Daily Fun & Entertainment

Daily Fun & Entertainment Daily Fun & Entertainment

14/10/2024

Oppo K12 Plus

01/10/2024

Mashoq kA Ashiq k Ghar Intaqaal Ho Gaya Jhang Tv 2024

05/09/2024

The Goat Life

پنجاب کے بلوں میں واضح ریلیف ❤️❤️
27/08/2024

پنجاب کے بلوں میں واضح ریلیف ❤️❤️

استاد نصرت فتح علی خان (پیدائش: 13 اکتوبر 1948ء | وفات: 16 اگست 1997ء)عظیم پاکستانی قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور ب...
18/08/2024

استاد نصرت فتح علی خان (پیدائش: 13 اکتوبر 1948ء | وفات: 16 اگست 1997ء)
عظیم پاکستانی قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے۔ نصرت فتح علی خان کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے پاپ و کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کرکے موسیقی کو نئی جہت بخشی۔ انھیں "شہنشاہ قوالی" بھی کہا جاتا ہے۔
انھوں نے اپنی پہلی پرفارمنس ریڈیو پاکستان کے سالانہ موسیقی کے پروگرام ’جشن بہاراں‘ کے ذریعے دی۔ ان کی پہلی کامیاب قوالی ’’حق علی علی‘‘ تھی جو دنیا بھر میں ان کی شناخت کا باعث بنی۔ نصرت فتح علی خان زیادہ تر اُردو، پنجابی جبکہ کبھی کبھی فارسی، برج بھاشہ اور ہندی زبان میں بھی گاتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں متعدد البم ریلیز کیے، جس میں قوالی کے 125 آڈیو البم شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا۔
نصرت فتح علی خان فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے ہجرت کرکے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول بنانے میں صرف کر دی۔ انھوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انھیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
-
1964ء میں والد کی وفات کے بعد انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان سے حاصل کی ۔ 1971 اپنے چچا مبارک فتح علی خان کی وفات کے بعد وہ قوالی پارٹی کے سربراہ بنے۔
ابتدائی کامیابی کے بعد اورینٹل سٹار ایجنسیز، برمنگھم، انگلینڈ نے 1980 کی دہائی میں ان کے ساتھ معائدہ کیا۔ نصرت فتح علی خان نے یورپ، ہندوستان، جاپان، پاکستان اور امریکا میں کئی فلمی البمز ریلیز کیے، وہ مغربی فنکاروں کے ساتھ تعاون اور تجربات میں مصروف رہے اور ایک مشہور عالمی میوزک آرٹسٹ بن گئے۔ انھوں نے 40 سے زیادہ ممالک میں پرفارم کیا۔ قوالی کو مقبول بنانے کے علاوہ، انھوں نے جنوب ایشیائی موسیقی پر بھی گہرا اثر ڈالا اور انھوں نے پاکستانی پاپ، ہندوستانی پاپ اور بالی ووڈ موسیقی کو بھی جدید استوار پر لے کر آئے۔

آپ کے دادا افغانستان کے درالحکومت کابل کے رہنے والے پٹھانوں کی شاخ نورزئی سے تعلق رکھتے تھے جو بعد میں ہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب کی شہر جالندھر میں آ بسے۔ ان کے پاس صوتی صلاحیتوں کی ایک غیر معمولی حد تھی اور وہ کئی گھنٹوں تک اعلیٰ درجے کی شدت میں قوالی پیش کر سکتے تھے۔ نصرت فتح علی خان کو 2016ء میں ایل اے ہفت روزہ نے اب تک کا چوتھا عظیم گلوکار بتایا تھا۔
-
نصرت فتح علی خان کا وزن 137 کلوگرام (300 پاؤنڈ)سے زیادہ تھا۔ امریکی ریکارڈنگ کے ترجمان کے مطابق، استاد نصرت کئی مہینوں سے شدید بیمار تھے۔ جگر اور گردے کی تکلیف کے علاج کے لیے اپنے آبائی وطن پاکستان سے لندن جانے کے بعد، انھیں ہوائی اڈے سے لندن کے کروم ویل اسپتال پہنچایا گیا۔ استاد نصرت کا انتقال 16 اگست 1997ء کو 48 سال کی عمر میں، کرول ویل ہسپتال میں اچانک دورہ قلب سے ہوا۔ ان کی میت کو فیصل آباد واپس بھیج دیا گیا اور وہیں دفن کیے گئے۔ نصرت فتح علی خان کی اہلیہ، ناہید نصرت کا انتقال 13 ستمبر 2013ء کو کینیڈا کے شہر انٹاریو کے مسسی ساگا کے کریڈٹ ویلی اسپتال میں ہوا۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد ناہید کینیڈا چلی گئی تھیں۔ ان کی ایک بیٹی ندا خان ہے۔ نصرت فتح علی خان کی موسیقی کی میراث کو اب ان کے بھتیجوں راحت فتح علی خان اور رضوان معظم نے آگے بڑھایا ہوا ہے۔

Weldone Boy 👍
11/08/2024

Weldone Boy 👍

پاکستان تیزی سے ترقی کر رھا ھاافریقہ سے ٹینکی فل کروانے پہنچ گیا 😜😜
06/08/2024

پاکستان تیزی سے ترقی کر رھا ھا
افریقہ سے ٹینکی فل کروانے پہنچ گیا 😜😜

ان پڑھ لوگپتھر کا دور۔ہمارے بزگوں سے لیکر ہم تک کتنے ان پڑھ گوار اور جاہل تھے نا وہ دور بھی پتھر کا دور تھا جس میں ہر چی...
06/08/2024

ان پڑھ لوگ
پتھر کا دور۔
ہمارے بزگوں سے لیکر ہم تک کتنے ان پڑھ گوار اور جاہل تھے نا وہ دور بھی پتھر کا دور تھا جس میں ہر چیز دیسی اور خالص تھی کھانے سے لیکر کر رہن سہن احساس محبت سب خالص تھا
کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔محض 30 سال پہلے ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن سکون اس قدر تھا جسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔
کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانکے(ننہال) کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ دادکے(ددیہال) کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔
یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارا اور ان کا میعار ایک سا نہیں تھا کیونکہ ہمارا سٹیٹس ان سے بہت اوپر تھا
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔
پہاڑوں میں گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو طرح طرح کے کھانے ان کے لیے آتے سارا دن محفل کا سماں رہتا اسے حاشر بولا جاتا تھا۔
جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑی دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے دن بھر کی تھکان اور دیسی خوان کے مزے لے کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔
جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوۓ ہوں کیونکہ باقی ان پڑھ گاٶں یا محلے والے خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سوہنی نے کچے گڑھے پر پنوں کے لیے دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مکی (مکٸ) کٹاٸی سے کوٹائی ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔
کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ہے
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے اپنی اولاد ہو ختنے سے شادی تک کا ماحول رنگینوں سے بھرا ہوتا ۔۔
اتنے ان پڑھ گوار تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور ہے کچھ پڑھی لکھی باشعور نسل کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔
وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق لسانیت کا فرق سٹیٹس کا فرق شعور کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہیں ہے برداری ہے قبیلہ ہے اور سب سے بڑھ کر سٹیٹس ہے۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا ہے کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔
اب ہر کوئی دست و گریباں ہے اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ موجودہ دور کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور بڑے ہیں لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گۓ ہیں ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا سینہ چیر کر غلہ اگتا تھا اب اسی پہ لڑنا مرنا شروع کر دیا ہے نفرتوں نے دلوں میں گھر کر لیا۔
لیکن کاش وہ وقت پھر سے لوٹ آۓ ہم پھر سے بارش میں بارش کے پانیوں میں کھیلں گیلی مٹی سے گھر بناٸیں کھلونے بناٸیں کوگو گھوڑے بناٸیں دوسروں کے گھروں کی کنڈی کھڑکا کے بھاگ جاٸیں کاش گلیوں سے صداٸیں آٸیں ۔ کڑیو بالو چیز ونڈی دی لٸ جاٶ۔
کاش ساٸیکل پہ آیا بندہ صدا دے پانڈے کلی کرالو۔
ہم پھر سے لکن میٹی(آنکھ مچولی) کھیلیں۔شٹاپو ۔کوکلا شپاکی۔گچی پن۔ٹھیپو گول گرم۔لمبی گھوڑی۔باندر کلا۔گلی ڈنڈا کھیلیں۔
دوسری طرف لڑکیاں گڈی گڈے کی شادی کریں پنج گیڈ کھیلیں درختوں پہ پینگیں ڈالیں عید شادی پہ مہندیاں لگاٸیں دو دو گُتیں کریں لمبے پراندے پہنیں۔
شادیوں پہ سب اکٹھے ہوکے روایتی ماہیے ٹپے گیت گاٸیں ڈھول بجے شہناٸیاں گونجیں پتاسے چھوارے بانٹیں مٹھاٸیاں بناٸی جاٸیں چلیبیاں بنیں۔شادی کا پیغام لے کر ناٸی آۓ اسے ماما چاچا بولا جاۓ اسے کھانا کھلانے کے بعد کپڑے اور پیسے دیے جاٸیں۔
کاش کھو سے پانی پینے بھرنے کا موقع ملے
کاش آگ اور راکھ میں آلو اور چھلیاں بھونیں ۔امی ولاں والا پراٹھا بناٸیں گڑ والے چاول۔دودھ کی کھیر۔کڑی۔ساگ۔وڑیاں۔ بارش والے دن پکوان حلوہ میٹھیاں روٹیاں۔ پٹھی والے والی سے دانے بھنوانے جاٸیں تندور پہ روٹیاں لگی ہوں چٹی اچار اور لسی کے ساتھ کھاٸیں۔
کاش وہ وقت لوٹ آۓ جب ایک روپے کے 100 ٹیڈی بسکٹ ملیں بڑے بڑے رس لمبے پاپڑ لچھے کھاٸیں بیریوں سے توڑ کے بیر کھاٸیں مرغیوں کے کھڈے سے انڈے نکالیں۔نہروں نالوں چھپڑوں میں نہاٸیں شہد نکالنے جاٸیں پرندے پکڑیں پتنگ بازی کریں پانی میں کاغز کی کشتیاں چلاٸیں گلی سے ابلی چھلی گھر سے روٹی کے ٹکڑے دے کے لیں غبارے بیچنے والا آۓ تو خوشی کا ٹھکانہ نا ہو۔
ساٸیکل کی قینچی چلاتے چلاتے کچے رستے میں گر کر منہ مٹی سے بھر لیں۔
کسی سبزی کے کھانے سے انکار پہ امی سے چھتر پڑیں قمیض کے کف سے ناک صاف کرنے پہ چھتر پڑیں بندر نچانے والے کو آٹا پیسے دیں ٹرالی اور بیل گاڑیوں پہ بارتیں جاٸیں۔ ابا جی کے کندھے پہ بیٹھ کے میلا دیکھیں جھولے جھولیں۔ بارش کے بعد اونچی جگہ سے پسلن پہ پسلتے پھریں۔
ہمارا بچپن تو لوٹ نہیں سکتا کاش وہ وقت آج اور آنے والی نسلوں کے لیے لوٹ آۓ جب ہم پتھر کے دور میں تھے جس کو آج شعور والے جہالت کا دور کہتے ہیں جب سب خالص تھا کھانے ملاوٹ سے پاک تھے خلوص خالص تھا اپنا پن خالص تھا کوٸی رشتہ نا ہونے کے باوجود سب اپنے تھے اپنے رشتے تھے محبت خالص تھی اگر ہم ہمارے بڑے آج کے شعور اور سٹیٹس والوں کے لیے ان پڑھ گوار پتھر کے دور کے جاہل تھے تو ہمیں فخر ہے اس پہ ہم جاہل بھی تھے پاگل بھی تھے کیونکہ ہم محبت والے تھے۔
محبت والو محبت بڑی نعمت ہے

30/07/2024

پاکستانیوں قدر کرو اپنے ٹیلنٹ دی 🤔😱🤗

Comment main Red Line lga kr es picture ko bhjy 😂😂🤣🤣
17/07/2024

Comment main Red Line lga kr es picture ko bhjy 😂😂🤣🤣

😭😭😭😭 زیر نظر تصویر میں آپ کو ایک مردہ جسم نظر آرہا ہوگا تو سنییں ہوا کچھ یوں کہ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے گھر والے اور ...
17/07/2024

😭😭😭😭

زیر نظر تصویر میں آپ کو ایک مردہ جسم نظر آرہا ہوگا تو سنییں ہوا کچھ یوں کہ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے گھر والے اور رشتہ دار وغیرہ اس مردہ جسم (میت) کو پلاسٹک میں ڈھانپ لیتے ہیں اور تمام لوگ کمروں وغیرہ میں پناہ لے لیتے ہیں ۔۔۔

یہ میری اور آپ کی کہانی ہے ہمارے ہونے نہ ہونے سے اتنا فرق پڑھتا ہے آپ سوچیں کہ مرنے کے بعد کوئی آپ کے لیے بارش کے پانی میں بھیگنا بھی نہیں چاہتا کوئی اس بارش میں اپنی قیمتی چیزوں کو خراب نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہم دنیا داری اور ان رشتوں کے لیے اپنے رب کو ساری عمر ناراض کرتے پھرتے ہیں اور آخر میں ہماری یہ حیثیت ؟

Thanks for planting Fans on the roads 😂😂😂😂
03/07/2024

Thanks for planting Fans on the roads 😂😂😂😂

سوال : مخلوق اور اشرف المخلوقات میں فرق‏انکل سرگم(فاروق قیصر) سے کسی نے پوچھا تھا اشرف المخلوقات کیا ھے؟ 🤔🤔ان کا تاریخی ...
29/06/2024

سوال : مخلوق اور اشرف المخلوقات میں فرق
‏انکل سرگم(فاروق قیصر) سے کسی نے پوچھا تھا اشرف المخلوقات کیا ھے؟ 🤔🤔
ان کا تاریخی جواب تھا:
"گریڈ ایک سے سولہ "مخلوق"اور سولہ سے اوپر اشرف المخلوقات

طارق عزیز کون تھا 😘🤔جس وقت ٹی وی شروع ہوا طارق عزیز ، ریڈیو پر خبریں پڑھتے تھے اور اعلانات کرتے تھے۔ یاسمین طاہر نے انہی...
27/06/2024

طارق عزیز کون تھا 😘🤔
جس وقت ٹی وی شروع ہوا طارق عزیز ، ریڈیو پر خبریں پڑھتے تھے اور اعلانات کرتے تھے۔ یاسمین طاہر نے انہیں بتایا کہ ٹی وی شروع ہو رہا ہے ۔ اس میں اناؤنسروں اور نیوز کاسٹروں کی جگہیں ہیں لہذا طارق عزیز نے بھی درخواست دے دی۔
جس دن انٹرویو تھا وہ عجیب حلیے میں وہاں پہنچے اور وہاں ایک سے ایک اسمارٹ شخص انٹرویو دینے آیا تھا۔ اسلم اظہر ، ذکاء درانی ، فضل کمال اور نثار حسین اس وقت ٹی وی کے کرتا دھرتا تھے۔
طارق عزیز جب پیش ہوئے اور سوالوں کے جواب دیے تو اسلم اظہر نے ان سے کہا
"ذرا ہنسیں" طارق عزیز بولے "سر! میرے پاس ہنسنے کو کچھ نہیں ہے۔ ہنسی کا تعلق دل کی خوشی سے ہے اور آج میرا دل افسردہ ہے"
انٹرویو ختم ہوا اور سب امیدوار چلے گئے۔ صرف طارق عزیز کو اسلم اظہر نے روک لیا۔ ان کے لئے بلیک کافی منگوائی ۔ طارق عزیز اپنے بارے میں بتانے لگے "میرا گھر ساہیوال میں ہے۔ وہاں میرے لئے روٹی تو ہے مگر میں دنیا سے اپنی قیمت وصول کرنے نکلا ہوں۔ اس وقت دنیا مجھے ڈیڑھ سو روپے ماہوار دیتی ہے جس کے لئے میں ریڈیو پر نیوز کاسٹر ، اناؤنسر ، کمپئیر ، ڈرامہ آرٹسٹ اور جانے کیا کیا کرتا ہوں۔ اردو بھی پنجابی بھی ، رواں تبصرہ اور خطوں کے جوابات بھی میرے ذمہ ہیں۔ اوپر سے وہاں عزت بھی نہیں دی جاتی۔"
پھر اسلم اظہر نے ان سے پوچھا کہ ٹی وی پر خبریں اور اعلان کا کیا معاوضہ لیں گے تو طارق عزیز نے جواب دیا "ایک سو پچاس روپے ریڈیو سے کماتا ہوں۔ آپ سے ایک سو اکاون لوں گا۔ میں ایک ترقی پسند آدمی ہوں ۔ مجھے احساس رہے گا کہ ریڈیو چھوڑ کر میں نے ترقی کی ہے۔ ٹی وی مجھے ایک روپیہ زیادہ دے رہا ہے۔"
کچھ دنوں بعد طارق عزیز کو ٹی وی پر بلا لیا گیا اور پانچ سو روپیہ ماہوار پر انہیں رکھ لیا گیا۔
زیر نظر تصویر ستر کی دہائی میں نیلام گھر کراچی کے ایک پروگرام کی ھے جس میں ابن انشا کو مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
احمد رضا ڈار

یاد رھے یہ فوٹو بلیک واٹ تھی

طارق عزیز ۔۔۔سچا و اونچا پاکستانی   ریڈیو،ٹی وی اور فلم کے صدا کار واداکار اور خبریں پڑھنے والے، پاکستان ٹیلی ویژن کے پہ...
25/06/2024

طارق عزیز ۔۔۔سچا و اونچا پاکستانی
ریڈیو،ٹی وی اور فلم کے صدا کار واداکار اور خبریں پڑھنے والے، پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد نقیب، عرصہ دراز تک چلنے والے پی ٹی وی انعامی سٹیج شو نیلام گھر اور بزم طارق عزیز کے میزبان،
28 اپریل 1936 ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام عبدالعزیز پاکستانی تھا۔انگریزی ملازمت چھوڑی دی لیکن پاکستانی کا لفظ نام سے الگ نہ کیا۔ان کے والد جالندھر سے ہجرت کرکے ساہیوال آبسے۔
طارق عزیز سحن وادب اور فنون لطیفہ کے مرقع تھے۔وہ منفرد لہجے کے شاعر مجید امجد کے جگری دوست تھے۔انہیں مجید امجد اور شکیب جلالی کا کافی کلام ازبر تھا۔طارق عزیز کو شعر کہنے کا ملکہ حاصل تھا۔وہ اپنے پروگرامز میں بیت بازی کا مقابلہ ضرور رکھتے تھے اور کمال لہجے میں شعر پڑھتے تھے۔وہ پنجابی اشعار بھی بہت خوب صورت انداز سے پڑھتے تھے۔
طارق عزیز کو پی ٹی وی کے پہلے مرد نقیب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1964ء میں لاہور شہر میں قائم ہونے پاکستان کے پہلے ٹی وی مرکز سے سب سے پہلے انہوں نے کلام کیا۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔یہ پاکستان ٹیلی ویژن ہے اور طاتق عزیز آپ سے مخاطب ہے۔سب سے پہلے آپ پروگرامز کی تربیت ،خبریں اور موسم کاحال سنیں گے اور اس کے بعد بچے اپنا پروگرام دیکھیں گے۔طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔
آج ان کی چوتھی برسی ہے۔وہ 17 جون 2020ء میں لاہور میں انتقال کرگئے۔وفات پانے سے قبل انہوں اپنی چار کروڑ سے زائد رقم،منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد پاکستان کے نام پر وقف کرکے۔ اپنے والد گرامی عبدالعزیز پاکستانی کے نام کی لاج رکھ لی۔طارق عزیز نے پنجابی شاعری کی ایک کتاب ، ہمزاد دا دکھ، بھی لکھی تھی۔
#محمد سلیم ۔۔۔۔17جون 2024ء

حضرت سليمانؑ کیلئے جنات کے کھودے ہوۓ کنویںسعودی عرب کا ایک دور افتادہ گاﺅں ”لینہ“ عہد قبل از تاریخ کے کئی عجائبات پر مشت...
24/06/2024

حضرت سليمانؑ کیلئے جنات کے کھودے ہوۓ کنویں

سعودی عرب کا ایک دور افتادہ گاﺅں ”لینہ“ عہد قبل از تاریخ کے کئی عجائبات پر مشتمل ہے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کیلئے جنات کے کھودے ہوئے 300 کنوئیں بھی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اگرچہ ناکارہ ہو چکے ہیں، مگر 20 کنوﺅں سے اب بھی لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ جنات نے یہ کنوئیں زمین کے بجائے سخت ترین چٹانوں کو توڑ کر بنائے تھے، جس پر اب بھی ماہرین حیران ہیں۔ ان عجائبات کو دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کا یہ تاریخی گاﺅں ”لینہ“ مملکت کے شمالی شہر رفحا سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قدیم علاقہ اسٹرٹیجک اہمیت کے ساتھ متعدد آثار قدیمہ کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ یہاں ایک قدیم قلعہ بھی ہے۔ پرانے زمانے میں بیت المقدس اور یمن کے مابین پیدل سفر کا مشہور راستہ اسی گاﺅں سے گزرتا تھا۔ عدن سے عراق جانے والا ملکہ زبیدہ کی بنائی ہوئی مشہور سڑک ”درب زبیدہ“ بھی یہیں سے ہو کر جاتی تھی۔ اب بھی سیر و تفریح کے شائقین بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔

سعودی محقق حمد الجاسر کا کہنا ہے کہ یہ قدیم گاﺅں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بھی اترا تھا۔ سلیمان علیہ السلام جب اپنا لشکر لے کر یمن جا رہے تھے تو یہاں ٹھہرے تھے۔ اس بےآب و گیاہ علاقے میں لشکر کو پانی کی ضرورت آئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ وہ ہنگامی طور پر کنوئیں کھودیں تو جنات نے چٹانوں پر مشتمل اس سخت ترین زمین میں 300 کنوئیں کھود دیئے تھے۔ یہ انتہائی گہرے کنوئیں اب بھی اصلی حالت پر موجود ہیں۔ جنہیں زمین پر اب بھی اپنا وجود رکھنے والا معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ جنات نے چٹانوں کو کاٹنے کیلئے ڈرل مشین کی طرح کوئی آلہ استعمال کیا تھا، جس کے نشانات اب بھی کنوﺅں کی چاروں اطراف واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

ماہرین اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جنات نے آخر کس طرح ان سخت ترین چٹانوں کو 60 سے 80 میٹر گہرائی تک کاٹا تھا اور انہوں نے کونسے آلات کی مدد حاصل کی تھی۔ اگرچہ ان 300 میں سے اس وقت صرف 20 کنوئیں ہی کارآمد رہ گئے ہیں، تاہم سارے کنوﺅں کے نشانات اب بھی یہاں موجود ہیں۔ ان کنوﺅں کو دیکھنے والا ہر شخص حیرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لاﺅ لشکر سمیت یمن جارہے تھے تو وہ یہاں دوپہر کے کھانے کے لیئے اترے تھے۔ لشکر میں جنات کی بھی شامل تھے۔ جب لوگ پیاسے ہوئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے کمانڈر ”سبطر“ کی طرف دیکھا تو وہ ہنس رہا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ، "آپ لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہیں، مگر میٹھا پانی آپ کے قدموں کے نیچے ہی ہے۔" حضرت سلیمان علیہ السلام نے سبطر کو پانی نکالنے کا حکم دیا تو تھوڑی دیر میں ہی اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے 300 کنوئیں کھود دیئے اور سیدنا سلیمانؑ کا پورا لشکر سیراب ہو گیا۔

معروف مورخ یاقوت حموی کے دور تک یہ سارے کنوئیں میٹھے پانی سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ یاقوت حموی نے اپنی مشہور کتاب ”معجم البلدان“ میں لکھا ہے کہ ”لینہ“ عراق کے شہر واسط سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ساتویں منزل پر آتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے میٹھے پانی کے کنوﺅں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ ان کنوﺅں کی وجہ سے یہ علاقہ بعد میں ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ جہاں عراق اور عرب کے تاجر منڈیاں لگاتے۔ نجد سمیت سعودی عرب کے شمالی علاقوں کے لوگ یہاں آکر خریداری کرتے۔ تاجر اپنے سامان تجارت کو یہیں اگلے سیزن تک محفوظ کیلئے پہاڑوں پر بنے بڑے بڑے گوداموں میں رکھتے۔ جنہیں ”سیابیط“ کہا جاتا ہے۔ یہ گودام اب بھی وہاں موجود ہیں۔

علاوہ ازیں یہ علاقہ مختلف آثار قدیمہ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ سعودی حکومت نے یہاں ایک شاہی قلعہ بھی تعمیر کرایا ہے۔ 1354ھ میں تعمیر ہونے والے اس قلعے کو گارے، پتھروں اور لکڑیوں سے بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے جنات پر بھی حکومت دی تھی۔ جنات نے ان کے حکم سے بیت المقدس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ وہ دور دراز سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال کر لاتے تھے۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام جنات سے بہت سے کام لیتے تھے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی واضح طور پر کیا گیا ہے۔

Hay koi share karny wala 😭😭
24/06/2024

Hay koi share karny wala 😭😭

📝 *اگر آپ کو وہ سب کچھ مل جائے جو آپ کی مرضی تھی تو ﷲ تعالی کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کی مرضی پوری کی* *☝👈اور اگر آپ ...
24/06/2024

📝 *اگر آپ کو وہ سب کچھ مل جائے جو آپ کی مرضی تھی تو ﷲ تعالی کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کی مرضی پوری کی*

*☝👈اور اگر آپ کو وہ نہ ملے جو آپ کی مرضی تھی تو اس سے بھی زیادہ شکر ادا کرو کیونکہ وہ آپ کو اپنی مرضی سے دینا چاہتا ہے۔*

Address

Media City Dubai
Dubai
00000

Telephone

+971559472722

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Fun & Entertainment posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share