14/03/2022
1988 کے الیکشن میں نوازشریف پنجاب کا وزیراعلی بنا اور فضل الرحمان پہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوا۔ نوازشریف اور فضل الرحمان کے نزدیک یہ الیکشن منصفانہ اور دھاندلی سے پاک تھے۔
1990 کے انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوا اور فضل الرحمان اپنے حلقے سے ہار گیا۔ نوازشریف کے مطابق یہ انتخابات شفاف ترین تھے جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک ان میں دھاندلی ہوئی۔
1993 کے انتخابات میں بینظیر وزیراعظم بنی اور ن لیگ دوسرے نمبر پر آئی۔ فضل الرحمان رکن اسمبلی بننے میں بھی کامیاب ہوگیا اور بینظیر نے اسے خارجہ امور کی کمیٹی کا چئیرمین بھی لگا دیا۔ نوازشریف کے مطابق ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک یہ نہایت شفاف الیکشنز تھے۔
1997 کے انتخابات میں نوازشریف دوتہائی اکثریت سے وزیراعظم بنا اور فضل الرحمان اپنی نشست ہار گیا۔ نوازشریف کے مطابق یہ شفاف ترین الیکشن تھے جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک انتخابات میں جھرلو پھیرا گیا۔
2002 کے الیکشنز مشرف نے کروائے، ن لیگ کو 16 سیٹیں ملیں، ایم ایم اے 60 سے زائد سیٹیں جیت گئی۔ فضل الرحمان کو مشرف کی ایما پر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ملا اور خیبرپختون خواہ سمیت بلوچستان کی حکومت بھی ملی۔ نوازشریف کے مطابق ان میں بدترین دھاندلی ہوئی جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک یہ تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔
2008 میں مرکز میں زرداری جیتا، ن لیگ پنجاب جیتی اور فضل الرحمان اپنی سیٹ جیت کر مرکز میں وزارتیں لے بیٹھا۔ نوازشریف اور فضل الرحمان کے نزدیک یہ الیکشن شفاف تھے۔
2013 کے انتخابات میں نوازشریف مرکز اور پنجاب میں جیتا، فضل الرحمان اپنی سیٹ جیتا۔ فضل الرحمان کو مرکز میں وزارتیں ملیں۔ نوازشریف اور فضل الرحمان کے نزدیک یہ انتخابات منصفانہ تھے۔
2018 کے انتخابات میں ن لیگ مرکز سے ہاری، پنجاب بھی ہاتھ سے نکل گیا، فضل الرحمان اپنی دونوں نشستیں ہارگیا۔ ن لیگ اور فضل الرحمان کے نزدیک ان اتخابات میں دھاندلی ہوئی۔
اوپر پچھلے 30 سال میں ہونے والے 8 انتخابات کی تاریخ بیان کردی۔ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ن لیگ اور فضل الرحمان کے نزدیک کونسے الیکشن شفاف ہوتے ہیں اور کون سے دھاندلی زدہ۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب بھی دونوں کو اقتدار میں حصہ ملا، انہیں وہ انتخابات شفاف لگے، اور جب بھی یہ اقتدار سے باہر ہوئے، انہیں لگا کہ دھاندلی ہوئی۔
ن لیگ اور فضل الرحمان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا گندہ باب ہیں۔۔
"بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی"