہ اچھاااااا۔۔۔۔ داود نے اچھاااا کو کھینچتے ہوئے ٹھوڑی پر ہاتھ رکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں کہنے لگا ۔۔۔۔۔اسکا ایک حل ھے میرے پاس۔۔۔۔

میرال نے حیران ہوتے آنکھوں میں سوال لاتے ہوئے داود کی طرف اپنی شہد رنگ کی آنکھوں سے دیکھا۔۔

داود نے اسکی انکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کچھ فاصلہ کم۔کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔

ایک حل ھے میرے پاس پر وہ ۔۔۔ داود نے جا بوجھ کر بات کو ادھورا چھوڑا۔۔۔

بتائے نا پلیزززز۔۔۔۔میرال نے التجا کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اگر میں تمہیں اپنے روم میں شفٹ کروا لوں تو۔

آج تو داود شاہ میرال کو ہارٹ اٹیک کروانے پر تلا ہوا تھا۔۔۔

میرال نے بے یقینی سے داود کی طرف دیکھا۔۔۔
وہ بھی اپنی گہری سیاہ آنکھیں اسی پر جمائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔

جاری ھے

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pothwari Food secrets posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share